• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

”دانشوری“ اور ملائیت

شمولیت
دسمبر 10، 2011
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
52
پوائنٹ
23
جب باتیں زیادہ ہوتی ہیں تو ضروری اور غیر ضروری کا حساب لگانا مشکل ہوجاتا ہے۔ جس طرح ضرورت پر نہ بول پانا ایک کمزوری ہے اسی طرح ضرورت سے زیادہ بولنا بھی ایک بیماری ہے۔ لیکن کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ لوگ بہت بولتے ہیں پھر بھی کام کی باتیں ختم نہیں ہوتیں، انہی میں سے ایک ماہنامہ الاحسان کے ایڈیٹر بھی ہیں مدنی صاحب۔
ہمہ جہتی شخصیت اور علم بار رسالے کے مدیر جناب عبد المعید مدنی صاحب کا ایک کتابچہ منظر عام پر آیا ہے ”دانشوری“… پیش لفظ کے مطابق ”یہ کتاب آپ کی دانشوری سیریز کی ۹/۱۰/۱۱نمبر قسطوں کا مجموعہ ہے۔ان تین قسطوں میں آپ نے ڈاکٹر ذاکر نائک کی تحریک کا تجزیہ کیا ہے۔“
ہمارے عنوان کا تیور، تعارفی تمہید اور فری لانسر کی تاریخ، یہ ساری باتیں مل کر قارئین کو یہ اندازہ لگانے پر مجبور کررہی ہوں گی کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ اور اس سے پہلے کہ ہم ۴۳صفحات پر مشتمل اس کتابچے کے مشمولات(ملزومات کے علاوہ) پر بات کریں، اکبر الہ آبادی کا ایک شعر ملاحظہ فرمائیں:
سید اٹھے جو گزٹ لے کے تو لاکھوں لائے
شیخ قرآن سناتے پھرے پیسا نہ ملا
دنیا کی قیادت کا دعوے داربرصغیر کا علماء طبقہ کب سے مسلکی جھگڑوں میں پڑا ہے مگر آج تک نہیں نپٹ پایا البتہ موقع بہ موقع کراوٴڈ پُلرس (Crowd Pullers) کی ٹانگ کھینچنے میں اپنی انرجی ضرور صرف کرتا رہا ہے۔ سرسید، ابوالاعلیٰ مودودی، اسرار احمد، وحید الدین خان اور اب ڈاکٹر ذاکر نائک…اس طرح کے جتنے تاریخی نام ہیں جنھوں نے عوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنے اپنے زمانے میں متاثر کیا ہے ، ان سب میں خاص طرح کی ایک عام بات یہ ہے کہ کچھ مولویوں نے ہمیشہ ان کی طرف خار کھائی نظروں سے دیکھا ہے۔
اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ نظریاتی اعتبار سے ہم مذکورہ بالا شخصیتوں کی حمایت کررہے ہیں اور تاریخ اسلام میں مجددین کی حیثیت سے ان کا شمار کرنے کی صلاح دے رہے ہیں۔ البتہ ان کے عصری شعور نے ہمیشہ عوام وخواص کو اپیل ہی نہیں کیا بلکہ قائل کرواکے چھوڑا۔ یہاں تک کہ سیاسی سطح پر محمد علی جناح جیسے کردار نے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنا ہمنوا بنالیا اور بیچارے مولانا ابو الکلام آزاد پاکستان بننے کا تماشا دیکھتے رہ گئے۔
دین میں لیڈرشپ کی اتنی اہمیت ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں بھی امیر منتخب کرنے کی تعلیم دی ہے۔ سچ یہی ہے، عوام ہمیشہ لیڈرشپ چاہتی ہے اور جو قوم اس سے محروم ہوتی ہے وہ ہر اس آواز کے پیچھے دوڑ پڑتی ہے جس میں ذرا سا بھی دم خم نظر آتا ہے۔
ممبئی کے جو مسلمان ڈاکٹر ذاکر نائک کے دس روزہ فیسٹول نما جلسوں میں دھول اڑاتے پھرتے ہیں ان میں کئی طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں وہ بھی ہوتے ہیں جو ان کے نام پر دی جانے والی ہر آواز پر لبیک کہتے ہیں، وہ بھی جو ان کی دعوت سے پوری طرح متفق نہیں ہیں اور وہ بھی جو ان کی آئیڈیالوجی سے کلی طور پر اختلاف رکھتے ہیں۔ ایسا اس لیے کہ ان کی دعوت کا طریقہ عصر حاضر سے کچھ زیادہ ہی Appropriateہے۔ سرسید گزٹ لے کر اٹھے تھے تو انھیں لاکھوں کیوں ملا تھا؟ کیوں کہ انھوں نے وقت سے آنکھیں ملانے کی کوشش کی تھی۔مولویوں نے جس انگریزی اور سائنس کے خلاف فتوی دے کر اپنی کٹیا میں پناہ لے رکھا تھا اس کے ساتھ میدان میں اترآئے تھے۔ کتنا ہارے یاکیا جیتے، یہ الگ موضوع ہے۔ مودودی کو Followers اس لیے مل گئے تھے کہ انھوں نے زمانے کے چیلنجوں کا سامنا کیا تھا۔ اس وقت دنیا کے پاس جتنے سوال تھے مودودی صاحب سب کے جواب دینے کے لیے کمر کسے ہوئے تھے۔ اب یہ الگ بات ہے، ان میں کتنے جواب درست اور کتنے غیر درست تھے۔
بعینہ یہی کام آج کسی نہ کسی سطح پر ڈاکٹر ذاکر نائک کررہے ہیں۔ آج دنیا کا سب سے بڑا دھرم ہے بے دھرمی(سیکولرزم) اور میڈیا اس کے نفاذ میں ایسا سرگرداں ہے کہ اس کے سارے وار نشانے پر لگتے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائک کے لیے عوام اس لیے امڈپڑتی ہے کہ وہ حالات کے چیلنج کا کسی نہ کسی لیول پر سامنا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مین اسٹریم پرنٹ میڈیا اور پیس ٹی وی وغیرہ کے ذریعے آج کے ”علم کلام“(میڈیا) میں اسلام کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اب یہ الگ موضوع ہے کہ احتیاط اور تیاری کے باوجود کہاں کہاں غلطیاں کرجاتے ہیں۔
ص نمبر ۷پر مدنی صاحب نے لکھا ہے کہ :
”برصغیر میں ذاکر نائک اہل حدیثوں کے ساتھ نتھی ہوچکے ہیں۔ ان کے پاس جو بھی ہے سب اہل حدیث کا ہے: علم اہل حدیث کا، سرمایہ اہل حدیث کا، سامع اہل حدیث، واہل حدیث۔ مگر ہندوستان بھی عجیب سرزمین ہے اہل حدیث بیچارہ ہر اس شخص یا جماعت کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے جس نے کتاب وسنت کی آواز لگائی اور اس کے پیچھے دیوانہ ہوجاتا ہے۔جماعت اسلامی سے لے کر وقت کے ”مغل اعظم“ خان وحید الدین، خان اسرار احمد حقانی حتی کہ دعوت کے نام پر تبلیغی جماعت کے پیچھے بھاگنے لگتا ہے۔ یہ نہیں دیکھتا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا، اس کے دینی فہم اور دینی جذبے کی کیا گت بنے گی۔“
”ان کے پاس جو بھی ہے سب اہل حدیث کا ہے یا نہیں؟ اس سے اختلاف کی پوری گنجائش ہے۔البتہ اس اقتباس سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں: ایک یہ کہ ذاکر نائک دراصل اہل حدیث نہیں ہیں، صرف نتھی ہوئے ہیں اور دوسری یہ کہ اہل حدیث عوام میں علم اور تجربے کی اتنی کمی ہے کہ انھیں کتاب وسنت کے نام پر کوئی بھی مسلسل بے وقوف بناسکتا ہے۔
مطلب یہ کہ اہل حدیث علماء اپنی عوام کو علم دین کے نام پر جو بھی اور جتنا بھی Feed کررہے ہیں وہ ناکافی ہے۔ یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جلسوں سے سمعی اور بصری تفریح اور رسالوں کتابوں سے صرف نظری وذہنی تسکین حاصل ہوتی ہو۔ کچھ حد تک یہ بھی ممکن ہے کہ اہل حدیث علماء ابھی تک میڈیا کا مطلوبہ استعمال درست نہ سمجھ سکتے ہوں۔ خیر مسئلہ جو بھی ہو، یہ بات کلیئر ہے کہ اہل حدیث عوام کو کتاب وسنت کے نام پر کوئی بھی بے وقوف بناسکتا ہے۔
ص۸ سے لے کر ۱۳ تک ذاکر نائک صاحب اور ان کے ادارے یا اسکول کو جس اصولی معیار پر مدنی صاحب نے پرکھا ہے اور مقدمات قائم کیے ہیں وہ سارے خود اہل حدیثوں، ان کے اداروں اور مدارس کے خلاف بھی قائم کیے جاسکتے ہیں۔ ضروری اور غیر ضروری حوالوں کی مدد سے موصوف نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ذاکر صاحب کے ادارے کی بنیاد غیر شورائی ہے۔ دیگر اہل حدیث اداروں کو نظر انداز کرکے صرف مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی بات کریں جسے سارے اہل حدیث آج بھی سب سے بڑا ادارہ سمجھتے ہیں، تو پچھلے ایک سال سے جاری تحریری اٹھاپٹخ کی روشنی میں یہ بات صاف ہے کہ وہاں شورائیت نہیں ہے اور اتفاق سے اس ادارے کے خلاف بھی مدنی صاحب ہی تحریک چلارہے ہیں۔ موصوف نے لکھا بھی ہے:
”اس وقت ملت اسلامیہ ہند کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ 99فیصد ادارے مالی غبن، خیانت، نجی جائداد، استبداد اور ذاتی شان وشوکت کا قضیہ بنے ہوئے ہیں۔عموماً اداروں کے ذمہ دار خیراتی اموال میں ایسا احمقانہ تصرف کرتے ہیں کہ لوگ ششدر رہ جاتے ہیں۔“(ص9)
ادارتی شرعیت کی تفصیلی توضیح وتشریح کرنے کے بعد مدنی صاحب نے بظاہر دو سوال کیے ہیں:
”ذاکر نائک کاادارہ اور اس کے جتنے تعلیمی نشریاتی فروغ ہیں انھیں مذکورہ معیار اور پیمانے پر ناپئے اور بتلائیے کیا ان اداروں کو شرعیت حاصل ہے؟ پھر دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ان کا ادارہ ملی ادارہ کی حیثیت رکھتا ہے انڈین سوسائٹی/ وقف/یا فاؤنڈیشن رجسٹریشن قانون کے مطابق ان کی جو بھی دنیاوی قانونی حیثیت ہو لیکن ان کے ادارے کو شرعیت حاصل نہیں ہے۔ ادارہ بس گھریلو ادارہ ہے اور ان کی ذاتی ملکیت بناہوا ہے۔“
میرا خیال ہے اس سوال کی زد میں صرف ذاکر نائک ہی نہیں بلکہ سارے مدارس، ساری جمعیتیں اور سارے ادارے آتے ہیں۔ کیونکہ مدارس عموماً مقامی افراد کی ملکیت ہوتے ہیں یا پھر کسی فرد واحد کی نجی پراپرٹی۔ نام لینے کی ضرورت نہیں ہے کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک ایک نظر ماریے پورا کچا چٹھا سامنے آجائے گا۔ جمعیتوں کا حال یہ ہے کہ جو ایک بار کرسی سے چپک جاتا ہے وہ Fevicol کا جوڑ ثابت ہوتا ہے۔ وہ کرسی تب تک چھوڑنے کے لیے راضی نہیں ہوتا جب تک رسوا نہ کردیا جائے۔ (اور اب تو رسوائی بھی کارگر ثابت نہیں ہورہی ہے)اگر جمعیت کی بکری ”دودھ“ نہیں دیتی ہے تو کون سی ایسی دوسری وجہ ہوسکتی ہے کہ اسلامی شورائیت اور ادارتی شرعیت دونوں نظر انداز کردیے جاتے ہیں اور دودھ دوہنے کے سارے جتن کیے جاتے ہیں۔ آس پاس ”جی ہاں، جی ہاں“ کرنے والے افراد پالے جاتے ہیں، حرکت کرنے سے زیادہ کرسیوں پر بیٹھ کر پاوٴں ہلانے اور اونگھنے والے لوگوں کو عہدے اور ملازمتیں دی جاتی ہیں۔ ذاکر نائک کا ادارہ تو خیر پھر بھی غنیمت ہے، کم سے کم قابل اور صلاحیت مند افراد کو کام کرنے کے مواقع تو دیتا ہے۔ خود ہمارے شہر ممبئی میں اس ادارے کے کتنے مقررین یہاں وہاں دوڑ دوڑ کر خطبے اور دروس دیتے ہیں۔
تعلیم دین ہی ایک ایسی غریب جنس ہے جس کو مسلمان مفت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جو خوراکی فیس دے سکتے ہیں وہ بھی پوری کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح معاف ہوجائے اور جب مولوی چندہ کرنے کے لیے ابن بطوطہ بنتا ہے تو اس پر طعنہ زنی مزید۔ البتہ اگر میڈیکل یا انجینئرنگ کی تعلیم دلانا ہو تو مولوی بھی اپنی اولاد کے لیے لاکھوں خرچ کردیتے ہیں۔
مدنی صاحب کا کہنا ہے کہ ذاکر نائک اپنی اسکول کے لیے ملی وسائل کو ذاتی طریقے سے صرف کرنے کے مجرم ہیں۔ کیا وہ یہ بھی بتانے کی زحمت کریں گے کہ کون سا ایسا مدرسہ ہے جو اس جرم کا ارتکاب نہیں کرتا؟ کیا کوئی مسلمان چندہ دینے کے باوجود کسی مدرسے والے سے حساب کتاب مانگتا ہے؟
دانشوری(9) کا آخری پیراگراف ہے:
”خیرات کی رقموں پر اتنی قبیح دعوے داریاں کبھی اسلامی اداروں کو صحت مند رہنے ہی نہ دیں گی۔ اس حساس نقطے کی طرف دھیان اہم فریضہ ہے۔“
یہ خاتمہ بالخیر ہے مگر اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو ذاکر نائک سے خاص ہو۔ قبیح دعوے داریوں میں ایک آدھ کو چھوڑ کر سارے اسلامی ادارے مبتلا ہیں اور چونکہ اس حساس نقطے کی طرف دھیان دینے کو مدارس اور علماء کی توہین سمجھا جاتا ہے اس لیے ساری امت خاموشی جیسے خوبصورت جرم کا ارتکاب کررہی ہے۔
صدقات وخیرات کے نام پر امت کا مال کھانا، اس کے باوجود تعلیمی فیس کے نام پر ہزاروں وصول کرنا پھر بھی عوام کی قدر وقیمت نہ سمجھنا اورعوام کی مدد سے تعمیرکردہ ادارے کو اپنے طریقے سے پرسنل پراپرٹی کی طرح استعمال کرنااور شرعی شورائیت اور ادارتی شرعیت کو خاطر میں نہ لانا… یہ دفعات کیا صرف ذاکر نائک پر لگتے ہیں؟
فرق صرف اتنا ہے کہ ذاکرنائک نے علماء سے زیادہ میڈیا کے دم پر اپنا اسٹیٹ بنایا ہے اور مولوی دین، قرآن اور کتاب وسنت وغیرہ جیسے ناموں کا سہارا لیتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو اسی شمارے میں ص۱۶ پر مدرسے کے ایک مہتمم صاحب کا مضمون پڑھ لیجیے۔ کسٹمرز کو اتنا گھیر گھیر کر خیر وشر کی باتیں بتائی ہیں، لگتا ہے مدارس اور اہل مدارس سے سوال کرنے والے ہر شخص کو اسلام سے خارج کردیں گے چاہے وہ خوددار اساتذہ ہوں یا ذہین طلباء یا پھر وہ عوام جن کے رحم وکرم پر اہل مدارس کی روزی روٹی چلتی ہے۔ جب کہ تعلیم دین کو عام کرنے کے ھم(غم) میں مبتلا مہتمم حضرات کفایت شعار نہیں بلکہ ایم ایل اے اور ایم پی جیسی شاندار لائف جیتے ہیں۔ اللہ خیر کرے، ”فضائل اعمال“ میں جنھوں نے بزرگوں کو ایک ہی وضو سے چالیس سال تک نمازیں پڑھوائی ہیں اور نہ جانے کیسی کیسی ریاضتیں کروائی ہیں وہ مدرسہ چلانے پہ آتے ہیں تو ایم ایل اے اور ایم پی کو آئیڈیل تسلیم کرلیتے ہیں۔ ایسی مولویت(علمیت نہیں) سے اللہ ہی نپٹے گا۔
دانشوری(10) اور (11) جو ص14 سے 43تک ہے، دونوں کی ابتدا ایک ہی قضیے سے ہوتی ہے۔ دانشوری (10) کا پہلا پیراگراف یہ ہے:
”ذاکر نائک صاحب کی کوئی علمی شناخت نہیں ہے۔عام خطباء کی طرح مختلف موضوعات پر انھوں نے کچھ تقریریں تیار کروالی ہیں اور انھیں رٹ لی ہیں اور موضوع سے متعلق کچھ سوالات وجوابات تیار کرواکے رٹ لیے ہیں اور کچھ انگلش میں کچھ اردو میں دھڑلے سے بولتے ہیں۔ ٹی وی ان کی طاقت ہے۔ اور ان کا ٹروپ ان کا علمی سہارا ہے۔“(ص14)
میرا خیال ہے یہ بات ساری دنیا جانتی ہے۔ مگر عجیب بات یہ ہے کہ جن کی کوئی علمی شناخت نہیں ہے اور رٹ کر تقریریں کرتے ہیں وہی کیوں بڑے خطیب بنتے ہیں۔ انھیں ہی سننے کے لیے کیوں ساری بھیڑ امڈی پڑتی ہے۔ اہل حدیثوں میں بھی ایک خطیب ہیں جنھیں سننے کے لیے لوگ بیتاب ہوتے ہیں، کہاجاتا ہے انھیں بھی دوچار تقریریں ہی یاد ہیں۔ بلکہ وہ تو دوسروں کے واقعات بھی اپنا تجربہ بناکر پیش کردیتے ہیں ۔ وید کے اشلوک پڑھتے ہیں، ان کا ترجمہ کرتے ہیں اور پھر اسے کتاب وسنت کے حقائق سے Appropriateکرتے ہیں۔
اور دانشوری (11) کا پہلا پیراگراف کچھ یوں ہے :
”ذاکر نائک صاحب عالم نہیں ہیں۔انھیں کیا پتہ عالم کی اہمیت کیا ہے اور علماء کون ہیں؟ علماء وہ ہیں جن کو فتوی، دعوت، خطاب اور تزکیہ وتربیت کا حق حاصل ہوتا ہے۔“(29)
اگر ذاکر نائک کو پتہ نہیں ہوتا کہ عالم کی اہمیت کیا ہے تو مدنی صاحب نے یہ کیسے لکھ دیا کہ ”ان کا ٹروپ ان کا علمی سہارا ہے“… وہ جانتے ہیں تبھی تو انھوں نے علماء کی ایک اچھی ٹیم ہائر کی ہے…ذاکر نائک خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ”علماء وہ ہیں جن کو فتوی، دعوت، خطاب اور تزکیہ وتربیت کا حق حاصل ہوتا ہے۔“اسی لیے وہ اپنے فیسٹویلز میں اسلام کا پرزنٹیشن دینے کے لیے ہر مسلک سے علماء بلاتے ہیں۔ شاید اسی لیے ہر مسلک کی عوام بھی کچھ سننے اور کچھ دیکھنے چلی آتی ہے۔
یہ تو ہوئیں باتوں پر باتیں، اصلی بات یہ ہے کہ مولویوں کو باتیں کرنے کے علاوہ بھی کچھ کرنا چاہیے۔ جن وسائل کا استعمال غیر مولوی غلط ڈھنگ سے کررہے ہیں اور کامیاب ہورہے ہیں انہی وسائل کو شرعی ڈھنگ سے استعمال کرکے دنیا کو دکھاناچاہیے۔ دانشوری کرنے والے اپنا کاروبار نہیں چھوڑیں گے مگر اس کی مخالفت محض ”ملائیت“ نہ کہلائے اس لیے گمراہیوں سے آگاہ کرنے کے ساتھ بھلائیوں کی اشاعت کے لیے آج کا علم کلام سیکھنا اور بولنا بہت ضروری ہے!
تحریر : ابوالمیزان
Welcome to Freelancer.co.in Mumbai
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
عہد صدیقی میں کون سا ٹی وی چینل چلتا تھا؟

تحریر : سرفراز فیضی
-----------------------​
فری لانسر دسمبر کے شمار ہ میں فضیلة الشیخ عبد المعید مدنی کی کتاب پر ایڈیٹر صاحب کا اداریہ پڑھ کر افسوس ہوا۔ تبصرہ نگار نے مصنف اور کتاب دونوں کے ساتھ نا انصافی کی ہے ۔ تبصرہ پڑھتے وقت ایک لفظ بار بار زبان پر آرہا ہے…نامعقول۔ ممکن ہے یہ نامعقولیت بہت سارے لوگوں کے لیے زور بیان میں کہیں چھپ کر رہ گئی ہوں۔ لیکن انصاف کے ساتھ کتاب کو پڑھنے والا تبصرہ پڑھتے وقت اس نا معقولیت کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
تبصرہ نگارکی بنیادی غلطی
تبصرہ نگار نے مصنف کے اصل مدعا، کتاب کے پس منظر، اور ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف مدنی صاحب کے اصل دفعات کو نظر انداز کردیا ہے۔ تبصرہ نگار کو جو بات ناگوار گزری ہے اور جس کے ثبوت میں ان کی کوشش صرف ہوئی ہے اس کا تعلق کتاب کے اصل موضوع سے نہیں۔ اور ڈاکٹر صاحب کے مقدمہ میں جو اصل دفعات مدنی صاحب نے ان کے خلاف قائم کیے ہیں ان کو تبصرہ میں کچھ خاص اہمیت نہیں دی گئی ۔
ایسا محسوس ہوتا ہے تبصرہ نگارنے پہلے ہی منفی تبصرہ کا ذہن بنا لیا تھا۔ اور کتاب پڑھنے کے دوران وہ اس منفی تبصرہ میں کام آنے والے نکات کو سمیٹتا چلا گیا۔ یہ ہمارا اندازہ ہے، غیب کا علم اللہ کے پاس ہے ۔
تبصرہ پڑھنے کے بعد ایک بات یہ بھی صاف ہوتی ہے کہ یہ پوری کتاب پر تبصرہ نہیں۔تبصرہ میں صرف دانشوری سیریز کی قسط 9 کو اہمیت دی گئی ہے ۔جو کل9 صفحات پر مشتمل ہے ۔ تبصرہ میں اسے ڈیڑھ سے زائد صفحہ میں جگہ دی گئی ہے شاید اس لیے کہ تبصرہ نگار کے لیے اس میں کام کی باتیں زیادہ تھیں۔ اور دانشوری 10اور 11کے 34 صفحوں کے لیے محض دو پیراگراف۔ کیونکہ شاید اس میں تبصرہ کے لیے وہ چیز نہیں تھی جس کی تلاش تبصرہ نگارکو تھی ۔
تبصرہ نگارنے زیادہ زور ڈاکٹر ذاکر کے عصری اسلوب اور میڈیا میں اسلام کی نمائندگی پر ان کی مدح سرائی پر صرف کیا ہے۔ حالانکہ ڈاکٹر صاحب کا عصری شعور کتاب کا موضوع نہیں۔ کتاب کا موضوع کیا ہے وہ کتاب کے شروع میں پیش کیے گئے سوال سے واضح ہوتا ہے اور اصلاً کتاب اسی سوال کے جواب میں لکھی گئی ہے۔مصنف لکھتے ہیں:
”مجھ سے بار ہا سوال کیا گیا ہے کہ ذاکر نائک اور ان کے افکار کے بارے میں میرا کیا خیال ہے اور ان کے کاموں کو میں کس نگاہ سے دیکھتا ہوں؟“
یہ وہ سوال ہے جس کے جواب میں کتاب تصنیف کی گئی ہے ۔ جواب کی تمہید ہی میں مصنف نے وضاحت فرمادی ہے کہ:
”کسی کے کام کی حقیقت اور کسی فرد کی ثقاہت، اصالت اور افادیت کو معلوم کرنے کے لیے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ ان اصولوں کو کسوٹی بناکر کام اور شخصیت کو پرکھنا چاہیے ، اس کے بعد فیصلہ کرنا چاہیے کہ کام کی حقیقت کیا ہے اور فرد کی ثقاہت، اصالت اور افادیت کیا۔ کسی ہاوہو، شہرت، اشتہارات، دولت اور میڈیائی ہاو بھاو کو معیار حق و باطل نہیں ماناجاسکتا۔“
ان دونوں اقتباسات کی بنیاد پر کتاب کا موضوع واضح ہوجاتا ہے ۔تبصرہ نگار نے کتاب کے اصل مدعا کو نظر انداز کردیا ہے ۔تبصرہ نگار کے حساب سے :
”ڈاکٹر ذاکر نائک کے لیے عوام اس لیے امڈپڑتی ہے کہ وہ حالات کے چیلنج کا کسی نہ کسی لیول پر سامنا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مین اسٹریم پرنٹ میڈیا اور پیس ٹی وی وغیرہ کے ذریعے آج کے علم کلام(میڈیا)میں اسلام کی نمائندگی کررہے ہیں۔ اب یہ الگ موضوع ہے کہ احتیاط اور تیاری کے باوجود کہاں کہاں غلطیاں کرجاتے ہیں۔“
جسے الگ موضوع بول کر تبصرہ نگار نے نظر انداز کردیا ہے وہی تو کتاب کا اصل موضوع ہے کہ احتیاط جو ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی اور اس بے احتیاطی کی بنا پر غلطیاں کہاں کہاں ہوئی ہیں۔ اور ڈاکٹر صاحب کے جس عصری شعور کی مدح سرائی میں تبصرہ نگار نے تبصرہ کا پہلا پورا ایک صفحہ صرف کیا ہے وہ کتاب کا موضوع نہیں اور نہ ہی مصنف نے ڈاکٹر صاحب کے عصری شعور پر ہی پوری کتاب میں کہیں تنقید کی ہے۔ مصنف کا اصل مدعا تو یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک کو چاہیے کہ وہ اپنے حدود سے واقف رہیں۔ ان کا علم اور صلاحیت انھیں دعوت کے میدان میں جس حد تک جانے کی اجازت دیتا ہے اسے پھلانگنے کی کوشش نہ کریں۔
”ایک عامی شخص جس کو علوم شرعیہ کا علم نہیں ہے یا جو شخص احداث کی تیار کردہ تقریریں رٹتا ہے ان کے تیار کردہ سوالات و جوابات کو رٹتا ہے اور پھر داعی اور مفتی بنتا ہے وہ کیا کرے ؟ اس کے لیے ان تکلفات کی ضرورت نہیں ہے۔ امت میں علماء بہت سے ہیں جو یہ کرسکتے ہیں ان سے یہ کام لیا جائے اور ان کو ہر ممکن طرح تعاون دیا جائے ۔ ایک عامی انسان کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ علم سیکھے پھر دعوت وتبلیغ کرے ۔ اس کے لیے استدلال، اجتہاد اور مفروضے کی گنجائش نہیں ہے کہ علماء اور جماعتیں کام نہیں کرتی ہیں لہٰذا اس کے لیے مفتی، خطیب ، مجتہد اور داعی بننے کی کھلی چھوٹ اور راہ کھلی ہوئی ہے۔“
”ایسی صورت میں ان (ڈاکٹر ذاکر نائک)کی پوزیشن بس اتنی رہ جاتی ہے کہ وہ پریچر بننے کی زحمت نہ اٹھائیں، وہ ڈائریکٹر اور اینکر (Anchor)بننے پر اکتفا کریں اور بلاوجہ مفتی بننا اورتقریریں رٹنابند کردیں۔“
”بہر حال ایک انسان اگر عالم نہیں ہے تو اس کی دعوتی سرگرمی محدود ہوتی ہے۔ اس کو شرعاً اس کی اجازت ہے امور ظاہرہ واضحہ تک اپنی سرگرمی محدود رکھے ۔“
کتاب کا بیشتر حصہ اسی موضوع پر مشتمل ہے لیکن تبصرہ نگار نے اس اہم موضوع کو تبصرہ میں کوئی خاص اہمیت نہیں دی ۔دانشوری میں جو دفعات ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف قائم کیے گئے ہیں ان سب کے جواب میں تبصرہ نگار کا کہنا ہے کہ یہ جرائم صرف ڈاکٹر صاحب کے ساتھ خاص نہیں بلکہ سارے ادارے ان جرائم کے مرتکب ہیں۔ تبصرہ کے ملتے جلتے 4 اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
”ص8 سے لے کر13 تک ذاکر نائک صاحب اور ان کے ادارے یا اسکول کو جس اصولی معیار پر مدنی صاحب نے پرکھا ہے اور مقدمات قائم کیے ہیں وہ سارے خود اہل حدیثوں، ان کے اداروں اور مدارس کے خلاف بھی قائم کیے جاسکتے ہیں۔“
”میرا خیال ہے اس سوال کی زد میں صرف ذاکر نائک ہی نہیں بلکہ سارے مدارس، ساری جمعیتیں اور سارے ادارے آتے ہیں۔“
”مدنی صاحب کا کہنا ہے کہ ذاکر نائک اپنی اسکول کے لیے ملی وسائل کو ذاتی طریقے سے صرف کرنے کے مجرم ہیں۔ کیا وہ یہ بھی بتانے کی زحمت کریں گے کہ کون سا ایسا مدرسہ ہے جو اس جرم کا ارتکاب نہیں کرتا؟ کیا کوئی مسلمان چندہ دینے کے باوجود کسی مدرسے والے سے حساب کتاب مانگتا ہے؟“
”یہ خاتمہ بالخیر ہے مگر اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جو ذاکر نائک سے خاص ہو۔ قبیح دعوے داریوں میں ایک آدھ کو چھوڑ کر سارے اسلامی ادارے مبتلا ہیں“
میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ ان حوالوں سے تبصرہ نگار کیا ثابت کرنا چاہتا ہے؟ کیا مصنف نے کہیں ان مدارس اور اداروں کا دفاع کیا ہے اس لیے مدارس کے کرپشن کو ان کے خلاف الزامی جواب میں پیش کیا جارہا ہے ۔ یا تبصرہ نگار یہ سمجھتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو ان سارے جرائم کی آزادی ہے کیونکہ کشمیر سے لے کر کنیا کماری تک ہر ادارہ ان گناہوں میں ملوث ہے۔ الزامی جواب درست ہوتا اگر مصنف نے ان مدرسوں اور اداروں کے کرپشن کی حمایت کی ہوتی لیکن مصنف نے تو خود اس بات کو تسلیم کیاہے، دیکھئے:
”اس وقت ملت اسلامیہ ہند کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ 99فیصد ادارے مالی غبن، خیانت، نجی جائداد، استبداد اور ذاتی شان وشوکت کا قضیہ بنے ہوئے ہیں۔عموماً اداروں کے ذمہ دار خیراتی اموال میں ایسا احمقانہ تصرف کرتے ہیں کہ لوگ ششدر رہ جاتے ہیں۔(ص9)
تو جو بات مصنف خود تسلیم کرتے ہیں اسی بات کو مصنف کے خلاف پیش کرکے آپ ثابت کیا کرنا چاہ رہے ہیں، میری سمجھ سے باہر ہے ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
کچھ تمہید کے بارے میں
تمہید میں تبصرہ نگار نے جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ علماء ہر زمانہ میں عصری شعور اور اپنے دور کے علم کلام سے بے گانہ رہے ہیں۔ ان کی قوت صرف مسلکی جھگڑوں اور اس کے بعد ان کراؤڈ پلرس کی ٹانگ کھینچنے میں صرف ہوتی رہی ہے جو ان کے حساب سے اسلوب زمانہ سے واقفیت رکھنے والے تھے اور اپنے اپنے زمانہ میں انھوں نے عوام کے ایک بڑے طبقہ کو متاثر کیا ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ جب آپ نے کراؤڈ پلرس کے نام پر غور کیا تو آپ کی زبان پر انھیں افراد کے نام کیوں آئے جن کی اٹھائی گئی تحریکیں کسی نہ کسی غیر اسلامی تاثیر کی شکار ہوگئیں۔
مسئلہ یہ ہے جن تحریکوں کے نام آپ نے گنائے تاریخ کے سینے پر ان کے نقوش کے واضح ہونے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ دین کے روایتی فہم (دین) کے تسلسل کا حصہ نہیں بنے۔ لہٰذا ان کی منفردتعبیر دین کے اثرات جہاں تک پہنچے وہ روایت سے منحرف ہونے کی وجہ سے آپ کو نمایاں دکھائی دے رہے ہیں۔ علماء کیونکہ دین کی کوئی نئی تعبیر نہیں لے کر آتے اور لہٰذا ان کی خدمات اور اس کے اثرات اسی روایتی دین داری کے تسلسل میں ضم ہوجاتی ہیں۔

یہ خدمات اور اثرات آپ کو اس لیے بھی دکھائی نہیں دے رہے ہیں کیونکہ آپ اس پورے مسئلہ کو صرف عصری شعور والی عینک سے دیکھ رہے ۔ہم آپ سے پوچھتے ہیں کہ یہ تحریکیں جن کے نام آپ نے گنوائے ہیں ان کے اثرات کو دور دور تک ہٹادیجیے اور انصاف سے بتائیے کہ کیا زمین پر آپ کو ان تحریکوں کے اثرات کے علاوہ کہیں دین داری نہیں دکھائی دیتی۔ آپ اس کو روایتی دین داری کا ہی نام دے لیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر امت کے علماء صرف مسلکی جھگڑے کرتے ہیں اور انقلابی شخصیات کی ٹانگ ہی کھینچتے رہتے ہیں تو یہ دین داری جو آج مسجدوں میں، صبح و شام کے دروس میں، جلسوں میں، دینی کتابوں کی دکانوں میں دکھائی دیتی ہے کن کی مرہون منت ہے ؟
پھر ان متجددین پر علماء کی تنقید سب کو بری لگتی ہے لیکن کیا دانشوروں کایہ طبقہ علماء پر کم تنقید کرتا ہے؟ علماء اور ان کے فہم دین کی ان دانشوروں کی طرف سے کم تضحیک ہوتی ہے ؟نثر سے لے کر نظم تک امت کے یہ علماء ان متجددین کی طرف سے کن کن القاب سے نوازے جاتے ہیں؟ ہمارے ادب میں ملا، واعظ اور شیخ کو کن حوالوں سے یاد کیا جاتا ہے؟
صرف تنقید کرنا کوئی غلط بات نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان متجددین پر علماء نے جو تنقیدیں کی ہیں کیا وہ غلط بنیادوں پر کی ہیں۔ جن ناموں کا تذکرہ آپ نے کیا ہے ان پر غور کریں ہر کسی کے حصہ میں اتنی ہی تنقیدیں آئی ہیں جتنا ان کے فہم دین میں بگاڑ رہا ہے ۔ تو آپ کا کیا خیال ہے۔ علماء ان کی غلط باتوں پر تنقید کرنا چھوڑ دیں کیونکہ ان کا عصری شعور بہت پختہ ہے۔ یا اس لیے کہ علماء زمانہ کے اسلوب کلام سے ناواقف ہیں۔
مسلکی جھگڑا یقینا بر ی چیز ہے ۔ لیکن اس کے ذمہ دار اہل باطل کے علماء ہیں ۔ اہل حق اس جھگڑے میں شریک بھی ہوں گے تو اللہ کی طرف سے اجر کے مستحق قرار پائیں گے ۔
پھر خود یہ متجددین کیا دین کے معاملہ میں ایک دوسرے سے متفق ہیں ۔ فروعی مسائل تو اپنی جگہ دین کے اصول و مسلمات میں بھی ان کی سوچ اور عقیدہ میں اتفاق نہیں ۔ان کے ہاتھوں میں پڑ کر امت کون سامتحد ہوجانے والی ہے؟
رہی بات لیڈر شپ کی تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ عوام کی اکثریت آج بھی علماء کو ہی اپنا لیڈر تسلیم کرتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ فرقہ پرستی کی لعنت کی وجہ سے یہ لیڈر شپ مختلف رہنماؤں میں بکھری ہوئی ہے۔ لیکن من حیث المجموع علماء آج بھی اس امت کے قائد ہیں ۔
علماء اس امت کے امین ہیں۔ اس امت کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی فتنہ نہیں ہوسکتا کہ امت علماء کی رہبری سے آزاد ہوجائے ۔اللہ کے لیے آپ غورکریں کہ اگر امت علماء کی رہبری سے باہر نکل گئی تو کیسے کیسے مجتہدین ہیں جو اسلام کا تیا پانچہ کرنے کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔ اور ان کے ہاتھوں میں پہنچ کر امت کی کیاحالت ہونے والی ہے ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
اب آتے ہیں میڈیا کی بات پر۔مبصر لکھتا ہے :
”مولویوں کو باتیں کرنے کے علاوہ بھی کچھ کرنا چاہیے“
مولوی باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ کررہے ہیں۔ وہ سب آپ کو اس لیے دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ عصری شعور اور آج کے علم الکلام نے آپ کی نظروں کو چوندھیا دیا ہے۔ زمینی سطح پر ہونے والے کام کی آپ کی نظر میں سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں رہ گئی ۔
میڈیا کی اہمیت کا کسی کو انکار نہیں لیکن دعوت اصل میں زمین پر ہونے والا کام ہے۔ میڈیا اس کو بہت کچھ سپورٹ کرسکتا ہے لیکن اصل کام پھر بھی زمین پر ہی ہوتاہے۔ ابلاغ اور تبلیغ دو علیحدہ چیزیں ہیں۔ ابلاغی سطح پر دین کے پرچار کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اس سے زمین پر ہونے والی تبلیغ کی اہمیت ختم نہیں ہوجاتی۔ یہی بات مصنف نے بھی لکھی ہے :
”دعوت و تبلیغ کے سماجی چلن کے برعکس ان کی تبلیغ میڈیائی بن گئی ہے اور لوگوں کی نگاہیں کھپ گئی ہے ۔ “
”علماء کی قدر ، ضرورت و اہمیت قیامت تک رہے گی ۔ ان کی جگہ نہ میڈیا لے سکتا ہے نہ ٹی وی لے سکتا ہے ۔ نہ صحافت اور نہ اخبار لے سکتا ہے ۔ نہ ان مادی اسباب کو حاصل کرکے کوئی عالم بن سکتا ہے نہ دانشور ، علوم شرعیہ کو پڑھے بغیرلوگ دین کے مسائل میں بولنے کا حق رکھتے ہیں۔“ (ص28)
زمینی سطح پر ہونے والے کام کے اثرات کی سب سے بڑی مثال تبلیغی جماعت کا کام ہے ۔ قطع نظر اس سے کہ ان کی دعوت اور منہجی غلطیاں کون سی ہیں مشرق سے مغرب تک پھیلی ہوئی جماعت کی سرگرمیاں اس زمینی کام کا نتیجہ ہے جس کی بنیاد مولانا الیاس نے رکھی تھی۔
میڈیا کے استعمال کے حوالہ سے علماء کو قصور وار ٹھہرانے سے پہلے آپ کو اس سماجی اور معاشی پس منظر پر بھی غور کرلینا چاہیے جس سے علماء آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا مالیاتی نظام ، تعلیمی نظام، عوامی سوچ اور قیادت پر فائز علماء کی لاپرواہی اور بھی بہت سے اسباب ہیں جو اس مسئلہ کی جڑ میں پوشیدہ ہیں۔ اس موضوع پر تفصیل سے بات کی جاسکتی ہے ۔ لیکن جیسا کہ ہم شروع ہی میں وضاحت کر آئے ہیں کہ کتاب کے موضوع سے اس کا تعلق نہیں لہٰذا اس پر ہم بہت تفصیل سے بات نہیں کریں گے ۔خلاصہ یہ کہ تبصرہ نگار نے زیر تبصر ہ کتاب کے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے ۔ اور اس ظلم کا کفارہ یہ ہے کہ شیخ عبدالمعید کا پورا کتابچہ قسط وار فری لانسر میں شائع کردیا جائے۔ اور قارئین خود فیصلہ کرلیں کہ تبصرہ نگار نے کتنی زبردست کتاب کی کیسی تصویر پیش کی ہے ۔
ایک بات مولانا عبدالمعید مدنی سے بھی بولنا چاہوں گا۔ جب ہم نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ ہر چیز کو شریعت کے میزان پر ہی تو لا جائے گا تو آپ کو ایک نظر اپنے تنقیدی لہجہ پر بھی ڈالنی چاہیے۔
میں نے فری لانسر کی ریت نبھائی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ ایڈیٹر صاحب برا نہیں مانیں گے۔ میں ایک عام ساقاری ہوں۔ بے لاگ بولنے اور صاف صاف سمجھنے کی عادت ہے۔ ممکن ہے تبصرہ نگار نے بین السطور میں کوئی بات کہی ہو جسے میں سمجھ نہ سکا ہوں۔تو ہر قلم کار کو اپنی مدلل بات کہنے اور اور ہر قاری کو اس کے تعاقب کا پورا پورا اختیار ہے ۔>
 
شمولیت
دسمبر 10، 2011
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
52
پوائنٹ
23
جیسے پہلے زمانے میں اسلام میں دو بڑے گروہ بن گئے تھے شیعہ اور سنی، لگ رہا ہے اسی سے کچھ ملتے جلتے اب سنیوں میں بھی دو گروپ نکل جائیں گے دانشور اور ملا… دونوں میں تال میل کیوں نہیں ہے یہ تو علامہ حضرات بتائیں گے البتہ دونوں میں تال میل نہیں ہے، اس پر ہم صرف اپنی تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔ شاید اس کا بھی شمار مسائل میں ہوجائے اور کوئی اہل علم ونظر کسی حل سے امت کو آگاہ کردے۔
اب یہ بات زیادہ اہم نہیں ہے کہ گزشتہ شمارے کا اداریہ مذکورہ مسئلے سے متعلق کس موضوعی رخ پر تھا، کیونکہ الفاظ کا انتخاب، جملوں کی بناوٹ، تعبیروں کا استعمال اور حوالوں کا ذکریہ سب مل کر معانی کی ترسیل کرچکے ہیں۔کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو باتیں تذکرے سے باہر ہوتی ہیں وہ دل مسوس کررہ جاتی ہیں۔ اگر ”کیسا ہونا چاہیے؟“ جیسا رویہ ”جو ہے اس کا کیا؟“ کی نفی کردے تو سوال کچھ یوں ہوجاتا ہے کہ ”کیا ہونا چاہیے؟“… ہماری دفاعی ذہنیت برسوں کی پیداوار ہے، نہ حملے گھٹ رہے ہیں اور نہ ہی ہمیں اپنے محاذ سے ہلنے کی فرصت مل رہی ہے۔ حالانکہ اس رویے نے سنبھالنے اور سمیٹنے سے زیادہ کی توفیق نہیں دی ہے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمیں چومکھی لڑائیوں کا اندازہ نہیں ہے، مگر افسوس نہ خود مقابلے کی سکت رکھتے ہیں اور نہ ہی کسی لڑاکا کی پرورش کرسکتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بہادروں کی پیٹھ بھی تھپتھپانا نہیں جانتے۔ نقص کہاں نہیں ہوتا، بچے کی کوشش میں کمی نہیں ہوتی یا جوان کے جذبے میں؟ بوڑھی ہڈیوں میں بھی تو چرمراہٹ آجاتی ہے، رگوں میں دوڑنے والے خون کا رنگ بدل جاتا ہے، مگر اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ بچوں کو گرنے سے ڈرایا جائے، جوانوں کو سیکھنے کی ترغیب دینے کے بجائے چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ کر تماشا دیکھنے پر مجبور کیا جائے۔ کیا بوڑھوں کو اس لیے چھٹی دے دی جائے کہ وہ سوتے کم ہیں اور کھانستے زیادہ ہیں۔ کیا ان سے صرف اس لیے دور رہا جائے کہ وہ بولنا شروع کرتے ہیں تو چپ بھی ہونا ہے یہ بھول جاتے ہیں؟
کیا حوصلہ افزائی میں کوئی خیر نہیں رہا یا نوآموزوں کو تربیت دینا اب پرانی بات ہوگئی ہے۔ صحابی اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ” لا الہ الا اللہ“ پڑھنے والے کو برچھی مار دیتے ہیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم انھیں جہاد سے کیوں نہیں روک دیتے؟ جو پڑھا لکھا نہیں ہے اس کے لیے یہ سجھاوٴ کس کا ہے کہ وہ گھاس ہی چھلے، اس کے ہاتھ میں کھرپی کھرپا زیادہ اچھے لگتے ہیں۔ مدرسوں کا چلن کب سے ہے؟ جب ائمہ اور فقہاء علمی مجلسیں سجاتے تھے تو وہاں بھیڑ لگانے والے عالم اور مفتی کیسے ہوجاتے تھے؟ جو نہیں جانتا اس کو یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ وہ خاموش بیٹھ جائے، کیا اسے جاننے کی صلاح نہیں دی جاسکتی؟
سوال بہت سارے ہیں مگر تب سنائی دیں گے جب ہنگاموں پہ ذہن گھبرانے کے بجائے غور کرے گا اور کوئی شانت حل نکالے گا۔ افراتفری دیکھ کر چیخنے اور بڑبڑانے کے بجائے سوچنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی مطلوب نتیجے تک پہنچا جاسکے۔ ٹھوکریں اب صرف زمینوں میں نہیں ہوتیں، ہواوٴں میں بھی اگتی ہیں۔ فرد ہو یا سماج، اگر اپنے ارد گرد دیکھ بھال کر نہیں چلے گا تو کہیں نہ کہیں سے ٹھوکر ضرور کھائے گا۔
(اقتباس:ایک اور منتھن: دانشوری اور مُلّائیت)
 

نبیل عباد

مبتدی
شمولیت
جنوری 15، 2013
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
0
”دانشوری“ :مولوی اور غیر مولوی کے بیچ خلیج کوبڑھانے والی ایک اور کتاب

(’’دانشوری‘‘ کتاب پر ایک تفصیلی تبصرہ)​

”دانشوری “ایک بڑے عالم کی بڑی ہی غیر ذمہ دارانہ تحریر ہے۔ جس میں ڈاکٹرذاکر نائک صاحب پر انتہائی گھٹیا قسم کے الزامات اور بہتان باندھے گئے ہیں۔ مزید طرہ یہ کہ ان الزامات کو ثابت کرنے کے لیے نہ تو ڈاکٹر صاحب کی تحریروں سے کوئی حوالہ نقل کیا گیا ہے نہ ہی ان کی تقریروں سے اور نہ ہی کسی عینی گواہ کا ذکر موجود ہے۔ تنقیدکی بنیاد مسموعات اور ظن ہے۔ جو کہ اتنے بڑے عالم کے شایان شان ہرگز نہیں۔البتہ عالم کسے کہتے ہیں اور فتوی کون دے سکتا ہے، اس سلسلے میں نصوص اور اقوال سلف کے حوالے سے مولانا موصوف نے جو سیر حاصل بحث کی ہے وہ قابل تعریف ہے۔لیکن اس کا انطباق ایسا ہے زیر بحث شخص سراپا مجرم نظر آنے لگتا ہے، جو کسی بھی اعتبار سے انصاف کی بات نہیں معلوم ہوتی ہے۔
پورا کتابچہ پڑھ جاےئے آپ کو بالکل نہیں لگے گاکہ یہ تحریر کسی سوجھ بوجھ اور بصیرت وبصارت کے حامل شخص کی ہے۔تکرار اس قدر ہے کہ خاتمہ تک پہنچتے پہنچتے گھٹن سی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ایڈیٹر نے اختصار کے ساتھ جس طرح کتاب کا جائزہ لیا ہے اس سے کتاب کی Themeتو سمجھ میں آہی گئی ہے، پھر بھی وہ جائزہ پوری کتاب کا احاطہ نہیں کررہا تھا لہٰذا کچھ مزید باتیں حاضر ہیں۔
ایک قابل ذکر چیز یہ ہے کہ مصنف بھی ڈاکٹر صاحب کے کاموں کی افادیت کے قائل ہیں مثلاً ذاکر نائک پر تنقید کرنے والے غیر اہل حدیث ناقدوں کی تنقیدی وجہ بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ:
”در اصل ان کی الجھن کا باعث یہ ہے کہ گھر گھر پیس ٹی وی کی پہنچ بن گئی ہے، تمام فتووٴں اور مذمتوں کے باوجود عوام اسے سنتے ہیں اور راہ راست پر آتے ہیں ۔“
بھلے ہی تنقید کرنے کے وقت خود مصنف کی رائے بدل جاتی ہو:
”فتوی دینا علم کا کام ہے، انسان کو قرآن وسنت کے نصوص کی خبر نہ ہو او ر نہ ایک آیت اور حدیث صحیح پڑھ سکتا ہو وہ اجتہاد کرتا پھرے اور فتوی دے، محفلیں سجائے اور مسائل بیان کرے، بہت عیب کی بات ہے، یہ ناقابل معافی جرم ہے اور جرأت مندی کا مظاہرہ ہے۔ ایسے رویے پر اس حدیث کا انطباق ہوتا ہے جو حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاص سے مروی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ تعالی لوگوں کو علم عطا کرنے کے بعد اچانک نہیں چھین لے گا اس کے برعکس وہ ان سے علم کو چھین لے گا علماء کو علم کے ساتھ اٹھالے گا پھر جاہل قسم کے لوگ باقی رہ جائیں گے ان سے فتوی پوچھا جائے گا وہ اپنی رائے سے فتوی دیں گے یوں وہ گمراہ ہوں گے اور گمراہ کریں گے۔“
یہاں پر کوئی یہ اعتراض کر سکتا ہے کہ پیس ٹی وی پر صرف ڈاکٹر صاحب ہی کا بیان نشر نہیں ہوتا بلکہ پیس ٹی وی سے خطاب کرنے والے اکثر لوگ ”علماء“ طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ تو جواباً عرض ہے کہ مصنف کا خیال ہے کہ:”ڈاکٹر صاحب کے ریسرچ، نشریات اور تعلیم تمام شعبوں میں ان کے تصرفات استبدادانہ اور تاجرانہ ہیں“ ۔
نتیجتاً جو بھی بیان کسی ”عالم“ کے نشر ہوں گے وہ ڈاکٹر صاحب کی ہی مرضی کے مطابق ہوں گے کیونکہ استبدادی شخصیت کا مالک اپنی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کہنے دے گا۔
یعنی پیس ٹی وی سے چونکہ دوسرے علماء کے بیانات بھی نشر کیے جاتے ہیں اس لیے مدنی صاحب نے اس کی افادیت میں یہ لکھ دیا کہ ”عوام اسے سنتے اور راہ راست پر آتے ہیں۔“ لیکن جب ذاکر نائک کی بات آئی تو انھیں ”جاہل قسم کے لوگوں“ میں شامل کردیا۔ ایسا ”جاہل“ آدمی اپنے ٹی وی چینل پہ ”عالم اور راہ راست کی بات کرنے والوں“ کی شناخت کیسے کرتا ہے، اللہ جانے…!
اب آےئے اصل کتاب کی طرف۔مصنف محترم اس کتابچہ کی وجہ تصنیف یوں بیان کرتے ہیں:
”مجھ سے بارہا سوال کیا گیا کہ ذاکر نائک اور ان کے افکار کے بارے میں میرا کیا خیال ہے اور ان کے کاموں کو میں کس نگاہ سے دیکھتا ہوں؟“
مصنف سے کیے گئے مذکورہ سوال کو ہم تین حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
۱۔ ذاکر نائک کیا ہیں؟ ۲۔ ان کے افکارکیا ہیں؟
۳۔ ان کے کاموں کی حیثیت کیا ہے؟

1۔ ذاکر نائک کیا ہیں؟
مصنف کا دعوی ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک خائن، غیر امانت دار، علم میں زیرو اور علم وعلماء کی اہمیت سے نابلدہیں۔ لکھتے ہیں:
” اسی طرح جو بھی صدقات وخیرات جناب کے اداروں کو ملتے ہیں وہ ان کی ذاتی جائداد بن جاتی ہیں۔ ان کے پاس یہ تصور ہے ہی نہیں کہ یہ خیراتی مال ہے“۔
کتنے خائن ہیں اور کتنے غیر امانت دار ہیں اس کے متعلق تو IRF کے ممبران ، ٹرسٹیان اور ان کے امپلائز ہی بتا سکتے ہیں مگر افسوس کہ آج تک ایسی کوئی خبر نہیں آئی ہے کہ جس سے مصنف کا مذکورہ دعوی درست مانا جاسکے۔
جب اس ادارے کے ممبر اور ٹرسٹی ہیں تو خیراتی مال کیسے فقط ذاکر نائک کی ذاتی جائدادبن جاتی ہے۔
”ذاکر نائک صاحب کی کوئی علمی شناخت نہیں ہے“
”ذاکر نائک صاحب عالم نہیں ہیں۔انھیں کیا پتہ عالم کی اہمیت کیا ہے اور علماء کون ہیں؟ علماء وہ ہیں جن کو فتوی، دعوت، خطاب اور تزکیہ وتربیت کا حق حاصل ہوتا ہے۔“۔
”ذاکر نائک صاحب نے علوم اسلامیہ نہیں پڑھا ہے۔ ان کا علم کرائے کا ہے اور سرمایہ بھی مانگے کا ہے۔ “۔
ڈاکٹر صاحب عالم ہیں کہ نہیں، کتاب کا بیشتر حصہ اسی سوال کے جواب میں سیاہ کیا گیا ہے۔ علماء کون ہیں؟ ان کی اہمیت کیا ہے؟ اور وہ کب عالم قرار پاتے ہیں؟ علماء کے اقوال اور فتاوی کی روشنی میں ان موضوعات پر بڑی لمبی چوڑی بحث کی گئی ہے۔ شروع کے چند صفحات میں یہ احساس تو ہوتا ہے کہ مولانا موصوف مذکورہ سوال کا جواب دے رہے ہیں مگر اس کے بعد قسم قسم کے اقتباسات کی مدد سے جو صفحات کالے کیے گئے ہیں وہ کسی اور ہی دنیا میں لے جاتے ہیں۔ بالکل ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی حنفی عالم قرآن وحدیث کو سمجھنے اور اس کی تعلیم دینے کے لیے ان سارے علوم کی فہرست پڑھ کر سنا رہا ہو جن کی ضرورت پڑتی ہے۔ میرے خیال سے پاپائیت، ربیت اور برہمنیت کی طرح یہ بھی ایک طرح ”یت“ ہے جسے بلاشبہ ”ملائیت“ کا نام دیا جاسکتا ہے۔ یہ رویہ دین سے قربت کی چاہ رکھنے والوں کو ایسا دور کرتا ہے کہ پھر وہ نہ جانے کتنی ”تعبیر کی غلطیوں“ کا شکار ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں جتنے بھی ”یت“ موجود ہیں وہ جب بھی کسی کی مخالفت کرتے ہیں اس میں ایک چیز کامن ضرور ہوتی ہے، اور وہ ہے ذاتی حیثیت واعتبار کو لاحق خطرہ، جس کی کئی شکلیں ہوسکتی ہیں۔ جیسے عوام سے ملنے والے رسپانس کی تقسیم، توجہات کی چہار سمتی، جونیئرس کی پاپولرٹی اور ایسے ایسے افراد کا احترا م واکرام جو دوسری فیلڈ سے آئے ہوں۔ یہ ساری انسانی کمزوریاں ہیں اور ایسے حالات میں جبکہ یہ آج تک طے نہیں کیا گیا ہے کہ وہ بنیادیں کیا ہیں جن کی وجہ سے علماء ذاکر نائک کی مخالفت کرتے ہیں؟ کیا لعن طعن اور پمفلٹ بازی کرنے کے بجائے یہ زیادہ ضروری نہیں ہے کہ عوام میں دن بدن مقبول ہوتی اس شخصیت کے بارے میں الم غلم اور بے سر پیر باتیں کرکے لوگوں کو اور کنفیوژ کرنے کے بجائے، انھیں جو غلط انفارمیشن دی گئی ہے محض اس سے آگاہ کیا جائے۔ اس لیے کہ بے بنیاد باتیں سن کر عوام یہ کہنے لگی ہے کہ مخالفت کرنے والے علماء ذاکر نائک سے جلتے ہیں۔
آخر امام اعظم رسول اللہﷺ کی اتباع کے بجائے دیگر ائمہ وفقہاء کی تقلید پر جمے رہنے والوں کی قرآن وحدیث سے دوری کا سوائے اس کے اور کیا علاج ہے کہ انھیں خرق عادات قصے کہانیوں میں گھمانے کے بجائے دین کی سچی اور کھری تعلیم سے آگاہ کیا جائے۔ جب سے تبلیغ دین میں میڈیا کا استعمال بڑھا ہے تب سے مولویوں کا ہاضمہ خراب ہونے لگا ہے۔ اس کا استعمال کرنے کے بجائے اس کا استعمال کرنے والوں کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑے ہیں حالانکہ کچھ علمی غلطیوں کے علاوہ ان کا کوئی قصور نہیں ہے، ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ غلط عقائد کی تبلیغ کرتے ہیں، یہ بھی نہیں ہے کہ علماء کی مدد نہیں لیتے۔ بلکہ سارا کاروبار علماء کے ہی بھروسے پر چلتا ہے۔ کیا اس سے یہ مطلب نکال لیا جائے کہ جن علماء کو ذاکر نائک نے گھاس نہیں ڈالا بس وہی ان کی سرگرمیوں میں دن رات کیڑے نکالتے ہیں۔ میری جانکاری کی حد تک زیر تبصرہ کتابچے کے مصنف بھی انہی میں سے ایک ہیں جنھیں کبھی ذاکر نائک نے اپنے یہاں تقریر کرنے کے لیے نہیں بلایا۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ مولانا مقیم فیضی، مولانا رضاء اللہ مدنی،مولانا ابو العاص وحید ی، مولانا وصی اللہ عباس، مولانا ظفر الحسن فیضی اور مولانا عبد السلام سلفی میں سے کسی نے بھی آج تک ذاکر نائک کی ویسی فضیحت نہیں کی جیسی عبد المعید مدنی صاحب نے اپنے کتابچے میں کی ہے۔ آخر یہ سب بھی تو اہل حدیث علماء ہیں؟
اللہ رحم کرے، آج عالم کی ڈیفینیشن کو اتنا Typical بنا دیا گیا ہے کہ یہ محض ایک کتابی بات معلوم ہونے لگی ہے۔ جبکہ سچائی یہ ہے کہ مدارس کی چہار دیواری کے بیچ 6تا8 برس گزار کر ایک عام شخص ”عالم“ بن جاتا ہے اور اسے وہ ساری مراعات حاصل ہوجاتی ہیں جو ایک ”عالم“ کو حاصل ہونی چاہئیں۔ اب اس سے کوئی غرض نہیں کہ دوران تعلیم اسے تعلیم سے کتنی رغبت تھی، تکمیل تعلیم کے بعد اس کی ذہنی اور علمی استعداد کس قدر ہے۔ وہ ٹھیک سے قرآن وحدیث کو پڑھ اور سمجھ بھی سکتا ہے یا نہیں۔ لیکن اب اسے سرٹیفکیٹ حاصل ہے، دروس وافتاء کی مکمل اجازت بھی اور ساتھ ہی منصب امامت وخطابت پر فائز ہونے کی پوری حق داری۔
مگر وہیں ایک شخص جو شاہ فیصل ایوارڈ یافتہ احمد دیدات کا شاگرد رہ چکا ہے اور بیس سال سے جس کی صبح وشام باصلاحیت مدنی علماء کے بیچ گزر رہی ہے، جس کا سابقہ اکثر قرآن وحدیث سے ہے وہ اپنی غیر معمولی ذہنی صلاحیت کے باوجود ”ایک عامی“ اور ”جاہل“ ہی کہلائے گا۔
عہد رسالت اور خلافت راشدہ میں کون سے اسلامی علوم پڑھائے جاتے تھے اور کون سے اصول قرآن، اصول حدیث اور اصول فقہ کی تدریس ہوتی تھی جنھیں پڑھ کر ہی لوگ ”عالم“ کہلاتے تھے اوراس کے بعد ہی مسئلہ مسائل بیان کرتے تھے یا پھر سچائی یہ تھی کہ وہ علمی ماحول تھا اور ان کی غیرمعمولی علمی دلچسپی نے تقریروں اور علمی بحث ومباحثے کی مجلسوں میں شرکت نے ان کو عالم بنا دیا تھا۔
مصنف صاحب کا مشورہ ہے کہ:
”بہرحال ایک انسان اگر عالم نہیں ہے تو اس کی دعوتی سرگرمی محدود ہوتی ہے۔ اس کو شرعاً اس کی اجازت ہے امور ظاہرہ واضحہ تک اپنی سرگرمی محدود رکھے۔ تقریر کرنا کمال نہیں ہے اصل میں علم وفہم اہم ہے۔“
ڈاکٹر صاحب کی اسپیشلٹی تقابل ادیان ہے ۔ جس کےBase پر وہ دیگر مذاہب کے اہل علم سے مناظرے کرتے ہیں۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک شخص دوسرے مذاہب کی تعلیمات کے بارے میں تو پورا علم رکھے مگر خود اپنے ہی مذہب کے احکام ومسائل سے نابلد قرار پائے ۔ بھلا کس طرح دیگر مذاہب کے علماء اسے بولنے کا موقع دیں گے جو خود اپنے مذہب کے حوالے سے کچھ کہنے کا اہل نہ قرار پاتا ہو۔

2۔ ان کے افکارکیا ہیں؟
پوری کتاب پڑھ ڈالئے مصنف نے کہیں بھی ذاکر نائک کے افکار پر کوئی گفتگو نہیں کی ہے۔ افکار پر گفتگو کرتے وقت ان کی کتاب یا تقریر سے اقتباس نقل کرنا ضروری ہوتا ہے۔مگر مصنف نے سائل کے اس شق کوپوری طرح نظر انداز کردیا ہے۔

3۔ ان کے کاموں کی حیثیت کیا ہے؟َ
مولانا نے ذاکر نائک کے کاموں پر جو تنقید کی ہے اسے ہم آسانی کے لیے دوالگ الگ حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں:
۱۔کام اور کام کرنے کا طریقہ ۲۔کاموں کا حاصل

۱۔کام اور کام کرنے کا طریقہ:جن کاموں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے وہ دو طرح کے ہیں، ایک کا تعلق تبلیغ دین سے ہے جس میں ان کی تقریروں، سوال وجواب اور فتاوے کو بنیاد بنایا گیا ہے لیکن ان میں تحریریں شامل نہیں ہیں جیسے ان کی کتابیں اور مضامین۔دوسرے کا تعلق مینجمنٹ اور تعلیم اطفال سے ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے کاموں کو مولانا جس نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ تکرار کے ساتھ کئی مقامات پر چند لفظوں کے ہیر پھیر کے ساتھ اس طرح مرقوم ہے:
”ذاکر صاحب کے ریسرچ ، نشریات اور تعلیم تمام شعبوں میں ان کے تصرفات استبدادانہ اور تاجرانہ ہیں۔ “
”اپنی شخصیت کو پروان چڑھانے کے لیے جناب جس طرح اشتہارات پر خرچ کرتے ہیں کسی اچھے خاصے دینی ادارے یا دینی تنظیم کا سالانہ بجٹ نہ ہوتا ہوگا۔“
”جناب کے سالانہ جلسے کے موقع پر میڈیا میں اشتہارات، ممبئی میں سڑکوں کے کنارے اونچی عمارتوں پر قد آدم تصویریں اور سمیہ گراوٴنڈ پر دکانوں کا الاٹمنٹ، اسکول سے وابستہ بچوں کے والدین کی جبریہ حاضری (بگار)، فائیو اسٹار ہوٹلوں میں علماء کرام کا قیام، چمچماتی کاروں کی آمدورفت… اللہ اللہ ایک طرف۔ “
اشتہارات پر ہونے والے خرچے کے سلسلے میں بات کی جاسکتی ہے۔مگر آج کے زمانے میں جب جلسوں میں زیادہ سے زیادہ افراد کی شرکت کو کسی بھی جلسے کی کامیابی کا ضامن سمجھاجاتا ہے، علماء حضرات ہی اپنا وقت بچانے کے لیے جہازوں میں سفر کرنے لگے ہیں، اور اپنے قیام وطعام اور ہدایا کے پیشگی معاہدے کرنے لگے ہیں تو اشتہارات میں Cost Cutting کرکے کوئی کیا تیر مار سکتا ہے۔ شادیوں میں ہونے والے ایسے ایسے ناجائز خرچے جاری وساری ہیں جن سے پچاسوں غریبوں کی بیٹیاں بیاہی جاسکتی ہیں۔ ہندوستان میں کوئی ایسا مسلک نہیں جو ہر سال جلسوں پر کروڑوں روپئے نہ خرچ کرتا ہو، ایسے میں ایک ایسا مسئلہ جو تمام مسلمانوں میں مشترک ہے اس کا ذمہ دار کسی ایک ہی شخص کو ٹھہرانا کتنی ناانصافی کی بات ہے۔ خرچے میں ہونے والے اصراف کو کنٹرول کرنے کے لیے اصراف کی مذمت کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ کسی ایک فرد کی جو کسی ایک فیلڈ میں اصراف کرنے کا مجرم ہو، تاکہ سماج کے ہر شعبے سے اس کا خاتمہ ہو اور ضرورت مندوں کی جائز ضرورتیں پوری ہوں۔ رسول اللہﷺ دنیا سے شرک کا خاتمہ کرنے آئے تھے نہ کہ مشرکوں کا۔ یہ اور بات ہے کہ گمراہی کی جو بات کسی ایک فرد سے متعلق ہو اس کا نام لینا بسااوقات ضروری ہوتا ہے جیسا کہ تاریخ اسلامی میں احادیث میں ہونے والی گھس پیٹھ کو بے نقاب کرنے کے لیے نام بہ نام راویوں کا کچا چٹھا دنیا کے سامنے رکھ دیا گیا۔
”نائک صاحب کے فتاوی، خطبات، بیانات اور تقاریر کے متعلق کچھ نہ کچھ آگاہی ہے اور ان کے تصرفات کے متعلق بھی جانکاری ہے۔ ان سب کی روشنی میں ان کی دعوت وتبلیغ اور علمیت وصلاحیت کی کوئی اچھی تصویر نہیں بنتی ہے۔ کل ایک کاروبار لگتا ہے۔“
کسی کی مکمل تصویر اس وقت بنتی ہے جب اس کا سراپا مصور کی نگاہ میں ہو۔ محض ”کچھ“ کی بنیاد پر آدھی ادھوری اور غلط تصویر ہی بنے گی۔
”ذاکر نائک صاحب کی کوئی علمی شناخت نہیں ہے۔عام خطباء کی طرح مختلف موضوعات پر انھوں نے کچھ تقریریں تیار کروالی ہیں اور انھیں رٹ لی ہیں اور موضوع سے متعلق کچھ سوالات وجوابات تیار کرواکے رٹ لیے ہیں اور کچھ انگلش میں کچھ اردو میں دھڑلے سے بولتے ہیں۔ ٹی وی ان کی طاقت ہے۔ اور ان کا ٹروپ ان کا علمی سہارا ہے۔“
مالدار صاحب علم پر یہ الزام لگانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔مثلاً نواب صدیق حسن قنوجی صاحب کو ہی لے لیجئے، ان پردوسروں کی کتابیں اپنے نام سے شائع کرنے کا الزام ہے۔ اب یہی الزام ایک صدی بعد ڈاکٹر نائک کے نام ۔ فرق صرف اتنا ہے ڈاکٹر صاحب پر الزام تقریری مواد سے متعلق ہے بس۔
البتہ مصنف کو یہ راز کی بات کہاں سے ہاتھ لگی اس کا کہیں کوئی ذکر نہیں، کوئی حوالہ نہیں۔اتنی بڑی تہمت کے پیچھے دلیل محض مسموعات، سنی سنائی بات بس۔
مولانا نے یہ تو بتا دیا کہ تقریریں دوسرے کی لکھی ہوئی ہوتی ہیں جنھیں ڈاکٹر صاحب رٹ کر بولتے ہیں، انھیں یہ بھی بتا دینا چاہیے تھا کہ ان کے مناظرے کون لکھتا ہے اور On the spot کیے گئے سوالوں کے جواب کون لکھ کر فیکس کرتا ہے تاکہ انھیں پڑھ رٹ کر مد مقابل کا جواب دے سکیں۔
مصنف نے ذرا بھی عقل سلیم کا استعمال کیا ہوتا تو اس دعوے کا کھوکھلا پن واضح ہوجاتا کہ دنیا کے باصلاحیت غیر مسلم اہل علم سے مناظرہ کرنے والے شخص کی علمی استعداد بس اس حد تک ہے کہ وہ رٹی رٹائی تقریریں کرتا ہے۔ پھر اس پر مستزاد یہ کہ تقریروں کے بعد سوال وجواب سیشن کے سوالات بھی پہلے سے فکس ہوتے ہیں تو شاید وہ تمام مناظرے جو ڈاکٹر صاحب نے دنیا کے ذہین وفطین غیر مسلم عالموں سے کیے ہیں وہ بھی سب فکس ہوتے تھے۔ اور اس ساری فکسنگ کی آنکھوں دیکھی روداد مولانا تک پہنچتی تھی تبھی تو مولاناپورے یقین کے ساتھ دعوی کرتے ہیں کہ:
”مفتی و داعی بننے کے لیے جو جوکھم جھیلے جاتے ہیں ان تکلفات کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ نہ سوال پوچھنے والوں کو پہلے سے تیارسوالات دے کر بٹھانے اور جواب دینے کی ضرورت ہے اور نہ نو مسلموں کو ہائر کرکے محفلوں میں قبول اسلام کے اعلان کی ضرورت ہے۔ نہ تعویذیں بنوا کر کسی کمرے میں رکھ کر ان پر فوکس کرکے یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ ان تعویذوں کو گلے سے اتار کر لوگوں کو موٴحد بنایا گیا ہے۔“
یہ الزامات کس قدر بے بنیاد ہیں اس کا علم صرف انھیں افراد کو ہوگا جو اس پورے معاملے کو بڑے قریب سے جانتے ہیں۔ اس طرح کا منظر چونکہ عوام وخواص سب کے لیے تقریباً نیا ہے اس لیے ایسا بھی ممکن ہے یہ سوچ نہیں پاتے ہیں لوگ۔ البتہ بغیرتحقیق کیے بے بنیاد تنقید وتبصرے کا پورا حق رکھتے ہیں جبکہ ایسی چیزوں کے متعلق اسلام کا حکم یہ ہے کہ۔
”اے مسلمانو!اگر تمھیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھاوٴ“۔(حجرات 6)
”اورجو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو، وہ (بڑے ہی) بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں“۔(احزاب 58)


اب آےئے دوسرے شق کی طرف جس کا تعلق مینجمنٹ اور تعلیم اطفال سے ہے ۔
”اگر اصولی معیار پر پر پرکھا جائے تو سب سے پہلے ڈاکٹر صاحب کا ادارہ آتا ہے۔کسی بھی اجتماعی عمل کے لیے ضروری ہے کہ اس کی بنیاد شورائیت ہو، اہل حل وعقد، اولی الامر اور اہل شوری کی اس میں شمولیت ہو…
…ادارہ ان کا گھریلو ادارہ ہے اور ان کی داتی ملکیت بنا ہوا ہے۔“
پتہ نہیں مصنف سے کس نے کہہ دیا کہ ان کا ادارہ اہل حل وعقد ، اولی الامر اور اہل شوری کے بغیرچلایا جا رہا ہے۔ بلکہ میری جانکاری کی حد تک تو باقاعدہ اس کے ممبر اور ٹرسٹی ہیں، کوئی بھی کام کرنے سے پہلے ان کی میٹنگ طلب کی جاتی ہے اور باہم صلاح ومشورہ کے بعدکاموں، پروگراموں اور پروجیکٹوں سے متعلق فیصلے لیے جاتے ہیں۔
اور یہ بات جگ ظاہر ہے کہ مشورہ کرنے کے بعد آخری فیصلہ سربراہ کو ہی کرنی ہوتی ہے۔
مصنف کوہوائی فائرنگ کرنے کے بجائے ایک بار مل کر یا بذریعہ فون ڈائریکٹ پوری تفصیل جان لینی چاہیے تھی۔
”تعلیم کی بات دیکھئے: پرائمری تعلیم اور ٹیوشن فیس جمبو جٹ معیار کی ہونے کے ناطے وہ محض ایک ہائی اسٹیم ایجوکیشن مافیا ہیں۔تعلیم کے نام پرجیب تراشی کررہے ہیں اور یہ تعلیم غریب دشمن اور ملت دشمن تعلیم ہے۔“
”ہندوستان میں شہروں میں بسنے والے 60 فیصد مسلم بچے اسکول نہیں جاسکتے۔ ان کے والدین کی مالی پوزیشن اتنی ابتر ہے کہ اپنے بچوں کے تعلیمی خرچ کو برداشت نہیں کرسکتے۔ چالیس میں کتنے ایسے ہیں جوپرائمری درجات پاس کرپاتے ہیں؟ بہت کم اونچی کلاسوں میں جاپاتے ہیں۔ جس کمیونٹی میں تعلیم اس قدر کم ہو اس میں دین کے نام پر خیرات بٹورنے والے تعلیم کو ایسا مہنگا بنائیں جس کی مثال شاذونادر ہی ملتی ہو ان کے کل مشن پر کیا حکم لگ سکتا ہے؟ مجھے تو اس کے سوا کچھ نہیں سمجھ میں آرہا ہے کہ یہ فقط اکتساب زر کی ہوس ہے…“
”…کوئی تعلیمی پالیسی ہی نہیں ہے بس ٹی وی کے آوٴ بھاوٴ پرتعلیم پر ہاتھ صاف کرلیا گیا ہے ۔ اور بدترین ڈھنگ سے اسے نچوڑنے اور کمائی کرنے کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ ٹی وی کے بھرے میں آکر لوگوں نے جناب کے ادارے میں داخلے کے لیے مسابقت جاری کردی اور سمجھ بیٹھے کہ اونچی دکان ہے پکوان بھی لذیذ ہوگی۔ داخلے کے معاملے میں مکمل تانا شاہی۔ ویسے جناب کا ہر کام تانا شاہی ہی ہے۔ جو وہاں سے بھاگتے ہیں تانا شاہی کا شکار ہوتے ہیں اور جو بھی وہاں کام کرتے ہیں اگر کھلتے ہیں تو مجبوری کا اظہار کرتے ہیں۔“
غریبوں کی تعلیم کے لیے گلی گلی شہرشہر مکاتب ومدارس کا جال پھیلا ہوا ہے 80-85فیصد زکوة کی رقم انہی غریبوں اور مسکینوں کی تعلیم کے نام پر ہی اکٹھا کی جاتی ہے۔ غریبوں کی تعلیم کی فکر ذاکر نائک کو کرنی چاہیے یا زکوة وصولنے والوں کو…یہ تو ایسے ہی ہوا جیسے غریبوں کی معاشی اور تعلیمی پسماندگی دور کرنے کے لیے امت نے ذاکر نائک کو ہائر کیا ہوا ہے اور وہ ویسا نہیں کررہے جیسا لوگ امیدیں باندھے ہوئے ہیں۔
یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ مدارس میں غریب اور نادار گھرانوں کے بچے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ مالدار یا متوسط طبقہ کے افراد(بشمول علماء) اپنے بچوں کو ایسی جگہ جہاں تعلیم سستی یا مفت ہو وہاں بھیجنے سے احتراز کرتے ہیں، پھر ان کے بچے جاتے کہاں ہے؟ جمبو جٹ فیسوں والے کانونٹ اسکولوں یا دیگر غیر اسلامی انگلش میڈیم اداروں میں۔جہاں سے اعلی معیار کی عصری تعلیم تو حاصل ہو جاتی ہے مگر ایمان کی بلی بھی چڑھ جاتی ہے۔
آج ممبئی کی سطح پر بات کیجئے تو ہر وہ علاقہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں ایک دو عالیشان کانونٹ اسکول ضرور نظر آئیں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ ان علاقوں میں دینی مکاتب اور اردو میڈیم اسکولیں نہیں ہیں مگر ان میں تعلیم مفت یا پھر بہت سستی ہے اس لیے صاحب استطاعت والدین کی توجہ کا مرکز نہیں بن پاتیں۔ مگر کانونٹ اسکولیں جہاں تعلیم مہنگی، ماحول مشرکانہ، تربیت ملحدانہ اور مقصد دین سے دورکرنا ہے، وہاں کی تمام شرطیں اورساری پابندیاں سرآنکھوں پر… ایسی حالت میں ڈاکٹر صاحب نے دینی ماحول میں اعلی عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کا بھی بندوبست کیا ، ادارے کو خود کفیل بنایا،اسٹاف کو بھی اچھی تنخواہیں دے کر ان کے معیار زندگی کوبلندکیا تو کون سا ایسا جرم کردیا کہ وہ ہائی اسٹیم ایجوکیشن مافیاقرار پائیں اور دینی ماحول والے دینی وعصری تعلیم کو ”غریب دشمن اور ملت دشمن “تعلیم کا نام دیاجائے۔
ایسے ماحول میں آخر ایک مسلمان کی تعلیمی پالیسی کیا ہوسکتی ہے؟
ان لائنوں میں آپ کو کوئی پالیسی نظر نہیں آتی…
The Islamic International School, Alhamdulillah, provides Muslim children excellent quality education and facilities for their overall development. They are taught moral values and various skills to face the dynamic challenges and opportunities of life with care, confidence and self-discipline.
The school provides an environment in which the students can learn, understand and practice their way of life Islam, as they strive for excellence in subjects like Mathematics, Science, English, History, Geography and others. It moulds the students' personality according to righteous Islamic tenets and inculcates in them the values and concepts of caring, sharing and being just... for truth and universal brotherhood and peace to prevail.
The IIS Teacher to Student ratio of less than 1:5 and staff to student ratio of less than 1:2.5 is unique and one of the lowest amongst international schools worldwide. This helps in maintaining high quality, reliability and control of the education and facilities provided to the students at IIS.
IIS guidelines and constitution are based on the glorious Quran and the authentic Hadith of Prophet Muhammad (pbuh).
جمبو جٹ معیار کی فیس ہونے کے باوجود لوگوں کا یہ عالم ہے کہ ایڈمیشن کے لیے ٹوٹے پڑرہے ہیں۔فیس کی ادائیگی کرنے والوں کو کوئی پریشانی نہیں البتہ دیکھنے والوں کے پیٹ میں کیوں بل پڑرہے ہیں۔
رہاسوال پکوان کا تو مدارس میں زیر تعلیم فائنل ایئر کے طلباء کو ان کے پرائمری میں زیر تعلیم بچوں کے ساتھ کھڑا کرکے موازنہ کرلیجئے۔ معلوم پڑجائے گا کہ پکوان لذیذ ہے یا کڑوا۔

۲۔کاموں کا حاصل
”جناب کی ساری سرگرمیوں کو دیکھ لیں اور ان کے پاس رہنے والوں کے تاثرات سن لیں کل کا حاصل یہی ہے کہ ہوس زر، پیسے کی بھوک نہیں مٹ پارہی ہے اور خیرات کے پیسوں سے ذاتی اسٹیٹ بنانے، ذاتی اسٹیٹس بلند کرنے اور شہرت کمانے کا جنون سوار ہے۔“
میں یہ نہیں کہتا کہ ڈاکٹر صاحب فرشتہ ہیں اور ان سے غلطیوں کا صدور ناممکن ہے۔اور غلطیاں عملی بھی ہوسکتی ہیں، اجتہادی بھی۔ان غلطیوں کو بنیاد بناکرانھیں سرے سے جاہل اور لاعلم قراردینا کسی طور درست رویہ نہیں کہا جاسکتا۔
اس کے باوجود بھی ہم مولانا جیسے صاحب بصیرت سے پوری امید کرتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں پوری تحقیق اور واضح ثبوت کی روشنی میں اپنی معروضات پر ضرور نظر ثانی کریں گے۔
ہمارا خیال ہے فری لانسر اگر ہمارے اس مضمون کو شائع بھی کردیتا ہے تو اس کا یہ مطلب بالکل نہیں ہے کہ ہم نے یا فری لانسر نے ڈاکٹر ذاکر نائک پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دینے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے بلکہ اگر آپ فری لانسر کے پرانے قاری ہیں تو ایسے کئی مضامین بھی آپ کی نظر سے گزر ہوں گے جن میں ڈاکٹر ذاکر نائک سے متعلق اصلاحی تنقیدیں تھیں۔ ہمارا مقصد صرف یہ ہے کہ مدرسوں میں تعلیم یافتہ اصحاب اور عصری درسگاہوں میں پڑھے ہوئے افراد کے مابین جو دین کی تعلیم وتبلیغ کو لے کر ایک بہت بڑا گیپ بن رہا ہے وہ کم بلکہ ختم ہو۔ تاکہ تعمیری عمل میں مسلم سماج کے ہر فرد کی خدمات کا استعمال ہوسکے۔ کیا ہے کوئی؟ جو ہم عقیدہ افراد کے درمیان بڑھتی ہوئی بیگانگیوں کو ختم کرنے کا درد رکھتا ہو اور اس سمت میں اٹھائے جانے والے ہر اقدام میں شریک ہوسکے؟
 
Top