• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’خارجیت، سبائیت اورشیعیت‘‘ بجواب ’’رافضیت ، ناصبیت اوریزیدیت‘‘ (نقد وتبصرے)۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
45
پوائنٹ
70
"حسین رضی اللہ عنہ جب کوفہ کے لیے روانہ ہوئے تو ان کا مقصد کیا تها. اس بارے میں مستند اور صریح روایات پیش کردیں تو غور و فکر میں آسانی ہوجائے گی. براے کرم"

میری اتنی سی گذارش تهی ورنہ متن سے تو بہت کچه اخذ کیا جاسکتا ہے وہ بهی جس کے نہ آپ قائل ہیں نہ ہم.
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
"حسین رضی اللہ عنہ جب کوفہ کے لیے روانہ ہوئے تو ان کا مقصد کیا تها. اس بارے میں مستند اور صریح روایات پیش کردیں تو غور و فکر میں آسانی ہوجائے گی. براے کرم"

میری اتنی سی گذارش تهی ورنہ متن سے تو بہت کچه اخذ کیا جاسکتا ہے وہ بهی جس کے نہ آپ قائل ہیں نہ ہم.
محترم
متن سے تو بہت کچه اخذ کیا جاسکتا ہے وہ بهی جس کے نہ آپ قائل ہیں نہ ہم
اپ کا اشارہ کس جانب ہے وضاحت کر دیں
دوسری بات اگر متن سے بہت کچھ اخذ کیا جاسکتا ہے تو پھر ذرا اس کے متن سے دیکھیں اپ کیا اخذ کرتے ہیں۔
خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ يُؤْتِي اللَّهُ الْمُلْكَ أَوْ مُلْكَهُ مَنْ يَشَاء
سنن ابوداودرقم 4646
اس سے اپ کیا اخذ کرتے ہیں یہ ضرور بتائے گا
اب ذرا اس بات کی جانب چلتے ہیں جو اپ نے سوال کیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے ابن عباس ،ابن عمر رضی اللہ عنہم نے ان کو روکنے کی کوشش کی مگر وہ جانا چاہتے تھے
- حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا إِسْحَاقُ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: اسْتَأْذَنَنِي حُسَيْنٌ فِي الْخُرُوجِ، فَقُلْتُ: لَوْلَا أَنْ يُزْرِيَ ذَلِكَ بِي أَوْ بِكَ لَشَبَكْتُ بِيَدِي فِي رَأْسِكَ. قَالَ: فَكَانَ الَّذِي رَدَّ عَلَيَّ أَنْ قَالَ: «لَأَنْ أُقْتَلَ بِمَكَانِ كَذَا وَكَذَا أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُسْتَحَلَّ بِي حَرَمُ اللهِ وَرَسُولِهِ» . قَالَ: فَذَلِكَ الَّذِي سَلَى بِنَفْسِي عَنْهُ(الطبرانی کبیر رقم2859)
یہ ایک روایت کافی ہے حسین رضی اللہ عنہ کا موقف سمجھنے کے لئے کہ انہوں نے حکومت وقت سے بیعت نہیں کرنی تھی اگر کر لیتے تو یہ اسلامی ریاست بن جاتی اس لئے انہوں نے قتل ہونا منظور کر لیا مگر بیعت نہیں اور کوفے جانا اس لئے تھا کہ ان کو معلوم تھا احادیث میں ان کی شہادت کے بارے میں بتایا گیا ہےاس لئے وہ جانتے تھے انہیں کہاںشہید ہونا ہے اور دوسری بات وہ مکہ اور مدینہ کی حرمت پامال نہیں کرنا چاہتے تھے اورکوفہ میں صحابی رسول سلیمان بن صرد نے ان کو خط لکھ کر بلایا تھا اس لئے بھی وہاں جا رہے تھے۔اللہ سب کو ہدایت دے
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
@اسحاق سلفی
محترم ،
[FONT=kfgqpc uthman taha naskh, trad arabic bold unicode, tahoma]میں منتظر ہوں رافضیت کی نقاب کشائی کا اپ میری نقاب کشائی کرتے کرتے کہاں چلے گئے [/FONT]
[FONT=kfgqpc uthman taha naskh, trad arabic bold unicode, tahoma]اپ میری نقاب کشائی کیا کریں گے میں الحمدللہ اہل سنت کے منہج پر ہوں مگر میں اہل حدیث میں چھپے ناصبی افکار کو ضرور بے نقاب کروں گا انشاء الله [/FONT]
 

abdullah786

رکن
شمولیت
نومبر 24، 2015
پیغامات
428
ری ایکشن اسکور
25
پوائنٹ
46
محترم :

آپ کے پیش کردہ دلائل سے مزید ایسے سوالات کھڑے ہو جاتے جن کے نہ آپ کے پاس جوابات ہوتے ہیں نہ تاریخ کے پاس ان کے جواب ہوتے ہیں- پہلی بات تو یہ کہ اس حق و باطل کی جنگ کے لئے اپنے ساتھ عورتوں اور بچوں کو ساتھ لیجانا چہ معنی دارد؟؟- پھر یہ کہ حضرت حسین رضی الله عنہ سے افضل صحابہ کرام ابن عمر رضی الله عنہ ، ابن عباس رضی الله عنہ، حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ وغیرہ کا ایمان اس موقعہ پر کہاں گیا کہ ان انہوں نے یزید بن معاویہ کے خلاف حضرت حسین رضی الله عنہ کا ساتھ دینا تو دور کی بات ان کو اس مشن پر جانے سے منع کیا - ؟؟

اور رافضی فکر رکھنے والے اہل سنّت کہتے ہیں کہ یزید بن معاویہ کے دور اسلام مردہ ہو چکا تھا جس کو حسین رضی الله عنہ نے اپنے غیر مسلح جہاد کے ذریے (عورتوں و بچوں کی سنگت میں جلیل و القدر صحابہ کرام رضوان الله اجمین کی غیر موجودگی میں ) زندہ کردیا ؟؟-

امام بخاری رحم الله کی صحیح روایت میں ہے کہ :

حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَيُّوبَ عَنْ نَافِعٍ قَالَ لَمَّا خَلَعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ جَمَعَ ابْنُ عُمَرَ حَشَمَهُ وَوَلَدَهُ فَقَالَ إِنِّى سَمِعْتُ النَّبِىَّ – صلى الله عليه وسلم – يَقُولُ «يُنْصَبُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ». وَإِنَّا قَدْ بَايَعْنَا هَذَا الرَّجُلَ عَلَى بَيْعِ الله وَرَسُولِهِ، وَإِنِّى لاَ أَعْلَمُ غَدْرًا أَعْظَمَ مِنْ أَنْ يُبَايَعَ رَجُلٌ عَلَى بَيْعِ الله وَرَسُولِهِ، ثُمَّ يُنْصَبُ (صحیح بخاری)


نافع کہتے ہیں کہ جب مدینہ والوں نے يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ کی بیعت توڑی تو عبدللہ ابن عمر رضی الله تعالیٰ عنہ نے اپنے خاندان والوں کو جمع کیا اور کہا کہ میں نے نبی صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ ہر دغا باز کے لئے قیامت کے دن اک جھنڈا گا ڑھا جائے گا – اور بے شک میں نے اس آدمی (یزید بن معاویہ) کی بیعت کی ہے الله اور اس کے رسول (کی اتبا ع پر) اور میں کوئی ایسا بڑا عذر نہیں جانتا کہ کسی کی الله اور رسول کے لئے بیعت کی جائے اور پھر توڑی جائے-

اور اسی بغاوت کے خطرے کے پیش نظر حضرت ابن عمر رضی الله عنہ نے لوگوں کو نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کا یہ فرمان سنایا کہ اللہ اور رسول کے نام پر کی گئی بیعت کو توڑنے اور بغاوت کرنے سے بڑھ کر کوئی معاہدے کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے-

مزید یہ کہ یہ بھی آپ کی غلط فہمی ہے کہ "جب معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس صلح نامے کی مخالفت کرکے یزید کو خلیفہ نامزد کیا تو حسین رضی اللہ عنہ کا کھڑا ہونا لازمی تھا اس لئے وہ کھڑے ہوئے کہ یہ تو مسلمانوں کو ان کے طریقہ سے ہی ہٹایا جا رہا ہے کہ شوری ختم کردی ہے اور باپ کے بعد بیٹا حکومت سنبھالنے لگے گا"

یزید بن معاویہ رحم الله کو ان کے والد امیر معاویہ رضی الله نے ملوکیت کے تحت نامزد نہیں کیا تھا تاریخ طبری اور تاریخ ابن سعد کی صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ یزید رح کو خلیفہ نامزد کرنے پہلے ان کے والد حضرت امیر معاویہ رضی عنہ نے متعدد جلیل القدر صحابہ کرام سے ان کی خلافت کے بارے میں مشورے لئے تھے - بلکہ اکثر روایت میں تو یہ بھی کہ یزید رح کی خلافت کا موقف سب سے پہلے جلیل القدر صحابی رسول حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ نے پیش کیا تھا- (طبری۔ 4/1-115) ظاہر ہے کہ صحابہ کرام کے بڑی تعداد یزید رح کی خلافت پر متفق تھی اور ان کے اخلاق و کردار پرمطمئن تھی تب ہی تو ان کو خلیفہ نامزد کیا گیا -

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کی نامزدگی کے بعد جمعہ کے خطبے میں منبر پر جو دعا کی، اس سے ان کے خلوص کا اندازہ ہوتا ہے:

اے اللہ! اگر آپ کے علم میں ہے کہ میں نے اسے (یزید) کو اس لیے نامزد کیا ہے کہ وہ میری رائے میں اس کا اہل ہے تو اس ولایت کو اس کے لیے پورا فرما دیجیے۔ اور اگر میں نے اس لیے اس کو محض اس لیے ولی عہد بنایا ہے کہ مجھے اس سے محبت ہے تو اس ولایت کو پورا نہ فرمایے۔ (ابن کثیر۔ 11/308)
اے اللہ! اگر میں نے یزید کو اس کی اہلیت دیکھ کر ولی عہد بنایا ہے تو اسے اس مقام تک پہنچا دیجیے جس کی میں نے اس کے لیے امید کی ہے اور اس کی مدد فرما۔ اگر مجھے اس کام پر صرف اس کی محبت نے آمادہ کیا ہے جو باپ کو بیٹے سے ہوتی ہے تو اس کے مقام خلافت تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کی روح قبض فرما لیجیے۔ ( جلال الدین سیوطی۔ تاریخ الخلفاء۔ 164۔ باب یزید بن معاویہ۔ بیروت: دار ابن حزم۔)

غور کرنے کا مقام یہ ہے کہ جس باپ کے دل میں چور ہو، کیا وہ عین نماز جمعہ میں اپنے بیٹے کے لیے یہ دعا کر سکتا ہے؟؟

آپ نے ابن کثیر رحم الله کی روایات بیان کیں اور سمجھا کہ آپ نے اہل بعیت کی محبّت کا حق ادا کردیا -تو ملاحظه ہو امام کثیر رحم اللہ کی ایک روایت جو یزید بن معاویہ رحم الله کی پاکبازی کی گواہی دیتی ہے -.

امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے امام مدائنى کی روایت مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:
وقد رواه أبو الحسن على بن محمد بن عبد الله بن أبى سيف المدائنى عن صخر بن جويرية عن نافع ۔۔۔۔۔۔۔۔ ولما رجع أهل المدينة من عند يزيد مشى عبد الله بن مطيع وأصحابه إلى محمد بن الحنفية فأرادوه على خلع يزيد فأبى عليهم فقال ابن مطيع إن يزيد يشرب الخمر ويترك الصلاة ويتعدى حكم الكتاب فقال لهم ما رأيت منه ما تذكرون وقد حضرته وأقمت عنده فرأيته مواضبا على الصلاة متحريا للخير يسأل عن الفقه ملازما للسنة قالوا فان ذلك كان منه تصنعا لك فقال وما الذى خاف منى أو رجا حتى يظهر إلى الخشوع أفأطلعكم على ما تذكرون من شرب الخمر فلئن كان أطلعكم على ذلك إنكم لشركاؤه وإن لم يطلعكم فما يحل لكم أن تشهدوا بما لم تعلموا قالوا إنه عندنا لحق وإن لم يكن رأيناه فقال لهم أبى الله ذلك على أهل الشهادة فقال : ’’ إِلَّا مَنْ شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ‘‘ ولست من أمركم فى شىء قالوا فلعلك تكره أن يتولى الأمر غيرك فنحن نوليك أمرنا قال ما أستحل القتال على ما تريدوننى عليه تابعا ولا متبوعا قالوا فقد قاتلت مع أبيك قال جيئونى بمثل أبى أقاتل على مثل ما قاتل عليه فقالوا فمر ابنيك أبا القاسم والقاسم بالقتال معنا قال لو أمرتهما قاتلت قالوا فقم معنا مقاما تحض الناس فيه على القتال قال سبحان الله آمر الناس بما لا أفعله ولا أرضاه إذا ما نصحت لله فى عباده قالوا إذا نكرهك قال إذا آمر الناس بتقوى الله ولا يرضون المخلوق بسخط الخالق (البداية والنهاية: 8/ 233 )


امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748) رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو مع سند نقل کرتے ہوئے کہا:
وَزَادَ فِيهِ الْمَدَائِنِيُّ، عَنْ صَخْرٍ، عَنْ نَافِعٍ: فَمَشَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ وَأَصْحَابُهُ إِلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِيَّةِ، فَأَرَادُوهُ عَلَى خَلْعِ يَزِيدَ، فَأَبَى، وَقَالَ ابْنُ مُطِيعٍ: إِنَّ يَزِيدَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ، وَيَتْرُكُ الصَّلاةَ، وَيَتَعَدَّى حُكْمَ الْكِتَابِ، قَالَ:مَا رَأَيْتُ مِنْهُ مَا تَذْكُرُونَ، وَقَدْ أَقَمْتُ عِنْدَهُ، فَرَأَيْتُهُ مُوَاظِبًا لِلصَّلاةِ، مُتَحَرِيًّا لِلْخَيْرِ، يَسْأَلُ عَنِ الْفِقْهِ [تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 5/ 274]


جب اہل مدینہ یزید کے پاس سے واپس آئے تو عبداللہ بن مطیع اوران کے ساتھی محمدبن حنفیہ کے پاس آئے اوریہ خواہش ظاہر کی کہ وہ یزید کی بیعت توڑدیں لیکن محمد بن حنفیہ (حضرت علی رضی الله عنہ کے فرزند) نے ان کی اس بات سے انکار کردیا ، تو عبداللہ بن مطیع نے کہا: یزید شراب پیتاہے ، نماز یں چھوڑتا ہے کتاب اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ تو محمدبن حنفیہ نے کہا کہ میں نے تو اس کے اندر ایسا کچھ نہیں دیکھا جیسا تم کہہ رہے ہو ، جبکہ میں اس کے پاس جاچکا ہوں اوراس کے ساتھ قیام کرچکاہوں ، اس دوران میں نے تو اسے نماز کا پابند، خیر کا متلاشی ، علم دین کا طالب ، اورسنت کا ہمیشہ پاسدار پایا ۔ تولوگوں نے کہاکہ یزید ایسا آپ کو دکھانے کے لئے کررہاتھا ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اسے مجھ سے کیا خوف تھا یا مجھ سے کیا چاہتاتھا کہ اسے میرے سامنے نیکی ظاہرکرنے کی ضرورت پیش آتی؟؟ کیا تم لوگ شراب پینے کی جوبات کرتے ہو اس بات سے خود یزید نے تمہیں آگاہ کیا ؟ اگرایسا ہے تو تم سب بھی اس کے گناہ میں شریک ہو ، اوراگر خود یزید نے تمہیں یہ سب نہیں بتایا ہے تو تمہارے لئے جائز نہیں کہ ایسی بات کی گواہی دو جس کا تمہیں علم ہی نہیں ۔ لوگوں نے کہا: یہ بات ہمارے نزدیک سچ ہےا گرچہ ہم نے نہیں دیکھا ہے ، تو محمدبن حنفیہ نے کہا: اللہ تعالی اس طرح کی گواہی تسلیم نہیں کرتا کیونکہ اللہ کا فرمان ہے: ''جو حق بات کی گواہی دیں اورانہیں اس کا علم بھی ہو'' ، لہذا میں تمہاری ان سرگرمیوں میں کوئی شرکت نہیں کرسکتا-

محترم آپ کو مخلصانہ مشوره ہے کہ تعصب کی عینک اتار کر اگر روایت و تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہی صحیح صورت حال سامنے آے گی - الله سب کو ہدایت دے -
@محمد علی جواد
[FONT=kfgqpc uthman taha naskh, trad arabic bold unicode, tahoma]محترم ،[/FONT]
[FONT=kfgqpc uthman taha naskh, trad arabic bold unicode, tahoma]میں منتظر ہوں آپ اہل سنت کا قول پیش کرنے والے تھے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت تھی اہل سنت میں تو نہیں نواصب میں اپ کو یہ قول بھرپور مل جائے گے [/FONT]
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
میری محترم شیخ @کفایت اللہ صاحب سے گزارش ہے کہ یا تو تبصروں پر جواب دے دیا کریں ، یا پھر تھریڈ کو مقفل یا تبصروں کا حذف کردیا کریں ، کیونکہ کسی اور انتظامیہ رکن کے لیے کیا سوال کے لائق ہے یا نہیں ؟ فیصلہ کرنا مشکل ہے ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top