• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

★ روزہ رکھنےکی اصل نیت کیاہے؟ حقیقت ضرور دیکھیۓاور فیصلہ خودکریں

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
لیکن جب بدعت کی تعریف پر پوری نہیں اتر رہی تب بھی اسے بدعت کہنا صرف اس لیے کہ ہم نے اپنے عالم سے اسے بدعت سنا ہے چہ معنی دارد؟
مفتیوں کا مجھے علم نہیں لیکن اس باب میں عوامی طرز عمل بدعت ہی کے زمرے میں آتا ہے اور وہ دعاے افطار ہی کی مانند ’’دعاے نیت‘‘ کرتےہیں؛فافھم ولاتکن من المجادلین۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
مفتیوں کا مجھے علم نہیں لیکن اس باب میں عوامی طرز عمل بدعت ہی کے زمرے میں آتا ہے اور وہ دعاے افطار ہی کی مانند ’’دعاے نیت‘‘ کرتےہیں؛فافھم ولاتکن من المجادلین۔
بھائی تو یہی میں کہہ رہا ہوں کہ اگر اس طرح کرتے ہیں تو بدعت ہے اور اگر نہیں کرتے تو بدعت نہیں ہے۔ میں نے بہت ساروں کو نہیں کرتے ہوئے دیکھا ہے تو وہ بدعت نہیں کرتے اور جو کرتے ہیں وہ بدعت کرتے ہیں۔ (یعنی لازم سمجھتے ہیں)۔
اب پورا تھریڈ پڑھ کر دیکھیے کہ جدال کس نے کیا ہے؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میرا سوال یہ ہے کہ جمعہ کی سنتوں کی نیت کیا ہوگی؟ نیت میں جمعہ کہا جائے گا یا وقت ظہر ؟

جمعہ کی سنتوں کی نیت میں جمعہ کہا جائے گا، مثلاً اس طرح کہ نیت کرتا ہوں میں جمعہ کی چار رکعت سنتوں کی․․

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=22188

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عرض یہ ہے کہ نماز میں جب کھڑے ہوتے ہیں تو کیا زبان سے نیت کرنا ضروری ہے؟ یا وضو کرکے آنے کے بعد اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیں؟ سنت، نفل، واجب، صلوة تسبیح، صلوة توبہ وغیرہ نمازوں کا کیا طریقہ ہے؟ نیت باندھنا یا دل میں جو نیت کرتے ہیں وہی کافی ہے؟

Dec 23,2008
Answer: 9591
فتوی: 2295=2090/ د


نیت نام ہے دل سے ارادہ کرنے کا، نماز شروع کرتے وقت یہ ارادہ ہوگیا کہ ہم نماز پڑھ رہے ہیں اورظہر کی فرض پڑھ رہے ہیں، بس اس قدر ارادہ کافی ہے، اسی کا نام نیت ہے۔ لیکن انسان کا دل مختلف چیزوں میں مشغول رہتا ہے اس لیے دل سے ارادہ کرنے کے وقت زبان سے کہہ لینا بھی بہتر ہے جس سے یہ یقین ہوجائے کہ دل نماز کا ارادہ کررہا ہے، بے خیال میں یونہی نیت نہ باندھ لے کہ اس سے نماز صحیح نہ ہوگی۔

(۲) جو نماز پڑھ رہے ہیں سنت، نفل، فرض، اسی نماز کی نیت دل میں کرکے زبان سے بھی کہہ لیں، اس قدر کافی ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=9591
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کیا دل سے روزہ کی نیت کرنا ضروری ہے، صرف سحری کھانا نیت کے لیے کافی نہیں ہے؟

Sep 07,2009
Answer: 16043
فتوی: 1694=1386/1430/د


سحری کس نیت سے کھائیں گے ظاہر ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت سے کھائیں گے تو اس قدر نیت ہوجانا کافی ہے، البتہ زبان سے کہہ لیں تو بہتر ہے: قال فی المراقي علی نور الإیضاح وحقیقة النیة مقصدہ عازمًا بقلبہ صوم غد ولا یخلو مسلم عن ھذا في لیالي شہر رمضان إلا ما ندر ولیس النطق باللسان شرطًا قال الطحطاوي وقالوا التسحر في رمضان نیةٌ (طحطاوی علی المراقي: ۶۴۲)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=16043


@اشماریہ بھائی البتہ زبان سے کہہ لیں تو بہتر ہے کیا کہے گے آپ یہاں
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
میرے ایک غیر مقلد دوست نے دو سوالات کیئے ہیں۔ (۱) اذان کے بعد کی دعا جو حنفی لوگ پڑھتے ہیں وہ حدیث سے ثابت نہیں ہے؟ (۲) زبان سے (نماز اور روزہ کے لیے) نیت کرنے کو حنفی حضرات کیوں بہتر (مستحب) بتاتے ہیں ؟جب کہ حدیث سے زبان کی نیت ثابت نہیں ہے، کیا یہ حنفیوں کا عمل سنت کے خلاف نہیں ہے؟ براہ کرم، دونوں کا سوالوں کا جواب دیں اور حدیث و بزرگان دین کی کتابوں کا حوالہ دیں۔
Jul 22,2010
Answer: 23195
فتوی(ل):1023=756-7/1431


(۱) اذان کے بعد کون سی دعا حنفی لوگ پڑھتے ہیں جو حدیث سے ثابت نہیں؟

(۲) یہ بات صحیح ہے کہ نیت کرنا دل کے ارادہ کا نام ہے اور دل سے نیت کرلینا ادائے نماز کے لیے کافی ہے، البتہ لوگوں کے قلوب پر عامة افکار کا ہجوم رہتا ہے اور پوری یکسوئی کے ساتھ قلب کو حاضر نہیں کرپاتے اس لیے زبان سے الفاظ ادا کرائے جاتے ہیں، تاکہ حضور قلب میں جس قدر کمی ہو وہ الفاظ کے ذریعے سے پوری ہوجائے، اگر کوئی شخص احضار قلب پر قادر نہ ہو تو اس کے لیے الفاظ کا ادا کرلینا بھی کافی ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ: ۹/۲۱۳ ملخصاً ط میرٹھ) بالعموم زبان سے نیت کرتے وقت دل بھی اس کے تابع ہوجاتا ہے اس لیے اس کو بدعت کہنا بھی صحیح نہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=23195

1 - عرباض بن ساريہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث جس ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم نئے نئے كام ايجاد كرنے سے بچو؛ كيونكہ ہر نيا كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 4067 ).

2 - جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث جس ميں ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اپنے خطبہ ميں يہ فرمايا كرتے تھے:

" يقينا سب سے زيادہ سچى بات كتاب اللہ ہے، اور سب سے احسن اور بہتر طريقہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم كا ہے، اور سب سے برے امور اس كے نئے ايجاد كردہ ہيں، اور ہر نيا ايجاد كردہ كام بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہى ہے، اور ہر گمراہى آگ ميں ہے "

ان الفاظ كے ساتھ اسے نسائى نے سنن نسائى ( 3 / 188 ) ميں روايت كيا ہے.

جب ان دونوں حديثوں سے يہ واضح ہو گيا كہ بدعت دين ميں نيا كام ايجاد كرنا ہے، جو اس بات كى دعوت ديتا ہے كہ احداث يعنى نيا كام ايجاد كرنے كا معنى سنت مطہرہ ميں ديكھا جائے، اور يہ احاديث ميں وارد بھى ہے:

3 - عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث جس ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى ہمارے اس امر ( دين ) ميں كوئى نئى چيز ايجاد كى جو اس ميں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2697 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).

4 - اور ايك روايت ميں يہ الفاظ ہيں:

" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا امر نہيں تو وہ مردود ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).

ان چار احاديث پر جب غور كيا جائے تو ہميں معلوم ہو گا كہ يہ احاديث بدعت كى تعريف اور شريعت كى نظر ميں بدعت كى حقيقت بيان كرتى ہيں، اس ليے شرعى بدعت تين قيود كے ساتھ مخصوص ہے، اس وقت تك كوئى چيز بدعت نہيں ہو سكتى جب تك يہ تين شروط يا قيود اس ميں پائى نہ جائيں، اور وہ درج ذيل ہيں:

1 - الاحداث: يعنى نيا كام ايجاد كرنا.

2 - يہ احداث يعنى ايجاد كردہ كام كسى شرعى دليل سے ثابت نہ ہو، خاص يا عام وجہ سے.

3 - يہ احداث اور نيا كام دين ميں اضافہ كر ليا جائے.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
کیا دل سے روزہ کی نیت کرنا ضروری ہے، صرف سحری کھانا نیت کے لیے کافی نہیں ہے؟

Sep 07,2009
Answer: 16043
فتوی: 1694=1386/1430/د


سحری کس نیت سے کھائیں گے ظاہر ہے کہ روزہ رکھنے کی نیت سے کھائیں گے تو اس قدر نیت ہوجانا کافی ہے، البتہ زبان سے کہہ لیں تو بہتر ہے: قال فی المراقي علی نور الإیضاح وحقیقة النیة مقصدہ عازمًا بقلبہ صوم غد ولا یخلو مسلم عن ھذا في لیالي شہر رمضان إلا ما ندر ولیس النطق باللسان شرطًا قال الطحطاوي وقالوا التسحر في رمضان نیةٌ (طحطاوی علی المراقي: ۶۴۲)

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=16043


@اشماریہ بھائی البتہ زبان سے کہہ لیں تو بہتر ہے کیا کہے گے آپ یہاں
بھائی جان پہلے بھی عرض کیا ہے کہ اوپر فتاوی کبری کا حوالہ پڑھ لیں۔ ابن تیمیہؒ کے مطابق علماء کرام کی دونوں رائے ہیں۔ یہ دوسری رائے رکھتے ہیں۔
کیا آپ پوسٹ پڑھتے نہیں ہیں؟
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
بھائی جان پہلے بھی عرض کیا ہے کہ اوپر فتاوی کبری کا حوالہ پڑھ لیں۔ ابن تیمیہؒ کے مطابق علماء کرام کی دونوں رائے ہیں۔ یہ دوسری رائے رکھتے ہیں۔
کیا آپ پوسٹ پڑھتے نہیں ہیں؟
میرے بھائی آپ نے شاید پورا نہیں پڑھا اب پڑھ لے


شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا نماز وغيرہ دوسرى عبادات شروع كرنا زبان سے نيت كى محتاج ہيں، مثلا كوئى كہے: ميں نے نماز كى نيت كى، اور ميں نے روزے ركھنے كى نيت كى ؟

شيخ الاسلام كا جواب تھا:


الحمد للہ:

طہارت يعنى غسل يا وضوء يا تيمم اور نماز روزہ اور زكاۃ اور كفارات وغيرہ دوسرى عبادات ميں بالاتفاق انسان زبان سے نيت كرنے كا محتاج نہيں، بلكہ نيت دل سے ہوتى ہے اس پر سب آئمہ كا اتفاق ہے، اس ليے اگر اس نے اپنى زبان سے دل كے مخالف الفاظ نكالے تو اعتبار دل كا ہو گا نہ كہ جو اس نے زبان سے الفاظ نكالے ہيں.

اس ميں كسى نے بھى اختلاف نہيں كيا، ليكن متاخرين اصحاب شافعى رحمہ اللہ نے اس ميں ايك وجہ سے اسے كو غلط قرار ديا ہے، علماء كرام كا اس ميں تنازع ہے كہ آيا نيت كے الفاظ زبان سے ادا كرنے مستحب ہيں يا نہيں ؟

اس ميں دو قول پائے جاتے ہيں:


پہلا قول:

اصحاب ابو حنيفہ اور شافعى اور احمد زبان سے نيت كے الفاظ ادا كرنے كو مستحب كہتے ہيں كيونكہ يہ زيادہ تاكيدى ہے.

دوسرا قول:

اصحاب مالك اور احمد وغيرہ كہتے ہيں زبان سے نيت كے الفاظ ادا كرنےمستحب نہيں؛ كيونكہ يہ بدعت ہے اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كا ثبوت نہيں ملتا، اور نہ ہى صحابہ كرام سے ايسا كرنا منقول ہے، اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت ميں سے كسى كو زبان سے نيت كے الفاظ ادا كرنے كا حكم ديا ہے، اور نہ كسى مسلمان كو اس كى تعليم دى.

اگر يہ مشروع ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس ميں سستى نہ كرتے، اور نہ ہى صحابہ كرام اس ميں اہمال سے كام ليتے، باوجود اس كے كہ امت كو اس كى ہر روز صبح و شام ضرورت تھى.

يہ دوسرا قول زيادہ صحيح ہے، بلكہ زبان سے نيت كى ادائيگى تو عقلى اور دينى دونوں طرح سے نقص معلوم ہوتا ہے دينى نقص اس ليے كہ يہ بدعت ہے، اور عقلى نقص اس طرح كہ يہ بالكل كھانے كھانے كى جگہ ہے جيسے كوئى كھانا چاہے تو كہے: ميں برتن ميں ہاتھ ڈالنے اور اس سے لقمہ لينے كى نيت كرتا ہوں اور وہ لقمہ اپنے منہ ميں ڈال كر چباؤنگا، پھر اسے نگل لونگا تا كہ پيٹ بھر سكوں، اگر كوئى ايسا كرے تو يہ حماقت اور جہالت ہے.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
روزے کی نیت کے حوالے سے حضرات حنفیہ نے جو الفاظ بنا رکھے ہیں ’’ وبصوم غد نویت من شہر رمضان ‘‘ ایک عرصے تک میں بھی انہیں لسانی قواعد و ضوابط کی رو سے غلط سمجھتا رہا ہوں ۔ اور بہت زیادہ تعجب بھی ہوتا تھا کہ اتنے بڑے بڑے علماء عربی کی ایک سادہ سی عبارت میں غلطی کر گئے اور پھر بعد والوں نے من و عن اس کو تسلیم کرلیا ۔
بہت سارے لوگوں کا ابھی تک یہی خیال ہے کہ یہ سب ایسا ہی ہوا ہے لیکن میرے خیال میں بات ایسے نہیں ہے ۔
کیونکہ نیت کے یہ الفاظ صبح سحری کے وقت نہیں کہے جاتے بلکہ رات سونے سے پہلے یا شام کے وقت افطاری کی دعا کے ساتھ کہے جانے کےلیے بنائے گئے ہیں ۔
حاشیۃ الشلبی کا ایک اقتباس ہے :
(فائدة) قال في الدراية في آخر باب الاعتكاف ومن السنة أن يقول عند الإفطار اللهم لك صمت وبك آمنت وعليك توكلت وعلى رزقك أفطرت وصوم الغد من شهر رمضان نويت فاغفر لي ما قدمت وما أخرت اهـ(حاشیۃ الشلبی مع تبیین الحقائق ج 1 ص 342)
مجمع الأبہر اور حاشیۃ الطحطحاوی میں بھی یہ الفاظ موجود ہیں ۔
حقیقت حال احناف بہتر جانتے ہیں لیکن اگر بات ایسے ہی ہے تو اس لحاظ سے یہ الفاظ عربی زبان کے قواعد کے مطابق درست ہیں ۔یہ الگ بات ہےکہ سنت سے عدم ثبوت کی وجہ سے مردود ہیں ۔
اشماریہ صاحب نے جو جواب دیا میرے خیال میں وہ کافی بعید ہے ۔ اور اس پر محترم راجا صاحب نے جو اعتراض فرمایا بالکل بجا ہے ۔ کہ یہ کیسا روزہ ہے کہ سحری کے لیے تو شروع ہو چکا ہے لیکن نیت کے اعتبار سے فجر کے بعد شروع ہوگا ۔
خیر بہتر ہوگا کہ @اشماریہ صاحب اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہار علماء احناف کے فرمودات کی روشنی میں فرمائیں ۔
باقی نیت دل کا فعل ہے ظاہر ہے وہ دل سے ہی ادا ہوگا ۔ زبان سے ادا ہونے والے فعل کو ’’ قول ‘‘ وغیرہ کہتے ہیں ’’ نیت ‘‘ نہیں کہتے ۔ فورم کے ایک فاضل رکن نے کسی جگہ خوب فرمایا ہےکہ جس طرح کان کے علاوہ کسی اور عضو کے فعل کو ’’ سننا ‘‘ نہیں کہہ سکتے ، آنکھ کے علاوہ کسی اور عضو کے فعل کو ’’ دیکھنا ‘‘ نہیں کہہ سکتے تو پھر نیت جو دل کا فعل ہے وہ کسی اور عضو سے کیا جائے تو اسے نیت کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے ؟
آج آپ کی پوسٹ دیکھی۔
محترم بھائی! میں نے عرض کیا ہے کہ عربی لفظ "غد" کا اطلاق طلوع صبح کے بعد سے ہوتا ہے۔ اس پر ایک حوالہ بھی دیا ہے۔
اگر آپ کو اس سے اتفاق نہیں ہے تو کوئی حوالہ، کوئی دلیل دیجیے۔
میں خود تو یہ نیت کرتا نہیں ہوں کہ اپنے فعل کے لیے تاویل کروں گا۔


میرے بھائی آپ نے شاید پورا نہیں پڑھا اب پڑھ لے


شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

كيا نماز وغيرہ دوسرى عبادات شروع كرنا زبان سے نيت كى محتاج ہيں، مثلا كوئى كہے: ميں نے نماز كى نيت كى، اور ميں نے روزے ركھنے كى نيت كى ؟

شيخ الاسلام كا جواب تھا:


الحمد للہ:

طہارت يعنى غسل يا وضوء يا تيمم اور نماز روزہ اور زكاۃ اور كفارات وغيرہ دوسرى عبادات ميں بالاتفاق انسان زبان سے نيت كرنے كا محتاج نہيں، بلكہ نيت دل سے ہوتى ہے اس پر سب آئمہ كا اتفاق ہے، اس ليے اگر اس نے اپنى زبان سے دل كے مخالف الفاظ نكالے تو اعتبار دل كا ہو گا نہ كہ جو اس نے زبان سے الفاظ نكالے ہيں.

اس ميں كسى نے بھى اختلاف نہيں كيا، ليكن متاخرين اصحاب شافعى رحمہ اللہ نے اس ميں ايك وجہ سے اسے كو غلط قرار ديا ہے، علماء كرام كا اس ميں تنازع ہے كہ آيا نيت كے الفاظ زبان سے ادا كرنے مستحب ہيں يا نہيں ؟

اس ميں دو قول پائے جاتے ہيں:


پہلا قول:

اصحاب ابو حنيفہ اور شافعى اور احمد زبان سے نيت كے الفاظ ادا كرنے كو مستحب كہتے ہيں كيونكہ يہ زيادہ تاكيدى ہے.

دوسرا قول:

اصحاب مالك اور احمد وغيرہ كہتے ہيں زبان سے نيت كے الفاظ ادا كرنےمستحب نہيں؛ كيونكہ يہ بدعت ہے اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے اس كا ثبوت نہيں ملتا، اور نہ ہى صحابہ كرام سے ايسا كرنا منقول ہے، اور نہ ہى نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى امت ميں سے كسى كو زبان سے نيت كے الفاظ ادا كرنے كا حكم ديا ہے، اور نہ كسى مسلمان كو اس كى تعليم دى.

اگر يہ مشروع ہوتا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اس ميں سستى نہ كرتے، اور نہ ہى صحابہ كرام اس ميں اہمال سے كام ليتے، باوجود اس كے كہ امت كو اس كى ہر روز صبح و شام ضرورت تھى.

يہ دوسرا قول زيادہ صحيح ہے، بلكہ زبان سے نيت كى ادائيگى تو عقلى اور دينى دونوں طرح سے نقص معلوم ہوتا ہے دينى نقص اس ليے كہ يہ بدعت ہے، اور عقلى نقص اس طرح كہ يہ بالكل كھانے كھانے كى جگہ ہے جيسے كوئى كھانا چاہے تو كہے: ميں برتن ميں ہاتھ ڈالنے اور اس سے لقمہ لينے كى نيت كرتا ہوں اور وہ لقمہ اپنے منہ ميں ڈال كر چباؤنگا، پھر اسے نگل لونگا تا كہ پيٹ بھر سكوں، اگر كوئى ايسا كرے تو يہ حماقت اور جہالت ہے.
آپ نے ابن تیمیہؒ کی رائے ہائیلائٹ کی ہے۔ میں اگر اس کے مقابلے میں دوسرے علماء کی رائے نقل کر دوں تو کیا وہ ابن تیمیہ پر حجت ہوگی؟ آخر یہ کون سا قانون ہے کہ ابن تیمیہ کی رائے تو ان پر حجت ہو اور ان کی رائے حجت نہ ہو۔

ایسے مقام پر تنگ آ کر میں مجبورا یہ کہتا ہوں کہ مجھ سے دلیل کی زبان میں بات کیجیے۔ میں نے بدعت کی تعریف کی ہے اور غد کا اطلاق بھی بتایا ہے۔ ثابت کیجیے کہ یہ اس کے خلاف ہے۔

اور بدعت کی تعریف کا اس پر انطباق ہو رہا ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
آج آپ کی پوسٹ دیکھی۔
محترم بھائی! میں نے عرض کیا ہے کہ عربی لفظ "غد" کا اطلاق طلوع صبح کے بعد سے ہوتا ہے۔ اس پر ایک حوالہ بھی دیا ہے۔
اگر آپ کو اس سے اتفاق نہیں ہے تو کوئی حوالہ، کوئی دلیل دیجیے۔
میں خود تو یہ نیت کرتا نہیں ہوں کہ اپنے فعل کے لیے تاویل کروں گا۔
حنفی اکابرین نے اس سلسلہ میں جو لکھا ہے وہ نقل فرمادیں ۔ کیونکہ میری معلومات کے مطابق احناف کے نزدیک یہ الفاظ افطاری کی دعا ساتھ ادا کیے جائیں گے جیساکہ اوپر حوالہ بھی نقل کیا گیا ہے ۔
رہی بات حوالے کی ۔ تو بہتر ہے کہ آپ کسی قابل اعتبار مصدر کا حوالہ نقل کریں ۔ الفقہ علی المذاہب الأربعۃ کا حوالہ بطور تمثیل کو پیش کیا جاسکتا ہے بطور دلیل نا کافی ہے ۔
اور بہتر ہوگا کہ ’’ انت طالق غدا ‘‘ کی بجائے اگر ’’ بصوم غد ۔۔ ‘‘ کے حوالے سے کسی نے یہ تأویل کی ہو تو پیش کردیں ۔
 
Top