• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’میانمار روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کرنا چاہتا ہے‘

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
اقوام متحدہ کے ایک سینیئر اہلکار نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ میانمار اپنی سرزمین سے اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کی نسل ختم کرنا چاہتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزیں کے جان مک کسک کا کہنا ہے کہ رخائن ریاست میں مسلح افواج روہنگیا افراد کا قتل کرتی رہی ہیں جس سے بڑی تعداد میں روہینگیا ہمسایہ ملک بنگلہ دیش ہجرت کر گئے ہیں۔
میانمار جو برما بھی کہلاتا ہے اس کی حکومت اکتوبر سے بارڈر گارڈز پر منظم حملے کے بعد سے شورش کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔
برما کی حکومت وحشیانہ کارروائیوں کی رپورٹس کی تردید کرتی ہے۔
برمی حکام کا کہنا ہے کہ روہنگیا افراد رخائن ریاست میں اپنے گھروں کو خود آگ لگا رہے ہیں۔ بی بی سی ان اطلاعات کی تصدیق کے لیے علاقے کا دورہ نہیں کر سکتی کیونکہ صحافیوں اور امدادی کارکنوں کا اس علاقے میں جانا ممنوع ہے۔
بدھ مت کی اکثریت والے میانمار میں موجود روہنگیا افراد کو بنگلہ دیش سے غیرقانونی تارکین وطن سمجھتے ہیں جن کی تعداد تقریبا دس لاکھ ہے۔
اگرچہ بنگلہ دیش کی سرکاری پالیسی یہ ہے کہ غیرقانونی طور پر گھسنے والوں کو سرحد سے داخل نہ ہونے دیا جائے لیکن وزارِت خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا نے ملک میں پناہ لے رکھی ہے۔ مبینہ طور پر ہزاروں کی تعداد میں مزید افراد سرحد پر جمع ہورہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزیں کے سربراہ جان مک کسک نے بنگلہ دیش کے سرحدی قصبے کوکس بازار میں بی بی سی بنگالی کے نامہ نگار اکبر حسین کو بتایا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے میانمار میں 'بنیادی وجہ' پر توجہ دینا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ میانمار کی فوج اور بارڈر گارڈ پولیس نے نو اکتوبر کو نو بارڈر گارڈز کی ہلاکت کے بعد 'روہنگیا برادری کو اجتماعی طور پر سزا دینے میں ملوث' ہے، جس کا الزام کچھ سیاست دانوں کی جانب سے روہنگیا عسکریت پسند گروہ پر عائد کیا گیا تھا۔جان کسک کا کہنا تھا کہ 'سکیورٹی فورسز مردوں کو جان سے مارنے، گولیاں مارنے، بچوں کو ذبح کرنے، خواتین کا ریپ کرنے، گھروں کو جلانے اور لوٹنے اور لوگوں کو بنگلہ کی جانب دریا عبور کرنے پر مجبور کر رہی ہیں۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'اب بنگلہ دیشی حکومت کے لیے یہ کہنا بڑا مشکل ہے کہ سرحد کھلی ہوئی ہے کیونکہ اس سے میانمار کی حکومت کو مزید حوصلہ افزائی ملے گی کہ وہ ظلم و ستم جاری رکھے اور میانمار سے اقلیتی مسلمانوں کی نسل کشی کے مقاصد حاصل کرلے۔'
بدھ کو بنگلہ دیشی وزارت خارجہ نے میانمار کے سفیر کو طلب کر کے 'رخائن ریاست میں جاری فوجی آپریشن پر شدید خدشات کا اظہار کیا تھا۔'
بنگلہ دیش میں حکام فرار ہونے والے سینکڑوں روہنگیا کو حراست میں لے رہے ہیں اور انھیں واپس بھیج رہے ہیں۔
گذشتہ ہفتے ہیومن رائیٹس واچ نے سیٹلائٹ سے بنائی گئی تصاویر جاری کی تھیں جن میں گذشتہ چھ ہفتوں کے دوران روہنگیا دیہات میں 1200 سے زائد مسمار شدہ گھر دیکھے جاسکتے تھے۔
تقریباً دس لاکھ آبادی پر مشتمل روہنگیا مسلمانوں کو بدھ مت کی اکثریت والے میانمار میں بیشتر افراد بنگلہ دیش سے غیرقانونی تارکین وطن سمجھتے ہیں۔ یہاں کئی نسلیں آباد رہنے کے باوجود حکومت کی جانب سے انھیں شہریت نہیں دی جاتی۔
سنہ 2012 میں رخائن ریاست میں فرقہ وارانہ فسادات میں بڑی تعداد میں افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً ایک لاکھ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے جبکہ بہت سارے روہنگیا آج بھی شکستہ حال کیمپوں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انھیں بڑے پیمانے پر امتیازی اور ناروا سلوک کا سامنا ہے۔میانمار نے 25 برسں بعد گذشتہ سال نومبر میں پہلی مرتبہ عام انتخابات کا انعقاد کیا تھا جس میں امن کی نوبیل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریشی نے واضح کامیابی حاصل کی تھی۔
اگرچہ وہ آئینی اصولوں کے مطابق ملک کی صدر نہیں بن سکتیں اس کے باوجود آنگ سان سوچی کو بطور سٹیٹ کونسلر ملک کا حکمران ہی تصور کیا جاتا ہے۔
لیکن ان کی حکومت کو رخائں ریاست کی خراب صورتحال کے باعث عالمی سطح پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں یہ سوال اٹھاتی ہیں کہ شمالی ریاست رخائن میں صحافیوں اور امدادی کارکنوں کو جانے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی۔
صدارتی ترجمان زا ہٹائے کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ صورتحال کے بارے میں غلط بیانی کر رہا ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میانمار میں فوج روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہے، اقوام متحدہ

ویب ڈیسک جمعـء 25 نومبر 2016

میانمار کی فوج مسلم اقلیتی مردوں کو فائرنگ کر کے قتل اور بچوں کو ذبح کر رہی ہے، سربراہ یو این ایچ سی آر،فوٹو:فائل

اقوام متحدہ نے میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتی افواج روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے سربراہ جان میک کسک کا کہنا تھا کہ میانمار کی افواج روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہیں جس کے باعث مسلمان اقلیت بنگلا دیش کی طرف نقل مکانی پر مجبور ہے۔

یو این ایچ سی آر کے سربراہ مک کسک کے مطابق میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کو درپیش مسائل کے فوری حل کے لئے اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ میانمار فوج اور سرحدی افواج مشترکہ طور پر روہنگیا مسلمانوں کو چن چن کر قتل کر رہی ہیں، سیکیورٹی فورسز کے اہلکار مردوں کو فائرنگ کا نشانہ بنا رہے ہیں، بچوں کو ذبح کر رہے ہیں اور خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ روہنگیا مسلمانوں کے گھر لوٹے جا رہے ہیں اور انہیں دریا پار کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

مک کسک کا کہنا تھا کہ ایسی صورت حال میں بنگلا دیش کے لئے اپنی سرحدیں کھولنا بہت مشکل ہو جائے گا کیونکہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو پھر میانمار حکومت مسلمان اقلیت کو مزید تشدد کا نشانہ بنا کر انہیں بنگلا دیش کی طرف ہجرت پر مجبور کرے گی۔ دوسری جانب میانمار کی نوبل امن انعام یافتہ صدر آنگ سان سوچی حکومت میں ہونے کے باجود روہنگیا مسلمانوں کا قتل روکنے میں بالکل بے بس نظر آتی ہیں کیونکہ اگر انہوں نے ایسا کیا تو میانمار کی طاقتور فوج سے ان کے تعلقات خراب ہونے کا خدشہ ہے جو ان کی حکومت کی برطرفی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

دوسری جانب میانمار حکومت نے اقوام متحدہ کے نمائندے کی جانب سے جاری بیان کو انتہائی افسوسناک قرار دیتے ہوئے مسلمانوں کی نسل کشی سے متعلق رپورٹس کو مسترد کر دیا۔ حکام کا کہنا تھا کہ اکتوبر میں سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملے کے بعد شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کیا جارہا ہے۔ میانمار حکام کا کہنا ہے کہ روہنگیا مسلمان اپنے گھروں کو خود جلا رہے ہیں تاہم حکومت کی جانب سے میڈیا نمائندوں کو ان علاقوں کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

بنگلا دیش کی خارجہ پالیسی کے تحت کسی بھی غیر ملکی کو غیر قانونی طریقے سے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے لیکن اس کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں روہنگیا ملسمان بنگلا دیش میں سیاسی پناہ لئے ہوئے ہیں اور ہزاروں میانمار حکومت کے ظلم سے بچنے کے لئے بنگلا دیش کی سرحدوں پر موجود ہیں۔ ایمنیسٹی انٹرنیشل کے مطابق کچھ روہنگیا مسلمان بنگلا دیش میں داخل ہونے کے لئے اسمگلرز کا سہارا لے رہے ہیں جب کہ کچھ سرحد پر موجود گارڈز کو رشوت دے کر بنگلا دیش میں داخل ہو رہے ہیں۔

http://www.express.pk/story/663242/
 
Top