• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

”عصمت“ ہے کیا، جس کی ”دری“ ہوتی ہے؟

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
”عصمت“ ہے کیا، جس کی ”دری“ ہوتی ہے؟

تحریر : شعبان بیدار
-----------------------​
موت سے جنگ میں زندگی ہار گئی اور خباروں نے پہلے صفحہ پریہ خبر شائع کی کہ عصمت دری کی شکار لڑکی نے دم توڑ دیا۔ کچھ ایسے اسباب تھے جن کی بنیاد پر اس خبرنے مجھے چونکا دیا، اس کے باوجود اگرمیں جھوٹ نہ بولوں تو صاف بات یہ ہے کہ مجھے کوئی افسوس نہیں ہوا۔ ملک کے آخری درجہ کے شہر یوں کی آنکھیں نم ہوئیں تو اول درجہ کے شہریوں کے دلوں کا درد بھی لفظوں میں ڈھل گیا۔
ہندوستان کی سر زمین پر اللہ اعلم با لصواب میں تنہا ایسا محسوس کررہا ہوں جو اتنی بے تکی بات کر رہا ہوں یا پھر جس کا دل ایسا پتھر ہو حالانکہ پتھروں سے بھی چشمے نکلتے ہیں۔ لیکن مجھے جھوٹ نہیں بولنا ہے اور نہ تو سلیقے کا جھوٹ بولنا آتا ہی ہے، میرا رجحان اس طرح کا کیو نکر ہے اس کے جہاں کچھ اسباب ہیں وہیں یہ سبب بھی ہے کہ میر ی آنکھیں خطرناک خبروں کی عادی ہو چکی ہیں۔ آخر جس نے روزانہ انتہائی درد انگیز واقعات کو ملاحظہ کیا ہو، جس نے یہ پڑھا ہو کہ اجتماعی ریپ کے بعد لاشوں پر پیلے پیلے لوگوں نے پیشاب کیا۔ میر ی گستاخ اور گنہگار آنکھوں نے دھواں دیتی یہ سطریں بھی پڑھیں: ٹاڈا ملزم منظور احمد سے کہا گیا کہ وہ ایک دانستہ خاتون زیب النساء قاضی کے ساتھ ”نیلا عمل“ کرے۔ نجمہ نام کی خاتون کو کہا گیا کہ وہ اپنے والد کے ساتھ گھناونی حرکت کرے۔ جب میں نے پڑھا کہ ملزموں کی شرمگاہوں میں مرچ پاوڈر ڈالنا ایک عام بات تھی، تب بھی میری آنکھیں نہ پھوٹیں۔ میری بینائی نہیں گئی، میری بے حیا پلکوں میں آگ نہ لگی، جب میں نے پڑھا کہ شرمگاہوں میں بجلی کے جھٹکے دیے جاتے ہیں تب بھی مجھے موت نہ آئی ،میں پاگل سڑکوں پر نہیں دوڑا۔ اتنا بے حس کہ کسی کانسٹیبل کو قتل بھی نہیں کیا ۔ میں نے یہ بھی پڑھا کہ زنا بالجبر کے بعد اعضاء مخصوصہ کو چھریوں سے کاٹا گیا لیکن آنکھوں سے خون نہ ٹپکا۔ خون تو کچھ گاڑھا ہوتا ہے پانی بھی ظالم مر گیا،ایک بوند بھی نہ ٹپکی لیکن ذرا سی جھر جھری نہ آئی، ٹھنڈی ٹھنڈی آہ بھی نہیں، گرم آواز بھی نہیں۔ تعجب کہ یہ سب ان لوگوں نے کیا جو دیش بھکت ہیں، سرکاری نظام کا حصہ ہیں اور ان لوگوں نے بھی ایسا کیا جو عصمتوں کے رکھوالے ہیں ، جن کے بل پر پورا ملک چین کی نیند سوتا ہے ، یہ سب جان کر بھی میں نہ اچھلا نہ کودا نہ رویا نہ چلایا (صرف اتنا افسوس ہوا کہ کاش میں بھی دہشت گرد ہوتا، ایسے لوگوں کو مارتا اور مرجاتا۔ ایسی احمقانہ اور ذلت آمیز زندگی سے موت بھلی ) اس لیے کہ #
روز کا یہ مشغلہ ہے حادثہ کوئی نہیں
شہر آتش ناک کا منظر نیا کوئی نہیں​
اور اپنے محبوب شاعربشیر بدر کی نصیحت کیوں بھولتا #
تم ابھی شہر میں کیا نئے آئے ہو
رک گئے راہ میں حادثہ دیکھ کر​
اتنے بڑے ملک میں ایسی ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہو ا کرتی ہیں۔ میں بڑے اطمینان سے سوچتا ہوں۔ پھر بتائیے ایسے بے رحم اور سفاک شخص کے لیے ایک میڈیکل طالبہ کی موت کا کیا معنی ہے؟
یہ تو رہا میرا تعزیت نامہ سونیا گاندھی اور ملک کی تما م ایسی ماوٴں کے لیے ہم ان کی بیٹی کے لیے غمگین نہ سہی، غم میں ضرور شریک ہیں۔ موت اور زندگی تو روز کا کھیل ہے ، کوئی آتا ہے کوئی جاتا ہے اس کا بیان کوئی کب تک کرسکتا ہے البتہ میں اس ڈرامے کے آخری سین کو ملاحظہ کرنے سے پہلے کیا سوچتا تھا اسے قارئین کے ساتھ شئیر کر نا چاہتا ہوں۔ اور یہاں سے ایک دوسرا مضمون جو ما قبل سے متعلق ہے پیش کرنا چاہتا ہوں ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
یہ عصمت ! عصمت ہے کیا ؟ یہ تو ایک دقیانوسی نظریہ ہے۔ آخر کالی زلفوں سے گورے قدموں تک کوئی ملا مولوی بتائے کہ عصمت کہاں ہے ؟ ہمیں یہ ڈھونڈے نہیں ملتی، جس کی ”دری“ ہوتی ہے ، ہمیں لگتا تھا کہ میں ایسا سوچنے میں تنہا ہوں لیکن جب برف پگھلی اور کچھ دن گزرگئے تو کچھ خواتین تنظیموں نے ہمارے دعوے کی تائید کی۔ خوشی ہے کہ ملک میں جدید خیالات کو جرأت کے ساتھ پیش کرنے والوں کی کمی نہیں ہے ۔ ایک یقینی اندازہ ہوا کہ عصمت دری ایسی کوئی چیز نہیں جس پر شرم کیا جائے، مسئلے کا بنیادی پہلو صرف اور صرف اذیت ہے ۔
سچ بات یہ ہے کہ عصمت و عفت کے حوالے سے لوگوں کو جگانے کی گہار یہ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ میڈیا سماج میں بھی پرانے خیالات کے لوگ موجود ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت بھی غلط خطوط پر ہوئی ہے۔ ہمارے نصاب تعلیم میں اب تک سطور یا بین السطور میں یہ بات موجود ہے ، عصمت کوئی شئے ہے جس کی عوامی معنی میں حفاظت ہونی چاہیے اور اس کے چلے جانے سے شرم آنی چاہیے۔ یہ ایک غلط تعلیمی نظام ہے اب وقت آگیا ہے کہ نصاب تعلیم پر نظر ثانی کی جائے۔ لڑکیوں کو یہ ذہن دیا جائے کہ وہ عفت کے رجحانات سے آزاد ہوجائیں۔ یہ ایک ذہنی بند ش اور معاشرے کا جبری تصور جسے توڑنا بہت ضروری ہے ۔ لڑکوں کو بھی آمادہ کیا جائے کہ ناگزیرجسمانی مطالبات اور اتفاقی ہیجانات پر”محفوظ عصمت دری“ کا طریقہ اختیار کریں، تعلقات کے مقبول عام میڈیائی طریقے ہی اختیار کریں۔ قارئین کی یاد دہانی کے لیے عرض ہے کہ ”محفوظ عصمت دری “خاکسار کی خانہ ساز تعبیر نہیں ہے بلکہ یہ سیکس اور محفوظ سیکس کے اعلیٰ تصورات پر مبنی ہے ۔
مردوں کو تربیت دینی ہوگی کہ وہ جنس مخالف کی طبیعت، اس کی مصروفیات، صلاحیت، عمر ہر چیز کو مد نظر رکھیں، کوئی بھی غیر جمہوری طریقہ نہ اختیار کریں ۔ اگر کچھ سنگین اسباب ووجوہات کی بنا پر دستوری اعتبار سے کسی کو سزا دینی پڑ جائے تو سرکار کو اپنے ذرائع سے یہ بات واضح کرنی چاہیے کہ سزا کی بنیاد عصمت وعفت نہیں بلکہ اوقات ، صلاحیت و غیرہ ہے ۔
ڈارون کا نظریہ حیات اسکولی نصاب کا نا گزیر حصہ ضرور ہے اور واحد سائنسی نقطہ نظر کی حیثیت سے اس کی تعلیم بھی ہوتی ہے، اس کے باوجود نا معلوم وہ کون سے اسباب ہیں کہ اس کے وہ برکات وفوائدظاہرنہیں ہورہے ہیں جو نظریہ ارتقا یا نظریہ حیات کی تہ میں پوشیدہ ہیں، جدید تحقیقات نے قدیم توہمات کی بنیاد ڈھادی ہے ۔ انسان آدم کی اولاد ہے یاکسی اور کی؟فضول بحثیں ہیں اور ملاوٴں و پنڈتوں کی فتنہ طرازیاں ہیں ۔ تاریخی اور سائنسی حقیقت یہی ہے کہ انسان اورحیوان میں بجز شعور کے کوئی فرق نہیں ہے ، ترقی یافتہ حیوان ہی انسان کہلاتا ہے ۔انسان کی الگ سے کوئی دوسری بنیادنہیں ہے اور جب بات یہ ٹھہری ہے ، تو فطری اعمال کوثابت کرنے کے لیے جانوروں سے بہتر کوئی مثال نہیں دی جاسکتی۔ ہم جنسی کے لیے حیوانوں کو مثال میں پیش کیا جا چکا ہے ، پھرکیا وجہ ہے کہ اجتماعی اور جبریہ ملاقات سسٹم کو ”گینگ ریپ “ اور ”اجتماعی عصمت دری“ کا نام دیا جارہا ہے ۔ کیا یہ مسئلہ بالکل صاف نہیں ہے کہ یہ ذہن معاشرے کا پیدا کردہ ہے ورنہ انسان ایسا شعور لے کر کبھی وجود نہ پایا، کوئی بتلائے تو کہ حیوانوں کی وہ کونسی قسم ہے جس کے یہاں اس انداز کا اجتماعی رویہ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اگر ملتا ہے اور واقعی ملتا ہے تو ہمیں اس عمل کو فطری قرار دینا چاہیے ۔ ترقی یافتہ حیوان ہونے کے ناطے زیادہ سے زیادہ اس کا رخ خوبصورت کیا جاسکتا ہے، یہ” اجتماعی جبر “ فی الواقع ایک نئی سماجی تبدیلی ہے جسے طالبانی فرامین بدل نہیں سکتے۔ اس کا پہلا اور آخری طریقہ ” محفوظ عصمت دری ‘ ‘ پر قانونی بحث سے نکالا جاسکتا ہے۔
سب سے پہلا مقدمہ ٹائی والے ملاوٴں پر چلایا جانا چاہیے جنھوں نے پھانسی کا پر زور مطالبہ دہرایا ہے اور اس مطالبے نے ناجائز طور پر ایک بے گناہ کو پھانسی بھی دے دی ہے ، کیا انڈین نیشنلزم میں پھانسی کی کوئی قانونی اور اخلاقی بنیاد ہے ۔ جان کے بدلے جان سعودی کٹر پنتھ ہے ”زنا“ جو ایک قسم کا فطری رلیشن ہے اس پر بھی ایسے ہی تشدد کا رویہ وہاں موجود ہے۔ ہمارے تعلیم یافتہ حلقے اس برائی کی شروعات یہاں بھی کرنا چاہتے ہیں ۔
پھانسی دینی ہی تھی تو شوٹروں کو ، اجتماعی قتل عام کا تانڈومچانے والوں کودیتے۔ قتل کرکے ترشول و تلوار لہرانے والوں کو پھانسی کی سز ا نہیں اور ایک ایسی چیز کے لیے پھانسی جس کا خرچ ہونا ہی جمہوری اخلاق ہے۔ اگر عصمت دری کے معاملات میں کسی کی جان گئی ہو تو پھانسی قرین قیاس ہے، کسی پرتشدد کیا گیا ہو تو تشدد کے بقدر مجرم کو سزا دنیا انصاف ہوسکتا ہے لیکن نہ جان جائے نہ مال پھر یہ مفت کی پھانسی کیوں ؟
آفت تو یہ کہ وہابی جوتوں کی آواز سوئزر لینڈ میں بھی سنائی دینے لگی ، منی اسکرٹ، اور ہیجان انگیز ٹاپ پر پابندی عائد کردی گئی ، بدبخت پولس کا ترجمان اس کی قوت ناطقہ ہلاک ہوجائے، بولتا ہے اس قسم کے لباس نہ صرف مجرموں کو اکساتے ہیں بلکہ ان کا کام بھی آسان کردیتے ہیں ! ظالم کٹرتو ہے ہی واہیات بھی ہے۔ آخر یہ کام آسان ہونے کا نکتہ جو اسے سوجھا ہے ۔
ہمارے ادیب کہاں گئے۔ کیا منٹو اور عصمت پر صرف سیمینار کریں گے یا ان کے آدرشوں کو جدید تناظر میں پیش بھی کریں گے۔ ہمارے افسانوں کا موضوع صرف طلاق ، تعداد ازواج اور جنت و جہنم ہی رہے گا یا کچھ اور بھی ۔
لوگوں کے لیے سیٹ خالی کرنا ، کسی کو پانی پلادینا، کسی کے سرکا بوجھ اٹھا لینا، کسی کی جان بچانے میں چوٹ کھالینا یا خود جان سے جانا ہمارے اخلاق اور ایثار سے جڑا ہوا ہے۔ ” سیکس ایجوکیشن“بھی ہم دے رہے ہیں لیکن ابھی تک یہ بات ہمارے پروگرام میں داخل نہ ہوئی کہ ”چھیڑ خوانی“ ایک جذباتی اور تاثراتی لگاوٴ ہے، اس کو منفی رخ دینے کے ناطے ہی تشدد کے مراحل جنم لیتے ہیں ، جنس مخالف کو No کے بجائے ”پھر کبھی“ کی تکنیک سمجھائی جائے، بتا یا جائے کہ جنس ایک ضرورت ہے اور حد رجہ اہم ضرورت ہے ، بلکہ ”روٹی“ کے بعد جنس ہی کا درجہ آتا ہے پھر ”جنسی ایثار“ کی تبلیغ کیوں نہیں کی جاتی؟
کہا جاتا ہے کہ تشدد کا شکار ہر عمر کی خواتین ہیں اس پر اگر کوئی کہے اس کاسبب غیر فطری سماجی ماحول ہے ، گندی فلموں کے نفسیاتی اثرات، سیریلس، گانے اور گھٹیا درجہ کے افسانوں کا خلق کردہ اجتماعی ذہن، بے پردگی اور عریانیت کا پیدا کردہ ہیجان ہی اس کا سبب ہے تو فوراً ایسے بیچارے کو کیا القاب ملنے لگ جائیں ۔ لیکن” پھانسی“ کے طلبگاروں کے لیے اب تک تمام صحافی کوئی نام نہیں چن سکے ہیں۔
کیا فکر وخیال کے سوتے خشک ہوگئے ہیں۔ ماہرین قوانین اور انسداد جرائم دستوں کی دماغی قوتوں کو زنگ لگ گیا ہے۔ آخر ایک سیکولر ملک میں کٹرتاکے پودے کیوں کاشت کیے جائیں ۔ ویسے تجربہ کرنا برا نہیں ، تجربہ کرلیجیے جو نوجوان فلمی پیار میں خود کشی کرسکتے ہیں انھیں پھانسی کو کھانسی سمجھنے میں کیا دیر لگے گی بلکہ اگر فلمی صنعت اس کی حوصلہ افزائی کردے تو ذرا سی پھانسی جو باقی ہے وہ بھی نکل جائے ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
اچھا یہ تو بتائیے کہ میڈیکل طالبہ کا فرینڈ کیا کارنامہ انجام دے رہا تھا؟ اس بیچارے کو تو پس منظر سے غائب ہی کردیا گیا جو میڈیا ”گئی عاشق کی جان“/ ” محبت کرے والا بیچارہ جوڑا تباہ“ کی سرخیاں لگاتا ہے اس نے اس بار تو اس طرح کا کوئی عنوان ہی قائم نہ کیا ۔
خیر مجھ سے پوچھئے تو بتاوٴں ! کہ یہ جوڑے جس انداز میں حسین یا غلیظ ( علی اختلاف الاقوال) حرکتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں اوردوران سفر تو خصوصیت کے ساتھ ان کی طبیعت میں پتہ نہیں کونسا رومان گھس جاتا ہے کہ اللہ کی پناہ اگر کوئی جرات مند بگڑا جوان ہو اور لوگوں کا خوف نہ ہو تو چھین لے : ظالم کچھ کرنا ہے تو کہیں اور ورنہ…
پولس کو گالیاں دینے والے اس سوال کا جواب بتائیں گے کہ اگر وہ طالبہ ، جبر کرنے والوں کے ساتھ مرضی سے معاملہ کرتی اور سب کچھ بآسانی گزر جاتا تو یہ لوگ کیا ارشاد فرماتے؟
ایک لڑکی مال میں فلم دیکھ کر ساڑھے نو بجے رات میں اپنے بوائے فرینڈ یعنی عارضی یا جز وقتی شوہر کے ساتھ واپس لوٹتی ہے، اپنی سیٹوں پر انھوں نے اپنے الگ اسٹائل کا اظہار ضرور کیا ہوگا۔ بھلا بتا ئیے کہ کالی رات میں سفید بدن، سرد رات میں جسم کے سرخ انگارے!کون نہیں ہاتھ سینکنا چاہے گا۔ شراب بھی ہے، شباب بھی ہے اور پرکیف ماحول بھی !
میری سنئے تو عورتوں کو بھی چار شادیوں کی اجازت ہو، اس کا مطالبہ زمانے سے ہے۔ اگر تشدد ختم کرکے آپسی رضامندی کا طریقہ اختیار کیا جائے تو بہتر شروعات ہوسکتی ہے۔ آگے چل کر خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو جائے گا ۔
قارئین! بڑے بڑے شہروں میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں ہوجاتی ہیں۔ کسی نے کبھی کہا تھا گجرات میں پیٹ کا بچہ نیزوں پر اچھالاگیا اس سے آسمان تو نہیں ٹوٹ پڑا ۔
میں کہتا ہوں دہلی میں ایک لڑکی کی حادثاتی موت ہوگئی، اس سے انڈیا تو نہیں تھم گیا ۔

###
20 دسمبر 2012 اردو ٹائمز کی ایک خبر ملاحظہ ہو، ایسی دوچار خبریں ہر اخبار کی زینت بنتی ہیں:
شادی کا جھانسہ دے کر دو مہینے تک کرتا رہا عصمت دری
ہوس پورا کرنے کے بعد متاثرہ سے شادی کرنے کے لیے دو لاکھ کا مطالبہ
خبر کے اندر آدمی کو درندہ صفت اور اغوا کار بتلایا گیا ہے ، اب سر پیٹنے کے علاوہ کیاکیجیے، بھلا یہ بھی کوئی اغوا ہے کہ لڑکی بوائے فرینڈ کی محبت میں حاجی ملنگ جاکر مزے اڑارہی ہے ۔ بس شادی سے انکارکر تے ہی درندہ صفت ٹھہرا ۔ اور ماہ دو ماہ کی موج مستی اغوا کہلائی اور جو کارنامہ وہ پورے ذوق سے انجام دیتی رہی وہ عصمت دری ٹھہری ۔
یہ ہے ہماری صحافتی ذہنیت جس سے ہم نکل نہیں سکتے۔
یہ صرف ایک معاہدہ تھا۔ جو ایفاء عہد تک نہیں پہنچا، زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ سودے میں وعدے کی خلاف ورزی ہوئی اس کا عصمت دری سے کیا تعلق ؟ فلمی دنیا نے تو یہ اصول دے ہی دیا ہے کہ جنس پہلے الفت بعد میں تو خطا کسی کی ؟
مظاہرین اس پر بھی پھانسی کا مطالبہ کریں، اگر پھانسی کا مطالبہ واقعی عصمت دری پر مبنی ہے ۔
ایک عصمت دری یہ بھی ہے کہ
پوئی علاقہ میں ملزم اور معمر خاتون کے مابین ناجائز تعلقات ہیں مگر بیٹی کی وجہ سے خاتون ایف آئی آر درج کراتی ہے، اس پر بھی پھانسی کا مطالبہ کیوں نہیں ؟ (اردو ٹائمز ص12/20-12-2012)
روزنامہ انقلاب میں ”ہر ش مندر“ کا ایک مضمون چھپا تھا جس میں خواتین کے ساتھ ناانصافی کا نوحہ کیا گیا تھا ۔ کملا بھیسن کے خیالات اہمیت کے ساتھ بیان میں آئے تھے جو واقعی بڑے فکر انگیزتھے۔ اختلاف اس بات پر ہے کہ ”عصمت دری“ کے خاتمے کے لیے جنسی مساوات اور عدم مساوات کی بحث چھیڑی گئی تھی جبکہ جدید خیالات کے حاملین کبھی عدم مساوات کے قائل نہیں رہے۔ انہی کی سعی مسلسل ہے کہ ”مساوات جنسی“ آج کے مہذب سماج کا تسلیم شدہ نظریہ بن چکا ہے، اس کے باوجود نوحہ کرنے کا مطلب پوری طرح ہضم نہیں ہورہا ہے ۔ البتہ ایک بات ضرور ہے کہ جن لوگوں نے جنسی مساوات اور حیاتیاتی یکسانیت کی گہار لگائی وہ کبھی اپنی گہار میں مخلص نہیں رہے ، اور نہ آئندہ اس طرح کی کوئی امید ہے کیونکہ اس چیخ و پکار کی پہلی اور آخری خصلت منافقت ہے۔ مساوات کی یہ آواز کم ازکم بعد کے ادوار میں صرف تسکین ذات کے لیے اٹھائی گئی اور اسی حیثیت سے اس کا استعمال بھی ہوتا رہا ۔ہمارے روشن خیالوں نے یہ کبھی گوارا نہ کیا کہ عورت لذت نظر اور بوئے دہن کا ٹیکس دیے بغیر آزادانہ سماجی زندگی جی سکے ۔
”کملا“ صاحبہ کا یہ بھی شکوہ ہے کہ مرد خواتین پر تشدد کرتے ہیں “
یہ موجودہ صدی کے بڑے بڑے کذبات میں سے ایک کذب ہے ۔ مرد بھی خواتین پر تشدد کرتے ہیں اور خواتین ہی خواتین پر تشدد کرتی ہیں زیادہ مناسب تعبیرہے۔ تشدد کا بنیادی دائرہ جو کہ گھر ہے وہاں خواتین 95 فیصد تشدد کی ذمہ دار ہیں ۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرد عورتوں کو دبانے کے لیے ”عصمت دری“ سے بھی باز نہیں آتے ۔ اگر شذوذ کو بنیاد بنانا جائز ہو تو الگ بات ہے۔ ورنہ عورتوں کو دبانے کے لیے ”عصمت دری“ ایک نرالا خیال ہے اور کچھ نہیں ۔ اور اگر فی الواقع یہ صحیح ہے تو عصمت سے کھیلنے والے 99 فیصد وہی ہیں جو جنسی مساوات کے قائل ہیں یا پھر اسی قبیلے کے ہیں آخر ایسا کیوں؟
14فروری 2013 کو دنیا بھر میں ایک ارب خواتین اپنے اجتماعی عزم کا اعلان کرنے جارہی ہیں تاکہ دنیا کی آدھی آبادی کے ساتھ ہو رہی نا انصافی ختم کی جائے ۔
ہمیں یہ بتایا جائے کہ یورپ نے عورتوں کو جو موافق مطلب حقوق دیے ہیں کیا اتنے فراخ دلانہ حقوق تاریخ نے اب تک دیے ہیں، اگر نہیں دیے ہیں اور واقعی نہیں دیے ہیں تو ہم پہلے سے کہے دے رہے ہیں کہ اس سے اوپر کسی حق کا وجود نہیں ہے آپ کو ناکامی ہاتھ لگے گی ۔
اگر یورپ کا عطا کردہ نظام خواتین کو جنسی انصاف دینے میں فیل ہے تو ”موجود سسٹم “ کو اس اجتماع میں اپنی ہار کا اعلان کردینا چاہے اور دور و نزدیک کسی اور نظریاتی جزیرے کی تلاش کردینی چاہیے ، دیکھئے کوئی کولمبس ملتا ہے کہ نہیں ۔
”وشوہند سینا “ کا بیا ن ہے کہ زانیوں کو سزا دینے کے لیے اسلامی قانون نافذ کیا جائے“ملا کہ چپ نہ شود ! حضرت مولانا نے تو گویا یہ سمجھ لیا اب انڈیا میں اسلامی حکومت آگئی ہے۔ ہاں ہاں بالکل ! اسلامی قانون سزا ہی اس کا حل ہے۔ اسلام کے ماہرین بھی اتنی غلط بات کرنے لگے ہیں، بھلا اسلامی نظام کے بغیر بیچارہ اسلامی قانون سزا کیا کرسکتا ہے۔ مشاعرے کے ایک شاعر غالباً رفیق شادانی نے کہا تھا:
سعودی میں ہے چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا
ڈھونڈھو تو وہاں ہاتھ کٹا ایک نہ پیہو
قانون یہی ہند میں لاگو اگر ہوئیجائے
دعوی ہے مورا ہاتھ بچا ایک نہ پیہو
آخر کیا اسلامی قانون کوئی جادو کی چھڑی ہے ، جسے گھماتے ہی آن واحد میں مسائل حل ہوجائیں گے۔ نئی تہذیب میں بلا شادی کے زندگی آسان ہے اس کا مطلب ہے یہ سماج زنا کے بغیر زندہ نہیں رہ پائے گا اور نصف آبادی یا کم از کم ایک تہائی آبادی تو ہلاک ہو کر رہ جائے گی ۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ جرائم میں اضافہ کا سبب خواتین پولس اہلکاروں کی کمی ہے ۔ لیکن مرد پولس اہلکاروں کے جنسی تشدد سے خواتین پولس اہلکاروں کو بچانے کی ذمہ داری کون لے گا ۔
ہم نے پھانسی کو کھانسی لکھا تھا کہ سزاوٴں سے قابو پانا حد درجہ مشکل ہے اور 3 جنوری کو خبر لگی کہ دہلی میں پھر اجتماعی عصمت دری ہوئی ہے۔ سال نو کے جشن میں ایسا بھی جشن منالیا گیا ۔ ہم کہیں گے اسے عصمت دری مت کہیے یہ طبعی اور فطری عمل ہے۔ سال نو کے جشن کا رومانوی ماحول اسی چیز کا تقاضا کرتا ہے اور تقاضے بہت شدید ہوتے ہیں۔ میڈیا کے بارے میں (جو آج ٹی آرپی کے چکر میں بڑی متحرک ہے) مبارک کا پڑی کی ایک بات پر بات ختم کرتا ہوں: ”میڈیا کا رویہ یہ تھا کہ اگر پچاس سال کا عرب پندرہ سال کی لڑکی سے نکاح کرتا ہے تو اسے اخبارات صفحہ اول پر چوکھٹے میں جگہ بناتے اور بڑا واویلا مچایا جاتا البتہ اگر کوئی ساٹھ سال کا بوڑھا کسی پانچ سالہ بچی سے منہ کالا کرتا تو وہ نیوز اس اخبار کے صفحہ نمبر18 پر چار سطروں کی صرف ایک کالمی خبر بنتی ۔“
واقعہ یہ ہے کہ میڈیا کے اس طرح کے رویے ہی ذمہ دار ہیں اور ہاں جان، مال، عصمت تین چیزیں اسلام میں یکساں مقام رکھتی ہیں، نوعیت کا تھوڑا سا فرق ہے۔ اگر عصمت واقعی کوئی شئے ہے تو اس کے ساتھ جان لینے والوں کے ساتھ یہ معاملہ کیوں نہیں۔ جدید نظریات کے اعتبار سے تو عصمت بہر صورت جان کے برابر نہیں ہے ، اور اسلامی قانون میں بھی بعض صورتوں کو چھوڑ کر جان اور عصمت کو برابر نہیں رکھاگیا، پھر یہ دوغلاپن کیوں ؟ قتل عام اور قتل کے ملزمین کے لیے اسی سزا کا مطالبہ کیوں نہیں ؟ رہ گئی عصمت کی حقیقت جدید سماج اور نئے نظریات کے تناظر میں تو وہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر معاملہ راضی بہ رضا ہے تو عصمت نہیں جاتی اور جبر ہے تو عصمت چلی جاتی ہے، کتنی غیر سائنٹفک اور غیر منطقی بات ہے جناب
 
Top