• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’تفسیر المعوّذتین‘‘ کا اردو ترجمہ

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل نہم
عاین اور حاسد میں اشتراک و افتراق :
قوت مقناطیسی:
نظر بد لگانے والا اور حاسد من وجہ ایک جیسے ہیں، لیکن ایک دوسری وجہ سے دونوں میں فرق ہے۔ اس بات میں وہ دونوں ایک جیسے ہیں کہ ہر ایک کا نفس خاص کیفیت سے رنگین ہو کر اپنی توجہ کو کسی ایک مرکز پر مبذول کرتا ہے ا ور جس پر یہ توجہ مبذول کی جاتی ہے وہ ہدف ایذا و تکلیف بنتا ہے اور بعض اوقات اس کا انجام ہلاکت ہوتا ہے۔
اب فرق سنئے! نظر لگانے والے کی آنکھوں میں جو مسموم اثر پایا جاتا ہے وہ صرف اس شخص یا چیز پر اثر کرتا ہے جس کے ساتھ وہ دوچار ہوئے لیکن حاسد کے لئے حاضر اورغائب یکساں ہے۔ نظر بد لگانے والے کے دل میں بھی اکثر حسد کا جذبہ موجود ہوتا ہے لیکن بعض اوقات اس کا اثر ایسی چیزوں پر بھی ہوتا ہے جن سے ان کوحسد نہیں ہوتا مثلاً پتھر یا حیوان یا کھیتی وغیرہ۔
نیز بعض اوقات اس کا اثر اپنی جان اور اپنے مال پر بھی ہوتا ہے کیونکہ نظر بد کا اثر اسی شخص یا چیز پر ہوتا ہے جو صاحبِ نظر مستحسن ہو اور پھر وہ اس کو گھور کر دیکھ لے ارشاد ہے: وَ اِنْ يَّكَادُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَيُزْلِفُوْنَكَ بِاَبْصَارِهِمْ لَمذَا سَمِعُوْا الذِّكْرَ
ـ ’’قریب ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کیا تم کو اپنی آنکھوں (کی مقناطیسی) کے ذریعہ سے اپنی جگہ اور اپنے مرکز سے ہٹا دیں، اس حالت میں جب کہ وہ کلامِ پاک سنتے ہیں‘‘۔
اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین یہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد نظر بد کے اثر سے آپ کو ایذا پہنچانا ہے چنانچہ روایت ہے کہ بعض ایسے اشخاص جو نظرِ بد کے لئے مشہور تھے، نبی ﷺ کے سامنے لائے گئے اور انہوں نے آپ ﷺ کو گھور کر کہاکہ ہم نے تو کبھی ایسا آدمی نہیں دیکھا اور نہ کسی کا ایسا چبھتا ہوا کلام سنا۔
یہ اس قسم کے اشخاص تھے کہ جب کسی فربہ اونٹنی پر ان کی نظر پڑ جاتی تھی تو ان کو اپنی نظرِ بد کے اثر پر اس قدر اعتماد تھا کہ وہ اپنے غلام سے کہہ دیتے تھے کہ یہ ٹوکری لے لو اور فلاں شخص کی اونٹنی کا گوشت لے آؤ، اور ایسا ہی ہوتا تھا کہ ان کے گھورنے پر وہ اونٹنی زمین پر گر کر لوٹنے لگتی اور اس کا مالک اس کو مجبورًا ذبح کرتا۔
کلبی کہتا ہے کہ عرب میں ایک شخص تھا جو (اپنی نظر بد کے ا ثر کو تیز کرنے کے لئے) ایک دو دن کھانا چھوڑ دیتا تھا اور پۃر جب کوئی اونٹ یا بھیڑ بکری اس کے پاس سے گزرتی اور وہ کہہ دیتا کہ میں نے توا یسا اونٹ وغیرہ نہیں دیکھا تووہ فوراً گر پڑتا۔ اسی شخص سے کافروں نے درخواست کی کہ وہ نبی ﷺ کو اپنی نظرِ بد کا نشانہ بنائے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اپنے رسول کو محفوظ ومصئون رکھا اور یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ لیکن ایک دوسری جماعت مفسرین کی یہ کہتی ہے کہ اس سے مراد نظرِ بد کا اثر پہنچانا نہیں بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ کافر لوگ جب تم کو قرآن پڑھتا ہوا سنتے ہیں تو تمہاری طرف عداوت کی نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں اور ان کا یہ دیکھنا اس شدت سے ہوتا ہے کہ قریب ہے کہ تم کوگرا دیں ۔ زجاج نے یہی قول اختیار کیا ہے اور یہ محاورہ کلامِ عرب میں موجود ہے کہ فلاں شخص نے اس کو ایسی تیز نظر سے دیکھا کہ قریب تھا کہ وہ گر جائے، زجاج کہتا ہے کہ اس کا قرینہ یہ ہے کہ اس کو سماعِ قرآن کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی یہ لوگ قرآن کریم کاسننا سخت ناپسند کرتے ہیں اور اس لئے جب اس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تووہ تم کو بسبب بغض اور عداوت کے سخت تیز نظروں سے دیکھنے لگ جاتے ہیں‘‘۔
مہلک نظر کے اسباب و اثرات :
میں کہتاہوں (یعنی علامہ ابن القیم ؒ فرماتے ہیں) کہ جو نظر مہلک اثر پیدا کرتی ہے اس کا سبب بعض اوقات حسد اور عداوت ہوتا ہے اور جیسے کہ حاسد کے نفسِ خبیث کا محسود پر موذی اور مہلک اثر پرتا ہے اسی طرح اس نظر بد لگانے والے کا بھی پڑتا ہے اور اس کا اثر اس وجہ سے زیادہ طاقتور ہوتا ہے کہ سامنے ہونے کی حالت میںقوتِ نفسانی اپناعمل زائد کرتی ہے۔ کیونکہ دشمن جب نظروں سے غائب ہو تو ممکن ہے کہ انسان اس کی عداوت بھول جائے لیکن اس کو دیکھ کر پوشیدہ جذبات تموج پر آجاتے ہیں ا ور نفس بالکلیہ محسود کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اس لئے اس حالت میں نظر قوی کا اثر ہوتا ہے یہاں تک کہ جس پر یہ نظر ڈالنا مقصود ہوتا ہے، بعض اوقات وہ گر جاتا ہے، بعض اوقات اس کو بخار ہو جاتا ہے اور کبھی وہ غش کھا جاتا ہے۔
اس قسم کے واقعات اکثر مشاہدہ میں آتے ہیں اور بہت لوگوں نے ایسا ہوتے دیکھا ہے۔بعض اوقات اس نظر بد کا سبب صرف ’’پسندیدگی‘‘ ہوتا ہے ا ور عام طور پر اسی کونظرِ بد کہا جاتا ہے۔ کیونکہ کسی چیز کو جب بنظرِ استحسان دیکھا جاتا ہے تو دیکھنے والے کے نفس میں ایک خاص کیفیت پیداہوتی ہے اور چونکہ بعض خبیث طبائع میںا یک زہریلا مادہ موجود ہوتا ہے جو اس کیفیت کے ظہور میں آتے ہی اس کا بھی ظہور ہوتا ہے اس لئے اس کا نتیجہ اس شخص یا چیز کی ہلاکت یانقصان ہوتا ہے جس پر وہ نظر ڈالی گئی ہے۔
نظرِ بد ایک حقیقت ہے!
عبدالرزاق بن معمر نے بروایت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کی یہ حدیث بیان کی ہے کہ "العين حق" نظرِ بد کا لگنا ایک حقیقت ہے یعنی محض توہّم پرستی نہیں۔ عبید بن رفاعہ سے روایت ہے کہ اسماء بنت عمیس نے نبی ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ! جعفر کی اولاد اکثر نظرِ بد کا شکار ہو جاتی ہے تو کیاہم ان کے لئے کوئی دَم وغیرہ کا عمل کریں؟ آپ ﷺ نے اس بات کا جواب اثبات میں دیااور فرمایا کہ اگر کوئی چیز تقدیر سے آگے بڑھ سکتی تو وہ نظرِ بد ہوتی۔
الغرض کافر لوگوں کو نبی ﷺ سے حسد اور عداوت تھی اور تمہیں معلوم ہو چکا ہے کہ حاسد کی نظر قوی تر ہوتی ہے اس لئے جن مفسرین نے یہ کہا ہے کہ اس آیت سے مراد نظرِ بد کا اثر ڈالنا ہے اس کا مقصد یہی ہے کہ وہ حسد اور عداوت کی نظروں سے آپ کو دیکھتے تھے جس کا بُرا اثر ہر طرح سے مسلم ہے۔
لیکن جن مفسرین نے یہ کہا ہے کہ اس آیت سے مراد نظرِ بد کا اثر نہیں وہ اس لحاظ سے درست کہتے ہیں کہ کافروں کا دیکھنا ’’پسندیدگی‘‘ کا دیکھنانہیں تھا جس کو عام اصطلاح میں نظرِ بد کہا جاتاہے۔ ترمذی میں بروایت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ منقول ہے کہ نبی ﷺ انسان نظر بد سے پناہ مانگاکرتے تھے‘‘ اور گر نظر بد میں کوئی شر نہ ہوتاتو آپ اس سے کیوں پناہ مانگتے نیز ترمذی میں حابس بن حبہ تمیمی کی ایک روایت ہے کہ میرے باپ نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ ’’نظرِ بد لگناایک حقیقت ہے‘‘۔
نظر بد اور تقدیر:
ایک دوسری حدیث ترمذی میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اگر کوئی چیز تقدیر سے آگے بڑھ سکتی تو وہ نظرِ بد ہوتی‘‘۔ اس کے بعد ترمذی نے لکھا ہے کہ اس بارے میں ایک حدیث عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے اور یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔
عاین بھی حاسد ہے:
نظرِ بد لگانے والا بھی ایک قسم کا حاسد ہے لیکن عام حاسدوں سے وہ زیادہ مضر ہے اور غالباً اسی نکتہ کے لئے سورئہ فلق میں حاسد کے ذکر پر اکتفا کیا گیاہے کیونکہ عام کے ضمن میں خاص داخل ہوتا ہے یعنی ہر ایک نظرِ بد لگانے والا حاسد ہے لیکن بالعکس نہیں اس لئے جب حاسد کے شر سے پناہ مانگ لی گئی تو نظرِ بد سے بھی پناہ لی گئی۔ حسد کی حقیقت اللہ تعالیٰ کی کسی دی ہوئی نعمت کے زوال کی خواہش کرنا، حاسد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا دشمن ہے اور شر اس کی طبیعت میں مرکوز ہوتا ہے جو اس کے خبثِ فطرت کا نتیجہ ہے۔
جادو اور حسد:
برعکس حسد کے سحر اور جادو کا شر فطری نہیں بلکہ اکتسابی ہے اور جیسے کہ پہلے ذکر ہوا اس میں شیاطین کی ارواج خبیثہ سے استعانت کی جاتی ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
موضوع سورتین :
اس سورئہ شریفہ میں ساحر اور حاسد کے شرکا ذکر کرکے شر کی دونوں قسموں، فطری اور اکتسابی کی تصریح کر دی گئی ہے سحر اور حسد کا شر شیاطین الانس او رشیاطین الجن دونوں سے متصور ہے لیکن شر کی ایک اور قسم ہے جو صرف مؤخر ا لذکر سے صادر ہوتی ہے یعنی وسوسہ، جس کے ذکر کے لئے دوسری سورت کو مخصوص فرمایا ہے۔
ساحر اور حاسد کا عمل:
ساحر اور حاسد خارج سے اپنا عمل کرتا اور ایذا پہنچاتا ہے مسحور یا مسحود کے عمل کو اس میں دخل نہیں لیکن وسوسہ کاعمل اس وقت مضر ثابت ہوتا ہے جب کہ انسان کا قلب اس کی طرف مائل ہو اور اس کو قبول کر لے اور اس لئے وسوسہ کے نتیجہ کے طور پر اگر انسان کسی عملِ بد کا ارتکاب کر بیٹھے یاا سے ارتکاب کاعزمِ مصمم کر لے تو وہ مواخذہ کے قابل ہے کیونکہ یہ اس کے اپنے ارادہ اور سعی والکتاب کی عقوبت ہوگی۔ برخلاف اس کے ساحر اور حاسد کے شر کی عقوبت کے وہ خود مستوجب ہوں گے، محسود اور محسور کااس سے کچھ واسطہ نہیں۔ لہٰذا ساحر اور حاسد کاا یک سورۃ میں ذکر کیا گیا اور شیطان کے وسوسہ کا دوسری میں۔ بعض اوقات حسد اور سحر کی دونوں صفتیں ایک دوسری کے ساتھ مناسبت رکھنے کی وجہ سے ایک ہی ذات میں جمع ہو جاتی ہے مثلاً یہود کی قوم ساحر بھی تھی اور حاسد بھی۔ ان کے سحر کاذکر ان آیتوں میں ہے:
وَاتَّبِعُوْا مَا تَتَلُوْا الشَّيَاطِيْنُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّاطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَمَا رُوْتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ اَحَدٍ حَتَّى يَقُوْلاَ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلاَ تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُوْنَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْئِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُمْ بِضَآرِّيْنَ بِهِ مِنْ اَحَدٍ اِلاَّ بِاِذْنِ اللهِ وَيَتَعَلَّمُوْنَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلاَ يَنْفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوْا لِمَنِ اشْتَرَاهُ مَالَهُ فِيْ الاَخِرَةِ مِنْ خَلاَقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ اَنْفُسَهُمْ لَوْكَانُوْا يَعْلَمُوْنَ
ـ
’’ان لوگوں نے اس علم کی پیروی کی جو سلیمان (علیہ السلام) کی سلطنت میں شیطان پڑھا کرتے تھے اور سلیمان (علیہ السلام) نے کفر نہیں کیا بلکہ ان شیطانوں نے کفر کیا تھا جولوگوں کو جادو اور وہ علم سکھلاتے تھے جو بابل (شہر) ہاروت اور ماروت پر اترا تھااور وہ (دونوں فرشتے) کسی کو اس وقت تک وہ علم نہ سکھلاتے تھے جب تک کہ وہ یہ نہ کہتے تھے کہ ہم تو (تمہارے لئے) ایک آزمائش ہیں (اس لئے تم ہم سے اس علم کو سیکھ کر) کفر مت کرو۔ پس وہ لوگ (باوجود ان فرشتوں کی اس تنبیہہ کے) ان سے ایسا علم سیکھتے تھے جس سے وہ مرد اور اس کی عورت کے درمیان جدائی ڈالتے ہیں (اس علم سے) وہ لوگ سوائے اللہ تعالیٰ کے حکم کے کسی کو کچھ نقصاننہیں پہنچاسکتے بلکہ (ان سے) ایساعلم سیکھتے ہیں جس سے ان کو خود نقصان پہنچتا ہے اور ان کو (اس علم سے) کچھ نفع نہیںپہنچتا اور وہ لوگ (اس بات کو بھی) جان چکے ہیں کہ جوشخص اس علم کا خریدار ہو (علیم سیکھا) اس کے لئے آخرت میںکوئی حصہ نہیں رہتا البتہ اگر ان لوگوں کو سمجھ ہوتی تو جان لیتے کہ وہ چیز (علم کا سیکھنا) بہت بُری چیز ہے جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچا ہے‘‘۔
اور ان کے حسد کے ذکر سے تو تقریباً قرآن کریم بھرا بڑا ہے۔ اَمْ يَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلَى مَا اَتَاهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ
ـ ’’کیا وہ لوگوں کے ساتھ اس لئے حسد کرتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو نعمتیں دیں‘‘۔
وغیرہ وغیرہ اور اگرچہ ساحر کے ساتھ بھی شیطان ہوتاہے لیکن حاسد خود شیطان کے مشابہ ہوتا ہے کیونکہ شیطان کو فساد سے محبت ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کازوال چاہتا ہے اور حاسد بھی انہیں اوصاف کے ساتھ موصوف ہے۔ سب سے پہلے ابلیس علیہ اللعنۃ نے آدم علیہ السلام کے شرف اور فضیلت پر حسد کیا تھا جس کا نتیجہ انکارِ سجود اور ملعونیت ابدی کی شکل میں ظاہر ہوا۔
قوی تر جادو:
سحر کی کتابوں کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ساحر اللہ اور رسول کی مخالفت میں جتنا زیادہ سرگرم ہو اتنا ہی وہ اپنے فن میںزیادہ ماہر ہوتا ہے اور اس لئے بت پرستوں کا جادو اہلِ کتاب کے جادو سے اور یہودیوں کا جادو نام نہاد مسلمانوں کے جادو سے قوی تر ہے۔ مؤطا امام مالک رضی اللہ عنہ میں سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث کہ مجھ کو تورات کے چند ایک کلمات یاد ہیں (جن کی برکت سے جادو کے اثرات سے محفوظ رہتا ہوں) ورنہ بصورتِ دیگر مجھ کو یہودی لوگ گدھا بناتے۔ وہ کلمات یہ ہیں: اعوذ بوجه الله العظيم الذي ليس شئ اعظم منه وبكلمات الله التامات التي لا يجازهن برولا فاجر وباسماء الله الحسنى ماعلمت منه وما لم اعلم من شر ما خلق وزراء وبراء
ـ ’’میں اللہ تعالیٰ کی ذات پاک کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں جس سے بڑھ کر کوئی نہیں اور اللہ تعالیٰ کے کامل کلام کے ساتھ پناہ مانگتاہوں جس سے بڑھ کر کوئی نہیں اور اللہ تعالیٰ کے کامل کلام کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں جس سے کوئی نیک یا بُراتجاوز نہیں کرسکتااور میں اللہ تعالیٰ کے بہترین اسمائے پاک کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں خواہ وہ مجھ کو معلوم ہیں یا میرے علم سے باہر ہیں۔ ہر ایک ایسی چیز کے شر سے جس کو اس نے پیدا کیا اور پھیلایا‘‘۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل دہم
استعاذہ من شر حاسد اذا حسد
ـ
معانی:
اللہ تعالیٰ کا یہ قول کہ "وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ " جن اور انسان دونوں کوشامل ہے۔ شیطان اور اس کی جماعت مومنوں کے ساتھ اس فضل و انعام کی وجہ سے جو ان کے ساتھ کیاگیا ہے حسد کرتے ہیں جیسے کہ ہمارے باپ آدم علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا اور وہ اس کی اولاد کا بھی اسی طرح دشمن ہے۔ اِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا
ـ بیشک شیطان تمہارا دشمن ہے ا س لئے تم بھی اس کو اپنا دشمن قرار دو‘‘۔
لیکن شیاطین الجن کا کام زیادہ تر وسوسہ ڈالنا ہے اور شیاطین الانس کا کام حسد کرناہے اگرچہ درحقیقت دونوں قسم کے شیطانوں میں دونوںا وصاف فی الجملہ پائے جاتے ہیں۔ اس لئے مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ کا لفظ دونوں کے شر سے پناہ مانگنے پر مشتمل ہے
سورئہ فلق کا خلاصہ :
یہ سورۃ تمام عالم کے شرور سے پناہ مانگنے پر مشتمل ہے اور وہ چار استعاذہ کے کلمات اپنے اندر رکھتی ہے۔ پہلے میں مخلوقات کے عام شر سے پناہ مانگنے کا ذکر ہے، دوسرے میںشب تاریک کے شر سے پناہ طلب کی گئی ہے۔ تیسرے اور چوتھے میں ساحر اورحاسد کے شر سے استعاذہ کیاگیا ہے ۔ ان دونوں کا شر نفس خبیثہ کی شرارت کا نتیجہ ہے جن میں سے اوّل الذکر یعنی ساحر شیطان سے مدد کا خواہاں اور اس کی عبادت میں مشغول رہتا ہے۔
ساحر اور شیطان:
عموماً جادو کا عمل شیطان کی عبارت کرنے اور اس کا تقرب حاصل کئے بغیر مؤثر نہیں ہوتا۔ مثلاً یا تو وہ شیطان کے نام پر ذبح کرتا ہے یا اس ذبح سے مقصود اس کا تقرب ہوتا ہے: وَمَآ اُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ
ـ میں اسی کی حرمت بیان کی گئی ہے اسی طرح اور بھی اس سے اعمالِ شرکیہ سرزد ہوتے ہیں جن کو اگرچہ وہ خود دوسرے ہی ناموں سے موسوم کرے لیکن درحقیقت وہ شیطان کی پرستش اور اس کی عبادت ہوتی ہے، شرک اور کفر اسمائے مخفیہ نہیں بلکہ ان کا اطلاق ایک حقیقت پر ہوتا ہے جہاں بھی وہ پائی جائے اس کو توضیح ایک مثال سے ہوسکتی ہے: ایک شخص مخلوق کے لئے سجدہ کرتا ہے لیکن اس کو زمین بوس وغیرہ الفاظ سے تعبیر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میرا یہ سجدہ عبادت کے لئے نہیں بلکہ تعظیم کے لئے ہے۔ میرا سجدہ سجدئہ عبادت نہیں بلکہ سجدئہ تحیت ہے تو اس کے اس کہنے سے اس کی حقیقت میں تغیر واقع نہیں ہوتا اور بلحاظ حقیقت کے وہ سجدہ عبادت ہی کہلائے گا اور اس کا مسجود اس کا معبود ہوگا خواہ اس کا فاعل کتنا ہی اس سے بیزاری کااظہار کرے۔ (۱)
شیطان کی عبادت :
اسی طرح ایک شخص شیطان کو خوش کرنے کے لئے ذبح کرتا ہے اس کو پکارتا ہے اور اسی سے پناہ مانگتا ہے تو شیطان کو اس نے معبود قرار دیااگرچہ وہ خود اپنے اس فعل کو عبادت سے موسوم نہ کرے بلکہ اس کو استخدام وغیرہ کے نام سے تعبیر کرے۔ (۱) اگلا صفحہ پر
۱۔ مثلاً شراب محرم کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی پینے کی چیز جو سکر (بیہوشی) پیدا کرے اب اگر کوئی اس کو نبیذ یا مثلث وغیرہ کے ناموں سے پکارے تو اس سے اس کی ماہیت میں فرق نہیں آتا اور نہ ہی مسلمان کے لئے اس کا پینا حلال ہو گا اسی طرح حلالہ کا نکاح چونکہ دراصل نکاح نہیں زنا ہے اس لئے نکاح کے ساتھ موسوم کرنے سے اس کی حقیقت نہیں بدل سکتی ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ : اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَيْكُمْ يَبَنِيْ آدَمَ اَنْ لاَّ تَعْبُدُوْا الشَّيْطَانَ اِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ وَاَنِ اعْبُدُوْنِيْ
ـ’’کیا میں نے تمہاری طرف اپنا پیغام نہیں بھیجا کہ اے آدم کے بیٹے! شیطان کی عبادت مت کرو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے او رتم کو چاہئیے کہ میری ہی عبادت کرو‘‘۔
اس آیتِ کریمہ میں شیطان کے نقشِ قدم پر چلنے کو عبادت سے تعبیر کیا ہے حالانکہ کوئی بھی اپے منہ سے نہیں کہتا کہ میں شیطان کی عبادت کرتا ہوں، دوسری جگہ کلامِ پاک میں ارشاد ہے: وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ يَقُوْلُ لِلْمَلَئِكَةِ اَهَؤُلآئِ اِيَّاكُمْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ
ـ قَالُوْا سُبْحَانَكَ اَنْتَ وَلِيُّنَا مِنْ دُوْنِهِمْ بَلْ كَانُوْا يَعْبُدُوْنَ الْجِنِّ ـ ’’اس دن کو یاد کرو جب کہ ہم ان سب کو زندہ کر کے جمع کریں گے اس کے بعد ملائکہ سے مخاطب ہوں
۱۔ جیسے کہ نام نہاد مسلمانوں میں عامل و کاہن اس قسم کے حرکات کو استخدام کہتے ہیں یہ اسی کی طرف اشارہ ہے۔
گے کہ کیا یہ لوگ تمہاری عبادت میںمشغول رہتے تھے؟ ملائکہ اس کا جواب عرض کریں گے کہ تو پاک اور بے عیب ہے تو ہمارا کارساز ہے وہ نہیں بلکہ یہ لوگ تو شیطانوں کی عبادت کرتے تھے‘‘
باوجودیکہ یہ لوگ عبادت ملائکہ کے مدعی تھے لیکن پھر بھی ان کو شیطان کا عابد قرار دیاگیا۔
عبادت لغیر اللہ:
ان دونوں آیتوں سے نہایت واضح طور پر معلوم ہوتاہے کہ شرک و کفر اور عبادت غیر اللہ بھی دوسرے بامعنی اسماء کی طرح ایک خاص مفہوم اور حقیقت رکھتے ہیں۔ جہاں کہیں بھی وہ مفہوم اور حقیقت پائی جائے وہیں ان الفاظ کااطلاق ہو گا چاہے اس کاارتکاب کرنے والا اپنے اس فعل کو خالص توحید اور ایمان ہی سے تعبیر کرے (۱)۔ الغرض یہ تو ساحر کا حال ہے جو شیطان سے
۱۔ الغرض کسی کی اپنی تعبیر کاکچھ بھی اعتبار نہیں۔ ہمیشہ حقیقت کو ملحوظ رکھا جائے یہ ایک قابلِ قدر تحقیق ہے اور اس کو یاد رکھنا لازم ہے کیونکہ اس تحقیق کے مد نظ نہ رکھنے سے بڑی بڑی غلطیاں واقع ہوتی ہیں اکثر مدعیان علم و دانش
استعانت کرتااور اس کی عبادت میں مشغول رہتا ہے لیکن اس کے دوسرے بھائی حاسد کی شیطان خود مدد کرتا ہے کیونکہ وہ اس کا سچا نائب اور خلیفہ ہے۔ دونوں کو یہ گوارا نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی نعمتوں سے بہرور فرمائے بلکہ وہ ہمیشہ دوسروں کے زوال کے متمنی رہتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل یازدہم
حاسد کے شر پر اِذَا حَسَدَ کی قید:
ایک نکتہ:
یہ بھی قابلِ غور ہے کہ حاسد کے شر کو اِذَا حَسَدَ (جب کہ وہ حسد کرے) کے ساتھ مقید کیا گیا ہے کیونکہ بعض اوقات ایک
اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہمارے زمانہ کے مسلمان چاہے اولیاء کرام کے حق میں کتنا ہی غلو رکھتے ہوں لیکن وہ ان کو اپنا معبود اور اللہ کا شریک نہیںکہتے حالانکہ یہ ایک سادہ حقیقت ہے کہ جب وہ ان و انہیں صفات کا مظہر سمجھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہیں توکوئی وجہ نہیں کہ ان کو مشرک اور عابد لغیر اللہ نہ خیال کیا جائے۔ فتامل (مترجم)۔
شخص کے دل میں حسد موجود ہوتا ہے لیکن وہ اس کو دبائے رکھتا ہے اور اس کی زبان سے یا ہاتھ سے محسود کو کچھ بھی ضرر نہیں پہنچتا ہے بلکہ وہ اپنے بھائی مسلمان کے ساتھ وہی سلوک کرتا ہے جو ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ کرنا چاہئیے اور جس کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے اس قسم کا حسد مضر نہیں اورعموماً اس سے آدمی خالی نہیں رہتا مگر جس کو اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔
مومن حاسد:
حسن بصری رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا مومن حاسد ہو سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے جواب دیا کہ کیاتم نے یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا قصہ بھلا دیا ہے؟ الغرض مومنوں کے دل میں حسد کا پیدا ہوناممکن ہے لیکن وہ اپنے اس جذبہ کی اطاعت نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کو مقدم سمجھتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ سے خوف و حیا کرتا ہے اور جس بات کووہ پسند کرتا ہے اس کو مبغوض رکھنا پسند نہیں کرتا اور اس لئے وہ کسی سے زوالِ نعمت کے خیال کو دل میں جاگزیں ہونے نہیں دیتا بلکہ اس کو ہٹانے میں مشغول رہتا ہے اور محسود کے لئے زیادتی خیر اور دوامِ نعمت کی دعا کرتا رہتا ہے برخلاف اس کے جب حسد کا اثر انسان کے اعضاء اور جوارح میں ظاہر ہو تو وہ حسد مذموم ہے جس کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتا۔
حسد کے مراتب:
حسد کے تین مراتب ہیں۔ ۱۔ یہ کہ وہ کسی دوسرے سے کسی نعمت کا زوال چاہتا ہے۔ ۲۔ کوئی شخص جہالت یا کمزوری یا پریشانی قلب وغیرہ میں مبتلا ہے اور وہ اس شخص کے حق میں یہ نہیں چاہتا کہ اس کی یہ حالت تبدیل ہو اور اللہ تعالیٰ اس بر فضل فرما کر ان مصائب سے ان کو نجات دے اور اس کو اپنی رحمت کا حق دار فرمائے۔
ان دونوں مراتب میں فرق یہ ہے کہ پہلے میں موجود اور محقق نعمت اور دوسرے میں متوقع نعمت پر حسد کیا جاتا ہے لیکن دونوں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کو مبغوض جاننے والے ہیں۔ اس کے بندوں کے دشمن اور دونوں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سخت مبغوض ہیں۔ لوگ بھی ان کو اپنا دشمن خیال کرتے ہیں اور اس لئے وہ اپنی مرضی سے کسی حاسد کو اپنا سردار نہیں بننے دیتے اور نہ کوئی ایسے شخص کی غم خواری اور ہمدردی کرتا ہے۔ لوگ اس شخص کا سردار ہونا پسند کرتے ہیں جو ان کے ساتھ احسان کرے اور ہمدردی سے پیش آئے۔ حاسد کی حکومت اور سیادت کو وہ اپنے حق میں ایک بلا اور مصیبت خیال کرتے ہیں۔ الغرض حاسد لوگوں کو مبغوض سمجھتا ہے اور وہ اس کو مبغوض سمجھتے ہیں۔
۳۔ حسد کی تیسری قسم غبطہ ہے اس میں دوسرے سے زوالِ نعمت کی خواہش نہیں کی جاتی بلکہ ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ جوکمال اور نعمت دوسرے کو حاصل ہے وہ مجھ گو بھی حاصل ہو جائے۔ غبطہ کو مجازًا حسد کہا جاتا ہے ورنہ وہ کوئی معیوب وصف نہیں بلکہ ایک مرغوب اور محمود صفت ہے اللہ تعالیٰ نے اہلِ جنت کا حال بیان کر کے فرمایا ہے کہ: وَفِيْ ذَالِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ
ـ ’’اور ایسے ہی اعلیٰ مقام کے حاصل کرنے کے لئے رشک کرنے والوں کو رشک کرنا چاہئیے‘‘۔
صحیحین میں ایک حدیث ہے کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’صرف دو ہی آدمی ہیں جن کے حال پر حسد کرنا
ـ(رشک کرنا) جائز بلکہ مستحسن ہے۔ ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیاہو اور پھر اس کو راہِ حق میں خرچ کرنے کی توفیق بخشی ہو۔ دوسرا وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے علم نافع عطا فرمایا ہے جس سے وہ خود بھی مستفیض ہوتا ہے اور دوسروںکو بھی اس کی تعلیم دیتا ہے۔ اس قسم کے حسد یعنی غبطہ کامحرک ہمت عالیہ ہوتی ہے جو اس کے اعمال خیر کے کرنے پر ابھارتی ہے اور اہلِ خیر و صلاح کے ساتھ مشابہت حاصل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ کسی دوسرے پر جو انعام اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ اس سے زائل ہو بلکہ اس کے حق میں اللہ تعالیٰ کی بخشی ہوئی نعمتیں برقرار رہنے کی خواہش رکھنے کے علاوہ یہ چاہتا ہے کہ وہ خود بھی انعامِ الٰہی تعالیٰ شانہ کامورد ہو۔
حسد کی یہ قسم آیت کریمہ وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ کے مفہوم میں داخل نہیں۔ اس آیت کریمہ میں حسد کی پہلی دو قسموں کے شر سے پناہ مانگنا مقصود ہے اور محسود کو ایک بہترین علاج کی تعلیم دی گئی ہے کیونکہ اس کا ماحصل اللہ تعالیٰ کی طرف التجا کرتااور اس کی فضل و عنایت پر بھروسہ کرنا ہے اور حاسد کی شر انگیزیوں کی کچھ بھی پروا نہ کر کے مولائے نعم کی طرف رجوع کرنے کی اس میں تلقین ہے۔ گویا کہ محسود یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! تو نے مجھے اپنی نعمتوں سے سرفراز فرمایا ہے، میں تجھ سے اس شخص کے شرسے پناہ مانگتا ہوں جو مجھ سے ان نعمتوں کو چھیننا چاہتا ہے۔
جائے پناہ :
یہ ظاہر ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کو اپنا جائے پناہ قرار دے اور اسی پر بھروسہ کرے اللہ تعالیٰ اس کو تمام پریشانیوں سے نجات دے کر اس کو بے فکر کر دیتا ہے: ومَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ
ـ ’’جو شخص اللہ پر بھروسہ کرتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہے (اس کو کسی دوسرے کے در پر ملتجی ہونے کی مطلق ضرورت نہیں)۔ اِنَّ اللهَ مَوْلَكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيْرُـ ’’وہی اللہ تعالیٰ تمہارا آقا کارساز ہے ا ور وہ بہت ہی اچھاآقااور نہایت ہی اچھا مددگار ہے‘‘۔ تم اس کی نصرت کو دُور نہ سمجھو، اس کے نزدیک مشکل سے مشکل کام کرنا آسان ترین بات ہے۔ وَاللهُ غَالِبٌ عَلَى اَمْرِهِ وَلَكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لاَ يَعْلَمُوْنَ ـ ’’اللہ تعالیٰ جس کام کو کرنا چاہتا ہے اس پر غالب اورقادر ہے لیکن اکثر لوگ اس حقیقتِ واقعیہ سے نا آشنا ہیں‘‘۔ ہر ایک مسلمان کو صرف اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہئیے۔ وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ ـ ’’تمام مسلمانوںکو صرف اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا چاہئیے‘‘۔ اور فقط اسی سے ڈرنا چاہئیے۔ وَيَخْشَوْنَ وَلاَ يَخْشَوْنَ اَحَدًا اِلاَّ الله ـ ’’اللہ تعالیٰ کے رسولوںکی یہ صفت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور اس کے بغیر کسی سے نہیں ڈرتے‘‘۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی اور کا بھی خوف دل میں رکھتا ہے اس کے توکل علی اللہ میں اتنا ہی نقص ہو گا۔ اِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِيْنَ اَمَنُوْا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ
ـ اِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِيْنَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُوْنَ ـ
’’بیشک شیطان کا ان لوگوں پر کچھ بھی تسلط نہیں جوا یمان لائے اور وہ صرف اپنے مالک اللہ پر ہی بھروسہ رکھتے ہیں۔ بیشک وہ انہیں لوگوں پر غلبہ پاتا ہے جواسی کے دوست بنے رہتے ہیں اور جو شیطان کی متابعت کر کے مشرک ہو تے ہیں‘‘۔
دوسری جگہ ارشاد ہے: اِنَّمَا ذَالِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَآئَهُ فَلاَ تَخَافُوْهُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ
ـ ’’بیشک یہ تمہارا شیطان ہی تو ہے جو اپنے دوستوں کے دل میں خوف ڈالتا ہے اس لئے تم اس سے مت ڈرو اور اگر تم ایمان لائے ہو تو مجھ سے ہی ڈرو‘‘
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل دو ازدہم
حاسد کے شر کا فعیہ
حاسد کا شر دس اسباب کے ذریعہ دفع کیا جا سکتا ہے :
پہلا سبب: استعاذہ باللہ
اللہ تعالیٰ کے ساتھ پناہ مانگنا اور اس کی طرف ملتجی ہونا اسی کی سورئہ فلق میں تصریح ہے، قرآن کریم میںہے: وَاِمَّا يَنْزِغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ اِنَّهُ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ
ـ ’’اگر تم کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیش آئے تو تم کو چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ پناہ مانگو بیشک وہی سننے والا جاننے والا ہے‘‘۔
اس سننے سے مراد دعا کا قبول کرنا ہے جیسے کہ سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بڑھاپے میں بیٹا عطا کیے جانے کا ذکر کر کے کہا: اِنَّ رَبِّيْ لَسَمِيْعُ الدُّعَاء
ـ ’’بیشک میرارب دعائیں قبول کرنے والا ہے‘‘۔
سَمِيْعٌ کے ساتھ بعض جگہ میں عَلِيْمٌ اور بعض جگہ میں بَصِيْرٌ مقام کی مناسبت کی وجہ سے ذکر کیاگیا ہے۔ جہاں کسی ایسے دشمن کا ذکر ہے جس کو ہم نہیں دیکھ سکتے اور وہ پوشیدہ طور پر شرارتیں کرتا ہے جیسے شیطان، وہاں پر علیم کا لفظ استعمال کرنا مناسب تھا کیونکہ علیم غیر مرئی چیزوں پر محیط ہوتا ہے اور جہاں کسی ایسے دشمن کا ذکر ہے جس کو آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے اور جس کی شرارتیں نظر سے پوشیدہ نیہں رہتیں وہاں پر بصیر کا لفظ زیادہ موزوں ہے جس کے معنی ہیں دیکھنے والا۔ چنانچہ اس آیت میں ہے کہ: اِنَّ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْ آيَاتِ اللهِ بِغَيْرِ سُلْطَانٍ اَتَهُمْ اِنْ فِيْ صُدُوْرِهِمْ اِلاَّ كِبْرٌ مَاهُمْ بِبَالِغِيْهِ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ اِنَّهُ هُوْ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ
ـ ’’بیشک وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے بارے میں غیر نازل شدہ دلیل کے جھگڑتے رہتے ہیں ان کے سینوں میں تکبر بھرا ہوا ہے جہاں تک ان کی رسائی نہیں اس لئے تم کو چاہئیے کہ ان کے شر سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ پناہ مانگو بیشک وہ سننے والا دیکھنے والا ہے‘‘۔
اس سے تم کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ قرآن کریم میں اسمائے حسنیٰ کااستعمال نہایت موزوں اور مناسب مقام پر ہوا ہے (یہ نہیں کہ کہیں ایک اسم رکھ دیا کہیں دوسرا)۔
دوسرا سبب خشیت الٰہی اور امر بالمعروف اورنہی عن المنکر پر عمل:
اللہ تعالیٰ سے ڈرنااور اس کے امر اور نہی کو بجالانا، کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا اور تقویٰ اختیار کرتا ہے خود اللہ تعالیٰ اس کا نگہبان اور متولی ہوتا ہے اور اس کو کسی دوسرے کے حوالے نہیں کرتا۔ وَاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا لاَ يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا
ـ ’’اگر تم صبر و استقلال اور تقویٰ اختیار کرو تو ان حاسد کافروں کی سازشیں تم کو کچھ بھی نقصان نہیں پہنچائیں گی‘‘۔
سیدناا بن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ کاخیال رکھو گے تو تم اس کو اپنے سامنے پاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کا لحاظ رکھو گے تو وہ تمہارا نگہبان ہو گا‘‘ اور تم جانتے ہو کہ جس کو اللہ رکھے ا س کو کون چکھے۔
تیسرا سبب: الصبر علی عدوّہ
ـٖ ۔ اپنے دشن کے مقابلے میں صبر کرنا اور اس کے ایذاء پہنچانے اور تکلیف دینے کا خیال تک دل میںنہ لانا، کیونکہ صبر اور توکل علی اللہ کا ثمرہ ہمیشہ دشمن پر فتح اورکامیابی ہوتی ہے۔ بیشک بعض اوقات اللہ تعالیٰ کی نصرت (انسان کے اپنے تخمینہ کے بموجب) کسی قدر دیر سے پہنچتی ہے لیکن تم کو اس ے گھبرانانہیں چاہئیے اور دشمن کے بغی اور عدوان کو دیکھ کر بے صبر نہیںہونا چاہئیے۔ مظلوم اپنی کوتاہ نظری کے باعث صرف بغی اور عدوان کو دیکھ سکتا ہے لیکن اس کامآل اور انجام ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اس کی (مظلوم کی) کامیابی پر ہوتا ہے۔ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنْصُرَنَّهُ اللهُ ـ ’’جس شخص پر ظلم کیا گیا اگر وہ اسی مقدار میں (انصاف کی حدود سے تجاوز نہ کر کے) اس کاانتقام لے ا ور اس پر پھر دوبارہ تعدی کی جائے تو یقینااللہ تعالیٰ اس کی مدد کرے گا اوراس کو دشمن پر فتحمندی کرے گا‘‘۔
کیا اللہ تعالیٰ کے اس مؤکد وعدے میں تمہیں شک ہے؟ یہ آیت کریمہ اس کی حق میں ہے جس نے ایک مرتبہ بقدر اپنے حق کے انتقام لیا ہو اور پھر اس پر زیادتی کی گئی لیکن جس نے ابتداء میں صبر کیا اور اپنے آپ کو انتقام سے باز رکھا کیااس کے حق میں بطریقِ اولیٰ نصرت کا یہ وعدہ نہیں ہو گا؟ اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ وہ ہمیشہ ظالم کو سزا دیتا ہے یہاں تک کہ کہا گیا ہے کہ اگر مثلاً ایک پہاڑ دوسرے پہاڑ پر ظلم کرے تو اللہ کاقانون اس کو ہموار کئے بغیر نہیں چھوڑے گا۔
چوتھا سبب : توکل علی اللہ
اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنا، کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروہ رکھتا ہے وہ اس کو تمام مہمات سے بے فکر کر دیتا ہے اگر مخلوق کی طرف سے تم کو کوئی ایسی تکلیف پہنچے جس کو تم اپنی قوت اور اپنی طاقت سے رفع نہیں کر سکتے توایسی حالتوں میں اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنااور اس کی نصرت کاامید وار رہنا کامیابی اور فتح مندی کا قوی ترین سبب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ : وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ
ـ ’’جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتا ہے وہ اس کے لئے کافی ہے‘‘۔


اس لئے جس کی خبر گیری کا خود اللہ تعالیٰ ضامن ہے بھلا وہ بھی کبھی ناکام ہو سکتا ہے؟ ارشاد ہوتا ہے کہ : لَنْ يَّضُرُّوْكُمْ اِلاَّ اَذًى
ـ ’’تمہارے دشمن تم کو ہرگز ضرر نہ پہنچا سکیں گے البتہ تم کو کسی قدر تکلیف پہنچے گی‘‘۔ آخری فقرے کا مقصد ان تکلیفات کا پیش آنا ہے جن سے قانونِ قدرت نے کسی ا نسان کو مستثنیٰ نہیں فرمایا جیسے گرمی اور سردی اور بھوک اور پیاس وغیرہ۔ علاوہ ازیں بعض تکلیفیں جو انسان کو پہنچتی ہیں وہ درحقیقت اس کے لئے فائدہ بخش ہوتی ہیں:
وَعَسَى اَنْ تَكْرَهُوْا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ
ـ ’’ممکن ہے کہ تم ایک بات کو ناپسند کرو لیکن وہی تمہارے حق میں بہتر ہو‘‘۔
اس لئے کسی ایسی تکلیف کے درمیان جو انسان کے حق میں خیرِ کثیر کا باعث ہو اور ایسی تکلیف جس سے دشمن اپنا جی ٹھنڈا کرے بہت بڑا فرق ہے۔ متوکل علی اللہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے دوسری قسم کی تکلیفات سے بچانے کاذمہ لیا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ اس کو پہلی قسم کی کوئی تکلیف پیش آئے ۔ ایک بزرگ کا قول ہے کہ ہر ایک عمل کی جزا اسی کی جنس سے ہوتی ہے اور چونکہ متوکل علی اللہ نے تمام دوسری اشیاء سے منہ موڑ کر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پاک پر بھروسہ کیاہے اس لئے آیت مذکورہ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ کے بموجب خود اللہ تعالیٰ اس کا ضامن اور کفیل بنا ہے اس لئے کوئی شخص سچے طور سے ا للہ تعالیٰ پر توکل کرے تو اگر زمین و آسمان مل کر اس کے برخلاف سازش کریں تب بھی اللہ تعالیٰ اس کو ان کی سازش کے شر سے محفوظ رکھ کر اس کی نصرت فرمائے گا۔ توکل کی حقیقت اس کے فوائد اور اس کی ضرورت کا ہم نے اپنی کتاب الفتح القدسی میں مفصل بیان کیا ہے (۱)۔
ہم نے وہاں اس بات پر بھی بحث کی ہے کہ جو لوگ اس مقام کو معلول کہتے ہیں اور عوام کے مقامات سے خیال کرتے ہیں، ان کا یہ قول باطل ہے جس کے دلائل ہم نے وہاں پر مفصل بیان کئے ہیں اور اس بات کی تصریح کی ہے کہ توکل کا مقام عارفین کے
۱۔ اگر کسی کویہ کتاب نہ ملے تو وہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب احیاء العلوم میں باب التوکل مطالعہ کرے۔ ۱۲۔
بلند ترین مقامات میں سے ہے اور کسی عارف کا مرتبہ کتنا ہی بلند ہو وہ اس سے مستغنی نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے توکل کی مقدار سے اس کے ایمان کا درجہ معلوم ہوتا ہے۔
پانچواںسبب: قلب و فکر کو حسد سے خالی رکھنا:
اپنے دل کو حاسد کے ساتھ مشغول رکھنے اور اس کے بارے میں کچھ سوچنے سے بالکل بچایا جائے اور اگر اس قسم کا کوئی خطرہ دل میں پیدا ہو تو اسے مٹانے کی فکر میں مصروف ہو بلکہ اس کی طرف التفات اور توجہ تک نہ کرے۔ یہ اس کے شر کو دفع کرنے کا زبردست علاج ہے۔ اور اس کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص و اسک ادشمن اس لئے ڈھونڈتا ہے کہ وہ اس سے دست و گریبان ہو جائے تو اس صورت میں وہ اپنے دشمن سے گتھم گتھا ہو جائے تو یقینا وہ بہت کچھ تکلیف پائے گا اور دشمن کو اس پر زور آزمائی کرنے کا موقع مل جائے گا لیکن اگر وہ اس کی طرف متوجہ نہ ہو اور اس سے بالکل بے اعتنائی کرے تو اس حالت میں اس کے شر سے بچا رہے گا۔ ارواح کی بعینہ یہی کیفیت ہے حاسد کی روح اپنے محسود کو ایذا پہنچانے اور تکلیف دینے کی طرف ہر وقت متوجہ رہتی ہے اس لئے اگر محسود کی رُوح بھی اس کی طرف متوجہ ہو تو دونوں کے درمیان ایک دائمی آویزش کی صورت پیداہو جائے گی اور دونوں کی رُوح اس وقت تک بے چین اور مضطرب رہے گی جب تک ایک ان میں سے ہلاک نہ ہو جائے، لیکن اگر محسود اپنے قوائے روحانی اور آلاتِ فکر کو ادھر متوجہ ہونے نہ دے اور اگر بالفرض اس قسم کا کوئی خطرہ اس کے دل میں پیدا ہو تو اس کو مٹانے اور زائل کرنے میں مشغول ہو یہ طرزِ عمل اس کے حق میں بہت زیادہ مفید ہو گا۔
حسد ایک آگ ہے جس کے لئے ایندھن کی ضرورت ہے اور جب محسود ایسا طرزِ عمل اختیار کرے جس سے اس کو مطلق ایندھن نہ ملے تو اس کے شعلے خود حاسد کو بھسم کر ڈالیں گے اور محسود اس کے شر سے محفوظ رہے گا۔
نفوس شریفہ اپنے دشمنوں کے حق میں یہی رویہ اختیار کرتے ہیں اور اس میں ایک ایسی روحانی حلاوت ہے کہ جس نے ایک مرتبہ اس کامزہ چکھ لیا ہو اس کو اپنے دشمن کے خیال میں منہمک ہونا اورا پنے قوائے روحانی اور آلاتِ فکر کو ادھر متوجہ رکھنا ایک مصیبت اور عذاب معلوم ہوتا ہے ان کو اللہ تعالیٰ کی نصرت پر پورا بھروسہ ہوتا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ہماری اپنی کوششیں اللہ تعالیٰ کی کفالت کے سامنے ہیچ ہیں اس کے وعدے سچے اور اس کی نصرت تمام دوسرے نصرت کے اقسام سے بڑھ کر ہے : وَمَنْ اَوْفَى بِعَهْدِهِ
ـ ’’اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر اور کون اپنے وعدوں کا سچا ہے‘‘۔ وَمَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللهِ قِيْلاً ـ ’’اور اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کون اپنے قول میں سچا ہو سکتا ہے؟ ‘‘ـ لیکن اس سبب خاص پر عمل کرنے کی اسی سعادتمند کو توفیق ملتی ہے جس نے چھٹے سبب پر عمل کیا ہو جس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:
چھٹا سبب: رضائے الٰہی کی تلاش میں استغراق :
اپنی توجہ کو نہایت اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کرنے پر مرکوز رکھے اور اپنے دل کو اللہ تعالیٰ کی محبت اور اخلاص سے اس حد تک معمور کر دے کہ جہاں پر خواطرِ نفسانی اور وسادسِ شیطانی کا گزر ہوا کرتا تھا وہاں پر اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے لئے اخلاص اور اس کی خوشنودی کی لبالب بھری ہو اس کی مثال ایک محب صادق کی ہو جس کا باطن اپنے محبوب کے خیال سے اس قدر بھرپور ہوتا ہے کہ اس میں یادِ محبوب کے بغیر اور کسی چیز کی مطلق گنجائش نہیں ہوتی۔
ایسی حالت میں وہ اس بات کو کب گوارا کر سکتا ہے کہ اس کے قلب میں حاسد کا خیال جاگزین ہو اور اس سے انتقام لینے کی فکر میں مشغول ہو؟ ایسے خیالات صرف اس دل میں آسکتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کی خوشنودی کی طلب نے جگہ نہ بنائی ہو۔ بیشک جن دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اور اس کے اخلاص نے گھر کر لیا ہے ان کا نگہبان خود اللہ تبارک وتعالیٰ ہے اور وہ دمن کے تسلط سے محفوظ رہتے ہیں۔ ا للہ تعالیٰ اپنے کلامِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ جب ابلیس کو اپنی نجات سے مایوسی ہوئی تو اس نے بارگاہِ رب العزت میں عرض کی کہ: فَبِعِزَّتِكَ لَاُغْوِيَنَّهُمْ اَجْمَعِيْنَ اِلاَّ عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِيْنَ
ـ ’’تیری عزت کی قسم! یقینا ان سب کو گمراہ کروں گا لیکن تیرے مخلص بندے اس سے بچے رہیں گے‘‘۔ آگے ازراہِ تصدیق ارشاد ہوتا ہے کہ : اِنَّ عِبَادِ لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ اِلاَّ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِيْنَ ـ ’’بیشک میرے بندگانِ خاص پر تمہارا کچھ بھی تسلط نہیں ہو گا بلکہ تمہاری جماعت میں وہی گمراہ داخل ہوں گے جو باختیار خود تمہاری پیروی کریں گے‘‘۔ یوسف صدیق علیہ السلام کے حق میں وارد ہے : كَذَالِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْئَ وَالْفَحْشَآئَ اِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَ الْمُخْلَصِيْنَ ـ
’’اسی طرح ہم نے اس سے بُرائی اور بے حیائی کو دُور کیا کیونکہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھا‘‘۔
جو شخص اس قلعہ میںداخل ہوا وہ بڑاسعادتمند ہے وہ ہر ایک قسم کے خوف سے امن میں رہے گا اور دشمن اس کے قریب نہیں جا سکے گا۔
ساتواں باب: گناہوں سے استغفار
آدمی کواپنے گناہوں سے تائب ہوناچاہئیے کیونکہ دشمن کے مسلط ہونے کا سب سے بڑا سبب انسان کے اپنے گناہ ہوتے ہیں۔ وَمَا اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ
ـ ’’جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کا کسب و عمل ہے‘‘۔ نبی ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو (جو امت کے برگزیدہ ترین افراد کا مجموعہ تھے) جنگِ احد کے موقع بر اس طرح مخاطب کیاگیاہے : اَوَلَمَّا اَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَةٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَيْهَا قُلْتُمْ اَتَى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ ـ ’’کیا جب تم کو مصیبت پہنچی بحالیکہ تم اس سے دگنی مصیبت اپنے دشمنوں کو پہنچا چکے تھے تو تم کہنے لگے کہ ہیں! یہ مصیبت کہاں سے؟ اے محمد (ﷺ) ان سے صاف کہہ دیں کہ یہ مصیبت تمہارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے‘‘۔
الغرض انسان کو جو تکلیف بھی آئے وہ اس کے گناہوں کا نتیجہ ہو گا خواہ اس کو اپنے ان گناہوں کاعلم ہو یا نہ ہوکیونکہ جن گناہوں کاانسان کو علم ہوتا ہے ان سے کئی گنا ایسے گناہ ہوتے یہں جن کا اس کو علم نہیں ہوتا اور وہ ان کو بھول جاتا ہے ایک مشہور دعائے ماثورہ میںہے: اَللَّهُمَّ اِنِّيْ اَعُوْذُبِكَ مِنْ اَنْ اُشْرِكَ بِكَ شَيْئًا وَ اَنَا اَعْلَمُ وَاسْتَغْفِرُكَ لِمَالاَ اَعْلَمُ
ـ ’’اے اللہ! میں تیرے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں نے دانستہ تیرے ساتھ کسی کو شریک بنایا ہو اور میں ان گناہوں کی تجھ سے معافی چاہتا ہوں جن کو میں نہیں جانتا‘‘۔
اس لئے آدمی کو لازم ہے کہ وہ اپنے ان گناہوں کی بابت بھی معافی اور مغفرت طلب کرے جن کو وہ نہیں جانتا ہے اور جن کی شامت سے اس کو مصائب اور تکالیف پیش آتی ہیں۔
ایک بزرگ سے منقول ہے کہ کسی نے اس سے سخت کلامی کی اور بُرا بھلا کہاوہ بزرگ فوراً اپنے گھر میں داخل ہوا اور دروازہ بند کر کے اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ کبریائی میں تضرع کی اور گڑگڑایا اور اپنے دانستہ یا نادانستہ گناہوں کی بابت بخشش طلب کی تب باہر نکل کر اس شخص سے اس طرح مخاطب ہوا کہ ’’میںنے اپنے گناہوں سے توبہ کر لی ہے جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تمہیں مجھ پر مسلط فرمایا تھا‘‘۔
ہم کسی موقع پر ذکر کریںگے کہ جہاں بھر میں جتنی شر کی قسمیں پائی جاتی ہیں وہ بنی نوع انسان کے گناہوں اور ان کے نتائج و اسباب تک محدود ہیں (۱) ۔ اگر انسان گناہوں سے سلامت رہے تو بالضرور ان کے نتائج سے بھی سلامت رہے گا۔ اس لئے اگر کسی شخص پر دشمن مسط ہو اور اس پر تعدی کرے اور اس کو تکلیف پہنچائے تو اس کے لئے مفید ترین تدبیر یہ ہے کہ وہ سچے دل سے توبہ کرے اور اس کی سعادتمندی اسی میں ہے کہ بجائے اس کے کہ دشمن سے انتقام لینے کی فکر کرے اپنے گناہوں اور عیوب پر نظر ڈالے اور ان سے تائب ہو کر اپنے اعمال کی اصلاح میں مشغول ہو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ خود اس کی حفاظت اور اس کی نصرت فرمائے گا۔
آٹھواں سبب: صدقہ اور نیکی کا عمل لازم گرداننا :
تاحد امکان صدقہ دینااور نیکی کرنا، بلا ، مصیبت، نظر بد اور حسد کا شر دفع کرنے میں اس کا اثر حیرت انگیز ہوتا ہے۔ زمانہ قدیم اور زمانہ حال میں مختلف لوگوں نے تجربے کئے اور اب یہ بات مسلم ہو چکی ہے کہ صدقہ دینے والے اور نیکی کرنے والے اشخاص نظرِ بد اور حسد کے شر سے محفوظ رہتے ہیں اور اگر ان کو کوئی مصیبت پہنچ بھی جائے تو اس کی عاقبت محمود ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم اور اس کی تائید ان کے شاملِ حال رہتی ہے۔ صدقہ دینے والے محسن کے لئے اس کا صدقہ اور احسان ایک قلعہ ہے ایک سپر ہے جو اس کا محافظ ہوتا ہے۔
مختصر بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر نعمت کو زوال سے محفوظ رکھتا ہے اور نعمت کے زائل ہونے کاایک قوی ترین سبب حاسد کا حسد ہے ، جس کا دل نعمت زائل ہوئے بغیر ٹھنڈا نہیں ہوتا اس لئے آدمی کو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوںکا شکر کرناچاہئے جس کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اس کی خوشنودی حاصل کرنے میں صرف کیا جائے اور یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ کی معصیت سے بڑھ کر اور کوئی چیز نعمت کو زائل نہیں کرتی اور اس یکا نام کفرانِ نعمت ہے جس کا مآل بعض اوقات یا اکثر اوقات کفر ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ
نواں سبب: آتشِ حسد کو احسان سے بجھانا۔
حاسد کی آتشِ حسد کے شراروں کو اس کے ساتھ احسان کر کے بجھایا جائے اور جس قدر وہ تعدی میں زیادتی کرے اتنا ہی اس کے ساتھ احسان زیادہ کرے اور اس کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کر کے ہر طرح اس کی اعانت کرے لیکن دشمن سے اس قسم کا سلوک کرنا نفس پر نہایت ہی شاق گزرتا ہے اور اس کے بہت کم خوش نصیب اور سعادت مند لوگوں کو ایسا کرنے کی توفیق ملتی ہے۔
قال الله تعالىٰ : لاَ تَسْتَوِىْ الْحَسَنَةُ وَلاَ السَّيِّئَةُ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةق كَاَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ
ـ وَمَا يُلَقَّهَا اِلاَّ الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَمَا يُلَقَّهَا اِلاَّ ذُوحَظٍّ عَظِيْمٍ ـ ’’نیکی اور بُرائی ایک جیسی نہیںتم برائی کے بدلے میں اچھے سے اچھا سلوک کرو جس کانتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن تمہارا سرگرم دوست بن جائے گا لیکن اس کی توفیق انہیں کو دی جتی ہے جو صبر اور ثابت قدمی کی صفت سے موصوف ہیں اور اس پر عمل کرنے والا کوئی بڑا ہی سعادتمند ہوگا‘‘۔
نبی ﷺ نے ایک پیغمبر کا حال بیان فرمایا ہے کہ اس کی قوم نے راہِ حق میں اس کو پتھروں سے مار مار کر خون آلود کیا تو اس نے اپنے چہرے سے خون کو پونچھتے ہوئے کہا کہ اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِيْ فَاِنَّهُمْ لاَ يَعْلَمُوْنَ
ـ ’’اے اللہ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ نہیں جانتے‘‘۔
اس ایک ہی کلمے میں اس نے احسان کے چار مقامات کو جمع کر لیا ہے۔
۱۔ ان کی سخت ترین برائی کو معاف کیا۔
۲۔ ان کے لئے بخشش طلب کی۔
۳۔ خود ان کے لئے ایک عذر پیش کیا کہ وہ نہیں جانتے ۔
۴۔ اللہ تعالیٰ کی مہربانی کو زیادہ قریب لانے کے لئے ان کی نسبت اپنی طرف کی اور کہا کہ میری قوم کو ۔
جیسے کوئی شخص کسی حاکم کے پاس سفارش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ میرا غلام ہے میرا بیٹا یا میرا دوست ہے، اس سے اس حاکم کومہربان کرناا ور شفاعت کو زیادہ مؤثر بنانا مقصود ہوتا ہے۔ اگرچہ اس مقام کا حاصل کرنا دشوار ہے لیکن پھر بھی اس کو آسان بنانے کاایک طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ تم اپنے دل میں سوچ لو کہ آخر تم نے بھی تو اللہ کے گناہ کئے جن کی سزا سے تم خائف ہو اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت کے امیدوار ہو اور اس پر اکتفا نہیں بلکہ تم یہ بھی جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم پراپنا فضل اورانعام فرمائے اور تم کو جنت میں داخل کر کے درجاتِ عالیہ سے سرفراز فرمائے۔ جب تم اپنے حق میں اللہ تعالیٰ سے یہ سلوک چاہتے ہو تواس سے پہلے تم کو چاہئیے کہ خود اپنے حاسدوں اور بدخواہوں سے جو تمہارے گنہگار ہیں، عفو اور احسان کاسلوک کرو، یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی تم سے ایسا ہی سلوک کرے گا کیونکہ جزا عمل کے جنس سے ہوتی ہے بصورتِ دیگر تم کو اللہ تعالیٰ سے اس قسم کے سلوک کی توقع رکھنے کا کوئی حق حاصل نہیں، علاوہ ازیں اگر تم اپنے دشمنسے درگزر کر کے اس کے ساتھ احسان کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس میں تمہاری امداد فرمائے گا اور تمہارے لئے یہ مشکل اور دشوار عمل آسان ہوجائے گا۔
ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کی خدمت میں اپنے قرابت والوں کی شکایت کی کہ میں ان سے نیکی کرتا ہوں اور وہ مجھ سے برُائی کرتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’جب تک تم اس عمل پر قائم رہو گے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے ساتھ ایک (غیبی) مددگار رہے گا‘‘۔ قطع نظر آخرت کے ثواب اور اجر کے اس دنیا میں بھی ایسا شخص لوگوں میں ہر دلعزیز ہوتا ہے اور وہ اس کے ثناء خواں رہتے ہیں اور دشمن کے مقابلے میں وہ ہمیشہ اس کا ساتھ دیتے ہیں کیونکہ جو شخص کسی
وسرے کے ساتھ احسان کرتا ہے اور وہ دوسرا ا سے بُرائی کرتاہے تو ہر ایک شخص فطری طور پر اوّل الذکر کا ساتھ دے گا ا ور دوسرا اس کے نزدیک قابلِ ملامت ہو گا اس لئے دشمن کے ساتھ احسان کر کے تم نے گویا نامعلوم طور پر اپنے ساتھیوں اور مددگاروں کالشکر بنا لیا جو نہ تم سے تنخواہ مانگتے ہیں اور نہ روٹی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
حاسد کے لئے ایسی حالت میں دو صورتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ اس کے متواتر احسانات سے متاثر ہو کر حسد چھوڑ دے اور اسکا بندئہ احسان بن جائے۔ اس صورت میں وہ دونوں شیر وشکر ہو کر ایک دوسرے کے دوست بن جائیں گے اور اگر بالفرض اس کا خبث نفس اس کو چھوڑنے نہیں دیتا اور ہ اپنے محسود کو ضرر پہنچانے اور تکلیف دینے سے باز نہیں آتا تو اس کا انجام یقینا حاسد کی ہلاکت ہو گا۔ الغرض تم اپنے حاسد اور بدخواہ کے سا تھ احسان کر کے اس کو نیچا دکھا سکتے ہو او رخود تم کو وہ سچی خوشی حاصل ہو سکتی ہے جس کا حصول انتقام کی حالت میں ہرگز متصور نہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کرنیکی توفیق مرحمت فرمائے، وهو الموفق والمعين اس مقام میںپورے ایک سو سے زائد دینی اور دنیاوی فوائد انسان کو حاصل ہوتے ہیں جن کی تفصیل کسی دوسرے موقع پر کی جائے گی انشاء اللہ تعالیٰ۔
دسواں سبب: عالمِ اسباب کو نظر انداز کر کے خالقِ حقیقی کو نفع و ررکا مالک سمجھنا:
دسواں سبب ان سب کا جامع اور سب کا اسی پر مدار ہے یعنی تمام ظاہری اسباب سے اپنی نظر کو آگے بڑھا کر مسبب الاسباب پر اپنی نظر جمانا اور اس بات کا یقین رکھنا کہ تمام علل اور اسباب خالق تعالیٰ کے ارادے اور اس کی قدرت کے ساتھ وابستہ ہیں اور اس کے ا ذن کے بغیر کچھ بھی ضرر یا نفع نہیں پہنچا سکتے۔ وہی کسی کے دل میں ڈالتا ہے کہ تم سے احسان کرے اور کسی کے دل میں ایک ایسی صفت پیدا کر دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ تمہارے ساتھ بُرائی کرنے پر آمادہ ہوتا ہے۔ وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللهُ بِضُرٍّ فَلاَ كَاشِفَ لَهُ اِلاَّ هُوَ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلاَ رَآدًّ لِفَضْلِهِ
ـ ’’اگر اللہ تعالیٰ تم کو کوئی تکلیف پہنچائے تو سوائے اس کے اور کوئی بھی اس کو دُور نہیں کر سکتا اور اگر وہ تمہارے حق میں بھلائی کرنا چاہے تو کوئی بھی اس کی مہربانی کو رد نہیں کرسکتا۔ (۱)
نبی ﷺ نے سیدناعبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو مخاطب کر کے فرمایا کہ:
’’تم جان لو کہ اگر تمام لوگ اکٹھٍے ہو کر تم کوکوئی نفع پہنچانا چاہیں اوراللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے مقدر نہ کیا ہو تو وہ ہر گز تم کو وہ
۱۔ ولنعم ما قیل :
از خدا داں خلاف دشمن و دوست کہ دل ہر دو درتصرف اوست
گرچہ تیر از کمال ہمیں گزرد از کماں دار بیند اہلِ خرد
نفع نہیں پہنچا سکیں گے اسی طرح اگر وہ سب اکٹھے ہو کر تم کو کوئی تکلیف پہنچانا چاہیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تقدیر میں نہیں لکھی ہے تووہ ہرگز تم کو کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچا سکیں گے ‘‘۔
جب انسان اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھ لے اور اپنی توحید کو خالص کرے تو اس کے دل سے ماسویٰ کا خوف نکل جاتا ہے اور وہ دشمن کی مخالفانہ کوششوں کو پرکاہِ کی وقعت نہیں دیتا کیونکہ اس کی بیم و امید صرف اللہ تعالیٰ سے اور اس کی انابت اور توکل فقط اپنے رب جل شانہ پر ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ اپنے آلاتِ فکریہ کو دشمن سے ڈرنے اور اس سے انتقام لینے کے خیال میں صرف کرے تو اس سے اس کی توحید میں نقصان آجائے گا جس کو وہ ہمیشہ خالص اورکامل رکھنا چاہتا ہے اور اس حالت میں خود اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرماتا ہے اور اس کو حاسدوںاور دشمنوں کے شر سے بچاتا ہے: اِنَّ اللهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِيْنَ اَمَنُوْا اِنَّ اللهَ لاَ يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُوْرٍ
ـ ’’بیشک اللہ تعالیٰ مومنوں کی حمایت فرماتا ہے اور بیشک وہ ہر ایک خائن اور ناسپاس کو دوست نہیں رکھتا ‘‘۔
اس لئے اگر کسی شخص کاایمان کامل ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کی حمایت فرمائے گا کیونکہ اس کے وعدے سچے ہیں اور ان کے خلاف ہونا ناممکن ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ اس کی حمایت کما حقہ نہیں فرماتا ہے تو یقین سمجھ لو کہ اتنا ہی اس کاایمان ناقص ہوگا۔
ایک بزرگ کا قول ہے کہ جو بالکلیہ اپنے اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ بھی بالکلیہ اس سے منہ پھیر لیتا ہے لیکن جو شخص کبھی کبھی اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ بھی کبھی کبھی اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔
الغرض توحید ایک مستحکم قلعہ ہے جو شخص اس کے اندر داخل ہوا وہ تمام بینات او رمصائب سے مامون ہو گا۔ ایک بزرگ کا قول ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس سے ہر ایک چیز ڈرتی ہے لیکن جو شخص اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا ہے وہ ہر ایک چیز سے ڈرتا ہے۔
استحضارِمافات :
یہ پورے دس سبب ہیں جن کے ذریعہ حاسد، ساحر اور نظر بد لگانے والے کا شر دفع کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے مفید تر کوئی بات نہیں کہ انسان بالکلیہ اپنے اللہ کی طرف متوجہ ہو اسی پر اس کا بھروسہ ہے اور اس کے بغیر کسی کا خوف نہ کرے اور نہ کسی سے امید رکھے، اس کا دل اللہ تعالیٰ کے بغیر کسی کے ساتھ لٹکا ہوا نہ ہو اور نہ وہ کسی دوسرے کو مصیبت کے وقت پکارے یا اس سے فریاد خواہی کرے کیونکہ جس کے دل میں کسی دوسری چیز کی محبت ہو اور اس کے ساتھ اس کا دل معلق ہو یا اس کی بیم و امید کا مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات پاک نہ ہو یا کسی دوسرے کا خوف اس کے دل میں جاگزیں ہو وہ اسی غیر کے حوالے کیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے اپنی نگہبانی اٹھا لیتا ہے یہی اللہ تعالیٰ کا قانونِ حکمت ہے اور اس میں تبدیلی نہیں آتی۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل سیز دہم
سورئہ فلق کا ماحصل
چار فرقے:
سورئہ فلق کی تفسیر کے ضمن میں تمہیں بعض ایسے نافع اور مفید اصول بتا دئیے گئے ہیں جن کا جاننا انسان کے لئے از بس لازم ہے کیونکہ وہ دین و دنیا کے سود و بہبود پرمشتمل ہیں۔ تم کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ حاسد کے نفس اور اس کی آنکھوں میں ایک زہریلا اثر ہے اور شیاطین کی روحیں سحر و جادو کے ذریعہ سے اپنا اثر ظاہر کرتی ہیں۔ حاسد و شیاطین کے متعلق چار مختلف عقیدے لوگوں میں پیدا ہوئے ہیں۔
پہلا فرقہ متکلمین و مادہ پرست:
یہ فرقہ دونوں کے اثر کا منکر ہے لیکن یہ لوگ اپنے گھروں میں دو جماعتوں میں منقسم ہو گئے ہیں:
۱۔ پہلی جماعت نفوسِ ناطقہ اور جنون کے وجود کی قائل ہے لیکن ان کی تاثیر کی منکر ہے۔ یہ ان متکلمین کا قول ہے جن کو قویٰ اور اسباب کی تاثیر سے انکار ہے۔
۲۔ دوسری جماعت سرے سے ان کا وجود نہیں مانتی، ان کا قول ہے کہ انسان اسی ظاہری جسم اورخدوخال کا نام ہے جس میں چند ایک صفات اور اغراض موجود ہیں لیکن روح یا نفس ناطقہ کا کوئی مستقل وجود نہیں۔ جن اور شیطان انسان کے اعراض ہیں (۱) جو اس کے ساتھ قائم ہیں۔ اکثر مادہ پرست اور بعض نام نہاد حکمائے اسلام کا یہی مذہب ہے، بعض متکلمین بھی اسی کے قائل ہیں جن کی سلف نے سخت مذمت کی ہے اور ان کو اہلِ بدعت و ضلالت سے موسوم کیا ہے۔
دوسرا فرقہ: معتزلہ وغیرہ :
یہ فرقہ اس بات کا منکر ہے کہ نفسِ انسانی کا بدن سے الگ
۱۔ اعراض جمع عرض کی ہے، عرض اس کو کہتے ہیں جس کا بذاتِ خود کوئی مستقل وجود نہ ہو بلکہ کسی دوسری چیز کے ضمن میں اس کا وجود پایا جائے، مثلاً سیاہی اور سفیدی علم اور جہل وغیرہ کا بذاتِ خود کوئی مستقل وجود نہیں بلکہ کسی چیز یا کسی انسان کے وجود سے ان کا وجود وابستہ ہے۔ (مترجم)۔
کوئی مستقل وجود ہے لیکن جن اور شیطان کے وجود مستقل کے وہ قائل ہیں معتزلہ اور بعض دیگر متکلمین کا یہی قول ہے۔
تیسرا فرقہ، کاہن وغیرہ:
اس فرقہ کاعقیدہ اس کے برعکس ہے یعنی نفس انسانی کا بدن سے ا لگ مستقل وجود مانتے ہیں لیکن جن اور شیطان نفسِ انسانی ہی کے قویٰ اور صفات کانام ہے۔ مسلمان حکمیاء کی ایک بڑی جماعت اس قول کی تائید میں ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ دنیا میں جو عجیب و غریب اثرات اور خوارقِ عادات پائے جاتے ہیں وہ سب نفسِ انسانی کے مظاہر ہیں۔ سحر اور کہانت (۱) ان کے نزدیک نفسِ انسانی کے ظاہرئہ قویٰ کا ایک کرشمہ ہے۔
شیخ بوعلی سینااور اس کے اتباع کا یہی قول ہے اور انہوں
۱۔ نبی ﷺ کی بعثت سے پیشتر عرب میں کثرت سے کاہن موجود تھے جو غیب دانی کے مدعی تھے اور پیشین گوئیاں کرتے تھے جن میںسے بعض پیشن گوئیاں ایک حد تک سچی ثابت ہوتی تھیں ان لوگوں کے پیشہ کو کہانت کہتے ہیں ۔
نے اپنے اس قول کو یہاں تک وسعت دی ہے کہ رسولوں کے معجزات کو بھی اسی کی ایک قسم تصور کیاہے اہلِ ملل کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ رسولوں کے اتباع میں داخل نہیں۔
چوتھا فرقہ اہلِ حق:
یہ فرقہ اتباعِ رسل اور اہلِ حق کا ہے جو اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ انسان کا نفسِ ناطقہ اس کے بدن سے الگ ایک مستقل وجود رکھتا ہے۔ اسی طرح جن اور شیاطین کے لئے بھی وہ مستقل وجود مانتے ہیں اور ان کے لئے وہی صفتیں ثابت کرتے ہیں جن کا اثبات اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور ان کے شر سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ پناہ مانگتے ہیں کیونکہ ان کااعتقاد ہے کہ سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی ان کو شر سے بچانے والا نہیں۔
الغرض ان چار فرقوں میں سے یہی ایک فرقہ حق پر ہے دوسرے فرقوں کے اقوال میں حق اور باطل دونوں باہم ملے ہوئے ہیں۔ واللهُ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآئُ اِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ
ـ
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
باب سوم
تفسیر سورۃالناس
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَانِ الرَّحِيْمِ
قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ 0 مَلِكِ النَّاسِ 0 اِلَهِ النَّاسِ 0 مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ 0 الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِ 0 مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ 0
بسم اللہ ا لرحمن الرحیم
’’(اے محمد ﷺ! لوگوں سے) کہہ دے کہ (اے لوگو!) میں تمام لوگوں کے بادشاہ اور تمام لوگوں کے معبود کی پناہ ڈھونڈتا ہوں، وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے ، وہ شیطان جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ (بُرے خیالات) ڈالتا رہتا ہے وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں سے‘‘۔
استعاذہ بِرَبِّ النَّاسِ :
یہ سورۃ بھی پہلی سورۃ کی طرح استعاذہ اور مستعاذبہ اور مستعاذ منہ پر مشتمل ہے۔ استعاذہ کی تو وہی تفصیل ہے جس کا ذکر سورئہ فلق میں گزر چکا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصلِ اوّل
مستعاذبہ اور مستعاذ منہ
معانی:
مستعاذبہ (جس کے ساتھ پناہ لینا مطلوب ہے) اللہ تعالیٰ ہے جس کو ان صفات سے موصوف کیا گیا ہے:
رَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ اِلَهِ النَّاسِ
ـ ’’تمام لوگوں کا پرورش کرنے والا، تمام لوگوں کا بادشاہ، تمام لوگوں کا معبود‘‘۔
مستعاذہ منہ (جس سے پناہ لی گئی ہے) شیطان ہے جس کے شر کے ساتھ ان اسمائے پاک کی مناسبت کا ہونا ضروری ہے، اس لئے ہم پہلے ان تینوں الفاظ کی وضاحت کا مفہوم ظاہر کرتے ہیں اور اس کے بعد مناسبت کی وجہ ذکر کریںگے۔ انشاء اللہ تعالیٰ
ربّ کی تفسیر:
ربّ الناس میں الناس کی طرف رب کا لفظ مضاف کیا گیا ہے جس کا اشتقاق ربوبیت سے ہوا ہے، جس کے معنی ہیں لوگوںکا پیدا کرنا، ان کی پرورش کرنا، ان کی ضروریات کو پورا کرنا اور ہر ایک طرح سے ان کی خبرگیری فرمانا، اس لئے ربوبیت کا مفہوم اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کی قدرت کامل ہو، اس کا علم وسیع اور محیط ہو، وہ اپنی مخلوق کی ضروریات سے واقف ہو اور اس کی رحمت اور احسان کی کوئی انتہاء نہ ہو۔
مَلِكِ کی تفسیر:
لفظ مَلِكِ النَّاسِ میں مَلِكِ یعنی بادشاہ کا لفظ الناس کی طرف مضاف کیا گیاہے جس کے معنی یہ ہیں کہ تمام لوگ اس کے تابع فرمان بندے ہیں اور وہ جس طرح چاہتا ہے ان میں تصرف کرتا ہے۔ کوئی اس کی قدرت کاملہ کے دائرہ سے باہر نہیں اور ہر ایک طرح سے اس کو ان پر تسلط حاصل ہے وہ ان کا سچا بادشاہ ہے جس کی طرف وہ ہر ایک تکلیف اور مصیبت کے پیش آنے پر رجوع کرتے ہیں اور ان کے تمام امورِ کلیہ اور جزئیہ کا انصرام اسی کے ہاتھ میں ہے۔
اِلَهِ کی تفسیر:
لفظ اِلَهِ النَّاسِ میں اِلَهِ یعنی معبود کا لفظ الناس کی طرف مضاف بنایا گیا ہے جس کا ملخص یہ ہے کہ وہی اس کا سچا معبودہے اور اسی طرح اس کی ربوبیت اور اس کی بادشاہت میں کوئی بھی شریک نہیں۔ اسی طرح صرف وہی عبادت کا مستحق ہے اور اس کی عبادت میں کسی کو بھی شرکت کا حق حاصل نہیں۔
قرآن کا اسلوب:
قرآن کریم کا اسلوبِ کلام یہی ہے کہ جا بجا مشرکوں کو اپنی ربوبیت اور اپنی بادشاہت کا قائل کر کے اس سے اپنی الوہیت اور معبودیت کے استحقاق پر ا ستدلال فرماتا ہے جس میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کے شریک بنا رکھے ہیں۔ (۱)
خلاصۂ کلام: جب یہ ثابت ہوا کہ وہی ہمارا رب ہے وہی ہمارا بادشاہ
۱۔ ورنہ ربوبیت اور بادشاہت میں تو وہ بھی اسکو وحدہ لا شریک مانتے ہیں مترجم
اور وہی ہمارا معبود ہے تو ان باتوں کو مان کر ہمیں چاہئیے کہ مصائب اور تکلیف میں اسی کی طرف رجوع کریں، اسی کو اپنی اعانت کے لئے پکاریں اور اسی کے ساتھ اپنی بیم و امید کو وابستہ رکھیں، اسی کی محبت سے ہمارے دل بھرپور ہوں اور اسی پر ہمارا بھروسہ اور توکل ہو، اس کے بغیر کسی دوسرے کے سامنے اپنا سرِنیاز نہ جھکائیں اور کسی دوسرے کی بارگاہ میں طلبِ حاجات کے لئے نہ گڑگڑائیں کیونکہوہی ہمارا رب اور ہمارے تمام امور کا والی ہے ہم اس کے مملوک بندے ہیں اور وہی ہمارا سچا بادشاہ ہے جس کے ہاتھ ہمارے تمام مطالبات کی کنجی ہے، وہی ہمارا سچا معبود ہے جس سے ہم ایک لمحہ بھر بے نیاز نہیں ہو سکتے اور جس کی طرف ہمارا احتیاج اس سے بہت زیادہ ہے جتنے کہ ہم اپنی روح اور اپنی زندگی کے محتاج ہیں، اس لئے ہم سب کے لئے لازم ہے کہ ہر وقت اسی کی بارگاہِ کبریائی میں اپنی جبینِ نیاز زمین پر رگڑیںاور مصائب و شدائد کے وقت اسی کے آگے دستِ التجا پھیلائیں، ہماری تمام احتیاجوں کووہی رفع فرما سکتا ہے او رفرمائے گا اور ہر ایک قسم کی مشکل وہی آسان کر سکتا ہے اور کرے گا۔ اس تمام تقریر سے تمہیں شر شیطان سے پناہ مانگنے کے لئے جو انسان کا شدید ترین دشمن ہے ان اسمائے حسنیٰ اور صفاتِ عالیہ کی وجہ مناسبت معلوم ہو گئی ہو گی۔
جامعیت ِ ثلاثہ :
اس مسلسل عبارت میں لفظ الناس کو جو ان اسمائے حسنیٰ کا مضاف الیہ ہے بارہا دہرایا گیا ہے اور ضمیر پر اکتفا نہیں کیا گیا۔ اس میں یہ نکتہ ہے کہ مخاطب کو صراحتًا معلوم ہو جائے کہ ربوبیت، بادشاہت او رمعبودیت تینوں مستقل صفات ہیں اورتینوں کے مفہوم کو الگ الگ ذہنوں میں رکھنا چاہئیے تاکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کا صفحۂ دل پر گہرا نقش آجائے۔ ان الفاظ کی تربیت میں ایک نہایت دلچسپ نکتہ ملحوظ رکھا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ربوبیت کی صفت کو اپنے عموم کی وجہ سے ان میں تصرف کرنے اور اپنے امر و نہی کو اس میں نافذ کرنے کی باری آتی ہے اورنافذ الامر بادشاہ ہونا ربوبیت کے سادہ مفہوم کی تکمیل ہے، اس لئے ترتیب طبعی کے مطابق کے لفظ کو دوسری جگہ پر رکھنا مناسب تھا اسی طرح بادشاہت کاکمال الوہیت میں ہے اور الوہیت کا مفہوم ان تینوں صفات میں خاص تر واقع ہوا ہے کیونکہ ہر ایک مالک اور بادشاہ معبود نہیں ہوتا اس لئے سا کا سب سے پیچھے ذکر کرنا موزوں تھا۔
علاوہ ازیں یہ تینوں اسماء بلحاظ جامعیتِ معنی کے تمام اسمائے حسنیٰ کے معانی پر مشتمل ہیں۔
ربّ الناس کا مفہوم :
ربّ الناس کا لفظ ا پنے وسیع مفہوم میں مندرجہ ذیل اسمائے حسنیٰ کے معانی کو لئے ہوئے ہے: 1
ـ اَلْقَادِرُ ـ قدرت رکھنے والا ۔ 2ـ اَلْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ـ پیدا کرنے والا ، خدوخال بنانے والا اور تصویر کھینچنے والا۔ 3ـ اَلْحَيُّ الْقَيُّوْمُ ـ وہ زندہ برقرار جس کی ذ۱ت پاک کے ساتھ سب مخلوقات کا قیام ہے اور وہ ان کا قیوم ہے۔
4
ـ اَلْعَلِيْمُ ـ جاننے والا۔ 5ـ اَلسَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ ـ سننے والا اور دیکھنے والا ۔ 6ـ اَلْمُحْسِنُ الْمُنْعِمُ ـ احسان کرنے والا اور نعمتیں دینے والا۔ 7ـ اَلْجَوَّادُ ـ نہایت سخی اور فیاض ۔ 8ـ اَلْمُعْطِيُ الْمَانِعُ ـ اپنے قانونِ حکمت کے مطابق دینے اور روکنے والا۔ 9ـ اَلضَّارُ النَّافِعُ ـ نفع و ضرر پہنچانے والا۔ 10ـ اَلْمُقَدِّمُ الْمُؤَخِّرُ ـ کسی کو آگے اور کسی کو پیچھے کرنے والا۔ جس کو چاہتا ہے اپنے قانونِ حکمت کے مطابق ہدایت دیتا ہے اور جس کو چاہے گمراہی میں چھوڑتا ہے، کسی کو سعادت بخشتا ہے اور کسی کو متقی بناتا ہے، عزت اور ذلت اپنی مشیت کے موافق دیتا ہے اور اس کے یہ تمام تصرّفات قانونِ حکمت کے مطابق ہوتے ہیں۔
مَلِكِ النَّاسِ کا مفہوم:
مَلِكِ النَّاسِ کو وسیع ترین معنوں میں لیا جائے تو ذیل کے اسمائے حسنیٰ کا مفہوم اس کے ضمن میں آجاتا ہے۔ 1
ـ اَلْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُـ غالب اپنے زبردست قانونِ قدرت کے اتباع پر تمام مخلوقات کو مجبور کرنے والا، عظمت اور کبریائی والا۔ 2ـ اَلْحَكَمُ الْعُدْلُ ـ حکومت کرنے والا باانصاف ۔ 3ـ اَلْخَافِضُ الرَّافِعُ ـ کسی کو (حسبِ استحقاق) نیچے پھینکنے والا اور کسی کے درجات بلند کرنے والا۔ 4ـ اَلْمُعِزُّ الْمُذِلُّ ـ عزت اور ذلت دینے والا۔ 5ـ اَلْعَظِيْمُ الْجَلِيْلُ الْكِبِيْرُ ـ عظمت اور جلال اور کبریائی والا۔ 6ـ اَلْوَالِيُ الْمُتَعَالِيْ ـ بڑی شان والا، حاکم متصرف۔ 7ـ مَالِكُ الْمُلْكُ ـ تمام بادشاہت کا مالک وغیرہ وغیرہ۔
اِلهِ النَّاسِ کا مفہوم:
اِلَهِ النَّاسِ کا لفظ تو تمام اسمائے حسنیٰ کے معانی پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا مفہوم (معبودِحق) تمام صفاتِ کمال کا جامع ہے چنانچہ لفظ اِلَهِ کے اشتقاق کے متعلق سیلوبہ اور دیکر نحاۃ کایہ قول بالکل درست ہے کہ یہ دراصل الالٰہ تھا ادغام کے بعد اللہ ہو گیا اور نیز یہ کہ اللہ اسمِ ذات ہے اور اس لئے وہ تمام اسمائے حسنیٰ کے معانی پر جو اسمائے صفات ہیں مشتمل سمجھا جاتا ہے۔ الغرض چونکہ یہ تینوں اسماء تمام اسمائے حسنیٰ کے معانی کو اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہیں اس لئے جو شخص شیطان کے شر سے ان کے ساتھ پناہ طلب کرے گا وہ مستحق ہے کہ اس کو ا س کے شر سے پناہ دی جائے اور وہ اس کے وسوسہ سے محفوظ رہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل دوم
سورئہ فلق اور سورئہ ناس کا مقابلہ!
دنیاوی شرور :
سورئہ فلق میں ان شرور سے پناہ مانگنے کا ذکر ہے جو خارج سے انسان کو پیش آتے ہیں اور سورئہ ناس میں اس شر عظیم کا ذکر ہے جو خود انسان کے اندر موجود ہے اور جس سے بچنا خود اس کی اپنی قوتِ مدافعت پر منحصر ہے، دنیا میں شر کی دو ہی بڑی بڑی قسمیں ہیں، ایک ذنوب اور معاصی کاشر اور دوسرا مصائب اور تکالیف کا شر۔ پہلی صورت میںمؤخر الذکر قسم کے شر سے پناہ مانگی گئی ہے اور دوسری سورت میں اوّل الذکر قسم کے شر سے پناہ طلب کی کئی ہے جس کا اصل ہمیشہ شیطان کا وسوسہ ہوتا ہے، لیکن انسان کو اس کے اثرات روکنے کا اختیار حاصل ہے اور آدمی اس پر غالب آ سکتا ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فصل سوم
وسواس کی تفسیر
لفظی و اصلاحی معنی : وسوسہ کے اصلی معنی ہیں، آہستہ سے کوئی بات کہنا جس کا حاضرین کو احساس نہ ہو۔ اصطلاح میں اس کے معنی ہیں شیطان کا کسی کے دل میں برائی کا خیال ڈالنا۔ اس قسم کے مصدر میں عموماً تکرار کے معنی ہوتے ہیں اور شیطان کے القاء کو اس واسطے وسوسہ کہنا مناسب ہے کہ وہ بھی بار بار القاء کرتا ہے۔
وسواس کے لفظ میں نحویوں کا اختلاف ہے (۱) کہ وہ مصدر
۱۔ ہر ایک فریق نے اپنے قول کی ترجیح میں لمبے چورے استدلالات کئے ہیں جن کا بیان کرنا عام ناظرین کے لئے دلچسپی کا موجب نہ ہونے کے علاوہ ان کی سمجھ سے بھی کسی قدر بالاتر ہو گا اس لئے ان مباحث کا حذف کرنا انسب معلوم ہوا۔ مترجم
ہے یا صفت لیکن راجح قول یہ ہے کہ وسواس اسم صفت ہے، جس کے معنی ہیں وسوسہ ڈالنے والا اور اس سے مراد شیطان ہے۔
شیطان کا وسوسہ تمام گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کی جڑ ہے اور شیطان کاوسوسہ ایک ایسا شر ہے جس کا سبب خود انسان کے اندر موجود ہے اور اس کا تعلق انسان کے کسب اور اختیار سے ہے اور اس لئے اس بچنے کا وہ خود ذمہ دار ہے کیونکہ شیطان کا وسوسہ اس وقت تک کچھ بھی شر نہیں پیدا کرتا جب تک آدمی خود اس کو قبول نہ کرے اوراس پر عمل پیرا نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نے سورئہ ابراہیم میں ہماری تنبیہہ کیلئے شیطان کا ایک مکالمہ نقل فرمایا ہے جو قیامت کے روز وقوع میں آئے گا۔ اس میں ایک آیت یہ ہے کہ: وَمَا كَانَ لِيْ عَلَيْكُمْ مِّنْ سُلْطَانٍ اِلاَّ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجِبْتُمْ لِيْ فَلاَ تَلُوْمُوْنِيْ وَلُوْمُوْا اَنْفُسَكُمْ
ـ
’’(شیطان کا قول ہے) اور مجھ کو تم لوگوں پر کسی قسم کا ذرہ بھر تسلط نہیں تھا میرا کام صرف ا تناتھا کہ میں نے تم کو بلایا اور تم نے ا س کو قبول کر لیا اس لئے تم مجھ کو ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ کو ملامت کرو‘‘۔
 
Top