• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

فرعون کی بیٹی کو کنگھی کرنے والی نوکرانی کا ایمان افروز واقعہ

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
فرعون کی بیٹی کو کنگھی کرنے والی نوکرانی کا ایمان افروز واقعہ

عَنِ ‏‏ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما ‏‏قَالَ ‏ :قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ‏‏صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : (‏ ‏لَمَّا كَانَتْ اللَّيْلَةُ الَّتِي ‏‏أُسْرِيَ ‏‏بِي فِيهَا ، أَتَتْ عَلَيَّ رَائِحَةٌ طَيِّبَةٌ ، فَقُلْتُ : يَا ‏جِبْرِيلُ ‏،‏ مَا هَذِهِ الرَّائِحَةُ الطَّيِّبَةُ ؟ فَقَالَ : هَذِهِ رَائِحَةُ ‏‏مَاشِطَةِ ابْنَةِ فِرْعَوْنَ ‏‏وَأَوْلادِهَا ، قَالَ : قُلْتُ : وَمَا شَأْنُهَا ؟ قَالَ : بَيْنَا هِيَ تُمَشِّطُ ابْنَةَ ‏‏فِرْعَوْنَ ‏‏ذَاتَ يَوْمٍ ، إِذْ سَقَطَتْ ‏‏الْمِدْرَى ‏‏مِنْ يَدَيْهَا ، فَقَالَتْ : بِسْمِ اللَّهِ ، فَقَالَتْ لَهَا ابْنَةُ ‏ ‏فِرْعَوْنَ :‏ ‏أَبِي ؟ قَالَتْ : لا ، وَلَكِنْ رَبِّي وَرَبُّ أَبِيكِ اللَّهُ ، قَالَتْ : أُخْبِرُهُ ‏‏بِذَلِكَ ! قَالَتْ : نَعَمْ ، فَأَخْبَرَتْهُ ، فَدَعَاهَا فَقَالَ : يَا فُلانَةُ ؛ وَإِنَّ لَكِ رَبًّا غَيْرِي ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ؛ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ ، فَأَمَرَ بِبَقَرَةٍ مِنْ نُحَاسٍ فَأُحْمِيَتْ ، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا أَنْ‏ ‏تُلْقَى هِيَ وَأَوْلادُهَا فِيهَا ، قَالَتْ لَهُ : إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً ، قَالَ : وَمَا حَاجَتُكِ ؟ قَالَتْ : أُحِبُّ أَنْ تَجْمَعَ عِظَامِي وَعِظَامَ وَلَدِي فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ وَتَدْفِنَنَا ، قَالَ : ذَلِكَ لَكِ عَلَيْنَا مِنْ الْحَقِّ ، قَالَ : فَأَمَرَ بِأَوْلادِهَا فَأُلْقُوا بَيْنَ يَدَيْهَا وَاحِدًا وَاحِدًا إِلَى أَنْ انْتَهَى ذَلِكَ إِلَى صَبِيٍّ لَهَا مُرْضَعٍ ، وَكَأَنَّهَا تَقَاعَسَتْ مِنْ أَجْلِهِ ، قَالَ : يَا ‏‏أُمَّهْ ؛‏ ‏اقْتَحِمِي فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الْآخِرَةِ ، فَاقْتَحَمَتْ ) . ‏‏قَالَ ‏‏ابْنُ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما : ‏تَكَلَّمَ أَرْبَعَةُ صِغَارٍ : ‏‏عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ‏‏عَلَيْهِ السَّلام ،‏ ‏وَصَاحِبُ ‏جُرَيْجٍ ،‏ ‏وَشَاهِدُ ‏‏يُوسُفَ ‏، ‏وَابْنُ ‏مَاشِطَةِ ابْنَةِ فِرْعَوْنَ .
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ اسراء کی رات ایک مقام سے مجھے نہایت ہی اعلیٰ خوشبو کی مہک آنے لگی۔ میں نے کہا اے جبریل ! یہ کیسی اچھی خوشبو ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ فرعون کی بیٹی کی کنگھی کرنے والی (خادمہ) اور اُس کی اَولاد کی ہے‘ اس کی شان پوچھی گئی توعرض کیا‘فرعون کی بیٹی کو کنگھی کرتے ہوئے اس مومنہ خاتون کے ہاتھ سے اتفاقاً کنگھی گر پڑی تو اس کی زبان سے بے ساختہ بسم اللہ نکل گیا۔ فرعون کی بیٹی نے کہا اللہ تو میرا باپ ہے۔ اُس (خادمہ) نے جواب دیا کہ نہیں، میرا اور تیرے باپ کا پروردگار اللہ ہے۔ فرعون کی بیٹی نے کہا کہ میں اس کی خبر اپنے باپ کو دے دوں گی تو اس نے کہی کوئی حرج نہیں۔پس اُس نے اپنے باپ کو ساری بات سُنائی۔ فرعون نے اُس (خادمہ) کو بلوایا اور کہا کیا تم میرے سوا کسی اور کو ربّ مانتی ہو۔ کہا ہاں میرا اور تیرا پروردگار اللہ ہے۔ فرعون نے اُسی وقت حکم دیا کہ تانبے کی گائے کو آگ میں تپایا جائے‘ جب وہ بالکل آگ جیسی ہو جائے تو پھر اِسے اور اِس کے بچوں کو ایک ایک کر کے اُس میں ڈال دیا جائے۔ اُس مومنہ عورت نے فرعون سے کہا میری ایک درخواست ہے اُس نے کہا کیا ہے؟ اُس نے کہا میری اور میرے بچوں کی ہڈیاں ایک کپڑے میں جمع کرکے دفن کردینا ۔ فرعون نے کہا اَچھا تیرے کچھ حقوق ہمارے ذمہ ہیں اِس لئے یہ منظور ہے۔
بعد ازیں فرعون نے حکم دیا کہ ایک ایک کر کے اِس کے بچوں کو آگ کی طرح تپتی ہوئی آگ میں ڈال دو۔ جب دُودھ پیتے بچے کی باری آئی (فرعون کے سپاہیوں نے جب اُس بچے کو چھینا) تو وہ گھبرائی( تو اللہ تعالیٰ نے دُودھ پیتے بچے کو گویائی عطا فرمائی)۔ اُس نے (اپنی ماں سے) کہا امی جان اَفسوس نہ کریں بلکہ (آگ میں) ڈال دیں کیونکہ دنیا کا عذاب ،آخرت کےعذاب سے بہت ہلکا ہے، تب (ماں نے بچے کوآگ میں) ڈال دی ۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ چارچھوٹے بچوں نے بات کی وہ یہ ہیں۔
(1)عیسی بن مریم علیہ السلام(2)صاحب جریج(3)یوسف کی گواہی دینے والا(4)فرعون کی بیٹی کی مشاطہ کا بیٹا

اللہ تعالی ہمیں بھی ایسا مضبوط ایمان دے کہ اسلام کی خاطرجان دیتے ہوئے بھی ایمان کمزور نہ پڑے بلکہ اور پختہ ہوجائے۔ آمین

تخریج:
أخرجه الإمام أحمد في " المسند " (1/309) ، والطبراني (12280) ، وابن حبان (2903) ، والحاكم (2/496(

روایت کا درجہ:

*امام ذھبی نے اسےحسن الاسناد کہا ہے (العلو:80)
*ابن کثیر ؒ نے کہا: " إسناده لا بأس به " (التفسیر 3/15)
* مسند کی تعلیق میں علامہ احمد شاکر نے بھی اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے (4/295)
*الأرنؤوط نے مسند کی تخریج میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے ((5/30 – 31 رقم 2821)
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حَدَّثَنَا أَبُو عُمَرَ الضَّرِيرُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الَّتِي أُسْرِيَ بِي فِيهَا ، أَتَتْ عَلَيَّ رَائِحَةٌ طَيِّبَةٌ ، فَقُلْتُ : يَا جِبْرِيلُ ، مَا هَذِهِ الرَّائِحَةُ الطَّيِّبَةُ ؟ فَقَالَ : هَذِهِ رَائِحَةُ مَاشِطَةِ ابْنَةِ فِرْعَوْنَ وَأَوْلادِهَا . قَالَ : قُلْتُ : وَمَا شَأْنُهَا ؟ قَالَ : بَيْنَا هِيَ تُمَشِّطُ ابْنَةَ فِرْعَوْنَ ذَاتَ يَوْمٍ ، إِذْ سَقَطَتِ الْمِدْرَى مِنْ يَدَيْهَا ، فَقَالَتْ : بِسْمِ اللهِ . فَقَالَتْ لَهَا ابْنَةُ فِرْعَوْنَ : أَبِي ؟ قَالَتْ : لاَ ، وَلَكِنْ رَبِّي وَرَبُّ أَبِيكِ اللَّهُ . قَالَتْ : أُخْبِرُهُ بِذَلِكَ قَالَتْ : نَعَمْ . فَأَخْبَرَتْهُ فَدَعَاهَا ، فَقَالَ : يَا فُلانَةُ ، وَإِنَّ لَكِ رَبًّا غَيْرِي ؟ قَالَتْ : نَعَمْ ، رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ . فَأَمَرَ بِبَقَرَةٍ مِنْ نُحَاسٍ فَأُحْمِيَتْ ، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا أَنْ تُلْقَى هِيَ وَأَوْلادُهَا فِيهَا ، قَالَتْ لَهُ : إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً . قَالَ : وَمَا حَاجَتُكِ ؟ قَالَتْ : أُحِبُّ أَنْ تَجْمَعَ عِظَامِي وَعِظَامَ وَلَدِي فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ ، وَتَدْفِنَنَا . قَالَ : ذَلِكَ لَكِ عَلَيْنَا مِنَ الحَقِّ . قَالَ : فَأَمَرَ بِأَوْلادِهَا فَأُلْقُوا بَيْنَ يَدَيْهَا ، وَاحِدًا وَاحِدًا ، إِلَى أَنِ انْتَهَى ذَلِكَ إِلَى صَبِيٍّ لَهَا مُرْضَعٍ ، كَأَنَّهَا تَقَاعَسَتْ مِنْ أَجْلِهِ ، قَالَ : يَا أُمَّهْ ، اقْتَحِمِي ، فَإِنَّ عَذَابَ الدُّنْيَا أَهْوَنُ مِنْ عَذَابِ الآخِرَةِ ، فَاقْتَحَمَتْ قَالَ : قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : تَكَلَّمَ أَرْبَعَةٌ صِغَارٌ : عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ عَلَيْهِ السَّلامُ ، وَصَاحِبُ جُرَيْجٍ ، وَشَاهِدُ يُوسُفَ ، وَابْنُ مَاشِطَةِ ابْنَةِ فِرْعَوْنَ.[مسند أحمد ط الميمنية: 1/ 309 واسنادہ صحیح]

عطاء بن السائب ثقہ تھے مگرآخرمیں‌ اختلاط کے شکارہوگئے تھے اس لئے ان کی وہی مرویات حجت ہیں جو ان کے اختلاط سے قبل ان سے روایت کی گئی ہیں اور زیرنظر سند میں ان سے روایت کرنے والے راوی حمادبن سلمہ ہیں اورانہوں نے عطاء بن السائب سے ان کے مختلط ہونے پہلے روایت کیا ہے۔

امام فسوي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
عطاء ثقة ، حديثه حجة ، ما روى عنه سُفيان وشُعبة وحماد بن سلمة ، وسماع هؤلاء سماع قديم[المعرفة والتاريخ للفسوي: 3/ 84]

امام ابن معين رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
حديث سفيان وشعبة بن الحجاج وحماد بن سلمة عن عطاء بن السائب مستقيم وحديث جرير بن عبد الحميد وأشباه جرير ليس بذاك لتغير عطاء في آخر عمره [تاريخ ابن معين - رواية الدوري 3/ 309]۔

امام طحاوي رحمه الله (المتوفى321)نے کہا:
وإنما حديثه الذي كان منه قبل تغيره يؤخذ من أربعة لا ممن سواهم وهم شعبة والثوري وحماد بن سلمة وحماد بن زيد[شرح مشكل الآثارللطحاوى: 6/ 117]

امام منذري رحمه الله (المتوفى656)نے کہا:
وإسناده صحيح إن شاء الله فإن عطاء بن السائب ثقة وقد حدث عنه حماد بن سلمة قبل اختلاطه [الترغيب والترهيب 2/ 291]۔

امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
رواه أحمد ورجاله ثقات لأن حماد بن سلمة روى عن عطاء بن السائب قبل الاختلاط.[مجمع الزوائد: 7/ 16]

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
وَحَدِيث حَمَّاد بن سَلمَة عَن عَطاء بن السَّائِب قبل الإختلاط[تغليق التعليق 3/ 470]۔

ایک دوسری کتاب میں کہا:
وإسناده صحيح فإنه من رواية عطاء بن السائب وقد سمع منه حماد بن سلمة قبل لاختلاط[تلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير 1/ 382]


تنبیہ اول:
امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عِصْمَةَ، حَدَّثَنا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي يَحْيى، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيى بن مَعِين يقول لَيْث بن أبِي سُلَيم ضعيف مثل عطاء بن السائب وجميع من روى عن عطاء بن السائب روى عنه فِي الاختلاط إلاَّ شُعْبَة وسفيان.[الكامل في ضعفاء الرجال 7/ 233]۔

ابن معین رحمہ اللہ سے منقول اس قول کی بنیاد پر بعض لوگوں‌ نے یہ سمجھ لیا ہے کہ عطاء بن السائب سے اختلاط سے قبل صرف شعبہ وسفیان نے ہی سناہے۔
لیکن یہ بات دو وجوہات کی بناپرمردودہے:
اول:
ابن معین رحمہ اللہ سے یہ قول بسندصحیح ثابت ہیں‌ ہیں ، کیونکہ اس کی سندمیں ’’أَحْمَدُ بْنُ أَبِي يَحْيى‘‘ ہے اوراسے ابراہم اصبہانی رحمہ اللہ نے کذاب کہاہے [الكامل في الضعفاء 1/ 195 وسندہ صحیح]۔

دوم :
خود ابن معین رحمہ اللہ سے ان کا یہ قول ثابت ہے کہ ’’حماد بن سلمة‘‘ نے ’’عطاء بن السائب‘‘ سے ان کے مختلط ہونے سے پہلے سناہے، جیساکہ اوپر نقل کیا جاچکاہے۔

تنبیہ ثانی :
عبدالحق اشبیلی اورابن القطان وغیرہ نے امام عقیلی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ :
وسماع حماد بن سلمة بعد الاختلاط [تهذيب التهذيب 7/ 185]۔

عرض ہے کہ :
اولا:
امام عقیلی سے اس کے خلاف بھی منقول ہے، حافظ ابن حجررحمہ اللہ نےکہا:
وقال العقيلي تغير حفظه وسماع حماد بن زيد منه قبل التغير [تهذيب التهذيب 7/ 185]
ثانیا:
امام عقیلی رحمہ اللہ سے مذکورہ قول ثابت ہیی نہیں ہے، ابن القطان وغیرہ کو وہم ہواہے۔
کیونکہ امام عقلیلی کی کتاب میں ضعفاء میں حمادبن سلمہ کا تذکرہ ہے لیکن وہاں ایساکچھ بھی موجود نہیں ، نہ مطوعہ نسخہ میں اورنہ ہی مخطوطے میں تفصیل کے لئے دیکھئے:[الانبساط بتحقيق سماع حماد بن سلمة من عطاء بن السائب فقط قبل الاختلاط: ص 20 ، 22 ]۔

تنبیہ ثالث:
امام عقیلی رحمہ اللہ نے یحیی بن سعید رحمہ اللہ کے بارے میں کہا:
وَكَانَ يَحْيَى لَا يَرْوِي حَدِيثَ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ إِلَّا عَنْ شُعْبَةَ وَسُفْيَانَ[الضعفاء الكبير للعقيلي 3/ 400]۔

عرض ہے کہ امام یحیی بن سعید نے بعد میں حمادبن سلمہ کے طریق سے بھی عطاء سے روایت کرنے لگے تھے اورموت تک اس پرباقی رہے ۔
چنانچہ امام ابن معين رحمه الله (المتوفى327)نے کہا :
مات يحيى بن سعيد القطان وهو يحدث عن حماد بن سلمة[تاريخ ابن معين - رواية الدوري 4/ 347]۔

اس تفصیل سے معلوم ہواکہ عطاء سے حماد کا سماع عطاء کے اختلاط سے قبل ہے لہٰذا یہ سند صحیح ہے۔علامہ البانی رحمہ اللہ کا اسے ضعیف قراردینا درست معلوم نہیں ہوتا واللہ اعلم۔
 
Top