• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

21 دسمبر 2012ء

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
21 دسمبر 2012ء

مضمون نگار:ابوالحسن علوی
آج کل مغربی معاشروں میں اس تاریخ کے حوالہ سے کافی کچھ بحث وتحقیق اور مکالمہ ومباحثہ جاری ہے۔ مغربی مفکرین اور اسکالرز کی ایک جماعت کا پرزور اصرار یہ ہے کہ یہ دن اس دنیا کی تباہی وبربادی یا ایک نئے زمانے کے آغاز یا قیامت کا دن ہے۔
مغرب میں یہ دعوی کرنے والوں میں ایسے اہل علم بھی ہیں جن کا تعلق سائنس اور سائنسی علوم سے ہے جبکہ دوسری طرف ان مدعین میں ایسے مفکرین بھی موجود ہیں جو مذہب اور اہل مذہب کے نمائندہ شمار ہوتے ہیں۔ اس موضوع پر مغرب میں کئی ایک کتابیں لکھی جا چکی ہیں

مثلاً آن لائن شاپنگ کی معروف ویب سائیٹ Amazon.com: Online Shopping for Electronics, Apparel, Computers, Books, DVDs & more پر درج ذیل کتب کا تعارف اور ان پر تبصرہ جات موجود ہیں:
The Mystery of 2012: Predictions, Prophecies, and Possibilities
The Complete Idiot's Guide to 2012
Fractal Time: The Secret of 2012 and a New World Age
Apocalypse 2012: An Investigation into Civilization's End
Planet X Forecast and 2012 Survival Guide
Maya Cosmogenesis 2012: The True Meaning of the Maya Calendar End-Date
2012: The War for Souls
2012: The Return of Quetzalcoatl
2012 and the Galactic Center: The Return of the Great Mother
How to Survive 2012: Tactics and Survival Places for the Coming Pole Shift
2013: The End of Days or a New Beginning
Envisioning the World After the Events of 2012
Toward 2012: Perspectives on the Next Age
The Mayan Prophecies for 2012
The Orion Prophecy: Will the World Be Destroyed in 2012?
Mayan Prophecy 2012
The World Cataclysm in 2012: The Maya Countdown to the End of Our World


اسی طرح ایک سروے رپورٹ کے مطابق تقریباً ۶۰ ہزار ویب سائیٹس پر اس وقت اس تاریخ میں ہونے والے واقعات کی پشین گوئیوں کے بارے مواد اور لٹریچر موجود ہے۔ بعض ویب سائیٹس تو ایسی ہیں جو خاص اسی موضوع ہی پر مشتمل ہیں۔ ذیل میں ہم چند ایک ایسی ویب سائیٹس کے ایڈریس پیش کررہے ہیں:



ان میں سے بعض ویب سائیٹس پر تو باقاعدہ کاؤنٹ ڈاؤن بھی لگے ہوئے ہیں اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی دکھایا جا رہا ہے کہ یہ کاؤنٹ ڈاؤن اس دنیا کے خاتمہ تک جاری ہے اور اس دنیا کے خاتمہ میں اتنے دن، گھنٹے ، منٹس اور سیکنڈ باقی ہیں۔

علاوہ ازیں 2012 ء کے نام سے ایک فلم بھی بنائی گئی ہے جس میں دنیا کو تباہ ہوتے دکھایا گیاہے۔ اس فلم نے ریکارڈ بزنس کمایا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق اس مووی (movie)نے تقریباً ۷۷۰ ملین ڈالر کمائے ہیں۔
اب اس کی دیکھا دیکھی اس موضوع پر ایک اور فلم بھی تیار ہو رہی ہے۔ اسی طرح امریکہ میں کچھ ایسی فرمز (Firms)بھی وجود میں آ گئی ہیں جو اس دن کی تباہی سے بچنے کے لیے بنکرز اور زیر زمین پناگاہیں تیار کر کے فروخت کر رہی ہیں۔اس تمہید کے بعد ذیل میں ہم اہل سائنس اور اہل مذہب کے ہاں اس تاریخ میں ہونے والی ممکنہ تباہی کے بارے مزعومہ تصورات اور مفروضہ نظریات وتحقیقات کا ایک اجمالی جائزہ پیش کررہے ہیں۔

2012ء اہل سائنس کی نظر
21 دسمبر2012ء کی تاریخ میں اس دنیا میں ایک عظیم تباہی وبربادی واقع ہو گی، اس بارے سائنسدانوں کی انفرادی، اجتماعی اور ادارہ جاتی تحقیقات کو بطور شواہد پیش کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں قدیم مایان تہذیب کے سائنسدانوں اور امریکہ کے خلائی تحقیق کے ادارہ ’ناسا‘ کا نام بطور خاص لیا جاتا ہے۔

مایان تہذیب کی پشین گوئیاں
مایا، ریاضی، فلکیات اور انجینئرنگ میں انتہائی ترقی یافتہ قوم تھی اور اس کا زمانہ عروج 2000 ہزار قبل مسیح تا 250ء تک کا ہے۔ اس قوم نے ’لانگ کاؤنٹ کیلنڈر‘ کے نام سے ایک کیلنڈر بنایا ہے جو 5125.36 سالوں پر مشتمل ہے اور اس کی ابتد 31 اگست 3114 ق۔م میں ہوئی اور اختتام 21 دسمبر 2012ء کو ہو رہا ہے۔ اس کیلنڈر کا نام ’ورلڈ ٹائم کیلنڈر‘ بھی ہے۔ اس کیلنڈر کا سراغ 609 قبل مسیح سے ملتا ہے۔

مایا نے دراصل تین قسم کے کیلنڈر استعمال کیے تھے۔ ایک شمسی نظام کے مطابق 365 دن کا شمسی کیلنڈر اور دوسرا 260 دن کا مذہبی کیلنڈر تھا۔ تیسرا کیلنڈر ’ورلڈ ٹائم کیلنڈر‘ ہے جو تقریباً 5126 سالوں پر مشتمل تھا۔ اس کیلنڈر کی بنیاد اجرام فلکی اور سیاروں کی چال کے بارے ان کی مہارت اور معلومات تھیں۔ ان کی تحقیق کے مطابق 21 دسمبر کو گیارہ بج کر گیارہ منٹ پر زمین اور کہکشاں کے مراکز ایک لائن میں آ جائیں گے اور اس سے کرہ ارض پر بڑی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ اس کیلنڈر کے مطابق یہاں سے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔

Maya Cosmogenesis 2012: The True Meaning of the Maya Calendar End-Date نامی کتاب کے تبصرہ نگار لکھتے ہیں:

While researching the 2012 end-date of the Maya Calendar, John Major Jenkins decoded the Maya's galactic cosmology. The Maya discovered that the periodic alignment of the Sun with the center of the Milky Way galaxy is the formative influence on human evolution. These alignments also define a series of World Ages. The fourth age ends on December 21, 2012, when an epoch chapter in human history will come to an end. Maya Cosmogenisis 2012 reveals the Maya's insight into the cyclic nature of time, and prepares us for our own cosmogenesis--the birth of a new world.



اس کیلنڈر کے مطابق وقت کی نوعیت ایک دائرے کی(circle) سی ہے کہ جس کا نقطہ آغاز وانتہا ایک ہی ہے۔ اسی طرح کتاب 2012: The War for Soulsکے تبصرہ نگار لکھتے ہیں:
December 21, 2012, may be one of the most watched dates in history. Every 26,000 years, Earth lines up with the exact center of our galaxy. At 11:11 on December 21, 2012, this event happens again, and the ancient Maya calculated that it would mark the end, not only of this age, but of human consciousness as we know it.



اس قوم کے بارے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس قوم نے جو بھی پشین گوئیاں(predictions) کی ہیں، وہ آنے والے اوقات میں بہت صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ ان کی یہ پشین گوئیاں ان کی تہذیبی آثار میں تصاویر کی صورت میں موجود ہیں۔ اس قوم کا کہنا تھا کہ انہیں 21 دسمبر 2012ء کے بعد کچھ نظر نہیں آتا ہے۔

معاصرسائنسدانوں کی تحقیقات
امریکہ کے خلائی تحقیق کے ادارہ ناسا (Nasa) کے مطابق سورج اپنے مدار کے گرد ۱۱ سال میں ایک چکر مکمل کرتا ہے اور 2012ء میں ایرس (Eris Planet X) نامی سیارہ سورج کے قریب آ جائے گا اور اس کی کشش کی وجہ سے سورج اپنا رخ تبدیل کر لے گا اور ایسا ہونے کی وجہ سے زمین کو منفی لہریں اپنی لپیٹ میں لے لیں گی اورزمین پر شمسی طوفان آ جائے گا۔ اس سیارے کے بارے یہ تحقیقات بھی سامنے آئی ہیں کہ یہ سیارہ 3600 سال میں ایک بارسورج کے سامنے آتا ہے۔

مارچ 2004ء میں ناسا (NASA)نے اسے ہمارے نظام شمسی کے دسویں سیارہ کے طور پر متعارف کروایا اور اس کا نام سیڈنا (Sedna)رکھا۔
بعض سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ 2012ء میں یہ سیارہ مریخ اور مشتری کے مابین سے گزرے گا اور اس کا فاصلہ زمین سے قریب ترین ہو گا۔بعض لوگوں کا یہ بھی دعوی ہے کہ ناسا نے 2005ء سے ایک جوہری سٹیلائٹ میزائل ڈیپ امپیکٹ (Deep Impact) تیار کرنا شروع کر دیا ہے جو اس سیارہ پر فائر کیا جائے گا۔ اس نام سے ایک انگلش مووی بھی تیار کی گئی ہے جس میں روس کے بارے بھی یہ امکانات پیش کیے جارہے ہیں کہ وہ اس سیارے پر جوہری حملہ کرے گا۔ اس جوہری حملے میں یہ امکان بھی دکھایا جا رہاہے کہ اس سیارے کا ایک تبادہ شدہ زمین کا ایک تہائی حصہ آگ لگنے سے تباہ ہو جائے اور دنیا دوبارہ پتھر کے زمانے میں لوٹ جائے۔

The Orion Prophecy: Will the World Be Destroyed in 2012 نامی کتاب کا تبصرہ نگار لکھتا ہے:
In the year 2012 the Earth awaits a super catastrophe: its magnetic field will turn over in one go. Phenomenal earthquakes and tidal waves will completely destroy our civilisation. Europe and North America will shift thousands of kilometres northwards into polar climate. Nearly the whole earth's population will perish in the apocalyptic happenings. These dire predictions stem from Mayans and Egyptians -- descendants of the legendary Atlantis. The Atlanteans had highly evolved astronomical knowledge and were able to exactly calculate the previous world-wide flood in 9792 BC. They built tens of thousands of mandjits and escaped to South America and Egypt. In the year 2012 Venus, Orion and several other stars will take the same 'code positions' as in 9792 BC, the year of the previous cataclysm! For thousands of years historical sources have told of a forgotten time capsule of ancient wisdom located in a mythical labyrinth of secret chambers filled with artefacts and documents from the previous flood -- this book gives one possible location.



کئی معاصر سائنسدانوں نے بھی دسمبر 2012ء کو کئی اعتبارات سے ہماری اس زمین کے لیے بہت زیادہ سیکورٹی رسک کا زمانہ قرار دیا ہے۔ بعض اہل سائنس کے مطابق ایک سیارہ نبرو(Nibru) یا پلینٹ ایکس(Planet X) زمین کے قریب سے گزرے گا اور اپنی کشش ثقل سے زمین کے محور (Poles)میں تبدیلی کر دے گا یعنی قطب شمالی کو قطب جنوبی اور قطب جنوبی کو قطب شمالی بنادے گا اور زمین 180ڈگری گھوم جائے گی۔ اس سیارے کے گزرنے سے طوفانی لہریں ساحلوں کو تباہ کر دیں گی، آتش فشاں پھٹ جائیں گے اور زلزے برپا ہوں گے۔بعض لوگوں کا کہنا یہ بھی ہے کہ یہ سیارہ جنوب کی جانب سے ہمارے نظام شمسی میں داخل ہو چکا ہے اور اس کے اثرات جنوب میں واقع براعظم آسٹریلیا پر پڑنے شروع ہو گئے ہیں۔

اسی طرح Mayan Prophecy 2012 نامی کتاب کا تبصرہ نگار لکھتا ہے:
Famed for the accuracy of their astronomy and the sophistication of their measurement of time, the ancient Mayan civilization has been recognized as one of the most important ever to have existed. According to recently decoded stone monuments and manuscripts the Mayans believed a cataclysmic change will affect the planet on 22 December 2012.On this date the fifth great cycle of time which began on August 11th 3113 BCE will come to a violent end. In this comprehensive book, expert author David Douglas presents compelling evidence for the accuracy of the Mayan calendar in predicting major events in world history and examines the latest scientific research that suggests events such as magnetic field changes and solar flares will indeed culminate in 2012; events which could result in catastrophe for our planet.



بعض سائنسی حلقوں کی طرف سے یہ امکان بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ زمین اور کہکشاں کے مراکز ایک ہی قطار میں ہوں گے جس کے باعث زمین پر ناگہانی آفات نازل ہو سکتی ہیں۔1999ء میں ویب بوٹ (web bot) کے نام سے ایک ٹیکنالوجی یا سافٹ ویئر متعارف کروایا گیا جو انٹرنیٹ اور کمپیوٹر پر موجود تمام معلومات کو جذب(absorb) کر کے انسانی لاشعور کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے اور انسان اور اس دنیا کے مستقبل کے بارے اس جمیع انفارمیشن کی روشنی میں مختلف پشین گوئیاں کرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی پشین گوئیاں اکثر وبیشتر درست ہوتی ہیں اور اس ٹیکنالوجی نے 9/11کے بارے بھی پشین گوئی کی تھی۔ اس سافٹ ویئرنے بھی2012 ء میں ایک سیارے کے زمین کے ساتھ ٹکرانے اور ایٹمی جنگ کے آغاز کی پشین گوئی کی ہے۔

2012ء اہل مذہب کی نظر میں
ہندو مذہب کے بعض اسکالرز کا کہنا ہے کہ2012ء میں کل یُگ ختم ہو جائے اور ست یگ دوبارہ شروع ہو گا اور یہ دھرم بدلنے کا وقت ہو گا۔ ’یگ‘ زمانہ کو کہتے ہیں اور ہندو مذہب کے مطابق زمانے کل چار ہیں۔ پہلے ’ست یُگ‘ تھا یعنی حق ہی حق تھا۔ پھر ’تریتا یُگ‘ آیا ۔ پھر ’دواپر یگ ‘ آیا۔ پھر ’کل یگ‘ آیا۔ اور اب اس کے خاتمہ کے بعد پھر ’ست یگ‘ آئے گا یعنی حق کا دور۔ ہندو مت کے مطابق ’کل یگ‘ کا آغاز 3012 قبل مسیح ہوا اور ’کرشنا‘ نے ’کل یگ‘ کی عمر 5ہزار سال بتلائی ہے۔ ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد ’کرشنا‘ کی اس پشین گوئی ایک کہانی سے زیادہ حیثیت دینے کو تیار نہیں ہے۔

اسی طرح بدھ مت کے ’تبت‘ کے ورژن (vesion)میں بعض راہبوں کے مطابق بدھا کی پشین گوئی کے روشنی میں2012ء میں ایک سنہری دور (golden age) کا آغاز ہو گا۔ بعض بدھ مذہبی رہنماؤں(monks) کا کہنا یہ بھی ہے کہ ان کے کشف کے مطابق 2012ء میں ایٹمی جنگ ہو گی اور اس کے دنیا میں 2010 میں ہی دو حصوں میں تقسیم ہونا شروع ہو جائے گی۔

علاوہ ازیں یہود کی تاریخی روایات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مصر میں بخت نصر کے بعد ’نیپوشانے زار‘ نامی بادشاہ ہو گزرا ہے۔ اس نے طویل خواب دیکھا کہ جس کی تعبیر بتلانے سے کاہن عاجز آ گئے تو حضرت دانیال علیہ السلام نے اس کی مفصل تعبیر بیان کی تھی جس میں قیامت تک کے واقعات کا تذکرہ تھا۔ شام میں ’بصری‘ کے قریب ’تُستر‘ نامی شہر تھا جہاں ہرمزان بادشاہ کے خزانے کی تلاشی کے دوران ایک تابوت ملا جس میں ایک میت، ایک صحیفہ اور ایک انگوٹھی اور دس ہزار درہم وغیرہ رکھے تھے۔ اس میت کے بارے یہ معروف ہوا کہ یہ حضرت دانیال علیہ السلام ہیں۔

بعض تاریخی روایات کے مطابق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں انہیں بیری کے پتوں سے غسل دینے کے بعد دفنانے کا حکم جاری کیا گیا اور اس صحیفہ کا ترجمہ کعب الاحبار نے کیا جس میں مستقبل کی پشین گوئیاں موجود تھیں۔ ڈاکٹر سفر الحوالی کا کہنا یہ ہے کہ ان پشین گوئیوں کے مطابق ایک ناپاک ریاست 1967ء میں قائم ہو گی اور 45 سال تک قائم رہے گی اور یہ سن 2012ء کا ہے۔ ڈاکٹر سفر الحوالی نے اس سال کو ناپاک ریاست کے زوال کی ابتدا قرار دیا ہے۔ ناپاک ریاست سے ڈاکٹر سفر الحوالی نے ’اسرائیل‘ کی ریاست مراد کی ہے۔

عیسائیوں کے ایک گروہ کے نزدیک 2012ء میں آرمیگا ڈان ہو گی اور عیسائیوں کو ریپچرڈ (reptured)کر دیا جائے گا یعنی 2012ء سے پہلے حضرت عیسی علیہ السلام آسمانوں سے تشریف لائیں گے اور اپنے متبعین کو آسمانوں پر لے جائیں گے اور شریر لوگوں پر قیامت قائم ہو گی۔ بعض عیسائی محققین کے نزدیک بائبل میں ایسے اشارے ملتے ہیں کہ2010ء اور 2012ء کے درمیانی عرصہ میں ایک سیارہ ’وام ورڈ‘ بحر اوقیانوس پر اثر انداز ہو گا اور بڑے پیمانے پر سیلابی طوفان آئیں گے۔ اس وقت عیسائی دنیا میں اس بارے جو موویز بنائی جا رہی ہیں ان میں بھی پانی کے عذاب یا تباہی کا تذکرہ زیادہ ملتا ہے، شاید اسے طوفان نوح کے ساتھ مشابہت دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں ساری دنیا ایک مرتبہ تباہ ہو گئی تھی۔

انفرادی پشین گوئیاں
ناسٹراڈومس فرانس کا یہودی تھا اور بعد میں عیسائی ہو گیا۔ اس شخص نے پندرہویں صدی عیسوی سے قیامت تک کی پشین گوئیاں کی ہیں جو مغرب میں بہت معروف ہیں۔ ناسٹرا ڈومس کا کہنا ہے کہ1999ء میں نہ ختم ہونے والی جنگوں کا آغاز ہو گا اور 2012 ء میں تیسری جنگ عظیم ہو گی۔ اس نے یہ بھی پشین گوئی کی کہ ایک سیارہ سات دن تک آسمان پر نظر آئے گا۔ آسمان پر بادل چھا جائیں گے اور دو سورج نظر آئیں گے اور ویٹی کن اس کے اثرات سے تباہ ہو جائے گا۔

اسی طرح شاہ نعمت اللہ بخارہ کے سید تھے ۔ انہوں نے تقریباً 547ھ میں دو ہزار اشعار پر مشتمل ایک فارسی قصیدہ لکھا جس میں مستقبل کے بارے اپنے کچھ الہامات کا تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے اپنے ان اشعار میں جنگ عظیم اول، دوم او ر سوم کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ ان پشین گوئیوں کے مطابق ایک تیسری جنگ عظیم بہت ہی قریب ہے کہ جس میں اس دنیا کا ایک بڑا حصہ تباہ ہو جائے گا۔

اسلام کا نقطہ نظر
دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد قیامت کا دن نہایت ہی قریب ہے لیکن اس کا متعین وقت انبیاء ورسل کو بھی نہیں بتلایا گیا ہے لہذا اس کے متعین وقت کی پشین گوئی کرنے کی حیثیت ایک حماقت سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ سورۃ القمر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اقْتَرَ‌بَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ‌ ﴿١
’’ قیامت کی گھڑی قریب آ گئی اور چاند پھٹ گیا۔‘‘

ایک اور جگہ سورۃ الانبیاء میں ارشاد ہے:
اقْتَرَ‌بَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَهُمْ فِي غَفْلَةٍ مُّعْرِ‌ضُونَ ﴿١
’’ لوگوں کے لیے ان کے حساب کا وقت قریب آ گیا جبکہ وہ غفلت میں پڑے اعراض کر رہے ہیں۔‘‘

ایک اور جگہ سورۃ محمد میں ارشاد فرمایا:
فَهَلْ يَنظُرُ‌ونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَن تَأْتِيَهُم بَغْتَةً ۖ فَقَدْ جَاءَ أَشْرَ‌اطُهَا ۚ فَأَنَّىٰ لَهُمْ إِذَا جَاءَتْهُمْ ذِكْرَ‌اهُمْ ﴿١٨
’’ پس نہیں وہ انتظار کر رہے لیکن قیامت کا کہ وہ ان کے پاس اچانک آئے گی۔ پس اس کی نشانیاں تو آ چکی ہیں۔ پس جب وہ قیامت آ جائے گی تو انہیں نصیحت حاصل کرنا کیا کام آئے گا۔‘‘

دین اسلام کے مطابق قیام قیامت ایک بنیادی عقیدہ ہے لیکن اس کے وقوع سے پہلے ان نشانیوں کا پورا ہونا لازم ہے کہ جن کی کتاب وسنت نے پشین گوئی کی ہے مثلاً ظہور مہدی، خروج دجال ، آمد مسیح علیہ السلام، یاجوج وماجوج کا نکلنا، دابۃ الارض کا نکلنا،سورج کا مغرب سے طلو ع ہونا وغیرہ۔

اہم تر سوال تو یہ ہے کہ کیا زمین کی تباہی وبربادی کا یہ دن محض سیاروں کے عمل دخل کے سبب سے ہو گا یا زمین پر بسنے والی مخلوق کے اعمال کا نتیجہ ہو گا۔ اہل مغرب تو اس عظیم ممکنہ تباہی کو سراسر ایک سائنسی تبدیلی کے طور پر دیکھ رہے ہیں جبکہ ہمارے تجزیہ کے مطابق غالب امکان یہ ہے کہ امریکہ یا مغرب پر ان کے ظلم وستم کے سبب سے رب سبحانہ وتعالیٰ کی طرف عذاب کا ایک شدید کوڑا برسنے والا ہے جس میں عین ممکن ہے کہ فرعون وقت یعنی جزیرہ نما امریکہ کو سمندری طوفانوں وغیرہ کے ذریعے اس کے لاؤ لشکر سمیت سمندروں میں غرق کر دیا جائے اور تاریخ انسانی کی اسی عظیم تباہی کے بارے ماضی کے متفرق مذاہب نے پشین گوئی ہو۔

آج اہل مذہب جہاں اس عظیم تباہی کو قیامت کا نام دے رہے ہوں تو وہاں اہل سائنس اس کی تباہی وبربادی کی سائنسی توجیہات پیش کر رہی ہو۔ سورۃ الفجر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
أَلَمْ تَرَ‌ كَيْفَ فَعَلَ رَ‌بُّكَ بِعَادٍ ﴿٦﴾ إِرَ‌مَ ذَاتِ الْعِمَادِ ﴿٧﴾ الَّتِي لَمْ يُخْلَقْ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ ﴿٨﴾ وَثَمُودَ الَّذِينَ جَابُوا الصَّخْرَ‌ بِالْوَادِ ﴿٩﴾ وَفِرْ‌عَوْنَ ذِي الْأَوْتَادِ ﴿١٠﴾ الَّذِينَ طَغَوْا فِي الْبِلَادِ ﴿١١﴾ فَأَكْثَرُ‌وا فِيهَا الْفَسَادَ ﴿١٢﴾ فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَ‌بُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ ﴿١٣﴾ إِنَّ رَ‌بَّكَ لَبِالْمِرْ‌صَادِ ﴿١٤
’’ کیا آپ نے غور نہیں کیا کہ آپ کے رب نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا ہے۔ یہ قوم ارم تھی جو ستونوں والی تھی۔ اور ان جیسی (طاقتور) قوم اس سے پہلے شہروں میں پیدا ہی نہیں کی گئی۔ اور آپ نے قوم ثمود پر بھی غور نہیں کیا جنہوں نے وادی میں چٹانوں کو تراش کر گھر بنائے۔ اور قوم فرعون جو میخوں والی تھی اور جنہوں نے شہروں میں سرکشی پھیلائی اور خوب فساد برپا کیا۔ پس ان قوموں پر آپ کے رب کے عذاب کا کوڑا پڑا۔ بلاشبہ آپ کا رب (مجرموں) کی گھات میں ہے۔‘‘

اور اگر تو یہ عذاب الہی ہے تو اس سے بچنے کا واحد رستہ ایمان اور اطاعت کا ہے اور اس سے بچاؤ کے لیے جوہری ہتھیار تیار کرنا یا زیر زمین پناہ گاہیں تیار کرنا اللہ کے مقابلہ میں کچھ بھی کام نہ آئیں گی۔ سورہ الحشر میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَظَنُّوا أَنَّهُم مَّانِعَتُهُمْ حُصُونُهُم مِّنَ اللَّـهِ فَأَتَاهُمُ اللَّـهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا ۖ ﴿٢
’’ اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ ان کے قلعے انہیں اللہ کے مقابلہ میں بچا لیں گے ۔ پس اللہ تعالیٰ ان پر وہاں سے آیا جہاں سے انہیں گمان بھی نہ تھا۔‘‘

ہمارے خیال میں اس تاریخ میں مزعومہ دعاوی کی حقیقت مفروضات سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور اس بارے اس پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے کہ خدا کا مقابلہ کرنے کی بجائے اس کی اطاعت وفرمانبرداری کے رستے کے ذریعے ہی کوئی قوم اپنے کرتوتوں کے سبب نازل ہونے والے عذاب سے بچاؤ حاصل کر سکتی ہے۔ ہر زندہ شی کو زوال لازم ہے اور اس کائنات نے بھی ایک دن مکمل تباہی وبربادی سے ہمکنار ہونا ہے اور یہی قیامت کا دن ہے اور اس دن کے بعد ہمیں دوبارہ جی اٹھنا ہے اور اپنے رب کے حضور اپنے اعمال کے حساب وکتاب کے لیے پیش ہونا ہے۔ اس کے بعد یا تو ابدی جنت ہے یا پھر ہمیشہ ہمیشہ کی جہنم انسان کا مقدر ہو گی۔

ابو الحسن علوی

مصادر ومراجع
 
Top