• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عرش عظیم اور محدثین کا غلو

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
یہ تحقیق یہاں سے لی گئی ہے

http://www.islamic-belief.net/عرش-عظیم-اور-محدثین-کا-غلو/


[/CENTER]
تحقیق درکار ہے





قرآن کی سوره بنی اسرائیل کی آیت ہے

عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا


ہو سکتا ہے کہ اپ کا رب اپکو مقام محمود پر مبعوث کرے


بخاری کی حدیث میں ہے کہ یہ روز قیامت ہو گا جب نبی صلی الله علیہ وسلم الله سے دعا کریں گے جو ان کی نبی کی حثیت سے وہ خاص دعا ہے جو رد نہیں ہوتی اور تمام انبیاء اس کو کر چکے سوائے نبی صلی الله علیہ وسلم کے

پس بخاری کی حدیث میں اتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم سجدہ میں دعا کریں گے. رب تعالی کہے گا

ثم يقول ارفع محمد، وقل يسمع، واشفع تشفع، وسل تعطه


محمد اٹھو ، کہو سنا جائے گا ، شفاعت کرو قبول ہو گی، مانگو ، دیا جائے گا





نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا

وهذا المقام المحمود الذي وعده نبيكم صلى الله عليه وسلم


اور یہ وہ مقام محمود ہے جس کا تمھارے نبی صلی الله علیہ وسلم سے وعدہ کیا گیا ہے


معلوم ہوا کہ یہ قدر و منزلت کا مقام ہے

ظالموں نے یہ بات تک بیان کی ہے کہ الله عرش پر نبی صلی الله علیہ وسلم کو بٹھائے گا افسوس صوفیوں کو برا کہنے والے اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں
الله تعالی نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا نعوذباللہ

ابن أبي يعلى کتاب الاعتقاد میں لکھتے ہیں

وقال ابن عمير: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل وسئل عن حديث مجاهد: ” يُقعد محمداً على العرش “. فقال: قد تلقته العلماء بالقبول، نسلم هذا الخبر كما جاء


ابن عمیر کہتے ہیں انہوں نے احمد بن حنبل کو سنا ان سے مجاہد کی حدیث پر سوال ہوا کہ محمد کو عرش پر بٹھایا جائے گا پس انہوں نے کہا علماء نے اس کو قبولیت دی ہے ہم اس خبر کو جیسی آئی ہے مانتے ہیں



کتاب الاعتقاد از ابن أبي يعلى میں ابن حارث کہتے ہیں

وقال ابن الحارث: ” نعم يقعد محمدا على العرش” وقال عبد الله بن أحمد: “وأنا منكر على كل من رد هذا الحديث”.


ابن حارث کہتے ہیں ہاں عرش پر محمّد کو الله بٹھائے گا اور عبدللہ بن احمد کہتے ہیں میں ہر اس شخص کا انکار کرتا ہوں جو اس حدیث کو رد کرے



کتاب السنہ از ابو بکر الخلال میں ہے کہ

قَالَ أَبُو قِلَابَةَ: لَا يَرُدُّ هَذَا إِلَّا أَهْلُ الْبِدَعِ وَالْجَهْمِيَّةُ


ابو قلابہ نے کہا کہ اس کو سوائے اہل بدعت اور جھمیہ کے کوئی رد نہیں کرتا

یہ سراسر عیسائی عقیدہ ہے کہ عیسیٰ وفات کے بعد الله کے ساتھ عرش پر بیٹھا ہے مسلمانوں میں بھی یہ غلو
در کر آیا ہے


سعودی مفتی ابن باز کے استاد اور سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر علامہ محمد بن ابراہیم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ مقام محمود سے شفاعت عظمیٰ اور عرش پر بٹھایا جانا دونوں ہی مراد ہیں اور ان میں کوئی تضاد نہیں وہ اس کو اہل سنت کا قول بھی کہتے ہیں

قيل الشفاعة العظمى، وقيل إِنه إِجلاسه معه على العرش كما هو المشهور من قول أَهل السنة

فتاوى ورسائل سماحة الشيخ محمد بن إبراهيم بن عبد اللطيف آل الشيخ

جلد2 ، ص136


دوسرے عالم محمّد صالح المنجد اس پر لکھتے ہیں

لیکن المنجد صاحب کی یہ بات صرف اس پر مبنی ہے کہ امام احمد فضائل کی وجہ سے مجاہد کا قول رد نہیں کرتے تھے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ باقی لوگ اس کو احمد کا عقیدہ بھی کہتے ہیں دوئم ابن تیمیہ کے پاس کیا سند ہے کہ یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں تھا انہوں نے صرف حسن ظن کی بنیاد پر اس کو رد کیا ہے


الذھبی کتاب العلو میں لکھتے ہیں

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرش پر براجمان ہونے کے بارے میں کوئی نص ثابت نہیں ہے، بلکہ اس بارے میں ایک واہی حدیث ہے


العلو 2/1081، رقم/422

میزان الاعتدال میں الذھبی، مجاهد بن جبر المقرئ المفسر، أحد الاعلام الاثبات کے ترجمے میں کہتے ہیں

ومن أنكر ما جاء عن مجاهد في التفسير في قوله : عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا – قال: يجلسه معه على العرش


تفسیر میں مجاہد سے منقول جس قول کو “منکر” کہا گیا ہے وہ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} فرمانِ باری تعالی کی تفسیر میں انہوں نے کہا ہے کہ : اللہ تعالی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بیٹھائے گا



الطبری تفسیر ج ١٥ ص ٥١ میں آیت عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا کی شرح میں مجاہد کے قول پر لکھتے ہیں

فَإِنَّ مَا قَالَهُ مُجَاهِدٌ مِنْ أَنَّ اللَّهَ يُقْعِدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَرْشِهِ، قَوْلٌ غَيْرُ مَدْفُوعٍ صِحَّتُهُ، لَا مِنْ جِهَةِ خَبَرٍ وَلَا نَظَرٍ


پس جو مجاہد نے کہا ہے کہ الله تعالی محمد صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا وہ قول صحت پر نہیں نہ خبر کے طور سے نہ (نقد و) نظر کے طور سے



مجاہد کے اس شاذ قول کو امام احمد اور ان کے بیٹے ایمان کا درجہ دیتے تھے

ابو بکر الخلال المتوفی ٣١١ ھ کتاب السنہ میں لکھتے ہیں کہ امام ابو داود بھی مجاہد کے اس شاذ قول کو پسند کرتے تھے اور لوگ ترمذی پر جرح کرتے تھے

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ ” وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مَنْزِلَتُهُ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَكْثَرَ مِنْ هَذَا، وَمَنْ رَدَّ عَلَى مُجَاهِدٍ مَا قَالَهُ مِنْ قُعُودِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْعَرْشِ وَغَيْرَهُ، فَقَدْ كَذَبَ، وَلَا أَعْلَمُ أَنِّي رَأَيْتُ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي يُنْكِرُ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ قَطُّ فِي حَدِيثٍ وَلَا غَيْرِ حَدِيثٍ. وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ السِّجِسْتَانِيُّ: أَرَى أَنْ يُجَانَبَ كُلُّ مَنْ رَدَّ حَدِيثَ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ: يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ “، وَيُحَذَّرُ عَنْهُ، حَتَّى يُرَاجِعَ الْحَقَّ، مَا ظَنَنْتُ أَنَّ أَحَدًا يُذَكِّرُ بِالسُّنَّةِ يَتَكَلَّمُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ إِلَّا إِنَّا عَلِمْنَا أَنَّ الْجَهْمِيَّةَ


هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ نے سے انہوں نے ابْنِ فُضَيْلٍ سے انہوں نے لَيْثٍ سے انہوں نے مجاہد سے کہا ان (محمّد) کو عرش پر بٹھائے گا اور میں امید کرتا ہوں کہ الله تعالی کے پاس ان کی منزلت اس سے بھی بڑھ کر ہے اور جو مجاہد کے اس قول کو رد کرے اس نے جھوٹ بولا اور میں نے نہیں دیکھا کہ التِّرْمِذِيَّ کے علاوہ کسی نے اس کو رد کیا ہو اور (سنن والے امام) ابو داود کہتے ہیں کہ جو لیث کی مجاہد سے حدیث رد کرے اس سے دور رہو اور بچو حتی کہ حق پر ا جائے اور میں گمان نہیں رکھتا کہ کسی اہل سنت نے اس میں کلام کیا ہو سواۓ الْجَهْمِيَّةَ کے

 
Last edited by a moderator:

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

وَقَالَ هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ: جَاءَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ الرَّادَّ لِفَضِيلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْتَجُّ بِكَ، فَقَالَ: كَذَبَ عَلَيَّ، وَذَكَرَ الْأَحَادِيثَ فِي ذَلِكَ، فَقُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ: اكْتُبْهَا لِي، فَكَتَبَهَا بِخَطِّهِ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» ، فَحَدَّثْتُ بِهِ أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ يُحَدِّثُ بِهِ، فَلَمْ يُقَدِّرْ لِي أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْهُ، فَقَالَ هَارُونُ: فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ أُخْبِرْتُ عَنْ أَبِيكَ أَنَّهُ كَتَبَهُ عَنْ رَجُلٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، فَقَالَ: نَعَمْ، قَدْ حَكَوْا هَذَا عَنْهُ


اور هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ کہتے ہیں میرے پاس عبد الله بن احمد (المتوفی ٢٩٠ ھ) آئے میں نے ان سے کہا یہ جوالتِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت کا منکر ہے کیا اپ اس سے روایت لیتے ہیں پس انہوں نے کہا مجھ پر جھوٹ بولتا ہے اور احادیث ذکر کیں پس میں نے عبدللہ سے کہا میرے لئے لکھ دیں سو انہوں نے وہ لکھ دیں (پھر مجاہد کی حدیث بیان کی) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» پس میں نے اپنے باپ (احمد بن حنبل) سے اس پر سوال کیا انہوں نے کہا ایسا محمّد بن فُضَيْلٍ نے روایت کیا ہے لیکن میں نے ان سے خود نہیں سنا اس پر ہارون نے کہا اپ کے باپ نے ایک شخص سے اس نے ابن فُضَيْلٍ سے سنا تھا عبدللہ بن احمد نے کہا ہاں وہ ایسا ہی کہتے تھے



ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں


حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، ثَنَا أَبُو الْهُذَيْلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُجْلِسُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ» ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: سَمِعْتُ هَذَا الْحَدِيثَ مِنْ جَمَاعَةٍ، وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ الْمُحَدِّثِينَ يُنْكِرُهُ، وَكَانَ عِنْدَنَا فِي وَقْتٍ مَا سَمِعْنَاهُ مِنَ الْمَشَايِخِ أَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ إِنَّمَا تُنْكِرُهُ الْجَهْمِيَّةُ، وَأَنَا مُنْكَرٌ عَلَى كُلِّ مَنْ رَدَّ هَذَا الْحَدِيثَ، وَهُوَ مُتَّهِمٌ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ


ابو مَعْمَرٍ نے أَبُو الْهُذَيْلِ سے انہوں نے محمّد بن فُضَيْلٍ سے انہوں نے لیث سے انہوں نے مجاہد سے کہا عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] کہا ان کو عرش پر بٹھائے گا. عبد اللہ (بن احمد) نے کہا میں نے اس حدیث کو ایک جماعت سے سنا ہے اور میں نے محدثین میں سے کسی کو نہیں دیکھا جو اس کو رد کرتا ہو اور ہم اپنے الْمَشَايِخِ سے سنتے رہے ہیں کہ اس کو سوائے الْجَهْمِيَّةُ کے کوئی رد نہیں کرتا اور میں ہر اس شخص کا منکر ہوں جو اس حدیث کو رد کرے


ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں


وَقَدْ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي تَرُدُّهَا الْجَهْمِيَّةُ فِي الصِّفَاتِ، وَالرُّؤْيَةِ، وَالْإِسْرَاءِ، وَقِصَّةِ [ص:247] الْعَرْشِ، فَصَحَّحَهَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ، وَقَالَ: ” قَدْ تَلَقَّتْهَا الْعُلَمَاءُ بِالْقَبُولِ، نُسَلِّمُ الْأَخْبَارَ كَمَا جَاءَتْ


اور بے شک أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ نے روایت کیا انہوں نے امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) سے سوال کیا کہ ان احادیث پر جن کو الْجَهْمِيَّةُ رد کرتے ہیں یعنی الصِّفَاتِ، وَالرُّؤْيَةِ، وَالْإِسْرَاءِ، وَقِصَّةِ [ص:247] الْعَرْشِ، وغیرہ کی پس ابو عبد اللہ نے ان کو صحیح قرار دیا اور کہا علماء نے ان کو قبول کیا ہے ہم ان کو تسلیم کرتے ہیں جیسی آئی ہیں


کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى:458هـ) کے مطابق الْمَرُّوذِيُّ نے اس پر باقاعدہ ایک کتاب بنام كتاب الرد عَلَى من رد حديث مجاهد مرتب کی تھی

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں


وَأَخْبَرَنَا أَبُو بَكْرٍ الْمَرُّوذِيُّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: قَالَ مُجَاهِدٌ: «عَرَضْتُ الْقُرْآنَ عَلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ» [ص:224]. قَالَ أَبُو بَكْرٍ الْخَلَّالُ: قَرَأْتُ كِتَابَ السُّنَّةِ بِطَرَسُوسَ مَرَّاتٍ فِي الْمَسْجِدِ الْجَامِعِ وَغَيْرِهِ سِنِينَ، فَلَمَّا كَانَ فِي سَنَةِ اثْنَتَيْنِ وَتِسْعِينَ قَرَأْتُهُ فِي مَسْجِدِ الْجَامِعِ، وَقَرَأْتُ فِيهِ ذِكْرَ الْمَقَامِ الْمَحْمُودِ، فَبَلَغَنِي أَنَّ قَوْمًا مِمَّنْ طُرِدَ إِلَى طَرَسُوسَ مِنْ أَصْحَابِ التِّرْمِذِيِّ الْمُبْتَدِعِ أَنْكَرُوهُ، وَرَدُّوا فَضِيلَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَظْهَرُوا رَدَّهُ فَشَهِدَ عَلَيْهِمُ الثِّقَاتُ بِذَلِكَ فَهَجَرْنَاهُمْ، وَبَيَّنَا أَمْرَهُمْ، وَكَتَبْتُ إِلَى شُيُوخِنَا بِبَغْدَادَ، فَكَتَبُوا إِلَيْنَا هَذَا الْكِتَابَ، فَقَرَأْتُهُ بِطَرَسُوسَ عَلَى أَصْحَابِنَا مَرَّاتٍ، وَنَسَخَهُ النَّاسُ، وَسَرَّ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَهْلَ السُّنَّةِ، وَزَادَهُمْ سُرُورًا عَلَى مَا عِنْدَهُمْ مِنْ صِحَّتِهِ وَقَبُولِهِمْ


اور ابو بکر المروزی نے خبر دی انہوں نے امام احمد سے سنا کہ مجاہد نے کہا میں نے قرآن کو ابن عباس پر تین دفعہ پیش کیا ابن بکر الخلال کہتے ہیں میں نے کتاب السنہ کو مسجد الجامع میں طَرَسُوسَ میں پڑھا پس جب سن ٢٩٢ ھ آیا اور مقام محمود کے بارے میں پڑھا پتا چلا کہ ترمذی کے مبتدعی اصحاب اس کا انکار کرتے ہیں اور رسول الله کی فضیلت کے انکاری ہیں اور اس پر ثقات نے شہادت دی لہذا اس کو برا کہا اور مسئلہ واضح کیا اور اپنے شیوخ کو بغداد لکھ بھیجا پس انہوں نے جواب بھیجا جس کوطَرَسُوسَ میں اپنے اصحاب کو سنایا اور وہ سن کر خوش ہوئے اس کی قبولیت پر


معلوم ہوا کہ امام ترمذی کے مبتدعی اصحاب اس عقیدے کے انکاری تھے اور علماء بغداد اس کے اقراری

ابو بکر الخلال نے کتاب السنہ میں ترمذی کو کبھی الْعَجَمِيُّ التِّرْمِذِيُّ کہا اور کبھی الْجَهْمِيَّ الْعَجَمِيَّ بھی کہا اور کہتے ہیں

علی بن داود کہتے ہیں


أَمَّا بَعْدُ: فَعَلَيْكُمْ بِالتَّمَسُّكِ بِهَدْيِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَإِنَّهُ إِمَامُ الْمُتَّقِينَ لِمَنْ بَعْدَهُ، وَطَعْنٌ لِمَنْ خَالَفَهُ، وَأَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الَّذِي طَعَنَ عَلَى مُجَاهِدٍ بِرَدِّهِ فَضِيلَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُبْتَدَعٌ، وَلَا يَرُدُّ حَدِيثَ مُحَمَّدِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ عَنْ مُجَاهِدٍ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: يُقْعِدُهُ مَعَهُ عَلَى الْعَرْشِ «إِلَّا جَهْمِيُّ يُهْجَرُ، وَلَا يُكَلَّمُ وَيُحَذَّرُ عَنْهُ، وَعَنْ كُلِّ مَنْ رَدَّ هَذِهِ الْفَضِيلَةَ وَأَنَا أَشْهَدُ عَلَى هَذَا التِّرْمِذِيِّ أَنَّهُ جَهْمِيُّ خَبِيثٌ


اما بعد تمھارے لئے امام احمد بن حنبل کی ہدایت ہے جو امام المتقین ہیں بعد والوں کے لئے اور اس پر طعن کرو جو ان کی مخالفت کرے اور بے شک یہ ترمذی جو مجاہد پر طعن کرتا ہے اس فضیلت والی حدیث پر….. وہ مبتد عی ہے اور اس روایت کو سوائے الجہمی کے کوئی رد نہیں کرتا اس کو برا کہو اس سے کلام نہ کرو اس سے دور رہو اور میں گواہی دیتا ہوں یہ ترمذی جھمی خبیث ہے



واضح رہے کہ امام ترمذی اور امام احمد کا سن ٢٩٢ ھ سے پہلے انتقال ہو چکا ہے اور یہ جھگڑا ان دونوں کی وفات کے بعد کا ہے

امام احمد اس عرش پر بٹھائے جانےکے بدعتی عقیدے والوں کے امام تھے ابو بکر الخلال کی کتاب السنہ میں ہے کہ محمد بن یونس البصری کہتے ہیں


فَمَنْ رَدَّ هَذِهِ الْأَحَادِيثَ، أَوْ طَعَنَ فِيهَا فَلَا يُكَلَّمُ، وَإِنْ مَاتَ لَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِ، وَقَدْ صَحَّ عِنْدَنَا أَنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ تَكَلَّمَ فِي هَذِهِ الْأَحَادِيثِ الَّتِي يَحْتَجُّ بِهَا أَهْلُ السُّنَّةِ، وَهَذَا رَجُلٌ قَدْ تَبَيَّنَ أَمْرُهُ، فَعَلَيْكُمْ بِالسُّنَّةِ وَالِاتِّبَاعِ، وَمَذْهَبِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَهُوَ الْإِمَامُ يُقْتَدَى بِهِ


پس جو اس حدیث کو رد کرے اور اس طعن کرے اس سے کلام نہ کرو اور اگر مر جائے تو جنازہ نہ پڑھو اور یہ ہمارے نزدیک صحیح ہے کہ یہ ترمذی اس پر کلام کرتا ہے جس سے اہل سنت احتجاج کرتے ہیں اور اس شخص پر مسئلہ واضح کیا گیا پس تمھارے لئے سنت اور اسکا اتباع ہے اور ابو عبدللہ امام احمد بن حنبل کا مذبب ہے جو امام ہیں جن کا اقتدہ کیا جاتا ہے



کتاب إبطال التأويلات لأخبار الصفات از القاضي أبو يعلى ، محمد بن الحسين بن محمد بن خلف ابن الفراء (المتوفى :458هـ) کے مطابق


وَذَكَرَ أَبُو عبد اللَّه بْن بطة فِي كتاب الإبانة، قَالَ أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد: لو أن حالفا حلف بالطلاق ثلاثا أن اللَّه تَعَالَى: يقعد محمدا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ معه عَلَى العرش


اور ابو عبدللہ بن بطة نے کتاب الإبانة میں ذکر کیا کہ أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد نے کہا اگر میں قسم لو تو تین طلاق کی قسم لوں (اگر ایسا نہ ہو) کہ بے شک الله تعالی ، محمّد صلی الله علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا


مشھور امام أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي (المتوفى: 360هـ) کتاب الشريعة لکھتے ہیں


قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ رَحِمَهُ اللَّهُ: وَأَمَّا حَدِيثُ مُجَاهِدٍ فِي فَضِيلَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَتَفْسِيرُهُ لِهَذِهِ الْآيَةِ: أَنَّهُ يُقْعِدُهُ [ص:1613] عَلَى الْعَرْشِ , فَقَدْ تَلَقَّاهَا الشُّيُوخُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَالنَّقْلِ لِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , تَلَقَّوْهَا بِأَحْسَنِ تَلَقٍّ , وَقَبِلُوهَا بِأَحْسَنِ قَبُولٍ , وَلَمْ يُنْكِرُوهَا , وَأَنْكَرُوا عَلَى مَنْ رَدَّ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ إِنْكَارًا شَدِيدًا وَقَالُوا: مَنْ رَدَّ حَدِيثَ مُجَاهِدٍ فَهُوَ رَجُلُ سُوءٍ قُلْتُ: فَمَذْهَبُنَا وَالْحَمْدُ لِلَّهِ قَبُولُ مَا رَسَمْنَاهُ فِي هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ مِمَّا تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهُ , وَقَبُولُ حَدِيثِ مُجَاهِدٍ , وَتَرْكُ الْمُعَارَضَةِ وَالْمُنَاظَرَةِ فِي رَدِّهِ , وَاللَّهُ الْمُوَفِّقُ لِكُلِّ رَشَادٍ وَالْمُعِينُ عَلَيْهِ , وَقَدْ حَدَّثَنَاهُ جَمَاعَةٌ


الآجُرِّيُّ کہتے ہیں جہاں تک مجاہد کی نبی صلی الله علیہ وسلم کی تفضیل سے متعلق روایت ہے تو وہ اس آیت کی تفسیر ہے کہ بے شک ان کو عرش پر بٹھایا جائے گا اس کو اہل علم اور حدیث کو نقل کرنے والے لوگوں (یعنی محدثین) کے شیوخ نے قبول کیا ہے بہت بہترین انداز سے اور حسن قبولیت دیا ہے اور انکار نہیں کیا ہے بلکہ ان کا انکار کیا ہے جو مجاہد کی حدیث کو رد کریں شدت کے ساتھ اور کہا ہے کہ جو مجاہد کی حدیث قبول نہ کرے وہ برا آدمی ہے میں کہتا ہوں پس ہمارا مذھب یہی ہے الحمدللہ …..جو ایک جماعت نے روایت کیا ہے



الآجُرِّيُّ کی اس بات سے ظاہر ہے کہ جب ابن تیمیہ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے انکے من پسند اہل علم مجاہد کے اس قول کو قبولیت کا درجہ دے چکے تھے

أبو بكر محمد بن الحسين بن عبد الله الآجُرِّيُّ البغدادي، سنن ابی داود کے مولف امام ابو داود کے بیٹے أبوبكر بن أبي داود عبدالله بن سليمان بن الأشعث السجستاني (ت316هـ) کے شاگرد ہیں

آٹھویں صدی میں جا کر الذھبی اور ابن تیمیہ کے دور میں علماء کا ماتھا اس روایت پر ٹھنکا اور اس کا انکار کیا گیا اسی وجہ سے الذھبی نے کتاب العلو للعلي الغفار في إيضاح صحيح الأخبار وسقيمها میں اس کا رد کیا اور ابن تیمیہ نے بھی رد کیا لیکن الذھبی نے یہ مانا کہ امام ابو داود اس کو تسلیم کرتے تھے دوسری طرف ابو بکر الخلال کی کتاب السنہ سے واضخ ہے امام ابوداود اور ان کے استاد امام احمد دونوں اس قول کو مانتے تھے

ابن قیم کتاب بدائع الفوائد میں لسٹ دیتے ہیں جو اس عقیدے کو مانتے ہیں جن میں امام دارقطنی بھی ہیں اور اشعار لکھتے ہیں


قال القاضي: “صنف المروزي كتابا في فضيلة النبي صلى الله عليه وسلم وذكر فيه إقعاده على العرش” قال القاضي: “وهو قول أبي داود وأحمد بن أصرم ويحيى بن أبي طالب وأبى بكر بن حماد وأبى جعفر الدمشقي وعياش الدوري وإسحاق بن راهوية وعبد الوهاب الوراق وإبراهيم الأصبهإني وإبراهيم الحربي وهارون بن معروف ومحمد بن إسماعيل السلمي ومحمد بن مصعب بن العابد وأبي بن صدقة ومحمد بن بشر بن شريك وأبى قلابة وعلي بن سهل وأبى عبد الله بن عبد النور وأبي عبيد والحسن بن فضل وهارون بن العباس الهاشمي وإسماعيل بن إبراهيم الهاشمي ومحمد بن عمران الفارسي الزاهد ومحمد بن يونس البصري وعبد الله ابن الإمام والمروزي وبشر الحافي”. انتهى.


ابن قیم امام دارقطنی کے اس عقیدے کے حق میں اشعار بھی نقل کرتے ہیں کہتے ہیں


وهو قول أبي الحسن الدارقطني ومن شعره فيه

حديث الشفاعة عن أحمد … إلى أحمد المصطفى مسنده
وجاء حديث بإقعاده … على العرش أيضا فلا نجحده
أمروا الحديث على وجهه … ولا تدخلوا فيه ما يفسده
ولا تنكروا أنه قاعده … ولا تنكروا أنه يقعده



http://shamela.ws/browse.php/book-8476/page-392
معلوم ہوا کہ محدثین کے دو گروہ تھے ایک اس عرش پر بٹھائے جانے والی بات کو رد کرتا تھا جس میں امام الترمذی تھےاور دوسرا گروہ اس بات کو شدت سے قبول کرتا تھا جس میں امام احمد اور ان کے بیٹے ، امام ابو داود وغیرہ تھے اوریہ اپنے مخالفین کوالْجَهْمِيَّةُ کہتے تھے

ہمارے نزدیک یہ عقیدہ کہ الله تعالی ، نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے گا صحیح نہیں اور ہم اس بات کو مجاہد سے ثابت بھی نہیں سمجھتے جیسا کہ الذہبی نے تحقیق کی ہے

الله ہم سب کو غلو سے بچائے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
’’ اللہ تعالی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائیں گے ‘‘ یہ بات امام مجاہد جو جلیل القدر تابعی ہیں نے ’’ مقام محمود ‘‘ کی تفسیر کے طور پر کہی ہے ۔
محدثین اور اہل سنت کےنزدیک راجح موقف یہی ہے کہ امام مجاہد رحمہ اللہ کی اس تفسیر کو نہیں لیا جائے گا ، کیونکہ اس طرح کی چیزیں ثابت کرنے کے لیے یا قرآن کی آیت ہونی چاہیے یا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہونا چاہیے ۔
بعض محدثین نے اس قول پر اعتماد کر لیا شاید اس وجہ سے کہ اس طرح کی باتیں صحابہ یا تابعین اپنی طرف سے نہیں کہتے بلکہ یقینا انہیں اللہ کے رسول سے ایسی کوئی خبر یا حدیث پہنچی ہوگی ۔ جو لوگ اصول حدیث کی اصطلاح ’’ مرفوع حکمی ‘‘ کو جانتے ہیں اور اسی طرح ’’ مراسیل تابعین کی حجیت ‘‘ کے بارے میں محدثین کی آراء سے واقفیت رکھتے ہیں ، وہ یقینا اس بات کوسمجھ سکیں گے ۔
خیر یہ توجیہات محدثین سے محبت کرنے والوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کےلیے ہیں جو کسی کی حسنات کے بحر بے کنار کو مد نظر رکھتے ہوئے چند غلطیوں کو نظر انداز کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔
ہاں البتہ جن لوگوں کو ’’ محدثین ‘‘ سے خدا واسطے کا بیر ہے ، وہ ان باتوں کو پوری آب و تاب سے اچھال کر اپنا کار و بار سر انجاد دینے میں حق بجانب ہیں ، لیکن اس سلسلے میں اگر علمی خیانت سے بچنا چاہتے ہیں تو اس طرح کا عنوان ’’ عرش عظیم اور محدثین کا غلو ‘‘ قائم کرنےکی بجائے ’’ عرش عظیم اور بعض محدثین یا چند محدثین کا غلو ‘‘ قائم کرلینا چاہیے ۔
رہا یہ کہ امام احمد اور ابو داؤد اور بعض دیگر محدثین کا اس قول کا انکار کرنے والوں کو ’’ جہمیہ ‘‘ میں سے شمار کرنا تو اس کی بھی ایک واضح توجیہ ہے ۔ وہ اس طرح کے جہمیہ کے نزدیک اللہ کے لیے صفات کا ثبوت ’’ تجسیم ‘‘ کو لازم ہے ، لہذا وہ امام مجاہد کا قول کیا ، وہ اس سلسلے میں قرآنی آیات اور احادیث رسول تک کو نہیں مانتے ۔ تو شاید جن لوگوں نے مجاہد کے اس قول کا انکار کیا ، محدثین کو اس کو اس معنی میں لیا کہ وہ عقیدہ تجسیم کی وجہ سے قول مجاہد کا انکار کر رہے ہیں ۔ اور واقعتا اس قول کا انکار کرنے والوں میں کچھ گمراہ عقیدہ کے لوگ تھے بھی مثلا ’’ ترمذی ‘‘ نام اس سلسلے میں آتا ہے ، مراسلہ میں بھی اس بات کو بار بار دہرایا گیا ہے ، اور صاحب مراسلہ نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس سے مراد مشہور ’’ سنن الترمذی ‘‘ کے مصنف امام ’’ محمد بن عیسی الترمذی ‘‘ ہیں ۔اور محدثین نے ان کو ’’ بدعتی ، جہمی ، گمراہ ‘‘ قرار دیا ہے ۔
حالانکہ اس سے مراد معروف امام ترمذی نہیں بلکہ یہ کوئی اور ترمذی ہیں ۔ کیونکہ امام ترمذی نے اپنی کتاب سنن میں قول مجاہد کو سرے سے ذکر ہی نہیں کیا ۔ اس کی تردید یا تائید بعد کی بات ہے ۔ اسی طرح اس ترمذی مذکور کےبارے میں محدثین کا بار بار کہنا کہ ’’ علم حدیث ‘‘ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ، اور نہ ہی اسانید میں اس کا کوئی تذکرہ ہے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے مراد معروف امام ترمذی نہیں ہیں ، کیونکہ وہ علم حدیث کے بلند پایہ امام تھے ۔ اور دنیا ان کو جانتی تھی اور جانتی ہے ۔
یاد رہے کہ ’’ جہم بن صفوان ‘‘ جو مشہور بدعتی فرقے ’’ جہمیہ ‘‘ کا بانی ہے ، بعض دفعہ ’’ترمذی ‘‘ سے وہ بھی مراد ہوتا ہے ۔ کتاب السنۃ للخلال جس کے بار بار مراسلے میں حوالے دیے گئے ہیں ، اس کےمحقق نے ’’ الترمذی الجہمی ‘‘ وغیرہ سے مراد جہم بن صفوان ہی ذکر کیاہے ۔ دیکھیں (السنۃ للخلال بتحقیق عطیۃ الزہرانی ج 3 ص 645 )
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
یہ تحقیق یہاں سے لی گئی ہے

دوسرے عالم محمّد صالح المنجد اس پر لکھتے ہیں

لیکن المنجد صاحب کی یہ بات صرف اس پر مبنی ہے کہ امام احمد فضائل کی وجہ سے مجاہد کا قول رد نہیں کرتے تھے لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ باقی لوگ اس کو احمد کا عقیدہ بھی کہتے ہیں دوئم ابن تیمیہ کے پاس کیا سند ہے کہ یہ امام احمد کا عقیدہ نہیں تھا انہوں نے صرف حسن ظن کی بنیاد پر اس کو رد کیا ہے
عجیب بات یہ ہے کہ شیخ المنجد کی ویب سائیٹ پر صاف الفاظ میں لکھا ہے:

"ابو محمد بن بشار نے عبد اللہ بن احمد سے روایت کیا ہے کہ وہ اپنے والد [احمد بن حنبل] سے روایت کرتے ہیں کہ:
[عبد اللہ] اپنے والد کو احادیث سناتے، تو [احمد بن حنبل] اسے کے بارے میں کہتے: "اس روایت کو فلاں ، فلاں نے بیان کیا ہے"، وہ راویوں کے نام بھی لیتے، اور اگر کوئی ضعیف حدیث آجاتی تو [احمد بن حنبل ] کہتے: "اسے مٹا دو"
چنانچہ جب مجاہد کا اثر سامنے آیا تو [احمد بن حنبل نے]اسے ضعیف قرار دیا۔
تو [عبد اللہ] نے کہا: ابا جان! اسے مٹا دوں؟
تو [احمد بن حنبل]نے کہا: "نہیں یہ حدیث فضائل میں ہے، اسے ایسے ہی رہنے دو، اور اسے مت مٹاؤ"انتہی
" إبطال التأويلات " (ص/489)"

اور پوسٹ میں لکھا جا رہا ہے کہ:
"مجاہد کے اس شاذ قول کو امام احمد اور ان کے بیٹے ایمان کا درجہ دیتے تھے"

انا للہ و انا علیہ راجعون۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
’’ اللہ تعالی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائیں گے ‘‘ یہ بات امام مجاہد جو جلیل القدر تابعی ہیں نے ’’ مقام محمود ‘‘ کی تفسیر کے طور پر کہی ہے ۔
محدثین اور اہل سنت کےنزدیک راجح موقف یہی ہے کہ امام مجاہد رحمہ اللہ کی اس تفسیر کو نہیں لیا جائے گا ، کیونکہ اس طرح کی چیزیں ثابت کرنے کے لیے یا قرآن کی آیت ہونی چاہیے یا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہونا چاہیے ۔
بعض محدثین نے اس قول پر اعتماد کر لیا شاید اس وجہ سے کہ اس طرح کی باتیں صحابہ یا تابعین اپنی طرف سے نہیں کہتے بلکہ یقینا انہیں اللہ کے رسول سے ایسی کوئی خبر یا حدیث پہنچی ہوگی ۔ جو لوگ اصول حدیث کی اصطلاح ’’ مرفوع حکمی ‘‘ کو جانتے ہیں اور اسی طرح ’’ مراسیل تابعین کی حجیت ‘‘ کے بارے میں محدثین کی آراء سے واقفیت رکھتے ہیں ، وہ یقینا اس بات کوسمجھ سکیں گے ۔
خیر یہ توجیہات محدثین سے محبت کرنے والوں کے لیے ہیں اور ان لوگوں کےلیے ہیں جو کسی کی حسنات کے بحر بے کنار کو مد نظر رکھتے ہوئے چند غلطیوں کو نظر انداز کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔
ہاں البتہ جن لوگوں کو ’’ محدثین ‘‘ سے خدا واسطے کا بیر ہے ، وہ ان باتوں کو پوری آب و تاب سے اچھال کر اپنا کار و بار سر انجاد دینے میں حق بجانب ہیں ، لیکن اس سلسلے میں اگر علمی خیانت سے بچنا چاہتے ہیں تو اس طرح کا عنوان ’’ عرش عظیم اور محدثین کا غلو ‘‘ قائم کرنےکی بجائے ’’ عرش عظیم اور بعض محدثین یا چند محدثین کا غلو ‘‘ قائم کرلینا چاہیے ۔
رہا یہ کہ امام احمد اور ابو داؤد اور بعض دیگر محدثین کا اس قول کا انکار کرنے والوں کو ’’ جہمیہ ‘‘ میں سے شمار کرنا تو اس کی بھی ایک واضح توجیہ ہے ۔ وہ اس طرح کے جہمیہ کے نزدیک اللہ کے لیے صفات کا ثبوت ’’ تجسیم ‘‘ کو لازم ہے ، لہذا وہ امام مجاہد کا قول کیا ، وہ اس سلسلے میں قرآنی آیات اور احادیث رسول تک کو نہیں مانتے ۔ تو شاید جن لوگوں نے مجاہد کے اس قول کا انکار کیا ، محدثین کو اس کو اس معنی میں لیا کہ وہ عقیدہ تجسیم کی وجہ سے قول مجاہد کا انکار کر رہے ہیں ۔ اور واقعتا اس قول کا انکار کرنے والوں میں کچھ گمراہ عقیدہ کے لوگ تھے بھی مثلا ’’ ترمذی ‘‘ نام اس سلسلے میں آتا ہے ، مراسلہ میں بھی اس بات کو بار بار دہرایا گیا ہے ، اور صاحب مراسلہ نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس سے مراد مشہور ’’ سنن الترمذی ‘‘ کے مصنف امام ’’ محمد بن عیسی الترمذی ‘‘ ہیں ۔اور محدثین نے ان کو ’’ بدعتی ، جہمی ، گمراہ ‘‘ قرار دیا ہے ۔
حالانکہ اس سے مراد معروف امام ترمذی نہیں بلکہ یہ کوئی اور ترمذی ہیں ۔ کیونکہ امام ترمذی نے اپنی کتاب سنن میں قول مجاہد کو سرے سے ذکر ہی نہیں کیا ۔ اس کی تردید یا تائید بعد کی بات ہے ۔ اسی طرح اس ترمذی مذکور کےبارے میں محدثین کا بار بار کہنا کہ ’’ علم حدیث ‘‘ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ، اور نہ ہی اسانید میں اس کا کوئی تذکرہ ہے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس سے مراد معروف امام ترمذی نہیں ہیں ، کیونکہ وہ علم حدیث کے بلند پایہ امام تھے ۔ اور دنیا ان کو جانتی تھی اور جانتی ہے ۔
یاد رہے کہ ’’ جہم بن صفوان ‘‘ جو مشہور بدعتی فرقے ’’ جہمیہ ‘‘ کا بانی ہے ، بعض دفعہ ’’ترمذی ‘‘ سے وہ بھی مراد ہوتا ہے ۔ کتاب السنۃ للخلال جس کے بار بار مراسلے میں حوالے دیے گئے ہیں ، اس کےمحقق نے ’’ الترمذی الجہمی ‘‘ وغیرہ سے مراد جہم بن صفوان ہی ذکر کیاہے ۔ دیکھیں (السنۃ للخلال بتحقیق عطیۃ الزہرانی ج 3 ص 645 )

میں نے آپ کی یہ پوسٹ جواب کے طور پر ان کے بلاگ پر لگائی ہے - اور وہاں یہ جواب دیا گیا

http://www.islamic-belief.net/عرش-عظیم-اور-محدثین-کا-غلو/#comment-3788


اپ کا مراسلہ تضاد کا شکار ہے

اول اس کا عنوان بعض محدثین کا غلو ہی ہے

دوم جھم بن صفوان اس عقیدے کے خلاف تھا کہ الله عرش پر نبی کو بٹھائے گا اور پھر آٹھویں صدی میں جا کر ابن تیمیہ نے جہمیہ بننا پسند کیوں کر لیا اگر یہ جہمیہ کا مذھب تھا

سوم اگر یہ امام ترمذی نہیں ہیں پھر تو صورت حال اور بھی سنگین ہے اس کا مطلب ہے کہ محدثین کے اس غلو کے خلاف کوئی دوسرا محدث بھی نہیں تھا حتی کہ آٹھویں صدی میں الذھبی کو اس کا خیال آیا

ہم ان نتائج سے متفق نہیں ہیں کہ تیسری صدی میں محدثین اس غلو والے عقیدے کے خلاف نہیں تھے

اس بلاگ میں ترمذی امام احمد کے بیٹے عبدللہ کے ہم عصر ہیں نہ کہ جھم بن صفوان

ابو بکر الخلال کتاب السنہ میں لکھتے ہیں

وَقَالَ هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ: جَاءَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ الرَّادَّ لِفَضِيلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْتَجُّ بِكَ، فَقَالَ: كَذَبَ عَلَيَّ، وَذَكَرَ الْأَحَادِيثَ فِي ذَلِكَ، فَقُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ: اكْتُبْهَا لِي، فَكَتَبَهَا بِخَطِّهِ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» ، فَحَدَّثْتُ بِهِ أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ يُحَدِّثُ بِهِ، فَلَمْ يُقَدِّرْ لِي أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْهُ، فَقَالَ هَارُونُ: فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ أُخْبِرْتُ عَنْ أَبِيكَ أَنَّهُ كَتَبَهُ عَنْ رَجُلٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، فَقَالَ: نَعَمْ، قَدْ حَكَوْا هَذَا عَنْهُ


اور هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ کہتے ہیں میرے پاس عبد الله بن احمد (المتوفی ٢٩٠ ھ) آئے میں نے ان سے کہا یہ جوالتِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت کا منکر ہے کیا اپ اس سے روایت لیتے ہیں پس انہوں نے کہا مجھ پر جھوٹ بولتا ہے اور احادیث ذکر کیں پس میں نے عبدللہ سے کہا میرے لئے لکھ دیں سو انہوں نے وہ لکھ دیں (پھر مجاہد کی حدیث بیان کی) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» پس میں نے اپنے باپ (احمد بن حنبل) سے اس پر سوال کیا انہوں نے کہا ایسا محمّد بن فُضَيْلٍ نے روایت کیا ہے لیکن میں نے ان سے خود نہیں سنا اس پر ہارون نے کہا اپ کے باپ نے ایک شخص سے اس نے ابن فُضَيْلٍ سے سنا تھا عبدللہ بن احمد نے کہا ہاں وہ ایسا ہی کہتے تھے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
عجیب بات یہ ہے کہ شیخ المنجد کی ویب سائیٹ پر صاف الفاظ میں لکھا ہے:

"ابو محمد بن بشار نے عبد اللہ بن احمد سے روایت کیا ہے کہ وہ اپنے والد [احمد بن حنبل] سے روایت کرتے ہیں کہ:
[عبد اللہ] اپنے والد کو احادیث سناتے، تو [احمد بن حنبل] اسے کے بارے میں کہتے: "اس روایت کو فلاں ، فلاں نے بیان کیا ہے"، وہ راویوں کے نام بھی لیتے، اور اگر کوئی ضعیف حدیث آجاتی تو [احمد بن حنبل ] کہتے: "اسے مٹا دو"
چنانچہ جب مجاہد کا اثر سامنے آیا تو [احمد بن حنبل نے]اسے ضعیف قرار دیا۔
تو [عبد اللہ] نے کہا: ابا جان! اسے مٹا دوں؟
تو [احمد بن حنبل]نے کہا: "نہیں یہ حدیث فضائل میں ہے، اسے ایسے ہی رہنے دو، اور اسے مت مٹاؤ"انتہی
" إبطال التأويلات " (ص/489)"

اور پوسٹ میں لکھا جا رہا ہے کہ:
"مجاہد کے اس شاذ قول کو امام احمد اور ان کے بیٹے ایمان کا درجہ دیتے تھے"

انا للہ و انا علیہ راجعون۔
آپ کی پوسٹ کا یہ جواب دیا گیا وہاں پر

لنک

http://www.islamic-belief.net/عرش-عظیم-اور-محدثین-کا-غلو/#comment-3789

امام احمد نے مجاہد کے کون سے اثر کو ضعیف قرار دیا تھا کیا ان کے نزدیک مجاہد کے تمام اقوال ضعیف تھے اس کی کیا دلیل ہے اور اگر سارے نہیں تھے تو یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ وہ اس عرش والی بات کو رد کر رہے ہیں

جہاں تک حنابلہ کا اس کو ایمان کا درجہ دینے والی بات ہے وہ ثابت ہے جن میں عبدللہ بن احمد بن حنبل ہیں اور ان کا باپ یہ عقیدہ نہ رکھتا ہو ثابت کرنا ہو گا المنجد ہمارے لئے دلیل نہیں کسی کتاب کا حوالہ دیں

آٹھویں صدی کے بعد حنبلیوں میں دو گروہ ہوئے ایک اس کو رد کرتا اور ایک قبول . اسی طرح ایک غیر مقلد ابن تیمیہ اور شافعی میں الذھبی بھی تھے جو رد کرتے تھے

المنجد اس گروہ میں سے ہیں جو رد کرتا ہے اور سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر علامہ محمد بن ابراہیم ان میں ہیں جو قبول کرتا ہے

لیکن تاریخی شواہد اور حنبلیوں کی ابتدائی کتب سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر علامہ محمد بن ابراہیم کے عقیدے کے حق میں ہیں کہ امام احمد کے بیٹے اس کو قبول کرتے تھے اور کیا یہ ممکن ہے کہ امام احمد کے نزدیک یہ عقیدہ غلط ہو؟ جبکہ اس عقیدے کے کو رکھنے والے مسلسل کہہ رہے ہیں کہ امام احمد کی اقتدہ کرو
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
آٹھویں صدی کے بعد حنبلیوں میں دو گروہ ہوئے ایک اس کو رد کرتا اور ایک قبول . اسی طرح ایک غیر مقلد ابن تیمیہ اور شافعی میں الذھبی بھی تھے جو رد کرتے تھے

المنجد اس گروہ میں سے ہیں جو رد کرتا ہے اور سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر علامہ محمد بن ابراہیم ان میں ہیں جو قبول کرتا ہے

لیکن تاریخی شواہد اور حنبلیوں کی ابتدائی کتب سعودی عرب کے سابق مفتی اکبر علامہ محمد بن ابراہیم کے عقیدے کے حق میں ہیں کہ امام احمد کے بیٹے اس کو قبول کرتے تھے اور کیا یہ ممکن ہے کہ امام احمد کے نزدیک یہ عقیدہ غلط ہو؟ جبکہ اس عقیدے کے کو رکھنے والے مسلسل کہہ رہے ہیں کہ امام احمد کی اقتدہ کرو
پہلے تو ان صاحب سے ان سب دعووں کی دلیل مانگیں، بغیر حوالہ کے اڑتی باتیں کوئی قبول نہیں کرتا۔

امام احمد نے مجاہد کے کون سے اثر کو ضعیف قرار دیا تھا کیا ان کے نزدیک مجاہد کے تمام اقوال ضعیف تھے اس کی کیا دلیل ہے اور اگر سارے نہیں تھے تو یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ وہ اس عرش والی بات کو رد کر رہے ہیں
اور فرمایا:
عبدللہ بن احمد بن حنبل ہیں اور ان کا باپ یہ عقیدہ نہ رکھتا ہو ثابت کرنا ہو گا المنجد ہمارے لئے دلیل نہیں کسی کتاب کا حوالہ دیں
بھائی اس سائیٹ کا ایڈمن اللہ جانے کون ہے، مگر جو بھی ہے، کم از کم آنکھوں سے نہ سہی دل سے ضرور اندھا ہے۔ ویسے اس کمنٹ کے بعد آنکھوں پر بھی شک ہو رہا ہے مجھے۔
دوبارہ ملاحظہ کریں:
ابو محمد بن بشار نے عبد اللہ بن احمد سے روایت کیا ہے کہ وہ اپنے والد [احمد بن حنبل] سے روایت کرتے ہیں کہ:
[عبد اللہ] اپنے والد کو احادیث سناتے، تو [احمد بن حنبل] اسے کے بارے میں کہتے: "اس روایت کو فلاں ، فلاں نے بیان کیا ہے"، وہ راویوں کے نام بھی لیتے، اور اگر کوئی ضعیف حدیث آجاتی تو [احمد بن حنبل ] کہتے: "اسے مٹا دو"
چنانچہ جب مجاہد کا اثر سامنے آیا تو [احمد بن حنبل نے]اسے ضعیف قرار دیا۔
تو [عبد اللہ] نے کہا: ابا جان! اسے مٹا دوں؟
تو [احمد بن حنبل]نے کہا: "نہیں یہ حدیث فضائل میں ہے، اسے ایسے ہی رہنے دو، اور اسے مت مٹاؤ"انتہی
ابطال التاویلات "(ص،489)"

ان بھائی کو بتائیں کہ یہ المنجد کا قول نہیں، اور کتاب (ابطال التاویلات) کا حوالہ ایسے ہی بڑا کر کہ پیسٹ کریں وہاں۔

باقی ان کہ یہ اڑتی بات کہ :

"امام احمد نے مجاہد کے کون سے اثر کو ضعیف قرار دیا تھا کیا ان کے نزدیک مجاہد کے تمام اقوال ضعیف تھے اس کی کیا دلیل ہے اور اگر سارے نہیں تھے تو یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ وہ اس عرش والی بات کو رد کر رہے ہیں۔"

تو بھائی انکو بولو جس کتاب کا حوالہ دیا ہے وہ پڑھ لیں، اگر صرف "میں نہ مانوں" کی رٹ لگانی ہے تو اسکا کوئی حل نہیں۔ آپکی خدمت میں وہ صفحات حاظر ہیں، وہاں پیسٹ کر دیجیئے گا:




اور جن علماء نے اس قول کو اپنایا ہے، انہوں نے اسکی مندرجہ ذیل تاویلات کی ہیں:

"یقعدہ" معناہ یرفعہ ارفع المقاعد عندہ، وھو معہ بالنصرۃ و المعونۃ و المقاعد المقربۃ من اللہ تعالی کما قال : ” لا تحزن ان اللہ معنا “ التوبہ 40۔
بیٹھنا بمعنا بلند کرنا، اور عرش پر بیٹھنا بمعنا بہت ذیادہ بلند کرنا، مقرب ترین بنا لینا، جیسا فرمایا "غم نہ کرو اللہ تمہارے ساتھ ہے" معنا کہ اللہ اور تم ایک ساتھ عرش پر نہیں، بلکہ اللہ تمھاری نصرت فرمائے گا، غم نہ کرو۔
جب اہل سنت عرش پر اللہ کے مستوی ہونے کی کیفیت ہی بیان نہیں کرتے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرش پر ہونے کی کیفیت صاحب مضمون خود ہی کیسے بیان کر کہ علماء کے متھے لگا رہے ہیں، اور اگر کسی نے ایسا مطلب لیا بھی ہے، تو ان میں امام احمد بن حنبل نہیں۔ واللہ اعلم۔

@اسحاق سلفی بھائی ان صفحات میں سے اہم عربی عبارات کا ترجمہ کر دیں جو اس موضوع سے مناسبت رکھتی ہوں تو کیا ہی بات ہے، جزاک اللہ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
پہلے تو ان صاحب سے ان سب دعووں کی دلیل مانگیں، بغیر حوالہ کے اڑتی باتیں کوئی قبول نہیں کرتا۔


اور فرمایا:


بھائی اس سائیٹ کا ایڈمن اللہ جانے کون ہے، مگر جو بھی ہے، کم از کم آنکھوں سے نہ سہی دل سے ضرور اندھا ہے۔ ویسے اس کمنٹ کے بعد آنکھوں پر بھی شک ہو رہا ہے مجھے۔
دوبارہ ملاحظہ کریں:
ابو محمد بن بشار نے عبد اللہ بن احمد سے روایت کیا ہے کہ وہ اپنے والد [احمد بن حنبل] سے روایت کرتے ہیں کہ:
[عبد اللہ] اپنے والد کو احادیث سناتے، تو [احمد بن حنبل] اسے کے بارے میں کہتے: "اس روایت کو فلاں ، فلاں نے بیان کیا ہے"، وہ راویوں کے نام بھی لیتے، اور اگر کوئی ضعیف حدیث آجاتی تو [احمد بن حنبل ] کہتے: "اسے مٹا دو"

چنانچہ جب مجاہد کا اثر سامنے آیا تو [احمد بن حنبل نے]اسے ضعیف قرار دیا۔
تو [عبد اللہ] نے کہا: ابا جان! اسے مٹا دوں؟
تو [احمد بن حنبل]نے کہا: "نہیں یہ حدیث فضائل میں ہے، اسے ایسے ہی رہنے دو، اور اسے مت مٹاؤ"انتہی

ابطال التاویلات "(ص،489)"

ان بھائی کو بتائیں کہ یہ المنجد کا قول نہیں، اور کتاب (ابطال التاویلات) کا حوالہ ایسے ہی بڑا کر کہ پیسٹ کریں وہاں۔

باقی ان کہ یہ اڑتی بات کہ :

"امام احمد نے مجاہد کے کون سے اثر کو ضعیف قرار دیا تھا کیا ان کے نزدیک مجاہد کے تمام اقوال ضعیف تھے اس کی کیا دلیل ہے اور اگر سارے نہیں تھے تو یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ وہ اس عرش والی بات کو رد کر رہے ہیں۔"

تو بھائی انکو بولو جس کتاب کا حوالہ دیا ہے وہ پڑھ لیں، اگر صرف "میں نہ مانوں" کی رٹ لگانی ہے تو اسکا کوئی حل نہیں۔ آپکی خدمت میں وہ صفحات حاظر ہیں، وہاں پیسٹ کر دیجیئے گا:




اور جن علماء نے اس قول کو اپنایا ہے، انہوں نے اسکی مندرجہ ذیل تاویلات کی ہیں:

"یقعدہ" معناہ یرفعہ ارفع المقاعد عندہ، وھو معہ بالنصرۃ و المعونۃ و المقاعد المقربۃ من اللہ تعالی کما قال : ” لا تحزن ان اللہ معنا “ التوبہ 40۔
بیٹھنا بمعنا بلند کرنا، اور عرش پر بیٹھنا بمعنا بہت ذیادہ بلند کرنا، مقرب ترین بنا لینا، جیسا فرمایا "غم نہ کرو اللہ تمہارے ساتھ ہے" معنا کہ اللہ اور تم ایک ساتھ عرش پر نہیں، بلکہ اللہ تمھاری نصرت فرمائے گا، غم نہ کرو۔
جب اہل سنت عرش پر اللہ کے مستوی ہونے کی کیفیت ہی بیان نہیں کرتے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عرش پر ہونے کی کیفیت صاحب مضمون خود ہی کیسے بیان کر کہ علماء کے متھے لگا رہے ہیں، اور اگر کسی نے ایسا مطلب لیا بھی ہے، تو ان میں امام احمد بن حنبل نہیں۔ واللہ اعلم۔

@اسحاق سلفی بھائی ان صفحات میں سے اہم عربی عبارات کا ترجمہ کر دیں جو اس موضوع سے مناسبت رکھتی ہوں تو کیا ہی بات ہے، جزاک اللہ۔
سب سے پہلے سب بھائی اس بنیادی نکتے کو پیش نظر رکھیں :
کہ رحمن کا عرش کوئی چارپائی جتنا ،یا جیسا تو نہیں ہے ۔اور نہ کسی بادشاہ کے تخت جیسا ہے ۔
اس کی وسعت و عظمت کا اندازہ اس بات سے لگانا چاہئیے کہ ( وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ) اس کی کرسی نے زمین و آسمان کو گھیر رکھا ہواہے‘‘
اور علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں : وَالصَّحِيحُ أَنَّ الْكُرْسِيَّ غَيْرُ الْعَرْشِ وَالْعَرْشَ أَكْبَرُ مِنْهُ، كَمَا دَلَّتْ عَلَى ذَلِكَ الْآثَارُ وَالْأَخْبَارُ))
کہ کرسی ،،عرش کے علاوہ اپنا وجود رکھتی ہے ،اور عرش اس سے بڑا ہے ۔
کرسی ،،زمین و آسمان سے بڑی ہے اور عرش اس سے بھی بڑا ۔۔کتنا بڑا اس اندازہ اور علم اللہ ہی کے پاس ہے ۔
دوسری بنیادی اہم بات جو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ،کہ سلف میں کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں اللہ عزوجل عرش پر بیٹھا ،یا کھڑا ہے
بلکہ سلف کا اس بارے یہی مذہب منقول و مشہور ہے کہ ’‘ عرش پر مستوی ہے ،لیکن ہم کیفیت نہیں جانتے ۔
اس لئے عرش پر بٹھانے کے جملہ کو اگر اس تناظر میں رکھ کر سمجھا جائے ،تو سلف کے فہم و ادراک کی عظمت کا شاید اندازہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب رہی بات کہ ۔ترمذی۔ کون ۔۔تو عرض ہے کہ یہ کوئی غیر معروف شخص ہے۔جو یقینی جہمی ہے ،اور محدث بھی نہیں ۔کیونکہ
امام خلال کی کتاب ’‘ السنہ ’‘جہاں سے دشمنان محدثین نے کئی پیرائے نقل کئے ہیں وہیں ساتھ ہی یہ بات بھی موجود ہے
(فَإِنِّي لَا أَعْرِفُ هَذَا التِّرْمِذِيَّ، وَلَا أَعْلَمُ أَنِّي رَأَيْتُهُ عِنْدَ مُحَدِّثٍ، فَعَلَيْكُمْ رَحِمَكُمُ اللَّهُ بِالتَّمَسُّكِ بِالسُّنَّةِ وَالِاتِّبَاعِ
وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ يَحْيَى بْنُ أَبِي طَالِبٍ: «لَا أَعْرِفُ هَذَا الْجَهْمِيَّ الْعَجَمِيَّ، لَا نَعْرِفُهُ عِنْدَ مُحَدِّثٍ، وَلَا عِنْدَ أَحَدٍ مِنْ إِخْوَانِنَا،
ترجمہ : میں اس ترمذی کو جانتا تک نہیں،اور نہ میں نے اسے کسی محدث کے پاس بیٹھے دیکھا ہے ،
اور ابوبکر یحی کہتے ہیں کہ میں بھی اس جہمی ،عجمی ۔کو نہیں جانتا ،نہ ہی یہ کسی محدث کا شاگرد ہے۔
باقی شقوں پر اگلی پوسٹ میں عرض کریں گے ،ان شاء اللہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
مندرجہ ذیل عبارت کا ترجمہ غلط کیا گیا ہے ۔یہ بے چارے اتنی عربی بھی نہیں جانتے اور اس جہالت میں بھی محدثین کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے سے باز نہیں آتے ۔۔جس کو متکلم کی ضمیر نہیں پتا وہ ’’مصطفی ﷺ ’‘ کی حدود ناپنے چلا ہے ۔
وَقَالَ هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ: جَاءَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ هَذَا التِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ الرَّادَّ لِفَضِيلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحْتَجُّ بِكَ، فَقَالَ: كَذَبَ عَلَيَّ، وَذَكَرَ الْأَحَادِيثَ فِي ذَلِكَ، فَقُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ: اكْتُبْهَا لِي، فَكَتَبَهَا بِخَطِّهِ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» ، فَحَدَّثْتُ بِهِ أَبِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ يُحَدِّثُ بِهِ، فَلَمْ يُقَدِّرْ لِي أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْهُ، فَقَالَ هَارُونُ: فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ أُخْبِرْتُ عَنْ أَبِيكَ أَنَّهُ كَتَبَهُ عَنْ رَجُلٍ، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، فَقَالَ: نَعَمْ، قَدْ حَكَوْا هَذَا عَنْهُ

اور هَارُونُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْهَاشِمِيُّ کہتے ہیں میرے پاس عبد الله بن احمد (المتوفی ٢٩٠ ھ) آئے میں نے ان سے کہا یہ جوالتِّرْمِذِيَّ الْجَهْمِيَّ ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی فضیلت کا منکر ہے کیا اپ اس سے روایت لیتے ہیں پس انہوں نے کہا مجھ پر جھوٹ بولتا ہے اور احادیث ذکر کیں پس میں نے عبدللہ سے کہا میرے لئے لکھ دیں سو انہوں نے وہ لکھ دیں (پھر مجاہد کی حدیث بیان کی) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ، قَالَ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ فِي قَوْلِهِ {عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَحْمُودًا} [الإسراء: 79] قَالَ: «يُقْعِدُهُ عَلَى الْعَرْشِ» پس میں نے اپنے باپ (احمد بن حنبل) سے اس پر سوال کیا انہوں نے کہا ایسا محمّد بن فُضَيْلٍ نے روایت کیا ہے لیکن میں نے ان سے خود نہیں سنا اس پر ہارون نے کہا اپ کے باپ نے ایک شخص سے اس نے ابن فُضَيْلٍ سے سنا تھا عبدللہ بن احمد نے کہا ہاں وہ ایسا ہی کہتے تھے
((يحتج بك )) کا ترجمہ بالکل غلط کیا ۔۔۔
(فَقَالَ هَارُونُ: فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ أُخْبِرْتُ عَنْ أَبِيكَ أَنَّهُ كَتَبَهُ عَنْ رَجُلٍ ) کا ترجمہ بھی غلط لکھا ہے ۔

اور درج ذیل کا ترجمہ بھی خاصے کی چیز ہے ،اہل علم پڑھیں اور قائل و ناقل دونوں کو ۔داد ۔سے نوازیں :

فَبَلَغَنِي أَنَّ قَوْمًا مِمَّنْ طُرِدَ إِلَى طَرَسُوسَ مِنْ أَصْحَابِ التِّرْمِذِيِّ الْمُبْتَدِعِ أَنْكَرُوهُ، وَرَدُّوا فَضِيلَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَظْهَرُوا رَدَّهُ فَشَهِدَ عَلَيْهِمُ الثِّقَاتُ بِذَلِكَ فَهَجَرْنَاهُمْ، وَبَيَّنَا أَمْرَهُمْ، وَكَتَبْتُ إِلَى شُيُوخِنَا بِبَغْدَادَ، فَكَتَبُوا إِلَيْنَا هَذَا الْكِتَابَ، فَقَرَأْتُهُ بِطَرَسُوسَ عَلَى أَصْحَابِنَا مَرَّاتٍ، وَنَسَخَهُ النَّاسُ، وَسَرَّ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَهْلَ السُّنَّةِ، وَزَادَهُمْ سُرُورًا عَلَى مَا عِنْدَهُمْ مِنْ صِحَّتِهِ وَقَبُولِهِمْ

پتا چلا کہ ترمذی کے مبتدعی اصحاب اس کا انکار کرتے ہیں اور رسول الله کی فضیلت کے انکاری ہیں اور اس پر ثقات نے شہادت دی لہذا اس کو برا کہا اور مسئلہ واضح کیا اور اپنے شیوخ کو بغداد لکھ بھیجا پس انہوں نے جواب بھیجا جس کوطَرَسُوسَ میں اپنے اصحاب کو سنایا اور وہ سن کر خوش ہوئے اس کی قبولیت پر
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
ایک اور نمونہ دشمنان محدثین کی جہالت کا پیش خدمت ہے ۔
لکھتے ہیں :
وَذَكَرَ أَبُو عبد اللَّه بْن بطة فِي كتاب الإبانة، قَالَ أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد: لو أن حالفا حلف بالطلاق ثلاثا أن اللَّه تَعَالَى: يقعد محمدا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ معه عَلَى العرش
اور ابو عبدللہ بن بطة نے کتاب الإبانة میں ذکر کیا کہ أَبُو بكر أحمد بْن سلمان النجاد نے کہا اگر میں قسم لو تو تین طلاق کی قسم لوں (اگر ایسا نہ ہو) کہ بے شک الله تعالی ، محمّد صلی الله علیہ وسلم کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائے گا
یہ ترجمہ اگر کوئی مبتدی بھی دیکھ لے تو (ان ہذا لشیء عجاب ) پڑھتا رہ جائے ،
ویسے یہاں تو محولہ عبارت بھی مکمل نہیں لکھی ۔بس جہاں عربی عبارت میں ۔العرش ۔ آیا ،وہیں فل سٹاپ لگادیا۔
عرض ہے کہ ۔لو ۔۔کا جواب بھی تو چاہئیے ،وہ کہاں ہے
 
Last edited:
Top