- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,748
- ری ایکشن اسکور
- 26,379
- پوائنٹ
- 995
ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کی سیرت و فضائل
ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں۔ والدہ کا نام زینب تھا۔ ان کا نام عائشہ لقب صدیقہ اور کنیت ام عبد اللہ تھی۔ حضورﷺ نے سن 11 نبوی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا اور 1 ہجری میں ان کی رخصتی ہوئی۔ رخصتی کے وقت ان کی عمر تقریبا ساڑھے گیارہ برس یا بعض روایات کے مطابق 14 برس تھی ۔ آپ حضورﷺ کی سب سے کم عمر زوجہ مطہرہ تھیں۔ انہوں نے حضورﷺ کے ساتھ نو برس گذارے۔ حضورﷺ کے وصال کے 48 سال بعد 66 برس کی عمر میں 17 رمضان المبارک 57یا 56، یا 58 ہجری میں وصال فرمایا
ذیل میں احادیث نبویﷺ میں سے کچھ احادیث سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے فضائل و مناقب پر پیش خدمت ہیں۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو علمی حیثیت سے عورتوں میں سب سے زيادہ فقیہہ اور صاحب علم ہونے کی بناء پر بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم پر بھی فوقیت حاصل تھی۔ ایک روایت کے مطابق آپ کم و بیش 200 صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم کی استاد بھی تھیں۔ شرعی مسائل پر فتوے دیتی تھی اور بے شمار احادیث ان سے مروی ہیں۔ فصیح و بلیغ مقرر بھی تھیں۔ سخاوت اور وسیع القلبی انکا بڑا وصف تھا۔
حضرت جبرائیلؑ کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو سلام کہنا
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ : إِنَّ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَوْمًا : يَا عَائِشَةُ، هَذَا جِبْرِيْلُ يُقْرِئُکِ السَّلَامَ. فَقُلْتُ : وَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ رَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُةُ، تَرَي مَا لَا أَرَي تُرِددُ رَسُولَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَ مُسْلِمٌ وَ التِّرْمِذِيُّ. ( البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي، باب : فضل عائشة، 3 / 1374، الرقم : 3557، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : في فضل عائشة، 4 / 1895، الرقم؛ 2447، و الترمذي في السنن، کتاب : الاستئذان، باب : ما جاء في تبليغ السلام، 5 / 55، الرقم : 2693.)
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک روز رسول اﷲﷺ نے فرمایا : اے عائشہ! یہ جبرائیلؑ تمہیں سلام کہتے ہیں۔ میں نے جواب دیا : ان پر بھی سلام ہو اور اﷲ کی رحمت اور برکات ہوں۔ لیکن آپ (یعنی رسول اﷲ ﷺ) جو کچھ دیکھ سکتے ہیں وہ میں نہیں دیکھ سکتی۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری، امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
حضور اکرمﷺ کو عائشہ صدیقہ سے نکاح کی الوہی بشارتعَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ : رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَاضِعًا يَدَيْهِ عَلَي مَعْرَفَةِ فَرَسٍ وَ هُوَ يُکَلِّمُ رَجُلًا، قُلْتُ : رَأَيْتُکَ وَاضِعًا يَدَيْکَ عَلَي مَعْرَفَةِ فَرَسِ دِحْيَةَ الْکَلْبِيِّ وَ أَنْتَ تُکَلِّمُهُ، قَالَ : وَ رَأَيْتِ؟ قَالَتْ : نَعَمْ قَالَ : ذَاکَ جِبْرِيْلُ عليه السلام وَ هُوَ يُقْرِئُکِ السَّلَامَ، قَالَتْ : وَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ رَحْمَةُ اﷲِ وَ بَرَکَاتُهُ، جَزَاهُ اﷲُ خَيْراً مِنْ صَاحِبٍ وَ دَخِيْلٍ، فَنِعْمُ الصَاحِبُ وَ نِعْمَ الدَّخِيْلُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ. (أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 674، الرقم : 24506، 2 / 871، الرقم : 1635، و الحميدي في المسند، 1 / 133، الرقم : 277، و أبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 46، و ابن الجوزي في صفوة الصفوة، 2 / 20.)
’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ میں نے حضور نبی اکرمﷺ کو دیکھا : آپﷺ نے گھوڑے کی گردن پر اپنا دست اقدس رکھا ہوا ہے اور ایک آدمی سے کلام فرما رہے ہیں، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہﷺ! میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ نے دحیہ کلبی کے گھوڑے کی گردن پر اپنا دست اقدس رکھا ہوا ہے اور ان سے کلام فرما رہے ہیں، آپﷺ نے فرمایا : کیا تو نے یہ منظر دیکھا؟ آپ نے عرض کیا : ہاں، آپﷺ نے فرمایا : وہ جبریل علیہ السلام تھے اور وہ تجھے سلام پیش کرتے ہیں، آپ نے فرمایا : اور ان پر بھی سلامتی ہو اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکتیں ہوں، اور اللہ تعالیٰ دوست اور مہمان کو جزائے خیر عطا فرمائے، پس کتنا ہی اچھا دوست (حضور نبی اکرمﷺ کی ذاتِ اقدس) اور کتنا ہی اچھا مہمان (حضرت جبریل علیہ السلام) ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : قَالَ لِي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أُرِيْتُکِ فِي الْمَنَامِ مَرَّتَيْنِ أَرَي أَنَّکِ فِي سَرَقَةٍ مِّنْ حَرِيْرٍ وَ يُقَالُ : هَذِهِ امْرَأَتُکَ، فَاکْشَفْ عَنْهَا فَإِذَا هِيَ أَنْتِ فَأَقُوْلُ إِنْ يَکُ هَذَا مِن عِنْدِ اﷲِ يُمْضِهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. (البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي، باب : تزويج النبي عائشة، 3 / 1415، الرقم : 3682، و في کتاب : النکاح، باب : قول اﷲ ولا جناح عليکم فيما عرضتم به من خطبة النساء، 5 / 1969، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضل عائشة، 4 / 1889، الرقم : 2438، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 41، الرقم : 24188.)
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ نے ان سے فرمایا : میں نے خواب میں دو مرتبہ تمہیں دیکھا میں نے دیکھا کہ تم ریشمی کپڑوں میں لپٹی ہوئی ہو اور مجھے کہا گیا کہ یہ آپ کی بیوی ہے۔ سو پردہ ہٹا کر دیکھیے، جب میں نے دیکھا تو تم تھی۔ تو میں نے کہا کہ اگر یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ ایسا کر کے ہی رہے گا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
حضور اکرمﷺ کی محبوب زوجہ ہوناعَنْ عَائِشَةَ : أَنَّ جِبْرِيْلَ جَاءَ بِصُوْرَتِهَا فِي خِرْقَةِ حَرِيْرٍ خَضْرَاءَ إِلَي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم. فَقَالَ : إِنَّ هَذِهِ زَوْجَتُکَ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ أَبُوعِيْسَي : حَدِيْثٌ حَسَنٌ. (الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : من فضل عائشة، 5 / 704، الرقم : 3880، و ابن حبان في الصحيح، 16 / 6، الرقم : 7094، و ابن راهويه في المسند، 3 / 649، الرقم : 1237، و الذهبي في سير أعلام النبلاء، 2 / 140، 141.)
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام ریشم کے سبز کپڑے میں (لپٹی ہوئی) ان کی تصویر لے کر حضور نبی اکرمﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہﷺ! یہ دنیا و آخرت میں آپ کی اہلیہ ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔
عَنْ أَبِي عُثْمَانَ : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَعَثَ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ عَلَي جَيْشٍ ذَاتِ السُّلَاسِلِ قَالَ : فَأَتَيْتُهُ فَقُلْتُ : أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْکَ؟ قَالَ : عَائِشَةُ. قُلْتُ : مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَ : أَبُوْهَا. قُلْتُ : ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ : عُمَرُ. فَعَدَّ رِجَالًا فَسَکَتُّ مَخَافَةَ أَنْ يَجْعَلَنِي فِي آخِرِهِمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. (البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : غزوة ذات السلاسل، 4 / 1584، الرقم : 4100، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل أبي بکر، 4 / 1856، الرقم 2384، و الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : فضل عائشة، 5 / 706، الرقم : 3885، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 308، الرقم : 6885.)
’’حضرت ابو عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے غزوہ ذات السلاسل کے لئے حضرت عمرو بن العاص کو امیر لشکر مقرر فرمایا۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آپﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہﷺ! آپ کو انسانوں میں سب سے پیارا کون ہے؟ فرمایا : عائشہ، میں عرض گزار ہوا : مردوں میں سے؟ فرمایا : اس کا والد، میں نے عرض کیا : ان کے بعد کو ن ہے؟ فرمایا : عمر، اس کے بعد آپ ﷺنے چند دیگر حضرات کے نام لئے لیکن میں اس خیال سے خاموش ہو گیا کہ کہیں میرا نام آخر میں نہ آئے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها : أَنَّ النَّاسَ کَانُوْا يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ يَبْتَغُوْنَ بِهَا أَوْ يَبْتَغُوْنَ بِذَلِکَ مَرْضَاةَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. (البخاري في الصحيح، کتاب : الهبة و فضلها و التحريض عليها، باب : قبول الهدية، 2 / 910، الرقم : 2435، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : في فضل عائشة، 4 / 1891، الرقم : 2441، و النسائي في السنن، کتاب : عشرة النساء، باب : حب الرجل بعض نسائه أکثر من بعض، 7 / 69، الرقم : 3951، و البيهقي في السنن الکبري، 6 / 169، الرقم : 11723.)
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ لوگ اپنے تحائف حضور نبی اکرمﷺ کی بارگاہ میں پیش کرنے کیلئے میرے (ساتھ آپﷺ کے مخصوص کردہ) دن کی تلاش میں رہتے تھے، اور اس عمل سے وہ حضور نبی اکرمﷺ کی رضا چاہتے تھے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ جَارًا لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَارِسِيًا کَانَ طَيبَ الْمَرَقِ فَصَنَعَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، ثُمَّ جَاءَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ : وَ هَذِهِ لِعَائِشَةَ فَقَالَ : لاَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَا، فَعَادَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : وَ هَذِهِ قَالَ : لَا، قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَا، ثُمَّ عَادَ يَدْعُوْهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : وَ هَذِهِ، قَالَ : نَعَمْ، فِي الثَّالِثَةِ، فَقَامَ يَتَدَافِعَانِ حَتَّي أَتَيَا مَنْزِلَهُ. ۔ رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ أَحْمَدُ. (مسلم في الصحيح، کتاب : الأشربة، باب : ما يفعل الضيف إذا تبعه غير من دعاه صاحب الطعام و استحباب إذن صاحب الطعام للتابع، 3 / 1609، الرقم : 2037، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 123، الرقم : 12265.)
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرمﷺ کا ایک فارسی پڑوسی بہت اچھا سالن بناتا تھا، پس ایک دن اس نے حضور نبی اکرم ﷺ کیلئے سالن بنایا، پھر آپﷺ کو دعوت دینے کیلئے حاضر ہوا تو آپﷺ نے فرمایا : اور یہ بھی یعنی عائشہ (بھی میرے ساتھ مدعو ہے یا نہیں) تو اس نے عرض کیا : نہیں، اس پر آپﷺ نے فرمایا : نہیں (میں نہیں جاؤں گا) اس شخص نے دوبارہ آپﷺ کو دعوت دی تو آپ ﷺ نے فرمایا : یہ بھی (یعنی عائشہ) تو اس آدمی نے عرض کیا : نہیں، تو آپﷺ نے پھر انکار فرما دیا۔ اس شخص نے سہ بارہ آپﷺ کو دعوت دی، آپﷺ نے فرمایا : یہ بھی، اس نے عرض کیا : ہاں یہ بھی، پھر دونوں (یعنی آپﷺ اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا) ایک دوسرے کو تھامتے ہوئے اٹھے اور اس شخص کے گھر تشریف لے کر آئے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔