• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

’ اللؤلؤ المکنون ‘اور ’المسلک الواضح المامون‘ کا تعارف

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اللؤلؤ المکنون ‘اور ’المسلک الواضح المامون‘ کا تعارف
عقیدہ کی ایک مشہور کتاب ہے، معارج القبول جو کہ ایک منظومہ ’سلم الوصول إلی علم الاصول‘ کی شرح ہے، منظومہ اور اس کی شرح دونوں کے مصنف حافظ بن احمد الحکمی رحمہ اللہ ہیں، جو کہ سعودیہ کے جنوبی علاقے کے مشہور عالم دین تھے، اور اب تو پورے سعودیہ بلکہ پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی سلفی اہل علم ہیں، وہ ان کے نام نامی سے واقف ہیں، حافظ حکمی کو اللہ تعالی نے تصنیف و تالیف اور علمی نظم و نثر کا خصوصی ملکہ عطا کیا تھا، لہذا آپ نے عقیدہ، فقہ، اصول حدیث اور آداب و اخلاق سے متعلق کئی ایک کتابیں نظم و نثر میں تصنیف و تالیف فرمائیں، 1377ھ میں وفات پائی، جبکہ تاریخ ولادت 1342ھ ہے، گویا صرف پینتیس سال کی عمر میں اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے، سب سے پہلی کتاب 1362ھ میں بیس سال کی عمر تصنیف فرمائیں یوں ان کی تصنیفی عمر 15 سال بنتی ہے۔ مرحوم کی سرعتِ تالیف اور سیلانِ ذہن کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ ایک ایک رات میں علمی مسائل کے متعلق چار چار سو تک اشعار قلمبند کرلیتے تھے۔
حافظ حکمی رحمہ اللہ کے شاندار علمی منظومات میں سے ایک اصول حدیث سے متعلق بھی ہے، جس کا عنوان ہے:
’اللؤلؤ المکنون فی أحوال الأسانید والمتون‘۔ منظومہ( 340) اشعار پر مشتمل ہے، ابتدا کچھ اس طرح ہے:
اَلْحَمْدُ كُلُّ اَلْحَمْدِ لِلرَّحْمَنِ

ذِي اَلْفَضْلِ وَالنِّعْمَةِ وَالإِحْسَانِ

ثُمَّ عَلَى رَسُولِهِ خَيْرِ اَلأَنَامِ

وَالآلِ وَالصَّحْبِ اَلصَّلاةُ وَالسَّلامُ
پھر سنت کی اہمیت بیان کرنے کے بعد أصول حديث كا تعارف یوں کرواتے ہیں:
وَإِنَّمَا طَرِيقُهَا اَلرِّوَايَهْ

فَافْتَقَرَ اَلرَّاوِي إِلَى اَلدِّرَايَهْ
لِصِحَّةِ اَلْمَرْوِيْ عَنْ الرَّسُولِ

لِيُعْلَمَ اَلْمَرْدُودُ مِنْ مَقْبُولِ
لا سِيَّمَا عِنْدَ تَظَاهُرِ اَلْفِتَنِ

وَلَبْسِ إِفْكِ اَلْمُحْدَثِينَ بِالسُّنَنِ
فَقَامَ عِنْدَ ذَلِكَ اَلأَئِمَّهْ

بِخِدْمَةِ اَلدِّينِ وَنُصْحِ اَلأُمَّهْ
وَخَلَّصُوا صَحِيحَهَا مِنْ مُفْتَرَى

حَتَّى صَفَتْ نَقِيَّةً كَمَا تَرَى
ثُمَّ إِلَيْهَا قَرَّبُوا الْوُصُولاَ

لِغَيْرِهِمْ فَأَصَّلُوا أُصُولاَ
وَلَقَّبُوا ذَاكَ بِعِلْمِ اَلْمُصْطَلَحْ

حَيْثُ عَلَيْهَا اَلْكُلُّ مِنْهُمُ اِصْطَلَحْ
اور باقاعدہ کتاب کا آغاز یوں کرتے ہیں:
وَهَاك تَلْخِيصُ أُصُولٍ نَافِعَهْ

لِحَلِّ مَا قَدْ أَصَّلُوهُ جَامِعَهْ
وَلْتُحْفَظَ اَلأَنْوَاعُ مِنْهُ مُجْمَلَهْ

مِنْ قَبْلِ أَنْ نَخُوضَها مُفَصَّلَهْ
قُلْ مُتَوَاتِرٌ وَآحَادٌ شُهِرْ

عَزِيزٌ فَرْدٌ وَغَرِيبٌ اُعْتُبِرْ
چند اشعار میں تمام اصول حدیث کے اہم عناوین کو اجمالا ذکر کرکے بعد فرماتے ہیں:
وَسَأُعِيدُ اَلْكُلَّ فِي مَوَاضِعِه

فِي اَلنَّظْمِ إِجْمَالاً وَتَفْصِيلاً فَعِهْ
مُبَيِّناً أَنْوَاعَهُ مُعْتَبِرَا

جِهَاتِ تَقْسِيمَاتِهِ مُحَرِّرَا
فَلا يُمِلَّنَّكَ مَا تَكَرَّرَا

لَعَلَّهُ يَحْلُو إِذَا تَقَرَّرَا
کتاب میں بیانِ مسائل کی ترتیب وہی ہے، جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نحبۃ الفکر میں اختیار کی ہے، البتہ منظومہ میں نخبۃ الفکر یا نزہۃ النظر وغیرہ کی پابندی نہیں کی، بلکہ تمام اصولِ حدیث کا اپنے انداز سے احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
’الحَکَمِی‘ قبیلہ سے تعلق رکھنے والے ہمارے ایک استاد محترم ہیں، جن کا اسمی گرامی ہے ’حافظ بن محمد الحکمی‘ کلیۃ الحدیث کی قسم علوم الحدیث میں اعلی پائے کے استاد ہیں، اپنی کئی ایک تصنیفات ہیں، اکیڈمک اعتبار سے ’استاذیت‘ کے رتبہ پر فائز ہیں، انہیں شیخ حافظ بن محمد الحکمی حفظہ اللہ نے حافظ بن احمد الحکمی رحمہ اللہ کے متذکرہ بالا منظومہ اصول حدیث کی شرح کی ہے، دونوں ایک ہی قبیلہ سے ہیں، اور ہم نام بھی ہیں، ایک اہم اتفاق یہ بھی ہے کہ ناظم کا سنِ وفات اور شارح کا سنِ ولادت ایک ہی ہے۔
شارح اس کتاب کی طرف متوجہ ہونے کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اس منظومہ کی خصوصیت ہے کہ اس میں سلاست و روانی اور زبان و بیان کی خوبیوں کے ساتھ ساتھ الفیہ العراقی یا الفیۃ السیوطی جیسی طوالت نہیں کہ طالبعلم یاد کرنے سے گھبرائے، اور نہ ہی دیگر بعض منظومات کی طرح انتہائی اختصار ہے کہ تشنگی باقی رہے۔ شیخ کا کہنا ہے کہ افضل اور بہتر تو یہی ہے کہ الفیتین میں سے کوئی ایک یاد کیا جائے، لیکن اگر ہمت جواب دے جائے تو مختصرات میں سے
’منظومة الحکمی‘ بہترین ہے، کیونکہ اس میں اختصار کے باوجود اخلال نہیں ہے، راجح موقف کا بیان ہے، کئی مقامات پر دیگر اقوال کا تذکرہ بھی موجود ہے۔
منظومہ کا نام ’
اللؤلؤ المکنون‘ ہے، جبکہ اس کی شرح کے لیے’ المسلک الواضح المأمون‘ عنوان اختیار کیا گیا ہے۔
منظومات کی شرح بہت اہمیت رکھتی ہے، یہی وجہ ہے اصولِ حدیث پر
ألفية العراقي سے لیکر المنظومة البیقونية تک تمام کی کئی ایک شروحات موجود ہیں، بلکہ حافظ سخاوی کی مایہ ناز کتاب ’ فتح المغیث‘ جسے اصول حدیث کی مفصل و مطول اور سب سے شاندار کتاب کہا جاسکتا ہے، وہ اصل میں ’ ألفية العراقي ‘ کی شرح ہی ہے۔
المسلک الواضح المامون میں بھی محدثین کی اسی روایت کو زندہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، شارح نے منظومہ کومکمل اعراب و تشکیل سے مزین کردیا ہے، تاکہ یاد کرنے والوں کے لیے مشکل نہ ہو، شرح کا انداز ’
فتح المغیث ‘ والا ہی اپنایا ہے کہ متن اور شرح کو آپس میں ’دمج‘ کردیا ہے، اور دونوں میں تمییز کے لیے متن کو بین قوسین ذکر کیا ہے، کیونکہ یہ طریقہ افہام وتفہیم میں زیادہ کارگر ہے۔
البتہ شرح میں طوالت نہیں ہے، بلکہ اختصار کے ساتھ حلِ متن پر توجہ دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 340 اشعار کی شرح تین ساڑھے تین سو صفحات میں سمو دی گئی ہے۔
بعض اختلافی مسائل میں تفصیلات بھی ہیں، بالخصوص ان مسائل سے متعلق جن میں ایک طبقہ محدثین و متاخرین کے منہج کی تفریق کی بات کرتا ہے، ان مسائل میں شیخ صاحب نے یہ بات ثابت کی ہے کہ متقدمین و متاخرین محدثین کے منہج میں کوئی فرق نہیں، بلکہ متاخرین نے متقدمین کے منہج کو ہی آگے بڑھایا ہے۔ مثلا عنعنۃ المدلس کے متعلق بعض اہل علم کا موقف ہے کہ مطلقا عنعنہ مضر نہیں، بلکہ تدلیس کا ثبوت پیش کرنا ضروری ہے، شیخ نے یہاں متقدمین سے اقوال پیش کرے ثابت کیا کہ اصول حدیث کتابوں میں عنعنہ کو علت قرار دینا بالکل درست ہے۔ بالمقابل یہ بھی بیان فرمایا کہ بعض حالات میں عنعنۃ المدلس قبول ہوتا ہے، جس کے لیے سفیان بن عیینۃ، سفیان الثوری، یحی بن سعید وغیرہ کی مثالیں بیان کی گئی ہیں۔
ضعیف حدیث پر عمل کرنے کے حوالے سے صاحب منظومہ نے بھی فضائل اعمال وغیرہ میں تساہل والا موقف پیش کیا ہے، شیخ نے شرح میں اس مسئلہ کی تاصیل کے لیے ائمہ کے اقوال بیان کیے ہیں، اور پھر ضعیف حدیث پر عمل کی شروط کے ضمن میں فرماتےہیں:
مطلقا ضعیف کو رد اور مطلقا اس پر عمل دونوں موقف ہی کمزور ہیں، معتدل موقف یہ ہے کہ حافظ ابن حجر وغیرہ کی بیان کردہ شروط کے مطابق اس پر عمل کا ’ جواز‘ موجود ہے، کیونکہ ان شروط کو مدنظر رکھنے سے وہ تمام ’ایرادات‘ ختم ہوجاتے ہیں، جو مانعین کی طرف سے پیش کیے جاتے ہیں کہ یہ تعمد کذب، یا اتہام الدین بالنقص وغیرہ ہے۔ شیخ فرماتے ہیں اس معتدل قول کو اپنانے سے آپ کو جمہور علما کی تغلیط و تاثیم کی حاجت بھی نہ رہے گی۔ پھر فرماتے ہیں کہ: طالب علم کے لیے
جواز العمل بالضعیف بالشروط المعتبرة عند أهل الحدیث کا موقف رکھنے کے باوجود ضعیف حدیث سے اجتناب بہتر ہے، کیونکہ ائمہ محدثین کے ہاں اس باب میں’ رخصت و تسامح‘ تو ہے، لیکن ’الزام و وجوب‘ کہیں بھی نہیں۔
جدید علمی و اکیڈمک بحوث میں یہ اسلوب بھی رائج ہے کہ آخر میں صاحب کتاب ’خلاصہ، خاتمہ‘ وغیرہ عناوین کے تحت اپنی رائے کا مختصر اظہار ضرور کرتا ہے، تاکہ اگر کوئی ساری کتاب نہ بھی پڑھے، تو خلاصہ کو دیکھ کر کتاب یا بحث کا لب لباب اور نتیجہ سمجھ میں آجائے، شیخ صاحب نے کتاب کے آخر میں ’خاتمہ‘ کے عنوان سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے، اہمیت کے پیش نظر اس کا ترجمہ ہدیہ قارئین ہے:
(1) اس منظومہ کی شرح کی طرف متوجہ ہونے کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ میں اس سے متاثر تھا، تین سال تک اس کی شرح میں گزارنے کے بعد اس مجموعہ کی خوبیاں مزید واضح ہوئیں، اور میرے تاثر و عقیدت میں مزید اضافہ ہوا۔
(2) منظومہ کی شرح میں اصول حدیث کی ابتدا سے لیکر انتہا تک تمام مباحث میں میں متقدمین و متاخرین کی کاوشوں کو دیکھتا رہا، مجھے ان میں کوئی اختلاف و تفریق نظر آنے کی بجائے اس بات پر مزید یقین پختہ ہوگیا کہ متقدمین و متاخرین کا منہج ایک ہی ہے، اور حلقے کی دونوں کڑیوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ متقدمین کے کلام کو سامنے رکھتے ہوئے متاخرین نے تاصیل و تقعید کی ہے، ان کی عبارات کی تہذیب و توضیح فرمائی ہے۔ جہاں اختلاف ہے تو وہاں بھی متقدمین سے کوئی نہ کوئی اصل ضرور ملتی ہے، لیکن متاخرین مختلف اقوال میں سے کسی ایک کو اختیار کرتے ہیں، تواس کو یہ رنگ دینا درست نہیں کہ انہوں نے ’ منہج متقدمین‘ سے ہی اختلاف کرلیا ہے۔ بعض متاخرین اصولیوں کے اقوال بھی ذکرتے ہیں، لیکن یہ اصل نہیں ہوتے، بلکہ یہ محدثین کے کلام کے تحت لائے جاتے ہیں، لہذا یہ دعوی کسی طور درست نہیں کہ محدثین کے ہاں ’متقدمین و متاخرین‘ کے منہج میں کوئی فر ق یا تباین ہے۔
(3) کتاب کی شرح کی تیاری کے دوران محدثین کی سنت نبوی کے لیے قربانیوں کا مزید ادارک ہوا کہ کس طرح انہوں نے حفاظت سنت میں ہر غالی و نفیس کو خرچ کرنے میں دریغ نہیں کیا، مجھے انداز ہوا کہ امام احمد کا یہ قول’’ اگر طائفہ منصورہ اہل حدیث نہیں تو میں نہیں جانتا کہ کون ہے؟‘‘ مبنی بر حق و انصاف ہے۔ کیونکہ واقعتا جنہوں نے اپنی زندگیاں سنت رسول کے لیے کھپا دیں، ان سے بڑھ کر اس امتیاز کا حقدار کون ہوسکتا ہے؟
اسی بات کو حافظ بن احمد حکمی نے اپنے ایک منظومہ میں کیا خوب انداز سے پیش کیا ہے، فرماتے ہیں:

كفاهم شرفا أن أصبحوا خلفا


لسيد الحنفاء في دينه القيم
يُحيون سنته من بعد فلهم



أولى به من جميع الناس كلهم
اور محدثين کے لیے یہ شرف کوئی کم ہے کہ دواوین سنت نبوی ان کے ناموں سے جڑے ہوئے ہیں، دن رات سنت نبویہ کے ساتھ ان کا نام بھی زبان زد عام ہے، صبح و شام زبانیں ان کے لیے دعائے خیر سے تر رہتی ہیں۔
کتاب مدینہ منورہ،
مكتبة الميمنة (جو کہ جامعہ اسلامیہ کی جنوبی جانب واقع ہے) سے مطبوع ہے، مصنف کے حالات زندگی وغیرہ کے ساتھ صفحات کی کل تعداد 377 ہے، جلد اور ورق عمدہ استعمال کیے گئے ہیں، جبکہ قیمت صرف (16) سعودی ریال ہے، جو کہ اس کے ’غلاف‘ پر نقش ہے۔ کتاب کا قدیم ایڈیشن نیٹ پر موجود ہے، نئے ایڈیشن کے متعلق بھی شیخ صاحب فرما رہے تھے کہ اس میں حقوق وغیرہ کا کوئی مسئلہ نہیں۔ ممکن ہوا تو نئے ایڈیشن کو محدث لائبریری کی طرف سے پیش کردیا جائے گا۔ ان شاءاللہ۔
حافظ خضر حیات، جامعہ اسلامیہ، مدینہ منورہ
یوم الخمیس، 28 ذو الحجہ، 1440
 
Top