• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قبر میں نماز اور ثابت البنانی رحمہ اللہ

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

قبر میں نماز اور ثابت البنانی رحمہ اللہ


اس متعلق فورم پر پہلے سے ہی مواد موجود ہے لیکن اس تحریر میں راویوں سے متعلق کچھ اضافہ کیا گیا ہے تو محسوس ہوا اس کو یہاں شیئر کر دیا جائے۔

اس تحریر کو رومن انگلش میں پڑھنے اور اسکین پیجیس کے لئے یہاں کلک کریں

https://ahlehadithhaq.wordpress.com/2018/09/22/qabr-me-namaz-aur-sabit-albanani-rh/#more-1202

طبقات ابن سعد کی ایک روایت میں ہے:
" أَخْبَرَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ ثَابِتٍ قَالَ: إِنْ كُنْتَ أَعْطَيْتَ أَحَدًا الصَّلاةَ فِي قَبْرِهِ فَأَعْطِنِي الصَّلاةَ فِي قَبْرِي "
حماد بن سلمہ سے روایت ہے کہ ثابت (بن اسلم البنانی) رحمہ اللہ نے کہا : (اے اللہ) اگر تو نے کسی کو اس کی قبر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے تو مجھے (بھی) میری قبر میں نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرما۔ [ طبقات الکبری ج 7 ص 174 وسندہ صحیح ]

ایک روایت میں ہے :
" حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَسَدٍ حدثنا ضمرة عن ابن شوذب قال: سمعت ثَابِتًا الْبُنَانِيَّ يَقُولُ: اللَّهمّ إِنْ كُنْتَ أَعْطَيْتَ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ يُصَلِّي لَكَ فِي قَبْرِهِ فَأَعْطِنِيهِ "
عبداللہ بن شوذب سے روایت ہے کہ میں نے ثابت البنانی کو کہتے ہوئے سنا : اے میرے اللہ ! اگر تو نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو قبر میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے تو مجھے بھی یہ اجازت دینا۔ [ المعرفة والتاريخ ج 2 ص 99 وسندہ حسن، حلية الأولياء ج 2 ص 319 ]
یہ ایک دعا ہے جو ثابت البنانی رحمہ اللہ نے مانگی ہے۔

ایک روایت میں ہے کہ :

" حَدَّثَنَا أَبُو حَامِدِ بْنُ جَبَلَةَ قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ السَّرَّاجُ، قَالَ: ثنا عُمَرُ بْنُ شَبَّةَ، قَالَ: ثنا يُوسُفُ بْنُ عَطِيَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ ثَابِتًا، يَقُولُ لِحُمَيْدٍ الطَّوِيلِ: «هَلْ بَلَغَكَ يَا أَبَا عُبَيْدٍ أَنَّ أَحَدًا يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ إِلَّا الْأَنْبِيَاءَ؟» قَالَ: لَا، قَالَ ثَابِتٌ: «اللهُمَّ إِنْ أَذِنْتَ لِأَحَدٍ أَنْ يُصَلِّيَ فِي قَبْرِهِ فَأْذَنْ لِثَابِتٍ أَنْ يُصَلِّيَ فِي قَبْرِهِ» قَالَ: وَكَانَ ثَابِتٌ يُصَلِّي قَائِمًا حَتَّى يَعْيَا فَإِذَا أَعْيَا جَلَسَ فَيُ "

مفہوم : یوسف بن عطیہ (متروک) نے کہا :
" فَأْذَنْ لِثَابِتٍ أَنْ يُصَلِّيَ فِي قَبْرِهِ "
پس ثابت کو ان کی قبر میں نماز پڑھنے کی اجازت مل گئی۔ [ حلية الأولياء ج 2 ص 319 ]

یہ روایت یوسف بن عطیہ کی وجہ سے موضوع ہے۔

امام حاکم رحمہ اللہ یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

" روى عن ثابت البنانی أحاديث مناكير "
یہ ثابت البنانی سے منکر روایات بیان کرتا تھا۔ [المدخل الی الصحیح للحاکم ص 231 ]

امام ابن عدی رحمہ اللہ یوسف بن عطیہ کی بیان کردہ روایات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :

" وهذه الأحاديث عن ثَابِت وله غير هذا عن ثَابِت وكلها غير محفوظة "
یہ تمام احادیث جو (یوسف بن عطیہ ) ثابت البنانی سے نقل کرتا ہے اور ان کے علاوہ وہ جو احادیث ثابت سے بیان کرتا ہے سب غیر محفوظ ہیں۔ [ الکامل لابن عدی ج 8 ص 482 ]

امام ابن حبان رحمہ اللہ یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

" كَانَ مِمَّن يقلب الْأَسَانِيد وَيلْزق الْمُتُون الْمَوْضُوعَة بِالْأَسَانِيدِ الصَّحِيحَة وَيحدث بهَا لَا يجوز الِاحْتِجَاج بِهِ بِحَال "
یہ اسانید میں تبدیلی کردیتا تھا، من گھڑت روایت پر صحیح احادیث فٹ کردیتا تھا، یہ کسی حال میں بھی قابل حجت نہیں۔ [ المجروحین ج 2 ص 487 ]

امام عمرو بن علی الفلاس رحمہ اللہ یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

" نا عبد الرحمن نا محمد بن إبراهيم أنه حدثه عمرو بن على بأن يوسف [بن عطية - ٣] الصفار ابا سهل مولى الانصار كثير الوهم والخطأ "
اس راوی سے بہت زیادہ وہم اور غلطیاں صادر ہوئی ہیں۔ [ الجرح و تعدیل ج 9 ص 226 ]

امام ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی رحمہ اللہ یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

" لا يحمد حديثه "
ان کی کوئی حدیث تعریف کے لائق نہیں۔ [ احوال الرجال ص 118 رقم 193 ]

امام ابو نعیم الاصبھانی رحمہ اللہ یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
" فِي حَدِيثِهِ نَكَارَةٌ "
ان کی حدیث میں نکارت ہے۔ [ حلية الأولياء ج 2 ص 332 ]

امام ابو جعفر العقیلی رحمہ اللہ یوسف بن عطیہ کی ایک روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
" لَيْسَ لِهَذَا الْحَدِيثِ إِسْنَادٌ يَثْبُتُ "
اس حدیث کی سند ثابت نہیں۔[ الضعفاء الکبیر للعقیلی ج 4 ص 455 ]

علی بن مدینی رحمہ اللہ یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

" کانا ضعیفا "
وہ ضعیف تھے۔ [ سؤالات ابن أبي شيبة لابن المديني ص 166 ]

امام بخاری رحمہ اللہ یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

" منکر الحدیث "
یہ منکر الحدیث راوی ہے ۔ [ تاريخ الكبير ج 8 ص 387، الضعفاء الصغير ج 1 ص 142 رقم 433 ت ابی العینعین]

امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

" منکر الحدیث "
یہ منکر الحدیث راوی ہے ۔ [الجرح و تعدیل ج 9 ص 227 رقم 950]

امام نسائی یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

" متروک الحدیث "
یہ متروک الحدیث راوی ہے ۔ [ الضعفاء والمتروکین ص 246 رقم 646]

امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

" متروک "
یہ متروک راوی ہے۔ [تقریب التھذیب ص 1094 رقم 7930]

اید دوسری جگہ یوسف بن عطیہ کی بیان کردہ ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
" قلت : وھو حدیث منکر من أجل يوسف بن عطية، فإنه ضعيف جدا "
میں کہتا ہوں : ہے حديث منكر ہے يوسف بن عطيہ کی وجہ سے ، کیونکہ یہ بڑا سخط ضعيف راوي ہے۔ [ تبين العجب ص 20 ]

امام ہیثمی رحمہ اللہ یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
" وھو متروك "
اور وہ متروک ہے۔ [مجمع الزوائد ج 3 ص 138 ]

امام ابو بکر بیھقی رحمہ اللہ یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

" ضعیف "
یہ ضعیف ہے ۔ [شعب الايمان ج 10 ص 97 رقم 7223]

امام ابو ذرعہ رحمہ اللہ یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

" ضعیف الحدیث "
یہ حدیث میں ضعیف ہے۔ [ الجرح و تعدیل لابی حاتم ج 9 ص 226،227 رقم 950 ]

امام احمد بن صالح العجلی رحمہ اللہ یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

" ضعیف الحدیث "
یہ حدیث میں ضعیف ہے۔ [ معرفة الثقات للعجلي ج 2 ص 376 ]

امام ابو بکر البزار رحمہ اللہ یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

" وھو لین الحدیث "
اور وہ حدیث میں کمزور ہیں۔ [ كشف الأستار عن زوائد البزار ج 1 ص 26 ]

يعقوب بن سفيان الفسوي رحمہ اللہ یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

" لین الحدیث "
یہ حدیث میں کمزور ہے۔ [ کتاب المعرفة والتاريخ ج 3 ص 60 ]

امام يحيى بن معين یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

" لَيْسَ بِشَيْء "
یہ کچھ بھی نہیں۔ [تاریخ یحیی ابن معین ج 4 ص 209 ]

أبو دواد السجستاني رحمہ اللہ یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
" لَيْسَ بِشَيْء "
یہ کچھ بھی نہیں۔ [ سؤالات أبي عبيد الآجري لأبي داود ج 1 ص 375-376 ]

امام ذھبی رحمہ اللہ یوسف بن عطیہ کے بارے میں فرماتے ہیں :

" مجمع على ضعفه "
اس کےضعیف ہونے پر اجماع ہے۔ [ ميزان الاعتدال ج 4 ص 468 ]

ایک دوسری روایت میں ہے کہ :

" حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْعُثْمَانِيُّ، قَالَ: ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَلِيٍّ الْكَرَابِيسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانِ الْقَزَّازُ، قَالَ: ثنا شَيْبَانُ بْنُ جِسْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " أَنَا وَاللهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ أَدْخَلْتُ ثَابِتًا الْبُنَانِيَّ لَحْدَهُ وَمَعِيَ حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ أَوْ رَجُلٌ غَيْرُهُ شَكَّ مُحَمَّدٌ قَالَ: فَلَمَّا سَوَّيْنَا عَلَيْهِ اللَّبِنَ سَقَطَتْ لَبِنَةٌ فَإِذَا أَنَا بِهِ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ فَقُلْتُ لِلَّذِي مَعَهُ: أَلَا تَرَى؟ قَالَ: اسْكُتْ فَلَمَّا سَوَّيْنَا عَلَيْهِ وَفَرَغْنَا أَتَيْنَا ابْنَتَهُ فَقُلْنَا لَهَا: مَا كَانَ عَمَلُ أَبِيكَ ثَابِتٍ؟ فَقَالَتْ: وَمَا رَأَيْتُمْ؟ فَأَخْبَرْنَاهَا فَقَالَتْ: كَانَ يقُومُ اللَّيْلَ خَمْسِينَ سَنَةً فَإِذَا كَانَ السَّحَرُ قَالَ فِي دُعَائِهِ: اللهُمَّ إِنْ كُنْتَ أَعْطَيْتَ أَحَدًا مِنْ خَلْقِكَ الصَّلَاةَ فِي قَبْرِهِ فَأَعْطِنِيهَا "، فَمَا كَانَ اللهُ لِيَرُدَّ ذَلِكَ الدُّعَاءَ "
مفہوم : جسر (بن فرقد) سے روایت ہے کہ اس نے ثابت البنانی رحمہ اللہ کو قبر میں نماز پڑھتے دیکھا۔ [ حلية الأولياء ج 2 ص 319 ]

یہ سند موضوع ہے۔

پہلی وجہ : جسر بن فرقد ضعيف و متروك ہے
امام ابو جعفر العقیلی رحمہ اللہ جسر بن فرقد کے بارے میں فرماتے ہیں :

" جَعْفَرُ بْنُ جَسْرِ بْنِ فَرْقَدٍ الْقَصَّابُ بَصْرِيٌّ وَحِفْظُهُ فِيهِ اضْطِرَابٌ شَدِيدٌ، كَانَ يَذْهَبُ إِلَى الْقَدَرِ وَحَدَّثَ بِمَنَاكِيرَ "
جعفر بن جسر بن فرقد القصاب بصری اس کے حفظ میں شدید اضطراب تھا اور یہ قدریہ کی طرف مائل تھا اور اس نے منکر احادیث بیان کی ہے۔ [ الضعفاء الكبير العقيلي ج 1 ص 187 ]

امام یحیی بن معین رحمہ اللہ جسر بن فرقد کے بارے میں فرماتے ہیں :

" لَيْسَ بشَيْءٍ، ولاَ يكتب حديثه "
یہ کچھ بھی نہیں ، اس سے حدیث نہ لکھی جائے۔ [ الکامل لابن عدی ج 2 ص 421 ]

امام ابن حبان رحمہ اللہ جسر بن فرقد کے بارے میں فرماتے ہیں :

" كَانَ مِمَّن غلب عَلَيْهِ التقشف حَتَّى أغضى عَن تعهد الْحَدِيث فَأخذ يهم إِذا روى ويخطيء إِذَا حدث حَتَّى خرج عَن حد الْعَدَالَة "
ان پر صوفیانہ زندگی غالب تھی، حدیث دہرانے تک کااہتمام نہ کیا، لہذا غلطیاں اور اوہام لاحق ہونے لگے، اور اس قدر بڑھے کہ ناقابل اعتبار ٹھہرے۔ [ کتاب المجروحین لابن حبان ج 1 ص 257،258 ]

امام ابن عدى رحمہ اللہ جسر بن فرقد کی بیان کردہ روایات نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :

" ولجسر بْن فرقد هَذَا غير ما ذكرت من الْحَدِيث وليس بالكثير وأحاديثه عامتها غير محفوظة "
جسر بن فرقد کی مذکورہ بالا کے علاوہ بھی احادیث ہیں، لیکن زیادہ نہیں۔ اور عموما سب غیر محفوظ یعنی شاذ ہیں۔ [ الکامل لابن عدی ج 2 ص 425 ]

امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ علیہ جسر بن فرقد کے بارے میں فرماتے ہیں

" ليس بالقوي كان رجلا صالحا "
وہ قوی نہیں اور وہ ایک صالح شخص تھا۔ [ الجرح و تعدیل ج 2 ص 539 ]

امام ابو داود السجستانی رحمہ اللہ جسر بن فرقد کے بارے میں فرماتے ہیں

" ضعیف "
یہ ضعیف راوی ہے۔ [ سؤالات أبي عبيد الآجري لأبي داود ج 1 ص 362 ]

احمد بن شعیب النسائی جسر بن فرقد کے بارے میں فرماتے ہیں :

" ضعيف "
یہ ضعیف راوی ہے۔ [ الضعفاء والمتروکین ص 74 ]

امام دارقطنی رحمہ اللہ جسر بن فرقد کے بارے میں فرماتے ہیں :
" متروك "
یہ متروک راوی ہے۔ [ سؤالات البرقاني الدارقطني ت القشيري ص 20 ]

امام ابو بکر البزار رحمہ اللہ جسر بن فرقد کے بارے میں فرماتے ہیں :
" لین الحدیث "
یہ حدیث میں کمزور ہے۔ [ كشف الأستار عن زوائد البزار ج 3 ص 52 ]

دوسری وجہ : محمد بن سنان القزاز ضعیف راوی ہے۔

امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ محمد بن سنان القزاز کے بارے میں فرماتے ہیں :

" ضعیف "
یہ ضعیف راوی ہے ۔ [ تقریب التھذیب ص 851 ]

تیسری وجہ : اسماعیل بن علی الکرابیسی مجہول الحال ہیں

چوتھی وجہ : عثمان بن محمد العثمانی مجہول الحال ہیں

ثابت ہوا کہ یہ روایت ثابت ہی نہیں ہے ۔ یعنی یہ سند ظلمات ہے۔

تنبیہ : اس مردود روایت کو عبد الحئ لکھنوی رحمہ اللہ نے بحوالہ حلیتہ الاولیاء
" حدثنا عثمان ابن محمد العثمانی : حدثنا اسماعیل بن علی الکرابیسی : حدثنا محمد ابن سنان : حدثنا سنان عن أبیه " کہ سند سے نقل کیا ہے ۔[ إقامة الحجة ص 70 و مجموعہ رسائل لکھنوی ج 2 ص 176 ]

لکھنوی صاحب سے اسے زکریا دیوبندی صاحب نے اپنی کتاب میں نقل کر کے عوام الناس کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ دیکھیں [ فضائل نماز ص 260 ، نیز دیکھئے فضائل اعمال ص 361 ]

زکریا صاحب سے اسے کسی نور محمد قادری (دیوبندی) نامی شخص نے بطور استدلال حجت نقل کر کے " قبر میں نماز " اور " عقیدہ حیات قبر " کا ثبوت فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ دیکھئے دیوبندیوں کا [ مہانامہ الخیر ملتان جلد 24 شمارہ 5 جون 2006 ص 25 و 249 ]

عرض ہے کہ محمد بن سنان القزاز کے شدید ضعیف اور الکرابیسی والعثمانی کی جہالت کے ساتھ ساتھ سنان اور اس کے باپ ( ابو سنان) کا کوئی اتہ پتہ معلوم نہیں ہے ۔

عین ممکن ہے کہ عبدالحئ صاحب والے نسخے میں " شيبان بن جسر عن أبيه " کو " سنان عن أبيه " لکھ دیا گیا ہو۔


اس مردود روایت کو عبدالحئ صاحب کا بغیر تحقیق و جرح کے نقل کرنا اور پھر ان کی کورانہ تقلید میں زکریا صاحب، نور محمد قادری دیوبندی اور مسؤلين مہانامہ الخیر ملتان کا عام لوگوں کے سامنے بطور حجت و استدلال پیش کرنا غلط حرکت ہے ۔ علماء کو چاہئے کہ عوام کے سامنے صرف وہی روایت پیش کریں جو کہ صحیح و ثابت ہوں ۔ اس سلسلے میں علماء کو چاہئے کہ پوری تحقیق کریں ورنہ پھر خاموش رہنا ہی بہتر ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ :

" من صمت نجا "
جو خاموش رہا اس نے نجات پائی۔ [ کتاب الزھد لابن المبارك ص 142 رقم 385 وسندہ حسن و سنن الترمذی رقم 2501 ]

خلاصتہ التحقیق : یہ بات تو ثابت ہے کہ مشہور تابعی ثابت البنانی رحمہ اللہ قبر میں نماز پڑھنے کی دعا کرتے تھے مگر یہ بات ثابت نہیں ہے کہ انھوں نے قبر میں نماز پڑھی ہے ۔ ضعیف و مجہول راویوں کی بنیاد پر اس قسم کے دعوے کرنا کہ ثابت رحمہ اللہ قبر میں نماز پڑھتے تھے ، غلط اور مردود ہے ۔

[ فتاوی علمیہ ج 1 ص 171]
 
Last edited:
Top