• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا کسی صحابی نے نبی کریم علیہ السلام کا خون مبارک پیا ؟

شمولیت
اگست 05، 2016
پیغامات
52
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
16
اس روایت کی تصدیق درکار ھے
ﻭﻗﺪ ﻭﺭﺩﺕ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﮐﺜﯿﺮۃ ﺍﻥ ﺟﻤﺎﻋۃ ﺷﺮﺑﻮﺍ ﺩﻡ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﷺ ﻣﻨﮭﻢ ﺍﺑﻮ ﻃﯿﺒۃ ﺍﻟﺤﺠﺎﻡ ﻭﻏﻼﻡ ﻣﻦ ﻗﺮﯾﺶ ﺣﺠﻢ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺼﻠﻮٰۃ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ﻭﻋﺒﺪ ﷲ ﺍﺑﻦ ﺍﻟﺰﺑﯿﺮ ﺷﺮﺏ ﺩﻡ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﷺ ﺭﻭﺍﮦ ﺍﻟﺒﺰﺍﺭ ﻭﺍﻟﻄﺒﺮﺍﻧﯽ ﻭﺍﻟﺤﺎﮐﻢ ﻭﺍﻟﺒﯿﮩﻘﯽ ﻭﺍﺑﻮﻧﻌﯿﻢ ﻓﯽ ﺍﻟﺤﻠﯿۃ ﻭﯾﺮﻭﯼ ﻋﻦ ﻋﻠﯽ ﺭﺿﯽ ﷲ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻨﮧ ﺍﻧﮧ ﺷﺮﺏ ﺩﻡ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺼﻠﻮٰۃ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ﻭﺭﻭﯼ ﺍﯾﻀًﺎ ﺍﻥ ﺍُﻡ ﺍﯾﻤﻦ ﺷﺮﺑﺖ ﺑﻮﻝ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﷺ ﺭﻭﺍﮦ ﺍﻟﺤﺎﮐﻢ ﻭﺍﻟﺪﺍﺭﻗﻄﻨﯽ ﻭﺍﺑﻮ ﻧﻌﯿﻢ ﻭﺍﺧﺮﺝ ﺍﻟﻄﺒﺮﺍﻧﯽ ﻓﯽ ﺍﻻﻭﺳﻂ ﻓﯽ ﺭﻭﺍﯾۃ ﺳﻠﻤﯽ ﺍﻣﺮﺍٔۃ ﺍﺑﯽ ﺭﺍﻓﻊ ﺍﻧﮩﺎ ﺷﺮﺑﺖ ﺑﻌﺾ ﻣﺎﺀ ﻏﺴﻞ ﺑﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﷲ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺼﻠﻮٰۃ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ﻓﻘﺎﻝ ﻟﮩﺎ ﺣﺮﻡ ﷲ ﺑﺪﻧﮏ ﻋﻠﯽ ﺍﻟﻨﺎﺭ ﻭﻗﺎﻝ ﺑﻌﻀﮩﻢ ﺍﻟﺤﻖ ﺍﻥ ﺣﮑﻢ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺼﻠﻮٰۃ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ﮐﺤﮑﻢ ﺟﻤﯿﻊ ﺍﻟﻤﮑﻠﻔﯿﻦ ﻓﯽ ﺍﻻﺣﮑﺎﻡ ﺍﻟﺘﮑﻠﯿﻔﯿۃ ﺍﻻﻓﯿﻤﺎ ﯾﺨﺺ ﺑﺪﻟﯿﻞ ﻗﻠﺖ ﯾﻠﺰﻡ ﻣﻦ ﮬﺬﺍ ﺍﻥ ﯾﮑﻮﻥ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﻣﺴﺎﻭﯾًﺎ ﻟﻠﻨﺒﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺼﻠﻮۃ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ﻭﻻ ﯾﻘﻮﻝ ﺫﻟﮏ ﺍﻻﺟﺎﮬﻞ ﻏﺒﯿﯽٌ ﻭﺍﯾﻦ ﻣﺮﺗﺒﺘﮧٗ ﻣﻦ ﻣﺮﺍﺗﺐ ﺍﻟﻨﺎﺱ ﻭﺍﻻﯾﻠﺰﻡ ﺍﻥ ﯾﮑﻮﻥ ﺩﻟﯿﻞ ﺍﻟﺨﺼﻮﺹ ﺑﺎﻟﻨﻘﻞ ﺩﺍﺋﻤًﺎ ﻭﺍﻟﻌﻘﻞ ﻟﮧٗ ﻣﺪﺧﻞ ﻓﯽ ﺗﻤﯿﺰ ﺍﻟﻨﺒﯽ ﻋﻠﯿﮧ ﺍﻟﺼﻠﻮٰۃ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ﻣﻦ ﻏﯿﺮﮦ ﻓﯽ ﻣﺜﻞ ﮬﺬﺍ ﺍﻻﺷﯿﺎﺀ ﻭﺍﻧﺎ ﺍﻋﺘﻘﺪ ﺍﻧﮧ ﻻ ﯾﻘﺎﺱ ﻋﻠﯿﮧ ﻏﯿﺮﮦ ﻭﺍﻥ ﻗﺎﻟﻮﺍ ﻏﯿﺮ ﺫﻟﮏ ﻓﺎﺫﻧﯽ ﻋﻨﮧ ﺻﻤﺎ۔ ﺍﻧﺘﮩﯽٰ ‏( ﻋﻤﺪۃ ﺍﻟﻘﺎﺭﯼ ﺷﺮﺡ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ، ﺟﻠﺪ۱، ﺹ۷۷۸ ‏)
ﺑﮯ ﺷﮏ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺣﺪﯾﺜﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﺎﺭﮦ ﻣﯿﮟ ﻭﺍﺭﺩ ﮨﻮﺋﯿﮟ ﮐﮧ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﺟﻤﺎﻋﺖ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭﮐﺎ ﺧﻮﻥ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﭘﯿﺎ ﺍﻥ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﺑﻮ ﻃﯿﺒﮧ ﺣﺠﺎﻡ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﻗﺮﯾﺸﯽ ﻟﮍﮐﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭﮐﮯ ﭘﭽﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﺑﻦ ﺯﺑﯿﺮ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺣﻀﻮﺭﮐﺎ ﺧﻮﻥ ﺍﻗﺪﺱ ﭘﯿﺎ، ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﺰﺍﺭ ﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﻃﺒﺮﺍﻧﯽ ﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﺎﮐﻢ ﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﮩﻘﯽ ﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻮ ﻧﻌﯿﻢ ﻧﮯ ﺣﻠﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻠﯽ ﻣﺮﺗﻀﯽٰ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺣﻀﻮﺭﮐﺎ ﺧﻮﻥ ﺍﻗﺪﺱ ﭘﯿﺎ،ﻧﯿﺰ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺍُﻡ ﺍﯾﻤﻦ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭﮐﺎ ﭘﯿﺸﺎﺏ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﭘﯿﺎ ﺍﺱ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﻮ ﺣﺎﮐﻢ ﻧﮯ ﺩﺍﺭﻗﻄﻨﯽ ﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻮ ﻧﻌﯿﻢ ﻧﮯ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻃﺒﺮﺍﻧﯽ ﻧﮯ ﺍﻭﺳﻂ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﻮ ﺭﺍﻓﻊ ﮐﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺳﻠﻤﯽٰ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﺍﺧﺮﺍﺝ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺳﻠﻤﯽٰ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭﮐﺎ ﻏﺴﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯿﺎ ﺗﻮ ﺣﻀﻮﺭﻧﮯ ﺍﺭﺷﺎﺩ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺩﻭﺯﺥ ﭘﺮ ﺣﺮﺍﻡ ﻓﺮﻣﺎﺩﯾﺎ ﺑﻌﺾ ﮐﺎ ﻗﻮﻝ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﻮﺭﺍﺣﮑﺎﻡ ﺗﮑﻠﯿﻔﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮕﺮ ﻣﮑﻠﻔﯿﻦ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﯿﮟ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺍﺱ ﭼﯿﺰ ﮐﮯ ﺟﻮ ﺩﻟﯿﻞ ﺳﮯ ﺧﺎﺹ ﮨﻮ، ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻗﻮﻝ ﺳﮯ ﺗﻮ ﻻﺯﻡ ﺍٓﺗﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ‏( ﻣﻌﺎﺫ ﺍﷲ ‏) ﻋﺎﻡ ﻟﻮﮒ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﷲ ﷺ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﻭﯼ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﻮﺍﺋﮯ ﺟﺎﮨﻞ ﻏﺒﯽ ﮐﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﮧ ﺳﮑﺘﺎ، ﺑﮭﻼ ﺣﻀﻮﺭﮐﮯ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﮐﻮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺮﺗﺒﮧ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻧﺴﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺩﻟﯿﻞ ﺧﺼﻮﺹ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﻧﻘﻞ ﮨﯽ ﺳﮯ ﮨﻮ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻥ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﻮﺭﮐﺎ ﺍﭘﻨﮯ ﻏﯿﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻣﻤﺘﺎﺯ ﮨﻮﻧﺎ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻋﻘﻞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺩﺧﻞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﻋﺘﻘﺎﺩ ﺗﻮ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﻮﺭﭘﺮ ﻏﯿﺮ ﮐﺎ ﻗﯿﺎﺱ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ، ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺨﺺ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﮐﭽﮫ ﮐﮩﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﺎﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﻨﻨﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺮﮮ ﮨﯿﮟ۔ ﻋﺎﻣﺮ ﺻﺎﺣﺐ ﺫﺭﺍ ﺍﺱ ﻧﻮﺭﺍﻧﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﻮ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﺪﻋﻘﯿﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﻋﻼﺝ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ۔ ‏( ۴ ‏) ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﻣﺎﻡ ﻗﺴﻄﻼﻧﯽ ﺷﺎﺭﺡ ﺻﺤﯿﺢ ﺑﺨﺎﺭﯼ ﻣﻮﺍﮨﺐ ﺍﻟﻠﺪﻧﯿﮧ ﺷﺮﯾﻒ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﻮﺭﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﻓﻀﻼﺕ ﺷﺮﯾﻔﮧ ﮐﯽ ﭘﺎﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻃﮩﺎﺭﺕ ﮐﺎ ﺣﺴﺐ ﺫﯾﻞ ﻋﺒﺎﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﻧﻮﺭﺍﻧﯽ ﺑﯿﺎﻥ ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ : ﻭﺭﻭﯼ ﺍﻧﮧ ﮐﺎﻥ ﯾﺘﺒﺮﮎ ﺑﺒﻮﻟﮧ ﻭﺩﻣﮧ ﷺ۔ ﻣﺮﻭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﻮﺭﮐﮯ ﭘﯿﺸﺎﺏ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻥ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺳﮯ ﺑﺮﮐﺖ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ‏( ﻣﻮﺍﮨﺐ ﺍﻟﻠﺪﻧﯿﮧ، ﺟﻠﺪ۱، ۲۸۴ ‏)
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
شیخ غلام مصطفی ظہیر صاحب نے اس سلسلے میں ایک تحقیقی مضمون قلمبند فرمایا ہے ، انہوں نے اس سلسلے میں وارد بعض روایات کے متعلق تحقیق پیش کی ہے ۔
آپ نے اوپر جو تحریر ذکر کی ، اس میں خون پینے سے متعلق در ج ذیل چار روایات کا تذکر کیا گیا ہے :
ابو طیبہ رضی اللہ عنہ والی روایت
ایک قریشی لڑکے والی روایت
عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ والی روایت
علی رضی اللہ عنہ والی روایت
ان سب کی حقیقت ذیل میں ملاحظہ کر لیجیے :
قریشی لڑکے والی روایت :
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک قریشی لڑکے نے نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنگی لگائی ۔ جب وہ اس سے فارغ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خون لے کر دیوار کے پیچھے چلا گیا ۔ پھر اس نے اپنے دائیں بائیں دیکھا ۔ جب اسے کوئی نظر نہ آیا تو اس نے وہ خون پی لیا ۔ جب واپس لوٹا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر پوچھا : اللہ کے بندے ! آپ نے اس خون کا کیا کیا ؟ اس نے عرض کیا : میں نے دیوار کے پیچھے اسے چھپا دیا ہے ۔ آپ نے فرمایا : کہاں چھپایا ہے ؟ اس نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! میں نے زمین پر آپ کا خون گرانا مناسب نہیں سمجھا تو وہ میرے پیٹ میں ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جاؤ تم نے خود کو جہنم سے بچا لیا ۔
(المجروحین من المحدثین لابن حبان : ٣/٥٩، التلخیص الحبیر لابن حجر : ١/١١١)
تبصرہ : یہ جھوٹ کا پلندا ہے ۔ امام ابنِ حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
'' اس کے راوی نافع السلمی ابو ہرمز بصری نے امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ کی طرف منسوب ایک جھوٹا نسخہ روایت کیا تھا ۔ ''پھر انہوں نے اس سے یہ حدیث ذکر کی ۔
اس راوی کے متعلق امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لیس بثقۃ ، کذّاب ۔ ''یہ ثقہ نہیں ۔ پرلے درجے کا جھوٹا ہے ۔ ''
(الکامل لابن عدی : ٧/٤٩، وسندہ، حسنٌ)
یہ بالاتفاق ضعیف اور متروک راوی ہے ۔ اس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ والی روایت :
عامر بن عبد اللہ بن زبیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنگی لگوائی ۔ مجھے حکم دیا کہ میں اس خون کو ایسی جگہ چھپا دوں جہاں سے درندے ، کتے (وغیرہ) یا کوئی انسان نہ پا سکے ۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی ئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دُور چلا گیا اور دُور جا کر اس خون کو پی لیا ۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : آپ نے خون کا کیا کیا ؟ میں نے عرض کی : میں نے ویسے ہی کیا ہے جیسے آپ نے حکم دیا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے خیال میں آپ نے اسے پی لیا ہے ۔ میں نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اب آپ سے میرا کوئی میرا امتی بغض و کینہ سے نہیں ملے گا ۔
(السنن الکبری للبیہقی : ٧/٦٧، وصححہ المقدسی : ٩/٣٠٨)
تبصرہ : اس روایت کی سند ''ضعیف'' ہے ۔ اس کا راوی الھنید بن قاسم بن عبد الرحمن ''مجہول'' ہے ۔ متقدمین ائمہ محدثین میں سے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی ۔ لہٰذا حافظ ہیثمی رحمہ اللہ (مجمع الزوائد : ٨/٧٢)کا اس کو ثقہ قرار دینا اور حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ (التلخیص الحبیر : ١/٣٠)کا '' ولا بأس بہ '' کہنا صحیح نہیں ۔
ایک روایت میں ہے : لعلک شربتہ ؟ قال : نعم ، قال : ولم شربت الدم ؟ ویل للناس منک ، وویل لک من الناس ۔
''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شاید آپ نے پی لیا ہے ۔ صحابی نے عرض کیا : جی ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : آپ نے خون کیوں پیا ؟ نیز فرمایا : لوگ آپ سے محفوظ ہو گئے اور آپ لوگوں سے محفوظ رہیں گے ۔ ''
اس کی سند میں وہی الھنید بن قاسم راوی ''مجہول'' ہے ۔
ایک روایت میں ہے : لا تمسّک النار إلا قسم الیمین ۔
'' آپ کو آگ صرف قسم پوری کرنے کے لیے چھوئے گی ۔ ''
(حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبہانی : ١/٣٣٠، جزء الغطریف : ٦٥، تاریخ دمشق لابن عساکر : ٢٠/٢٣٣، ٢٨/١٦٢، ١٦٣، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ لابن حجر : ٤/٩٣)
تبصرہ : اس کی سند سخت ترین '' ضعیف'' ہے ۔ اس کے راوی سعد ابو عاصم مولیٰ سلیمان بن علی اور کیسان مولیٰ عبداللہ بن الزبیر کی توثیق نہیں مل سکی ، لہٰذا یہ سند مردود و باطل ہے ۔
اسماء بنت ابی بکر کی روایت میں ہے : لا تمسّک النار ، ومسح علی رأسہ ۔ '' نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور فرمایا کہ آپ کو آگ ہرگز نہ چھوئے گی ۔ (سنن الدارقطنی : ١/٢٢٨)
تبصرہ : اس کی سند سخت ''ضعیف'' ہے ، کیونکہ :
1 اس کا راوی محمد بن حمید الرازی ''ضعیف'' ہے ۔ (تقریب التہذیب : ٥٨٣٤)
2 اس کا راوی علی بن مجاہد بھی ''ضعیف'' ہے ۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے کذاب قرار دیا ہے ۔ (المغنی فی الضعفاء : ٢/٩٠٥)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : متروک ، ولیس فی شیوخ أحمد أضعف منہ ۔ ''یہ متروک راوی ہے ۔ امام احمد رحمہ اللہ کے اساتذہ میں اس سے بڑھ کر ضعیف کوئی نہ تھا ۔ '' (تقریب التہذیب : ٤٧٩٠)
نیز حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اسے ''ضعیف'' بھی کہا ہے ۔ (التلخیص الحبیر : ١/٣١)
علی بن مجاہد کے بارے میں امام یحییٰ بن ضُریس کہتے ہیں کہ یہ پرلے درجے کا جھوٹا راوی ہے ۔ (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم : ٦/٢٠٥، وسندہ، حسنٌ)
ابو غسان محمد بن عمرو کہتے ہیں : ترکتہ ، ولم یرضہ ۔ ''میں نے اسے چھوڑ دیا ۔ وہ اس سے راضی نہیں تھے ۔ ''(الضعفاء للعقیلی : ٣/٢٥٢، وسندہ، صحیحٌ)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
کتبنا عنہ ، ما أری بہ بأسا ۔ '' ہم نے اس سے لکھا ہے ، میں اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتا ۔ '' (سوالات ابی داو،د لاحمد : ٥٦٣)
امام ابنِ حبان رحمہ اللہ نے اسے ''الثقات'' میں ذکر کیا ہے ۔
یہ دونوں قول مرجوح ہیں ۔ امام ابنِ حبان ویسے ہی متساہل ہیں ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول جمہور کے مقابلے میں مرجوح ہے ، جیسا کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ اور حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ کی جرح سے معلوم ہوا ہے ۔
جریر بن عبد الحمید کہتے ہیں کہ وہ میرے نزدیک ثقہ ہے ۔ (سنن الترمذی : ٥٩)
لیکن اس قول کی سند میں محمد بن حمید الرازی ''ضعیف'' ہے ، لہٰذا یہ قول ثابت نہیں ۔
3 اس کے تیسرے راوی رباح النوبی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : لیّنہ بعضہم ، ولا یُدری من ہو ۔ '' اسے بعض محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ، نہ معلوم یہ کون ہے ؟ ''(میزان الاعتدال للذہبی : ٢/٣٨)
( ان دونوں روایتوں سے متعلق یہ مکمل گفتگو شیخ ظہیر صاحب کے مضمون سے نقل کی گئی ہے ، جو مکمل یہاں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔)
ابو طیبہ و علی رضی اللہ عنہما والی روایات :
رہی ابو طیبہ والی روایت ، تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ التلخیص میں فرماتے ہیں : لگتا ہے ، یہ قریشی غلام والی روایت ہی ہے ، جبکہ ابو طیبہ کا نام اس میں غلطی سے لیا گیا ہے ، بہر صورت ہر دوصورتوں میں یہ روایت ضعیف ہے ۔ دیکھیے : ( التلخیص الحبیر ج 1 ص 168 ط العلمیۃ )
حضرت علی رضی اللہ عنہ والی روایت کے متعلق بھی ابن الملقن اور ابن حجر رحمہما اللہ نے فرمایا کہ یہ روایت ہمیں نہیں مل سکی ( التلخیص الحبیر ج 1ص 170 ط العلمیۃ مع الحاشیۃ )
 
Top