• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’ماں جی‘ سے ’Mom‘ تک کا تلخ سفر

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
’ماں جی‘ سے ’Mom‘ تک کا تلخ سفر


ابرار حسین گوجر

اگر معاشرے کی اکائی، خاندان میں رشتوں کی بات کی جائے تو ہم تایا، چچا، پھوپھا، خالو، ماموں اور گلی میں آواز لگانے والے کو بھی انکل کہتے ہیں، جبکہ اِن تمام رشتوں کا الگ الگ مقام و مرتبہ اور عزت ہے۔

اگر معاشرے کی اکائی، خاندان میں رشتوں کی بات کی جائے تو ہم تایا، چچا، پھوپھا، خالو، ماموں اور گلی میں آواز لگانے والے کو بھی انکل کہتے ہیں، جبکہ اِن تمام رشتوں کا الگ الگ مقام و مرتبہ اور عزت ہے۔

ماں جی کے لفظ میں محبت، مٹھاس اور انسیت چُھپی بیٹھی ہے۔ جب میں یہ لفظ ادا کرتا ہوں تو اطمینان و سکون محسوس ہوتا ہے، ایسے لگتا ہے جیسے محبت کی آغوش میں جا بیٹھا ہوں، کچھ ایسے ہی ’بابا جانی‘ کہنے پر بھی تحفط کا احساس ہوتا ہے، لیکن پتہ نہیں ہمارے گھرانوں میں ماما (مام) اور پاپا (ڈیڈ) کہنا کب سے شروع ہوا۔ کبھی ہم نے سوچا کہ ہر زبان کے الفاظ میں اِس معاشرے کا رنگ ہوتا ہے، ہزاروں سال کا تہذیبی و ثقافتی پسِ منظر اور ورثہ لوگوں کے ذہنوں میں رچا بسا ہوتا ہے۔ معاشروں پر زبان کا گہرا اثر ہوتا ہے، آج جب ہم اپنی زبانوں (قومی اور علاقائی) کو کھو رہے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ ہم اپنی اقدار، تہذیب و ثقافت، روایات، رشتوں کی اہمیت و تقدس اور مشرقیت کو بھی کھوتے چلے جا رہے ہیں۔

جب لوگ کہتے ہیں کہ اُردو میں وسعت ِبیاں نہیں تو میں زیرِ لب مسکرا دیتا ہوں۔ بات یہ نہیں کہ اردو یا مقامی زبانوں میں وسعتِ بیاں نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ ہم اُن سے ناتا توڑ چکے ہیں، اِس لئے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اِن زبانوں میں ہم اپنا نقطہ نظر بیان نہیں کرسکتے یا اپنا مدعا پیش نہیں کرسکتے۔

اگر معاشرے کی اکائی، خاندان میں رشتوں کی بات کی جائے تو ہم تایا، چچا، پھوپھا، خالو، ماموں اور گلی میں آواز لگانے والے کو بھی انکل کہتے ہیں، جبکہ اِن تمام رشتوں کا الگ الگ مقام و مرتبہ اور عزت ہے اسی طرح تائی، چاچی، پھوپھی، خالہ اور ممانی کو آنٹی، بھابی اور سالی دونوں سسٹر ان لاء، سالا اور بہنوئی دونوں برادر ان لاء، دادا، دادی، نانا، نانی بالترتیب گرینڈ فادراور گرینڈ مدر۔ میں آپ سے سوال کرتا ہوں کیا یہ انگریزی اصطلاحات کسی طور بھی ہماری اردو اصطلاحات کا متبادل ہوسکتی ہیں؟ اور کیا اِن سے رشتوں کی وہ چاشنی، وہ مٹھاس، وہ اپنائیت اور احترام ظاہر ہوتا ہے؟

صاحبو! سنتا ہوں کہ آج کل کی نسل میں ادب و آداب تو ہیں ہی نہیں، نہ عمر کا لحاظ اور نہ ہی رشتوں کا احترام۔ یہ سن کر سوچتا ہوں کہ ہم نے اپنی نسل کو جو سیکھایا وہی تو جھیل رہے ہیں، پھر شکوہ کیسا؟ ایک بچے کے لئے تایا، چچا، پھوپھا، خالو اور ماموں بھی انکل ہیں اور گلی میں پھیری لگانے والا بھی انکل، اُسے کیا معلوم کہ اِن سب کا مقام الگ الگ ہے، اِن کا مرتبہ اپنا اپنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہی بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو تائی، چاچی، پھوپھی، خالہ اور ممانی اُس کے لئے وہی حیثیت رکھتی ہیں جو محلے میں کمیٹی ڈالنے والی آنٹی، اُس کے لئے سبھی برابر ہیں کیونکہ بچپن سے وہ اِن سب کو آنٹی ہی کہتا آیا ہے۔ مام، ڈیڈ، انکل اور آنٹی کا مفہوم ہمارے اردو الفاظ کے مقابلے میں ہو ہی نہیں سکتا اور نہ ہی عزت و احترام کی وہ نسبت قائم ہوسکتی ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کونسی زبان میں جذبات کی عکاسی کی وسعت ہے۔

اب اگر ہم اِس سارے بکھیڑے کو سمیٹیں تو زیرِ نظر مثالوں سے اِس مسئلے کی حساسیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک ’زنا‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، جو کہ بغیر نکاح کے مرد و عورت کے تعلقات کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ اب اِس لفظ کے سنتے ہی ہمارے ذہن میں جرم، سنگساری اور گناہِ کبیرہ کا تصور اُبھرتا ہے، اور ہماری روح تک کانپ جاتی ہے مگر وہیں جب ہم ’زنا‘ کی جگہ ’ریپ‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں وہ گناہ کی شدت نہیں ابھرتی۔ ہم اِسے روز مرہ زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں اور ایک اخباری ہیڈ لائن سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔

ایک اور مثال پیش خدمت ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں فلاں فرد سودی کاروبار کرتا ہے یا سود کا لین دین کرتا ہے تو ہمارے ہاتھ کانوں کی طرف خود بخود اُٹھ جاتے ہیں۔ فوراََ کہتے ہیں، اللہ معاف کرے، اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے جنگ؟ پھر بہت ساری احادیثِ مبارکہ اور وعیدیں ہمارے ذہن میں آتی ہیں مگر جب ہم اُسی لفظ کو ’انٹرسٹ‘ سے بدل دیتے ہیں تو وہ تصور ہی ختم ہوجاتا ہے۔ تمام احادیث، تمام وعیدیں اور قرآن کریم کے احکامات ایک طرف دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور ہم بینکوں کے ذریعے سود لیتے بھی ہیں، اور دیتے بھی ہیں، ساتھ حج بھی کرتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں اور نمازیں بھی پڑتے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کے ہمارا ذہن گناہ کو گناہ تسلیم کرنے سے ہی انکاری رہتا ہے۔

یہ اخلاقی و مذہبی زوال بچوں نے نہیں، ہم لوگوں نے خود پیدا کیا ہے بلکہ یقین کریں خریدا ہے اور خوشی خوشی خریدا ہے، اپنا خون پسینہ ایک کرکے خریدا ہے، اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں، آرزوؤں اور تمناؤں کا گلا گھونٹ کر خریدا ہے مگر ہم کتنے کمزور و بے بس ہیں کہ اپنے کئے کا الزام دوسروں کے سر دھرتے ہیں۔ معصوم بچوں پر اُس کا بوجھ ڈالتے ہیں مگر پھر خیال آتا ہے کیا واقعی اِس سب کے ذمہ دار ہم والدین ہیں، ہمارے بچے ہیں یا کہ یہ معاشرہ ہے یا وہ ہمارے حکمران ہیں جنہوں نے اِس جال میں ہمیں پھنسایا ہے۔ اس اخلاقی و مذہبی زوال کا حل کسی کے پاس نہیں اور حل تو تب ہو جب ہم اِس کو مسئلہ سمجھیں، جب ہم مرض کو مرض ماننے کو ہی تیار نہیں تو دوا کیسی؟

صوفی نذیر صاحب، کبھی کبھی ملاقات کو آتے ہیں۔ کل جب وہ آئے تو میں یہی مضمون لکھ رہا تھا۔ کہنے لگے کیا لکھ رہے ہو؟ میں نے کہا، چچا وہ جو ہر گھر کی کہانی ہے، مگر کہنا کوئی نہیں چاہتا، جانتے سب ہیں مگر انجان بنے ہیں، سمجھتے سب ہیں مگر نا سمجھی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پھر میں نے سارا مضمون انہیں سنایا تو ایک آہ بھر کر کہنے لگے۔ بلکل ایسا ہی ہے دور کیوں جاتے ہو میں اپنی آپ بیتی سناتا ہوں۔

1998ء میں میں اپنے بڑے بیٹے ضیغم کی تعلیم کے لئے اپنی فیملی کو راولپنڈی لے آیا۔ اچھی تعلیم کی خاطر، اچھے مستقبل کی خاطر میں اپنا گھر بار چھوڑ آیا، اپنے بوڑھے والدین کی آنکھوں میں وسوسے اور اندیشے چھوڑ آیا، آتے وقت ماں بولی بیٹا تو ہماری فکر نہ کرنا یہ قریب ہی تو ہے راولپنڈی، تو ضیغم کو پڑھانا چاہتا ہے ناں تو ہم تمہارے ساتھ ہیں، بیٹا خوش رہنا اور اپنی صحت کا بھی خیال رکھنا۔ بابا بس اتنا ہی کہہ سکے یار ابھی تو یہ صرف اڑھائی سال کا ہے، اِس کو کیا پڑھاؤ گے؟ ابھی تو اِسے ماں کی گود اور لوریوں کی ضرورت ہے، ابھی تو اِسے اپنے دادا اور دادی کی ضرورت ہے، خیر جیسے تیری مرضی، پر ہمیں ملوانے ضرور لانا۔

راولپنڈی آنے کے بعد ہم نے دو کمروں، ایک کچن اور ایک باتھ روم پر مشتمل ایک چھوٹا سا گھر کرائے پر لے لیا۔ ضیغم کو اچھے انگلش میڈیم اسکول میں داخل کروایا، اُس کی ماہانہ فیس، سالانہ ایڈمشن فیس، کلر، پک اینڈ ڈراپ اور مختلف سرگرمیوں کے لئے درکار وسائل کے لئے مجھے دن رات ایک کرنا پڑا۔ ایک کی جگہ دو دو نوکریاں کیں۔ مجھے اور میری بیوی کو روکھی سوکھی کھانی پڑی، اپنی خواہشوں کو دبانا پڑا مگر ہم خوش تھے کہ ہمارے بیٹے کا مستقبل اچھا ہوگا۔ ہم خوش حال ہوجائیں گے۔ اچھا وقت ضرور آئے گا۔

اب ضیغم 21 سال کا جوان ہے مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے لپ وہ اور ہم اجنبی ہیں، ہم الگ راہوں کے مسافر ہیں اور وہ کسی اور سیارے سے ہے۔ وہ کہتا ہے ڈیڈ میرے کلاس فیلوز کے والدین بہت امیر ہیں، سلجھے ہوئے اور مہذب ہیں جبکہ آپ لوگوں کو زندگی گزارنے کا ڈھنگ ہی نہیں آتا۔ تب میں اور میری بیوی اُسے دیکھتے ہیں اُسے سنتے ہیں اور سوچتے ہیں کیا ہم ضیغم کو یہی بنانا چاہتے تھے؟ کیا یہی تعلیم دلوانا چاہتے تھے؟ پھر ایک دوسرے کو دیکھ کر سر جھکا لیتے ہیں کیونکہ ہم نے یہ ماہ و سال بڑی تنگی و عسرت میں گزارے تھے۔ کبھی کبھی کہنے کو ہمارے پاس کچھ نہیں رہتا۔

ماں جی کا کردار، اُن کا رویہ، اُن کے بات کرنے کا انداز، معاملہ فہمی اور رکھ رکھاؤ دیکھ کر میں سوچتا تھا یہ تعلیم انہیں کس ادارے سے ملی؟ یہ تربیت اُنہیں کس درسگاہ سے حاصل ہوئی؟ بابا جان کی وفات کے بعد ماں جی کو میں اپنے ساتھ راولپنڈی لے آیا، وہ مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے میری بات کی تہہ تک پہنچ گئیں بولیں بیٹا پریشان نہ ہو، مسئلہ صرف ’’ماں جی اور مام‘‘ کا ہے اور کچھ نہیں۔

https://www.express.pk/story/768230/
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
محترم عامر بھائی
السلام علیکم
اچھا مضمون ہے لیکن اس کے سینٹر آئیڈیے سے میں متفق نہیں ہوں ۔ کہ صرف الفاظ تبدیل کرنے کی وجہ سے ہم گنا ہ کو گناہ نہیں سمجھتے ۔ ہر کسی کو آج پتا ہے کہ انٹرسٹ سود کو ہی کہتے ہیں اور اس کا گناہ بھی پتا ہے ۔ بلکہ کئی جگہ تو سود کو پرافٹ مارجن بھی کہا جاتا ہے ۔ مضمون نگار جن صاحب کے بیٹے کی جو مثال لکھی ہے اس سے کسی زبان کا کیا قصور ہے۔
یہ تو ان کے منتخب کیے ہوئے اسکول اور تربیت کی بات ہے ۔ اپنی زبان سے محبت ایک الگ بات ہے لیکن زبان کی بنیاد پر گناہوں کا بڑھنا یا گناہ کو گناہ نہ سمجھنا ایک عجیب و غریب منطق ہے۔
اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ مغر ب کے ممالک جو مسلمان ہیں اگر وہ زبان فرنگی اختیار کریں گے تو وہ گناہوں کے زیادہ قریب ہوجائیں گے ۔اگر کوئی اپنے ماں باپ سے واقعی محبت کر تا ہے تو ماں، مام، ،اماں ، بے بے ، ممی یا پاپا، ڈیڈی، ابو وغیر ہ کچھ فرق نہیں پڑتا بات تربیت اور احساس کی ہے۔ جب ماں ، باپ کی اہمیت کا احساس مقفود ہوجائے تو کسی زبان کو قصور وار ٹھہرانا اپنی غلطیوں کو نظرانداز کر نے کے مترادف ہے۔
 
شمولیت
جولائی 01، 2017
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
155
پوائنٹ
47
’ماں جی‘ سے ’Mom‘ تک کا تلخ سفر


ابرار حسین گوجر

اگر معاشرے کی اکائی، خاندان میں رشتوں کی بات کی جائے تو ہم تایا، چچا، پھوپھا، خالو، ماموں اور گلی میں آواز لگانے والے کو بھی انکل کہتے ہیں، جبکہ اِن تمام رشتوں کا الگ الگ مقام و مرتبہ اور عزت ہے۔

اگر معاشرے کی اکائی، خاندان میں رشتوں کی بات کی جائے تو ہم تایا، چچا، پھوپھا، خالو، ماموں اور گلی میں آواز لگانے والے کو بھی انکل کہتے ہیں، جبکہ اِن تمام رشتوں کا الگ الگ مقام و مرتبہ اور عزت ہے۔

ماں جی کے لفظ میں محبت، مٹھاس اور انسیت چُھپی بیٹھی ہے۔ جب میں یہ لفظ ادا کرتا ہوں تو اطمینان و سکون محسوس ہوتا ہے، ایسے لگتا ہے جیسے محبت کی آغوش میں جا بیٹھا ہوں، کچھ ایسے ہی ’بابا جانی‘ کہنے پر بھی تحفط کا احساس ہوتا ہے، لیکن پتہ نہیں ہمارے گھرانوں میں ماما (مام) اور پاپا (ڈیڈ) کہنا کب سے شروع ہوا۔ کبھی ہم نے سوچا کہ ہر زبان کے الفاظ میں اِس معاشرے کا رنگ ہوتا ہے، ہزاروں سال کا تہذیبی و ثقافتی پسِ منظر اور ورثہ لوگوں کے ذہنوں میں رچا بسا ہوتا ہے۔ معاشروں پر زبان کا گہرا اثر ہوتا ہے، آج جب ہم اپنی زبانوں (قومی اور علاقائی) کو کھو رہے ہیں تو ساتھ ہی ساتھ ہم اپنی اقدار، تہذیب و ثقافت، روایات، رشتوں کی اہمیت و تقدس اور مشرقیت کو بھی کھوتے چلے جا رہے ہیں۔

جب لوگ کہتے ہیں کہ اُردو میں وسعت ِبیاں نہیں تو میں زیرِ لب مسکرا دیتا ہوں۔ بات یہ نہیں کہ اردو یا مقامی زبانوں میں وسعتِ بیاں نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ ہم اُن سے ناتا توڑ چکے ہیں، اِس لئے ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ اِن زبانوں میں ہم اپنا نقطہ نظر بیان نہیں کرسکتے یا اپنا مدعا پیش نہیں کرسکتے۔

اگر معاشرے کی اکائی، خاندان میں رشتوں کی بات کی جائے تو ہم تایا، چچا، پھوپھا، خالو، ماموں اور گلی میں آواز لگانے والے کو بھی انکل کہتے ہیں، جبکہ اِن تمام رشتوں کا الگ الگ مقام و مرتبہ اور عزت ہے اسی طرح تائی، چاچی، پھوپھی، خالہ اور ممانی کو آنٹی، بھابی اور سالی دونوں سسٹر ان لاء، سالا اور بہنوئی دونوں برادر ان لاء، دادا، دادی، نانا، نانی بالترتیب گرینڈ فادراور گرینڈ مدر۔ میں آپ سے سوال کرتا ہوں کیا یہ انگریزی اصطلاحات کسی طور بھی ہماری اردو اصطلاحات کا متبادل ہوسکتی ہیں؟ اور کیا اِن سے رشتوں کی وہ چاشنی، وہ مٹھاس، وہ اپنائیت اور احترام ظاہر ہوتا ہے؟

صاحبو! سنتا ہوں کہ آج کل کی نسل میں ادب و آداب تو ہیں ہی نہیں، نہ عمر کا لحاظ اور نہ ہی رشتوں کا احترام۔ یہ سن کر سوچتا ہوں کہ ہم نے اپنی نسل کو جو سیکھایا وہی تو جھیل رہے ہیں، پھر شکوہ کیسا؟ ایک بچے کے لئے تایا، چچا، پھوپھا، خالو اور ماموں بھی انکل ہیں اور گلی میں پھیری لگانے والا بھی انکل، اُسے کیا معلوم کہ اِن سب کا مقام الگ الگ ہے، اِن کا مرتبہ اپنا اپنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہی بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو تائی، چاچی، پھوپھی، خالہ اور ممانی اُس کے لئے وہی حیثیت رکھتی ہیں جو محلے میں کمیٹی ڈالنے والی آنٹی، اُس کے لئے سبھی برابر ہیں کیونکہ بچپن سے وہ اِن سب کو آنٹی ہی کہتا آیا ہے۔ مام، ڈیڈ، انکل اور آنٹی کا مفہوم ہمارے اردو الفاظ کے مقابلے میں ہو ہی نہیں سکتا اور نہ ہی عزت و احترام کی وہ نسبت قائم ہوسکتی ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کونسی زبان میں جذبات کی عکاسی کی وسعت ہے۔

اب اگر ہم اِس سارے بکھیڑے کو سمیٹیں تو زیرِ نظر مثالوں سے اِس مسئلے کی حساسیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایک ’زنا‘ کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے، جو کہ بغیر نکاح کے مرد و عورت کے تعلقات کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔ اب اِس لفظ کے سنتے ہی ہمارے ذہن میں جرم، سنگساری اور گناہِ کبیرہ کا تصور اُبھرتا ہے، اور ہماری روح تک کانپ جاتی ہے مگر وہیں جب ہم ’زنا‘ کی جگہ ’ریپ‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں وہ گناہ کی شدت نہیں ابھرتی۔ ہم اِسے روز مرہ زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں اور ایک اخباری ہیڈ لائن سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔

ایک اور مثال پیش خدمت ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں فلاں فرد سودی کاروبار کرتا ہے یا سود کا لین دین کرتا ہے تو ہمارے ہاتھ کانوں کی طرف خود بخود اُٹھ جاتے ہیں۔ فوراََ کہتے ہیں، اللہ معاف کرے، اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے جنگ؟ پھر بہت ساری احادیثِ مبارکہ اور وعیدیں ہمارے ذہن میں آتی ہیں مگر جب ہم اُسی لفظ کو ’انٹرسٹ‘ سے بدل دیتے ہیں تو وہ تصور ہی ختم ہوجاتا ہے۔ تمام احادیث، تمام وعیدیں اور قرآن کریم کے احکامات ایک طرف دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور ہم بینکوں کے ذریعے سود لیتے بھی ہیں، اور دیتے بھی ہیں، ساتھ حج بھی کرتے ہیں، روزے بھی رکھتے ہیں اور نمازیں بھی پڑتے ہیں اور ستم بالائے ستم یہ کے ہمارا ذہن گناہ کو گناہ تسلیم کرنے سے ہی انکاری رہتا ہے۔

یہ اخلاقی و مذہبی زوال بچوں نے نہیں، ہم لوگوں نے خود پیدا کیا ہے بلکہ یقین کریں خریدا ہے اور خوشی خوشی خریدا ہے، اپنا خون پسینہ ایک کرکے خریدا ہے، اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں، آرزوؤں اور تمناؤں کا گلا گھونٹ کر خریدا ہے مگر ہم کتنے کمزور و بے بس ہیں کہ اپنے کئے کا الزام دوسروں کے سر دھرتے ہیں۔ معصوم بچوں پر اُس کا بوجھ ڈالتے ہیں مگر پھر خیال آتا ہے کیا واقعی اِس سب کے ذمہ دار ہم والدین ہیں، ہمارے بچے ہیں یا کہ یہ معاشرہ ہے یا وہ ہمارے حکمران ہیں جنہوں نے اِس جال میں ہمیں پھنسایا ہے۔ اس اخلاقی و مذہبی زوال کا حل کسی کے پاس نہیں اور حل تو تب ہو جب ہم اِس کو مسئلہ سمجھیں، جب ہم مرض کو مرض ماننے کو ہی تیار نہیں تو دوا کیسی؟

صوفی نذیر صاحب، کبھی کبھی ملاقات کو آتے ہیں۔ کل جب وہ آئے تو میں یہی مضمون لکھ رہا تھا۔ کہنے لگے کیا لکھ رہے ہو؟ میں نے کہا، چچا وہ جو ہر گھر کی کہانی ہے، مگر کہنا کوئی نہیں چاہتا، جانتے سب ہیں مگر انجان بنے ہیں، سمجھتے سب ہیں مگر نا سمجھی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پھر میں نے سارا مضمون انہیں سنایا تو ایک آہ بھر کر کہنے لگے۔ بلکل ایسا ہی ہے دور کیوں جاتے ہو میں اپنی آپ بیتی سناتا ہوں۔

1998ء میں میں اپنے بڑے بیٹے ضیغم کی تعلیم کے لئے اپنی فیملی کو راولپنڈی لے آیا۔ اچھی تعلیم کی خاطر، اچھے مستقبل کی خاطر میں اپنا گھر بار چھوڑ آیا، اپنے بوڑھے والدین کی آنکھوں میں وسوسے اور اندیشے چھوڑ آیا، آتے وقت ماں بولی بیٹا تو ہماری فکر نہ کرنا یہ قریب ہی تو ہے راولپنڈی، تو ضیغم کو پڑھانا چاہتا ہے ناں تو ہم تمہارے ساتھ ہیں، بیٹا خوش رہنا اور اپنی صحت کا بھی خیال رکھنا۔ بابا بس اتنا ہی کہہ سکے یار ابھی تو یہ صرف اڑھائی سال کا ہے، اِس کو کیا پڑھاؤ گے؟ ابھی تو اِسے ماں کی گود اور لوریوں کی ضرورت ہے، ابھی تو اِسے اپنے دادا اور دادی کی ضرورت ہے، خیر جیسے تیری مرضی، پر ہمیں ملوانے ضرور لانا۔

راولپنڈی آنے کے بعد ہم نے دو کمروں، ایک کچن اور ایک باتھ روم پر مشتمل ایک چھوٹا سا گھر کرائے پر لے لیا۔ ضیغم کو اچھے انگلش میڈیم اسکول میں داخل کروایا، اُس کی ماہانہ فیس، سالانہ ایڈمشن فیس، کلر، پک اینڈ ڈراپ اور مختلف سرگرمیوں کے لئے درکار وسائل کے لئے مجھے دن رات ایک کرنا پڑا۔ ایک کی جگہ دو دو نوکریاں کیں۔ مجھے اور میری بیوی کو روکھی سوکھی کھانی پڑی، اپنی خواہشوں کو دبانا پڑا مگر ہم خوش تھے کہ ہمارے بیٹے کا مستقبل اچھا ہوگا۔ ہم خوش حال ہوجائیں گے۔ اچھا وقت ضرور آئے گا۔

اب ضیغم 21 سال کا جوان ہے مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے لپ وہ اور ہم اجنبی ہیں، ہم الگ راہوں کے مسافر ہیں اور وہ کسی اور سیارے سے ہے۔ وہ کہتا ہے ڈیڈ میرے کلاس فیلوز کے والدین بہت امیر ہیں، سلجھے ہوئے اور مہذب ہیں جبکہ آپ لوگوں کو زندگی گزارنے کا ڈھنگ ہی نہیں آتا۔ تب میں اور میری بیوی اُسے دیکھتے ہیں اُسے سنتے ہیں اور سوچتے ہیں کیا ہم ضیغم کو یہی بنانا چاہتے تھے؟ کیا یہی تعلیم دلوانا چاہتے تھے؟ پھر ایک دوسرے کو دیکھ کر سر جھکا لیتے ہیں کیونکہ ہم نے یہ ماہ و سال بڑی تنگی و عسرت میں گزارے تھے۔ کبھی کبھی کہنے کو ہمارے پاس کچھ نہیں رہتا۔

ماں جی کا کردار، اُن کا رویہ، اُن کے بات کرنے کا انداز، معاملہ فہمی اور رکھ رکھاؤ دیکھ کر میں سوچتا تھا یہ تعلیم انہیں کس ادارے سے ملی؟ یہ تربیت اُنہیں کس درسگاہ سے حاصل ہوئی؟ بابا جان کی وفات کے بعد ماں جی کو میں اپنے ساتھ راولپنڈی لے آیا، وہ مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے میری بات کی تہہ تک پہنچ گئیں بولیں بیٹا پریشان نہ ہو، مسئلہ صرف ’’ماں جی اور مام‘‘ کا ہے اور کچھ نہیں۔

https://www.express.pk/story/768230/
شئر کرنے کا شکریہ
 
Top