• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’’یہودیت ‘‘ اور ’’شیعیت‘‘ کا باہمی موازنہ

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پیش نظر کتاب ہم نے ’’یہودیت ‘‘ اور ’’شیعیت‘‘ کا باہمی موازنہ کرتے ہوئے ،ثانی الذکر کو یہودیت کا چربہ اور اس کی ایک نقاب بتایا ہے ۔اور بطور ثبوت دلائل قرآن مجید کی کچھ آیتیں بھی پیش کی ہیں ۔اس سلسلے میں ہم یہ وضاحت کردینا چاہتے ہیں کہ ’’اہل تشیع ‘‘کو ’’یہود ‘‘کی ایک شاخ ماننے اور انہیں ایک ہی سکے کے دورخ تسلیم کرنے میں ناچیز مولف منفرد نہیں بلکہ صدیوں قبل اندلس کے مشہور عالم دین ’’ابن عبدربہ‘‘اپنی کتاب ’’العقد الفرید‘‘میں اس حقیقت کی تصدیق کرچکے ہیں ،انہوں نے بھی یہودیوں اور شیعوں کے درمیان عقائد کی مماثلت اور مشابہت کی نشان دہی کی تھی ،موجودہ دور میں بھی ایک محقق اور عالم دین ڈاکٹر محمد یوسف نگرامی نے اپنی کتاب ’’الشیعۃ فی المیزان‘‘میں یہود وروافض کے درمیان جو فکری مشابہت بیان کی ہے اس کا خلاصہ ہم سطور ذیل میں پیش کررہے ہیں :
(۱) یہودی اپنے آپ کو اﷲ کی پسندیدہ قوم تصور کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ یہودیوںکے علاوہ تمام انسان ’’گوئم‘‘(Goium)یعنی حیوان ہیں جو یہودیوں کی خدمت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں ،اور ان کے مال ودولت کی لوٹ مار جائز ہے ۔
اہل تشیع بھی بالکل یہی دعویٰ کرتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ ان کا تعلق اہل بیت سے ہے اس لئے ہم سب سے افضل اور اﷲکے محبوب بندے ہے ،وہ بھی اپنے علاوہ تما م انسانوں کو’’ ناصبی‘‘ کہتے ہیں یعنی ان کے عقیدے کے دشمن !جن کے مال ودولت کو لوٹنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ ثواب کار ہے ۔
(۲) یہود نسلی برتری وتعصب کے علم بردار ہیں وہ عربوں کو بلکہ تمام مسلمانوں کو ذلت وحقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
شیعوں کابھی عربوں کے بارے میں یہی نظریہ اور خیال ہے ۔جدید ایران کے ایک مصنف’’مہدی بازرگان‘‘اسی رافضی نظریہ کی یوں وضاحت کرتا ہے :
’’عربوں کی طبیعت میں سختی اور خشونت ہے ۔ان کا مزاج جارحانہ اور سوچ بڑی پست ہے ‘‘
(الحد الفاصل بین الدین والسیاسہ ،مہدی بازرگان ص:۶۸)
(۳) جہاں کہیں بھی یہودیوں نے آبادی اختیار کی وہیں کچھ عرصے کے بعد ان کے خلاف یہ بات سننے میں آئی کہ وہ قوم کے اندر ایک قوم ہیں ،انہوں نے اپنی اس انفرادیت (جس کا خمیر نسلی برتری ہے)کو قائم رکھنے کے لئے ہمیشہ اپنی علیحدہ نوآبادیاں بنائیں ان آبادیوں یا محلوں کو ’’گیٹو‘‘(Geto)کہا جاتا تھا ،یورپ کے صنعتی انقلاب نے جوان یہودیوں کا ہی لایا ہوا تھا ’’گیٹوں کی دیواروں کو ڈھادیا تھا ‘‘لیکن یہودی اپنے سماج اور معاشرے میں گھل مل نہ سکے ۔ان کی نظریں ہمیشہ اپنی ارض موعود کی جانب اٹھتی رہیں اور قیام اسرائیل کے بعد ساری دنیا کے یہودی ’’تل ابیب ‘‘کے حکام کے تابع ہوگئے ۔
ٹھیک یہی حالت ’’اہل تشیع ‘‘کی بھی ہے ۔یہ جہاں بھی رہتے ہیں وہاں یہودیوں کی طرح ’’گیٹو‘‘بناتے ہیں ،برصغیر کے ہر شہر اور قصبہ میں جہاں شیعوں کی آبادی ہے آپ کو شیعوں کے ’’گیٹو‘‘ضرور نظر آئیں گے لکھنؤ کا محلہ ’’قلعہ عالیہ‘‘اس کی واضح مثال ہے ۔یہودیوں کی طرح رافضیوں یعنی اہل تشیع کی وفاداری بھی صرف ایران کے ساتھ ہوتی ہے ۔یہ لوگ جہاں اور جس ملک میں رہتے ہیں ،ا س ملک اور اس کے عوام کے لیے درد سر بن جاتے ہیں کیونکہ تخریبی سرگرمیاں ان کے دین کا ایک حصہ ہیں ۔اس سلسلے میں ابوجعفر کلینی کی ایک شر انگیز عبارت کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں ،کلینی نے لکھا ہے:
’’ابوبکر سے لے کرآج تک تمام سنی حکمران غاصب وظالم ہیں ،کیونکہ حکمرانی کا حق صرف شیعہ اماموں یا ان کی امامت کو ماننے والے شیعوں کو ہے اور شیعوں کا فرض ہے کہ تمام سنی حکومتوں کو تباہ کرنے میں لگے رہیں ،کیونکہ اگر انہوں نے ایسانہ کیا اور سنی حکومت میں اطمینان سے رہے تو چاہے یہ شیعہ کتنے ہی عبادت گذار کیوں نہ ہوں عذاب الٰہی کے مستحق ہوں گے ‘‘ (اصول کافی ص:۲۰۶)
(۴) یہودیوں نے اپنے اقتدار وتسلط کے لئے تاریک کے ہر دور میں جنس(Sex)کا سہارالیا انہوں نے علم وادب کے نام پر دنیا میں ایسی فحاشی اور بے حیائی پھیلائی کہ مشرق ومغرب کے معاشروں کی اخلاقی قدریں تار تار ہوگئیں ،جرمنی کایہودی ’’فرائڈ‘‘یہودیوںکی اس اباحی تحریک کا علمبردار تھا،اس نے ہر چیز کو جنس کی عینک لگا کر دیکھا اباحیت کی اس تحریک کو ’’فرانس کے تگڈم‘‘سارٹر،سیمون ری بواراور ’’ایسرکامی‘‘نے جلابخشی ،فحاشی کی اس یہودی تحریک نے ’’ہنری ملر ‘‘البرٹ موراوبا جیسے فحش نگاروں کو جنم دیا اور اسی فلسفہ یہودیت نے سارٹر کو سیمون کے ساتھ چالیس سال تک ناجائز تعلقات قائم کرنے پر فخر کرنے کی ہمت دلائی ،اور اباحیت کے اسی یہودی فلسفے نے یورپ کی حالیہ جنسی بے راہ روی اور اجتماعی زنا کاری کی راہ ہموار کی جس نے انسان وحیوان کے فرق کو مٹادیا۔
شیعوں نے بھی انسانی معاشرے کو کھوکھلا کرنے کے لیے زناوبدکاری پر ’’متعہ‘‘کانقاب ڈال کر اس کو اعلیٰ ترین عبادت کا درجہ دے دیا اور کلینی سے خمینی تک تمام رافضی اہل قلم اس بات پر متفق ہیں کہ جو متعہ سے محروم رہا وہ جنت سے بھی محروم رہے گا اور قیامت کے دن نکٹا اٹھے گا اور اس کا شمار اﷲکے دشمنوں میں ہوگا ۔شیعہ علماء ومجتہدین میں عاملیؔ تو اجتماعی بدکاری پر زور دے ہی چکے تھے ،لیکن عصر حاضر کے کلینی یعنی ’’آیت اﷲخمینی ‘‘ نے بدکار اور فاحشہ عورتوں کے ساتھ زنا کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ (تحریر الوسیلۃ ،آیت اﷲخمینی ۔ج۲ص ۳۹۰)
یہودیوں کی طرح شیعوں نے بھی شہوت رانی کا پورا سامان مہیا کردیا ہے تاکہ ہر قوم وملت کا نوجوان طبقہ ان کی چال میں پھنس کر ان کے ناپاک ارادوں اور عزائم کی تکمیل کرنے میں مددگار ہو۔
(۵) یہودیوں کے ’’پروٹوکولز‘‘نے اقتدار اور اس کی بقاء واستحکام کے لیے ذرائع ابلاغ پر کنٹرول وگرفت کو ضروری قرار دیا ۔آپ تاریخ کے کسی بھی دور کو دیکھیں ہمیشہ یہودی ذرائع وابلاغ پر چھائے نظر آئیں گے ،یورپ کے صنعتی انقلاب کے بعد یہودی یورپ وامریکہ کے ذرائع ابلاغ پر کس طرح قابض ہوئے وہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
اہل تشیع بھی یہودیوں کی طرح ہمیشہ ذرائع وابلاغ کو پنجوں میں جکڑے رہے ،خلافت اسلامیہ کے مختلف ادوار میں شیعہ حضرات ذرائع وابلاغ اور علم وادب پر قابض رہے ،مثال کے طور پر اورنگ زیب عالم گیر کے دربار کا سب سے کامیاب نثر نگار اور شاعرنعمت اﷲخان نامی ایک رافضی تھا ،علامہ شبلی نعمانی کے بیان کے مطابق اس زمانے کے ممتاز شعراء وادباء کا مذہب رافضیت تھا اور عہد عالم گیری کا مورخ بذات خود بڑا متعصب شیعہ تھا ۔اردو ادب کی ابتدا اور ترقی میں بھی شیعہ اہل قلم کا بڑا ہاتھ تھا ۔اور حقیقت یہ ہے کہ ہماری علمی اور ادبی زندگی میں شیعہ حضرات کا حصہ ان کے تناسب تعداد سے کہیں زیادہ ہے ،غالب سے لے کر پروفیسر احتشام حسین تک ممتاز شعراء وادباء اکثر وبیشتر شیعہ ہی ملیں گے ،رافضیوں کی ہماری ادبی وشعری زندگی پر حکمرانی نے اُردو شاعری میں کربلائی ادب کو جنم دیا جس کے آج کے علمبردار جانثار اختر اور افتخار عارف جیسے دین سے بے بہرہ لوگ ہیں ،رافضیت کی ہمارے شعر وادب پر یلغار اتنی سخت تھی کہ مولانا محمدعلی جوہر جیسے مرد مومن رافضیت کے رنگ میں یہ شعر کہہ گئے :
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
(الشیعہ فی المیزان(اردو ترجمہ)ڈاکٹر محمد یوسف نگرامی ص۳۰،۳۸(دہلی ۱۹۷۹)
آخر میں استدعا ہے کہ قارئین کرام اس کتاب کے مطالعہ کے دوران جہاں کوئی خامی اور کوتاہی محسوس فرمائیں،اس کی اصلاح اور نشان دہی فرمادیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی تصحیح اور تدارک کیا جاسکے ،مجھے اپنی کم علمی اور بے مائیگی کا اعتراف ہے اور اس بات کا احساس بھی کہ ’’روایات شکنی ‘‘کی میری یہ کوشش لازمی طور پر کچھ حلقوں کو گراں گزرے گی ۔تاہم اس ضمن میں مثبت اور تعمیری تنقید کا میں کھلے دل سے خیر مقدم کروں گا۔
وما توفیقی الا باﷲ
(ڈاکٹر ابوعدنان سہیل)
بہٹیری ،ضلع :بریلی یوپی( انڈیا)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اسلام کے شدید ترین دشمن کون ہیں

خلفائے راشدین رضی اﷲ عنہم کے مبارک عہد کے بعد سے آج تک ہر دور میں مسلسل اسلام کے خلاف سازشیں کی جاتی رہی ہیں ،ہر زمانے میں اس کو مٹانے اور جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے مختلف جتن کئے گئے ،اسلام کے خلاف محاذ آرائی بیرونی طور پر جنگ وجدال اور صلیبی معرکوں کے ذریعہ جس شدومدسے کی گئی اس سے زیادہ کہیں زیادہ زور وقوت کے اندرونی طور پر اسلام کی دیواریں کھوکھلی کرنے او ر انہیں منہدم کرنے کی سعی نامشکور ہر دور میں ہوتی رہی ہے ،اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ میدان حرب وضرب میں اسلام کے خلاف دشمنوں کو خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی ،جس کی انہیں توقع تھی ،البتہ اندرونی محاذ پر اُن کی تخریبی سازشیں پوری طرح کامیاب رہی ہیں جس کے نتیجہ میں ملت اسلامیہ آج پارہ پارہ نظر آتی ہے ۔اسلام کے خلاف سازشیں کرنے والے کون لوگ ہیں اور انہوںنے کن ہتھیاروں سے اسلام کے قلعہ میں شگاف ڈالنے کی کوشش کی ہے؟اس کا جواب کافی تفصیل طلب ہے ،اسلام کے حقیقی دشمنوں کے بارے میں اﷲربّ العالمین سے زیادہ کوئی نہیں جانتا ،آئیے قرآن مجید میں دیکھیں خالقِ کائنات کن لوگوں کو اسلام اور مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن قرار دیتاہے ،دشمن کے تعین کے بعد ہی ہم اس کے تخریبی ہتھکنڈوں پر غوروفکر کرسکیں گے ۔
سورۂ المائدۃ میں باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
{ لتجدن اشد الناس عد اوۃ للذّ ین ء منوا الیھود والذ ین اشرکوا ولتجدن اقربھم مودۃ للذ ین قالوا انا نصاریٰ ذلک بانھم قسیسین ورھبانا وانھم لا یستکبرون }
’’تمام لوگوں میں سب سے زیادہ مسلمانوں سے عداوت رکھنے والے تم قوم یہود کو پاؤگے اور ان لوگوں کو جو شرک کرتے ہیں ،اور مسلمانوں کیلئے نرم گوشہ ان لوگوں کے دلوں میں ہے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہلاتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں درویش اور عبادت گذار لوگ پائے جاتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے ‘‘۔
قرآن مجید کی اس آیت کی روشنی میں ہمارے سب سے بڑے اور شدید دشمن ’’یہود ‘‘قرار پاتے ہیں اور ان کے ساتھ وہ لوگ بھی جو شرک کا ارتکاب کرتے ہیں ! اﷲتعالیٰ نے عیسائیوں کو کسی قدر ہمدرد بتایا ہے ۔ربّ العالمین سے زیادہ سچی بات کس کی ہوسکتی ہے ؟لیکن جب ہم ان آیات کی روشنی میں تاریخ کے صفحات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ وہ نصاریٰ جن کے دلوں میں ہمارے لئے نرم گوشہ بتایا گیا ہے ،ان سے گذشتہ چودہ سو سالوں میں مسلمانوں کے بے شمار معرکے اور محاذ آرائیاںہوئی ہیں ،خاص طور پر صلیبی جنگوں کا طویل سلسلہ تو تاریخ میں مشہورہی ہے ۔،اسی طرح مشرکین اور کافروں سے بھی بہت سی جنگیں مسلمانوں نے لڑی ہیں ،مگر ہمارے سب سے بڑے دشمن یعنی ’’یہودی ‘‘جو ہم سے شدید عداوت رکھتے ہیں ،ان کے بارے میں تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ رسول اﷲﷺ نے ’’خیبر ‘‘میں یہود کی جو گوشمالی فرمائی تھی اور پھر آخر میں حضرت عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے انہیں خیبر اور گردونواح سے نکال باہر کیا تھا اس کے بعد سے یہود کے ساتھ مسلمانوں کی کوئی قابل ذکر محاذ آرائی یا معرکہ موجودہ صدی تک ہمیں نظر نہیں آتا ،البتہ اس صدی میں ’’اسرائیل‘‘کے ناجائز قیام کے بعد سے یہود کی عربوں سے متعدد جنگیں ہوچکی ہیں اور اب بھی ان سے جنگ وجدال کا ماحول جاری ہے ۔
ہمارا ایمان ہے کہ اﷲتعالیٰ کا قرآن مجید برحق ہے اور اسی طرح ہمیں یہ بھی یقین کامل ہے کہ کوئی ’’شدید دشمن‘‘چودہ سو سال کے طویل عرصہ تک خاموش اور چپ چاپ نہیں بیٹھ سکتا ۔وہ تو اپنی فطرت کے مطابق لازمی طور پر حریف کو زک پہنچانے اور اس کو خاک میں ملانے کی کوشش ہمہ وقت کرتا رہے گا۔
آئیے اس بات پر غور کریں کہ ہمارے سب سے بڑے دشمن ’’قوم یہود ‘‘نے گذشتہ چودہ سو سالوں میں ہمیں کہاں کہاں اور کیسے کیسے زک پہنچانے کی کوشش کی ہے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یہود کی ریشہ دوانیاں
تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲعنہ کے دور خلافت تک قوم یہود کو اسلام اور ملت اسلامیہ کی طرف بُری نگاہ ڈالنے کی ہمت بھی نہیںہوئی ،لیکن اس کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اﷲعنہ کے عہد مبارک میں مختلف عوامل اور اسباب کی بناپر یہود کو اپنے پر پُرزے نکالنے کا موقع مل ہی گیا ۔سب سے پہلے عبداﷲبن سبانامی یہودی جو یمن کا رہنے والا تھا ،ایک سازش کے تحت بظاہر اسلام قبول کیا اور پھر مسلمانوں کے درمیان رہ کر مکر وفریب کے جال پھیلانے میں مصروف ہوگیا ،قسمت نے اس کی یاوری کی اور نئے نئے دائرہ اسلام میں داخل ہونے والے اس وقت کے مسلمان (خصوصاً مصر اور عراق کے علاقہ میں )اس کے دام وفریب میں آگئے ۔اور ان لوگوں کی ریشہ دوانیوں کاپہلا ہدف حضرت عثمان غنی رضی اﷲعنہ کی ذات مبارکہ ہوئی ۔آپ کی شہادت کے خونچکاں واقعات ،اور پھر اس کے نتیجہ میں جنگ وجمل وصفین میں مسلمانوں اور خاص کر صحابہ کرام کی قیمتی خون کی ازرانی نے ملتِ اسلامیہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔عبداﷲبن سبا کا پورا گروہ جس کی تعداد اچھی خاصی ہوگئی تھی ۔ان دونوں جنگوں میں حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے ساتھ تھا ۔اس زمانہ اور اس مخصوص فضا میں اس کو پورا موقع ملا کہ لشکر کے بے علم اورکم فہم عوام کو حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی محبت کے غلو کی گمراہی میں مبتلا کردے ۔پھر جب حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے عراق کے علاقہ ’’کوفہ‘‘کو اپنا دارالخلافہ بنالیا ۔تو یہ علاقہ اس گروہ کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ،اور چونکہ مختلف اسباب وجوہات کی بنا پر اس علاقہ کے لوگوں میں غالیانہ اور گمراہانہ افکار ونظریات قبول کرنے کی صلاحیت زیادہ تھی ۔اس لئے کوفہ میں عبداﷲبن سبا کے گروہ کو اپنے مشن میں بہت زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ۔
ابن جریر طبری اور دیگر مورخین کا بیان ہے کہ عبداﷲبن سبانے سادہ لوح مسلم عوام کو گمراہ کرنے کے لیے سب سے آسان طریقہ یہ اختیار کیا کہ ان کی محبوب اور مقدس ترین شخصیت کے بارے میں غلو وافراط کا نظریہ عام کیا جائے گا ،اس مقصد کے لیے اس یہودی نے یہ شوشہ چھوڑا کہ ’’مجھے مسلمانوں پر تعجب ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اس دنیا میںدوبارہ آمد کا عقیدہ تو رکھتے ہیں ،مگر سید الانبیاء حضرت محمد ﷺ کی اس دنیا میں دوبارہ آمد کے قائل نہیں ۔حالانکہ آپ ﷺ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور تمام انبیاء سے افضل واعلیٰ ہیں ۔آپ ﷺ بھی یقینا دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے ‘‘۔عبداﷲبن سبا نے یہ بات ایسے جاہل اور ناتربیت یافتہ مسلمانوں کے سامنے رکھی جن میں اس طرح کی خرافات قبول کرنے کی صلاحیت دیکھی پھر جب اس نے دیکھا کہ اس کی یہ غیر اسلامی اور قرآنی تعلیم کے سراسرخلاف بات مان لی گئی ،تو اس نے رسول اﷲﷺ کے ساتھ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی خصوصی قرابت کی بنیاد پر آپ کے ساتھ غیر معمولی عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی شان میں غلو آمیز باتیں کہنا شروع کردیں ،ان کی طرف عجیب وغریب ’’معجزے‘‘منسوب کرکے حضرت علی رضی اﷲعنہ کو مافوق البشر ہستی باور کرانے کی کوشش کی اور جاہلوں اور سادہ لوحوں کاطبقہ جو اس کے قربت کا شکار ہوگیا تھا ،وہ ان کی ساری خرافات قبول کرتا رہا ،اس طرح اس نے اپنی سوچی سمجھی اسکیم کے مطابق تدریجی طور پر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں ایسے خیالات رکھنے والے اپنے معتقدین کا ایک حلقہ بنالیا ۔اس یہودی نے انہیں یہ باور کرایا کہ اﷲتعالیٰ نے نبوت ورسالت کے لئے دراصل حضرت علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ کو منتخب کیا تھا ،وہی اس کے مستحق اور اہل تھے ۔اور حامل وحی فرشہ جبرائیل امین کو ان کے پاس نبوت لے بھیجا تھا ،مگر انہیں اشتباہ ہوگیا اور وہ غلطی سے وحی لے کر حضرت محمدبن عبداﷲﷺ کے پاس پہنچ گئے ۔
اس سے بھی آگے بڑھ کر اس نے کچھ احمق اور سادہ لوحوں کو یہ سبق پڑھایا کہ حضرت علی رضی اﷲعنہ اس دنیا میں اﷲکا رُوپ ہیں اور ان کے قالب میں اﷲکی روح ہے ،اور اس طرح گویا وہی اﷲہیں ۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے علم میں جب یہ بات آئی کہ ان کے لشکر میں کچھ لوگ ان کے بارے میں ایسی خرافات پھیلارہے ہیں تو آپ نے ان شیاطین کو قتل کردینے اور لوگوں کی عبرت کے لیے آگ میں ڈالنے کا حکم صادر فرمایا اور اس طرح حضرت علی رضی اﷲ کی الوہیت کا عقیدہ رکھنے والے یہ شیاطین ان ہی کے حکم س قتل کردئیے گئے اور آگ میں ڈالے گئے ۔
(منہاج السنۃ ،شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ ج۱ص۷)
عبداﷲبن سبا یہودی نے اسلام میں ’’شیعیت ‘‘کی صرف بنیاد ڈالی تھی یا تخم ریزی کی تھی ،اس کے بعد یہ تحریک خفیہ طور پر اور سرگوشیوں کے ذریعہ جاری رہی اور رفتہ رفتہ اسلام میں مستقل طور پر ایک ’’یہودی لابی ‘‘وجود میں آگئی ،جو حضرت رضی اﷲعنہ کی محبت کی آڑ لے کر اسلام اور مسلمانوں میں مختلف ڈھنگ سے باہم نفرت وعداوت اور بغض وکینہ پیدا کرنے میں مصروف ہوگئی ،اس یہودی تحریک یعنی’’ شیعیت ‘‘کے مختلف داعی تھے جو مختلف لوگوں سے موقع محل کے لحاظ سے الگ الگ ڈھنگ سے بات کرتے اور ان کی ذہنی استعداد وصلاحیت کے مطابق ان کے عقائد واعمال کو متغیر کرتے تھے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اس طرح شیعیت کے نام پر مسلمانوں کے اندر مختلف گروہ پیدا ہوگئے جن کی الگ الگ اپنی اپنی ڈفلی تھی اوراپنا اپنا راگ !کچھ لوگ حضرت علی رضی اﷲ کی الوہیت یا ان کے اندر روحِ الٰہی کے حلول کے قائل تھے اور کچھ ایسے تھے جو اُن کو رسول اﷲﷺ سے بھی افضل واعلیٰ نبوت ورسالت کا اصل مستحق سمجھتے تھے اور جبرائیل امین کی غلطی کے قائل تھے،کچھ لوگ ان میں ایسے تھے جو رسول اﷲﷺ کے بعد کے لئے اﷲتعالیٰ کی طرف سے نامزد امام ،امیر اور وصی رسول مانتے تھے ،اور اس بناء پر خلفاٗ ثلاثہ یعنی حضرت ابوبکر ،حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اﷲعنہم ،اور ان تمام صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو جنہوں نے ان حضرات کو خلیفہ تسلیم کیا تھا اور دل سے ان کا ساتھ دیا تھا ،یہ بدباطن لوگ انہیں کافر ومنافق یا کم ازکم غاصب وظالم اور غدار کہتے تھے ۔ان کے علاوہ بھی ان میں مختلف عقائد ونظریات رکھنے والے گروہ تھے جو مختلف ناموں سے پکارے گئے ۔ان سب میں نقطۂ اشتراک حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں غلو تھا ،ان میں بہت سے فرقوں کا اب دنیا میں غالباً کہیں وجود بھی نہیں پایا جاتا ،تاریخ کی کتابوں کے اوراق ہی میں ان کے نام ونشان باقی رہ گئے ہیں ۔البتہ چند فرقے اس دور میں بھی مختلف ممالک میں پائے جاتے ہیں ،ان شیعوں کے ’’اثنا عشریہ‘‘فرقے کو امتیاز واہمیت حاصل ہے۔
ہم اس بات کے ثبوت میں کہ عبداﷲبن سبا یہودی ہی اسلام میں شیعیت کا موجد وبانی ہے ۔نیز شیعیت دراصل یہودی تحریک ہے جو اسلام کے نام پر امت مسلمہ کو باہم متفرق اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کا وجود ختم کرنے کے لیے ،ایک سازش کے تحت برپاکی گئی تھی اور آج بھی یہ شیعیت یا دوسرے لفظوں میں ’’یہودیت ‘‘اپنے اصلی روپ میں نیز مسلمانوں میںموجود مختلف بدعتی فرقوں اور تصوف کے پس پردہ اپنا مشن پورا کرنے میں مصروف ہے ۔ابن سبا کے بارے میں شیعہ حضرات کی اسماء الرجال کی مستند ترین کتاب ’’رجال الکشی‘‘سے ایک اقتباس نقل کررہے ہیں۔
حالانکہ ابن جریر طبری ’’تاریخ الامم والملوک ‘‘شہرستانی کی ’’الملل واالنحل ‘‘ابن حزم اندلسی کی ’’الفصل فی الملل والنحل ‘‘اور ابن کثیر دمشقی کی ’’البدایہ والنہایہ‘‘میں بھی اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ شیعیت کا بانی عبداﷲبن سبا یہودی ہے ۔مگر چونکہ بہت سے شیعہ علماء اورمصنفین عبداﷲ بن سبا سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں ،یہاں تک کہ ماضی قریب کے بعض شیعہ مصنفین نے تو عبداﷲبن سبا کو ایک فرضی ہستی قرار دے دیا ہے گویا وہ سرے سے اس کے وجود ہی کے منکر ہیں،اس لئے شیعوں کی اسماء رجال کی مستند ترین کتاب ’’رجال کشی ‘‘کاحوالہ ہی مناسب ہے تاکہ جانب داری اور الزام کیجُرم سے ہمارا دامن ہمارا دامن داغدار نہ ہو۔
(ذکر بعض اہل العلم انّ عبد اﷲ بن سبا کان یھودیاً فاسلم ووالی علیاً علیہ السلام ، وکان یقول وھو علی یھود یتہ في یوشع بن نون صی موسی بالغلو ، فقال فی الاسلام بعد وفاۃ رسول اﷲ ﷺ في علی علیہ السلام مثل ذلک ، وکان اول من اشھر بالقول بفرض امامۃ علی واظھر البراء ۃ من اعدائہ وکاشف مخالفیہ اکفرھم ۔)
بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداﷲبن سبا پہلے یہودی تھا ،پھر اسلا م قبول کیا اور حضرت علی علیہ السلام سے خاص تعلق کا اظہارکیااور اپنی یہودیت کے زمانے میں وہ حضرت موسیٰ کے وصی یوشع بن نون کے بارے میں غلو کرتا تھا ،پھر رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد اسلام میں داخل ہوکر وہ اسی طرح کاغلو حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں کرنے لگا ،اور وہ پہلا آدمی ہے جس نے حضرت علی کی امامت کے عقیدے کی فرضیت کا اعلان کیا ،اور ان کے دشمنوں سے براء ت ظاہر کی اور کھلم کھلا ان کی مخالفت کی اور انہیں کافر قرار دیا ۔ (رجال الکشی :ص۱۷،طبع بمبئی ۱۳۱۷؁ھ ایضاً :ص۷۱)
دلچسپ ترین بات یہ ہے کہ شیعوں کے اسماء الرجال کی اسی مستند ترین کتاب ’’رجال کشی‘‘میں امام جعفر صادق سے متعدد روایتیں نقل کی گئی ہیں ،جن میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ شیعیت کا یہ بانی عبداﷲبن سبا اور اس کے ساتھی حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی الوہیت کا عقیدہ رکھنے اور اس کی دعوت دینے کے جرم میں خود حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے حکم سے آگ میں ڈلوا کر ہلاک کردئیے گئے ۔ (رجال الکشی :ص۷۰ طبع بمبئی ۱۳۱۷؁ھ ایضاً :ص۷۰)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
یہودیت اور شیعیت کی مشترکہ قدریں

(۱) دین میں غلو یا مبالغہ آرائی:
مذہبی پیشواؤں اور دینی رہنماؤں کے مرتبہ میں حد سے زیادہ مبالغہ آرائی اہل کتاب خصوصاً قوم یہود کی نمایاں صفت ہے ،قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر اس عیب کی نشان دہی کی گئی ہے ،مثلاً:
{ یا اھل الکتاب لا تغلوا في د ینکم ولا تقولوا علی اﷲ الا الحق }
’’اے اہل کتاب !(یہود ونصاریٰ)اپنے دین میں غلو اختیار نہ کرو اور اﷲ تعالیٰ سے منسوب کرکے غلط باتیں نہ کہو ‘‘۔ (النساء:۷۱)
{ وقالت الیھود عزیر ابن اﷲ وقالت النصاری المسیح ابن اﷲ }
’’یہود نے عزیر کے بارے میں دعویٰ کیا کہ وہ اﷲ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ مسیح کو اﷲکا بیٹا بتاتے ہیں‘‘۔ (التوبۃ:۳۰)
{ وقالوا لن یدخل الجنۃ الا من کان ھود ا او نصاریٰ تلک امانیھم قل ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین }
’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہود ونصاریٰ کے علاوہ کوئی دوسرا جنت میں داخل نہ ہونے پائے گا ۔یہ ان لوگوں کی دل بہلاوے کی باتیں یں ،آپ ان سے پوچھئے کہ اپنے اس دعویٰ کی کوئی دلیل ہو تو لاؤ اگر تم سچے ہو‘‘۔ (البقرۃ:۱۱۱)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
(۲) اپنے دینی رہنماؤں کو اﷲکے اختیارات سے متصف کرنا :
{ اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اﷲ } (التوبۃ:۳۱)
’’انہوں نے اﷲ کو چھوڑ کر اپنے دینی پیشواؤں او ر علماء ومشائخ کو اپنا رب بنالیا ہے ‘‘
{ قل یا اھل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بینا وبینکم الا نعبد الا اﷲ ولا نشرک بہ شیئا ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اﷲ } (آل عمران:۶۴)
’’(اے نبی !)آپ اہل کتاب سے کہہ دیجئے کہ آؤ اس بات کی طرف جو تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے و ہ یہ کہ اﷲکے علاوہ ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا رب قرار نہ دے‘‘
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
(۳) التباس وکتمانِ حق:
{ ان الذ ین یکتمون ما انزلنا من البینات والھدیٰ من بعد ما بیّناہ للناس في الکتاب اولئک یلعنھم اﷲ ویلعنھم اللاعنون }
’’جو لوگ ہماری نازل کردہ نشانیوں اور فرمان ہدایت کو چھپاتے ہیںحالانکہ ہم نے اسے اپنی کتاب(توریت وانجیل)میں لوگوں کے لیے واضح طور پر بیان کردیاتھا ۔ایسے ہی لوگوں پر اﷲتعالیٰ لعنت فرماتا ہے اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنتیں بھی ان پر پڑ تی ہیں‘‘ (البقرۃ:۱۵۹)
{ یا اھل الکتاب لم تکفرون بایات اﷲ وانتم تشھدون ، یا اھل الکتاب لم تلبسون الحق بالباطل وتکتمون الحق وانتم تعلمون }
’’اے اہل کتاب !(یہود ونصاریٰ )تم جان بوجھ کر کس لئے اﷲ کی آیات کاانکا ر کرتے ہو؟اور اے اہل کتاب!تم کس لیے حق پر باطل کا غلاف چڑھا کر اسے پوشیدہ کرتے ہو ۔حالانکہ تم دیدہ دانستہ حق کو نظر انداز کررہے ہو‘‘۔ (آل عمران:۷۰-۷۱)
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
(۴) مسلمانوں سے شدید عداوت ودشمنی:
{ لتجدن اشد الناس عد اوۃ للذ ین ء منوا الیھود والذ ین اشرکوا }
’’تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عداوت رکھنے والے تم قوم یہود کو پاؤگے اور ان لوگوں کو بھی جو شرک کا ارتکاب کرتے ہیں‘‘۔ (المائدۃ:۸۲)
یہ ہے قرآن کی گواہی اہل کتاب خصوصاً یہود کے بارے میں اﷲتعالیٰ سے زیادہ سچی بات اور کس کی ہوسکتی ہے؟؟آئیے اب ہم یہود کی ان خصوصیات کی شیعی لٹریچر میں تلاش کرتے ہیں :
سب سے پہلے دین میں غُلو یا مبالغہ آرائی کو لیجئے:
امت مسلمہ کے نزدیک جس طرح تمام نبی ورسول اﷲتعالیٰ کی طرف سے مقرر اور نامزد ہوتے ہیں ،امت یا قوم اسے منتخب نہیں کرتی ٹھیک اسی طرح شیعہ حضرات کے یہاں نبی کے بعد ان کے جانشین وخلیفہ اور امام بھی اﷲتعالیٰ ہی کی طرف سے نامزد کیے جاتے ہیں ۔ان کے عقیدے کے مطابق ان کے یہ تمام ’’امام‘‘ایک ’’نبی‘‘کی طرح معصوم ہی ہوتے ہیں ،انبیاء ورسل ہی کی طرح ان کی اطاعت امت پر فرض ہوتی ہے ۔مرتبہ کے لحاظ سے یہ’’ائمہ ‘‘تمام انبیاء ورسولوں سے افضل اور رسول اکرم ﷺ کے برابر ہوتے ہیں ۔ان کے خیال میں خاتم النبیین ﷺ کی وفات کے بعد اس دنیا کے خاتمہ تک اﷲتعالیٰ کی طرف سے بارہ امام نامزد ہیں ۔جو امام اول حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے شروع ہوکر علی الترتیب حسن عسکری تک دنیا میں آکر کاروبار امامت انجام دینے کے بعد وفات پاگئے مگر بارہویں اور آخری امام بغداد کے پاس ’’سرمن رای ‘‘کے غار میں روپوش ہیں اور وہی قرب قیامت میں مہدی بن کر نمودار ہوں گے اور دنیا پر بلا شرکت غیرحکومت کریں گے وغیرہ وغیرہ۔
ایران کے مقتدر شیعی رہنما اور ایرانی انقلاب کے بانی آنجہانی آیت اﷲ خمینی اپنی کتاب ’’الحکومۃ الاسلامیہ ‘‘میں ’’الولایۃ التکوینیہ ‘‘کے عنوان کے تحت رقم طراز ہیں :
(وان من ضروریات مذ ھبنا ان لأئمتنا مقاماً لا یبلغہ ملک مقرب ولا نبي مرسل ) (الحکومۃ الاسلامیہ ،آیت اﷲ خمینی ص:۵۲)
’’اور ہمارے مذہب (اثنا عشریہ )کے ضروری اور بنیادی عقائد میں سے یہ عقیدہ بھی ہے کہ ہمارے ائمہ کو وہ مقام ومرتبہ حاصل ہے ،جس تک کوئی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل بھی نہیں پہنچ سکتا‘‘۔جمہور امت مسلمہ کے نزدیک کائنات کے ذرہ ذرہ پر حکومت وفرماروائی صرف اﷲ تعالیٰ کی ہے اور ساری مخلوق اس کے تکوینی حکم کے سامنے سرنگوں اور تابع وفرمان ہے یہ شان کسی نبی اور رسول کی بھی نہیں ۔قرآن مجید کی بے شمار آیتیں اس بات کا واضح طور پر اعلان کرتی ہیں مگر اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ :
(فان للامام مقاماً محمود اً ودرجۃ سامیۃً وخلافۃً تکوینیۃ تخضع لولایتھا وسیطرتھا جمیع ذرات الکون )
’’امام کو وہ مقام اور بلند درجہ اور ایسی تکوینی حکومت حاصل ہوتی ہے کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے حکم واقتدار کے آگے سرنگوں اور تابع فرمان ہوتا ہے ‘‘ (الحکومۃ الاسلامیہ ،آیت اﷲخمینی :۵۲)
اثنا عشری مذہب کی روسے شیعہ حضرات کے ائمہ کو انبیاء علیہم السلام کے تمام خصائص اور کمالات ومعجزات تک حاصل تھے اور ان کا درجہ ا نبیاء سابقین ،یہاں تک کہ اولوالعزم انبیاء نوح ،ابراہیم ،موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام سے بھی بلند وبرتر ہے ۔شیعہ حضرات کی مستند ترین کتاب ’’الجامع الکافی ‘‘جو ابوجعفر یعقوب کلینی راوزی (المتوفیٰ ۳۲۸؁ھ )کی تصنیف ہے ،صحت واستناد کے لحاظ سے اہل تشیع کے نزدیک اس کا وہی درجہ ہے جو امت مسلمہ کے نزدیک صحیح بخاری کا ہے ،بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق ’’الجامع الکافی‘‘بارہویں غائب امام کی تصدیق شدہ شیعہ مذہب کا سارا دارومدار اسی کتاب پر ہے ’’اصول کافی ‘‘میں کتاب الحجہ باب (ان الارض کلھا للامام )کے تحت ابوبصیر سے روایت ہے کہ ان کے ایک سوال کے جواب میں امام جعفرصادق نے فرمایا :
(اما علمت انّ الد ینا والاخرۃ للامام یضعھا حیث یشاء ویدفعھا الی من یشاء )
’’کیا تم کو یہ بات معلوم نہیں کہ دنیا اور آخرت سب امام کی ملکیت ہے ۔وہ جس کو چاہیں دے دیں اور جو چاہیں کریں ‘‘ (اصول کافی :ص ۲۵۹)
شیعوں کے کثیر التصانیف بزرگ اورمجتہد مُلّا باقر مجلسی اپنی تصنیف ’’حیاۃ القلوب‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:
’’امامت بالاتر از رتبہ پیغمبری ‘‘امامت کا درجہ نبوت و پیغمبری سے بالا تر ہے ‘‘۔
(حیات القلوب :ملا باقر مجلسی ج۳ ص۱۰)
اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ ازل سے ابد تک ساری باتوں کا علم (ما کان وما یکون کا علم)اﷲتعالیٰ کے سوا کسی کو حاصل نہیں اور اس کا علم ساری کائنات کو محیط ہے:وانّ اﷲ قد احاط بکل شي ء علما (الطلاق:۱۲) یہودی ذہن وفکر نے اپنی افتاد طبع کے مطابق ’’غلو عقیدت ‘‘کے نظریہ کو فروغ دینے کے لیے پہلے رسول اﷲﷺ کے لیے (ماکان وما یکون)کے علم کا پروپیگنڈا کیا اور پھر آپ ﷺ کے بعد شیعہ حضرات کے خود ساختہ ’’ائمہ معصومین ‘‘اس علم کے وارث اور امین ٹہرائے گئے ،شدہ شدہ یہمشرکانہ نظریہ عقیدت رسول کے بھیس میں عامۃ المسلمین کے ایک خاص طبقہ یعنی ’’اہل بدعت ‘‘کا بھی اوڑھنا بچھونا بن گیا۔
ملاحظہ کیجئے شیعی روایت :امام جعفر صادق نے اپنے خاص رازداروں کی ایک محفل میں ارشاد فرمایا :
(لو کنت بین موسی والخضر لأخبرتھما انی اعلم منھما ولانباتھما ما لیس فی اید یھما لأن موسیٰ والخضر علیھما السلام اعطیا علم ما کان ولم یعطیا علم ما یکون وما ھو کائن حتی تقوم الساعۃ وقد ورثناہ من رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ السلام وآلہ وراثۃ )
’’اگر میں موسیٰ اور خضر کے درمیان ہوتا تو ان کو بتا تا کہ ان دونوں سے زیادہ علم رکھتا ہوں ،اور ان کو اس سے باخبر کرتا ہوں جو ان کے علم میں نہیں تھا ۔کیونکہ موسیٰ وخضر علیہما السلام کو صر ف ’’ماکان‘‘کا علم حاصل ہوا تھا اور ’’ما یکون ‘‘اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے اس کا علم ان کو نہیں دیا گیا تھا ۔اور ہم کو وہ علم رسول اﷲﷺ اور آپ کی آل سے وراثت میں حاصل ہوا ہے ‘‘ (اصول کافی :ص:۱۶۰)
اہل تشیع کا یہ عقیدہ ہے کہ دنیا کبھی امام سے خالی نہیں رہ سکتی ،اصول کافی میں ابوحمزہ سے روایت ہے کہ انہوں نے چھٹا امام جعفر صادق سے دریافت کیا کہ یہ زمین بغیر امام کے باقی اور قائم رہ سکتی ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر زمین پر امام کا وجود باقی نہ رہے تو وہ دھنس جائے گی باقی نہیں رہے سکے گی۔ (اصول کافی ،ص:۱۰۴)
اسی طرح اما م باقر سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ اگر امام کو ایک گھڑی کے لئے بھی زمین سے اٹھالیا جائے تو وہ اپنی آبادی کے ساتھ ایسے ڈولے گی جیسے سمندرمیں موجیں آتی ہیں۔
اہل کتاب (یہود ونصاریٰ)کا دعویٰ ہے کہ یہود ونصاریٰ کے علاوہ کوئی دوسراگروہ جنت میں داخل نہیں ہوپائے گا ۔اہل تشیع کے یہاں بھی یہ دعویٰ اسی کروفر کے ساتھ پایا جاتا ہے ان کے نزدیک ائمہ معصومین کو ماننے والے (یعنی شیعہ حضرات )اگر ظالم اور فاسق بھی ہیں تب بھی جنت ہی میں جائیں گے اور ان کے علاوہ مسلمان اگرچہ متقی اور پرہیز گار بھی ہوں اس کے باوجود دوزخ میں ڈالیں جائیں گے ۔اصول کافی میں امام باقر سے روایت کی گئی ہے آپ نے فرمایا:
( ان اﷲ لا یستحي ان یعذب امۃ وانت بامام لیس من اﷲ ، وان کانت في اعمالھا برۃ تقیۃ وانّ اﷲ لیستحی ان یعذب امۃ وانت بامام من اﷲ وان کانت فی اعمالھا ظالمۃ مسیئۃ ) (اصول کافی :ص،۲۳۸)
اﷲتعالیٰ ایسی امت کو عذاب دینے سے نہیں شرمائے گا جو ایسے امام کو مانتی ہو جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نامزد نہیں کیا گیا ہے ،اگرچہ یہ امت اپنے اعمال کے لحاظ سے نیکو کار اور متقی وپرہیز گار ہو،اور ایسے لوگوں کو عذاب دینے اﷲتعالیٰ احتراز فرمائے گا جو اﷲتعالیٰ کی طرف سے نامزد اماموں کو مانتے ہوں ۔اگرچہ یہ لوگ اپنی عملی زندگی میں ظالم و بدکردار ہوں‘‘
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
واضح رہے کہ اسی قسم کی شیعی ذہنیت یا دوسرے لفظوں میں ’’یہودی اندازِ فکر ‘‘بعد کے دور میں رفتہ رفتہ مسلمانوں میں بھی رچ بس گیا اور نوبت بہ ایں جارسید کہ چند فقہی یا فروعی اختلافات کی بنیاد پر امت مسلمہ میں موجود بدعت پسند گروہ کے ’’شیخ الشیوخ‘‘(۱) نے جو برصغیر میں مشہور ومعروف ہیں اپنے مخالف توحید مسلم افراد جماعتوں کے خلاف یہ بھپتی تصنیف کرڈالی کہ :
تجھ سے اور جنت سے کیا نسبت وہابی دور ہو
ہم رسول اﷲ کے ،جنت رسول ا ﷲ کی !
(ص:۱(۱) :وھو احمد رضا خاں بریلوی من فرقۃ البریلویہ)
قطع نظر اس کے کے ان کے اپنے گروہ کے افراد کی اکثریت دین وشریعت کی کتنی پیروکار اور نماز ،روزہ ،زکاۃ ،حج وغیرہ ارکانِ اسلام پر کس حد تک عمل پیرا ہے ؟؟ صریح مشرکانہ اعمال اور بدعتی رسوم میں دان رات مبتلا ہونے اور اسلام کے صاف وشفاف اور پاکیزہ دامن میں فسق وفجور اور ہر طرح کی معصیت کے داغ ودھبے لگاتے رہنے کے باوجود یہ لوگ خود کو جنت کا ٹھیکیدار سمجھ بیٹھے ہیں ۔
اہل کتاب (یہود ونصاریٰ )کی دوسری صفت جو قرآن مجید میں بیان کی گئی ہے وہ ان کا اپنے دینی پیشواؤں ،اور راہبوں اور درویشوں کو اﷲکے صفات سے متصف کرنا ہے ۔یہ مذموم اور مشرکانہ نظریہ بھی ’’شیعی مذہب‘‘میں پورے آب وتاب کے ساتھ جلودہ گر ہے ان کی کتابوں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
اصول کافی کتاب الحجہ باب مولد النبی ﷺ میں محمد بن سنان سے روایت ہے کہ انہوںنے ابوجعفر ثانی (محمد بن علی نقی)سے (جو نویں امام ہیں)حرام وحلال کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا :
( یا محمد !ْ ان اﷲ تبارک وتعالیٰ لم یزل منفرداً بواحدنیتہ ثم خلق محمد اً وعلیاً وفاطمۃ فمکثوا الف دھرٍ ثم خلق جمیع الأشیاء فأشھد ھم خلقا واجری طاعتھم علیھا وفوّض امورھا الیھم فھم یحلون مایشاؤن ویحرمون ما یشاؤن ولن یشاؤا الا ان یشاء اﷲ تبارک وتعالیٰ )۔ (اصول کافی :ص:۲۷۸)
اے محمد! اﷲتعالیٰ ازل سے اپنی وحدانیت کے منفرد رہا ،پھر اس نے محمد،علی ،اور فاطمہ کو پیدا کیا ،پھر یہ لوگ ہزاروں قرن ٹھہرے رہے ۔اس کے بعد اﷲنے دنیا کی تمام چیزوں کو پیدا کیا ،پھر ان مخلوقات کی تخلیق پر ان کو شاہد بنایا اور ان کی اطاعت وفرمانبرداری ان تمام مخلوقات پر فرض کی اور ان کے تمام معاملات ان کے سپرد کئے ۔یہ تو حضرات جس چیز کو چاہتے ہیں حلال کردیتے ہیں اور جس چیز کو چاہتے ہیں حرام کردیتے ہیں۔اور یہ نہیں چاہتے مگر جو اﷲ تبارک تعالیٰ چاہے ‘‘۔
علامہ قزوینی نے اس ’’روایت‘‘کی شرح میں یہ تصریح کردی ہے کہ یہاں محمد ،علی اور فاطمہ سے مراد یہ تینوں حضرات اور ان کی نسل سے پیدا ہونے والے تمام ائمہ ہیں ۔ (الصافی شرح اصول کافی جزء :۳ جلد ۲ ص:۱۴۹)
اصول کافی ہی میں امام جعفر صادق سے روایت ہے :
( قال ولا یتنا ولایۃ اﷲ التی لم یُبعث نبي قط الا بھا) (اصول کافی :ص۲۷۶)
’’ہماری ولایت (یعنی بندوں اور تمام مخلوقات پر ہماری حاکمیت )بعینہٖ اﷲتعالیٰ کی ولایت وحاکمیت جیسی ہے جو نبی بھی اﷲکی طرف سے بھیجا گیا وہ اس کی تبلیغ کا حکم لے کر بھیجا گیا‘‘۔
شیعی لٹریچر کے مطابق ان کے ائمہ تمام الوہی صفات کے حامل ہیں ۔ان کی شان یہ ہے کہ عالم ماکان وما یکون میں کوئی چیز ان سے مخفی اور غیب نہیں ،انسانوں کے نامۂ اعمال روزانہ ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں ،ان کے بارے میں غفلت سہو اور نسیان کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اورکائنات کے ذرہ ذرہ پر اُن کی تکوینی حکومت ہے ،وہ دنیا وآخرت کے مالک ہیں ،جس کو چاہیں دیں اور جسے چاہیں محروم رکھیں وغیرہ وغیرہ۔
قرآن مجید کے مطالعہ سے اہل کتاب یعنی یہود ونصاریٰ کی ایک اور کمینہ صفت اور ذلیل حرکت جو ہمیں معلوم ہوتی ہے وہ ان کی حق کو چھپانے اور دین کی اصلیت پر نفاق اور جھوٹ کا پردہ ڈالنے کی مجرمانہ عادت اور ذلیل فطرت ہے۔جب ہم شیعہ لٹریچر کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں التباس اور کتمان حق کی یہ دونوں قبیح عادتیں تقیہ او ر’’کتمان‘‘کے عنوان کے تحت اس میں نمایاں نظر آتی ہیں ۔اگر فرق ہے تو صرف اس قدر کہ یہود دُنیوی مفاد کے لئے حق کے بیان سے گریز کرنے اور اﷲکی تعلیمات کو پوشیدہ رکھنے کے مجرم تھے ،مگر ان کے یہ معنوی سپوت شیعہ حضرات اﷲکی مخلوق کو گمراہ کرنے کے لئے اپنے باطل نظریات وفکار کو حق کے لبادے میں چھپا کر پیش کرنے میں مہارت رکھتے ہیں:
’’کتمان‘‘ اور ’’تقیہ‘‘شیعہ مذہب کی اصولی تعلیمات میں سے ہے۔’’کتمان‘‘کا مطلب ہے اپنے اصل عقیدہ اور مذہب ومسلک کو چھپانا اور دوسروں پر ظاہر نہ ہونے دینا ،اسی طرح ’’تقیہ‘‘کہتے ہیں اپنے قول یا عمل سے نفس واقعہ یا حقیقت کے خلاف یا اپنے عقیدہ وضمیر اورمذہب ومسلک کے برعکس ظاہر کرنا اور اس طریقہ سے دوسروں کو دھوکہ اور فریب میں مبتلا کرنا۔
شیعہ مذہب کی معتبر ترین کتاب’’اصول کافی‘‘میں امام جعفر صادق کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے:
(انکم علی د ین من کتمہ اعزّہ اﷲ ومن اذ اعہ اذ لہ اﷲ ) ’’تم ایسے دین پر ہو ،جو اس کو چھپائے گا اﷲتعالیٰ اسے عزت عطافرمائے گا اور جو کوئی اسے شائع وظاہر کرے گا ۔اﷲاس کو ذلیل اور رسوا کردے گا ‘‘ (اصول کافی :ص:۴۸۵)
’’تقیہ‘‘کے ایک مستقل باب کے تحت اصول کافی میں روایت ہے :
( عن ابی عمیر الأعجمی قال قال لہ ابو عبد اﷲ علیہ السلام یا ابا عمیر تسعۃ اعشار الد ین فی التقیۃ ولا دین لمن لا تقیۃ لہ ۔)
’’ابو عمیر اعجمی روایت کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق نے مجھ سے فرمایا کہ اے ابوعمیر !دین کے دس حصوں میں سے نو حصے تقیہ میں ہیں جو تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے ‘‘۔ (اصول کافی ،ص:۴۸۲)
امام باقر سے بھی تقیہ کے سلسلے میں ایک روایت اسی ’’اصول کافی‘‘میں درج ہے :
(قال ابوجعفر علیہ السلام : التقیۃ من دینی ود ین آباء ی ولا ایمان لمن لا تقیۃ لہ )
’’امام باقر نے فرمایا تقیہ میرا دین ہے اور میرے آباء اجداد کا دین ہے ،جو شخص تقیہ نہیں کرتا اس میں ایمان ہی نہیں‘‘ (اصول کافی ،ص:۴۸۴)
’’من لا یحضرہ الفقیہ‘‘نامی کتاب میں جو شیعہ حضرات کے اصولِ اربعہ میں سے ہے ،تقیہ کے بارے میں ایک روایت درج کی گئی ہے :
(لو قلت ان تارک التقیۃ کتارک الصلاۃ لکنت صادقاًً ، وقال علیہ السلام: لا د ین لمن لا تقیۃ لہ )۔ (من لایحضرہ الفقیہ بحوالہ باقیات الصالحات ص:۲۱۶)
امام جعفر نے فرمایا اگر میں کہوں کہ تقیہ ترک کرنے والا ایسا ہی گناہ گار ہے جیسا کہ نماز ترک کرنے والاتو میری بات صحیح اور سچ ہوگی ۔اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ جو تقیہ نہیں کرتا وہ بے دین ہے‘‘
حقیقت یہ ہے کہ تقیہ اورکتمان کے اس خطرناک عقیدے کے ذریعے یہودی عناصر کو امت مسلمہ میں نفوذ کرنے اور ان میں نفاق وتفرقہ ڈالنے میں جس قدر کامیابی ہوئی ہے وہ کسی اور طریقے سے ممکن نہ تھی ۔اس طرح یہ لوگ عامۃ المسلمین میں گھل مل گئے اور اندر ہی اندر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ،ان کے عقائد میں فساد اور انہیں دین اسلام سے برگشتہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوگئے ۔ظاہر ہے کہ یہودیت براہ راست اور کھل کر تو مسلمانوں کے قلوب واذہان پر اثر انداز ہو نہ سکتی تھی ۔اس نے شیعیت کے روپ میں جن لوگوں کو اپنے دام فریب میں گرفتار کرلیا تھا وہ بھی بہرحال ایک محدود طبقہ تھا جس کے بل بوتے پر یہودیت کے خطرناک عزائم کی تکمیل ممکن نہ تھی ،اس لئے عام مسلمانوں میں اثر ونفوذ کے لئے ’’کتمان‘‘اور ’’تقیہ‘‘سے بہتر کوئی اور تدبیر ممکن نہ تھی ۔
اس غیر محسوس طریقہ پر یہ لوگ مسلمانوں میں گھل مل گئے اور ان کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد فلسفہ اور علم کلام کی مدد سے انہوں نے مسلمانوں کے مختلف عقائد اور دین کے مسلمات میں شکوک وشبہات پیدا کرنے شروع کردئیے ۔رفتہ رفتہ مسلمان ان شاطر اور گھاک یہودیوں کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گئے ،کچھ عرصے بعد چشم فلک نے یہ عبرت منظر بھی دیکھ لیا کہ ہمارے یہ عیار دشمن ’’یہودی ‘‘دنیا کے مختلف مقامات پر خاص طور سے برصغیر ہندوپاک میں اسی تقیہ اور کتمان کے پرفریب ہتھکنڈوں کے سہارے صوفیوں کے بھیس میں مسلمانوں کے مذہبی پیشوا اور مقتدی بن بیٹھے ہیں اور کھلے عام اپنے معتقدین پر ’’شیعیت ‘‘یا دوسرے لفظوں میں ’’یہودیت ‘‘کی تعلیم وتبلیغ کرنے میں مصروف ہیں ،حالانکہ ان کی شیعیت وضلالت ان کے خیالات وافکار کتابوں سے عیاں اور صاف ظاہر تھی ،مگر بھولے بھالے مسلمان عقیدت کے نشہ میں چُور انہیں اپنا ’’روحانی پیشوا‘‘ہی نہیں بلکہ مطاع اور ’’حاجت روا ‘‘تک سمجھے بیٹھے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جہاں تک مسلمانوں سے نفرت وعداوت رکھنے کا سوال ہے تو قرآن مجید اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ’’یہودی‘‘مسلمانوں کے شدید دشمن ہیں اور ان کی دشمنی ودلی عداوت اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ اس کی تمنا اور تگ ودو کرتے رہیں کہ مسلمانوں کا وجود صفحہ ہستی سے مٹ جائے ،اس مقصد کے لیے انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ شیعیت کے روپ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت وعداوت اور تبّرا کا محاذ کھول دیا ،اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم وخیرالقرون کے مسلمانوں سے لوگوں کو بدظن کرنے کے لیے ہر وہ ہتھکنڈہ استعمال کیا جو ان کے امکان میں تھا ۔
رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد اسلام کے عروج وترقی کا سنہرا دور خلفاء ثلاثہ یعنی حضرت ابوبکر ،حضرت عمرفاروق ،اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہم کی خلافت کا عہد زریں تھا ،جس میں مسلمانوں نے مختصر عرصے کے اندر قیصر وکسریٰ کی حکومتوں کو روند ڈالا اور اسلام کا پیغام سرزمین عرب سے نکل کر مصر وشام ،ایران وعراق ،ماوراء النہر ،آزربائیجان اور افغانستان تک جا پہنچا ،ظاہر ہے کہ اسلام کی یہ ترقی اور کامیابی کمینہ فطرت قوم یہود آسانی سے کس طرح برداشت کرسکتی تھی ؟اسلام کا یہ سیل عظیم روکنا ان بدبختوں کے بس کا روگ تو نہ تھا مگر انہوں نے اپنے دلی بغض وعداوت سے جوانہیں اسلام اور مسلمانوں سے تھی ،اس بات کی کوشش کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی کہ امت مسلمہ کو خلفاء ثلاثہ اور تقریبا تمام صحابہ کرام سے بدظن کردیاجائے ۔
یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ کا قابل فخر سرمایہ رسول اﷲﷺ کے بعد دور خلفاء راشدین اور صحابہ کرام کا اُسوہ ہی ہے ۔دین اور اس کی تمام جزئیات ہم تک صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے ذریعہ ہی پہنچی ہیں ۔یہ لوگ اسلام کا مرکز عقیدت ہی نہیں ،منبع رشد وہدایت اور مسلمانوں کے لیے سرمایہ افتخار ہیں ۔دین وملت کے پاسبان ہیں ۔ان سے ذہنی رشتہ ٹوٹ جانے کے بعد اسلام کا کوئی تصور ہی باقی نہیں رہ سکتا۔کیونکہ قرآن مجید جو دین کی اساس ہے اور ذخیرہ احادیث جو ہمارے اعمال کی بنیاد ہے ۔دونوں ہی ناقابل اعتبار اور بے وقعت ہوجاتے ہیں اگر حاملین قرآن وحدیث گروہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم ،خاص طور پر خلفاء ثلاثہ کو کافر ومرتد سمجھنے اور اسلام سے پھر جانے کا تصور عام ہوجائے ۔
کیونکہ قرآن کے جامع ابوبکر وعثمان رضی اﷲعنہما اور احادیث کے حافظ اجل صحابہ رضی اﷲعنہم ہی جب رسول اﷲﷺ کی وفات کے فوراً بعد اسلام سے پھر جائیں ،تو ان کے جمع کئے ہوئے قرآن اور ذخیرہ احادیث کا کیا اعتبار رہے گا ؟اور جب قرآن وحدیث سے ہی اعتبار اٹھ گیا تواسلام کہاں باقی رہ جائے گا؟یہی وجہ ہے کہ شیعہ حضرات ظاہر دعویٰ ایمان کے باوجود نہ صرف موجودہ قرآن کو تحریف شدہ اور ناقابل اعتبار کہتے ہیں بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ اصل قرآن جو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے جمع کیا تھا ،مسلمانوں کے قرآن سے تقریباً ڈھائی گناہ زیادہ ضخیم تھا ،وہ ان سے حضرت حسن وحسین رضی اﷲ عنہما اور دیگر ائمہ معصومین کے ہاتھوں منتقل ہوتا ہوا دسویں غائب امام تک پہنچا اور وہ اسے اور دیگر انبیاء کی نشانیوں کو لے کر ’’سرمن رای‘‘کیغار میں روپوش ہوگئے اور قرب قیامت میں اس قرآن کو لے کر ظاہر ہوں گے ۔ (اصول کافی ،ص:۱۳۹،۶۷۱)
مسلمانوں کی بدقسمتی کہ قرون اولیٰ میں مختلف سیاسی عوامل اور ناگزیر حالات کے تحت امت مسلمہ میں ’’یہودی لابی‘‘کے قیام،اثر ونفوذ اور اسلام میں انہیں اندر سے نقصان پہنچانے اور تارپیڈو کرنے کا موقع مل گیا اور مسلمان اپنی سادہ لوحی کی بنا پر ان دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے باخبر نہ ہوسکے ۔یا پھر کچھ طالع آزما حکمرانوں کی چشم پوشی اور سیاسی مفاد کے لیے ان خطرناک عناصر کی درپردہ ہمت افزائی سے یہودیت کے جراثیم اسلام کے جسد صالح میںتیزی سے سرایت کرگئے !وجہ کچھ بھی ہو ،ان خبیث دشمنوں کی جراء ت کی داد دینی پڑے گی جنہوں نے عین اسلامی حکومتوں کے زیر سایہ اور ’’سرپرستی میں ‘‘اسلام کی بنیاد کھودنے اور ملت اسلامیہ کو فنا کے گھاٹ اتارنے کی خطرناک سازشیں کیں اورکامیاب ہوئے ۔آج بھی وہ علی الاعلان اسلام کے مشاہیر اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی توہین کرنے اور غلوئے عقیدت کے بھیس میں مسلمانوں کی برگزیدہ شخصیات کو ’’ارباباً من دون اﷲ‘‘بناکر توحید کے قلعہ کو زمین بوس کرنے میں مصروف عمل ہیں ۔اور مسلمان آنکھ بند کرکے ان یہود کی پیروی کررہے ہیں اور یہود صفت دشمنان اسلام کو اپنا مقتدیٰ وپیشوا بنائے ہوئے ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار!!
لیجئے ملاحظہ کیجئے شیعی کتب کی روشنی میں یہود کی مسلمانوں سے عداوت اور دشمنی کی جھلکیاں :
سب سے پہلے ام المومنین حضرت عائشہ اور حفصہ رضی اﷲ عنہما کے بارے میں شیعوں کے خیالات دیکھئے ،قرآن مجید میں رسول اﷲﷺ کی ازواج مطہرات کو ’’امہات المومنین ‘‘یعنی تمام مسلمانوں کی مائیں کہا گیا ہے ۔ظاہر ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ اہل ایمان کے دلوں میں رسول اﷲﷺ کے تعلق اور رشتہ سے آپ کی ازواج مطہرات کی وہی عظمت ہونی چاہیے جو اپنی حقیقی ماؤں کی ہوتی ہے بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر کیونکہ ایمان کا رشتہ خون کے رشتوں سے زیادہ محترم ہوتا ہے ۔اور اسی کے مطابق ان کے لیے ادب واحترام کا رویہ ہونا چاہیے ،لیکن رسول اﷲﷺ کی ازواج مطہرات میں سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا چونکہ ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کی صاحبزادیاں ہیں ،اس لئے ان کے ساتھ شیعہ حضرات کو وہی عداوت ہے جو حضرت شیخین رضی اﷲ عنہما کے ساتھ ہے ۔
شیعوں کے مستند عالم ملّا باقر مجلسی نے اپنی کتاب ’’حیات القلوب‘‘میں ایک مستقل باب قائم کیا ہے جس کا عنوان اس طرح ہے :
(باب پنجاہ وپنجم دراحوال شقاوت مآل عائشہ وحفصہ )
’’باب :۵۵ عائشہ وحفصہ کے بدبختانہ حالات کے بیان میں ‘‘ (حیات القلوب :ملا باقر مجلسی ،ج۲،ص،۷۴۲)
اسی باب میں اور کتاب کے دیگر ابواب میں بھی اس ظالم نے ان دونوں امہات المومنین کو بار بار ’’منافقہ‘‘لکھا ہے ،پھر اسی جلد دوم میں رسول اﷲﷺ کی وفات کے بیان میں لکھتا ہے :
’’وعیاشی بسند معتبر از حضرت صادق روایت کردہ است کہ عائشہ وحفصہ آنحضرت رابز ہر شہید کردند۔‘‘
’’اور عیاشی نے معتبر سند سے امام جعفر صادق سے روایت کیا ہے کہ عائشہ وحفصہ نے رسول اکرم ﷺ کو زہر دے کر شہید کیا تھا ‘‘۔ (حیات القلوب ،ملا باقر مجلسی ج:۲ص۸۷۰)
حضرت ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہما کے دورِ خلافت میں اسلام کو شاندار ترقی ہوئی ہے اور اطراف عالم میں مسلمانوں کو جس تیزی سے فتوحات حاصل ہوئیں ،وہ تاریخ اسلام کا ایک درخشاں باب اور قابل فخر سرمایہ ہے ،ان کے مبارک دور اور طریق حکمرانی کا اعتراف غیر مسلم مشاہیر تک کرتے ہیں ،یہودی ذہن وفکر کو ان سے عداوت ہونا یقینی تھی ۔چنانچہ ملاحظہ ہوں شیخین رضی اﷲ عنہما کے بارے میں اہل تشیع کے خیالات ،واضح رہے کہ شیعی روایات میں جہاں فلاں فلاں کے الفاظ آتے ہیں اس وقت اس سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ اور فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ ہوتے ہیں ،اور جہاں یہ لفظ تین مرتبہ آتا ہے وہاں تیسرے فلاں سے مراد حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ مراد ہوتے ہیں ۔یہ طرز بیان انہوں نے اسلامی حکومت اور مسلمانوں کے عتاب سے بچنے کے لیے اختیار کیا تھا:
( فلان فلان فلان ارتد وا عن الایمان فی ترک ولایۃ امیر المومنین علیہ السلام )
’’(یعنی ابوبکر،عمر ،عثمان رضی اﷲ عنہم )یہ تینوں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی امامت ترک کردینے کی وجہ سے ایمان واسلام سے مرتد ہوگئے ‘‘ ۔ (اصول کافی ،ص:۲۶۵)
ابوجعفر یعقوب کلینی کی ’’الجامع الکافی‘‘کے آخری حصہ ’’کتاب الروضہ ‘‘میں روایت ہے کہ امام باقر کے مخلص مرید نے حضرت ابوبکر وعمر رضی اﷲعنہما کے بارے میں ان سے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا :
(انھما ظلمانا حقنا وکانا اول من رکب اعناقا واﷲ ما اسست من بلیۃ ولا قضیۃ تجری علینا اھل البیت الا ھما اسسا اولھما فعلیھما لعنۃ اﷲ والملائکۃ والناس اجمعین )۔ (کتاب الروضہ ابوجعفر کلینی:ص:۱۱۵)
’’ان دونوں نے ظالمانہ طور پر ہمارا حق مارا یہ دونوں سب سے پہلے ہم اہل بیت کی گردنوں پر سوار ہوئے ہم اہل بیت پر جو بھی مصیبت اور آفت آئی ا س کی بنیاد انہی دونوں نے ڈالی ہے ،لہٰذا ان دونوں پر اﷲکی لعنت ہو ،اس کے فرشتوں کی اور تمام بنی آدم کی ‘ ‘
اسی ’’کتاب الروضہ ‘‘میں پانچویں امام باقر کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے :
(کان الناس اھل ردّۃ بعد النبي ﷺ الا ثلاثۃ فقلت ومن ثلاثۃ فقال المقداد بن الاسود وابوذر الغفاری وسلمان الفارسی رحمۃ اﷲ علیھم وبرکاتہ)
رسول اﷲﷺ کی وفات کے بعد سب لوگ مرتد ہوگئے ،سوائے تین کے (راوی کا کہنا ہے کہ)میںنے عرض کیا وہ تین کون تھے ؟تو انہوں نے جواب دیا مقداد بن الاسود،ابوذرغفاری،اور سلمان فارسی ،ان پر اﷲ کی رحمت وبرکت ہو‘‘ (کتاب الروضہ ،ابوجعفر یعقوب کلینی ،ص:۱۱۵)
شیعوں کے علامہ باقر مجلسی نے اپنی کتاب ’’حق الیقین ‘‘میں ایک روایت لکھی ہے :
’’وقتیکہ قائم علیہ السلام ظاہری شود پیش از کفار ابتداء بہ سنیان خواہد باعلماء ایشاں وایشاں راخواہد کشت‘‘ (حق الیقین ،ملا باقر مجلسی ص:۱۳۸)
’’جس وقت مہدی علیہ السلام ظاہر ہوں گے تو کافروں سے پہلے وہ سنیوں اور خاص کر ان کے عالموں سے کاروائی شروع کریں گے اور ان سب کو قتل کرکے نیست ونابود کردیں گے ‘‘
اسی کتاب کے اگلے صفحہ پر وہ یہ پیش گوئی کرتے ہیں۔
’’چون قائم ما ظاہر شود ،عائشہ راز ندہ کند تابر اوحد بزندوانتقام فاطمہ ما ازوبکشد‘‘
’’جب ہمارے قائم (یعنی مہدی)ظاہر ہوں گے ،تو عائشہ کو زندہ کرکے ان پر حد جاری کریں گے اور فاطمہ کا انتقام ان سے لیں گے ‘‘ (حق الیقین ،ملا باقر مجلسی،ص:۱۳۹)
اسی کتاب ’’حق الیقین‘‘میںامام جعفر صادق کے خاص مریدمفصل بن عمر سے ایک طویل روایت نقل کی گئی ہے ،جس میں امام جعفر صادق کی زبان سے امام غائب مہدی کے ظہور کا بہت تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے ۔اس روایت میں بیان کیا گیا ہے کہ جب صاحب الامر (امام غائب)ظاہر ہوں گے تو سب سے پہلے مکہ مکرمہ آئیں گے اور وہاں سے کوچ کرکے مدینہ جائیں گے اور جب وہ اپنے نانا رسول اﷲکی قبر کے پاس پہنچیں گے تو وہاں کے لوگوں سے دریافت کریںگے کہ کیا یہ ہمارے نانا رسول اﷲکی قبر ہے ؟لوگ کہیں گے ہاں یہ انہی کی قبر ہے ۔پھر امام پوچھیں گے یہ اوریہ کون لوگ ہیں جو ہمارے نانا کے پاس دفن کئے گئے ہیں ؟لوگ بتلائیں گے یہ آپ کے خاص مصاحب ابوبکر رضی اﷲعنہ اور عمر رضی اﷲعنہ ،حضرت صاحب الامر اپنی سوچی سمجھی پالیسی کے مطابق سب کچھ جاننے کے بعد ان لوگوں سے دریافت کریں گے ابوبکر کون تھا؟اور عمر کون تھا ؟لوگ جواب دیں گے کہ یہ دونوں آپ کے خلیفہ اور آپ کی بیویوں عائشہ وحفصہ کے باپ تھے ۔اس کے بعد جناب صاحب الامر فرمائیں گے کہ کوئی ایسا آدمی بھی ہے جس کے بارے میں شک ہو کہ یہی دونوں یہاں مدفون ہیں ؟لوگ کہیں گے کہ کوئی ایسا آدمی نہیں ہے جو اس بارے میں شک رکھتا ہو۔
پھر تین دن کے بعد صاحب الامر حکم فرمائیں گے کہ دیوار توڑدی جائے۔چنانچہ دونوں کو قبر سے نکالا جائے گا ،ان کا جسم تروتازہ ہوگا اور صوف کا وہی کفن پہنے ہوں گے جن میں یہ دفن کئے گئے تھے پھر آپ حکم دیں گے کہ ان کا کفن علیحدہ کردیا جائے (یعنی ان کی لاشو ں کو برہنہ کردیا جائے )اور ایک سوکھے درخت پر لٹکادیا جائے ۔اس وقت مخلوق کے امتحان وآزمائش کے لیے یہ عجیب واقعہ ظہور میں آئے گا کہ وہ سوکھا درخت جس پر لاشیں لٹکی ہوں گی ایک دم سرسبز شاداب ہوجائے گا ،تازہ ہری پتیاں نکل آئیں گی اور شاخیں بڑھ جائیں گی ۔پس وہ لوگ جوان سے محبت رکھتے تھے (یعنی تمام مسلمان)کہیں گے کہ اﷲکی قسم !یہ ان دونوں کی عنداﷲمقبولیت اور عظمت کی دلیل ہے اور ان کی محبت کی وجہ سے ہم نجات کے مستحق ہوں گے ۔اور جب اس سوکھے درخت کے سرسبز ہونے کی خبر مشہور ہوگی تو لوگ اس کو دیکھنے دور دور سے مدینہ آئیں گے ۔تو جناب صاحب الامر کی طرف سے ایک منادی ندا دے گا اور اعلان کرے گا کہ جو لوگ ان دونوں (ابوبکر رضی اﷲ عنہ اور عمر رضی اﷲ عنہ )سے محبت رکھتے ہیں وہ ایک طرف الگ کھڑے ہوجائیں ۔
اس اعلا ن کے بعد لوگ دوحصوں میں بٹ جائیں گے ،ایک گروہ ان دونوں سے محبت وعقیدت رکھنے والوں کا ہوگا اور دوسرا ان پر لعنت کرنے والوں کا ،اس کے بعد صاحب الامر سنیوں سے مخاطب ہوکر فرمائیں گے کہ ان دونوں سے بیزاری کا اظہارکرو نہیں تو تم پر عذاب آئے گا ،وہ لوگ انکار کریں گے تو امام مہدی کالی آندھی کو حکم دیں گے کہ وہ ان لوگوں پر چلے اور ان سب کو موت کے گھاٹ اتاردے ،پھر امام مہدی حکم دیں گے کہ ابوبکر وعمررضی اﷲ عنہما کی لاشوں کو درخت سے اتارا جائے ،پھر ان دونوں کو قدرت الٰہی سے زندہ کردیں گے اور حکم دیں گے کہ تمام مخلوق جمع ہو ،پھر یہ ہوگا کہ دنیا کے آغاز سے اس کے ختم تک جو بھی ظلم اور کفر ہوا ہوگا ان سب کا گناہ ان دونوں پر لازم کیا جائے گا اور انہیں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا جائے گا (خاص طور پر )سلمان فارسی کو پیٹنا اور امیر المومنین اور فاطمہ زہرا اور حسن وحسین کو جلادینے کے لیے ان کے گھر کے دروازے میں آگ لگانا اور امام حسن کو زہر دینا اور حسین اور ان کے بچوں اور چچا زاد بھائیوں اور ان کے ساتھیوں اور مدد گاروں کو کربلا میں قتل کرنا اور رسول اﷲ کی اولاد کو قید کرنا اور ہر زمانے میں آل محمد کا خون بہانا اور ان کے علاوہ جو بھی خون ناحق کیاگیا ہوگا یا کسی عورت کے ساتھ کہین بھی زنا کیاگیا ہوگا یا سود وحرام کا مال کھایا ہوگا ،غرض ان سارے گناہوں کو جو دنیا میں امام مہدی کے ظہور سے قبل ہوئے ہوں گے ،ان کے سامنے گنایا جائے گا اور پوچھا جائے گا کہ یہ سب کچھ تم سے اور تمہاری وجہ سے ہوا ہے؟وہ دونوں اقرار کریں گے ،کیونکہ وہ رسول اﷲکی وفات کے بعد پہلے ہی دن خلیفہ برحق (علی)کا حق دونوں مل کر غضب نہ کرتے تو ان گناہوں میں سے کوئی بھی نہ ہوتا ،اس کے بعد صاحب الامر کے حکم سے ان دونوں سے قصاص لیا جائے گا اور انہیں درخت پر لٹکا کر امام مہدی آگ کو حکم دیں گے کہ ان دونوں کو مع درخت کے جا کر راکھ کردے ۔اور ہواؤں کو حکم دیں گے کہ ان کی راکھ کو دریاؤں پر چھڑک دے ۔مفصل نے عرض کیا اے میرے آقا!کیا یہ ان لوگوں کو آخری عذاب ہوگا ؟امام جعفر نے فرمایا کہ اے مفصل !ہرگز نہیں اﷲکی قسم سید اکبر محمد رسول اﷲﷺ اورصدیق اکبر امیر المومنین علی اور سیدہ فاطمہ زہرا اور حسن مجتبی اور حسین شہید کربلا اور تمام ائمہ معصومین زندہ ہوں گے اور تمام مخلص مومن اور خالص کافر بھی زندہ کئے جائیں گے اور تمام ائمہ اور تمام مومنین کے حساب میں ان دونوں کو عذاب دیا جائے گا ۔یہا ں تک کہ دن رات میں ان کو ہزار مرتبہ مارڈالا جائے گا اور زندہ کیا جائے گا ،اس کے بعد اﷲجہاں چاہے گا ان کو لے جائے گااور عذاب دیتا رہے گا۔‘‘
(حق الیقین ،ملا باقر مجلسی :۱۴۵،دربیان رجعت)
 
Top