حدثنا يحيى بن موسى حدثناالوليد قال: حدثني ابن جابرقال: حدثني بسر بن عبيد الله الحضرمي قال: حدثني أبو إدريس الخولاني أنه سمعحذيفة بن اليمان يقول: كان الناس يسألون رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الخير وكنت أسأله عن الشر مخافة أن يدركني فقلت: يا رسول الله إنا كنا في جاهلية وشر فجاءنا الله بهذا الخير فهل بعد هذا الخير من شر قال: نعم قلت: وهل بعد ذلك الشر من خير قال: نعم وفيه دخن قلت: وما دخنه قال: قوم يهدون بغير هديي تعرف منهم وتنكر قلت: فهل بعد ذلك الخير من شر قال: نعم دعاة إلى أبواب جهنم من أجابهم إليها قذفوه فيها قلت: يا رسول الله صفهم لنا فقال: هم من جلدتنا ويتكلمون بألسنتنا قلت: فما تأمرني إن أدركني ذلك قال:تلزم جماعة المسلمين وإمامهم قلت: فإن لم يكن لهم جماعة ولا إمام قال: فاعتزل تلك الفرق كلها ولو أن تعض بأصل شجرة حتى يدركك الموت وأنت على ذلك".
(صحیح بخاری و مسلم )
اس حدیث کے آخری جزو میں کہا گیا ہے
اِرشاد فرمایا((( تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ::: مُسلمانوں کی جماعت اور اُن کے اِمام کے ساتھ مضبوطی سے لگے رہو)))،
قُلتُ فإِن لم يَكُنْ لهم جَمَاعَةٌ ولا إِمَامٌ؟::: میں نے عرض کی، اگر (اُس وقت) مُسلمانوں کی کوئی جماعت نہ ہو اور نہ ہی کوئی اِمام (تو میں کیا کروں)،
فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حتى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلىَ ذَلِک::: اُن تمام فرقوں سے بالکل الگ رہنا خواہ تُمہیں(تنہا زندہ رہنے کے لیے)درخت کی جڑ چوسنا پڑے(اِسی طرح اپنا وقت گذارلینا) یہاں تک موت تمہیں آن لے اور تُم اِسی حال میں ہو)))،
@راشد محمود صاحب
آپ کے پروفائل میں یہ حدیث لکھی ہوئی ہے. آپ سے پوچھنا ہے کہ جب آپ کی جماعت رجسٹرڈ ہوئی . اور آپ کے امیر سید مسعود احمد صاحب جماعت المسلمین کو رجسٹرڈ کروا کر اس کے امیر بن گئے. کیا اس وقت کوئی امیر تھا اگر امیر تھا تو کیا سید مسعود صاحب نے ان کی بیعت کی؟ اگر کوئی امیر نہیں تھا حدیث کی روشنی میں ان کو دنیا سے الگ ہو جانا چاہئے تھا. اور اگر چہ ان کو زندہ رہنے کے لئے درخت کی جڑ بھی چوسنا پڑتی.
حدیث میں یہ تو نہیں اگر کوئی امیر نہ ہو تو خود جماعت المسمین بنا کر اس کے امیر بن جائو.
آپ کے سید مسعود احمد صاحب آخر کیوں دنیا سے الگ نہ ہوئے اور کس حدیث کو دیکھتے ہوئے جماعت المسلمین رجسٹرڈ کروا کے خود امیر بن بیٹھے.
(صحیح بخاری و مسلم )
اس حدیث کے آخری جزو میں کہا گیا ہے
اِرشاد فرمایا((( تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ::: مُسلمانوں کی جماعت اور اُن کے اِمام کے ساتھ مضبوطی سے لگے رہو)))،
قُلتُ فإِن لم يَكُنْ لهم جَمَاعَةٌ ولا إِمَامٌ؟::: میں نے عرض کی، اگر (اُس وقت) مُسلمانوں کی کوئی جماعت نہ ہو اور نہ ہی کوئی اِمام (تو میں کیا کروں)،
فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حتى يُدْرِكَكَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلىَ ذَلِک::: اُن تمام فرقوں سے بالکل الگ رہنا خواہ تُمہیں(تنہا زندہ رہنے کے لیے)درخت کی جڑ چوسنا پڑے(اِسی طرح اپنا وقت گذارلینا) یہاں تک موت تمہیں آن لے اور تُم اِسی حال میں ہو)))،
@راشد محمود صاحب
آپ کے پروفائل میں یہ حدیث لکھی ہوئی ہے. آپ سے پوچھنا ہے کہ جب آپ کی جماعت رجسٹرڈ ہوئی . اور آپ کے امیر سید مسعود احمد صاحب جماعت المسلمین کو رجسٹرڈ کروا کر اس کے امیر بن گئے. کیا اس وقت کوئی امیر تھا اگر امیر تھا تو کیا سید مسعود صاحب نے ان کی بیعت کی؟ اگر کوئی امیر نہیں تھا حدیث کی روشنی میں ان کو دنیا سے الگ ہو جانا چاہئے تھا. اور اگر چہ ان کو زندہ رہنے کے لئے درخت کی جڑ بھی چوسنا پڑتی.
حدیث میں یہ تو نہیں اگر کوئی امیر نہ ہو تو خود جماعت المسمین بنا کر اس کے امیر بن جائو.
آپ کے سید مسعود احمد صاحب آخر کیوں دنیا سے الگ نہ ہوئے اور کس حدیث کو دیکھتے ہوئے جماعت المسلمین رجسٹرڈ کروا کے خود امیر بن بیٹھے.