• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’التمھید لابن عبدالبر‘‘ کی ایک روایت میں احناف کی تازہ ترین تحریف

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
’’التمھید لابن عبدالبر‘‘ کی ایک روایت میں احناف کی تحریف


تحریر:کفایت اللہ سنابلی
شائع شدہ در مجلہ ”اہل السنہ“ ممبئی
ڈاؤنلوڈ لنک، دوسرا لنک
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے سے متعلق بہت ساری مرفوع و موقوف احادیث مروی ہیں ان کی تفصیل میری کتاب ”انوار البدرفی وضع الیدین علی الصدر“ میں موجود ہے ۔
انہیں میں ایک موقوف روایت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے جو سورۃ الکوثر کی آیت ﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾ کی تفسیر میں ہے کہ اس سے مراد نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا ہے۔
یہی روایت امام ابن عبدالبر (المتوفی:۴۶۳) کی کتاب ”التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد“ میں بھی امام اثرم کے حوالے سے نقل ہوئی ہے اور اس میں ”عَلَی الصَّدْرِ“ (سینے پر) کے بجائے ”تَحْتَ الثَّنْدُوَةِ“(چھاتی کے نیچے ) کے الفاظ ہیں ، اور معنوی طور پر اس کا معنی بھی سینے پر ہاتھ باندھنا ہی ہے اس کی تفصیل اگلے شمارہ (۸۶)میں ہم پیش کریں گے۔سب سے پہلے یہ روایت ملاحظہ ہو:
امام ابن عبد البر رحمہ الله (المتوفی:۴۶۳) نے کہا:
’’ذكر الأثرم قال حدثنا أبو الوليد الطيالسي قال حدثنا حماد بن سلمة عن عاصم الجحدري عن عقبة بن صهبان سمع عليا يقول في قول اللّٰه عز وجل ﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾قال وضع اليمنى على اليسرى تحت الثندوة‘‘
’’صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اللہ عزوجل کے قول ﴿فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر:۲؍۱۰۸)کی تفسیرمیں فرمایاکہ:اس سے (نمازمیں) دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پررکھ کر چھاتی کے نیچے (یعنی سینے پر) رکھنا مراد ہے‘‘[ التمهيد لابن عبدالبر ، تحقیق دکتور بشار عواد:۱۲؍۴۲۳]
یہ روایت سینے پر ہاتھ باندھنے کی دلیل ہے ۔
لیکن عصر حاضر کے بعض حضرات اسے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔
دراصل’’ التمہید‘‘ پہلی بار طبع ہوئی تو مطبوعہ نسخے میں اس روایت کے آخری حصہ کو تبدیل کردیا گیا اور ”تحت الثندوة“ (چھاتی کے نیچے ) کے الفاظ کو ”تحت السرة“ (ناف کے نیچے ) کے الفاظ سے بدل دیا گیا ۔
اس مطبوعہ نسخہ کی بیسویں جلد میں یہ روایت ہے جس کی تحقیق سعید اعراب صاحب نے کی ہے ، اسی محقق نے ان الفاظ کو تبدیل کیا ہے۔
اور اس محقق نے یہ تبدیلی خفیہ طور پر نہیں کی ہے بلکہ حاشیہ میں اپنے تصرف کی وضاحت کردی ہے ، محقق کا کہنا ہے کہ اصل روایت میں ”التندوة“ (تاء دو نقطوںکے ساتھ ) کا لفظ ہے اورچونکہ تاء کے ساتھ اس لفظ کا کوئی معنی نہیں ہوتا ہے اس لئے محقق نے اندازے سے اسے ”السرة“ بناديا اور یہ تبدیلی کرنے کے بعد بھی محقق نے کوئی قطعیت کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ شک کے ساتھ کہا کہ شاید یہی صحیح ہوگا جیساکہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے سے متعلق علی رضی اللہ عنہ سے ایک دوسری روایت منقول ہے ۔ (یہ روایت سنن ابوداؤد وغیرہ میں ہے اور ضعیف ہے)
عرض ہے کہ:
ہم نے اپنی کتاب ’’انوار البدر ‘‘میں محقق کے اس تصرف پر تعاقب کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ محقق کی یہ تبدیلی قطعا ًدرست نہیں ہے کیونکہ محقق صاحب اصل لفظ کو صحیح طرح سے پڑھ نہیں سکے ، انہوں نے جس لفظ کو ”التندوة“ (تاء کے ساتھ ) پڑھا ہے ، وہ دراصل ”الثندوة“ (ثاء تین نقطوںکے ساتھ ) ہے اور یہ بے معنی لفظ نہیں ہے بلکہ اس کا معنی چھاتی ہوتا ہے۔ اور ”تحت الثندوة“ کا مطلب ہوگا چھاتی کے نیچے یعنی سینے پر ۔
ہم نے مزید تائید کے لئے یہ بھی کہا تھا کہ اسی کتاب ’’التمہید‘‘ کی ایک دوسرے محقق نے بھی تحقیق کی ہے اور انہوں نے اپنے محقق نسخے میں اس روایت کو ”تحت الثندوة“ کے الفاظ کے ساتھ ہی درج کیا ہے ۔ اس کے علاوہ بھی ہم نے بہت سے دلائل پیش کئے تھے جن کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔
اس وضاحت کے بعد ہر انصاف پسند شخص کو یہ بات مان لینی چاہئے کہ’’ التمہید‘‘ میں منقول اس روایت میں ”تحت السرة“ (نا ف کے نیچے )کے الفاظ نہیں ہیں ، بلکہ یہ کتاب کے ایک محقق کی غلطی ہے ۔
لیکن افسوس کہ احناف نے اس حق بات کو قبول کرنے کے بجائے نہ صرف یہ کہ باطل پر اصرار کیا بلکہ تحریف جیسی گھناؤنی حرکت بھی کرڈالی چنانچہ انہوں نے ’’التمہید‘‘ کا ایک مخطوطہ (قلمی نسخہ) لیا جس میں اس روایت کے اندر ”الثندوة“ ہی کالفظ تھا لیکن ان لوگوں نے بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اسے ایڈٹ کرکے ”السرة“ بنادیا پھر اس صفحہ کا زیراکس لے کر اپنے مجلہ ”الاجماع“ شمارہ نمبر (۸)میںشائع کردیا ، اور اپنے سادہ لوح قارئین کو بے وقوف بنادیا ۔
لطف کی بات یہ ہے کہ مجلہ ”الاجماع“ شمارہ نمبر (۸)میں اس تحریف بردار مضمون کے لکھنے والے کا نام درج نہیں کیا گیا ہے بلکہ مضمون نگار کے نام کے بغیر ہی اسے شائع کردیا گیا ہے ۔
تحریف کی یہ گھناؤنی حرکت کرنے والے صاحب کوبھی معلوم تھا کہ راز کھل سکتا ہے ، اس لئے محرف موصوف نے اپنی شخصیت کو پردے میں ہی رکھا تاکہ پول کھل جانے پر ان کی رسوائی نہ ہو ، اور ان کے مقلدین کی نظر میں موصوف کی شخصیت مجروح نہ ہو۔
اب اگلی سطور میں ہم اللہ کے فضل وکرم سے اصل حقیقت قارئین کے سامنے رکھتے ہیں اورسچائی پر چڑھائی گئی تحریف کی چادر کو ہٹا تے ہیں ۔
سب سےپہلے یہ واضح کردیا جائے کہ مجلہ ”الاجماع“ شمارہ نمبر (۸)والوں نے جس مخطوطہ کا زیراکس پیش کیا ہے وہ دراصل دارالکتب المصریہ رقم (۷۱۶) کا مخطوطہ ہے جو تقریباً آٹھویں صدی ہجری کا لکھا ہوا ہے۔
لیکن ان حضرات نے اس مخطوطہ کی اصلیت پر پردہ ڈالنے کے لئے اسے ’’نسخہ شیخ محمد علی الموصلی عراق‘‘ کے نام سے پیش کیا ہے ، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مخطوطہ اس نام سے کہیں بھی نہیںجانا جاتا ۔احناف نے ایسا شاید اس لئے کیا ہے تاکہ کوئی اس مخطوطہ کی اصلیت تک بآسانی پہنچ نہ سکے ، مزید وضاحت آگے آرہی ہے ۔
سب سےپہلے مجلہ ”الاجماع“ شمارہ نمبر (۸)کا وہ صفحہ ملاحظہ کریں جس میں احناف نے’’ التمہید‘‘ کے ایک مخطوطہ سے ایک صفحہ کا زیراکس (xerox) پیش کیا ہے اور یہ دکھا یاہے کہ اس میں ”تحت السرة“ کے الفاظ ہیں ۔
اس کے بعد اس کے سامنے اگلے ہی صفحہ پر ہم اس مخطوطہ سے اس اصل صفحہ (original page) کا اسکین (scan) پیش کریں گے جس میں صاف طور سے ”الثندوة“ کا لفظ موجود ہے۔جسے احناف نے ایڈٹ کرکے”السرة“ بنادیا ہے ۔
یاد رہے احناف نے اس مخطوطہ سے متعلقہ صفحہ کا اسکین (scan) یعنی اصل صفحہ کا ہو بہو فوٹو پیش نہیں کیا ہے بلکہ زیراکس (xerox) یعنی ڈبلی کیٹ کاپی پیش کیا ہے جو بلیک اینڈ وائٹ ہے۔
لیکن ہم اس صفحہ کا زیراکس پیش نہیں کریں گے بلکہ الحمدللہ ہم اصل مخطوطہ سے اصل صفحہ کا اسکین (scan) پیش کریں گے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
التمہید کے دارالکتب المصریہ والے مخطوطہ سے کاپی شدہ اور تحریف کردہ وہ صفحہ جسے ”الاجماع“ والوں نے نسخہ شیخ’’ محمدعلی الموصلی عراق‘‘ کا نام دیا ہے۔

اس صفحہ میں نیچے سے اوپر ساتویں سطر میں دائیں طرف ”السرة“ کا لفظ ہے جو ایڈٹ کردہ ہے ، یہاں اصل لفظ ”الثندوة“ ہےجیساکہ آگے اس اصل صفحہ کا اسکین پیش کیا گیا ہے۔

11.jpg
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
دارالکتب المصریہ والے اصل مخطوطہ سے اصل صفحہ کا اسکین

اس صفحہ میں نیچے سے اوپر ساتویں سطر میں دائیں طرف دیکھیں ، بہت واضح طورپر ”الثندوة“ کا لفظ موجود ہے۔
12.jpg
قارئین کرام !
دیکھ لیا آپ نے ! حق آپ کے سامنے ہے اور اس پرچڑھا ہوا جھوٹ کا نقاب بھی اترچکا ہے ۔اب کچھ مزید وضاحتیں ملاحظہ فرمائیں !
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
”الاجماع“ والوں کے پیش کردہ نقلی صفحہ کی نوعیت

قارئین نوٹ فرمائیں کہ اجماع والوں نے اصل صفحہ (original page) کا اسکین (scan) یعنی اصل صفحہ کا ہو بہو عکس (photo)فوٹو پیش نہیں کیا ہے ، بلکہ زیراکس (xerox) یعنی نقلی صفحہ (duplicate copy) پیش کیاہے جو بلیک اینڈ وائٹ (black and white) ہے ، دراصل ان لوگوں نے اصل صفحہ کا فوٹو لیکر پہلے اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی اورزیر بحث روایت میں موجود لفظ ”الثندوة“ کو ”السرة“ بنایا ، یہ تحریف کرنے کے بعد اس کا زیراکس لے لیا تاکہ ایڈٹ کے نشانات ظاہر نہ ہوسکیں ، پھر اس زیراکس کو مجلہ ”الاجماع“ شمارہ نمبر (۸)میں پیش کرکے ساد ہ لوح قارئین کو بے وقوف بنادیا ۔
واضح رہے کہ آج کل کوئی بھی صفحہ لیکر کسی بھی سافٹ ویئر وغیرہ کی مدد سے اس طرح کی حرکت کرنا کوئی مشکل چیز نہیں ہے بلکہ بہت ہی آسان ہے ۔
بلکہ احناف نے جس صفحہ میں اپنی من پسند تحریفی کارروائی انجام دی ہے ، اور صفحہ کے نیچے ”الثندوة“ کو غائب کرکے وہاں ”السرة“ رکھ دیا ہے ، اسی صفحہ پر اوپر تیسری سطر میں ”فوق السرة“ کے الفاظ موجود ہیں ، اب کسی سافٹ ویر(software) میں یہ صفحہ کھولا جائے اور یہاں اوپر موجود ”السرة“ کو کاپی (copy) کیا جائے اورصفحہ کے نیچے ”الثندوة“ والی جگہ پر جاکر ”الثندوة“ کو ڈلیٹ (delete) کرکے اس کی جگہ ”السرة“ پیسٹ (paste) کردیا جائے ، پھر اس کا زیراکس نکالاجائے تو زیراکس دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ یہاں کوئی چھیڑ خانی ہوئی ہے ۔

”الاجماع“ والوں کا پیش کردہ صفحہ ، ملاحظہ فرمائیں کہ اوپر تیسری سطر میں ”سرة“ کا لفظ جس طرح لکھا ہے ٹھیک اسی طرح نیچے بھی اتار دیا گیا ہے ، جبکہ اسی صفحہ پر ایک ہی لفظ کئی جگہ لکھا ہواہے مگر الگ الگ جگہ کچھ کچھ فرق نظر آتاہے مثلاً (تحت) ، (قال) وغیرہ

13.jpg

نیز اس بات پر غور کریں کہ تحریر کے بعد یہاں جب ’’ السرۃ ‘‘ لکھاگیا تو اس لفظ سے پہلے اور بعد میں کافی جگہ خالی ہوگئی جبکہ ایسا اس پورے صفحہ میں کہیں بھی نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں پہلے لفظ’’الثندوۃ‘‘ تھاجو طویل جگہ لیتا ہے لیکن جب اسے حذف کرکے اس کی جگہ دوسرا لفظ ’’ السرۃ ‘‘ لایا گیا تو اسے اتنی طویل جگہ کی ضرورت نہ تھی اس لئے یہاں اس نئے لفظ ’’السرۃ‘‘سے پہلے اور بعد میں خالی جگہ زیادہ ہوگئی ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
”الاجماع“ والوں کے پیش کردہ مخطوطہ کی اصلیت

”الاجماع“ والوں نے جس مخطوطہ سے متعلقہ صفحہ کا زیراکس پیش کیا ہے وہ دراصل دارالکتب المصریہ رقم (۷۱۶) کا مخطوطہ ہے ، جس سے اس اصل صفحہ کی تصویر ہم پیش کرچکے ہیں ، کوئی بھی شخص دونوں صفحات کا موازنہ کرکے دیکھ لے دونوں ایک ہی صفحہ ہے ، ہرسطر اور ہر لفظ بلکہ نقطے اور علامات سب دونوں صفحات میں بالکل یکساں ہیں ، فرق ہے تو صرف اس لفظ کا جسے احناف نے تحریف کرکے بدل دیا ہے ، باقی دونوں صفحات بالکل یکساں ہیں ۔
’’التمہید‘‘ کی جتنے لوگوں نے بھی قلمی نسخوں کو لیکر تحقیق کی ہے سب نے اس مخطوطہ کو دارالکتب المصریہ ہی کا مخطوطہ کہا ہے اور اسی نام سے اس کا تعارف کرایا ہے ۔
لیکن ہم سخت حیران ہیں کہ ”الاجماع“ والوں نے اس مخطوطہ کو شیخ ’’محمدعلی الموصلی عراق‘‘کا مخطوطہ بتلایا ہے۔ حالانکہ قلمی نسخوں سے ’’التمہید‘‘ کی تحقیق کرنے والے کسی بھی محقق نے مخطوطات کے تعارف میں اس مخطوطہ کے لئے اس نام( شیخ محمدعلی الموصلی عراق) کا حوالہ نہیں دیا ہے۔
بلکہ دکتور بشار عوادعراقی کے یہاں بھی اس نام کا کوئی سراغ نہیں ملتا جو کہ عراق ہی میں پلے بڑھے ہیں اور’’ التمہید‘‘ کی سب سے جدید (latest) تحقیق انہیں کی ہے ، نیز ان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ :
’’ما تركت مخطوطة في العالم من هذا الكتاب إلا و لاحقتها‘‘
’’اس کتاب (التمهيد) کا دنیا میں کوئی ایسا مخطوطہ نہیں ہے جسے میں نے حاصل نہیں کیا‘‘ [محاضرة ابن عبد البر وكتابه "التمهيد‘‘، يوٹیوب]
غور کریں دکتور بشار جو نہ صرف یہ کہ مشہور محقق ہیں بلکہ انہوں نے ’’التمہید‘‘ کی سب سے آخر میں تحقیق کی ہے اور دنیا بھر سے’’التمہید ‘‘کے مخطوطے جمع کئے اور خود بھی عراقی ہیں ، لیکن ان کے یہاں بھی کسی شیخ ’’محمدعلی الموصلی عراق‘‘ کا سراغ نہیں ملتا ، اب اللہ ہی جانے یہ کس سیارے کی مخلوق ہیں ۔
دراصل یہ دارالکتب المصریہ کا مخطوطہ ہے جیساکہ ہم اصل تصویر پیش کرچکے ہیں لیکن ”الاجماع“ والوں نے ایک مجہول نام کی طرف اس مخطوطہ کی نسبت کردی تاکہ اس مخطوطہ کا سراغ نہ لگایاجاسکے ، اور ان کی تحریف پر پردہ پڑا رہے لیکن ظاہرہے کہ جھوٹ کے بادل کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہوں، سچائی کی ایک کرن ہی انہیں ہوا میں اڑا نے کے لئے کافی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا !

”الاجماع“ والوں نے اصل مخطوطے میں تحریف کرنے کے بعد اس مخطوطہ کا جو گن گایا ہے وہ بھی سنئے! لکھتے ہیں:
’’زبیر علی زئی صاحب، حافظ ابن کثیر کی عبارت کا ترجمہ یوں کرتے ہیں کہ ابن الصلاح نے کہا: ہر ۲ حدیثوں کے درمیان گول دائرہ ہوناچاہئے ۔یہ بات ہمیں ابو زناد ، احمد بن حنبل ، ابراہیم الحربی اور ابن جریر الطبری سے پہنچی ہے ۔میں (ابن کثیر) نے کہا: میں نے یہ بات (گول دائرہ والی ) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے خط میں دیکھی ہے ،خطیب بغدادی نے کہا : دائرہ کو خالی چھوڑ دینا چاہئے، پھر جب اس کی مراجعت کرے، تو اس میں نقطہ لگادے۔اس اصول سے استدلال کرتے ہوئے ، زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ میرے پاس مسند حمیدی کے جس قلمی نسخہ کی فوٹو اسٹیٹ ہے ، اس میں ہر حدیث کےاخیر میں دائرہ بنا ہوا ہے اور ان دائروں میں نقطے لگے ہوئے ہیں ، یعنی یہ صحیح ترین اور مراجعت والا نسخہ ہے ۔ والحمد للہ ( اختصار علوم الحدیث : صفحہ ۸۶)ثابت ہوا ،جس مخطوطہ میں گول دائرہ کے ساتھ نقطے بھی موجود ہیں ، وہ محدثین اور بالخصوص غیر مقلدین کے نزدیک صحیح ترین اور مراجعت والا نسخہ ہے۔اور الحمد للہ ہم نے جو’’ التمہید‘‘ کا شیخ ’’محمد علی الموصلی‘‘ کا مخطوطہ پیش کیا ہے ، اس میں گول دائرہ اور نقطہ موجود ہے۔ یعنی خود غیر مقلدین کے اصول سے یہ صحیح ترین اور مراجعت والا نسخہ ہے ،الحمد للہ حمداً کثیراً‘‘دیکھئے : [’’الاجماع‘‘:شمارہ:۸،ص: ۲۷تا۲۹]
اس نسخہ کو صحیح ترین اور مراجعت والا نسخہ ثابت کرنے کے بعد ”الاجماع“ کے مضمون نگار کا پرجوش چیلنج بھی سنئے !فرماتے ہیں:
’’موصوف سے گزارش ہے کہ التمہید کا کوئی ایسا قلمی نسخہ پیش کریں ، جس میں گول دائرہ اور نقطہ موجود ہو ، تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ وہ نسخہ محدثین بلکہ خود اہل حدیثوں کے اصول کے مطابق صحیح ترین اور مراجعت شدہ نسخہ ہے‘‘دیکھئے:[’’الاجماع‘‘:شمارہ:۸،ص:۳۳]
عرض ہے کہ :
”الاجماع“ والوں کی یہ ساری تقریر انہیں پر پلٹ گئی ہے کیونکہ گزشتہ سطور میں ہم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس مخطوطہ میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ ہے ۔والحمدللہ
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
’’التمہید ‘‘ کا ایک دوسرا مخطوطہ

قارئین کرام ! گزشتہ سطور میں آپ نے پڑھ لیا کہ ”الاجماع“ والوں ہی کے پیش کردہ مخطوطہ میں اس روایت کے اندر ”الثندوة“ ہی کا لفظ ہے جس کا مفہوم سینے پر ہاتھ باندھنا ہے ۔
”الاجماع“ والوں نے اس مخطوطہ کو محض اس لئے سب سے بہتر مخطوطہ ظاہر کیا کیونکہ اس میں مقابلہ کی علامت موجود تھی ، لیکن ہم قارئین کو بتلادیں کہ صرف یہ علامت ہی مقابلہ کا ثبوت نہیں ہوتی بلکہ اس سے بڑھ کر مقابلہ کا ثبوت یہ ہوتا ہے کہ مخطوطہ میں صراحت کے ساتھ لکھ دیا جائے کہ اس کا مقابلہ کیا گیا ہے ، یا صفحات پر مقابلہ کے آثار موجود ہوں مثلاً متعدد مقامات پر اصلاح کی گئی ہو اور بعد میں درست کلمات درج کئے گئے ہوں وغیرہ وغیرہ ، اور یہ چیزیں مذکورہ علامت سے بڑھ کر مقابلہ کا ثبوت ہوتی ہیں ۔
بہر حال ”الاجماع“ والوں نے جس مخطوطہ کا حوالہ دیا ہے اور اس کی تعریف کی ہے وہ بھی ان کے خلاف ہی دلیل ہے جیساکہ ثبوت پیش کیا جاچکا ہے ۔
اب ہم اس کتاب’’ التمہید‘‘ کا ایک دوسرا مخطوطہ پیش کرتے ہیں جو ”الاجماع“ والوں کے پیش کردہ مخطوطہ سے بھی زیادہ مستند ہے ۔
سب سے پہلے ہم یہ واضح کردیں کہ دکتور بشار عواد کی تحقیق کے مطابق امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی کتاب ’’التمہید‘‘ کے دو وَرژن تھے ایک قدیم اور رف وَرژن تھا اور دوسرا آخری اور فائنل ورژن تھا ، لیکن جب ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے پہلا ورژن تیار کیا جو کہ رف تھا اور اس میں حذف واضافہ کا کام جاری تھا ، اسی پہلے ورژن ہی سے زیادہ تر نسخے نقل کردئے گئے اور یہی عام ہوگئے ۔اور بعد میں ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے جو فائنل اور آخری ورژن تیار کیا وہ بہت کم لوگوں تک پہنچ سکا ،در اصل بہت سے لوگوں کو یہ علم ہی نہیں ہوسکا کہ اس کتاب کا پہلا ورژن رف تھا اور اس کا آخری اور فائنل ورژن آنا باقی تھا ، اس لئے بہت سے لوگوں نے غلط فہمی میں پہلا ورژن پاکر یہ سمجھ لیا کہ وہ اصل کتاب پاچکے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کے زیادہ تر نسخے پرانے ورژن سے ہی نقل کئے گئے ہیں ۔
دکتور بشار عواد لکھتے ہیں:
’’وتبين لنا من غير شك بعد دراسة النسخ المذكورة أنها تمثل نشرتين للكتاب ، الإبرازة الأولي ، وهي المسودة ، وأكثر النسخ منسوخة عنها ۔ كما سياتي بيانها۔ والإبرازة الثانية وهي الأخيرة ‘‘
’’تمہید کے مذکورۃ نسخوں کو پڑھنے کے بعد بغیر کسی شک کےہمارے لئے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ یہ کتاب (التمہید) دوبار نشر کی گئی ہے ، اس کا پہلا ورژن مسودہ اور رف تھا اور اکثر نسخے اسی سے منقول ہیں ، جیساکہ آگے وضاحت ہوگی ، اس کے بعد اس کا دوسرا وَرژن تیار ہوا اور یہی آخری اور فائنل نسخہ ہے‘‘ [التمهيد (مقدمة المحقق) ، تحقيق دكتور بشار عواد معروف : ص:۱۹]
دکتو بشار عواد معروف آگے لکھتے ہیں:
’’والإبرازة الأولي لا تمثل الكتاب الذي ارتضاه مؤلفه فيما بعد في إبرازته الأخيرة فهي كثير النقص والإختلافات في صياغة العبارات‘‘
’’اس کتاب کا پہلا اور قدیم ورژن وہ کتاب نہیں ہے جسے مؤلف ابن عبدالبر نے آخر میں دوسرے ورژن کے طور پر فائنل کیا ہے اور اسے ہی اپنی یہ کتاب مانا ہے ، کیونکہ پرانے ورژن میں بہت زیادہ نقص اور عبارات میں بکثرت اختلافات ہیں‘‘[التمهيد (مقدمة المحقق) ، تحقيق دكتور بشار عواد معروف : ص:۱۹]
اس وضاحت کے بعد عرض ہے کہ:
”الاجماع“ والوں نے اس کتاب کا جو مخطوطہ پیش کیا ہے وہ پرانے ورژن سے کاپی کیا گیا ہے ، ایسی صورت میں اس کا مقابلہ بھی پرانے ورژن سے ہی ہے ، اسی لئے دکتور بشار عواد نے اس نسخہ کو قلیل الفائدہ یعنی بہت کم فائدہ مند بتلایا ہے ۔
لیکن یادرہے زیر تحقیق روایت کے جس لفظ پر ہم بحث کررہے ہیں وہ قدیم اور جدید دونوں ورژن میں ”الثندوة“ ہی ہے ۔
بہرحال اب ہم آگے ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی اس کتاب التمہید کا ایک دوسرا مخطوطہ پیش کررہے ہیں جو نہ صرف مقابلہ شدہ ہے بلکہ یہ آخری ورژن سے کاپی کیا گیا ہے ،ملاحظہ ہو آگے اس مخطوطہ سے متعلقہ صفحہ کا اسکین جس میں زیر بحث روایت کے اندر صاف طور سے ”الثندوة“ لفظ موجود ہے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
مخطوطہ دار الکتب المصریہ رقم (۳۱۵)

14.jpg


یہ مخطوطہ دار الکتب المصریہ رقم (۳۱۵) کا ہے ، یہ سلطان الملک المؤید کی طرف سے وقف کردہ ہے ، یہ مخطوطہ بہت خوبصورت اور واضح خط میں لکھا گیا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ یہ دو اہم خصوصیات کا مالک ہے ۔
اس مخطوطہ کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مخطوطہ مقابلہ شدہ ہے ، جیساکہ ہر روایت کے اخیر میں موجود علامت سے ظاہر ہے ، چنانچہ اس میں ہر روایت کے اخیر میں تین نقطے اس طرح ( ) لکھے گئے ہیں ، اور ہر روایت کے اخیر میں یا ایک پیرا گراف کے بعد اس طرح تین نقطے لکھنا بھی اُن علامات میں سے ایک ہے جو بتلاتی ہیں کہ نسخہ کا مقابلہ کیا گیا ہے ، دیکھئے : [توثيق النصوص وضبطها عند المحدثين : ص:۲۰۲]
اس مخطوطہ کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ ابن عبدالبر کی کتاب ’’التمہید‘‘ کے آخری ورژن سے نسخ کیا گیا ہے ، جیساکہ دکتور بشار عواد نے ’’التمہید‘‘ کی تحقیق کے مقدمہ میں وضاحت کی ہے ، چنانچہ دکتور بشار عواد اس مخطوطہ کے بارے میں لکھتے ہیں:

”وهو من الإبرازة الأخيرة للكتاب“
یعنی ’’یہ مخطوطہ ابن عبدالبر کی کتاب التمہيد کا آخری ورژن ہے‘‘[التمهيد لابن عبدالبر ، تحقيق دكتور بشار عواد معروف :ج:۱ص:۳۴]

قارئین کرام !
آپ نے دو مخطوطے دیکھ لئے جن میں دوسرا مخطوطہ پہلے سے کہیں زیادہ مستند ہے اور دونوں میں ”الثندوة“ ہی کا لفظ ہے ۔
اب آگے ہم ایک تیسرا مخطوطہ پیش کرتے ہیں جو ان دونوں سابقہ نسخوں سےبھی زیادہ مستند ہے ، ملاحظہ ہو:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
’’التمہید ‘‘ کا تیسرا مخطوطہ

پوری دنیا میں ’’التمہید‘‘ کا سب سے بہترین اور مستند ترین مخطوطہ ، نسخہ کوبریلی ،استنبول رقم (۳۴۹)
اس میں بھی واضح طور پر ”الثندوة“ ہی کا لفظ موجود ہے۔


15.jpg


یہ’’ التمہید‘‘ کا سب سے بہترین مخطوطہ ہے ، اور کافی قدیم بھی ہے کیونکہ یہ چھٹی صدی ہجری کا لکھا ہوا ہے، پوری دنیا میں اس کتاب کا اس سے بہتر مخطوطہ موجود نہیں ہے ۔
مشہور محقق دکتور بشار عواد کا یہ قول گزر چکا ہے کہ انہوں نے دنیا بھر سے ’’ التمہید‘‘ کے تمام مخطوطات حاصل کئے اور اس کا کوئی ایسا مخطوطہ نہیں بچا جسے دکتور بشار عواد نے حاصل نہ کیا ہو ، یہی دکتور بشار عواد اس کتاب کے ان تمام مخطوطات میں ماقبل میں پیش کردہ کوبریلی کے مخطوطہ کو سب سے بہترین اور مستند مخطوطہ بتلاتے ہوئے رقمطراز ہیں:

’’هذه النسخة من أفضل النسخ التي وصلت إلينا من التمهيد ، لذالك اتخذنا ها أصلا‘‘
’’ہمیں ’’ التمہید‘‘ کے جتنے بھی نسخے ملے ان تمام میں یہ نسخہ سب سے افضل وبہتر ہے ، اسی لئے ہم نے اس نسخہ کو اصل بنایا ہے‘‘[التمهيد ، جلد:۱، (مقدمة المحقق) ، تحقيق دكتور بشار عواد معروف : ص:۲۰]
ملاحظہ فرمائیں دکتور بشار اس مخطوطہ کو سب سے افضل و بہترین بتلا رہے ہیں اور موصوف نے اسی نسخہ کو اصل بناکر اس کتاب کی تحقیق کی ہے ۔
اس نسخہ کی ایک زبردست خاصیت یہ ہے کہ اس کا تین نسخوں سے مقابلہ کیا گیا ہے ، اور نسخہ میں نہ صرف یہ کہ ہر بحث یا پیرا گراف کے بعدسہ نقطی شکل میں مقابلہ کے رموز موجود ہیں بلکہ صفحات پر مقابلہ کے آثار بھی پائے جاتے ہیں یہ اس بات کی زبردست دلیل ہے کہ یہ نسخہ جس اصل سے نقل کیا گیا اس سے اس کا مقابلہ بھی کیا جاچکاہے۔
اور صرف اس اصل سے ہی نہیں بلکہ مزید دو اور صحیح نسخوں سے بھی اس کا مقابلہ کیا گیا ہے جیساکہ پہلی جلد کے مخطوطہ پر پوری صراحت کے ساتھ لکھا ہوا ہے کہ:

’’ابتدئ بمقابلته علي بركة اللّٰه عز وجل يوم الأحد السابع والعشرين من جمادي الأولي سنة ثلاث وسبعين وخمس مئة علي نسختين صحيحتين بمدينة شاطبة‘‘
’’اللہ کے فضل سے بروز اتوار۲۷؍ جمادی الاولیٰ سن ۵۷۳؁ھ شہر شاطبہ میں دو صحیح نسخوں سے اس کتاب کا مقابلہ شروع کیا گیا ہے ‘‘دیکھئے :[ نسخہ کوبریلی ، جلد:۱، ابتدائی صفحہ]
یاد رہے کہ یہ صراحت رموز سے بڑھ کردلیل ہے کہ مقابلہ کیا گیا ہے ، اب آگے اس مخطوطہ کا وہ صفحہ ملاحظہ کریں جس پر مذکورہ عبارت لکھی ہے جس میں مقابلہ کی وضاحت کی گئی ہے۔
نسخہ کوبریلی کے ابتدائی صفحہ پر اوپر سے بائیں ملاحظہ فرمائیں جہاں صاف لکھا ہے کہ اس نسخہ کا مقابلہ دو صحیح نسخوں سے کیا گیا ہے۔

16.jpg

دکتور بشار عواد نے بھی اس نسخہ کی خوبی بتلاتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کا تین نسخوں سے مقابلہ کیا گیا ہے ، لکھتے ہیں:
’’وقوبلت المجلدات الأول والسابع والثامن والتاسع والحادي عشر علي الأصل المنتسخ منه وعلي نسختين أخريين فقد جاء في طرة المجلد الأول منها : ابتدئ بمقابلته علٰي بركة اللّٰه عز وجل يوم الأحد السابع والعشرين من جمادي الأولي سنة ثلاث وسبعين وخمس مئة علٰي نسختين صحيحتين بمدينة شاطبة‘‘
’’اس نسخہ کی پہلی ساتویں ، آٹھویں ، نویں اور گیارہویں جلد کا اس اصل نسخہ سے مقابلہ کیا گیا ہے جس سے یہ نقل کیا گیا ہے ، نیز دو دیگر نسخوں سے بھی اس کا مقابلہ کیا گیاہے جیساکہ پہلی جلد کے شروع میں لکھا ہے کہ : اللہ کے فضل سے بروز اتوار ۲۷؍ جمادی الاولیٰ سن ۵۷۳ ؁ھ شہر شاطبہ میں دو صحیح نسخوں سے اس کتاب کا مقابلہ شروع کیا گیا ہے‘‘[ التمهيد ، جلد:۱، (مقدمة المحقق) ، تحقيق دكتور بشار عواد معروف : ص :۲۰]
ان سب کے ساتھ زبردست بات یہ بھی ہے کہ یہ نسخہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی کتاب کا آخری ورژن ہے ، دکتور بشار عواد لکھتے ہیں:

’’نسخة كو بريلي وهي نسخة من الإبرازة الأخيرة للكتاب‘‘
’’نسخہ کوبریلی یہ اس کتاب کا آخری ورژن ہے‘‘[ التمهيد ، جلد:۱، (مقدمة المحقق) ، تحقيق دكتور بشار عواد معروف : ص:۲۰]
قارئین کرام! ملاحظہ فرمائیں کہ اس قدر قدیم اور حددرجہ مستند ترین اور تین تین نسخوں سے مقابلہ شدہ نسخہ میں بھی ”الثندوة“ کا لفظ ہے ۔صرف اسی ایک مخطوطہ سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجاتا ہے ۔ لیکن اس کے علاوہ بھی دو اور مخطوطات ماقبل میں پیش کیے جاچکے ہیں ۔اس طرح کل تین مخطوطات میں ”الثندوة“ کا لفظ واضح طور پر موجود ہے ۔
بلکہ مؤخر الذکر مخطوطہ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ اس کا مقابلہ اصل کے علاوہ دو دیگر صحیح نسخوں سے بھی کیا گیا ہے،اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان دونوں صحیح نسخوں میں بھی یہی لفظ موجود ہے اس طرح کل پانچ مخطوطات میں ”الثندوة“ کا لفظ موجود ہے ۔
اس کے برعکس دنیا کے کسی بھی مخطوطہ میں یہاں ”الثندوة“ کی جگہ ”السرۃ“ کا لفظ قطعاً موجود نہیں ہے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
قارئین کرام !
گزشتہ صفحات میں مخطوطات کے حوالے گزرچکے ہیں ، الحمدللہ ہم نے تین مخطوطات کا اسکین پیش کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ زیر بحث روایت میں ”الثندوة“ کا لفظ ہی صحیح اوردرست ہے ۔اس طرح ہماری بات پر تین زبردست دلیلیں قارئین کے سامنے آچکی ہیں اب اسی بات کے مزید دلائل ملاحظہ فرمائیں کہ علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت میں ’’الثندوہ‘‘ کا لفظ ہی صحیح ہے ۔

✿ چوتھی دلیل:
ابوالولید اور ان کے شاگرد اثرم ہی کے طریق سے خطیب بغدادی کی روایت:
التمہید میں ابن عبدالبر نے اس روایت کو ابوالولید کے شاگرد الاثرم کے حوالہ سے نقل کیا ہے اور الاثرم ہی سے اسی سند کے ساتھ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اس روایت کو اپنی صحیح سند سے بیان کرتے ہوئے کہا:
’’أخبرنا أبو الحسن محمد بن أحمد بن رزقویہ حدثنا عثمان بن أحمد بن عبد اللہ الدقاق حدثنا عبد اللہ بن عبد الحمید القطان حدثنا أبو بکر الأثرم حدثنا أبو الولید حدثنا حماد بن سلمۃ عن عاصم الجحدری عن أبیہ عن عقبۃ بن ظبیان سمع علیا رضی اللہ عنہ یقول{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر} قال وضع الیمنی علی الیسری تحت الثندوۃ‘‘
’’صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر}(۱۰۸؍الکوثر:۲)کی تفسیرمیں فرمایاکہ اس سے (نمازمیں) اپنے دائیں ہاتھ کوبائیں ہاتھ پر رکھ کر اپنی چھاتی کے نیچے (یعنی سینے پر) رکھنا مراد ہے‘‘[ موضح أوہام الجمع والتفریق:۲؍۳۴۰،ح:۳۷۹واسنادہ صحیح، نیز دیکھیں: موضح أوہام الجمع والتفریق :۲؍۳۰۵بتحقیق المعلمی]
خطیب بغدادی رحمہ اللہ کی یہ صحیح روایت ابوالولید کے شاگرد اثرم ہی کے طریق سے ہے اور اس میں روایت کے اخیر میں پوری صراحت اوروضاحت کے ساتھ الثندوۃ کا لفظ موجود ہے۔
اس روایت نے قطعی فیصلہ کردیا ہے کہ ’’التمھید‘‘ میں منقول روایت کے اخیر میں ’’الثندوۃ‘‘ ہی ہونا چاہئے۔ والحمدللہ۔

✿ پانچویں دلیل:
حماد کے شاگرد’’ موسیٰ بن اسماعیل‘‘ کی روایت:
تمہید میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو حمادبن سلمہ کے ایک اور شاگرد موسیٰ بن اسماعیل نے بھی نقل کیا اور ان کی روایت میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے ۔ چنانچہ:
امام بخاری رحمہ اللہ (المتوفی:۲۵۶)نے کہا:
’’قال موسی: حدثنا حماد بن سلمۃ، سمع عاصما الجحدری، عن أبیہ، عن عقبۃ بن ظبیان، عن علی، رضی اللہ عنہ:{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر} وضع یدہ الیمنی علٰی وسط ساعدہ علٰی صدرہ‘‘
’’صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر} (۱۰۸؍الکوثر:۲)کی تفسیرمیں فرمایاکہ اس سے (نمازمیں)اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر اپنے سینے پررکھنا مرادہے‘‘[ التاریخ الکبیر للبخاری:۶؍۴۳۷، السنن الکبری للبیہقی:۲؍۴۵واسنادہ صحیح]
یہ روایت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ’’التمھید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت میں وہی لفظ درست ہے جو سینے پر ہاتھ باندھنے پر دلالت کرے نہ کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر ۔

✿ چھٹی دلیل:
حماد کے شاگرد’’ موسیٰ بن اسماعیل‘‘ کی روایت کا ایک اور طریق:
’’تمہید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو حمادبن سلمہ کے شاگرد ’’موسیٰ بن اسماعیل ‘‘ کی روایت، بخاری ہی کی سند سے امام بیہقی نے بھی نقل کی ہے اور اس میں بھی سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے۔ چنانچہ:
امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفی:۴۵۸)نے کہا:
’’أخبرنا أبو بکر الفارسی أنبأ أبو إسحاق الأصبہانی أنبأ أبو أحمد بن فارس، ثنا محمد بن إسماعیل البخاری رحمہ اللہ قال: أنبانا موسی، ثنا حماد بن سلمۃ سمع عاصما الجحدری، عن أبیہ، عن عقبۃ بن ظبیان، عن علی{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر} وضع یدہ الیمنی علٰی وسط ساعدہ علٰی صدرہ ‘‘
’’صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر} (۱۰۸؍الکوثر:۲)کی تفسیرمیں فرمایاکہ اس سے (نمازمیں) اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر اپنے سینے پررکھنا مرادہے‘‘[ السنن الکبریٰ للبیہقی:۲؍۴۵واسنادہ صحیح]
یہ روایت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ’’التمھید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت میں وہی لفظ درست ہے جو سینے پر ہاتھ باندھنے پر دلالت کرے نہ کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر ۔
تنبیہ بلیغ:
اسی روایت کو شیبان کے شاگرد ابوالحریش الکلابی سے ’’احمد بن جناح المحاربی‘‘ نے روایت کیا تو متن میں تبدیلی کردی۔ امام بیہقی رحمہ اللہ ( المتوفی:۴۵۸) نے کہا:
’’اخبرنا جناح بن نذیر بالکوفۃ ، ثناعمی احمد بن جناح، ثنا ابو الحریش ، ثنا شیبان، ثنا حماد بن سلمۃ، ثنا عاصم الجحدری، عن ابیہ ،عن عقبۃ بن صھبان ان علیا رضی اللہ عنہ قال فی ھذہ الآیۃ:{ فصل لربک وانحر}قال : وضع یدہ الیمنی علٰی وسط یدہ الیسریٰ ،ثم وضعھما علٰی سرتہ‘‘
’’صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت { فصل لربک وانحر}(الکوثر:۲) کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے(نماز میں ) اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصے) کے درمیان رکھ کر پھر انہیں اپنے ناف پر رکھنا مراد ہے‘‘[الخلافیات للبیھقی ط: الروضۃ (۲؍۲۵۳،ح:۱۴۸۱]
عرض ہے کہ یہ روایت باطل و منکر ہے ، کیوں کہ اس روایت کو ابوالحریش سے نقل کرنے والا’’احمد بن جناح‘‘ یہ’’ احمد بن جناح المحاربی ‘‘ہے ۔دیکھیں:(الزھد الکبیر للبیھقی:ص:۲۹۵،رقم:۷۸۱)یہ مجہول ہے ۔ اس مجہول نے ابوالحریش کے ثقہ ، ثبت، متقن اور حافظ شاگرد اور متعدد کتابوں کے مصنف امام ابومحمد بن حیان کے خلاف روایت کیا ہے ۔ اسی لئے امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس مجہول کی روایت کے بعد فوراً تنبیہ کرتے ہوئے کہا :
’’وقال غیرہ عن ابی الحریش :علی صدرہ‘‘[ الخلافیات للبیھقی ،ط:الروضۃ(۲؍۲۵۳،ح:۱۴۸۱]
’’احمد بن جناح المحاربی ‘‘ کے علاوہ ( حافظ ابو محمد بن حیان) نے ابو الحریش سے ’’علیٰ صدرہ‘‘ کے الفاظ بیان کئے ہیں‘‘
لہٰذا اس مجہول کی یہ روایت باطل و منکر ہے ، اس کی کوئی حیثیت نہیں۔
اجماع والوں نے اس نام کے ایک دوسرے راوی کی توثیق اس مجہول راوی پر فٹ کرکے اسے ثقہ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے اس کی تردید اگلے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں ۔

✿ ساتویں دلیل:
حماد کے شاگر د’’حجاج بن المنہال الأنماطی‘‘ کی روایت:
تمہید میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو حمادبن سلمہ کے ایک اور شاگرد ’’حجاج بن المنہال الأنماطی ‘‘ نے بھی نقل کیا اور ان کی روایت میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے ۔ چنانچہ:
امام ابن المنذر رحمہ اللہ (المتوفی:۳۱۹)نے کہا:
’’حدثنا علی بن عبد العزیز، قال: ثنا حجاج، قال: ثنا حماد، عن عاصم الجحدری، عن أبیہ عن عقبۃ بن ظبیان، عن علی بن أبی طالب رضوان اللہ علیہ:’’ أنہ قال فی الآیۃ {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر}فوضع یدہ الیمنی علٰی ساعدہ الیسری ثم وضعہا علٰی صدرہ ‘‘
’’صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر}(۱۰۸؍الکوثر:۲)کی تفسیربیان کرتے ہوئے فرمایاکہ اس سے (نمازمیں)دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے‘‘[ الأوسط لابن المنذر: ۳؍ ۹۱، رقم:۱۲۸۴واسنادہ صحیح]
یہ روایت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ التمہید میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت میں وہی لفظ درست ہے جو سینے پر ہاتھ باندھنے پر دلالت کرے نہ کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر۔

✿ آٹھویں دلیل:
حماد کے شاگر د’’حجاج بن المنہال الأنماطی‘‘ کی روایت کا ایک اور طریق:
’’التمہید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو حمادبن سلمہ کے شاگرد ’’ حجاج بن المنہال الأنماطی ‘‘ کی روایت امام أبو إسحاق الثعلبی، نے بھی نقل کی ہے اور اس میں بھی سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے ۔ چنانچہ:
امام أحمد بن محمد بن إبراہیم الثعلبی، أبو إسحاق (المتوفی:۴۲۷) نے کہا:
’’أخبرنا عبد اللہ بن حامد قال: أخبرنا محمد بن الحسین قال: حدّثنا أحمد بن یوسف قال: حدّثنا حجاج قال: حدّثنا حماد عن عاصم الجحدری عن أبیہ عن عقبۃ بن ظبیان عن علی ابن أبی طالب رضی اللہ عنہ أنہ قال فی ہذہ الآیۃ {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر} قال: وضع الید الیمنی علی ساعدہ الیسری ثم وضعہا علٰی صدرہ‘‘
’’صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر}(۱۰۸؍الکوثر:۲)کی تفسیربیان کرتے ہوئے فرمایاکہ اس سے (نمازمیں) دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے‘‘[ تفسیر الثعلبی: ۱۰؍ ۳۱۰ ،واسنادہ صحیح]
یہ روایت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ’’ التمہید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت میں وہی لفظ درست ہے جو سینے پر ہاتھ باندھنے پر دلالت کرے نہ کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر ۔

✿ نویں دلیل:
حماد کے شاگرد ’’شیبان بن فروخ‘‘ کی روایت:
’’تمہید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو حمادبن سلمہ کے ایک اور شاگرد شیبان بن فروخ نے بھی نقل کیا اور ان کی روایت میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے ۔ چنانچہ:
امام بیہقی رحمہ اللہ (المتوفی:۴۵۸)نے کہا:
’’أخبرنا أبو بکر أحمد بن محمد بن الحارث الفقیہ، أنبأ ناأبو محمد بن حیان أبو الشیخ، ثنا أبو الحریش الکلابی، ثنا شیبان، ثنا حماد بن سلمۃ، ثنا عاصم الجحدری، عن أبیہ، عن عقبۃ بن صہبان کذا قال: إن علیا رضی اللہ عنہ قال فی ہٰذہ الآیۃ {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر} قال:’’ وضع یدہ الیمنی علٰی وسط یدہ الیسریٰ، ثم وضعہا علٰی صدرہ ‘‘
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر}(۱۰۸؍الکوثر:۲)کی تفسیرمیں فرمایاکہ:’’اس سے (نمازمیں)اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے‘‘[ السنن الکبریٰ للبیہقی: ۲؍۴۶ ،ح : ۲۳۳۷ ، واسنادہ حسن]
یہ روایت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ’’التمھید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت میں وہی لفظ درست ہے جو سینے پر ہاتھ باندھنے پر دلالت کرے نہ کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر ۔

✿ دسویں دلیل:
حماد کے شاگرد’’أبو عمرو الضریر‘‘کی روایت:
’’التمھید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو حمادبن سلمہ کے ایک اور شاگرد’’أبو عمرو الضریر‘‘ نے بھی نقل کیا اور ان کی روایت میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے ۔ چنانچہ:
طحاوی رحمہ اللہ (المتوفی:۳۲۱)نے کہا:
حدثنا أبو بکرۃ، قال: حدثنا أبو عمرو الضریر، قال: أخبرنا حماد بن سلمۃ، أن عاصما الجحدری أخبرہم، عن أبیہ، عن علی بن أبی طالب، کرم اللہ وجہہ، فی قولہ:{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر}قال:’’ وضع یدہ الیمنیٰ علی الساعد الأیسر، ثم وضعہما علٰی صدرہ ‘‘
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ نے اللہ عزوجل کے قول {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر} (۱۰۸؍ الکوثر: ۲) کی تفسیرمیں فرمایاکہ:’’ اس سے (نمازمیں)دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ )کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے‘‘[ أحکام القرآن للطحاوی :۱؍۱۸۴ ،ح: ۳۲۳،صحیح المتن رجاله ثقات لکن سقط عقبة بن ظبیان من السند]
یہ روایت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ’’التمھید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت میں وہی لفظ درست ہے جو سینے پر ہاتھ باندھنے پر دلالت کرے نہ کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر ۔

✿ گیارہویں دلیل:
حماد کے شاگرد’’أبو صالح الخراسانی‘‘کی روایت:
’’التمھید‘‘میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو حمادبن سلمہ کے ایک اور شاگرد’’أبو صالح الخراسانی‘‘نے بھی نقل کیا اور ان کی روایت میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے ۔ چنانچہ:
امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ (المتوفی:۳۱۰)نے کہا:
’’حدثنا ابن حمید، قال: ثنا أبو صالح الخراسانی، قال: ثنا حماد، عن عاصم الجحدری، عن أبیہ، عن عقبۃ بن ظبیان، أن علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ قال فی قول اللہ: {فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر} قال: ’’وضع یدہ الیمنیٰ علٰی وسط ساعدہ الأیسر، ثم وضعہما علٰی صدرہ‘‘
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے فرمان:{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر} (۱۰۸؍الکوثر:۲)کی تفسیرمیں فرمایاکہ: ’’اس سے (نمازمیں)اپنے دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ ) کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے‘‘[ تفسیر الطبری ت شاکر:۲۴؍۶۵۲، صحیح المتن بالمتابعات لاجل ابن حمید]
یہ روایت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ’’التمھید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت میں وہی لفظ درست ہے جو سینے پر ہاتھ باندھنے پر دلالت کرے نہ کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر ۔

✿ بارہویں دلیل:
حماد کے شاگر د’’مہران بن أبی عمر العطار‘‘کی روایت:
’’التمھید‘‘ میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اسی روایت کو حمادبن سلمہ کے ایک اور شاگرد’’مہران بن أبی عمر العطار‘‘ نے بھی نقل کیا اور ان کی روایت میں سینے پر ہاتھ باندھنے کی صراحت ہے ۔ چنانچہ:
امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ (المتوفی:۳۱۰)نے کہا:
حدثنا ابن حمید، قال: ثنا مہران، عن حماد بن سلمۃ، عن عاصم الجحدری، عن عقبۃ بن ظہیر، عن أبیہ،عن علی رضی اللہ عنہ{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر} قال: وضع یدہ الیمنیٰ علیٰ وسط ساعدہ الیسریٰ، ثم وضعہما علیٰ صدرہ‘‘
صحابی رسول علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے{فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَر} (۱۰۸؍ الکوثر:۲)کی تفسیرمیں فرمایاکہ:’’اس سے (نمازمیں)دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ کے بازو (کہنی سے ہتھیلی تک کے حصہ )کے درمیان رکھ کر پھرانہیں اپنے سینے پررکھنا مراد ہے‘‘[ تفسیر الطبری ت شاکر: ۲۴ ؍ ۶۵۲، صحیح المتن بالمتابعات لاجل ابن حمید]
یہ روایت بھی اس بات کی دلیل ہے کہ ’’التمھید‘‘میں منقول علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت میں وہی لفظ درست ہے جو سینے پر ہاتھ باندھنے پر دلالت کرے نہ کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے پر ۔
ان تمام دلائل کے ساتھ اس بات پربھی غورکریںکہ متقدمین احناف میں سے کسی نے بھی اس روایت کو زیرناف ہاتھ باندھنے کے دلائل میں پیش نہیں کیاہے۔حتیٰ کہ ابن الترکمانی حنفی نے اس روایت کے متن کو مضطرب کہا مگرانہوں نے بھی اس لفظ کو اضطراب کی دلیل نہیں بنایا ہے بلکہ بعض طرق میں ہاتھ باندھنے کاذکر نہیں اوربعض میں ذکر ہے ۔ اوربعض میں ’’کرسوع‘‘ کالفظ ہے ۔بس اسی کو متن کا اضطراب کہاہے۔کیونکہ انہوں نے کہیں بھی اس روایت میں یہ الفاظ نقل نہیں کئے ہیں۔
مزید یہ کہ امام بیہقی نے جب ابومجلز سے ’’فوق السرۃ‘‘ والی روایت پیش کی تو ابن الترکمانی نے ’’التمھید‘‘ ہی کے حوالہ سے فوراًکہہ دیا کہ ان سے ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا بھی منقول ہے ۔لیکن علی رضی اللہ عنہ کی اس تفسیری روایت کے خلاف ’’تحت السرۃ‘‘کی روایت ’’التمھید‘‘سے بالکل نقل نہ کی۔ اس سے معلوم ہواکہ تمہید میں ایسی کوئی روایت تھی ہی نہیں ۔
 
Top