• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’تفسیر المعوّذتین‘‘ کا اردو ترجمہ

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یہ کتاب جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے حافظ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ کی تصنیف لطیف ’’تفسیر المعوّذتین‘‘ کا اردو ترجمہ ہے۔ موضوع کتاب کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ قرآن پاک کی آخری دو سورتوں کی تفسیر اور اس کے متعلقہ مباحث پر مشتمل ہے۔ کتاب کی علمی حیثیت اور اس کے تعارف کے لئے مصنف رحمہ اللہ تعالیٰ کا نامِ گرامی ہی سب سے بڑی ضخامت ہے۔ آپ شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے فیض یافتہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ کی طرح جن مباحث پر قلم اٹھا لیتے ہیں ان کے متعلق کوئی تشنہ نہیں چھوڑتے۔
کتاب کا اردو ترجمہ مولانا عبدالرحیم مرحوم پشاوری کا ہے جس میں انہوں نے جاذبیت پیدا کرنے اور عام فہم بنانے کے لئے جابجا جلی سرخیاں بھی قائم کر دی ہیں اور جہاں ضرورت محسوس ہوئی وہاں حاشیہ میں مزید وضاحت فرما دی تاکہ ہر عام و خاص اس سے پوری طرح استفادہ کر سکے۔ رحمہ اللہ تعالیٰ واسعۃ
یہ کتاب آج سے کئی سال قبل ۱۹۲۸؁ء میں طبع ہوئی تھی، اس کے بعد جلد ہی نایاب ہو گئی۔ کتاب کی افادیت کے پیشِ نظر ضرورت محسوس کی گئی کہ اسے دوبارہ شائقین تک پہنچایا جائے چنانچہ کتاب پر سرسری نظر ڈال کر جو سابقہ مطبعی اغلاط محسوس ہوئیں انہیں درست کر دیا گیا ہے اور بعض جگہ جزوی سی اصطلاح بھی کر دی گئی جو ناگزیر تھی۔
اللہ ذوالجلال والاکرام جزائے خیر عطا فرمائے ہماری شبان اہلحدیث خالد آباد اور اس کے رکن رکنین جناب مولوی عبدالرشید اور جناب محمد شعیب صاحبان کو جن کے تعاون سے اس کی طباعت کے مراحل طے ہوئے۔ ہماری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں دینِ حنیف کی خدمت کی توفیق ارزانی عطا فرمائے اور ہم سب کو اخلاص کی دولت سے نوازے۔ آمین۔
خادم العلم والعلماء
ارشاد الحق اثری خطیب جامع مسجد اہلحدیث خالد آباد رفیق ادارہ علوم اثریہ فیصل آباد ۱۸ ذی قعدہ۱۴۹۲ھ
۷ ستمبر ۱۹۸۲؁ء
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
مقدمہ
اکابر امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ قرآن حکیم کی تفسیر میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے شاگردِ رشید حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح اصول و مبانی کو جس حد تک پیش نظر رکھا ہے اور ٹھیک ٹھیک استعمال کیا ہے اس کی نظیر گزشتہ چھ سات سو سال کی اسلامی تصانیف میں کہیں نہیں ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان بزرگوں کی عام تصانیف کو علیٰ العموم اور تفسیری تصانیف کو علی الخصوص اسلامی حلقوں میں بڑی قدر و منزلت حاصل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ امام ابن تیمیہؒ نے قرآن حکیم کی ایک مکمل اور مبسوط تفسیر لکھی تھی جو دست بُردِ زمانہ کی نذر ہو گئی اور آج چند ٹکڑوں کے سوا اس بیش بہا ذخیرہ میں سے ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔ مثلاً تفسیر سورۃ نور، تفسیر سورۃ اخلاص اور تفسیر سورۃ کوثر وغیرہ۔ حافظ ابن قیم عام تصانیف میں بھی اور تفسیری تصانیف میں بھی اپنے شیخ و استاذ کا نہایت صحیح اور مکمل پرتو تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تصانیف کو بھی امام ابن تیمیہؒ ہی کی وسعتِ علم و نظر او راجتہادِ فکر و خیال کا ایک بدیع کرشمہ سمجھا جاتا ہے۔ امام موصوف نے قرآن حکیم کی دو آخری سورتوں یعنی ’’معوّذتین‘‘ کی ایک مختصر سی تفسیر لکھی تھی جو رسائلِ کبریٰ میں چھپ گئی ہے۔ حافظ ابن قیمؒ نے مزید تفصیلات کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے معوّذتین کی تفسیر کے متعلق ایک مستقل کتاب لکھی، جس میں ان سورتوں کے تمام حقائق و معارف کو نہایت صاف اور واضح، عمدہ اور سہل انداز میں بیان فرما دیا۔ جو کتاب اس وقت آپ کے ہاتھ میں ہے یہ حافظ ؒ کی محولۂ بالا کتاب کا اردو ترجمہ ہے اور اس غرض کو پیشِ نظر رکھ کر ترجمہ کر دیا گیا ہے کہ اردو داں اصحاب بھی اس نادر ذخیرئہ حقائق و معارف سے آگاہ ہو سکیں۔ کتاب کے مباحث کے متعلق کچھ عرض کرنا تحصیل حاصل ہے اس لئے کہ اصل کتاب سامنے ہے۔
دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس میں اس قسم کی بہت سی کتابوں کے چھپوانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری اس ناچیز اسلامی خدمت کو شرفِ قبول بخشے۔ آمین
ويرحم الله عبدا قال آمينا
لاہور
۱۹ دسمبر ۱۹۲۸؁ء
عبدالعزیز آفندی
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِيْنَ وَالصَّلَوةُ وَالسَّلاَمُ عَلَى رَسُوْلِهِ مُحَمَّدٍ وَّ آلِهِ اَجْمَعِيْنُ
تفسير المعوّذتين
اَعُوْذُ بِالله مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيْمِ
ـ
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيْمِ
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ 0 مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ 0 وَمِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَ 0 وَمِنْ شَرِّ النَّفَّثَاتِ فِيْ الْعُقَدِ 0 وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ 0
بِسْمِ الله الرَّحْمَانِ الرَّحِيْمِ
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ 0 مَالِكِ النَّاسِ 0 اِلَهِ النَّاسِ 0 مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ 0 الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ 0 مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ 0
صدَقَ الله الْعَظِيْم
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصلِ اوّل
مَا جَائَ فِيْ الْحَدِيْث
شان نزول
امام مسلم نے اپنی صحیح میں عقبہ بن عامر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں ’’کیا تم کو وہ آیتیں معلوم نہیں جو آج کی رات نازل ہوئیں اور جن کی مثال اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی۔ وہ آیتیں یہ ہیں : قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۔ ایک دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں ’’نبی ﷺ نے سیدنا عقبہ ؓ مذکور سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ کیا میں تمہیں وہ کلمات بتاؤں جو ان تمام کلمات سے بہتر ہیں جن کے ذریعہ سے کبھی کسی پناہ مانگنے والے نے پناہ مانگی ہے‘‘۔ سیدنا عقبہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ! ضرور فرما دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۔
ترمذیؒ نے عقبہ بن عامر سے ایک روایت درج کی ہے کہ نبی ﷺ نے اس کو ہر ایک نماز کے بعد معوّذتین (سورئہ فلق اور سورئہ الناس) پڑھنے کا حکم دیا۔ ترمذی، نسائی اور ابوداؤد میں عبداللہ بن حبیب ؓ سے رویات ہے کہ ہم ایک اندھیری رات میں جب کہ بارش ہو رہی تھی اس لئے اپنے گھروں سے نکلے کہ نبی ﷺ کے پیچھے نماز ادا کریں۔ ہم آپ ﷺ کے پاس پہنچے تو ارشاد ہوا کہ کہو (کیا کام ہے)۔ میں چپ رہا تو آپ ﷺ نے پھر فرمایا کہو؟ میں پھر بھی چپ رہا تو آپ ﷺ نے یوں ارشاد فرمایا کہ ’’صبح و شام قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ اور معوّذتین پڑھا کرو، تم ہر ایک قسم کے شر سے محفوظ رہو گے‘‘۔ ترمذی نے اس حدیث کو حسن (۱) صحیح کہا ہے۔
نیز ترمذیؒ نے بروایت ابو ہریرہ و ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے جنوں کے شر سے اور آدمیوں کی نظرِ
۱۔ ترمذی کی اصطلاح میں حسن اس حدیث کو کہتے ہیں جس کا سلسلہ
ـ روایت ایک ہی راوی کی روایت تک محدود نہ ہو بلکہ اس مضمون کو مختلف راویوں نے روایت کیا ہو، برخلاف اس کے جب کسی حدیث کا مضمون ایک ہی راوی نے بیان کیا تھا تو اس کو حدیث غریب کہتے ہیں۔ (مترجم)۔
بد سے پناہ مانگا کرتے تھے، لیکن جب معوّذتین نازل ہوئیں تو آپ ﷺ نے انہی کا پڑھنا اپنا م عمول بنا لیا اور دوسری تمام دعاؤں کو چھوڑ دیا‘‘۔ ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اسی کے ہم معنی ایک حدیث سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت کی گئی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
خواص:
صحیحین میں اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب سو جانا چاہتے تھے تو قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ اور معوّذتین کو پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونکتے تھے جس کے بعد اپنے منہ پر اور اپنے جسم پر پھیر لیتے تھے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ ﷺ بیمار ہوئے تو آپ ﷺ نے مجھ کو ایسا کرنے کا حکم دیا‘‘۔ میں کہتا ہوں (حافظ ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے) کہ یونس نے بروایت زہری عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے حدیث کا آخری حصہ اسی طرح نقل کیا ہے لیکن امام مالکؒ نے بروایت زہری اس طرح نقل کیا ہے کہ نبی ﷺ جب بیمار ہوتے تھے تب بھی معوّذتین پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے تھے لیکن جب آپ ﷺ سخت بیمار ہوئے تو میں آپ ﷺ کے جسم پر پھیر دیا کرتی تھی جس سے میرا مقصد حصولِ برکت تھا‘‘۔ اسی طرح معمر نے بھی زہری سے اسی کے موافق روایت کی ہے۔ (۱)
معمر کی یہ روایت صحیح بخاری میں ہے اور یہی روایت صحیح معلوم ہوتی ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ازخود یہ فعل کیا کرتی تھیں۔ نبی ﷺ نے اس کا حکم نہیں دیا تھا البتہ ایسا کرنے سے منع بھی نہیں فرمایا۔ لہٰذا اس حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ نبی ﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو جھاڑ پھونک کا حکم فرمایا تھا۔ ممکن ہے کہ بعض راویوں نے اس کی روایت بالمعنی کی ہو اور راوی کا یہ خیال ہو کہ چونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کے علم سے ایسا کرتی تھیں اور آپ ﷺ نے اس پر کچھ اعتراض نہیں
۱۔جس میں اس بات کا ذکر نہیں کہ نبی ﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس بارے میں کوئی حکم دیا ہو۔ (مترجم)
فرمایا، اس لئے ہم کہ سکتے ہیں کہ آپ ﷺ نے جھاڑ پھونک کرائی اور یہ بھی ممکن ہے کہ نبی ﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو صرف اتنا حکم دیا ہو کہ وہ آپ ﷺ کے جسم مبارک پر آپ ﷺ ہی کا ہاتھ پھیر دیا کریں کیونکہ آپ ﷺ مرض سے کمزور ہو جانے کے باعث اپنے جسم کے تمام حصوں پر اپنا ہاتھ نہیں پھیر سکتے تھے اس لئے آپ ﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو حکم دیا کہ وہ اس بارے میں آپ ﷺ کی مدد کریں۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنا ہاتھ نبی ﷺ کے جسم مبارک پر پھیرا۔ (۱)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تلخیصِ مضامین
بہرکیف یہاں پر مقصود ان دونوں سورتوں کا عظیم نفع
۱۔ ایک صحیح حدیث میں نبی ﷺ نے متوکلین کی بعض علامات بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ جھاڑ پھونک نہیں کراتے۔ چونکہ نبی ﷺ یقینا سید المتوکلین تھے اس لئے مصنف علیہ الرحمۃ اس سے آپ کو بَری قرار دینا چاہتے ہیں اور اس کے اس قدر طول کلام کا ماحصل یہی ہے۔ (مترجم)
بیان کرنا ہے اور یہ کہ ہر شخص کے لئے ان کا سیکھنا لازم ہے۔ جادو،نظرِ بد اور ہر ایک قسم کا شر دفع کرنے کے لئے ان میں ایک عجیب و غریب تاثیر رکھی گئی ہے۔ اگر کسی آدمی کو اپنا تنفس قائم رکھنے اور کھانے پینے کی ضرورت ہے تو ان سورتوں کا سیکھنا اور ان کے ذریعہ سے ہر ایک قسم کے شر سے پناہ مانگنا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔
ان دونوں سورتوں کا مضمون استعاذہ (پناہ مانگنا) جس کے متعلق تین باتوں کا سمجھنا اور یاد رکھنا لازم ہے۔
۱۔ استعاذہ، یعنی پناہ مانگنا۔
۲۔ مستعاذبہ، یعنی جس کے ساتھ پناہ لی جاتی ہے۔
۳۔ مستعاذمنہ، یعنی جس سے پناہ لی جائے۔
ان تینوں کی تفصیل معلوم کر لینے سے تم کو ان سورتوں کی اہمیت واضح ہو جائے گی، اس لئے ان کی تشریح کے لئے الگ الگ بحث کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل دوم
استعاذہ
معانی
اس لفظ کا مادہ عوذ ہے جس کا مفہوم لغت میں یہ ہے کہ کوئی چیز جس کو تم پسند نہیں کرتے ہو اس سے بھاگ کر کوئی ایسی پناہ ڈھونڈھو جو اس کے شر سے تم کو بچائے۔
مثال:
ایک لڑکا چلا جا رہا ہے۔ سامنے سے کوئی دشمن اس کو مار ڈالنے کی غرض سے تلوار میان سے کھینچ کر اس پر حملہ کرنے کے لئے پل پڑتا ہے۔ لڑکا یہ حالتِ زار دیکھ کر اور خوفزدہ ہو کر بھاگنا
۱۔ اس کے بعد مصنف علام نے عوذ کے مشتقات کو بیان کردہ مفہوم میں استعمال کرنے کی تائید میں ایک حدیث بیان کی ہے، پھر اصل مادہ کے مفہوم پر بحث کرتے ہوئے اصل معنی اور مستعمل معنی میں تطبیق پیدا کرنے کی قابلِ قدر کوشش کی ہے جس کا بالاستیعاب نقل کرنا عام ناظرین کے لئے چنداں دلچسپی کا موجب نہیں ہو گا۔ (مترجم)
شروع کر دیتا ہے، راستے میں اس کو اپنا مشفق باپ دکھائی دیتا ہے جسے دیکھتے ہی وہ اس سے چمٹ جاتا ہے اور نجات کے لئے اس کا تمام
تر بھروسہ اپنے والدِ مہربان کی شفقت اور قوتِ مدافعت پر ہوتا ہے اسی طرح ایک مسلمان اپنے دشمنِ ایمان سے بھاگ کر اپنے رحیم خدا کی پناہ ڈھونڈتا ہے۔ بایں ہمہ یہ تمام تشریح صرف سمجھانے کے لئے ہے، ورنہ اس کی حقیقت کی تعبیر سے الفاظ قاصر ہیں۔ استعاذہ کے وقت میںایک مومن صادق کے دل پر تذلل، التجا اور تضرع کی جو خاص کیفیت طاری ہوتی ہے وہ اپنے آپ کو اپنے رب تبارک وتعالیٰ کے سامنے محض بے اختیار سمجھتا ہے اور اس کی تمام تر نظر اللہ کی قدرتِ کاملہ کی کارسازیوں ا ور رحمتِ شاملہ کے کرشموں پر ہوتی ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس کا اظہار الفاظ اور عبارتوں میں نہیں ہو سکتا بلکہ اس کا تعلق ذوق اور وجدان سے ہے۔ اسی طرح مومن کے دل میں اللہ تعالیٰ کی سچی محبت اور اس کے خوف و جلال اور ہیبت کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اس کاادراک بھی وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کے دل میں یہ صفتیں پیدا ہو چکی ہوں۔ وصف اور بیان کا یہاں کچھ کام نہیں۔ چنانچہ ایک کمسن لڑکا حالاتِ بعد از بلوغ کا صحیح ادراک نہیں کر سکتا۔ (۱)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ایک سوال:
یہ ایک معلوم بات ہے کہ جہاں کلامِ پاک میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ قُلِ الْحَمْدُ للهِ اس کی تعمیل الحمدللہ کہنے سے ہو گی نہ کہ قُلِ الْحَمْدُ للهِ کہنے سے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ معوّذتین قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ الخ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ الخ کی تعمیل کرتے ہوئے قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ الخ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ الخ کہا جاتا ہے؟
۱۔ اس کے بعد علامہ نے استعاذہ اور استغفار کی لفظی تحقیق کے سلسلہ میں ان کے درمیان ایک دقیق سا فرق بیان کیا ہے جس کاسمجھنا عربیت میں ماہر ہونے کے بغیر دشوار ہے۔ اس لئے ہم اس لفظی تدقیق کو نظر انداز کرتے ہیں۔ (مترجم)۔
۲۔ یعنی تعمیل ارشاد کرتے ہوئے بھی قُلْ کا لفظ حذف نہیں کیا جاتا بحالیکہ قرین قیاس یہ ہے کہ اس کو حذف کیا جائے۔ (مترجم)
جواب:
یہی سوال بعینہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کی خدمت میں پیش کیا تھا جس کے جواب میں نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا قِيْلَ لِيْ فَقُلْتُ ’’مجھ سے یہی کہا گیا اور میں نے اسی طرح کہا‘‘ ۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس لئے ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں جس طرح کہ نبی ﷺ نے کہا تھا‘‘۔ اس حدیث کو امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ نیز صحیح بخاری میں ہے کہ زرّ بن حبیش، ابی بن کعبؓ سے اس طرح مخاطب ہوا کہ اے ابا المنذر! آپ کا بھائی ابن مسعود تو کچھ اور کہتا ہے۔ (۱)
ابی بن کعبؓ نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ سے دریافت کیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھ سے یہی کہا گیا ہے کہ کہو اور میں بھی
۱۔ ابن مسعودؓ کا قول تھا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کو اسی طرح مخاطب فرمایا ہے کہ قُلْ ’’تم کہو‘‘ اس لئے اس ارشاد کی تعمیل حذفِ قُلْ سے ہو گی یعنی نبی ﷺ کو اور ہم کو تعمیلِ ارشاد کے لئے اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاس الخ کہنا ہو گا۔
یہی کہتا ہوں کہ کہو۔ اس لئے ہم بھی اسی طرح کہتے ہیں جیسے کہ نبی ﷺ نے فرمایا تھا‘‘۔ (۱)
الغرض نبی ﷺ کے قول کا ملخص یہ ہے کہ مجھ کو بارگاہِ الٰہی سے یہی ارشاد ہوا ہے کہ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاس الخ
ـاس لئے میں انہی الفاظ میں کہتا ہوں جن الفاظ میں مجھ سے کہا گیا۔ اس میں راز یہ ہے کہ نبی ﷺ نے قرآن کریم کی تبلیغ میںا پنی طرف سے کچھ بھی تصرف نہیں کیا، بلکہ جو الفاظ اللہ تعالیٰ کی جانب سے آپ پر القاء کئے گئے وہی الفاظ آپ ﷺ نے بغیر کسی تصرف کے اپنی امت کو پہنچا دئیے اور چونکہ وہ الفاظ جو آپ پر نازل ہوئے یہی تھے کہ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاس ۔ اس لئے کہ تبلیغ کا پورا حق ادا ہو سکتا تھا کہ آپ بعینہ انہیں الفاظ کو دہرا دیتے، چنانچہ آ پﷺ نے ا یسا ہی کیا۔
۱۔ یعنی یہی شبہ ظاہر کیاتھا کہ ہمیں قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاس کہنے کی بجائے اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاس کہنا چاہئیے۔ (مترجم)۔
آپ ﷺ کے ان الفاظ سے کہ مجھ سے بھی کہا گیا کہ کہو اور میں نے وہی کہا‘‘۔ یہی مراد ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میں اپنی طرف سے ایک حرف بھی گھٹاتا اور بڑھاتا نہیں ہوں۔ بلکہ جو کچھ مجھ کو بارگاہِ کبریاء سے ارشاد ہوتا ہے اسی کی تبلیغ کرتا ہوں۔
منصبِ رسالت:
اس میں معتزلہ اور جہمیہ کے قول کی واضح طور پر تردید کی گئی ہے، جن کا یہ خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وحی کو نبی ﷺ نے اپنی عبارت اور اپنے الفاظ میں ادا کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاداتِ الٰہی کو انہیں الفاظ میں ادا کیا ہے۔ جن الفاظ کے ساتھ ان پر وحی نازل ہوئی۔ یہاں تک کہ جب آپ سے کہا گیا کہ قُلْ تو آپ نے بھی اسی امر کااعادہ کیا اور کہا قُلْ کیوں کہ آپ محض مبلغ اور رسول تھے جن کا منصب ’’رسالت‘‘ کا صحیح صحیح پہچانا ہوتا ہے یہ نہیں کہ اپنی جانب سے اس کے الفاظ میں کسی قسم کا تصرف یعنی ردّ و بدل کریں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصلِ سوم
مستعاذبہ
معانی
جس کے ساتھ پناہ لی جاتی ہے اسے مستعاذبہ کہتے ہیں وہ صرف اللہ تعالیٰ واحد لاشریک ہے جس کی قدرت سے پو پھٹتی ہے اور وہ تمام لوگوں کا پرورش کرنے والا، ان کا بادشاہ اور معبود ہے اس کے بغیر اور کوئی جائے پناہ نہیں، پناہ مانگنے والوں کو وہی پناہ دیتا ہے اور ہر ایک چیز کے شر سے جس سے وہ پناہ مانگتے ہیں ان کو بچاتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے کلامِ پاک میں اس حقیقت سے اپنے بندوں کو آگاہ فرمایا ہے کہ جو کوئی اس کو چھوڑ کر کسی مخلوق سے پناہ مانگتا ہے وہ کبھی اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوتا اور مستعاذبہ کے لئے اس کا یہ فعل تمرد اور طغیان کا موجب ہوتا ہے۔ چنانچہ مومن جنوں کی زبان سے سورۃ الجن میں منقول ہے:
وَاَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الانْسِ يَعُوْذُوْنَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوْهُمْ رَهَقًا (72 :6)
’’اور بیشک بنی آدم کے کچھ لوگ بعض جنوں سے پناہ مانگتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ اس سے جنوں کی سرکشی بڑھ جاتی تھی‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں جب کسی مسافر کو بیابان کی کسی سنسان جگہ میں رات بسر کرنے کا اتفاق ہوتا تھاتو وہ جنوں کو اس علاقہ کا متصرف اور مختار سمجھ کر یہ الفاظ زبان پر لاتا تھا کہ اَعُوْذُ بسيّد هذا الوادي من شر سفهاء قومه ’’میں اس وادی کے سردار کو اپنا جائے پناہ سمجھ کر اس قوم کے بدمعاشوں کی شرارت سے اس کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں‘‘ اہلِ جاہلیت کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے آدمی اپنی رات امن و امان سے بسر کر سکتا ہے اور اس کو اسی قثسم کا گزند نہیں پہنچتا۔ اس خیال کو شائع دیکھ کر جنوں کے دل میں ایک طرح کا غرور اور سرکشی پیدا ہوتی تھی اور وہ کہتے تھے کہ بنی آدم اور جنوں پر ہم یکساں حکومت کرتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
کلام اللہ غیر مخلوق:
ایک حدیث میں نبی ﷺ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے : اعوذ بكلمات الله التامات ’’میںاللہ تعالیٰ کے ان کلمات کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں جو ہر طرح سے کامل ہیں‘‘۔ اہل سنت نے اس حدیث سے استدلال کر کے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام غیر مخلوق ہے کیونکہ نبی ﷺ سے یہ نہایت بعید ہے کہ وہ کسی مخلوق کے ساتھ پناہ مانگیں، چنانچہ نبی ﷺ کا یہ فرمانا کہ اعوذ برضاك من سخطك وبمعافاتك من عقوبتك ’’بارِ خدایا! میں تیری رضامندی کے ساتھ تیری خوشی سے پناہ مانگتا ہوں اور تیرے عذاب کے مقابلے میں تیری بخشش اور معافی کو جائے پناہ ٹھہراتا ہوں‘‘۔ اس بات کی دلیل ہے کہ رضا اور عفو کا شمار اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ میں ہے اور ہر ایک صفت ان میں سے غیر مخلوق ہے۔ علیٰ ہذا القیاس آپ کا یہ قول کہ اعوذ بعزة الله وقدرته ’’میں اللہ تعالیٰ کی عزت اور اس کی قدرت کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں‘‘ اور اعوذ بنور وجهك الذي اشرقت له الظلمات ’’میں تیری ذات پاک کے نور کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں جس کے سامنے تمام تاریکیاں روشنی سے بدل جاتی ہیں‘‘۔
الغرض جس چیز کے ساتھ آپ نے پناہ طلب کی ہے وہ یقینا غیر مخلوق ہو کیجو اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کاملہ کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ سورئہ فلق اور سورئہ ناس میں جن اسمائے حسنیٰ کو مستعاذبہ بتایا گیا ہے وہ رب، ملک اور الٰہ کے الفاظ ہیں۔ نیز ربوبیت کی اضافت فلق (صبح کی روشنی) اور ناس (لوگ) کی طرف گئی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سورتوں میںاپنے جو اوصاف بیان فرمائے ہیں وہ استعاذہ مطلوبہ کے ساتھ گہری مناسبت رکھتے ہوں گے کیونکہ ہم نے اپنی تصنیفات میں بارہا اس بات کو واضح کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو جب اس کے اسمائے حسنیٰ سے پکارا جائے تو ہمیشہ یہ نقطہ ملحوظ رکھنا چاہئیے کہ مدعا اور مطلوب کی مناسبت سے کوئی مناسب اسمِ پاک استعمال کیا جائے۔
نبی ﷺ نے ان سورتوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ کسی پناہ مانگنے والے کو ان جیسے کلمات کے ساتھ پناہ مانگنا نصیب نہیں ہوا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جن اسمائے پاک کے ساتھ ان سورتوں میں استعاذہ کیا گیا ہے ان کو حصولِ مطلوب کے ساتھ خاص مناسبت ہے۔ مستعاذمنہ پر بحث کرتے ہوئے اس مناسبت کی توضیح کر دی جائے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ
 
Top