• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

[2]المسائل الخفیہ۔ اہلسنت کا منہج تعامل

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
[
2]المسائل الخفیہ
وہ کفریہ بدعت جو شہادتین کے مدلول سے صریح متصادم نہ ہو مگر کسی ایسے امر سے متصادم ہو جو دین میں قطعی مانا گیا ہو۔ کفریہ بدعت کی اس قسم میں جہالت، لاعلمی یا خطا ء کا عذر دیا جا تا ہے اور ایسے عذر رکھنے والوں پر حجت قائم ہو جانے کے بعداہل علم ان کی تکفیر کر سکتے ہیں۔ان مسائل کو اہل علم نے مسائل خفیہ کے عنوان سے ذکر کیا ہے :اس میں مرتکبین کی دو حالتیں ہیں:

پہلی حالت: یہ معلوم ہوجائے کہ اس بدعت سے اس کا مقصد دین کے اصول و قواعد کو ختم کرنا اور اہل اسلام میں ان کے دین کے بارے میں شک پیدا کرنا ہے تو یہ شخص قطعی طور پر کافر ہو گا، بلکہ وہ شخص دین سے اجنبی ہے اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں اور وہ دین کا دشمن ہے ۔

دوسری حالت:اس سے اس بدعت کا ارتکاب کسی شبہ کی بنا پر ہو اور اس پر وہ معاملہ خلط ملط ہو تو ایسے شخص کو دلائل و براہین دے کر حجت پوری کرنے کے بعد کافر قرار دیا جائے گا۔یہ وہ مسائل ہیں جن کی دلیل تک رسائی پانے کے لیے عقل ،فہم اور تدبر کی ضرورت ہوتی ہے۔مخفی ہونے کی وجہ سے یہ مسائل معلوم من الدین بالضرورۃ کے زمرے میں نہیں آتے۔ ان امور میں غلطی کھانے والا سمجھتا ہے کہ اس کی دلیل کتاب و سنت میں موجود ہے یہ وہی مسائل میں جن میں اہل سنت اور اس کے مخالف فرقوں میں بحثیں ہوتی رہیں ۔ مثلاً :۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
اللہ کے اسماء وصفات :
جیسے اللہ کا عرش پر مستوی ہونے یا قیامت کے دن اللہ کے دیدارکا انکار کرنایا قرآن مجید کو کلام اللہ کی بجائے مخلوق کہنا۔ ان مسائل خفیہ میں غلطی کھانے والوں کو خطاکارتو سمجھا جائے گا مگر ان کی اس وقت تک تکفیر نہ کی جائے گی جب تک حجت پوری نہ ہو جائے۔


امام شافعی  فرماتے ہیں :

''فان خالف ذلک بعد ثبوت الحجۃ فھو کافر فأما قبل ثبوت الحجۃ علیہ فمعذور بالجھل لأن علم ذلک لا یدرک بالعقل ولا بالرویۃ والفکر ولا یکفر بالجھل بھا احد الا بعد انتھاء الخبر الیہ بہ ''
''اگر کوئی شخص صفات باری تعالیٰ کا حجت قائم ہوجانے کے بعد انکار کرے تو وہ کافر ہے البتہ حجت قائم ہونے سے پہلے اُسے جہالت کا عذر دیا جائے گا کیونکہ صفات کا ادراک عقل ، فکرو تدبر سے ممکن نہیں ،اس لیے ان سے جاہل کوئی شخص اس وقت تک کافر نہیں ہوتا جب تک اُسے اس کی خبر نہ پہنچ جائے ۔'' (اثبات صفۃ العلو للشیخ لامام عبداللہ بن أحمد بن قدامۃ المقدسی :124)
امام ابن عبدالبر  فرماتے ہیں:

من جھل بعض الصفات وآمن بسائرھا لم یکن بجھل البعض کافرا لأن الکافر من عاند لا من جھل ،وھذا قول المتقدمین من العلماء ومن سلک سبیلھم من المتاخرین ۔
''جو کوئی تمام صفات پر ایمان رکھتا ہے البتہ بعض سے جاہل رہتاہے وہ اپنی اس جہالت کی بنا پر کافر شمار نہ ہو گا کیونکہ (اس باب میں )کافر وہ ہوتا ہے جو معاند(حق جان کر کفر پر اڑنے والا) ہو نہ کہ جاہل ۔یہ علمائے متقدمین اور ان کی اتباع کرنے والے متاخرین کا مسلک ہے ۔''(التمھید 42/18)

ان امور میں تکفیر معین کے لیے ضروری ہے کہ متکلم جب کفر کی بات کرے تو اس کلمے سے جو کفر لازم آتا ہے وہ اس کا قصد بھی کرتاہو بعض اوقات الفاظ ذومعنی ہوتے ہیں اور اہل بدعت فرقے انہیں استعمال کرتے ہیں تو ان سے پوچھا جائے گا کہ اس سے ان کی مراد کیا ہے؟
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ اسماء و صفات میں یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ ہمارے مخالفین ایسی بات کرتے ہیں کہ اس سے کفرلازم آتا ہے لیکن یہ کفریہ معنی ثابت کرنا ان کا مقصود نہیں ہوتا۔اس لیے ایسے شخص کی ہم بھی تکفیر نہیں کرتے جب تک وہ خود اس لازمی معنی کو تسلیم نہ کر ے جو ہمارے نزدیک ان الفاظ سے نکلتا ہے(مجموعہ فتاوی جلد ۵ صفحہ ۳۰۶)
مثلا:'' خلق قرآن'' کی مثال اس مسئلے کی وضاحت کرتی ہے جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اوراق پر لکھے ہوئے اور چھپے ہوئے الفاظوں کا مجموعہ کلام اللہ نہیں تو اس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ اللہ ، اس کے رسول اور تمام صحابہ کے فہم کی تکذیب ہوگی مگر کہنے والااللہ ، اس کے رسول اور صحا بہ کی تکذیب نہیں کرناچاہتا ۔تو اس پر فتوے سے پہلے حجت پوری کرنا واجب ہے۔جب کوئی مسلم اللہ او اس کے رسول کے حق میں خیر خواہی چاہتا ہو اور نیک جذبات رکھتاہو لیکن الفاظ کے معنی پوری طرح نہ سمجھے اور اس کے الفا ظ سے غلط معنی نکلتے ہوں تو اس کی تکفیر نہ کی جائے گی جب تک اس کو دلائل نہ سمجھا دئے جائیں اور اس کے شبہات دور نہ کر دئے جائیں

شیخ عبداﷲابابطین  اس شخص کی بات پر تبصرہ کرتے ہیں جو ابن تیمیہ  کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ مشرک کو کافرنہیں کہتے تھے ۔شیخ ابابطین اپنے تبصرے میں کہتے ہیں:کہ
ابن تیمیہ  کا یہ کہنا کہ ان شرکیہ امور کامرتکب کافرنہیں کہلائے گا تو امام ابن تیمیہ نے یہ بات شرک اکبر( غیر اﷲکی عبادت وغیرہ) امور ظاہرہ کے بارے میں نہیں کی بلکہ امور خفیہ کے بارے میں کی ہے۔ امورخفیہ کے بارے میں یہ کہاجاتا ہے کہ جب تک اس پر حجت قائم نہ ہواسے کافرنہیں کہا جائیگا۔ورنہ شرک اکبر کے مرتکب کے عدم کفر کی بات کسی نے نہیں کی ۔اس لیے کہ اس طرح کی باتوں کے بارے میں تو ہر خاص وعام بلکہ یہود ونصاریٰ تک کو معلوم ہے کہ محمدﷺیہی باتیں لے کر آئے تھے اور ان کے مخالفت کرنے والے کوکافرکہاجائے گا یعنی ایک اﷲکی عبادت کرنااور اس کے ساتھ شریک نہ کرنااورغیر اﷲکی عبادت سے منع کرنا یہ تو شعائر اسلام میںسب سے زیادہ واضح شعائر ہیں۔ لہٰذا ان کی مخالفت کرنے والے کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا کہ اس پر حجت قائم نہیں ہوئی اس لیے اسے کافرنہ کہا جائے ۔ (مجموعۃ الرسائل والمسائل النجدیۃ:ج۴/۴۵۴)
علامہ ابو محمد المقدسی حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
''عذر اُس بندے کو دیا جا ئے گا جو توحید کی اصل اور بنیاد پر تو قائم ہو لیکن اس سے بعض مسائل مخفی رہ جائیں ،جس کا سمجھنا اس کے لیے مشکل ہو یا مخفی ہو یا اس کو سمجھنے اور وضاحت کی حاجت ہو اس قسم میں سے اسماء و صفات کا باب ہے ،کتاب و سنت کے دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید کا اقرار کرنے والا اگر اللہ تعالیٰ کی صفات کے مسئلہ میں غلطی کا شکار ہو جائے تو اس کی اُس وقت تک تکفیر نہ کی جائے گی جب تک اس پر حجت قائم نہ کردی جائے ۔ ''(رسالۃ ثلاثینیۃ )
 
Top