• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’فَاقْرَءُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ‘‘

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
’’فَاقْرَءُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ‘‘

’’جتناقرآن آسانی سے پڑھ سکو پڑھ لیا کرو۔‘‘

شیخ الحدیث حافظ عبدالستار حماد​
نوٹ

ماہنامہ رشد علم قراءت نمبر حصہ اول کی فہرست پر جانے کےلیے یہاں کلک کریں​
شیخ الحدیث مولانا ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ کا ’درس ِحدیث‘ صحیح بخاری کی ’کتاب التوحید‘ سے متعلق ان کی تصنیف سے ماخوذ ہے۔ محترم حافظ صاحب حفظہ اللہ کو اللہ تعالی نے اس امتیاز سے نوازا ہے کہ آپ جہاں حدیث وعلوم حدیث پر گہری نظر رکھتے ہیں، وہاں قرآن وعلوم قرآن کے بھی متخصص ہیں، کیونکہ آں جناب حفظہ اللہ جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ کے کلِّیۃ القرآن الکریم سے سند ِفضیلت رکھتے ہیں اور آپ نے عالم مصر کے مشائخ اَہل فن اور کبار اساتذہ سے قراء ات و علوم ِقراء ات کا درس لیا ہے۔ مدینہ منورہ یونیورسٹی میں آپ نے مولانا حافظ عبد الغفار اعوان حفظہ اللہ ( مرکزی راہنما جماعۃ الدعوۃ)، مولانا حافظ عبد الرشید خلیق حفظہ اللہ (مدرس جامعہ لاہور الاسلامیہ)، شیخ القراء قاری محمد ادریس العاصم حفظہ اللہ اور شیخ القراء قاری اَحمد میاں تھانوی حفظہ اللہ وغیرہ کے ہمراہ درس ِ قراء ات لیا۔ (ادارہ)
(۷۵۵۰) حدثنا یحیی بن بکیر قال حدثنا اللیث عن عقیل عن ابن شہاب قال:حدثنی عروۃ أن المسور بن مخرمۃ وعبد الرحمن بن عبد القاري حدَّثاہ أنھما سمعا عمر بن الخطاب یقول: سمعت ہشام بن حکیم یقرأ سورۃ الفرقان فی حیاۃ رسولِ اﷲ! فاستَمَعْتُ لقراء تہ فإذا ھو یقرأ علی حروفٍ کثیرۃ لم یقرئنیھا رسولُ اﷲ! فکِدْتُ أساورہ فی الصلاۃ فتصبَّرتُ حتی سلَّم فلبَبْتُہ بردائہ فقلت : من أقرأکَ ھذہ السورۃ التی سمعتُکَ تَقْرأ؟ قال: أقرأنِیْھَا رسولُ اﷲ! فقلت:کذبت أقرأنیھا علی غیر ما قرأت فانطلقتُ بہ أقودُہ إلی رسولِ اﷲ! فقلت:إنِّی سمعتُ ھذا یقرأ سورۃ الفرقان علی حروف لم تقرئنیھا فقال: (أرسلہ،اقرأ یا ھشام) فقرأ القراء ۃ التي سمعتُہ فقال رسولُ اﷲ!:(کَذَلِکَ أنْزِلَتْ)ثم قال رَسُوْلُ اﷲِ! (إقْرَأ یَا عُمَرُ) فقرأتُ الَّتِيْ أقْرَأنِیْ فقال:(کَذَلِکَ أنْزِلَتْ،إنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ أنْزِلَ عَلٰی سَبْعَۃِ أحْرُفٍ فَاقْرَئُ وْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ) ( صحیح البخاري:۲۴۱۹)
’’حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہاکہ میں نے ہشام بن حکیم رضی اللہ عنہ کورسول اللہﷺکی زندگی میں سورۃ الفرقان پڑھتے سنا، میں نے ان کی قراء ت کی طرف کان لگایاتو وہ قرآن مجید بہت سے ایسے طریقوں سے پڑھ رہے تھے جو رسول اللہﷺنے مجھے نہیں پڑھائے تھے، قریب تھاکہ میں نماز ہی میں ان پرحملہ کردیتا، لیکن میں نے صبر سے کام لیا اور جب انہوں نے سلام پھیرا تو میں نے ان کی گردن میں چادر کاپھندا ڈال دیااور کہاکہ تمہیں یہ سورت اس طرح کس نے پڑھائی ہے انہوں نے کہا مجھے اس طرح رسول اللہ1 نے پڑھائی ہے میں نے کہا تم جھوٹ بولتے ہو، مجھے تورسول اللہﷺنے یہ سورت اس طرح نہیں پڑھائی چنانچہ میں انہیں کھینچتا ہوا رسول اللہﷺ کے پاس لے گیا اورعرض کیا یارسول اللہﷺ! میں نے اس شخص کو سورۃ الفرقان ایسے حروف پرپڑھتے سناہے جو آپﷺ نے مجھے نہیں پڑھائے ہیں۔رسول اللہﷺ نے فرمایا اسے چھوڑ دو،ہشام! تم پڑھ کر سناؤ، تو اس نے وہی قراء ت پڑھی جو میں نے اس سے سنی تھی۔رسول اللہﷺنے فرمایا یہ سورت اسی طرح نازل ہوئی ہے پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا : اے عمر! اب تم پڑھو،میں نے اس قراء ت کے مطابق پڑھا جو آپؐنے مجھے سکھائی تھی۔رسول اللہﷺ نے فرمایا:اس طرح بھی نازل ہوئی ہے۔یہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے اس لیے تمہیں جس قراء ت میں سہولت ہو اس کے مطابق پڑھ لیا کرو۔‘‘
فوائد:امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کے آخری حصہ سے عنوان ثابت کیا ہے کہ جس قراء ت میں سہولت ہو اس کے مطابق پڑھو، رسول اللہﷺ نے ’پڑھنے‘ کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب کیا ہے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ قرآن پڑھناان کا فعل ہے، کیونکہ اس میں سہولت کا وصف پایا جاتاہے، لوگ اس میں مختلف ہوتے ہیں، قراء ت میں اختلاف ہوسکتا ہے جیساکہ حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کی قراء ت میں ہوامگر قرآن کریم اختلاف کا محل نہیں ہے، کیونکہ وہ اللہ کا کلام ہے اور قرآن مجید سہولت کے مطابق پڑھنا بندوں کافعل ہے جومخلوق ہے۔ یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ جہاں سے قرآن یاد ہو وہاں سے قراء ت کرسکتے ہو اورجس قدر آسانی سے پڑھاجائے اتنا ہی پڑھناچاہئے البتہ امام کو ہدایت ہے کہ وہ قراء ت کرتے وقت اپنے مقتدیوں کا ضرور خیال رکھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ضروری نوٹ
حروف سبعہ کی تعیین میں بہت اختلاف ہے، بعض لوگوں نے اس سے سات لغات مرادلی ہیں، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ اور ہشام رضی اللہ عنہ دونوں قریشی تھے، ان کی لغت ایک تھی اس کے باوجود ان کا اختلاف ہوا،یہ کوئی معقول بات نہیں کہ رسول اللہﷺ ایک ہی آدمی کوقرآن مجید ایسی لغت میں سکھائیں جو اس کی لغت نہ ہو، بعض نے یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ اس سے مراد ایک معنی کو مختلف حروف و الفاظ سے اَداکرنا ہے اگرچہ ایک ہی لغت سے ہو،کیونکہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ اور ہشام رضی اللہ عنہ کی ایک ہی لغت تھی، لیکن اس کے باوجود ان کی قراء ت میں اختلاف ہو،اس سلسلہ میں دو باتوں پر اتفاق ہے۔
١ قرآن کریم کو سبعہ حروف سے پڑھنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قرآن کریم کے ہرلفظ کو سات طریقوں سے پڑھنا جائز ہے، کیونکہ چند ایک کلمات کے علاوہ بیشتر کلمات اس اُصول کے تحت نہیں آتے۔
٢ سبعہ حروف سے مراد ان سات ائمہ کی قراء ا ت ہرگز نہیں ہیں، جو اس سلسلہ میں مشہور ہوئے ہیں، کیونکہ پہلا شخص جس نے ان سات قراء ا ت کو جمع کرنے کا اہتمام کیاوہ ابن مجاہدہے جس کا تعلق چوتھی صدی سے ہے۔امام جزری فرماتے ہیں کہ میں اس حدیث کو بہت مشکل خیال کرتا تھا حتیٰ کہ میں نے تیس سے زیادہ سال ، اس پر غورو فکر کیا، اب میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قراء ات کااختلاف سات وجوہ سے باہرنہیں ہے وہ حسب ذیل ہیں:
۱ معنی اور صورت خطی میں تبدیلی کے بغیر صرف حرکات میں اختلاف ہوگا جیسا کہ بخل کو چار اور کلمہ یحسبُ کو دو طرح سے پڑھا گیا ہے۔
۲ صورت خطی میں اختلاف کے بجائے صرف معنی میں اختلاف ہوگا جیسا کہ فتلقی آدم من ربہ کلمات کو دو طرح سے پڑھا گیا ہے:
١ آدم کی رفعی اور کلمات کی نصبی حالت
٢ آدم کی نصبی اورکلمات کی رفعی حالت۔
۳ صورت خطی کے بجائے حروف میں تبدیلی جس سے معنی بھی بدل جائے، جیسا کہ تبلوا کو تتلوا پڑھا گیا ہے۔
۴ صورت خطی کے بجائے حروف میں تبدیلی ہوگی، لیکن اس سے معنی نہیں تبدیل ہوگا جیسا کہ بصطۃ کوبسطۃ اور الصراط کوالسراط پڑھا گیا ہے۔
۵ صورت خطی اور حروف دونوں کی تبدیلی ہوگی جس سے معنی بھی تبدیل ہوجائے گا أشد منکم کو أشد منھم پڑھا گیا ہے۔
۶ تقدیم و تاخیر کااختلاف ہوگا جیساکہ فیقتلون ویقتلون میں ہے، اس میں پہلا معروف اوردوسرا مجہول ہے اسے یوں پڑھا گیا ہے ویقتلون فیقتلون
۷ حروف کی کمی و بیشی میں اختلاف ہوگا جیسا کہ وأَوْصٰی کو ووصّٰی پڑھا گیا ہے۔
اس کے علاوہ اظہار و اِدغام، روم واشمام، تفخیم و ترقیق، مدوقصر، امالہ و فتح، تخفیف وتسھیل اور ابدال و نقل وغیرہ جسے فن قراء ت میں اصول کا نام دیا جاتاہے،یہ ایسا اختلاف نہیں ہے جس سے معنی یالفظ میں تبدیلی آتی ہو۔ (النشر:۱؍۲۶)
دورِ حاضر میں بعض اہل علم کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی ایک ہی قراء ت ہے جوہمارے مصاحف میں ثبت ہے، اس کے علاوہ جو قراء ات مدارس میں پڑھی پڑھائی جاتی ہیں یا بعض علاقوں میں لوگوں نے اختیارکررکھی ہیں وہ سب فتنہ عجم کی باقیات ہیں، ہمارے رجحان کے مطابق مذکورہ دعویٰ بلادلیل ہے، کیونکہ یہ قراء ات صحابہ وتابعین سے تواتر کے ساتھ منقول ہیں اور رسم عثمانی کی حدود کے اندر اور اس کے مطابق ہیں نیز یہ اجماع امت سے ثابت ہیں، جس طرح ہمارے ہاں روایت حفص کے مطابق مصاحف لکھے اور تلاوت کئے جاتے ہیں، اسی طرح شمالی افریقہ اوربعض دوسرے ممالک میں روایت ورش وغیرہ کے مطابق مصاحف لکھے اور تلاوت کئے جاتے ہیں اور وہاں کی حکومتیں بھی سرکاری اہتمام کے ساتھ انہیں شائع کرتی ہیں، میری ذاتی لائبریری میں روایت ورش کا مصحف موجود ہے، حال ہی میں سعودی عرب کے مجمّع الملک فہد (مدینہ طیبہ) نے بھی لاکھوں کی تعداد میں روایت ورش، روایت دوری اورروایت قالون کے مطابق مصاحف ان مسلم ممالک کیلئے طبع کئے ہیں جن میں ان کے مطابق قراء ت کی جاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کے متن میں تمام قراء ات متواترہ کی گنجائش موجود ہے، اہل علم جانتے ہیں کہ موجودہ مصاحف کے قرآنی الفاظ رسم عثمانی کے مطابق لکھے گئے ہیں اس رسم الخط کی خوبی یہ ہے کہ اس میں تمام قراء ات متواترہ کے پڑھنے کااِمکان موجود ہے اور یہ ساری قراء ت حضرت عثمان5 کے اَطراف عالم میں بھیجے ہوئے نسخوں کے رسم الخط میں سما جاتی ہیں۔
واضح رہے کہ قرآن کریم میں کسی بھی قراء ت کے مستند ہونے کے لیے درج ذیل قاعدہ ہے:
’’جو قراء ت قواعد عربیہ کے مطابق ہو اگرچہ یہ موافقت بوجہ ہو، مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے مطابق ہو خواہ وہ مطابقت احتمالاً ہو نیز وہ صحیح متواتر سند سے ثابت ہو۔‘‘
اس اُصول کے مطابق جو بھی قراء ت ہوگی وہ قراء ت صحیحہ اور ان حروف سبعہ میں سے ہے جن پر قرآن نازل ہوا، مسلمانوں پر اس کو قبول کرنا واجب ہے اوراگر تینوں شرائط میں سے کسی ایک شرط میں خلل آجائے تو وہ قراء ت شاذہ، ضعیف یاباطل ہوگی۔ (النشر:۲؍۹)
یہ بات کہ تمام قراء ات حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مصاحف میں سما جاتی ہیں ہم اس کی وضاحت ایک مثال سے کرتے ہیں،سورۃ الفاتحہ کی آیت’’ملک یوم الدین‘‘اس آیت میں ملک کو مَلِکِ اور مَالِکِ دونوں طرح پڑھاجاسکتاہے اوریہ دونوں قراء ات، متواترہ ہیں، روایت حفص میں اسے مٰلک میم پرکھڑا زبر اور روایت ورش میں اسے مَلک میم پر زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ حجاز میں یہ دونوں الفاظ ایک ہی مفہوم کے لیے استعمال ہوتے ہیں یعنی روزِ جزا کا مالک یاروز جزا کابادشاہ، جو کسی علاقے کابادشاہ ہوتاہے وہ اس کا مالک بھی ہوتا ہے، لیکن جس مقام میں اختلاف قراء ت کے متعلق متواتر سند نہ ہو وہاں رسم الخط میں گنجائش کے باوجود دوسری قراء ت پڑھنا ناجائز اور حرام ہے مثلاً سورۃ الناس کی دوسری آیت رسم عثمانی کے مطابق اس طرح ہے، ’ملک الناس‘اس مقام پرتمام قراء مَلِکِ الناس ہی پڑھتے ہیں اسے کوئی بھی مالِکِ الناس کھڑے زبر کے ساتھ نہیں پڑھتا ،کیونکہ یہاں اختلاف قراء ت منقول نہیں ہے دراصل قراء ت متواترہ کے اختلاف سے قرآنِ کریم میں کوئی ایسا ردّوبدل نہیں ہوتا جس سے اس کے مفہوم اور معنی تبدیل ہوجائیں یا حلال حرام ہوجائے بلکہ اختلاف قراء ت کے باوجود بھی قرآن ، قرآن ہی رہتا ہے اور اس کے نفس مضمون میں کسی قسم کا کوئی فرق واقع نہیں ہوتا، بہرحال قراء ت متواترہ جنہیں اَحادیث میں احرف سبعہ سے تعبیر کیا گیا ہے وہ آج بھی موجو د ہیں اور اسکے انکار کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے۔
 
Top