• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ﮐﯿﺎ ﮐﺴﯽ ﻓﻘﮩﯽ ﻣﺬﮨﺐ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎﻧﺎ ﻻﺯﻣﯽ ﮨﮯ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
دین ایک ہی چیز ہے اللہ تبارک و تعالیٰ کی اطاعت۔ اختلاف کی صورت میں اس مین کسی ایک ہی کی فہم کو معتبر رکھنا ہوگا وگرنہ وہ نفس کا بندہ بن جائے گا۔
پیارے بھائی جان بہت معذرت کے ساتھ اگر آپ غیر مقلد پہ نفس کا بندہ بننے کا الزام لگائیں گے تو پھر شیشے کے گھر میں کھڑے ہو کر مارے جانے والے پتھروں کی طرح ہی ہوں گے کیونکہ نفس کا بندہ بنتے تو ہمیں تقلید کرنے والے بھی نظر آتے ہیں جب ہمارے علماء کے پاس روزانہ سیکڑوں اکٹھی تین طلاقیں دینے والے آتے ہیں
پس بھائی جان یہ یاد رکھیں کہ کسی کے بارے نفس کا بندے بننے کا بلاوجہ گمان کرنا درست نہیں اس طرح تو لوگ اگر فقہاء کے بارے گمان کرنے لگیں کہ وہ بھی نفس کا بندہ بننے کی وجہ سے رائے سے فیصلہ دیتے تھے جنکو اہل الرائے کہا جاتا ہے تو اس پہ آپ کیا صفائی پیش کریں گے جو صفائی آپ پیش کریں گے کیا وہ غیر مقلد نہیں پیش کر سکتا
پس نفس کا بندہ بننے سے رکنے کے لئے تقلید لازمی نہیں بلکہ نیت لازمی ہے جس کی نماز پڑھنے کی نیت ہی نہیں اسکو مقلد بنانے کی کیا ضڑورت ہے وہ ویسے ہی نفس کا بندہ بن کر نماز نہیں پڑھے گا

ہاں البتہ کوئی کسی خاص شعبہ مین ماہر ہے اور دوسرا کسی دوسرے شعبہ میں تو جو جس شعبہ مین ماہر ہے تو اس فیلڈ میں صرف اسی کی بات مانی جائے گی دوسرون کی لفاظیوں پر نہیں جایا جائے گا (اگر کو جائے گا تو اپنا ہی نقصان کرے گا دوسروں کا کیا جائے گا)۔
یہاں دو باتیں ہیں
1-ہمیشہ ہر معاملے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے ہی درست ہو گی
2-بعض معاملوں میں ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے درست ہوتی ہے اور بعض معاملوں میں ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے غلط ہوتی ہے
پس اگر آپ کے نزدیک پہلا نمبر درست ہے تو بتائیں (جو یقینا نہیں ہے کوئی حنفی اسکا دعوی نہیں کرے گا)
اور اگر دوسرا نمبر درست ہے تو پھر ثابت ہوا کہ ایک ماہر کی ایک بات درست اور دوسری غلط بھی ہو سکتی ہے

یہ بعین اسی طرح ہے کہ علاج کے لئے طبیب کے پاس جائین گے پٹواری کے پاس نہیں۔
جی بھائی جان میں نے تو طبیب کے پاس ہی جانے کا کہا ہے پٹواری کے پاس نہیں البتہ یہ کہا ہے کہ ایک طبیب کو فکس کوئی بھی نہیں کرتا بلکہ اپنے مشاہدے اور تجربے (چاہے وہ کمزور ہی کیوں نہ ہو) اور مختلف طبیبوں میں بہتر کا چناو کرتا ہے کہ جسکی درست معلوم ہوتی ہو
ویسے یاد رکھیں کہ کوشش کریں یہ طبیب اور پٹواری والی مثال نہ دیا کریں کیونکہ
1-ایک تو پی ٹی آئی کا ٹھپہ نظر آتا ہے (ابتسامہ)
2-دوسرا کوئی آگے سے یہ کہ دے کہ جی ہم پٹواری کے پاس نہیں جاتے بلکہ طبیب کو تبدیل کرتے ہیں کیونکہ آپکا (اہل الرائے کا) طبیب دیسی دوائیاں (رائے) شروع کر دیتا ہے اور دوسرا ڈاکٹر درست دوائیاں (احادیث) دیتا ہے تو ہم ایک طبیب کو چھوڑ کر پٹواری کے پیچھے جانےکی بجائے مستند ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں (صرف الزامی جواب ہے حقیقی نہیں)
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
bbb.jpg

چلیں بھائی جان میں نے بات تو کسی اور لحاظ سے کی تھی لیکن اگر آپ آپ وکیل کا نام نہیں لینا چاہتے بلکہ جج کو عامی سے کمپیئر کرنا چاہتے ہیں تو اسکو لے لیتے ہیں
دیکھیں مختلف جج مختلف فیصلے کرتے ہیں مثلا بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ کسی جج نے کیا تھا ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا فیصلہ کسی جج نے کیا تھا اور سیکڑوں ایسے فیصلے ملتے ہیں جس پہ عامی باتیں کرتے نظر آتے ہیں تو کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ جج کا فہم عامی سے کم ہے
دیکھیں توہین رسالت کے کیس میں ایک جج نے جو باتیں کی ہیں اس کی بنیاد انہوں نے قانون کو ہی بنایا ہے مگر اسکے مقابلے میں دوسرے ججوں نے جو باتیں کی ہیں اسکی بنیاد بھی انہوں نے قانون کے سیکشنز کو ہی بنایا ہے اور باقاعدہ ان سیکشنز کا حوالہ بھی دیا ہے اسی طرح سود کے معاملہ میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ججوں نے جو حرام ہونے کا فتوی دیا ہے وہ قانون کی شکوں کو بنیاد بنا کر ہی دیا ہے اور اسکے مقابلے میں سپریم کورٹ کے ججوں نے جب اس کو رد کیا تو انہوں نے بھی قانون کا ہی حوالہ دیا
ابھی پچھلے دنوں سندھ ہائی کورٹ کے جج نے شراب پہ پابندی لگائی تو وہ بھی حوالوں سے ہی لگائی اور بعد میں سپریک کورٹ نے اسکو معطل کیا تو وہ بھی قانون کے حوالوں کے ساتھ ہی تھا

اب آپ بتائیں کہ
کیا ہم دینی رجحان رکھنے والے ان فیصلوں پہ اپنی رائے دیتے ہیں یا نہیں کہ فلاں جج نے درست کیا اور فلاں نے درست نہیں کیا


تو بھائی کیا ہم ججوں سے زیادہ قانون کو جاننے والے ہوتے ہیں؟
اللہ آپ کو دعوت دین کے خلاص پہ اجر عظیم عطا فرمائے امین
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
پیارے بھائی کیا آپ اجتہاد کی اہلیت رکھتے ہیں؟
جانِ من آج کتنے ہیں جو یہ صلاحیت رکھتے ہیں؟ ہاں البتہ دھوکہ بازون سے جہاں بھرا پڑا ہے۔
پیارے بھائی جان آپ کس چیز کو اجتہاد سمجھ رہے ہیں
اگر آپ فقہی مسائل کے قرآن و حدیث سے استنباط کرنے کو اجتہاد کہ رہے ہیں تو وہ مجھ جیسا عامی اہل الحدیث شاید کما حقہ نہ کر سکتا ہو
البتہ اگر آپ بعض مسائل میں فقہاء کے دلائل کو دیکھ کر اس میں اقرب الی الصواب کے فیصلہ کرنے کو بھی اجتہاد ہی تصور کرتے ہیں تو پھر وہ تو ہم میں سے بہت سے لوگ (بقول آپکے دھوکا باز) کر سکتے ہیں جیسا کہ اوپر جج والی مثال سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مختلف ججوں کے آپس میں اختلافی فیصلوں میں سے اقرب الی الصواب فیصلے کے اوپر آپ جیسے دیندار لوگ بھی ٹی وی پر بحث کرتے نظر آتے ہیں حتی کہ شیخ مفتی عدنان کاکا خیل وغیرہ جیسے لوگ بھی ان ججوں کے مختلف فیصلوں پہ میڈیا پہ باتیں کرتے نظر آتے ہیں حالانکہ وہ قانون کو ججوں سے زیادہ نہیں جانتے
امید ہے کچھ سمجھا سکا ہوں گا

عمر رضی اللہ تعالیی عنہ تو عرب ہو کر عربی کی تفہیم رکھنے کے باوجود تیمم کی آیت پر اس وقت تک عمل نہیں کرتے جب تک اس کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ فرما دیں اور آج لفظوں کا کھیل کیلا جاتا ہے۔ اللہ تعالیی کے حضور حاضری کا ڈر دلوں سے نکل چکا۔
اس میں ہمارا کیا قصور ہے بھائی جان یہ تو خود آپکے ہی خلاف جاتی ہے کہ آپ لوگوں کو اہل الرائے کہا جاتا ہے جبکہ ہم کو کہا جاتا ہے کہ جب تک حدیث نہیں ملتی عمل نہیں کرتے اور ہمارے لئے ہی وہ امام مالک رحمہ اللہ کا وہ قول بیان کیا جاتا ہے کہ میرے سامنے قرآن یا حدیث لے آو میں مان جاوں گا اور یہی ہماری حالت ہے پھر آپ کیا کہنا چاہتے ہیں

تیسری بات یہ کہ آپ ایک جاہل (لکھ پڑھ لینے سے جہالت ختم نہیں ہوتی جہالت ختم ہوتی ہے اللہ کا ڈر پیدا ہونے سے) کو مجتہد کے مقام پر کھڑا ہونے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
یہ میں نے اوپر بیان کر دیا ہے کہ اگر آپ کی اجتہاد سے مراد قرآن و حدیث سے فقہی مسائل کا استنباط ہے تو اس معنی میں عامی لوگوں کو میں مجتہد نہیں بنا رہا البتہ اوپر دی گئی جج کی مثال کی طرح مخٹلف ججوں کے فیصلوں میں بہتر فیصلہ کی کوشش کو آپ فقہاء کے اجتہاد کی طرح سمجھتے ہیں تو اس کی بارے بھائی جان میرے ترغیب دینے یا نا دینے سے کیا ہوتا ہے جب اللہ نے خﷺد قرآن میں انکو ترغیب دی ہوئی ہے بلکہ بشارت دی ہوئی ہے
سا کہ قرآن کا حکم ہے
فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذینَ یَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ
یعنی ا نکو بشارت دی جا رہی ہے جو بات تو سب کی سن لیتے ہیں مگر اتباع اس قول کی کرتے ہیں جو بہترین ہو
أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُولَئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ
اور نیچے پھر ان جیسے لوگوں کو ہی ہدایت والے اور عقل والے کہا گیا ہے
پس جن لوگوں میں استطاعت ہے اس سے تو انکو روکا نہیں جا سکتا بلکہ اسکی ترغیب ہی دینی ہو گی
 
Last edited:

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
فساد کی جڑ یہی ہے کہ جب اجتہاد کی صلاحیت نہ رکھنے والا جج بن کر مختلف فقہا کے ’’صحیح‘‘ پر عمل کی کوشش کرے گا تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ سب کی ان باتوں پر عامل ہو جن مین ان سے اجتہادی ’’خطا‘‘ ہوئی۔
بھائی جان خالی گمان کو دیکھنا ہے یعنی احتمال کو دیکھنا ہے تو احتمالات تو اور بھی بہت سے ہو سکتے ہیں خالی آپ والا ہی کیوں
مثلا اگر کوئی جج بن کر مخٹلف فقہاء کے اقوال پہ عمل کی کوشش کرے گا تو ہو سکتا ہے کہ
۱۔وہ ساری کی ساری غلط باتوں پہ عمل کرے
۲۔وہ زیادہ غلط اور کم درست باتوں پہ عمل کرے
۳۔وہ ساری کی ساری درست باتوں پہ عمل کرے
۴۔وہ زیادہ درست اور کم غلط باتوں پہ عمل کرے
پس زیادہ تر مسائل ایسے ہوتے ہیں کہ جہاں درست مجتہد کا فیصلہ کرنا آسان ہوتا ہے جیسا کہ بعض دفعہ درست جج کا فیصلہ کرنا آسان ہوتا ہے پس ان زیادہ تر مسائل میں تو آخری دو پئوائنٹ کا احتمال زیادہ ہے

کیون کہ فقیہ اپنی خطا پر مطلع نہیں ہوتا۔ اگر وہ مطلع ہوتا تو اس سے رجوع کرتا۔ غیر فقیہ کس دلیل سے کسی فقیہ کی صحیح اور غلط کو پرکھے گا اور اگر وہ خود فقیہ ہے تو اسے پرکھنے کی ضرورت ہی نہیں وہ برہِ راست قرآن و حدیث سے ’’مسنون‘‘ طریقہ ڈھونڈھ لے گا۔
جی فقیہ اپنی غلطی سے مطلع نہیں ہوتا کیونکہ بعض دفعہ اسکا علم محدود ہوتا ہے اور بعد والے عامی کے پاس نص کا علم زیادہ ہو سکتا ہے کیونکہ اسکو دوسرے مجتہد سے یا کسی دوسرے محدث سے دوسری احادیث پہنچی ہوتی ہیں جو اس غلطی کرنے والے مجتہد کو نہیں پہنچی ہوتیں جیسا کہ احناف کی کتابوں میں اسکی صراحت موجود ہے
تو بھائی اوپر بتا چکا ہوں کہ جو خود فقیہ نہیں وہ دوسرے فقہاء میں اقرب الی الصواب کے بارے تھوڑی سی کوشش سے فیصلہ کر سکتا ہے جیسا کہ قرآن کا حکم ہے
فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذینَ یَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ
یعنی ا نکو بشارت دی جا رہی ہے جو بات تو سب کی سن لیتے ہیں مگر اتباع اس قول کی کرتے ہیں جو بہترین ہو
أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُولَئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ
اور نیچے پھر ان جیسے لوگوں کو ہی ہدایت والے اور عقل والے کہا گیا ہے

لہٰذا دنیا میں صرف دو قسم کے ہی لوگ ہیں ’’مقلد‘‘ یا ’’فقیہ‘‘کوئی تیسری مخلوق نہیں۔ اگر کوئی اس تیسری مخلوق میں سے بننے کی کوشش کرے گا تو وہ ’’لا ولد‘‘ ہی رہے گا۔
نہیں بھائی جان آپ کی بات خود آپکے مطابق ہی غلط ہو گی کیونکہ پھر آپ دنیا میں سارے صحابہ کو کیا کریں گے کیا سارے صحابہ فقیہ تھے تو پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہ کو غیر فقیہ کیوں کہا جاتا ہے اور اگر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مقلد تھے تو کس کے مقلد تھے پھر وہ تقلید کرنے کی بجائے آپ کے مطابق غیر فقیہانہ احادیثیں کیوں بیان کرتے تھے
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
پیارے بھائی جان بہت معذرت کے ساتھ اگر آپ غیر مقلد پہ نفس کا بندہ بننے کا الزام لگائیں گے تو پھر شیشے کے گھر میں کھڑے ہو کر مارے جانے والے پتھروں کی طرح ہی ہوں گے کیونکہ نفس کا بندہ بنتے تو ہمیں تقلید کرنے والے بھی نظر آتے ہیں جب ہمارے علماء کے پاس روزانہ سیکڑوں اکٹھی تین طلاقیں دینے والے آتے ہیں
آپ نے بالکل صحیح نشاندہی کی کہ جب کوئی حنفی اکٹھی تین طلاق دے بیٹھتا ہے تو ایسون مین سے چند ایک لا علم غیر مقلد بن جاتے ہین دنیاوی فائدہ کی خاطر۔
شدید دکھ کی بات یہ ہے کہ غیر مقلدین ایسے متاچرین کی تلاش میں رہتے ہیں اور بغلیں بجاتے نظر آتے ہیں کہ شکار ہاتھ لگا۔ طلاق جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا اور طلاق کی خبر پر غمگین ہوتے یہ غیر مقلدین خوشیاں مناتے نظر آتے ہیں۔ اللہ ہدایت دے

پس بھائی جان یہ یاد رکھیں کہ کسی کے بارے نفس کا بندے بننے کا بلاوجہ گمان کرنا درست نہیں اس طرح تو لوگ اگر فقہاء کے بارے گمان کرنے لگیں کہ وہ بھی نفس کا بندہ بننے کی وجہ سے رائے سے فیصلہ دیتے تھے جنکو اہل الرائے کہا جاتا ہے تو اس پہ آپ کیا صفائی پیش کریں گے جو صفائی آپ پیش کریں گے کیا وہ غیر مقلد نہیں پیش کر سکتا
مجھے کسی کی صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں میں تو حقائق پیش کروں گا ان شاء اللہ۔
اہل الرائے انہیں کہا جاتا ہے جو رائے کے اہل ہوں۔ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ اسم با مسمیٰ تھے۔ ان کی رائے کے مقابلہ میں کسی دوسرے کی رائے کی ذرا بھی وقعت نہیں۔ یہ میرا ذاتی خیال نہیں بلکہ خیر القرون والے انہیں ایسا ہی یقین رکھتے تھے۔
دوسری اہم بات کہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ نے ہر فیلڈ کے ماہرین کی مشاورت سے فقہ مدون کی اور مشاورت میں غلطی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
بات ہمیشہ ’’اہل‘‘ کی مانی جانی چاہیئے نہ کہ ’’نااہل‘‘ کی۔ ابو حنیفہ مانے ہوئے فقیہ تھے اور دین میں فقیہ ہی کی بات معتبر ہوتی ہے غیر فقیہ کی نہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فقہا ہی کی طرف رجوع کا حکم دیا ہے سفیہوں کی طرف نہیں۔
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
یہاں دو باتیں ہیں
1-ہمیشہ ہر معاملے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے ہی درست ہو گی
2-بعض معاملوں میں ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے درست ہوتی ہے اور بعض معاملوں میں ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے غلط ہوتی ہے
پس اگر آپ کے نزدیک پہلا نمبر درست ہے تو بتائیں (جو یقینا نہیں ہے کوئی حنفی اسکا دعوی نہیں کرے گا)
اور اگر دوسرا نمبر درست ہے تو پھر ثابت ہوا کہ ایک ماہر کی ایک بات درست اور دوسری غلط بھی ہو سکتی ہے
اختلاف اس میں نہیں کہ ابو حنیفہ رحمۃ غلط ہو سکتے ہیں کہ نہیں۔ اختلاف یہ ہے کہ کسی مجتہد فقیہ کو خطا پر ثابت کرنے والا اس کا ’’اہل‘‘ ہونا چاہیئے یا کہ ہر کس و ناکس کو یہ اختیار حاصل ہے۔
دوسرے جو ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کیا وہ خطا سے مبرا ہے؟
کیا خطا سرف احناف کے ہی حصہ میں ہے؟
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ

آپ کے چند تسامحات کی نشاندہی کی جاتی ہے
جی بھائی جان میں نے تو طبیب کے پاس ہی جانے کا کہا ہے پٹواری کے پاس نہیں البتہ یہ کہا ہے کہ ایک طبیب کو فکس کوئی بھی نہیں کرتا بلکہ اپنے مشاہدے اور تجربے (چاہے وہ کمزور ہی کیوں نہ ہو) اور مختلف طبیبوں میں بہتر کا چناو کرتا ہے کہ جسکی درست معلوم ہوتی ہو
آپ کی اس بات سے سو فیصد اتفاق کہ اگر کہیں ایک سے زیاداہ طبیب ہوں تو بہتر کی طرف رجوع کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔
یہاں اہم معاملہ ہے کہ دنیاوی طبیب کی پہچان اس کے علاج سے شفایاب ہونے والوں سے کی جاسکتی ہے مگر روحانی طبیب کے معاملہ میں ایسا کرنا خطرناک بھی ہوسکتا ہے۔ دنیاوی میں تو زیادہ سے زیادہ جان جائے گی روحانی میں تو ایمان کے لالے پڑ جائیں گے۔ لہٰذا محطاط رہیں
دوسری بات یہ کہ جس علاقہ میں صرف ایک ہی طبیب حاذق ہو تو صاف ظاہر ہے کہ وہی کفایت کرے گا۔ اگر کوئی خوب سے خوب تر کی تلاش میں انجانے میں کسی نوسر باز فرڈیئے کے ہتھے چڑھ گیا تو اس کے دامِ ہمرنگِ زمین میں پھنس کر اس کا کیا بنے گا ؟ آپ تو خوب جانتے ہین

2-دوسرا کوئی آگے سے یہ کہ دے کہ جی ہم پٹواری کے پاس نہیں جاتے بلکہ طبیب کو تبدیل کرتے ہیں کیونکہ آپکا (اہل الرائے کا) طبیب دیسی دوائیاں (رائے) شروع کر دیتا ہے اور دوسرا ڈاکٹر درست دوائیاں (احادیث) دیتا ہے تو ہم ایک طبیب کو چھوڑ کر پٹواری کے پیچھے جانےکی بجائے مستند ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں (صرف الزامی جواب ہے حقیقی نہیں)
بھائی یہی تو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ جسے تم طبیب سمجھ رہے ہو کہیں وہ لبادہ اوڑے شکاری نہ ہو۔ بچ جاؤ اسی میں بہتری ہے
 
شمولیت
مارچ 16، 2017
پیغامات
290
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
39
19174 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
چلیں بھائی جان میں نے بات تو کسی اور لحاظ سے کی تھی لیکن اگر آپ آپ وکیل کا نام نہیں لینا چاہتے بلکہ جج کو عامی سے کمپیئر کرنا چاہتے ہیں تو اسکو لے لیتے ہیں
دیکھیں مختلف جج مختلف فیصلے کرتے ہیں مثلا بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ کسی جج نے کیا تھا ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کا فیصلہ کسی جج نے کیا تھا اور سیکڑوں ایسے فیصلے ملتے ہیں جس پہ عامی باتیں کرتے نظر آتے ہیں تو کوئی یہ کہ سکتا ہے کہ جج کا فہم عامی سے کم ہے
دیکھیں توہین رسالت کے کیس میں ایک جج نے جو باتیں کی ہیں اس کی بنیاد انہوں نے قانون کو ہی بنایا ہے مگر اسکے مقابلے میں دوسرے ججوں نے جو باتیں کی ہیں اسکی بنیاد بھی انہوں نے قانون کے سیکشنز کو ہی بنایا ہے اور باقاعدہ ان سیکشنز کا حوالہ بھی دیا ہے اسی طرح سود کے معاملہ میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ججوں نے جو حرام ہونے کا فتوی دیا ہے وہ قانون کی شکوں کو بنیاد بنا کر ہی دیا ہے اور اسکے مقابلے میں سپریم کورٹ کے ججوں نے جب اس کو رد کیا تو انہوں نے بھی قانون کا ہی حوالہ دیا
ابھی پچھلے دنوں سندھ ہائی کورٹ کے جج نے شراب پہ پابندی لگائی تو وہ بھی حوالوں سے ہی لگائی اور بعد میں سپریک کورٹ نے اسکو معطل کیا تو وہ بھی قانون کے حوالوں کے ساتھ ہی تھا

اب آپ بتائیں کہ
کیا ہم دینی رجحان رکھنے والے ان فیصلوں پہ اپنی رائے دیتے ہیں یا نہیں کہ فلاں جج نے درست کیا اور فلاں نے درست نہیں کیا


تو بھائی کیا ہم ججوں سے زیادہ قانون کو جاننے والے ہوتے ہیں؟
اللہ آپ کو دعوت دین کے خلاص پہ اجر عظیم عطا فرمائے امین
آپ کو تبصرہ اور فیصلہ کا فرق ہی معلوم نہین۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top