• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حديث کی تحقیق : ایسے دور کی پیشنگوئی جب بیوقوف لوگ علماء پر غالب ہوں گے۔

شمولیت
مئی 20، 2017
پیغامات
269
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
66
السلام عليكم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سوال ہے کہ شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ نے جامعہ ستاریہ اسلامیہ گلشن اقبال کراچی (30 دسمبر 2018ء ) میں ایک درس میں ایک حدیث بیان کی ۔جس میں آخری زمانہ کے بگڑے حالات کے متعلق بتایا گیا کہ : (سُفَهَاؤُهَا عَلَى عُلَمَائِهَا ) کہ اس دور میں بے وقوف لوگ علماء پر غالب آجائیں گے "
شیخ نے اس کی بہت اچھی وضاحت کی ،
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=545733352592826&id=524031808096314

شیخ عبداللہ ناصر حفظہ اللہ نے درس میں جن الفاظ سے یہ حدیث بیان فرمائی ، الفاظ سے اس حدیث کو تلاش کرنے پر درج ذیل الفاظ سے کچھ احادیث سامنے آئیں ،ان احادیث میں سے کون کون سی صحیح ہے؟
مسند احمد میں یہی حدیث تلاش کرنے پر جو حدیث ملی وہ ضعیف ہے. اور " یَقْہَرُ سُفَہَاؤُہَا أَحْلَامَہَا" کے الفاظ کے ساتھ ہے.


وعَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّہُ حَدَّثَہُمْ عَنِ النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم قَالَ: ((ضَافَ ضَیْفٌ رَجُلًا مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ، وَفِی دَارِہِ کَلْبَۃٌ مُجِحٌّ، فَقَالَتِ الْکَلْبَۃُ: وَاللّٰہِ! لَا أَنْبَحُ ضَیْفَ أَہْلِی، قَالَ: فَعَوٰی جِرَاؤُہَا فِی بَطْنِہَا، قَالَ: قِیلَ: مَا ہٰذَا؟ قَالَ: فَأَوْحَی اللّٰہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلٰی رَجُلٍ مِنْہُمْ، ہٰذَا مَثَلُ أُمَّۃٍ تَکُونُ مِنْ بَعْدِکُمْ، یَقْہَرُ سُفَہَاؤُہَا أَحْلَامَہَا۔)) (مسند احمد: ۶۵۸۸)
عبد اللہ بن عمر و بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل میں ایک آدمی دوسرے کے ہاں مہمان ٹھہرا، میزبان کے گھر میں ایک حاملہ کتیا تھی، کتیا نے سوچا، اللہ کی قسم! میں اپنے مالکوں کے مہمان کو نہیں بھونکوں گی۔ اتنے میں اس کے پیٹ کا پلّا مسلسل چیخنے لگ گیا، کسی نے کہا: یہ کیا ہے؟ آپ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک آدمی کی طرف وحی کی کہ یہ اس امت کی مثال ہے، جو تمہارے بعد آئے گی، اس کے بیوقوف لوگ اس کے عقلمندوں پر غالب آ جائیں گے۔

عربی فورم سے یہ تین احادیث ملی ہیں. جو تین مختلف مفہوم دے رہی ہیں:

سُفَهَاؤُهُمْ عَلَى خِيَارِهِمْ ۔۔ يَقْهَرُ سُفَهَاؤُهَا أَحْلَامَهَا ۔۔ سُفَهَاؤُهَا عَلَى عُلَمَائِهَا"..

براہ کرم، صحیح حدیث اور ان مفہومات کی وضاحت کر دیجئے.

أخرج البزار في مسنده - (ج 4 / ص 147) عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:كَانَ قَوْمٌ فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ اسْتَضَافَهُمْ ضَيْفٌ ، وَكَانَ لَهُمْ كَلْبَةٌ مُجِحٌّ ، فَقَالَتِ الْكَلْبَةُ : لاَ أَنْبَحُ ضَيْفَ أَهْلِي اللَّيْلَةَ ، قَالَ : فَعَوَى جِرَاؤُهَا فِي بَطْنِهَا ، فَضَرَبَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم ذَلِكَ لِقَوْمٍ يَكُونُونَ فِي آخِرِ الزَّمَانِ ، يَغْلِبَ *سُفَهَاؤُهُمْ عَلَى خِيَارِهِمْ.* حسن لغيره

*وأخرجه أحمد بن حنبل في مسنده - (ج 13 / ص 337) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّهُ حَدَّثَهُمْ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ضَافَ ضَيْفٌ رَجُلًا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَفِي دَارِهِ كَلْبَةٌ مُجِحٌّ فَقَالَتْ الْكَلْبَةُ وَاللَّهِ لَا أَنْبَحُ ضَيْفَ أَهْلِي قَالَ فَعَوَى جِرَاؤُهَا فِي بَطْنِهَا قَالَ قِيلَ مَا هَذَا قَالَ فَأَوْحَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ هَذَا مَثَلُ أُمَّةٍ تَكُونُ مِنْ بَعْدِكُمْ *يَقْهَرُ سُفَهَاؤُهَا أَحْلَامَهَا.* حسن لغيره

وأخرجه الطبراني في المعجم الكبير - (ج 20 / ص 139) و الرامهرمزى فى أمثال الحديث (1/99 ، رقم 60) عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بن عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّ كَلْبَةً كَانَتْ فِي بني إِسْرَائِيلَ مُجِحًّا، فَضَافَ أَهْلَهَا ضَيْفٌ، فَقَالَتْ: لا أَنْبَحُ ضَيْفَنَا اللَّيْلَةَ، فَعَوَى جِرَاؤُهَا فِي بَطْنِهَا، فَأُوحِيَ إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ: إِنَّ مَثَلَ هَذِهِ الْكَلْبَةِ مَثَلُ أُمَّةٍ يَأْتُونَ مِنْ بَعْدِكُمْ، *تَسْتَعْلِي سُفَهَاؤُهَا عَلَى عُلَمَائِهَا"*. حسن لغيره

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور بغية الرائد فى تحقيق مجمع الزوائد ( جلداول ص437 ) میں ہے :
https://archive.org/stream/FPbrmz/brmz01#page/n436/mode/2up

حدیث جب بے وقوف لوگ علماء پر غالب آئیں گے.jpg
 

اٹیچمنٹس

Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام عليكم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
سوال ہے کہ شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ نے جامعہ ستاریہ اسلامیہ گلشن اقبال کراچی (30 دسمبر 2018ء ) میں ایک درس میں ایک حدیث بیان کی ۔جس میں آخری زمانہ کے بگڑے حالات کے متعلق بتایا گیا کہ : (سُفَهَاؤُهَا عَلَى عُلَمَائِهَا ) کہ اس دور میں بے وقوف لوگ علماء پر غالب آجائیں گے "
شیخ نے اس کی بہت اچھی وضاحت کی ،
شیخ عبداللہ ناصر حفظہ اللہ نے درس میں جن الفاظ سے یہ حدیث بیان فرمائی ، الفاظ سے اس حدیث کو تلاش کرنے پر درج ذیل الفاظ سے کچھ احادیث سامنے آئیں ،ان احادیث میں سے کون کون سی صحیح ہے؟
مسند احمد میں یہی حدیث تلاش کرنے پر جو حدیث ملی وہ ضعیف ہے. اور " یَقْہَرُ سُفَہَاؤُہَا أَحْلَامَہَا" کے الفاظ کے ساتھ ہے.
جواب :

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
پہلی بات تو یہ واضح ہو کہ اس مذکورہ واقعہ کے بیان میں یہ ایک ہی حدیث ہے ،جس میں مختلف راویوں کی وجہ سےمتن کے الفاظ میں کچھ فرق ہے ؛ تاہم اصل بات ایک ہی ہے، صحابہ کرام میں اس واقعہ اور حدیث کے صرف ایک ہی صحابی جناب عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ اس کے راوی ہیں ،اور ان سے نیچے جناب سائبؒ اور ان کے نیچے ان کے صاحبزادے جناب عطاء بن سائبؒ ہیں ،ان سے نیچے کے راوی بدلتے ہیں ، عطاء سے اس حدیث کو کئی رواۃ نے سنا اور آگے بیان کیا ہے ،(1) ابو عوانہ ،جن کی روایت مسند احمد میں ہے (2)ابو حمزہ السکری ،جن کی روایت مسند البزار میں ہے (3) شعیب بن صفوان ،جن کی روایت المعجم الاوسط طبرانی میں ہے (4)جریر ،جن کی روایت الادب المفرد میں ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے جن حضراات ائمہ ؒنے روایت کیا :
امام احمدؒ نے مسند (6588) میں اور امام بخاریؒ نے " الادب المفرد ( 474 )، اور امام طبرانیؒ نے "المعجم الاوسط ( 5609 ) ،اور امام ابوبکر البزارؒ نے مسند میں بنی اسرائیل کے ایک گھر کے مہمان اور اس گھرکی کتیا کا واقعہ روایت کیا ہے ۔۔۔۔
مسند میں امام احمد ؒ کی روایت کے الفاظ ہیں :​
حدثنا يحيى بن حماد، حدثنا أبو عوانة، عن عطاء بن السائب، عن أبيه، عن عبد الله بن عمرو، أنه حدثهم عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ضاف ضيف رجلا من بني إسرائيل، وفي داره كلبة مجح، فقالت الكلبة: والله لا أنبح ضيف أهلي، قال: فعوى جراؤها في بطنها، قال: قيل ما هذا؟ قال: فأوحى الله عز وجل إلى رجل منهم (1) : هذا مثل أمة تكون من بعدكم، يقهر سفهاؤها حلماءها "
ترجمہ :
سیدناعبداللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کے کسی شخص کے یہاں ایک مہمان آیا ، میزبان کے گھر میں ایک کتیا جو عنقریب بچے جننے والی تھی ،وہ کتیا کہنے لگی کہ میں اپنے مالک کے مہمان کے سامنے نہیں بھونکوں گی ، اتنی دیر میں اس کے پیٹ میں موجود پلے نے بھونکنا شروع کسی نے کہا یہ کیا ؟ اس پر اللہ نے ان میں سے ایک بندے (یعنی اس زمانے کے نبی ) پر وحی بھیجی کہ یہ تمہارے بعد آنے والی اس امت کی مثال ہے جس کے بیوقوف لوگ عقلمندوں پر غالب آجائیں گے۔
(الفتح الرباني لترتيب مسند الإمام أحمد بن حنبل الشيباني ،جلد 23 ص29 )

قال الهيثمي في المجمع ،کتاب الفتن 12206 (7/ 280) رواه أحمد والبزار والطبراني، وفيه عطاء بن السائب وقد اختلط "
وضعفه الألباني في ضعيف الجامع (3583)، ويقول في الضعيفة جلد 8 ص281 حدیث (3812 ) قلت: وهذا إسناد ضعيف، رجاله ثقات؛ لولا أن عطاء بن السائب كان قد اختلط، وقد سمع منه أبو عوانة قبل وبعد الاختلاط، فلا يحتج بحديثه كما قال ابن معين "

ترجمہ :
علامہ ہیثمیؒ فرماتے ہیں : اس میں عطاء بن سائب واقع ہے جو اختلاط کا مرض میں مبتلا ہوگیا تھا ۔اور علامہ البانیؒ کہتے ہیں :یعنی اس کی اسناد ضعیف ہے ،اس کے راوی تو ثقہ ہیں ، لیکن ایک راوی عطاء بن السائب اختلاط کا شکار ہیں ،اور ابو عوانہ نے ان سے اختلاط سے قبل بھی احادیث سنی ہیں اور اختلاط کے بعد بھی ، تو ابو عوانہ کی عطاء سے مروی احادیث حجت نہیں ،جیسا کہ امام ابن معینؒ نے فرمایا ہے ۔
اور کشف الاستار جلد 4 ص132 دیکھئے :
https://archive.org/stream/waqkazb/kazb4#page/n132/mode/2up

مسند احمد کی تحقیق میں علامہ شعیب ارناؤط اس کے ذیل میں لکھتے ہیں :
إسناده ضعيف، أبو عوانة -وهو وضاح اليشكري- سمع من عطاء قبل الاختلاط وبعده، وكان لا يعقل ذا من ذا، فقال ابنُ معين: لا يحتج بحديثه، وباقي رجاله ثقات غير عطاء. يحيى بن حماد: هو الشيباني، والسائب -والد عطاء- هو ابن مالك، أو ابن زيد.
وأخرجه البزار (3372) من طريق أبي حمزة السكري، عن عطاء، به، ولم يذكروه فيمن سمع منه قبل الاختلاط.
وأورده الهيثمي في موضعين في "المجمع" 1/183 و7/280، وقال في الأول: رواه الطبراني في "الأوسط"، وفيه شعيب بن صفوان، وثقه ابنُ حبان، وضعفه يحيى، وعطاء بن السائب قد اختلط.
وقال في الموضع الثاني: رواه أحمد والبزار والطبراني، وفيه عطاء بن السائب، وقد اختلط.
قوله: "حلماءها"، وقع في (س) و (ق) : أحلامها، وكلاهما بمعنى، يُقال: رجل حليم من قوم أحلام وحلماء. "اللسان".
قوله:" كلبة مُجح" بضم الميم، ثم جيم مكسورة، ثم حاء مهملة مشددة: هي الحامل التي قرُبت ولادتها.

علامہ ارناؤط کے کلام کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کا راوی عطا بن السائب اختلاط کا شکار ہوگیا تھا ،اس کے شاگردوں نے اس سے یہ حدیث اس کے مختلط ہونے سے پہلے سنی تھی یا اختلاط ہونے کے بعد اس کا علم نہیں ہوسکا ،اس لئے یہ حدیث باقی تمام رواۃ کے ثقہ ہونے کے باوجود ضعیف ہے ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
اور امام أبو بكر أحمد بن عمرو المعروف بالبزار (المتوفى: 292هـ) روایت کرتے ہیں کہ :​
حدثنا القاسم بن محمد المروزي، قال: أخبرنا عبد الله بن عثمان، قال: أخبرنا أبو حمزة السكري، عن عطاء بن السائب، عن أبيه، عن عبد الله بن عمرو رفعه، قال: " كان قوم في بني إسرائيل استضافهم ضيف، وكان لهم كلبة مجح فقالت الكلبة: لا أنبح ضيف أهلي الليلة، قال: فعوى جراؤها في بطنها فضرب النبي صلى الله عليه وسلم ذلك لقوم يكونون في آخر الزمان يغلب سفهاؤهم على خيارهم "
ترجمہ :
سیدناعبد اللہ بن عمر و بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے مرفوعاً یعنی نبی اکرم ﷺ کا ارشاد نقل کیا ،آپ نے فرمایا: ایک آدمی بنی اسرائیل کے کچھ لوگوں کے ہاں مہمان ٹھہرا، میزبانوں کے ہاں ایک حاملہ کتیا تھی، کتیا نے کہا کہ آج رات میں اپنے مالکوں کے مہمان کو نہیں بھونکوں گی۔ اتنے میں اس کے پیٹ کا پلّا چیخنے لگ گیا، (یہ واقعہ بتاکر ) رسول اللہ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وسلم نے فرمایا: یہ ان لوگوں کی مثال ہے، جو آخری زمانے میں آئیں گے، ان کے بیوقوف لوگ عقلمندوں پر غالب آ جائیں گے۔
(مسند البزار ،حدیث 2412 )
https://archive.org/stream/FP76632/06_bzmb#page/n389/mode/2up

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب آپ کے سامنے مسند احمد اور مسند البزار دونوں کی روایات کے متون موجود ہیں
اختلاط کا نتیجہ واضح ہے کہ مسند احمد کی روایت میں آخری جملے بنی اسرائیل کے نبی کے تھے ،اور مسند البزارؒ میں روایت کے آخری الفاظ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائےجارہے ہیں !

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختلاط: حافظہ کمزور اور خراب ہونے کو کہتے ہیں۔
مختلط: جو راوی اختلاط کا شکار ہو جائے تو اسے مختلط راوی کہتے ہیں۔
مختلط راوی کی اختلاط کے بعد والی روایات ضعیف ہوتی ہیں ۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
(سُفَهَاؤُهَا عَلَى عُلَمَائِهَا ) کہ اس دور میں بے وقوف لوگ علماء پر غالب آجائیں گے "[/QUOTEE]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور شیخ عبداللہ ناصر حفظہ اللہ نے اپنے درس میں (حلماء ) کی جگہ جو (علماء )پڑھا اس کی وجہ یہ کہ درس کے وقت ان کے ذہن میں اس واقعہ کے وہ الفاظ تھے جن الفاظ سے الادب المفرد میں امام بخاری ؒ نے اسی واقعہ کو موقوفاً ان الفاظ سے روایت کیا ہے :
حدثنا قتيبة قال: حدثنا جرير، عن عطاء، عن أبيه، عن عبد الله بن عمرو قال: نزل ضيف في بني إسرائيل، وفي الدار كلبة لهم، فقالوا: يا كلبة، لا تنبحي على ضيفنا فصحن الجراء في بطنها، فذكروا لنبي لهم فقال: إن مثل هذا كمثل أمة تكون بعدكم، يغلب سفهاؤها علماءها
[قال الشيخ الألباني] : ضعيف موقوفا وروي مرفوعا

ترجمہ : عبد اللہ بن عمر و بن عاص ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ نے فرمایا: ایک آدمی بنی اسرائیل کے ہاں مہمان ٹھہرا، میزبانوں کے ہاں ایک حاملہ کتیا تھی، گھر والوں نے کتیا سے کہاکہ ہمارے مہمان کو نہیں بھونکنا۔ اتنے میں اس کے پیٹ کا پلا چیخنے لگ گیا، ان لوگوں نے یہ واقعہ اپنے نبی کو بتایا ،تو اس نبی نے فرمایا: یہ ایک امت لوگوں کی مثال ہے، جو تمہارے بعد آئیں گے ، ان کے بیوقوف لوگ علماء پر غالب آ جائیں گے۔"
شیخ البانیؒ فرماتے ہیں کہ یہ موقوف اور ضعیف ہے "​
 
Last edited:
Top