• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

”دی فری لانسر“ کی دوسری بڑی خصوصیت

شمولیت
دسمبر 10، 2011
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
52
پوائنٹ
23
تحریر : سرفرازاحمد فیضی


”فری لانسر“ کی دوسری بڑی خصوصیت اس کا اسلوب اور طرز تحریر ہے جس کو مدیر محترم عصری اسلوب یا جدید علم کلام کا نام دیتے ہیں۔ عصری اسلوب کی تعریف کیا ہے؟…میری سمجھ میں جو بات آئی وہ یہ کہ ”جو قدیم اور روایتی طرز تحریر نہ ہو۔“
اگر ہم اردو زبان میں دینی تحریری سرمایے پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ وقت کا ایک بڑا حصہ گزر جانے کے باوجود دینی مضامین میں سوائے الفاظ اور لہجوں کی تبدیلی کے، طرز نگارش اور اسلوب تحریر میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔ آج سے ستر اسی سال پہلے کے مضامین اور آج لکھے جارہے مضامین میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ حالانکہ اردو نثر نے اس درمیان میں روایت، ترقی پسندی، جدیدیت اور مابعد جدیدیت جیسے کئی مراحل طے کیے ہیں۔ لیکن دینی مضامین کسی قابل ذکر تبدیلی سے محروم رہے۔ (بجز چند استثناء ات کے )…اب جناب ابوالمیزان صاحب نے یہ تحریک شروع کی ہے کہ دینی مضامین کو جدید طرز تحریر سے آراستہ کیا جائے۔ ہر مجلے میں قلم کاروں سے ان کی گزارش ہوتی ہے کہ:”عصری اسلوب کو مد نظر رکھتے ہوئے، جدید اسلوب اور لہجے کے مضامین ہی اشاعت کے لیے بھیجے جائیں۔“
اس لہجے کی تعریف مدیر مجلہ کی زبانی سنئے:
”ہم نے اپنی بات کہنے کے لیے ان الفاظ وتعبیرا ت کا استعمال کیا ہے جو فوری طور پر قاری کی سمجھ میں آجائیں۔“(اداریہ/مارچ2009)
بنیادی طور پر یہ وہ لہجہ ہے جس میں محرر کو اپنی Target Audience، ان کے موڈ، اپنے مقاصد اور موقعے کی مناسبت کا خیال رکھنا ہوتا ہے۔ اس لہجے کو عوام وخواص میں شرف قبولیت حاصل ہوئی ہے۔ ماہر اور تجربے کار قلم کاروں نے اس کی تحسین کی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اس لہجے میں بوریت اور خشکی کی عدم موجودگی بھی ہے جو بالعموم دینی مضامین کو خشک بنادیتی ہے۔ کئی بزرگ قلم کاروں نے مجلے کی تحریک پر اپنے طرز نگارش میں تبدیلی بھی کی ہے۔ اس تحریک کی کامیابی کی سب سے بڑی دلیل استاذ محترم مولانا عبد الحکیم حجازی مدنی کا عوامی فیصلے سے ”رائٹر آف دی ایئر2009“ کا خطاب حاصل کرنا ہے۔ مولانا اس بارے میں مجھ سے زیادہ بتاسکتے ہیں۔ مگر میرے علم کی حد تک مولانا نے اس رنگ میں لکھنا ”دی فری لانسر“ کی تحریک کے بعد ہی شروع کیا ہے۔ اور صرف ایک سال کی مختصر مدت میں عالم نقوی، شفیق الایمان ہاشمی اور ابو العاص وحیدی جیسے منجھے ہوئے قلم کاروں کے درمیان عوامی فیصلے سے سال کے بہترین محرر کا خطاب حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔
اس لہجے کی خوبی کا اندازہ تو پڑھ کر ہی لگایا جاسکتا ہے۔ بطور مثال ہم یہاں فروری 2010میں شائع ہونے والے مضمون ”انٹرنیشنل اسلامک فیسٹول“ کا ایک اقتباس نقل کرتے ہیں جو شاید اس جدید اسلوب کی نمائندگی کے لیے کافی ہو۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اسلامک انٹرنیشنل فیسٹول کے بارے میں منظر بشیر صاحب لکھتے ہیں:”سوال یہ نہیں ہونا چاہیے کہ کبھی سیٹی بجانے والاکردار اب بھونپو کیوں بجارہا ہے؟… سوال یہ ہونا چاہیے کہ دعوت وتبلیغ کی تجارت میں جس مال کی سپلائی ہورہی ہے وہ کیسا ہے؟…یہ بھی دین کانہیں وقت کا مزاج ہے، کل کو یہ سوال اٹھایا جانا درست بھی ہوسکتا ہے کہ منصوص منزل تک پہنچنے کے لیے منصوص راستہ پر چلا جارہا ہے یا نہیں؟… صراط مستقیم کے ہوتے ہوئے آخر شارٹ کٹ مارنے کی کیا ضرورت ہے؟… ٹھیک ہے، پیدل چلنے پر چار لوگوں کے کانوں تک ہی دین کی بات پہنچ پاتی ہے۔ مگر آٹھ لوگوں کے کانوں تک بات پہنچانے کے لیے شیطان کے کندھے پر سوار ہونا ٹھیک نہیں ہے۔ کل کیا ہوگا پتا نہیں، مگر آج تو ان پیج اردو کی فائل کو ایم ایس ورڈ Openنہیں کرسکتا۔“(ص25)
اسلام کی سادگی اورذاکر صاحب کے فیسٹول کی رنگینی کی ان پیج اردو اور ایم ایس ورڈ سے تشبیہ بڑی فرحت آمیز ہے۔
اس طرز واسلوب پر بعض حضرات کو اعتراض بھی ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ زبان ایک جمہوری حکومت کے مانند ہوتی ہے جہاں ہر شخص اپنا امیدوار کھڑا کرسکتا ہے اور انتخاب عوام کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ فی الحال تو رائے عامہ اس وارتالاپ کی نئی شیلی کی پرشنسک نظر آرہی ہے۔
اس طرز تحریر کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ مضامین کے عناوین بڑے دلچسپ، پرکشش اور جاذب ہوتے ہیں، جو قاری کو مضمون پڑھنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ کچھ عناوین ملاحظہ فرمائیں:
اردو کا بڑھاپا اور بھوجپوری کا بچپن/اردو، اردو والے اور اردو والی/ انٹرنیٹ مولوی/ موئے زیر ناک/ اردو کی ماں بہن/ آیت زکوٰة کا Latestورژن/ چادر میں ڈالو/ رونگ نمبر/ مس کال/ سرسید، سانٹا اور سائنس/فتویٰ وائرس/ کے جی این وغیرہ۔
مجلے کی مقبولیت کا سب سے زیادہ بلکہ 90%کریڈٹ مدیر مجلہ جناب ابوالمیزان صاحب کو جاتا ہے۔ وہ واقعی بڑے کمال کی شخصیت ہیں،میں نے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا لیکن انھیں اپنا استاد مانتا ہوں۔ ان سے بہت کچھ سیکھا ہے اور بہت کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ وہ بڑا پر اثر اور طوفان انگیز لکھتے ہیں۔ جس مسئلے پر بولتے ہیں کھری بولتے ہیں۔ کم الفاظ میں بہت اہم بات بول دیتے ہیں۔ دکھتی رگ پر انگلی رکھنے کا ہنر ان میں وافر مقدار میں موجود ہے ۔ان کے الفاظ سے دردمندی ٹپکتی ہے اور ان کے جملوں سے خلوص چھلکتا ہے۔ وہ حق بات بولنے میں ناجائز مصلحتوں اور اندیشوں کی پرواہ نہیں کرتے۔ میں اہل حدیث ہوں، کسی کی ناجائز تعریف نہیں کرتا۔ ابوالمیزان صاحب واقعی ایسے ہی ہیں۔
جہیز کو لیو ان رلیشن شپ کا سبب بتانے کے بعد لکھتے ہیں:”تو کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین مسئلہ ہٰذا کے بارے میں؟… کنکریٹ کی دیواروں کے بیچ ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھے ہوں تو براہ کرم اس مسئلے میں کوئی فتویٰ نہ دیں، دلچسپی ہو تو مسائل کی چلچلاتی دھوپ میں دو قدم چل کر آئیں اور لیو ان رلیشن شپ کی حرام کاری کی تہ میں چھپے بھوت کو Find outکرکے سنگسار کریں۔“
مدارس کے تعلیمی زوال کے سبب الاسباب کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا:
”اساتذہ کی تقرری کے موقعے پر سب سے زیادہ زور اور اہلیت کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ اسٹاف کا سب سے پہلا کام بجٹ کی فراہمی ہے۔ اور باقی معاملات تو ضمنی ہیں۔“
سچ کا سامنا پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:”ریالٹی شو کے نام پر غربت خرید کر بازار میں اس طرح دھڑلے سے بیچا جارہا ہے اور کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتا۔“
اس شو کی مذمت پر بہتوں نے لکھا پر اس پہلو پر کسی کی نظر نہیں گئی۔
”سرسید، سانٹا اور سائنس“میں بہت کم الفاظ میں بہت بڑی بات کہی ہے ۔یہ اکیلا مضمون اس پوری نسل کی اصلاح کے لیے کافی ہے جو فزکس کی بنیاد پر ثابت شدہ اسلامی حقائق وواقعات کے انکار پر تلی ہوئی ہے۔
ابوالمیزان صاحب ہر شمارے میں کچھ نہ کچھ نیا کرکے قارئین کو تفریح پہنچاتے رہتے ہیں۔ مجلے کا ٹیگ لائن یعنی اردو ٹائٹل ”دی فری لانسر“ کے ماتھے پر چپکایا جانے والا جملہ اب تک دو مرتبہ بدلا جاچکا ہے۔ اشتہار کے وقت مجلے کے سر پہ لکھا تھا: ”دی فری لانسر، علماء اور عوام کے درمیان ایک پل“… یہ غالباً سہ ماہی نیا ورق ممبئی کے ”قاری اور قلم کار کے درمیان ایک پل“ سے مستفاد تھا۔ لیکن ابتدا کے دو شمارے اس سے خالی شائع ہوئے۔ مئی کے شمارے میں ”جدید علم کلام کا ایک انوکھا سنگ میل“ نام دیا گیا۔ پھر جب بعض بزرگوں کے یاد دلانے پر مدیر کو یہ یاد آیا کہ علم کلام اصلاحات کی کالی فہرست میں ہے تو اسے ”عصری اسلوب کا ابجد“ سے تبدیل کردیا گیا۔ہمارے علم کی حد تک علم الکلام فی نفسہ بری چیز نہیں، الٰہیات میں اس کا استعمال غلط ہے جس سے اسلاف نے روکا ہے۔ابن ابی العز الحنفی نے طحاویہ کی شرح میں اس کی وضاحت کی ہے۔
مجھ ناچیز کی رائے ہے کہ مجلے کے ٹیگ لائن میں مباحثے کی غیر جانبدارانہ پالیسی کی طرف اشارہ ہونا چاہیے۔ جیسے” اندیشوں سے بالا تر ہوکر سوچنے کی دعوت “یاجیسا مدیران مناسب سمجھیں۔
جون کے شمارے میں سرورق پر ہر مضمون کے ساتھ اس کا ریڈنگ ڈیوریشن یعنی وقفہ ٴمطالعہ بھی شائع کردیا گیا۔ تاکہ قاری کو پتا چل جائے کہ کون سا مضمون پڑھنے میں کتنا وقت لگے گا۔/جولائی کے شمارے میں مدیر محترم نے اپنے مضمون ”اردو کی ماں بہن“ میں یہ لکھتے ہوئے کہ: ”اردو والے انگریزی کے اقتباسات کتنے فخر سے نقل کرتے ہیں۔ مگر ہندی کے اقتباسات کہیں دکھائی کیوں نہیں دیتے؟“ہندی ماہنامہ نونیت سے ایک لمبا اقتباس نقل کیا۔ /اگست کے شمارے میں ”ڈیسک ٹاپ“ نامی کالم شروع کیا گیا، جس میں قارئین کے ایس ایم ایس کے ذریعے پچھلے شمارے سے سب سے زیادہ پسند کیے گئے مضامین کا انتخاب کیا جاتا ہے۔/جنوری2010کے شمارے میں ”فری لانسر“ کی جانب سے ”رائٹر آف دی ایئر ایوارڈ“ دیے جانے کا اعلان کیا گیا۔ اور اسی شمارے میں مجلے کی جانب سے آل انڈیا سہ لسانی (اردو۔ انگریزی۔ ہندی) مضمون نویسی مقابلہ 2010“ کے انعقاد کا بھی اعلان کیا گیا۔
فروری کے شمارے کے ساتھ ”فری لانسر“ نے ایک سال کا سفر مکمل کرلیا ہے۔ اس ایک سال میں ”فری لانسر“ نے کیا کمایا، یہ جاننے کے لیے وصیل خان کے دسمبر2009اور جنوری2010کے شماروں پر تبصرے (مطبوعہ فری لانسر :ص4/ فروری 2010) ملاحظہ فرمائیں۔وصیل خان جیسے کہنہ مشق اور تجربہ کار تبصرہ نگار کی مجلہ کے متعلق رائے یقینا اس لائق ہے کہ مدیران مجلہ اس پر فخر کریں۔
ہمیں معلوم ہے کہ مجلے کی پالیسی سے بہت سارے لوگ اختلاف کا اظہار کرتے ہیں لیکن جناب! … ایسا بھی کون ہے جسے اچھا کہیں سبھی؟/آپ اپنا کام جاری رکھیں۔ مباحثے سے وہی شخص ڈرتا ہے جو خود کو دلائل کی بنیاد پرثابت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ جسے اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ اگر قرآن وسنت کی روشنی میں بات ہوگی تو اس کا مذہب کمزور ثابت ہوگا۔ جو حق پر ہے اسے مباحثے کا کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے۔چند احتیاطات کے ساتھ اس پالیسی کو جاری رکھیں، اللہ سے مدد طلب کریں۔ بغیر اس کی نصرت کے کچھ نہیں ہونے والا۔
مجلے کے تعلق سے ہماری چند گزارشات ہیں۔ ان پر غور کرنے کی درخواست ہے۔ باقی آپ بہتر سمجھ سکتے ہیں:
(۱)مضامین کو اخلاقی اعتبار سے سنسر کریں ،فحش گوئی کی اشاعت سے پرہیز کریں۔ مئی کے شمارے میں شائع ہونے والا ندیم فیصل کا مضمون ”ہمارے درمیان درمیان والا“ اس لائق تھا کہ جرائم جیسے کسی ماہنامہ میں شائع ہوتاجو فحاشی کی روک تھام کے نام پر فحاشی پھیلاتے ہیں۔ اس گھٹیا مضمون نے آپ کے ماہنامہ کے معیار کو گھٹادیا۔ پہلے ہی شمارے میں عنوان ہی میں گالی کا ایک لفظ تھا۔ دسمبر کے شمارے میں منظور مدنی کے مضمون ”یہ میرا انڈیا“ کے دوسرے پیراگراف میں ایک بہت ہی گندی گالی کا استعمال کیا گیا۔ آپ اس کو چھاپنے سے نہیں ڈرتے۔ ہمیں تو اسے پڑھنے سے گھن آتی ہے۔ جدت کے نشے میں کسی کواخلاق و شائستگی کے حدود کو پار نہیں کرنا چاہیے۔ آپ کو اپنی ذمے داری کا احساس ہونا چاہیے۔
(۲)مباحثے میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ آپ کے قاری تک کوئی غلط پیغام نہ پہنچے۔ اس کے لیے جتنے ممکن راستے ہیں سب بند کردیئے جانے چاہئیں۔
(۳) مسلک کے تعلق سے جو بحث ہوئی اس کا خاتمہ بہت افسوس ناک رہا۔ جب تک فریقین کسی ایک بات پر متفق نہ ہوجائیں بحث جاری رہنی چاہیے۔ یا پھر کوئی ثالث بحث کا ماحصل پیش کرے اور کسی ایک فریق کے حق میں فیصلہ دے۔
(۴)مباحثہ دلائل کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ آدمی کی آزادی کا دائرہ وہیں ختم ہوجاتا ہے جہاں دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے۔ مجلے میں اس قسم کی گستاخیاں کئی مرتبہ دیکھنے کو ملیں۔ ثاقب بلرامپوری نے ممتاز میر صاحب کے تعاقب میں جو عنوان قائم کیا، قطعاً نامناسب تھا۔ بہترین اخلاق کی فضیلت پر ہم سب کا اتفاق ہے۔ ثاقب صاحب کو ان سے معافی مانگنی چاہیے۔
(۵) فلمی باتوں سے بالکل پرہیز کریں،عوام میں اس کا بہت غلط پیغام جاتا ہے۔
(۶) مضامین بالعموم تین طرح کے ہوتے ہیں، تعلیمی ،تفکیری اور تفریحی۔مجلہ تفکیر اورتفریح تو بڑی مقدار میں فراہم کر رہا ہے البتہ علمی مضامین کی کچھ کمی محسوس ہوتی ہے۔شیخ عنایت اللہ مدنی جیسے کچھ اور لکھنے والے اگر مجلہ سے جڑیں تو یہ کمی ختم کی جاسکتی ہے۔مولانا ابو العاص وحیدی سے درخواست کریں۔
(۷)اردو ادب میں بھی کئی موضوعات پر بحث کی گنجائش ہے۔ پرانے ،نئے اور پرانے قسم کے نئے ادباء آپس میں سینگ لڑاتے رہتے ہیں۔ سب کو ایک دوسرے کے مجلّوں میں نہ چھاپے جانے کی شکایت ہوتی ہے۔ اردو ادب کے لیے بھی ایک عدد غیر جانبدار مجلے کی ضرورت ہے۔ آپ مجلے کا دائرہ وسیع کرکے نظم ونثر کے متعلق ہونے والی ادبی بحثوں کو اس میں شامل کرسکتے ہیں۔ اس سے مجلے کے قارئین کا حلقہ بڑھے گا۔
(۸) ”دی فری لانسر“ کو ماہنامہ سے روزنامہ بنانے کے لیے میں کس قسم کا تعاون کر سکتا ہوں۔
(۹)آخری بات یہ کہ ”دی فری لانسر“ صرف لکھنے، پڑھنے، بولنے، رونے اور افسوس کرنے کی تحریک نہیں ہونی چاہیے۔ مجھے لگتا ہے یہ وہ مرکز ہے جہاں بہت سارے ایسے لوگ جمع ہوتے ہیں جو امت کے لیے فکرمند ہیں اور کچھ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ عملاً ہم کیا کرسکتے ہیں، اس بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ نے آپ کو اس کا موقع دیا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ اللہ ہمارا حامی ومددگار ہو۔
(ماہنامہ دی فری لانسر، شمارہ اپریل ۲۰۱۰)
Welcome to Freelancer.co.in Mumbai
 
Top