• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’ایمان‘‘ قول، عمل اور دل کا ارادہ ہے

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بسم اللہ الرحمن الرحیم
’’ایمان‘‘ قول، عمل اور دل کا ارادہ ہے

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ الکریم


اما بعد!
’’ایمان قول و عمل اور دل کا اعتقاد ہے‘‘، اللہ عزوجل نے فرمایا:
وَمَا کَانَ اﷲُ لِیُضِیْعَ اِیْمٰنَکُمْ سورۃ البقرۃ: آیت 143
اللہ تمہارے ایمان کو(یعنی بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے) کو ضائع کرنے والا نہیں ہے۔
تو یہاں نماز کا نام ’’ایمان‘‘ رکھا، لہٰذا ثابت ہوا کہ’’ ایمان قول، عمل اور دل کا ارادہ ہے‘‘۔
مزید برآں ’’ایمان قول اورعمل ہے بڑھتا اور گھٹتا ہے‘‘ـ۔
ایمان کے بغیر کوئی عمل قبول نہیں کیا جاتا۔ اللہ پر ایمان جس کے سوا کوئی الٰہ و معبود نہیں، یہ درجہ میں سارے اعمال سے اعلیٰ، مرتبہ میں سارے اعمال سے اشرف اور نصیب میں سب سے روشن ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایمان قول و عمل ہے، یا قول بلا عمل ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ایمان اللہ کیلئے عمل ہے اور قول اس عمل کا حصہ ہے۔ لہٰذا یاد رکھنا چاہیئے کہ ایمان کے حالات و درجات اورطبقات ہیں۔
ایک شخص کا ایمان ایسا ہے جو انتہائی اعلیٰ ہے اور ایک شخص کا ایمان ناقص ہے جسکا ناقص ہونا واضح ہے۔ اسی طرح ایک شخص کا ایمان راجح ہے یعنی جس کا رجحان ایمان کی طرف زائد ہے۔
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایمان پورا نہیں بھی ہوتا اور کم بیش بھی ہوتا ہے؟
تو واضح ہونا چاہیئے کہ ایمان پورا نہیں بھی ہوتا اور کم بیش بھی ہوتا ہے اور اسکی دلیل یہ ہے کہ: اللہ عزوجل نے ایمان کو بنی آدم کے اعضاء پر فرض کیا ہے اوران اعضاء کے درمیان تقسیم کر دیا ہے اور ان پر بکھیر دیا ہے، چنانچہ انسان کے اعضاء میں سے ہر عضو کو ایمان کا وہ حصہ سونپاگیا ہے جو دوسرے عضو کو سونپے گئے حصے کے علاوہ ہے، اور وہ حصہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہے۔
ان اعضاء میں سے ایک عضو دل ہے، جس کے ذریعہ انسان سمجھتا بوجھتا اورفہم رکھتا ہے، اور یہ اس کے جسم کا امیر ہے جسکی رائے اور حکم کے بغیر باقی اعضاء نہ تو پیش قدمی کرتے ہیں نہ پلٹتے ہیں ۔
اورانسان کے اعضاء میں آنکھیں ہیں جن سے دیکھتا ہے اور کان ہیں جن سے سنتا ہے اور ہاتھ ہیں جن سے پکڑتا ہے اور پاؤں ہیں جن سے چلتا ہے اور اسکی شرمگاہ ہے جسکی طرف سے قوت باہ ہے اور اسکی زبان ہے جس سے بولتا ہے اور اسکا سر ہے جس میں اسکاچہرہ ہے۔
چنانچہ دل پر وہ چیز فرض کی گئی ہے جو زبان پر فرض کردہ چیز سے مختلف ہے اور کانوں پر وہ چیز فرض کی گئی ہے جو آنکھوں پر فرض کردہ چیز سے مختلف ہے اور ہاتھوں پر وہ چیز فرض کی گئی ہے جو پیروں پر فرض کردہ چیز سے مختلف ہے اور شرمگاہ پر وہ چیز فرض کی ہے جو چہرے پر فرض کردہ چیز سے مختلف ہے۔
اللہ نے دل پر ایمان کا جو حصہ فرض کیا ہے وہ اقرار و معرفت ہے، عزم، رضا اور تسلیم ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی لائق عبادت نہیں۔ وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس نے نہ بیوی اختیار کی نہ بچہ، اور یہ کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، اور اللہ کے پاس سے جو بھی نبی آیا یا کوئی بھی کتاب آئی، اسکا اقرار۔ تو یہ چیز ہے جو اللہ جل شانہ نے دل پر فرض کی ہے، اور یہی دل کاعمل (یعنی ایمان) ہے:
الا من اکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان ولکن من شرح بالکفر صدرا۔ سورۃ النحل:آیت106
مگر جس پر زبردستی کی گئی اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن تھا۔ لیکن جس نے کفر کے ساتھ سینہ کھول دیا (تو ان پر اللہ کا غضب ہے الخ)
اور فرمایا :
الا بذکر اﷲ تطمئن القلوب۔ سورۃ الرعد:آیت28۔
یادر کھو کہ اللہ کے ذکر ہی سے دل مطمئن ہوتے ہیں ۔ اور فرمایا :
من الذین قالوا أمنا بافواہہم ولم تؤمن قلوبہم۔ سورۃ المائدہ:آیت41۔
لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے منہ سے کہا کہ ہم ایمان لائے حالانکہ ان کے دل ایمان نہیں لائے ہیں ۔ اور فرمایا :
و ان تبدوا مافی انفسکم اوتخفوہ یحاسبکم بہ اﷲ۔ سورۃ البقرہ:آیت284۔
تمہارے نفسوں میں جوکچھ ہے اسکو تم ظاہر کرو یا چھپاؤ اللہ تم سے اسکا حساب لے گا)
تو یہ وہ ایمان ہے جو اللہ تعالیٰ نے دل پر فرض کیا ہے، اور یہی دل کا عمل ہے، اور یہی ایمان کی جڑ ہے۔
اور اللہ نے زبان پر یہ فرض کیا ہے کہ دل میں جوبات باندھ رکھی ہے اور جس کااقرار کیا ہے اسے کہے اور اسکی تعبیر کرے، چنانچہ اس بارے میں فرمایا :
(قولوا ء امنا باﷲ ) سورۃ البقرہ:آیت136۔
تم لوگ کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے۔ اور فرمایا :
(وقولوا للناس حسنا) سورۃ البقرہ:آیت 83 ۔
لوگوں سے اچھی بات کہو۔
تو یہ وہ چیز ہے جو اللہ نے زبان پر فرض کی ہے یعنی دل کی بات کہنا اور اسکی تعبیر کرنا، اور یہی زبان کا عمل ہے، اوریہی وہ ایمان ہے جو اس پر فرض ہے۔
اور اللہ نے کان پر یہ فرض کیا ہے کہ اللہ کی حرام کردہ چیز سننے سے باز رہے، اور اسکی منع کردہ چیز سے اسے دور رکھا جائے ، چنانچہ اس بارے میں ارشاد فرمایا :
وقد نزل علیکم فی الکتب ان اذا سمعتم أیت اللہ یکفر بہا و یستہزأ بہا فلا تقعدوا معہم حتی یخوضوا فی حدیث غیرہ انکم اذا مثلہم) سورۃ النساء :آیت140۔
اور تم پر اللہ نے کتاب میں یہ بات اتاری ہے کہ جب تم اللہ کی آیتوں کو سنو کہ انکے ساتھ کفر اور مذاق کیا جارہا ہے تو ایسے لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو یہا ں تک کہ وہ دوسری بات میں لگ جائیں (ورنہ ) تب تم لوگ بھی ان ہی جیسے ہوگے۔
پھر بھول کی جگہ کا استثناء کیا چنانچہ فرمایا :
و اما ینسینک الشیطن فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظلمین سورۃ الانعام: آیت68۔
اوراگر تم کو شیطان بھلوا دے، او رتم ان کے ساتھ بیٹھ جاؤ، تو یاد آجانے کے بعد اس ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھنا۔ اور فرمایا :
فبشر عباد۔الذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ اولئک الذین ھدہم اﷲ و اولئک ھم اولوا الالباب۔ سورۃ الزمر:آیت 17-18۔
میرے بندوں کو بشارت دے دو جو بات سنتے ہیں تو اسکا جو اچھاپہلو ہے اس کی پیروی کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے، اور یہی لوگ ہیں جو عقل والے ہیں۔ اور فرمایا :
قد افلح المومنون ۔ الذین ھم فی صلاتہم خشعون… الی قولہ … ھم للزکوۃ فعلون سورۃ المومنون :آیت 1-4۔
مومنین کامیاب ہوئے جو اپنی نماز میں خشوع کرتے ہیں اور جو لغو (بیہودہ باتوں) سے اعراض کرتے ہیں اور جو زکوٰۃ اد ا کرتے ہیں۔ اور فرمایا:
و اذا سمعوا اللغو اعرضوا عنہ) سورۃ القصص :آیت 55۔
اور جب لغو (بیہودہ باتیں) سنتے ہیں تو ان سے اعراض کرتے ہیں۔ اور فرمایا :
و اذا مروا باللغو مروا کراما سورۃ الفرقان :آیت72۔
اور جب بیہودہ (کاموں) کے پاس سے گزرتے ہیں تو بزرگانہ طور پر گزر جاتے ہیں۔
تو یہ وہ عمل ہے جسے اللہ جل جلالہ نے کان پر فرض کیا ہے، یعنی جو چیز حلال نہیں اس سے منزہ رکھنا۔ اور یہ کان کا عمل ہے، اور ایمان کا حصہ ہے۔
اور اللہ رب العزت نے آنکھوں پر یہ فرض کیا ہے کہ ان سے حرام چیز نہ دیکھیں، اور جس سے منع کیا ہے اس سے جھکائے رکھیں، چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بارے میں فرمایا ہے:
قل للمومنین یغضوا من ابصرہم و یحفظوا فروجہم سورۃ النور:آیت 30-31 ۔
مومنین سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں جھکائے رکھیں، اوراپنی شرمگاہو ں کی حفاظت کریں… اور مومنات سے کہو کہ وہ اپنی نگاہیں جھکائے رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔
یعنی اس بات سے محفوظ رکھیں کہ کوئی دوسرے کی شرمگاہ کی طرف دیکھے، یا خود اسکی شرمگاہ کی طرف دیکھا جائے، اور قرآن مجید میں جو بھی حکم شرمگاہ کی حفاظت سے متعلق ہے تو وہ زنا سے ہے، مگر یہ آیت کہ یہ نظر سے متعلق ہے۔
تو یہ وہ بات ہے جو اللہ نے دونوں آنکھوں پر فرض کی ہے، یعنی انہیں جھکا کے رکھنا، اور یہ آنکھ کا عمل ہے، اور یہی ایمان میں سے ہے۔
پھر دل کان اور نظر پر جو فرض ہے اسکی خبر صرف ایک آیت میں دی ہے، چنانچہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس بارے میںفرمایا ہے:
ولا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفؤاد کل اولئک کان عنہ مسئولا) سورۃ الاسراء :آیت 36۔
اور جس بات کا تمہیں علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑو۔ بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب سے اس بارے میں پوچھا جائے گا۔
اور شرمگاہ پر یہ فرض کیا ہے کہ اسے اللہ کی حرام کردہ چیز کے ساتھ چاک نہ کرے۔
والذین ھم لفروجہم حفظون سورۃ المومنون:آیت 5۔
اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور فرمایا :
وما کنتم تستترون ان یشہد علیکم سمعکم ولا ابصرکم ولا جلودکم سورۃ فصلت:آیت 22۔
اور تم اس بات سے نہیں چھپ سکتے تھے کہ تم پر تمہارے کان، تمہاری آنکھیں اور تمہاری چمڑیاں گواہی دیں۔
اور چمڑیوں سے مراد شرمگاہیں اورران ہیں۔ تو یہ وہ چیز ہے جو اللہ نے شرمگاہوں پر فرض کی ہے یعنی جو چیز حلال نہیں اس سے ان کی حفاظت، اور یہ عمل ان (شرمگاہوں) کا ایمان ہے۔
پھر ہاتھوں پر یہ فرض کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو چیز حرام کر رکھی ہے اسکو ان سے نہ پکڑے بلکہ وہ چیز پکڑے جس کا اس نے حکم دیا ہے یعنی صدقہ، صلہء رحمی، جہاد فی سبیل اللہ، اور نمازوں کیلئے پاکی، چنانچہ اس بارے میں فرماتا ہے:
یایہا الذین أمنوا اذا قمتم الی الصلوۃ فاغسلوا وجوہکم و ایدیکم الی المرافق سورۃ المائدہ:آیت 6۔
اے ایمان والو! جب تم نماز کی جانب اٹھو تو اپنے چہرے، اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھولو۔ اور فرمایا :
فاذا لقیتم الذین کفروا فضرب الرقاب حتی اذا اثخنتموہم فشدوا الوثاق فاما منا بعد و اما فداء۔ سورۃ محمد:آیت 4۔
تو جب تم کافروں سے ٹکراؤ تو (پہلا کام )گردنیں مارنا ہے ، یہاں تک کہ جب تم انکو خوب کچل لوتو مضبوطی کیساتھ باندھو، اسکے بعد یاتو احسان کرنا ہے یا فدیہ لینا ہے۔
کیونکہ ماردھاڑ، صلہء رحمی اور صدقہ ہاتھوں سے انجام پانیوالے کام ہیں ۔
اور دونوں پاؤں پر یہ فرض ہے کہ ان سے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیز کی طرف نہ چلیں، چنانچہ اس بارے میں فرمایا :
ولا تمش فی الارض مرحا انک لن تخرق الارض ولن تبلغ الجبال طولا سورۃ الاسراء:آیت37 ۔
تو زمین میں اکڑ کر نہ چل ، نہ توتو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ (اکڑ اکڑ کر) پہاڑ کی بلندی کو پہنچ سکتا ہے۔
اور چہرے پر یہ فرض کیا ہے کہ اللہ کورات اور دن میں اور نماز کے اوقات میں سجدہ کرے، چنانچہ اس بارے میں فرمایا :
یایھا الذین أمنوا ارکعوا واسجدوا واعبدوا ربکم وافعلوا الخیر لعلکم تفلحون سورۃ الحج :آیت77۔
اے ایمان والو! رکوع کرو اور سجدہ کرو، اور اپنے رب کی عبادت کرو، اور بھلائی کرو تاکہ تم لوگ کامیاب ہوجاؤ۔ اور فرمایا :
و ان المسجد للہ فلا تدعوا مع اللہ احدا سورۃ الجن:18۔
اور مسجدیں اللہ کے لئے ہیں پس اللہ کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو۔
مساجد سے مراد پیشانی وغیرہ وہ اعضاء ہیں جن پر انسان سجدہ کرتا ہے۔
تو یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اعضاء پر فرض کیا ہے۔
اور اللہ نے پاکی اور نماز کو اپنی کتاب میں ایمان کہا ہے، اوریہ ا س وقت جب اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے نبی محمد رسول اللہ ﷺ کا رخ بیت المقدس کی جانب نماز پڑھنے سے پھیرا، اور آپ ﷺ کو کعبہ کی جانب نماز پڑھنے کا حکم دیا، اور مسلمان کم و بیش سولہ مہینے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھ چکے تھے، تو انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! یہ فرمائیے کہ ہم نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے جو نماز پڑھی تو اس کا حال اور ہمارا حال کیا ہوگا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
وما کان اللہ لیضیع ایمنکم ان اللہ بالناس لرء وف رحیم سورۃ البقرہ:آیت 143۔
اللہ تمہارے ایمان کو برباد کرنے والا نہیں ہے، بیشک اللہ لوگوں کے ساتھ رؤف و رحیم ہے۔
یہاں اللہ نے نمازکانام ایمان رکھا ہے، لہٰذا جو اللہ سے اپنی نمازوں کی حفاظت کرتا ہوا، اپنے اعضاء کی حفاظت کرتا ہوا، اعضاء میں سے ہر عضو سے اللہ کا حکم اور اس کے مقرر کردہ فرض کو ادا کرتا ہوا، کامل ایمان ہوکر اللہ سے ملے وہ اہل جنت میں سے ہے۔ اور جو اللہ کے حکم میں سے کسی چیز کو قصداً چھوڑتا رہا ہو وہ اللہ سے ناقص الایمان ہوتا ہوا ملے گا۔
اب ہم نے ایمان کے نقصان و اتما م کو تو جان لیا لیکن اس کی زیادتی کہاں سے آئی؟اللہ عزو جل نے فرمایا ہے:
و اذا ما انزلت سورۃ فمنہم من یقول ایکم زادتہ ھذہ ایمنا فاما الذین أمنوا فزادتہم ایمنا وھم یستبشرون و اما الذین فی قلوبہم مرض فزادتہم رجسا الی رجسہم وماتوا وہم کفرون۔ سورۃ التوبہ:آیت 124-125۔
جب کوئی سورت اترتی ہے توان میں سے بعض کہتے ہیں کہ تم میں سے کس کو اس سورت نے ایمان میں زیادہ کیا ہے؟ تو جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کو تووہ سورت ایمان میں زیادہ کرتی ہے اور وہ خوش ہوتے ہیں۔ لیکن جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہے تو ا ن کو ان کی گندگی کے ساتھ گندگی میں اور بڑھاتی ہے اور وہ اس حال میں مرتے ہیں کہ کافر ہوتے ہیں۔ اور فرمایا :
انہم فتیۃ أمنوا بربہم و زدنہم ھدی سورۃ الکہف :آیت 13۔
یہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے، اور ہم نے ان کو ہدایت میں اور زیادہ کیا۔
اب یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو گئی کہ اگر یہ ایما ن، کُل کا کُل ایک ہی ہوتا، اس میں کمی زیادتی نہ ہوتی تو اس میں کسی کو فضیلت نہ ہوتی، سارے لوگ برابر ہوتے، اور تفضیل باطل ہوتی۔ لیکن ایمان کے پورے ہونے سے مومنین جنت میں داخل ہوئے، اور ایمان میں زیادتی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک جنت کے اندر درجات میں مومنین کو فضیلت ملی۔ اور ایمان میں کمی کی وجہ سے کوتاہی والے جہنم میں داخل ہوئے۔
اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کے درمیان مقابلہ کروایا جیسے کہ گھڑ دوڑ میں گھوڑوں کے درمیان مقابلہ کروایا جاتا ہے، پھر یہ لوگ اپنی سبقت کے حساب سے اپنے درجات پر ہیں، چنانچہ ہر آدمی کو اس کی سبقت کے درجہ پر رکھا گیا ہے اور اس میں اس کا حق کم نہیں کیا گیا، نہ کسی پیچھے رہنے والے کو آگے رہنے والے پر مقدم کیا ہے اور نہ کسی مفضول کو فاضل پر۔ اور اسی وجہ سے اس امت کے پہلے لوگوں کو بعد میں آنے والوں پر فضیلت دی ہے۔ اور اگر ایمان کی طرف سبقت کرنے والے کو اس سے مؤخر رہ جانے والے پر فضیلت نہ ہوتی تو اس امت کے پہلے لوگ بعد میں آنے والوں کے ساتھ برابر ہوجاتے۔
غور کرنے پر یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ’’اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن، توریت انجیل میں رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کی ثنا کی ہے، اور خود رسول اللہ ﷺ کی زبان سے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لئے ایسی فضیلت وارد ہو چکی ہے جو ان کے بعد کسی اور کے لئے نہیں ہے۔ پس اللہ ان پررحم کرے، اور انہیں صدیقین، شہداء اورصالحین کی اعلی منازل تک پہنچا کر اس بارے میں آئے ہوئے فضل سے شاد کام کرے، انہوں نے ہمیں رسول اللہ ﷺ کی سنتیں پہنچائیں اور آپ ﷺ کا اس حالت میں مشاہدہ کیا کہ آپ ﷺ پر وحی نازل ہورہی تھی، پس انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی مراد کو جانا کہ آپ ﷺ کے ارشاد کا مقصود عام ہے یا خاص، عزیمت ہے یا ارشاد، اور ان کو آپ کی وہ سنتیں معلوم ہوئیں جو ہمیں معلوم ہوئیں اور جو نہیں بھی معلوم ہوئیں، وہ ہر علم اور اجتہاد میں ورع و عقل میں اور ہر اس معاملے میں جس سے کسی علم کا استدراک اور استنباط کیاجائے ہم سے بڑھ کر ہیں ان کی آراء ہمارے لئے زیادہ لائق حمد اور ہمارے نزدیک ہماری اپنی آراء سے زیادہ بہتر ہے ۔ واللہ اعلم‘‘
تفضیلِ صحابہ کا سلسلہ: رسول اللہ ﷺ کے بعد سب سے افضل ابوبکر ہیں، پھر عمر، پھر عثمان، پھر علی، رضی اللہ عنہم‘‘
یاد رکھئے: جو شخص کہے کہ ایمان قول ہے وہ مرجئی ہے، اور جو کہے کہ ابوبکر و عمر امام نہیں ہیں وہ رافضی ہے، اور جو مشیت کو اپنی طرف قرار دے وہ قدری ہے‘‘۔
 
Top