• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

”مہاجروں کی تہذیب“ اور جاوید چوہدری

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
جاوید چوہدری نے ”مہاجر کون“ کے عنوان سے ایک کالم لکھا ہے۔ اس کالم میں انہوں نے ”مہاجروں کی شاندار تہذیب“ کا تذکرہ کرتے ہوئے ایم کیو ایم سے وابستہ مہاجروں کی ”حرکات“ کا موازنہ کرتے ہوئے یہ بتلانے کی کوشش کی ہے کہ ایم کیو ایم نے مہاجروں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ کالم کا ”مرکزی خیال“ اپنی جگہ درست سہی لیکن مہاجروں کی تہذیب کے جو ”نمونے“ انہوں نے پیش کئے ہیں، ایک ”مہاجر“ کی حیثیت سے میں ان پر کچھ ”تبصرہ“ کرنا چاہتا ہوں۔ واضح رہے کہ میں ان نام نہاد مہاجروں میں شامل نہیں ہوں، جو پیدا تو پاکستان میں ہوئے لیکن صرف اس وجہ سے ”مہاجر“ کہلاتے ہیں کہ ان کے باپ دادا نے ہجرت کی تھی۔ میں نے خود بھی ہجرت کی تھی اور میرے ماں باپ نے بھی ہجرت کی تھی ۔ آمدم برسر مطلب ع جاوید صاحب کے کالم سے اقتباسات اور ان پر میرے تبصرہ سے قبل ایک اہم ترین بات یہ نوٹ کرنے والی ہے کہ تقسیم ہند کے بعد بھارت سے مسلمانوں نے ایک مسلم ریاست کی جانب اسلامی شناخت کے ساتھ ”ہجرت“ کی تھی۔ لہٰذا اس ہجرت اور ان مہاجروں پر گفتگو کرتے ہوئے اسلام اور اسلامی اقدار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اقتباس: مجھے ابوالحسن نغمی صاحب کی کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا‘ یہ کمال خوبصورت نثر لکھتے ہیں‘ میں ان کے خوشبو دار لفظوں اور دلفریب فقروں کے سحر میں گرفتار ہوں‘ ابوالحسن نغمی اور ان کی اہلیہ یاسمین نغمی نے لکھنؤ کی تہذیب میں پرورش پائی تھی اور لکھنؤ کی تہذیب کیا تھی؟ یہ سمجھنے کے لیے اتنا جاننا کافی ہے‘ ہندوستان کے نواب اپنے بچوں کو شائستگی‘ تہذیب‘ ادب اور فنون لطیفہ سکھانے کے لیے طوائفوں کے پاس بھجوا دیتے تھے‘ گویا لکھنؤ کی طوائفیں بھی تہذیب اور ادب کی یونیورسٹیاں ہوتی تھیں‘۔
(×) جاوید صاحب کو شاید یہ نہیں معلوم کہ لکھنؤ ”شیعہ تہذیب“ کا نمونہ تھا۔ یہاں کے اما باڑوں کی طرح یہاں کے کوٹھے، طوئفیں اور مجرے بھی ضرب المثل ہیں۔ طوائفوں کے گرد اردو ادب میں جتنے بھی ”شاہکار ناول“ لکھے گئے ہیں، یا ان پر اردو میں فلمیں بنائی گئی ہیں، وہ سب کی سب طوائفیں یا تو شیعہ تھیں یا ”شیعہ تہذیب“ کی پروردہ۔ ایک ایسی تہذیب جس میں ”متعہ“ کار ثواب ہے۔ دنیا بھر میں مجرے اور جسم فروشی کرنے والی طوائفوں اور ان کے دلالوں کو یہ بخوبی ”معلوم“ ہوتا ہے کہ وہ ایک غلط کام کررہے ہیں۔ لیکن صرف شیعہ طوائفیں اور ان کے شیعہ دلال ہی وہ ”منفرد لوگ“ ہیں، جو اس گندے دھندے کو ”کار ثواب سمجھ کر کرتے ہیں۔ اسی لئے شیعہ ادیبوں اور شاعروں نے اپنی تحریروں میں ان طوائفوں کو معزز بنا کر پیش کیا ہے۔ اردو ادب کے دیگر قارئین کی طرح جاوید چوہدری بھی انہی تحریروں سے متاثر نظر آتے ہیں۔ انہوں نے جن جن ”مہاجروں“ کے نام لئے ہیں، ذرا ان کے مسلک کا کھوج لگائیں تو آپ کو ”مہاجروں کی تہذیب“ کے پردے میں ”اصل تہذیب“ کا پتہ لگ جائے گا۔
اقتباس: بچے نے توتلی زبان سے کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے ماں کو بچے پر پیار آ گیا‘ اس نے بچے کا منہ چوم لیا‘ مدن دادی تڑپ کر بولیں’’ ہا! بدتمیز تو کیسی بے شرم ہے تو نے میرے سامنے اپنے بچے کا منہ چوم لیا‘‘ شمع خیر آبادی شرم سے پانی پانی ہو گئیں‘ بچے کو گود سے اتارا اور دونوں ہاتھوں سے اپنا منہ چھپا لیا‘ لکھنؤ میں شرم و حیاء کے یہ پیمانے تھے‘ لوگ اپنے بیٹے کا منہ چومنا بھی بے حیائی سمجھتے تھے‘
(×) کیا یہ اسلامی تہذیب ہے؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سر محفل اپنے نواسوں کو نہیں چوما کرتے تھے۔ ساس کے سامنے بہو اپنے بچے کو چوم لے تو یہ ”بد تہذیبی“ ہے ۔ اور اپنے بچوں کو تمیز سکھلانے کوٹھے پر بھیجنا عین (شیعہ) تہذیب ؟
اقتباس: لکھنؤ میں بچے اپنے جوان والد کو ابا نہیں کہتے تھے‘ بھائی جان‘ بھائی صاحب یا بھیا کہتے تھے‘ جوان ماں کو اماں یا امی کہنے کا رواج بھی نہیں تھا‘ ماں جب تک بوڑھی نہیں ہو جاتی تھی وہ باجی‘ آپا یا آپی کہلاتی تھی‘ دولہا شادی کے بعد کئی سال تک اس کمرے‘ دالان حتیٰ کہ اس چھت کے نیچے سے بھی نہیں گزرتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔​
۔ ۔ ۔ ان کا فرمانا تھا‘ ان کی خواب گاہ چھت پر تھی اور یہ ممکن نہیں تھا ان کی دلہن ساس‘ سسر‘ دیور‘ نندوں اور ملازموں کی موجودگی میں آنگن سے گزرکر بالائی منزل پر آ جائے ‘ بیگم گھر کے تمام لوگوں کے سونے کا انتظار کرتی تھی‘ سسرال کے لوگ جب سو جاتے تھے تو بیگم پہلے پیروں کے زیور اتارتی تھی اور پھر دبے پاؤں چوروں کی طرح آہستہ آہستہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آ جاتی تھی‘ ۔
(×) باپ کو بھائی جان اور ماں کو باجی کہنا، کھلا جھوٹ اور رشتوں کے بیان میں دھوکہ دہی نہیں ؟ دلہا اوروں کے سامنے ”شرم“ سے اپنے ہی گھر میں دلہن کے کمرے اور دالان کے قریب سے نہ گذرے لیکن وہی باپ کوٹھے پر طوائف کے پاس اپنی کو لے جاتے ہوئے کوئی شرم و حیا محسوس نہ کرے؟
اقتباس: (اپنی) بچی کو اٹھانا اور پیار کرنا تو دور کی بات تھی مجھے اتنی ہمت نہیں ہوئی میں بزرگوں کی موجودگی میں اپنی بیٹی کی طرف دیکھ بھی سکوں‘ میں نے جب کمرے میں جا کر اپنی بیٹی کو کلیجے سے لگایا تو وہ حیران ہو کر اپنی ماں سے پوچھنے لگی ’’یہ آدمی کون ہے‘‘ نغمی صاحب کا کہنا تھا‘ میں چھ بچوں کا باپ بن گیا لیکن شرم و حیاء کی وجہ سے بچے مجھے ابا نہیں کہتے تھے۔
(×) واؤ کیا ”شرم و حیا“ ہے کہ بچی کو اپنے باپ کے بارے میں علم نہیں کہ یہ ”مردوا“ کون ہے؟ باپ کو باپ کہنا، دنیا کی کس ”تہذیب“ میں بے شرمی کی علامت ہے؟ کیا یہ کسی مسلمان کی تہذیب ہوسکتی ہے؟
اقتباس: یہ ہیں وہ لوگ جو ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان آئے اور مہاجر کہلائے‘ ہمیں ماننا ہو گا یہ لوگ تعلیم‘ شائستگی‘ تہذیب اور تمدن میں ہم سے بہت آگے تھے‘ یہ کھیرا بھی اتنی شائستگی سے کھاتے تھے کہ کھیرا خود کو کھیرا صاحب سمجھنے لگتا تھا‘یہ کتے کو کتاکہنا زبان کی توہین سمجھتے تھے‘ یہ اونچی آواز میں بات کرنے والوں کو گنوار کہتے تھے‘آپ کے لیے شاید یہ انکشاف ہو اردو میں گھٹیا کا مطلب سور کا بچہ ہوتا ہے‘ یہ لوگ اتنے شائستہ تھے کہ یہ سور کے بچے کو بھی سور کا بچہ نہیں کہتے تھے گھٹیا کہتے تھے۔
(×) کیا جاوید چوہدری کو صرف لکھنو کے شیعہ ہی ”مہاجر“ نظر آتے ہیں۔ انہیں دلی کے شرفاء اور بقیہ پورے ہندوستان سے آئے دیگر مسلمانوں کی تہذیب نظر نہیں آتی۔ انہوں نے کبھی حکیم محمد سعید، مولانا مودودی، جیسے ”مہاجروں“ کا ”کلچر“ نظر نہیں آتا جو ”لچر پن“ سے یکسر پاک تھا۔
اقتباس: ڈاکٹر اجمل ۔۔۔ ایک بار جناب افتخار عارف کے ساتھ کسی صاحب زبان کے گھر کھانے کے لیے گئے‘ میزبانوں نے کھانے کا پرتکلف اہتمام کر رکھا تھا‘ خاتون خانہ نے کھانے کے دوران مہمانوں سے تکلفاً پوچھ لیا ’’آپ کو مزید کوئی چیز درکارتو نہیں‘‘ ڈاکٹر صاحب سادہ سے پنجابی ہیں‘ یہ پٹاخ سے بولے ’’آپ کے پاس اچار ہو گا‘‘ یہ سن کر میزبانوں کے رنگ سرخ ہو گئے۔خاتون نے کچن سے اچار تو لا دیا لیکن وہ کھانے کے دوران ڈسٹرب رہی‘ ڈاکٹر اجمل نے واپسی پر افتخار عارف صاحب سے پوچھا ’’یہ لوگ اچار مانگنے پراتنا برا کیوں منا گئے تھے‘‘ افتخار عارف صاحب نے فرمایا ’’بیٹا ہمارے علاقے میں جب مہمان اچار مانگ لے تو اس کا مطلب ہوتا ہے اسے کھانا پسند نہیں آیا‘‘
(×) نامحرم مرد کو کھانا سرو کرتے ہوئے اور ان سے ان کی ”فرمائش“ پوچھتے ہوئے تو خاتون کو کوئی شرم نہیں آئی۔ لیکن جب مہمان نے ”اچار“ مانگ لیا تو شرم سے سرخ ہوگئیں۔ واؤ ۔ شاید انہیں دوران حمل اپنا اچار کھانا یاد آگیا ہوگا۔
اقتباس: یہ صاحب صوبہ بہار کے مہاجر تھے‘ یہ روز دفتر سے آنے کے بعد غسل کرتے تھے‘ سفید استری شدہ پائجامہ اور کرتہ پہنتے تھے‘ خوشبو لگاتے تھے اور اپنی بیٹھک میں بیٹھ جاتے تھے‘ محلے کے کسی شخص نے انھیں کبھی رف حالت میں نہیں دیکھا‘ میں نے ان کے سامنے غلطی سے رانا شہزاد کو اوئے کہہ دیا‘ ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا‘ ماتھے پر پسینہ آگیا اور غصے سے ان کے ہاتھ کانپنے لگے‘ میں ڈر گیا‘ وہ دیر تک خاموش بیٹھے رہے۔
(×) اوئے کہنا کہیں اور ”معیوب“ ہو تو سکتا ہے، لیکن پنجاب میں ایسا کہنا ایک معمول اور بے تکلفی کی علامت ہے۔ پنجاب میں رہتے ہوئے اس لفظ پر اس طرح کا ”اوور ریکٹ“ کرنا اوور ایکٹنگ تو ہوسکتا ہے، شرافت و تہذیب ہرگز نہیں۔
اقتباس: شکیل عادل زادہ صاحب بھی مہاجر ہیں‘ یہ میرے بزرگ‘ مہربان اور استاد ہیں‘ پاکستان میں اس وقت ان سے بڑا اردو دان کوئی نہیں‘ گلزار صاحب جیسا شخص بھی ان کے قدموں میں بیٹھتا ہے‘ میں ان کی شائستگی دیکھ کر اکثر محسوس کرتا ہوں یہ اگر کبھی گالی دیں گے تو گالی کو بھی اپنے اوپر فخر محسوس ہونے لگے گا‘ یہ کراچی میں رہائش پذیر ہیں‘ یہ زندگی بھر ’’سب رنگ‘‘ کے نام سے ملک کا مقبول ترین ڈائجسٹ شایع کرتے رہے‘ میں نے آج تک ان کے منہ سے کوئی ناشائستہ لفظ نہیں سنا‘ غیبت تو دور یہ کسی کے خلاف ایک لفظ تک نہیں بولتے‘ یہ بھی ہجرت کر کے پاکستان تشریف لائے تھے اور انھوں نے پوری زندگی شائستگی کی تعلیم و تربیت میں گزار دی‘
(×) شکیل عادل زادہ بلاشبہ ایک بہت بڑے اردو دان ہیں۔ لیکن ان کے ”سب رنگ“ میں سارے ”رنگ“ ہوا کرتے تھے۔ تہذیب کے رنگ بھی اور بد تہذیبی کے رنگ بھی کہ اس ڈائجسٹ میں چھپنے والے اعلیٰ ادبی شاہکاروں میں ”کوٹھے کی تہذیب“ بھی شامل ہوا کرتی تھی۔
اقتباس: میں دل سے یہ سمجھتا ہوں شکیل عادل زادہ‘ ابوالحسن نغمی اور افتخار عارف جیسے لوگوں نے پاکستان بنانے اور چلانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور یہ لوگ جب تک ہماری سول سروس میں شامل رہے یہ ملک اس وقت تک ترقی کرتا رہا لیکن جب مقامی لوگوں نے ان کی جگہ لی تو ملک تباہ ہو گیا اور ہمارے ادارے ڈھلوان پر لڑھکنے لگے۔
(×) کیا انہی ”مہاجروں“ نے پاکستان میں ”ادب میں بے ادبی“ والی کتابیں اور رسالے نہیں شائع کئے۔ کیا انہی کے لکھے ہوئے ٹی وی ڈراموں اور فلموں نے پاکستان میں اخلاقیات کا جنازہ نہیں نکالا؟
اقتباس: یہ تہذیب اور شائستگی کے پیکر اگر مہاجر ہیں تو پھر الطاف حسین کون ہے؟ یہ کن لوگوں کا لیڈر ہے؟ یہ کس کمیونٹی کو مہاجرکمیونٹی اور کن مہاجروں کو پاکستان بنانے والوں کی اولاد کہتا ہے؟ اگر شکیل عادل زادہ‘ ابوالحسن نغمی اور افتخار عارف مہاجر ہیں تو پھر الطاف حسین کے ٹنڈے‘ کالے‘ مادھوری‘پگلا‘عرفی‘بھورا‘ملا‘ سلو‘ کاکا‘ٹوپی‘ چھوٹا‘ کانا‘ پپن‘ درندہ ‘ ناک چھپٹا‘ ڈینٹر اورچنا مولوی کون ہیں اور اگر اوئے کا لفظ سن کر اور اچار مانگنے پر سرخ ہو جانے والے لوگ مہاجر ہیں تو پھر مخالفوں کے لیے بوری کا ماپ لینے اور ’’ٹھوک دیں گے‘‘ جیسی دھمکیاں دینے والے لوگ کون ہیں‘ میرا دل تو نہیں مانتا قائداعظم کے شہر میں پاکستان مردہ باد کے نعرے لگانے والے لوگ مہاجر ہو سکتے ہیں۔
(×) الطاف حسین کون ہے؟ جب موصوف لندن سیکریٹریٹ کی یاترا سے واپس آئے تھے تو انہوں نے الطاف حسین کو پاکستان کے تمام لیڈروں سے زیادہ باصلاحیت، منظم اور باخبر لیڈر قرار دیا تھا۔ الطاف حسین اپنی والدہ اور نانا کا تذکرہ تو بار بار کرتے ہیں، لیکن جاوید چوہدری نے بھی اس ملاقات میں اُن سے اُن کے والد گرامی کے بارے میں کیوں نہیں پوچھا کہ وہ کہاں کے مہاجر تھے؟
واضح رہے کہ مبینہ مہاجروں کے مبینہ حقوق کے لئے الطاف حسین کی سربراہی میں ایم کیو ایم کی تشکیل ایک پنجابی آرمی چیف جنرل ضیاء الحق کی ہدایت پر ایک سندھی نیشنلسٹ وزیر اعلیٰ غوث علی شاہ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ کیا خوب لطیفہ ہے کہ ایک پنجابی صدر اور ایک سندھی وزیر اعلیٰ مل کر مہاجروں کے حقوق کی جدو جہد کے لئے تنظیم بنوائے۔ اور یہی تنظیم انہی دونوں کی حکمرانی کے دور میں پنجابی، پٹھان اور سندھیوں کے خون سے ہاتھ رنگے۔ نوٹ: اس آخری پیراگراف معترضہ کا جاوید چوہدری کے کالم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جاوید چوہدری نے ”مہاجر کون“ کے عنوان سے ایک کالم لکھا ہے۔ اس کالم میں انہوں نے ”مہاجروں کی شاندار تہذیب“ کا تذکرہ کرتے ہوئے ایم کیو ایم سے وابستہ مہاجروں کی ”حرکات“ کا موازنہ کرتے ہوئے یہ بتلانے کی کوشش کی ہے کہ ایم کیو ایم نے مہاجروں کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔ کالم کا ”مرکزی خیال“ اپنی جگہ درست سہی لیکن مہاجروں کی تہذیب کے جو ”نمونے“ انہوں نے پیش کئے ہیں، ایک ”مہاجر“ کی حیثیت سے میں ان پر کچھ ”تبصرہ“ کرنا چاہتا ہوں
ماشاءاللہ ، بہترین تبصرہ ، لیکن تمام تبصرے ، تردید نہیں ، کچھ اس میں توضیح کے قبیل سے بھی ہیں ۔
رہے جاوید چوہدری صاحب ، تو ان کا کوئی دین ، مذہب ، مسلک ، موقف ، رائے نہیں ، ان کے ہر کالم کو ایک ’ مستقل رائے ‘ سمجھنا چاہیے ، جس کا ما قبل و ما بعد سے کوئی تعلق نہیں ۔
 
Top