• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’یامحمد‘‘ والی روایت کی تحقیق

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

مصطفوی

رکن
شمولیت
جولائی 25، 2012
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
50
پوائنٹ
35
امام بخاری رح کی کتاب الادب المفرد میں ایک روایت آئی ہے۔
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ
http://www.islamimehfil.com/uploads/monthly_08_2012/post-2742-0-05062700-1345988692.jpg
برائے مہربانی اس حدیث کی سند کے بارے میں بتا دیں کہ یہ کس درجہ کی روایت ہے۔
نیز اس کے بعض طرق میں یا نسخوں میں یا محمداہ کا لفظ آیا ہے عربی زبان کی رو سے اس کا کیا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔
جلد جواب عنایت کر کے شکریے کا موقع دیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ[الأدب المفرد : 335]۔

یہ روایت ضعیف ہے اس میں درج ذیل علتیں بیان کی جاسکتی ہیں:

پہلی علت: أبو إسحاق السبيعي کا عنعنہ:
ابواسحاق السبیعی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ مدلس ہیں ،حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں تیسرے طبقہ میں ذکرکرتے ہوئے کہا:
عمرو بن عبد الله السبيعي الكوفي مشهور بالتدليس وهو تابعي ثقة وصفه النسائي وغيره بذلك[طبقات المدلسين لابن حجر: ص: 42]۔

دوسری علت: أبو إسحاق السبيعي کا اپنے شیخ کے تذکرہ میں اضطراب:
ابواسحاق السبیعی نے روایت مذکورہ اپنے کس شیخ سے سنی ہے اس کے بیان میں موصوف اضطراب کے شکار ہیں ، موصوف نے:

کبھی اپنے شیخ کا نام مبہم رکھا ، چنانچہ :
امام إبراهيم بن إسحاق الحربي رحمه الله (المتوفى285)نے کہا:
حَدَّثنَا عَفَّانُ حَدَّثنَا شُعْبَةٌ عَنْ أَبى إٍسْحِاقَ عَمَّنْ سمِعَ ابن عُمَرَ قَالَ خَدِرَتْ رِجْلُهُ فَقَيِلَ : اذْكُرَ أَحَبَّ النَّاسٍ . قَالَ : يَا مُحَمَّدُ [غريب الحديث للحربي 2/ 673 ، اسنادہ صحیح الی شعبہ]۔

اورکبھی اپنے شیخ کا نام عبدالرحمن بن سعد بتایا، چنانچہ:
امام علي بن الجعد (المتوفى: 230) رحمہ اللہ نے کہا:
أنا زهير، عن أبي إسحاق، عن عبد الرحمن بن سعد قال: كنت عند عبد الله بن عمر فخدرت رجله فقلت له: يا أبا عبد الرحمن، ما لرجلك؟ قال: " اجتمع عصبها من هاهنا، قلت: ادع أحب الناس إليك، قال: يا محمد، فانبسطت "[مسند ابن الجعد ص: 369 واسنادہ صحیح الی ابی اسحاق ، ومن طریقہ اخرجہ ابن السنی فی عمل اليوم والليلة :ص: 142 وابن عساکر فی تاريخ مدينة دمشق 31/ 177 والمزی فی تهذيب الكمال : 17/ 143، واخرجہ ایضا ابن سعد فی الطبقات الكبرى : 4/ 154رقم 5116، وابراہیم بن اسحاق الحربی فی غريب الحديث : 2/ 674 من طریق زہیربہ ، وتابع زہیر سفیان الثوری عندالبخاری فی الادب المفرد964 وابن سعد فی الطبقات 4/115 والدارقطنی فی العلل 3140لکنہ عنعن وھو مدلس ]۔

اورکبھی اپنے شیخ کا نام الهيثم بن حنش بتایا، چنانچہ:

امام ابن السُّنِّي رحمه الله (المتوفى364)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْبَرْذَعِيُّ، ثنا حَاجِبُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، ثنا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْهَيْثَمِ بْنِ حَنَشٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: " اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَ: فَقَامَ فَكَأَنَّمَا نَشِطَ مِنْ عِقَالٍ "[عمل اليوم والليلة لابن السني ص: 141 واسنادہ ضعیف الی ابی اسحاق]۔

اورکبھی اپنے شیخ کا نام أبو بكر بن عياش بتایا، چنانچہ:
امام ابن السُّنِّي رحمه الله (المتوفى364)نے کہا:
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَنْمَاطِيُّ، وَعَمْرُو بْنُ الْجُنَيْدِ بْنِ عِيسَى، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ خِدَاشٍ، ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، ثنا أَبُو إِسْحَاقَ السَّبِيعِيُّ، عَنْ أَبِي شُعْبَةَ، قَالَ: كُنْتُ أَمْشِي مَعَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَخَدِرَتْ رِجْلُهُ، فَجَلَسَ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: «يَا مُحَمَّدَاهُ فَقَامَ فَمَشَى»[عمل اليوم والليلة لابن السني ص: 141واسنادہ ضعیف واسنادہ ضعیف الی ابی اسحاق]۔

تیسری علت: أبو إسحاق السبيعي کا اختلاط:
لیکن اس علت کا پیش کرنا درست نہیں کیونکہ:
اول تو ابواسحاق کا اختلاط اس درجہ کا نہیں تھا کہ ان سے اوہام کا صدورہو ۔
دوم سفیان الثوری کا سماع ابواسحاق سے ان کے اختلاط سے قبل ہے ، بعض طرق میں سفیان الثوری نے بھی ابواسحاق سے یہ روایت نقل کی ہے ، لیکن پھر اس پراعتراض یہ ہے کہ سفیان ثوری مدلس ہیں اورروایت عن سے ہے۔

چوتھی علت: عبد الرحمن بن سعد کی جہالت:
عبدالرحمن بن سعد کو امام ابن حبان کے علاوہ کسی نے ثقہ نہیں کہاہے ، بعض لوگوں نے جو نسائی سے ان سے متعلق توثیق کاقول نقل کیا ہے تو امام نسائی سے یہ قول ثابت نہیں ، یاد رہے کہ امام مزی نے بھی عبدالرحمن بن سعد کے ترجمہ میں نسائی کی یہ توثیق ذکر نہیں کی ہے۔

تنیہ بلیغ:
رویات مذکورہ کا ایک شاہد بھی ، چنانچہ:
امام ابن السُّنِّي رحمه الله (المتوفى364)نے کہا:
حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عِيسَى أَبُو أَحْمَدَ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوْحٍ، ثنا سَلَّامُ بْنُ سُلَيْمَانَ، ثنا غِيَاثُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خَيْثَمٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: خَدِرَتْ رِجْلُ رَجُلٍ عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: " اذْكُرْ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَيْكَ. فَقَالَ: مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَذَهَبَ خَدَرَهُ "[عمل اليوم والليلة لابن السني ص: 141]۔

یہ شاہد موضوع ہے کیونکہ اس کی سند میں غیاث بن ابراہیم ہے جو کذاب اور وضاع ہے چنانچہ:

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
كذاب ليس بثقة[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 7/ 57]۔

امام جوزجاني رحمه الله (المتوفى259)نے کہا:
غياث بن إبراهيم كان فيما سمعت غير واحد يقول كان يضع الحديث[أحوال الرجال للجوزجانى: ص: 23]۔

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے کہا:
كان يضع الحديث على الثقات ويأتى بالمعضلات عن الاثبات[المجروحين - ابن حبان 2/ 201]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
تركوه واتهم بالوضع[المغني في الضعفاء للذهبي: ص: 114]۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے اس کی تمام مرویات کے بارے میں کہا:
غياث هذا بين الأمر في الضعف وأحاديثه كلها شبه الموضوع[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 7/ 113]۔


خلاصہ کلام یہ کے مذکورہ روایت اپنے تمام طرق کے ساتھ مردود ہے۔
 

مصطفوی

رکن
شمولیت
جولائی 25، 2012
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
50
پوائنٹ
35
جزاک اللہ!
تھوڑی سی مہربانی اور فرما دیں کہ اس حدیث کے بعض طرق یا نسخوں میں یا محمداہ کے الفاظ آئے ہیں ان کا عربی گرایمر کی رو سے کیا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔
 

مصطفوی

رکن
شمولیت
جولائی 25، 2012
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
50
پوائنٹ
35
جناب کفایت اللہ صاحب !
آپ نے اس روایت کی سند کے حوالے سے جو تحقیق پیش کی تھی اس پر درج ذیل اعتراضات پیش کئے گئے ہیں۔ برائے مہربانی اپنے قیمتی وقت سے وقت نکال کر جلد جواب عنایت فرمائیں۔

۔اس کی سند پر جناب کا یہ اعتراض کہ ابواسحاق مدلس ہے اور یہاں عن سے سے روایت کر رہا ہے ۔ اس کا جواب یہ کہ جب ابواسحاق سے یہ روایت امام شعبہ نے بھی روایت کی ہے تو ابواسحاق کا سماع ثابت ماننا پڑے گا چنانچہ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں تصریح کی ہے: أَمَّا دَعْوَى التَّدْلِيس فَمَرْدُودَة بِأَنَّ شُعْبَة لَا يَرْوِي عَنْ شُيُوخه الْمُدَلِّسِينَ إِلَّا مَا هُوَ مَسْمُوع لَهُمْ۔
تمہارا تدلیس کا دعویٰ مردود ہے کیونکہ شعبہ اپنے مدلس شیوخ سے وہی بات روایت کرتا ہے جو اُن کی مسموع (سنی ہوئی) ہوتی ہے۔ مزید یہ ابن حجر عسقلانی نے طبقات المدلسین میں لکھا ہے کہ :۔
۔ثنا شعبة انه قال كفيتكم تدليس ثلاثة الاعمش وأبي إسحاق وقتادة۔
یعنی شعبہ نے کہا کہ میں نے تمہیں اعمش، ابواسحاق،قتادہ تینوں کی تدلیس سے بچا لیا ہے۔
پس ابواسحاق نے جس جس سے بھی یہ روایت سنی ،اس میں تدلیس نہیں کی ہے۔
اور بجائے ابو اسحاق کے اپنے شیوخ کے بارے میں اضطراب کو بیان کرنے کے ابواسحاق کے ایک سے زائد استاذوں سے سننے کا قول بھی تو آپ کرسکتے تھے۔مگر یہ آپ نے نہ کیا۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
یہ لغو اعتراض ہے ۔
معترض کا کہنا ہے کہ امام شعبہ نے بھی ابواسحاق سے اسی روایت کو نقل کیا اور امام شعبہ جب ابواسحاق سے نقل کریں تو ان کا عنعنہ مضر نہیں ہے۔
عرض ہے کہ یہ بات اصول حدیث کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ امام شعبہ جس طریق میں ابواسحاق سے روایت کریں اس طریق میں ابواسحاق کاعنعنہ مضر نہیں ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امام شعبہ والا طریق بالکل ویساہی ہے جیسا الادب المفرد میں امام بخاری کا طریق ہے؟؟ قطعا نہیں ۔
امام شعبہ والے طریق سے ہم نہ صرف واقف ہیں بلکہ ہم نے اوپر کے جواب میں اسے نقل بھی کررکھا ہے ، ملاحظہ ہو وہیں سے یہ اقتباس:
کبھی اپنے شیخ کا نام مبہم رکھا ، چنانچہ :
امام إبراهيم بن إسحاق الحربي رحمه الله (المتوفى285)نے کہا:
حَدَّثنَا عَفَّانُ حَدَّثنَا شُعْبَةٌ عَنْ أَبى إٍسْحِاقَ عَمَّنْ سمِعَ ابن عُمَرَ قَالَ خَدِرَتْ رِجْلُهُ فَقَيِلَ : اذْكُرَ أَحَبَّ النَّاسٍ . قَالَ : يَا مُحَمَّدُ [غريب الحديث للحربي 2/ 673 ، اسنادہ صحیح الی شعبہ]۔
غورکریں اس طریق میں امام شعبہ ابواسحاق سے ضرور روایت کررہے ہیں لیکن یہاں ابواسحاق کے استاذ کا نام ہی مذکور نہیں ، اس لئے یہاں یہ قطعا معلوم نہیں کہ اس موقع پر ابواسحاق کے کون سے استاذ تھے۔
مثلا الادب المفر د والے طریق میں ابواسحاق کے استاذ ’’عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ‘‘ ہیں ، اور ان سے ابواسحاق نے سنا ہے یا نہیں ، یہ معلوم ہونے کی ضرورت ہے ، اور شعبہ والے طریق سے یہ قطعا معلوم نہیں ہوتا کہ ابواسحاق نے عبدالرحمن سے سنا ہے کیونکہ اس طریق میں پتہ نہیں ابواسحاق نے اپنے کس استاذ سے روایت کو بیان کیا ہے ، بالخصوص جب کہ یہ بھی ثابت ہے ابو اسحاق نے اسی روایت بیان کرتے ہوئے متعدد شیوخ کا نام لیا ہے۔

شعبہ والے طریق سے صرف یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ اس طریق میں ابواسحاق نے اپنے جس استاذسے روایت نقل کی ہے اس سے سن رکھا ہے ۔
مثلا اگرکسی طریق میں ابواسحاق کے استاذ ’’زید‘‘ ہیں تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ ابواسحاق نے اپنے استاذ ’’زید‘‘ سے یہ روایت سن رکھی ہے لیکن اس سے یہ قطعا ثابت نہیں ہوگا کہ ابواسحاق اسی روایت کو بکر ، عمر ، وغیرہ سے بھی بیان کریں تو ان سے بھی موصوف نے یہ رویات سنی ہو ،کیونکہ ان دیگر اساتذہ سے نقل کی گئی روایات کو ابواسحاق سے شعبہ نے روایت نہیں کیا ۔
یعنی امام شعبہ نے ’’زید‘‘ والے جس طریق سے روایت کیا ہے محض اسی طریق میں ابو اسحاق کا عنعنہ مضر نہیں ہوگا پھر اس بنیا پر ابو اسحاق کا یہ استاذ ’’زید‘‘ جس جس طریق میں آئے گا گرچہ اس میں شعبہ نہ ہوں وہاں بھی ابواسحاق کا ’’زید‘‘ سے عنعنہ مضر نہ ہوگا۔
لیکن اگرکسی طریق میں ابواسحاق کا استاذ ’’زید‘‘ کے بجاے دوسرا آگیا تو وہاں ابواسحاق کاعنعنہ قابل قبول نہ ہوگا ، کیونکہ اس طریق والی روایت کو ابو اسحاق سے شعبہ نے نقل نہیں کیا ۔

اس وضاحت کے بعد عرض ہے کہ زیربحث روایت کے جس طریق میں ابواسحاق سے روایت کرنے والے شعبہ ہیں اس طریق میں ابواسحاق کے استاذ کے نام کی صراحت ہی نہیں ، لہٰذا گرچہ اس طریق میں ابواسحاق کا ععنعنہ مضر نہیں لیکن یہ طریق مردود ہے کیونکہ اس میں مبھم راوی ہے ۔
اورچونکہ یہاں ابو اسحاق کا استاذ مبہم ہے اس لئے اس بات کا بھی ثبوت نہیں ملا کہ دیگرطریق میں ابواسحاق نے اپنے کسی استاذ سے یہ روایت سنی ہو ۔

لہٰذا امام شعبہ کی روایت بہر صوررت بے سود ہے۔


اور بجائے ابو اسحاق کے اپنے شیوخ کے بارے میں اضطراب کو بیان کرنے کے ابواسحاق کے ایک سے زائد استاذوں سے سننے کا قول بھی تو آپ کرسکتے تھے۔مگر یہ آپ نے نہ کیا۔
ایک سے زائد استاذوں سے سننے کی بات تب کی جاسکتی تھی جب انہوں نے اپنے کسی ایک ہی شاگر کے سامنے اس روایت کو متعدد شیوخ سے نقل کیا ہوتا یا پھر ابواسحاق کے متابعین ہوتے ۔
لیکن ہم دیکھ رہے ہیں ابو اسحاق اپنے ایک شاگرد کے سامنے اپنے ایک ہی استاذ کا نام لے رہے ہیں یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس روایت میں ان کا استاذ ایک ہی ہے لیکن ابواسحاق کو بالضبط معلوم نہیں کہ یہ کون ہے۔
یادرہے کہ ابو اسحاق کا کوئی بھی متابع موجود نہیں ہے۔
 

مصطفوی

رکن
شمولیت
جولائی 25، 2012
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
50
پوائنٹ
35
جناب کفایت اللہ صاحب! اسلا علیکم۔
ایک مرتبہ پھر آپ کو زحمت دے رہا ہوں۔امید ہے حسب سابق جلد جواب عنایت کریں گے۔
ایک اعتراض یہ سامنے آیا ہے۔
:
پہلی علت: أبو إسحاق السبيعي کا عنعنہ:
ابواسحاق السبیعی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ مدلس ہیں ،حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں تیسرے طبقہ میں ذکرکرتے ہوئے کہا:
عمرو بن عبد الله السبيعي الكوفي مشهور بالتدليس وهو تابعي ثقة وصفه النسائي وغيره بذلك[طبقات المدلسين لابن حجر: ص: 42]۔
جناب نے ایک غلط بنیاد رکھی جو آپ کی بناء الفاسد علی الفاسدکا سبب بنی ھے۔
طبقات المدلسین میں امام ابن حجر عسقلانی نے اس راوی کو دوسرے طبقے میں شمار کیا ھے۔ اور اس کے بعد تیسرا طبقہ شروع کیا ھے:۔

(66) م 4 يونس بن أبي إسحاق عمرو بن عبد الله السبيعي حافظ مشهور كوفي يقال انه روى عن الشعبي حديثا وهو حديثه عن الحارث عن علي رضي الله تعالى عنه حديث أبو بكر وعمر سيدا كهول أهل الجنة فأسقط الحارث (0) المرتبة الثالثة وعدتهم خمسون نفسا۔

ابواسحاق کے بعد مرتبہ ثالثہ کی ابتدا ھو رھی ھے اور اس میں پچاس افراد ھیں۔ جناب اس دوسرے طبقے کے مدلسین کے شروع میں لکھا ھے کہ :۔
الثانية (0) من احتمل الائمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح لامامته وقلة تدليسه في جنب ما روى كالثوري أو كان لا يدلس الا عن ثقة كإبن عيينة (0)
یعنی جس کی تدلیس کو ائمہ نے برداشت کیا اور الصحیح میں اس کی روایت اس کی پیشوائی اور قلت تدلیس کے باعث لائے جیسے ثوری یا وہ ابن عیینہ کی طرح ثقہ سے ھی تدلیس کرتا ھے۔
۔لیجئےجناب وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا۔
۔امام نووی نے الاذکار میں اورامام جزری نے حصن حصین میں اور امام خفاجی نے شرح شفا میں روایت ھذا کو صحیح روایات میں شمار کیا ہے۔
۔دیگر حضرات نے ان سے احتجاج کیا ہے،ان کے مقابلہ پر انکار کرنا وہابیہ کی بدعت و جدت ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
جناب کفایت اللہ صاحب! اسلا علیکم۔
ایک مرتبہ پھر آپ کو زحمت دے رہا ہوں۔امید ہے حسب سابق جلد جواب عنایت کریں گے۔
ایک اعتراض یہ سامنے آیا ہے۔
:
پہلی علت: أبو إسحاق السبيعي کا عنعنہ:
ابواسحاق السبیعی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ مدلس ہیں ،حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں تیسرے طبقہ میں ذکرکرتے ہوئے کہا:
عمرو بن عبد الله السبيعي الكوفي مشهور بالتدليس وهو تابعي ثقة وصفه النسائي وغيره بذلك[طبقات المدلسين لابن حجر: ص: 42]۔
جناب نے ایک غلط بنیاد رکھی جو آپ کی بناء الفاسد علی الفاسدکا سبب بنی ھے۔
طبقات المدلسین میں امام ابن حجر عسقلانی نے اس راوی کو دوسرے طبقے میں شمار کیا ھے۔ اور اس کے بعد تیسرا طبقہ شروع کیا ھے:۔

(66) م 4 يونس بن أبي إسحاق عمرو بن عبد الله السبيعي حافظ مشهور كوفي يقال انه روى عن الشعبي حديثا وهو حديثه عن الحارث عن علي رضي الله تعالى عنه حديث أبو بكر وعمر سيدا كهول أهل الجنة فأسقط الحارث (0) المرتبة الثالثة وعدتهم خمسون نفسا۔

ابواسحاق کے بعد مرتبہ ثالثہ کی ابتدا ھو رھی ھے اور اس میں پچاس افراد ھیں۔ جناب اس دوسرے طبقے کے مدلسین کے شروع میں لکھا ھے کہ :۔
الثانية (0) من احتمل الائمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح لامامته وقلة تدليسه في جنب ما روى كالثوري أو كان لا يدلس الا عن ثقة كإبن عيينة (0)
یعنی جس کی تدلیس کو ائمہ نے برداشت کیا اور الصحیح میں اس کی روایت اس کی پیشوائی اور قلت تدلیس کے باعث لائے جیسے ثوری یا وہ ابن عیینہ کی طرح ثقہ سے ھی تدلیس کرتا ھے۔
۔لیجئےجناب وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا۔
اس بار جس نے بھی یہ اعتراض کیا ہے ، اس نے اعتراض نہیں بلکہ اپنی جہالت کا شاہکار پیش کیا ہے۔
مجھے اس معترض پر ترس آرہا ہے ، بہت جلد موصوف کی خوش فہمی رفع ہوجائے گی ۔

لیکن اس سے قبل یہ واضح کردوں کہ یہ سوال و جواب کا سیکشن ہے بحث ومباحثہ کا نہیں ، یہ سیکشن صرف اس لئے ہے کہ آپ اپنے کسی سوال سے متعلق ہمارا موقف جان سکیں بس ۔
اس لئے اس سیکش میں ایک بار سوال کریں اور اس کا جواب پاکر یہاں سے رخصت ہوجائیں ،خواہ آپ اس سے متفق ہوں یا نہ ہوں ، ہاں اگر جواب میں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اسے دوبارہ پوچھ سکتے ہیں لیکن بات سمجھ میں آجائے مگر آپ کے نزدیک محل نظر ہو اور آپ بحث کرنا چاہتے ہوں تو اس کی اجازت اس سیکشن میں قطعا نہیں ہے ، البتہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کسی روایت سے متعلق بحث کریں تو حدیث سیکش کے دیگر ذیلی زمروں کا رخ کریں وہاں کوئی نیا دھاگہ شروع کریں اور جس قدر چاہیں بحث کریں ۔
اس وضاحت کے بعد عرض ہے کہ اس بار میری آخری تحریر ہوگی ، اس کے بعد یہ موضوع بند کردیا جائے گا ، اگر آپ کو مزید کوئی بحث کرنی ہو تو حدیث سیکشن میں دیگر زمروں میں تشریف لائیں وہاں اگر مجھے وقت ملا تو میں ہی جواب دے دوں گا یا پھر دیگر اہل علم آپ کی رہنمائی کریں گے ،بارک اللہ فیک۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
پیش کردہ اعتراض کا جواب حاضرہے ۔

اعتراض میری اس بات پر ہے :
پہلی علت: أبو إسحاق السبيعي کا عنعنہ:
ابواسحاق السبیعی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ مدلس ہیں ،حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں تیسرے طبقہ میں ذکرکرتے ہوئے کہا:
عمرو بن عبد الله السبيعي الكوفي مشهور بالتدليس وهو تابعي ثقة وصفه النسائي وغيره بذلك[طبقات المدلسين لابن حجر: ص: 42]۔
معترض کا کہنا ہے کہ میں (کفایت اللہ) نے ابواسحاق السبیعی کے بارے میں یہ لکھ دیا کہ’’حافظ ابن حجر نے اسے تیسرے طبقہ میں ذکر کیا ہے ‘‘ ، جبکہ معترض کی تحقیق کے مطابق یہ بات غلط ہےاورصحیح یہ ہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے ابواسحاق کو تیسرے نہیں بلکہ دوسرے طبقہ میں ذکر کیا ہے ۔
معترض اپنی اس تحقیق کی دلیل دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
جناب نے ایک غلط بنیاد رکھی جو آپ کی بناء الفاسد علی الفاسدکا سبب بنی ھے۔
طبقات المدلسین میں امام ابن حجر عسقلانی نے اس راوی کو دوسرے طبقے میں شمار کیا ھے۔ اور اس کے بعد تیسرا طبقہ شروع کیا ھے:۔

(66) م 4 يونس بن أبي إسحاق عمرو بن عبد الله السبيعي حافظ مشهور كوفي يقال انه روى عن الشعبي حديثا وهو حديثه عن الحارث عن علي رضي الله تعالى عنه حديث أبو بكر وعمر سيدا كهول أهل الجنة فأسقط الحارث (0) المرتبة الثالثة وعدتهم خمسون نفسا۔

ابواسحاق کے بعد مرتبہ ثالثہ کی ابتدا ھو رھی ھے اور اس میں پچاس افراد ھیں۔ جناب اس دوسرے طبقے کے مدلسین کے شروع میں لکھا ھے کہ :۔
الثانية (0) من احتمل الائمة تدليسه وأخرجوا له في الصحيح لامامته وقلة تدليسه في جنب ما روى كالثوري أو كان لا يدلس الا عن ثقة كإبن عيينة (0)
یعنی جس کی تدلیس کو ائمہ نے برداشت کیا اور الصحیح میں اس کی روایت اس کی پیشوائی اور قلت تدلیس کے باعث لائے جیسے ثوری یا وہ ابن عیینہ کی طرح ثقہ سے ھی تدلیس کرتا ھے۔
۔لیجئےجناب وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا۔
جوابا عرض ہے کہ معترض نے باپ اوربیٹے کو خلط ملط کردیا ہے ، ہم جس روایت پر بحث کررہے ہیں اس کی سند میں مدلس راوی ’’ابواسحاق السبیعی ‘‘ ہیں ، ان کا نام ’’عمرو بن عبد الله السبيعي ‘‘ ہے ، اوریہ مدلس ہیں اورحافظ ابن حجر نے فی الحقیقت انہیں تیسرے طبقہ ہی میں ذکر کیا ہے ، جیسا کہ میں نے لکھا تھا، میرے الفاظ ایک بار پھر ملاحظ ہوں:
پہلی علت: أبو إسحاق السبيعي کا عنعنہ:
ابواسحاق السبیعی نے عن سے روایت کیا ہے اور یہ مدلس ہیں ،حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے انہیں تیسرے طبقہ میں ذکرکرتے ہوئے کہا:
عمرو بن عبد الله السبيعي الكوفي مشهور بالتدليس وهو تابعي ثقة وصفه النسائي وغيره بذلك[طبقات المدلسين لابن حجر: ص: 42]۔
غورکریں یہاں پر میں نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے الفاظ بھی نقل کئے ہیں ، ان الفاظ کو لے کر کوئی بھی شخص ابن حجر کی کتاب طبقات المدلسین کا مراجعہ کرے تو اسے یہ الفاظ تیسرے طبقہ ہی میں ملیں گے ، یعنی ابن حجر نے اس راوی کو تیسرے طبقہ میں ہی ذکر کیا ہے جس کو بھی شک ہو وہ مراجعہ کرکے دیکھ لے۔

رہا معترض کا پیش کردہ حوالہ تو عرض ہے کہ معترض نے دوسرے طبقہ سے ’’عمرو بن عبد الله ،ابواسحاق السبعی ‘‘ کے بجائے ان کے بیٹے ’’یونس بن عمرو بن عبد الله ،ابواسحاق السبعی ‘‘ کا حوالہ پیش کردیا ، ملاحظ ہوں معترض کے الفاظ:
طبقات المدلسین میں امام ابن حجر عسقلانی نے اس راوی کو دوسرے طبقے میں شمار کیا ھے۔ اور اس کے بعد تیسرا طبقہ شروع کیا ھے:۔
(66) م 4 يونس بن أبي إسحاق عمرو بن عبد الله السبيعي حافظ مشهور كوفي يقال انه روى عن الشعبي حديثا وهو حديثه عن الحارث عن علي رضي الله تعالى عنه حديث أبو بكر وعمر سيدا كهول أهل الجنة فأسقط الحارث (0) المرتبة الثالثة وعدتهم خمسون نفسا۔
ابواسحاق کے بعد مرتبہ ثالثہ کی ابتدا ھو رھی ھے۔
عرض ہے کہ اس حوالے میں عمرو بن عبد الله السبيعي ابواسحاق کو نہیں ، بلکہ ان کے بیٹے يونس بن عمرو بن عبد الله السبيعي ابواسحاق کو دوسرے طبقہ کا مدلس بتایا گیا ہے ۔
لیکن بے چارے معترض نے بیٹے کو باپ سمجھ لیا۔

اب قارئیں خود فیصلہ کریں کہ بناء الفاسد علی الفاسدکا مصداق کون ہے ؟
اورکس کی وہ شاخ ہی نہ رہی جس پہ آشیانہ تھا؟؟

اورمعترض نے آخر میں جو یہ کہا:
۔امام نووی نے الاذکار میں اورامام جزری نے حصن حصین میں اور امام خفاجی نے شرح شفا میں روایت ھذا کو صحیح روایات میں شمار کیا ہے۔
۔دیگر حضرات نے ان سے احتجاج کیا ہے،ان کے مقابلہ پر انکار کرنا وہابیہ کی بدعت و جدت ہے۔ ۔
عرض یہ کہ اس طرح کی طفل تسلیاں اپنوں ہی تک محدود رکھیں ، علمی بحث میں اس طرح کی باتیں مضحکہ خیز ہوا کرتیں ہیں ، ہم نے دلیل کے ساتھ اس روایت کو ضعیف کہا ہے اب مخالف کی ذمہ داری ہے کہ ہماری دلیل کا جواب دے ، اب دلیل کا جواب نہ دے کر اہل علم کی تصحیح نقل کرنا بے سود ہے، قطع نظر اس کے کہ ان اہل علم نے واقعی اس روایت کو صحیح کہا یا نہیں ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
مصطفوی بھائی آپ کو مزید استفسار کرنا ہوگا تو آپ تحقیق حدیث نامی ذیلی سیکشن میں نیا دھاگہ کھول کر اپنی بات رکھیں ، میں کوشش کروں گا کہ آپ کا ساتھ دے سکوں ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top