• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

”دی فری لانسر“ کی سب سے بڑی خوبی

شمولیت
دسمبر 10، 2011
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
52
پوائنٹ
23
تحریر : سرفراز احمد عبدالرب فیضی

”دی فری لانسر“ کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ مکمل غیر جانبدار ہے۔ مدیران مجلہ کا نظریہ کچھ بھی ہو لیکن یہ ہر کسی کو اپنا مفروضہ، دلائل کی بنیاد پر ثابت کرنے کا موقع دیتے ہیں۔
مضامین کی فہرست کے اخیر میں ادارہ کی طرف سے نوٹ لگا ہوتا ہے کہ:”ہر قلم کار کو اپنی مدلل بات کہنے اور ہر قاری کو اس کے تعاقب کا پورا اختیار حاصل ہے۔ لیکن ادارے کا اتفاق ضروری نہیں۔“
یہ اعلان صرف زبانی اور رسمی نہیں ، بلکہ مجلہ نے اپنے یک سالہ سفر میں اس کا عملی ثبوت بھی دیا ہے۔ قارئین آزادی اظہار رائے کے اس موٴقف سے بھرپور استفادہ بھی کرتے ہیں۔ اس ایک سال کے دوران دو موضوعات پر نسبتاً تفصیلی بحث ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک کا خلاصہ ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ہم نے تیسری جانب کھڑے ہو کر پورے مباحثے کا جائزہ لینے کی حتی الامکان کوشش کی ہے۔ امید ہے کہ اس منصفانہ کاوش پر متعلقین حضرات غور کرکے کسی نتیجے پر پہنچیں گے ۔
بحث کا موضوع تھا:”مسلمانوں میں اتحاد کن بنیادوں پر ہوسکتا ہے؟“۔ بحث کا آغاز جناب ممتاز میر کے ایک مضمون ”اب بس کیجئے“ اور مضمون نما مکتوب سے ہوا۔ مکتوب میں انھوں نے لکھا ہے کہ:
” ہم مسلمانوں کے معاشرے کو ”مسلک فری“ دیکھنا چاہتے ہیں۔اوراسی لیے ہزار خامیوں کے باوجود ہمارے نزدیک برصغیر میں جماعت اسلامی سے بہتر کوئی تنظیم کوئی تحریک کوئی جماعت نہیں۔جماعت کے ارکان، کارکنان، متاثرین و متوسلین میں شیعہ بھی ہیں سنی بھی، بریلوی بھی ہیں دیو بندی بھی،حنفی بھی ہیں شافعی بھی ،مقلد بھی ہیں اور غیر مقلد بھی۔اور یہ تمام لوگ اپنے اپنے مسلک اپنے اپنے اعتقادات کو گھروں پر رکھ کر جماعت کا کام کرتے ہیں ۔ہمارے نزدیک آپ یا تو اپنے دین کا کام کرسکتے ہیں یا اپنے مسلک کا۔“(جولائی2009)
لیکن اسی شمارے میں ان کا جو مضمون شائع ہوا اس میں تو انھوں نے غضب کردیا۔ فقہ اربعہ کے مقلدین تو بے چارے اپنا اپنا مسلک چھوڑ کر ان کے ساتھ ان کی جماعت کے کام کے لیے گئے تھے۔ ممتاز صاحب نے ان کے گھروں پر چھاپا مار کر ان کی فقہ سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی۔ لکھا کہ:
”فقہ اسلامی نے اسلام کو جتنا نقصان پہنچایا ہے اتنا کسی اور چیز نے نہیں۔“(ایسی بات وہی بول سکتا ہے جو فقہ کے مفہوم سے ناواقف ہو)۔
ممتاز صاحب کے مضمون اور مکتوب کے درمیان اس تضاد کو قارئین نے نوٹ کیا۔ اگلے شمارے میں شائق بستوی نے لکھا کہ: ”موصوف کے دونوں مضامین میں کافی تضاد نظر آرہا ہے۔“ (ص 8/اگست2009)
ندیم فیصل نے لکھا:”جن غلطیوں کا تذکرہ انھوں نے اپنے مکتوب میں کیا تقریباً وہی غلطیاں انھوں نے اپنے مضمون میں دہرادی ہیں۔“
پرویز شاکر نے ممتاز میر کے تعاقب میں اپنے مضمون ”مسلک فری یا مسلکی جماعت؟“میں لکھا کہ:”اصول وضوابط، راہ، دستور، منہج یہ ساری چیزیں مسلک میں آجاتی ہیں۔ اب اتنی بات تو سمجھ میں آگئی کہ کسی بھی جماعت کے لیے مسلک کا ہونا ضروری ہے۔“
ثاقب بلرامپوری صاحب نے ممتاز صاحب کے تعاقب میں بڑا گستاخانہ عنوان قائم کیا ”کرتا کوئی اس بندہٴ گستاخ کا منہ بند“۔ انھوں نے لکھا :”آپ کے دل میں اگر اتحاد کا صحیح جذبہ ہے تو میں اس کی قدر کرتا ہوں لیکن اتحاد امت اسی وقت ممکن ہوگا جب کسی ٹھوس بنیاد پر ہو۔ مسلک فری اتحاد کرنے سے تو دعوت وتبلیغ کا دروازہ ہی بند ہوجائے گا۔“
ستمبر کے شمارے میں ممتاز صاحب کے دفاع میں ایس ایم ملک صاحب آگے آئے۔انھوں نے اپنے مکتوب میں لکھا:
”بقول پرویز شاکر’کئی مسالک کے لوگ ایک ساتھ مل کر متحدہ مقصد حاصل کرنے کے لیے کام نہیں کرسکتے…یعنی مسلک فری ہوکر۔“میرے خیال سے اس بات کا صحیح جواب ”تعالوا الی کلمة سواء بیننا وبینکم“ ہے۔ اگر اتحاد صحیح عقائد کی بنیاد پر ہو تو پھر مسلمانوں میں اتحاد کیسے ہوگا؟…کیونکہ سب کے عقائد الگ الگ ہیں اور بقول ان کے ”وہی حق پر ہیں اور جنتی بھی“۔ تو پھر اس چیلنج سے کیسے نپٹا جاسکتا ہے۔“ (ص6)
اسی شمارے میں ممتاز میر صاحب نے بھی اپنا دفاع کرتے ہوئے مضمون لکھا ”شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات“۔ پورے مضمون میں انھوں نے ان دو سوالوں کا جواب نہیں دیا جو ان سے اگست کے شمارے میں پوچھے گئے تھے:
(۱) ان کے مکتوب اور مضمون میں تضاد کیوں ہے؟
(۲)مسلک کا مطلب ہوتا ہے اصول وضابطہ اور دستور ومنہج۔ لہٰذا جماعت اسلامی بھی اس اعتبار سے ایک مسلکی جماعت ہے۔
البتہ انھوں نے لکھا:” مسلمانوں کی ترقی اس میں نہیں کہ وہ آگے بڑھیں بلکہ اس میں ہے کہ وہ پیچھے ہٹتے ہٹتے حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کے دور سے جا ملیں۔ ہم دن رات یہ خواب دیکھتے ہیں۔ اس لیے بھی کہ اس دور میں کسی مسلک کا نام ونشان نہیں ملتا۔ “ (ص10)
ممتاز میر صاحب کی یہ دوسری بات خلاف واقعہ ہے۔صحابہ کی تاریخ سے ادنی واقفیت رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ وہ روافض اور خوارج کے مقابلے میں خود کو اہل سنت کہا کرتے تھے۔
ممتاز صاحب نے یہ پیشین گوئی بھی فرمائی کہ:
”جب مہدی کا ظہور ہوگا تو انھیں سب سے زیادہ تکلیف ہندوستانی مسلمانوں سے ہی پہنچے گی۔ وجہ․․․․؟ حضور اکرمﷺ کے کہے ہوئے سارے 72-73 مسلک/ فرقے یہیں موجود ہیں۔ اور مہدی سے ہر فرقہ یہی سوال کرے گا کہ حضرت اگر آپ کا تعلق میرے فرقے سے ہے تو سر آنکھوں پر، بصورت دیگر آپ مہدی نہیں ہوسکتے۔ اور دور اولین کی طرح آخر میں بھی خلافت علی منہاج النبوة مہدی کے ہاتھوں قائم ہونا ہے تو پھر یہ بھی ہوگا کہ پہلے کی طرح ایک بار پھر اسلامی سوسائٹی ”مسلک فری“ ہوگی۔“
ان کے جواب میں اکتوبر کے شمارے میں پرویز شاکر صاحب کا مکتوب شائع ہوا جس میں انھوں نے اپنا وہی اعتراض دوبارہ پیش کیا جس کا جواب ممتاز صاحب نے نہیں دیا تھا۔ نیز ایس ایم ملک صاحب پر ان کی طرف غلط قول منسوب کرنے اور بہتان تراشی کا الزام لگایا۔ واقعتا ایس ایم ملک صاحب نے ان کی طرف یہ قول غلط منسوب کیا تھا۔ ہم نے پرویز صاحب کا مضمون حرف بحرف پڑھا ہے، انھوں نے یہ بات کہیں نہیں لکھی کہ:”مختلف مسالک کے لوگ ایک ساتھ مل کر متحدہ مقصد حاصل کرنے کے لیے کام نہیں کرسکتے۔“
ایس ایم ملک صاحب کا جواب دیتے ہوئے ثاقب بلرامپوری نے اپنے مکتوب میں لکھا کہ:
اگر ایس ایم ملک صاحب اس آیت (تعالوا الیٰ کلمة سواء بیننا و بینکم)کا اگلا حصہ بھی پڑھ لیتے تو شاید پوری بات سمجھ میں آجاتی کہ … تبلیغ کی شروعات عقائد ہی سے ہونی چاہیے۔
نیز ان کی دوسری بات کا جواب دیتے ہوئے لکھا:”رہی بات اس کی کہ سب کے جدا جدا عقائد ہیں پھر مسلمانوں میں اتحاد کیسے ہوگا ؟یہ بہت ہی مایوس کن سوال ہے۔ کیا ہم اس لیے ہی دعوت و تبلیغ بند کر دیں کہ کوئی نہیں سن رہا ہے ؟“۔
ممتاز صاحب کی مہدی والی بات کا جواب دیتے ہوئے اپنے مضمون میں انھوں نے لکھا:
ِِِِِِ” مہدی علیہ السلام کو اگرسب سے زیادہ ہندوستان میں اس لیے تکلیف ہوگی کہ یہاں ہر فرقہ یہی سوال کرے گا کہ حضرت اگر آپ کا تعلق میرے فرقے سے ہے تو سر آنکھوں پر بصورت دیگر آپ مہدی نہیں ہوسکتے ۔وہیں اس بات پر اور زیادہ تکلیف ہوگی کہ کچھ لوگ یہ تک کہہ دیں گے کہ ٹھیک ہے ہم آپ کو مہدی مانتے ہیں لیکن اگر آپ کو ہماری جماعت میں آنا ہے تو یہاں کا اصول یہ ہے کہ یہاں کا ہر آدمی اپنے اپنے عقائد کو اپنے اپنے گھر پر رکھ کر آئے نیز عقائد، ایمانیات، عبادات اور معاملات کا کوئی بھی ایسا مسئلہ نہ چھیڑے جس سے لوگوں میں اختلاف پیدا ہو کیوں کہ مقصد صرف اور صرف لوگوں میں اتحاد پیدا کرنا ہے چاہے اس کے لیے عقیدے سے ہی کیوں نہ سمجھوتہ کرنا پڑے ۔“
اسی شمارے میں پرویز شاکر صاحب کا ”مسلک فری یا مسلکی جماعت“ کا دوسرا حصہ شائع ہوا۔ جس میں انھوں نے لکھا کہ:
”اسلامی جماعت کسے کہتے ہیں؟…محض اپنی جماعت کا نام اسلامی رکھنے سے وہ جماعت اسلامی نہیں ہوجائے گی۔اگر کسی جماعت کے پاس کوئی مسلک (طریقہ، اصول، منہج، قاعدہ) ہی نہیں تو وہ اسلامی جماعت کیا دنیاوی جماعت کہنے کے لائق بھی کم ہی ہوتی ہے۔“
”اگر کوئی جماعت دین کی اقامت چاہتی ہے تو اسے… اپنی جماعت کو مشرکانہ افکار واعمال سے… نبی اور صحابہ پر جھوٹ بولنے والوں سے… اصحاب رسولﷺ کو گالیاں دینے والوں سے… غیر نبی شخصیات کی تقلید سے پاک کرکے نبیﷺ کی اتباع کرنے کی دعوت دینی ہوگی۔“
نومبر کے شمارے میں ایس ایم ملک صاحب کا مکتوب شائع ہوا۔ انھوں نے پرویز شاکر صاحب سے بہتان تراشی پر معافی نہیں مانگی۔بلکہ ایک اور بہتان ان پر باندھ دیا کہ:”پرویز شاکر اور ثاقب بلرامپوری کے آرٹیکل کا جو نچوڑ میری سمجھ میں آیا وہ یہ تھا کہ’اتحاد صرف صحیح عقائد کی بنیاد پر ہی ہونا چاہیے نہ کہ مسلک فری ہوکر۔‘(ص7)
اگر اتحاد سے ملک صاحب کی مراد ساتھ مل کر مشترکہ مسائل کے حل کی کوشش کرنے سے ہے تو پرویز شاکر صاحب نے اس قسم کے اتحاد میں کسی قسم کا مضائقہ نہ ہونے کی وضاحت اگست کے شمارے میں ہی کردی ہے۔ انھوں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے:
”اگرکسی دنیاوی مصلحت ،غرض وغایت کے تحت مسلمانوں کی ساری مسلکی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پہ جمع ہوتی ہیں اور طاقت میں اضافہ کرنے کے کے لیے اس میں ہم خیال غیر مسلم جماعتوں کو بھی شامل کر لیتی ہیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ “ (ص20)
پوری بحث میں جناب ممتاز میر اور ملک صاحب کا معاملہ یہی رہا کہ جو ان سے پوچھا گیا اس کا انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ یہاں وہاں کی باتیں دہراتے رہے اور مسلمانوں کے افتراق پر آنسو بہاتے رہے۔حالانکہ اختلاف اس بات پر نہیں کہ مسلمان افتراق کا شکار ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ اس اختلاف سے نجات مسلک سے فری ہو کر مل سکتی ہے یا صحیح مسلک قبول کر کے۔
نومبر کے شمارے میں ممتاز میر نے اس موضوع کے متعلق کچھ بھی نہیں لکھا۔ لیکن خان یاسر اختلافات امت کے حل کا ایک آئیڈیا لے کر اس مباحثے میں شریک ہوئے۔ اختلافات کے حل کی تجویز پیش کرنے سے پہلے ضروری تھا کہ موصوف اختلافات کی نوعیت کو سمجھتے مگر وہ اس معاملے میں غلط فہمی (یا خوش فہمی) کے شکار ہوگئے۔ لکھتے ہیں:
”اصل میں امت مسلمہ کا سارا (بمعنی 90%) اختلاف الفاظ، تعبیرات وترجیحات کا اختلاف ہے۔“
”جمعیت اہل حدیث ( واضح رہے کہ جمیعت اہل حدیث جماعت اہل حدیث کے علماء کی تنظیم ہے جو جماعت کے معاملات کی نگرانی کرتی ہے) جماعت اسلامی اور جماعت تبلیغ کا اختلاف ترجیحات، فروعیات اور حکمت عملی کا اختلاف ہے۔“ (نومبر 2009 /ص14-15)
جب انھوں نے اختلافات کی نوعیت کو ہی نہیں سمجھا تو ان کے حل کے لیے کوئی موثر تجویز کیسے پیش کرسکتے ہیں۔ اور وہی ہوا بھی۔ خان یاسر کے مضمون ”انگلی اٹھانے سے پہلے“ کے ساتھ اس مباحثے کا خاتمہ ہوگیا۔ اور یہ نہایت افسوس انگیز خاتمہ تھا۔ یہی وہ چیز ہے جس کا اندیشہ ہمیں اس قسم کی پالیسی سے متعلق تھا۔ بہر حال اس مسئلے پر ہم آگے بات کریں گے۔ جن غلط فہمیوں نے خان یاسر کو اس مضمون میں اپنا شکار بنایا ہے، ”فری لانسر“ کے اگلے شمارے میں ان کی تفصیلی نشاندہی کا ہم ارادہ رکھتے ہیں۔ اللہ رب العزت ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اتحاد سے متعلق اس طویل بحث میں اختلاف کا بنیادی سبب دیگر اختلافات کی طرح ایک لفظ کا دو مختلف معانی میں اشتراک ہے۔ ممتاز میر اور ایس ایم ملک صاحبان بار بار جس اتحاد کی اہمیت پر زور دیتے رہے، وہ دراصل ایک وقتی سمجھوتہ اور مصالحت ہے۔ جبکہ پرویز شاکر اور ثاقب بلرامپوری صاحبان اس اتحاد کی بات کررہے تھے شریعت جس کی تاکید کرتی ہے اور جس کے تعلق سے کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔
اختلاف و انتشار کی مذمت اور فرقہ واریت وتفرقہ بازی کی شناعت تو ہر کوئی بیان کرتا ہے مگر اس سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اس اختلاف اور تفرقے کی تعریف وتحدید کرلی جائے جس میں ملوث ہونے سے ہمیں روکا گیا ہے۔
اس وقت امت فکری اور اعتقادی اعتبار سے مختلف خانوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ان میں سے کوئی ایک ہی فرقہ برحق اور ناجی ہے۔ جس فرقے کے پاس حق ہے اس کی ذمے داری ہے کہ وہ اس کی طرف دوسروں کو دعوت دے۔ اور حق کس کے پاس ہے اس کا فیصلہ قرآن وسنت کی روشنی میں ہوسکتا ہے جن کی صداقت پر تمام اہل ایمان کا اتفاق ہے۔ باطل چونکہ حق کے مخالف ہے لہٰذا اہل حق کا اہل باطل سے اختلاف لازمی ہے۔ لیکن ظاہر سی بات ہے یہ وہ اختلاف نہیں جس کی قرآن وسنت میں مذمت بیان کی گئی ہے۔ پھر کس اختلاف سے اسلام نے اہل ایمان کو روکا ہے۔ قرآن سے پوچھئے تو جواب ملتا ہے:
”ولا تکونوا کالذین تفرقوا واختلفوا من بعد ماجاء ھم البینات“۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاؤ جنھوں نے دلائل آجانے کے باوجود اختلاف کیا اور فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔
معلوم ہوا کہ وہ اختلاف مذموم ہے جو حق اور دلائل واضح ہوجانے کے باوجود محض سرکشی اور نافرمانی رب پر مبنی ہو۔ ممتاز صاحب کی بنیادی غلطی یہی ہے کہ وہ دعوت حق کو اختلاف کا سبب سمجھتے ہیں۔ جبکہ اختلاف کی اصل وجہ حق کی دعوت کے بجائے حق کا انکار ہے۔ آپ اقامت دین کی بات کرتے ہیں تو پہلے اس دین کی صحیح تصویر تو لوگوں کے سامنے پیش کریں۔ بغیر اس کے آپ اس کی اقامت پر لوگوں کو متحد کیسے کرسکتے ہیں۔
ہمیں اقامت دین پر کوئی اعتراض نہیں اور ایک مسلمان کو اس پر اعتراض ہوبھی کیسے سکتا ہے۔ ہمیں اعتراض اس کی اس حیثیت پر ہے جو اس کو جماعت اسلامی میں حاصل ہے۔ ہمیں اختلاف اس اقامت کے لیے اختیار کیے جانے والے غلط راستوں اور برتی جانے والی ناجائز مصلحتوں پر ہے۔
انھیں مصلحتوں کی بنا پر مولانا مودودی نے پاکستان کے صدارتی انتخاب میں ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح کی حمایت کی تھی۔
مولانا مودودی مرحوم ”عید میلاد“ کے قائل نہ تھے۔ 31/مئی1970کی تاریخ میں جماعت اسلامی کی جانب سے شوکت اسلام جلوس نکلنے والا تھا۔ مولانا نے اس ڈر سے کہ کہیں ان کے جلوس پر کوئی اثر نہ پڑجائے، جلوس سے کچھ دن پہلے ان سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ”عید میلاد“ کے جواز کا فتویٰ دے دیا۔ (ملاحظہ ہو: روزنامہ ندائے ملت لاہور۔ 18/مئی 1970/بحوالہ عورتوں کے امتیازی مسائل وقوانین)
تو جناب ہم ان مصلحتوں کے خلاف ہیں جو ایک ثابت شدہ شرعی حکم کی تبدیلی کا باعث بن جاتی ہے۔ اور ان اندیشوں سے ہمیں اختلاف ہے جس کے پیش نظر ایک کھلی بدعت جائز تسلیم کرلی جاتی ہے۔
ممتاز میر صاحب نے لکھا کہ:
”ہمارے نزدیک آپ یا تو اپنے دین کا کام کرسکتے ہیں یا اپنے مسلک کا۔ اب جو حالات ہیں ان میں بیک وقت دونوں کام کرنا ممکن نہیں رہا۔ “
اس بات سے ہم ایک حیثیت سے اتفاق کرتے ہیں اور ایک اعتبار سے اختلاف۔
یہ بات ان حضرات کے لیے تو درست ہے جن کا مسلک اور دین جدا جدا ہیں ۔ ان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے اپنے مسلک اور اپنے اپنے اعتقادات اپنے گھروں میں چھوڑ کر آئیں اور آپ کے ساتھ کام میں لگ جائیں۔ بلکہ شیعوں کی تو مذہبی تعلیم ہے کہ اپنے دین ومسلک اور اعتقادات کو صندوق میں بند کرکے تالا لگاکر گھر سے باہر نکلیں۔ لیکن اہل حدیث کے پاس تو سوائے قرآن وسنت اور اسلاف امت کے منہج کے اور کچھ بھی نہیں۔ یہی ان کا دین ہے اور یہی ان کا مسلک۔ اب اگر اس کو بھی گھر چھوڑ آئے تو کام کس کے لیے کرے؟
جناب! اگر آپ جماعت اسلامی کی ہیئت وماہیت اور شکل وصورت پر ذرا غور کریں تو یہ بات آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ دنیا بھر کے دوسرے اسلامی فرقوں کی طرح جماعت اسلامی بھی ایک فرقہ ہے۔ اس کا اپنا نظریہ ہے مفروضہ اقامت دین، وہ اسی کو دین کی اصل سمجھتے ہیں۔ دیگر عقائد واحکام کو اس کی فرع قرار دیتے ہیں۔ اس نظریے کی مخالفت کرنے والوں سے بحث وتکرار اور مباحثہ ومناظرہ کرتے ہیں۔ اب اور کون سی چیز ہے جو جماعت اسلامی کو ایک فرقہ قرار دینے سے روکتی ہے۔ لہٰذا جماعت اسلامی بھی دیگر اسلامی فرقوں کی طرح ایک فرقہ ہے جس کے وجود نے اسلامی فرقوں کی تعداد میں اضافہ ہی کیا ہے۔ اس میں شامل ہونے والا شخص خواہ اپنے آپ کو کچھ بھی کہے، وہ مودودی یا جماعت اسلامی نامی فرقے کا ایک فرد ہے۔ فلیتفکر!
امت کی بھلائی اس میں نہیں کہ ان کو تنقید اور اصلاح سے روکا جائے بلکہ ہر جماعت اور مسلک کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ وہ بحث کی میز پر آئے۔ خود پر ہونے والی تنقید پر سنجیدگی سے غور کرے۔ ہر شخص کو اس بات کی فکر ہو کہ وہ جس مسلک اور نظریے سے وابستہ ہے وہ اسے بروز قیامت نجات دلائے گا یا نہیں۔ حق کی تحقیق ہو۔ قرآن وسنت کے فیصلے کو تسلیم کیا جائے۔ اور افراد واشخاص، مسالک اور جماعتوں کو اس کے ترازو میں تولا جائے تاکہ حق واضح ہو، لوگ اس پر متحد ہوں اور اس کے غلبے کے لیے متحدہ کوشش کریں۔
ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اس مباحثے پر تبصرہ ذرا طویل ہوگیا ہے لیکن تجزیے کے دوران ذہنوں میں جگہ پانے والے شکوک کو دفع کرنا ضروری تھا۔ پھر بھی ہم نے اختصار کی کوشش کی ہے۔ اگر کسی کو کچھ برا لگا ہو تو معافی چاہتے ہیں۔
ما اریکم الا ما اری وما اھدیکم الا سبیل الرشاد!
اس مباحثے میں مدیر مجلہ نے فریقین کو اپنی بات ثابت کرنے اور فریق ثانی کے تعاقب کے لیے مدلل گفتگو کی مکمل آزادی دی۔ یہی غیر جانبداری اس مجلے کی وہ سب سے بڑی خاصیت ہے جس میں معاصر مجلّوں میں کوئی اس کے ساتھ کھڑا دکھائی نہیں دیتا۔
(ماہنامہ دی فری لانسر ، شمارہ: مارچ ۲۰۱۰)
Welcome to Freelancer.co.in Mumbai
 
Top