• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ھِدایۃ المُستفید اُردُو ترجمہ فتح المجید شرح کتابُ التوحید

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مختصر ہدایۃ المستفید
تألیف : علامہ الشیخ عبدالرحمن بن حسن آل شیخ رحمہ اللہ
مقدمہ : شیخ العرب والعجم ابو محمد علامہ سید بدیع الدین شاہ الراشدی رحمہ اللہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مقدمہ
کتاب التوحید
باب: توحید کی فضیلت کا بیان
توحید خالص پر عمل پیرا ہو کر انسان بلا حساب و کتاب جنت میں داخل ہو سکتا ہے
باب: شرک سے ڈرنا ضروری ہے
باب: لا الہ الا اللہ کی شہادت و گواہی کی وضاحت
باب: توحید کی تفسیر اور کلمہ لا الہ الا اللہ کی شہادت کے بارے میں تفصیلات
باب: دفع مصائب کے لئے چھلا پہننا یا گلے میں دھاگے ڈالنا شرک ہی کی قسم ہے
باب: دم، تعویذ اور گنڈوں وغیرہ کے بارے میں شرعی احکام
باب: جو شخص کسی درخت، پتھر، یا قبر وغیرہ سے برکت حاصل کرے …
باب: غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا، شریعت اسلامیہ میں اس کا حکم؟
باب: غیراللہ کے نام کی نذر و نیاز کے احکام
باب: غیراللہ کی پناہ طلب کرنا کیسا ہے؟
اللہ کے علاوہ کسی کو بھی مدد کیلئے پکارنا اور اللہ کے سوا کسی اور سے فریاد کرنا کیسا ہے؟
باب: جو کوئی چیز پیدا نہ کر سکے اور خود پیدا کیا گیا ہو،نہ اپنی مددکر سکے اور نہ …
باب:فرشتے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا حکم دیا؟ …
باب: شفاعت کی دو قسمیں۔ ایک کا بیان قرآن میں ہے جبکہ دوسری …
رُشد و ہدایت کی توفیق اللہ کے پا س ہے وہ جسے چاہے ہدایت دے اور جسے …
باب: کفر و شرک میں مبتلا ہونے کا سبب بزرگوں کے معاملہ میں غلو ہے۔
باب: قبروں کے پاس بیٹھ کر اللہ کی عبادت کرنا یا قبر ستان میں مسجد بنانا …
باب: بزرگوں کی قبروں کے بارے میں غلو کرنے کا نتیجہ …ان کی عبادت
باب: مخالف عقیدئہ توحید، اعمال و اقوال کی بیخ کنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے کی؟
باب: اُمت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض افراد بت پرستی میں مبتلا ہو جائیں گے۔
باب: جادُو کا بیان
باب: جادُو کی اقسام
باب: کہانت اور غیب دانی کے بارے میں احکامِ شریعت کی وضاحت
باب: جادُو اور جنوں وغیرہ کو نکالنے کے علاج کے متعلق اُمور
باب: شگون اور فال کے بارے میں شریعت کے احکام و مسائل
باب: علم نجوم کے بارے میں شرعی احکام۔
باب: بارش کو ستاروں اور مختلف منزلوں کی طرف منسوب کرنا کیسا ہے؟
باب: اللہ تعالیٰ کی محبت اسلام کی بنیاد ہے۔
باب: خوفِ الٰہی کو شریعت اسلامیہ میں اہم ترین مقام حاصل ہے۔
باب: توکل علی اللہ مومنوں کی خاص علامت ہے۔
باب: کیا لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہو گئے ہیں؟
باب: اللہ پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ تقدیر پر صبر کیا جائے۔
باب: ریاکاری سے نیکیاں برباد ہو جاتی ہیں۔
باب: دنیوی اغراض کے پیش نظر کوئی بھی عمل شرک کی تعریف میں آتا ہے۔
باب: حلال و حرام کی پرواہ کئے بغیرعلماء اور اُمراء کی اطاعت شرک ہے۔
باب: اللہ کے دین کے علاوہ کسی ذات یا قانون سے فیصلہ کرنے کروانے والا مشرک ہے۔
باب: اس شخص کا حکم جو اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کا منکر ہے۔
باب: دنیا میں بیشتر لوگ ایسے ہیں جو حق کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
باب: پس جب تم جانتے ہو تو دُوسروں کو اللہ کا مقابل نہ ٹھہراؤ۔
باب: باپ دادا کی قسم کی ممانعت اور قسم لینے کے بعد حسن ظن رکھنے کے متعلق…
باب: ’’جو اللہ چاہے اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ چاہیں‘‘ کے الفاظ شرک ہے۔
باب: زمانے کو گالی دینا اللہ تعالیٰ کو ایذا رسانی کے مترادف ہے۔
باب: کسی کو ’’قاضی القضاہ‘‘ یعنی چیف جسٹس کہنے کی ممانعت۔
باب: اللہ تعالی کے اسماء و صفات کی تعظیم کی جائے۔
باب: قرآن مجید، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی ایسی چیز کا مذاق اڑانا … کیسا ہے؟
باب: انسان جب رحمت کا مزہ چکھتا ہے تو کہتا ہے کہ میں اسی کا مستحق ہوں …
باب: بندوں کے نام اللہ کے سوا کسی اور کی طرف منسوب نہیں ہونے چاہئیں …
باب: اسماء الحسنیٰ کی وساطت سے اللہ سے دعا کرنا۔
باب: اللہ پر سلام ہو جیسے الفاظ زبان سے نکالنا درست نہیں۔
باب: یوں کبھی دُعا نہ مانگو کہ ’’اے اللہ اگر تو چاہے تو مجھے معاف فرما‘‘ …
باب: کوئی شخص اپنے غلام کو ’’میرا بندہ‘‘، میری ’’لونڈی‘‘ نہ کہے۔
باب: جو شخص اللہ کا نام لے کر سوا کرے اُس کو خالی ہاتھ واپس نہ لوٹایا جائے۔
باب: اللہ کا واسطہ دے کر جنت کے سوا اور کوئی سوال نہ کیا جائے۔
باب: مصائب و مشکلات میں صبر و بردباری اختیار کرنے کی تلقین۔
باب: ہوا اور آندھی کو گالی دینے سے سختی سے روکا گیا ہے۔
باب: اللہ تعالیٰ کے متعلق جاہلانہ گمان کرنا …
باب: تقدیر کا انکار کرنا شریعت اسلامی سے انکار کے مترادف ہے۔
باب: تصویر اُتارنے اور اُتروانے والے اللہ کے نزدیک سخت ترین عذاب …
باب: بکثرت قسمیں کھانے کی ممانعت
باب: اپنے عہدو پیمان توڑنا ہلکا گناہ ہے بنسبت اللہ و رسول کے عہدو پیمان توڑنے کے۔
باب: اس بات کی ممانعت کہ ’’اللہ کی قسم اللہ فلاںشخص کو کبھی معاف نہیں کرے گا‘‘۔
باب: اللہ تعالیٰ کو کسی کے سامنے سفارشی مت بناؤ۔
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے پہلو کو کیونکر ثابت کیا اور …
باب:اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت کی ہمہ گیریوں کی وضاحت۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مقدمہ

مقدمہ

الحمد ﷲ رب العالمین والعاقبۃ للمتقین ولا عدوان الاعلی الظالمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین و علی الہ و صحبہ اجمعین اما بعد
توحید باری تعالیٰ ہی ایسا مسئلہ ہے جسے سمجھانے کے لئے تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی بعثت ہوئی، فرمایا:
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اﷲَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل:۳۶)
’’ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کر دیا کہ اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔
اسی دعوت کو عام کرنے کے لئے کتب اور صحیفے نازل ہوئے اور سب سے آخری رسول سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آخری کتاب قرآن کریم نازل ہوا۔ جس کا مقصد وحید بھی یہی ہے کہ دعوتِ توحید کو پھلایا اور عام کیا جائے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ھٰذَا بَلٰغٌ لِّلنَّاسِ وَ لِیُنْذَرُوْا بِہٖ وَ لِیَعْلَمُوْآ اَنَّمَا ھُوَ اِٰلہٌ وَّاحِدٌ وَّلِیَذَّکَّرَ اُوْلُواالْاَلْبَابِ
یہ ایک پیغام ہے سب انسانوں کے لئے اور بھیجا گیا ہے اس لئے کہ انسانوں کو اس کے ذریعہ سے خبردار کر دیا جائے اور وہ جان لیں کہ حقیقت میں معبودِ برحق ایک ہی ہے اور جو عقل رکھتے ہیں وہ ہوش میں آجائیں۔ (سورئہ ابراہیم:۵۲)۔
انبیائے کرام علیہم السلام کو بھی جو بڑی بڑی تکلیفوں اور مصیبتوں سے دوچار ہونا پڑا اس کا سبب بھی یہی دعوتِ توحید تھی۔ فرمانِ الٰہی ہے:
کَذٰلِکَ مَآ اَتَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا قَالُوْا سَاحِرٌ اَوْ مَجْنُوْنٌ
یونہی ہوتا رہا ہے اُن سے پہلے کی قوموں کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جسے انہوں نے یہ نہ کہا ہو کہ یہ جادوگر ہے یا مجنون۔ (الذاریات:۵۲)۔
یہی سلوک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی روا رکھا گیا، ارشادِ الٰہی ہے:
وَ قَالَ الْکٰفِرُوْنَ ھٰذَا سٰحِرٌ کَذَّابٌ اَجَعَلَ الْاٰلِھَۃَ اِٰلھًا وَّاحِدًا اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ وَ انْطَلَقَ الْمَلَاُ مِنْھُمْ اَنِ امْشُوْا وَ اصْبِرُوْا عَلٰٓی ٰالِھَتِکُمْ اِنَّ ھٰذَا لَشَیْئٌ یُّرَادُ مَا سَمِعْنَا بِھٰذَا فِی الْمِلَّۃِ الْاٰخِرَۃِ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا اخْتِلَاقٌ (سورئہ ص:۴تا۷)
منکرین کہنے لگے کہ یہ ساحر ہے، سخت جھوٹا ہے کیا اس نے سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہی معبود بنا ڈالا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے اور سردارانِ قوم یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ چلو اور ڈٹے رہو اپنے معبودوں کی عبادت پر، یہ بات تو کسی اور غرض سے کہی جا رہی ہے یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں کسی سے نہیں سنی۔ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک من گھڑت بات۔
توحید ہی سے عمل صالح کی طرف رغبت ہوتی ہے کیونکہ ایک اللہ پر ایمان رکھنے سے دوسروں کا خوف دِل سے نکل جاتا ہے اور جن سے اُمیدیں وابستہ تھیں وہ ختم ہو جاتی ہیں پھر یہ دو وجہیں یعنی خوف اور اُمید عمل صالح کے لئے دل میں رغبت اور میلان پیدا کرتی ہیں اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کو صحیح طور پر نہیں جانتے جس طرح کہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اپنی شان بیان فرمائی ہے، وہ دراصل اللہ تعالیٰ اور اس کے غیر میں کوئی فرق اور امتیاز نہیں کر سکتے ہیں۔ اسی طرح غیراللہ کو مددگار یا مشکل کشا جاننے والے، یا ان کے توسل سے نجات یا حاجت روائی یا ان امراض سے شفاء حاصل کرنے کا عقیدہ رکھنے والے اللہ تعالیٰ سے بالکل بے خوف ہوتے ہیں۔ ان کو اپنے بناوٹی معبودوں یا وسیلوں کا خیال رہتا ہے، وہ اُن ہی کی بددعا سے ڈرتے اور ان کی سفارش کے اُمیدوار رہتے ہیں۔ اسی طرح ان کے لئے گناہوں اور برائیوں کادروازہ کھلا رہتا ہے اور ان کے پاؤں راہِ حق سے پھسلتے رہتے ہیں۔ توحید ہی ایک ایسی چیز ہے جس کی بدولت ایک مومن نیکی، عمل صالح، اخلاق حسنہ، ایمانداری اور راست بازی پر قائم رہ سکتا ہے۔ اللہ کریم کا ارشاد ہے:
فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَ یُؤْمِنْ بِاﷲِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰیق لَا انْفِصَامَ لَھَا (البقرۃ:۲۵۶)۔
اور جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا اس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔
بلکہ اسی توحید سے انسانیت کا نظام برقرار رہ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَِیّمُ وَ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ
اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیک سیدھا طریق زندگی ہے مگر اکثر لوگ جانتے ہی نہیں۔ (سورئہ یوسف:۴۰)
اور اسی سے اُمت کے درمیان اتحاد و اتفاق قائم رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
شَرَعَ لَــکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَ مَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرَاھِیْمَ وَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْھُمْ اِلَیْہِ (سورئہ الشوری:۱۳)
اس نے تمہارے لئے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح علیہ السلام کو دیا تھا اور جسے (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیم اور موسیٰ اور کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اس میں متفرق نہ ہو جاؤ۔ یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے۔
توحید ہی کی بدولت آپس میں بگڑے ہوئے دل ملیں گے، بغض، حسد اور کینہ سے صاف ہوں گے جیسا کہ فرمایا:
قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِبْرَاھِیْمَ وَ الَّذِیْنَ مَعَہٗ اِذْ قَالُوْا لِقَوْمِھِمْ اِنَّا بُرَئٰٓ ؤُا مِنْکُمْ وَ مِمَّا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ کَفَرْنَا بِکُمْ وَ بَدَا بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَ الْبَغْضَآئُ اَبَدًا حَتّٰی تُؤْمِنُوْا بِاﷲِ وَحْدَہٗٓ (سورۃ الممتحنہ:۴)
تم لوگوں کے لئے ابراہیم علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا، ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جن کو تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں۔ ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے عداوت ہو گئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ۔
توحید کی طرف دعوت دینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کا شیوہ ہے جو کہ دعوت و تبلیغ میں ان کے سچے جانشین ہیں جیسا کہ ارشاد ہے:
قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِیْٓ اَدْعُوْآ اِلَی اﷲِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ وَ سُبْحٰنَ اﷲِ وَ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ (سورئہ یوسف:۱۰۸)
آپ ان سے صاف کہہ دیجئے کہ میرا راستہ تو یہ ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی۔ اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔
توحید کی حقانیت جب لوگوں کے دلوں میں بیٹھنے لگی تو ہر آنے والی مصیبت ان کے لئے سہل ہونے لگی۔ سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا گرم پتھروں اور کوئلوں پر احد احد پکارنا، سیدنا خبیب جہنی رضی اللہ عنہ کا شہادت سے قبل دو رَکعت پڑھنے کی اجازت طلب کرنا، سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا بوقت وفات شہادت کی حسرت میں رونا حالانکہ ان کے جسم کا ہر حصہ اللہ کی راہ میں دشمن کے وار کا نشانہ بن چکا تھا۔ اسی طرح غزوئہ تبوک میں مالی و معاشی مشکلات پر صبر و استقامت سے رہنا، نیز صحابیات کا اپنے بیٹوں کی شہادت پر صبر کرنا بلکہ خوش ہونا اور اس قسم کے بیشمار واقعات جو تاریخ اسلام کے شاہکار ہیں سب اس حقیقت پر دلالت کناں ہیں کہ وہ توحید کو دل کی گہرائیوں سے جان چکے تھے اور اس کی عاقبت محمودہ پر ایمان رکھتے تھے یہی وہ حلاوۃ الایمان ہے جس کا ذکر صحیحین کی روایات میں موجود ہے کہ وہی شخص ایمان کی لذت کو پا سکتا ہے جو تین صفات کا حامل ہو، ان میں سے ایک صفت یہ ہے
و یکرہ ان یعود فی الکفر بعد ان انقذہ اﷲ منہ کما یکرہ ان یلقی فی النار
جب اللہ نے اس کو کفر کی حالت سے نکال دیا تو وہ اس میں دوبارہ جانے کو اس طرح برا سمجھے جس طرح کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا سمجھتا ہے۔(بحوالہ بخاری و مسلم)۔
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خصوصی فضل و کرم سے اس سلسلہ کو ہمیشہ قائم رکھے اور اس باغ کو سرسبز و بارونق اور شاداں رکھے اور موحدین کے دل کو شادو آباد رکھے اور تا ابد الاباد توحید کی طرف دعوت کا چرچا باقی رہے۔
ابومحمد بدیع الدین شاہ رحمہ اللہ الراشدی السندی
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کے نام سے جو رحمان اور رحیم ہے۔

مصنف رحمہ اللہ نے اپنی اس کتاب کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے اس لئے شروع کیا ہے تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان عالی مقام کی اتباع ہو جائے: (ترجمہ) ہر اہم کام جو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع نہ کیا جائے وہ ادھورا رہتا ہے۔ (ابن حبان)۔ ایک حدیث میں ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور ذکر بہت ہی زیادہ پایا جاتا ہے۔
لفظ اللہ کا مطلب ان معنوںمیں مستعمل ہے جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، وہ فرماتے ہیں: (ترجمہ) اللہ تعالیٰ وہ ذاتِ کبریا ہے جس کو ہر شے اِلٰہ مانتی ہے اور جس کی تمام مخلوق عبادت کرتی ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اسم الجلالۃ کے دس لفظی خصائص ذکر کرنے کے بعد اس کے معنوی خصائص کے بارے میں لکھتے ہیں کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: (ترجمہ) ’’اے اللہ! میں تیری ثناء کا احاطہ نہیں کر سکتا، تو اسی طرح ہے جس طرح تو نے خود اپنی شان بیان کی‘‘۔
اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اللہ تعالیٰ کی صفت ’’الرحمن‘‘ کا تعلق تمام مخلوقِ رب سے ہے وہ جن ہو یا انسان، مسلمان ہو یا کافر، کوئی بھی ہو، ہر قسم کی مخلوق پر اس کی صفت ’’رحمانیت‘‘ کا وسیع تر شامیانہ ہر آن سایہ فگن ہے۔ رہی اس کی صفت ’’الرحیم‘‘ تو یہ مومنوں کے لئے خاص ہے۔
صفاتِ احسان، جو ُد، نیکی، حنانیت، منت، رأفت، اور لطف و کرم صرف اس کے اسم ’’رحمن‘‘ کے ساتھ مخصوص ہیں۔
وَکَانَ بِالْمؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا وہ مومنوں پر بہت مہربان ہے۔ اِنَّہٗ بِھِمْ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ بیشک اس کا معاملہ ان لوگوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کا ہے۔ یاد رہے کہ ایسے مواقع پر کبھی ’’رحمن‘‘ کا لفظ نہیں آئے گا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کِتَابُ التَّوْحِیْدِ
توحید کی کتاب

توحید کی دو قسمیں ہیں ۔
1-توحید در معرفت و اثبات۔ یہ توحید ربوبیت و اسماء اور صفات ہے۔
2۔ توحید در طلب و قصد۔ یہ توحید الوہیت و عبادت سے موسوم ہے۔
پہلی یہ کہ: اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات، اس کے افعال اور اس کے اسماء کی حقیقت کا اثبات، اپنی کتب کے ذریعہ اس کا تکلم، اپنے بندوں میں سے جس سے چاہے اس کی تکلیم ، اس کی قضا و قدر اور حکمت کا اثباتِ عمومی۔ قرآن کریم نے توحید کی اس نوع کو نہایت وضاحت سے بیان فرمایا۔
توحید کی دوسری قسم یعنی توحید الوہیت و توحید عبادت کا حکم قرآن مجید میں ہے۔ قرآن مجید کی اکثر سورتیں بلکہ قرآن کریم کی ہر سورت توحید کی دونوں قسموں کو متضمن ہے اور ان کی شاہد اور ان کی داعی ہے۔
وہ توحید جو انبیائے کرام علیہم السلام لے کر دنیا میں تشریف لائے وہ اللہ تعالیٰ کے لئے اثباتِ اُلوہیت کو متضمن ہے اور وہ ہے ’’لا اِلٰہ الا اﷲ‘‘ کی شہادت دینا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ: صرف اُسی کی عبادت کی جائے، اُسی پر توکل کیا جائے، اُسی کی رضا کے لئے دوستی کی جائے، اُسی کے لئے دشمنی کے پیمانے مقرر کئے جائیں، اُسی کی طرف رجوع کیا جائے صرف اسی کی وجہ سے عمل کی دیواریں اُستوار کی جائیں۔ یہ سب صرف اس لئے ہے کہ اُسی سے ان اسماء و صفات کا اثبات ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لئے ثابت کئے ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ
تمہارا معبود ایک اللہ ہی ہے اس رحمن و رحیم کے سواء کوئی معبود نہیں ہے۔
توحید یہ نہیں ہے جیسا کہ فلسفیوں اور اہل تصوف کا نظریہ ہے کہ یہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ بات دلیل سے ثابت کر دی تو غایت توحید کا اثبات کر دیا۔ جب انہوں نے اس کی شہادت دی تو غایت توحید میں فنا ہو گئے۔ پس جب انسان ان صفات کا اقرار کر لیتا ہے جن کا اللہ تعالیٰ مستحق ہے اور اس کی تنزیہہ ثابت کرتا ہے اور اس بات کو تسلیم کر لیتا ہے کہ وہی اکیلا ہر شے کا خالق ہے تو اس سے وہ موحد نہیں ہو جاتا جب تک کہ ’’لا اِلٰہ الا اﷲ‘‘ کی شہادت نہ دے اور ساتھ ہی اس بات کا اقرار نہ کرے کہ وہی اِلٰہ ہے جو عبادت کا مستحق ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ساتھ اس کی وحدانیت اور عام شراکت غیر کا التزام نہ کرے۔
یاد رکھئے لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی اس حقیقی توحید کو نہیں پہچانا جس کی تبلیغ کے لئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ یہ تو مشرکین عرب بھی کہتے تھے اور اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ صرف ایک اللہ تعالیٰ ہی ہر شے کا خالق ہے مگر اس کے باوجود وہ مشرک تھے، جیسا کہ قرآن کریم کہتا ہے: ترجمہ: ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں‘‘ (یوسف:۱۰۶) ۔
ضروری نہیں کہ جو شخص یہ اقرار کرے کہ: اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق اور رب ہے، وہ شخص اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرتا ہو، اس کے سوا کسی کی طرف دعوت نہ دیتا ہو، اس کے سوا کسی سے ڈرتا نہ ہو اور نہ کسی دوسرے پر بھروسہ کرتا ہو، اُسی کے لئے دوستی اور دشمنی رکھتا ہو، اس کے پیغمبروں کی اتباع کرتا ہو، جس چیز کا اللہ حکم دے اس کی تبلیغ کرتا ہو، جس چیز سے اللہ نے روکا ہے اس سے دوسروں کو روکتا ہو، کیونکہ اکثر مشرکین کا یہ عقیدہ ہے کہ یوں تو اللہ تعالیٰ ہی ہر شے کا خالق ہے مگر وہ اپنے شرکاء کو اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارشی مانتے ہیں اس طرح وہ ان کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دیتے ہیں۔ انہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ترجمہ: کیا اس اللہ کو چھوڑ کر ان لوگوں نے دوسروں کو شفیع بنا رکھا ہے؟ ۔ (الزمر)۔ ترجمہ: یہ لوگ اللہ کے سوا اُن کی پرستش کر رہے ہیں جو اُن کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ نفع اور کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔
ان مشرکانہ اعمال کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ یہ شرک نہیں ہے، یہ اس صورت میں شرک سمجھا جائے گا جب ہم ان کو مدبر امر خیال کریں۔ اگر ہم ان کو صرف ذریعہ اور وسیلہ سمجھیں گے تو یہ شرک نہیں ہو سکتا۔حقیقت یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ کی رُو سے یہ شرک ہی ہے۔
لقول اللّٰہ تعالٰی: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذّٰریٰت : ۵۶)
میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لئے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔
عبادت ایک ایسا جامع اسم ہے جس سے وہ تمام ظاہر اور باطنی اقوال و اعمال مراد ہیں جو اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہیں اور جن پر وہ راضی ہوتا ہے۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جن اُمور کے انجام دینے کا حکم دیا گیا ہے، ان پر عمل پیرا ہونا اور جن سے روکا گیا ہے اُن کو ترک کر دینے کا نام عبادت ہے۔
لقول اللّٰہ تعالٰی: وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُوْلاً أَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ
ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اور اس کے ذریعہ سے سب کو خبردار کردیا کہ ’’اللہ تعالیٰ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔(النحل : ۳۶)۔
طاغوت: طغیان سے مشتق ہے، اس کے معنی حد سے تجاوز کرنے کے ہیں۔ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’طاغوت کا اطلاق شیطان پر ہوتا ہے‘‘۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: طاغوت ہر اس شے کا نام ہے جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جاتی ہو۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے طاغوت کی ایک ایسی تعریف کی ہے جو بڑی جامع و مانع ہے، وہ فرماتے ہیں:
’’طاغوت ہر وہ چیز ہے جس کی وجہ سے انسان حد سے تجاوز کر جائے، خواہ عبادت میں، یا تابعداری میں، یا اطاعت میں۔ ہر قوم کا طاغوت وہی ہے جس کی طرف وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بجائے فیصلہ کے لئے رجوع کرتے ہیں، یا اللہ کے سوا اس کی پرستش کرتے ہیں، یا بلا دلیل اس کی اتباع کرتے ہیں، یا اس کی اطاعت بغیر اس علم کے کرتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے۔ پس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر جس کسی کے پاس بھی اپنا فیصلہ لے جایا جائے یا اللہ کے سوا جس کی بھی عبادت کی جائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو ترک کر کے کسی دوسری شخصیت کی اطاعت کی جائے، اُسے اس قوم کا طاغوت سمجھا جائے گا‘‘
۔ ارشادِ الٰہی ہے:
(ترجمہ)’’ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔ (النحل:۳۶)۔
اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے: ترجمہ:اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں (البقرۃ:۲۵۶)۔ حقیقت میں کلمہ ’’لا اِلٰہ الا اﷲ‘‘ کا مطلب یہی ہے۔ کیونکہ ’’مضبوط سہارا‘‘ ’’لا اِلٰہ الا اﷲ‘‘ ہی ہے۔
قال اللّٰہ تعالٰی: وَقَضٰی رَبُّکَ أَنْ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اِیّاہُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ أَحَدُھُمَآ أَوْ کِلٰھُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّھُمَآ أُفٍّ وَّ لَا تَنْھَرْ ھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلاً کَرِیْماً وَ اخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَ قُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا
تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو، مگر صرف اُسی کی۔ اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوکررہیںتو انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو۔ اور نرمی و رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ ’’پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالاتھا‘‘۔(بنی اسرائیل:۲۳، ۲۴)۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’محض نفی یا اثبات بلا نفی توحید نہیں ہے، بلکہ حقیقی توحید یہ ہے کہ وہ نفی اور اثبات دونوں کو متضمن ہو‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے جس طرح بلا شرکت غیرے تنہا اپنی عبادت کا فیصلہ کیا ہے اسی طرح یہ فیصلہ بھی کر دیا ہے کہ تم اپنے والدین کے ساتھ احسان کیا کرو۔ لفظ اُفّ کا مفہوم یہ ہے کہ جب کبھی ماں باپ کی طرف سے کوئی ایسا عمل ظہور پذیر ہو جائے جو اولاد کو ناپسند ہو تو اولاد میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ ’’آپ کو یہ کام نہیں کرنا چاہیئے تھا‘‘۔ اور نہ ان کے سامنے ہاتھ اٹھاؤ۔ بلکہ ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ اور انسانیت کے دائرہ میں رہ کر بات کیا کرو۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار خطبہ جمعہ میں فرمایا: … اس شخص کا منہ خاک آلود ہو جس نے اپنے ماں باپ کو یا اُن میں سے ایک کو زندہ پایا لیکن پھر بھی (ان کی خدمت کر کے) جنت میں نہیں جا سکا۔ (بخاری و مسلم)۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ تعالیٰ کی رضا ماں باپ کی رضامندی میں مضمر ہے اور اس کی ناراضگی ماں باپ کی ناراضگی میں مضمر ہے۔(رواہ الترمذی)۔
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا:کیا میرے ماں باپ کے فوت ہو جانے کے بعد بھی ان کے ساتھ نیکی کرنے کی کوئی صورت باقی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ہے! اُن کے لئے دعا کرتے رہنا اور ان کے لئے مغفرت کی التجا کرنا اور ان کے وعدوں کو اُن کی وفات کے بعد بھی پورا کرنا، محض اُن کے تعلقات کی بنا پر صلہ رحمی کرنا اور اُن کے دوستوں کی عزت و تکریم کرنا۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)۔
وَاعْبُدُوا اﷲَ وَلَآ تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا (النساء:۳۶)۔
اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ۔
قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اَلاَّ تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَ لَا تَقْتُلُوْا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاھُمْ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اﷲُ اِلَّا بِالْحَقِّ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ وَ اَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیزَانَ بِالْقِسْطِ لَا نُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا وَ اِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی وَ بِعَھْدِ اﷲِ اَوْفُوْا ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (الانعام:۱۵۱، ۱۵۲، ۱۵۳)۔
اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! ان سے کہوکہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم پرکیا پابندیاں عائد کی ہیں۔ ۱۔یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ ۲۔ اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ ۳۔اوراپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دینگے۔ ۴۔ اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی ہوئی۔ ۵۔ اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایا ہے ہلاک نہ کرو، مگر حق کے ساتھ۔ یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو۔۶۔ اور یہ کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقہ سے جو بہترین ہو، یہاں تک کہ وہ اپنے سنِ رُشد کو پہنچ جائے۔ ۷اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو، ہم ہر شخص پرذمہ داری کا اتنا ہی بار رکھتے ہیں جتنا اس کے اِمکان میں ہو۔ ۸۔ اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتے دارہی کا کیوںنہ ہو۔۹۔ اور اللہ کے عہد کو پورا کرو۔ ان باتوں کی ہدایت اللہ نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو۔ ۱۰۔ نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹاکر تمہیں پراگندہ کردیں گے، یہ وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیںکی ہے شاید کہ تم کج روی سے بچو۔
مشرکین مکہ سے جب پوچھا جاتا کہ ’’یہ نیا رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم کو کیا کیا باتیں بتاتا ہے جو تم اس کی اتنی زبردست مخالفت کر رہے ہو؟ تو وہ یہ جواب دیتے کہ ہمیں بتاتا ہے: ترجمہ: تم صرف اللہ کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ اور اپنے آباء و اجداد کی رسموں کو چھوڑ دو۔ یہ وہی بات ہے جو ابوسفیان نے ہرقل کے دربار میں، اس کے ایک سوال کے جواب میں کہی تھی اور ابوسفیان اور ان کے ہمنواؤں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ قُوْلُوْا لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ تُفْلِحُوْا سے یہی سمجھا تھا کہ جب تک ہم اپنے باپ دادا کے رسم و رواج کو نہیں چھوڑیں گے، اس وقت تک لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کا اقرار فائدہ مند ثابت نہ ہو گا۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون ساہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ترجمہ: تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک بنائے حالانکہ اُس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ میں نے عرض کی کہ اس کے بعد کونسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اپنے بچے کو فقر و فاقہ اور تنگیء رزق کے خوف سے قتل کرے۔
سیدنا عبدللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع حدیث ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ترجمہ: ہر اُس مسلمان کا جو کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ کا اقرار کرتا ہے، خون حلال نہیں ہے۔ ہاں تین اُمور کی پاداش میں اس کا خون حلال ہو سکتا ہے: ۱۔ شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کا مرتکب ہو، ۲۔ بلاوجہ کسی مسلمان کو قتل کرنے کے بدلہ میں یا دین اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہو جائے اور جماعۃ المسلمین سے الگ ہو جائے۔
یتیم بچے کے مال میں ہر قسم کے تصرف کی نفی کی گئی ہے۔ معمولی قسم کے ذرائع تصرف کو بھی مسدود کر دیا گیا ہے تاکہ یتیم کا مال محفوظ رہے۔ مگر یہ کہ اگر کوئی شخص یتیم کے مال کو بڑھانے اور اس میں اضافہ کی خاطر اس میں تصرف کرے تو یہ جائز ہے۔
ابن جریر رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر کے سلسلے میں لکھتے ہیں:
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے جو تم کو وصیت کی ہے ُاسے پورا کرو اور اُسے پورا کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جو تمہیں حکم دیا جاتا ہے اس پر عمل کرو اور جس بات سے تم کو روکا جاتا ہے اس سے رُک جاؤ۔ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں زندگی بسر کرو بس یہی ہے اللہ کے عہد کو پورا کرنے کا مطلب۔
’’صراط‘‘ سے دین اسلام کا سیدھا راستہ مقصود ہے جو مستقیم ہے۔ یعنی دین اسلام ایک ایسا راستہ ہے جس میں کسی قسم کی کجی نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے اسی سیدھے راستے کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے جس کی حدود اس کے پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کر دی ہیں اور جس کی آخری منزل جنت ہے۔ اس صراطِ مستقیم سے کئی راستے نکلتے ہیں، جو شخص جادئہ مستقیم کو اختیار کرے گا وہ جنت میں جائے گا، جو غلط راستوں پر قدم زن ہو گا وہ لامحالہ جہنم میں جا گرے گا۔
مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ سے بدعت اور شہوات انسانی مراد ہیں کہ انسان نیک اعمال و افعال کو چھوڑ کر بدعات پر عمل کرنا شروع کرے اور اپنی خواہشات کی تکمیل میں زندگی برباد کر ڈالے۔
وعن معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ قَالَ کُنْتُ رَدِیْفَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم عَلٰی حِمَارٍ فَقَالَ لِیْ یَا مَعَاذُ! اَتَدْرِیْ مَا حَقُّ اﷲِ عَلَی الْعِبَادِ وَ مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اﷲ قُلْتُ اﷲُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ قَالَ حَقُّ اﷲِ عَلَی الْعِبَادِ اَنْ یَّعْبُدُوْہُ وَ لَا یُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَ حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اﷲِ اَنْ لَّا یُعَذِّبَ مَنْ لَّا یُشْرِکُ بِہٖٖ شَیْئًا قُلْتُ یَارَسُوْلَ اﷲَ صلی اللہ علیہ وسلم اَفَلَا اُبَشِّرُ النَّاسَ قَالَ لَا تُبَشِّرْھُمْ فَیَتَّکِلُوْا اَخْرَجَاہُ فِی الصَّحِیْحَیْنِ
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچرپرسوارتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ
اے معاذ! کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پرکیا ہے؟ میں نے عرض کی کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہترجانتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ وہ صرف اسی کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں۔ بندوں کا حق اللہ تعالیٰ پر یہ ہے کہ اگروہ مشرک نہ ہوں تو ان کو عذابِ جہنم سے بچالے۔سیدنا معاذرضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں لوگوں کو اس کی خوشخبری سنادوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا ہر گز نہ کرنا۔ کیونکہ پھر وہ اسی پر بھروسہ کرکے بیٹھ رہیں گے۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم)۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے موقعہ پر اس حدیث کو بیان کر دیا تھا مبادا کتمان حق کے گناہ میں مبتلا ہو جائیں۔
آج کل لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ اللہ اپنا حق معاف کر دے گا مگر حقوق العباد معاف نہیں کرے گا۔ حقوق العباد کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر اللہ کا حق پہلے ہے کہ صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے اگر اس حق میں کوتاہی ہوئی تو اللہ تعالیٰ ہرگز معاف نہیں کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: (ترجمہ) ’’بیشک اللہ تعالیٰ شرک معاف نہیں کرے گا‘‘۔
عبادت کے معنی ہی توحید ہیں۔ مشرکین سے اسی مسئلہ میں اختلاف تھا حالانکہ وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے لیکن توحید کے قائل نہ تھے۔ جیسا کہ ایک حدیث قدسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ترجمہ:
’’میں اور جن و انس ایک عجیب معاملے میں ہیں، پیدا میں کرتا ہوں لیکن عبادت کسی دوسرے کی ہو رہی ہے۔ رزق میں دیتا ہوں لیکن اظہارِ شکر دوسروں کا ہوتا ہے، میں اپنے بندوں پر احسان ہی کرتا ہوں لیکن ان کی طرف سے بغاوت و نافرمانی کے سوا کچھ نہیں ہو پاتا۔ میں اپنے بندوں پر احسان کر کے محبت کا اظہار کرتا ہوں لیکن وہ میری نافرمانی کر کے مجھے غصہ دلاتے ہیں‘‘۔
حَقُّ اﷲِ عَلَی الْعِبَادِ وہ افعال اور اعمل ہیں جن کے کرنے کا انسان کو مکلف قرار دیا گیا ہے۔
حَقُّ الْعِبَادِ عَلَی اﷲِ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ لازماً اپنے وعدے پورے کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اُن بندوں سے جو اس کی توحید پر قائم رہیں گے پکا وعدہ فرمایا ہے کہ ان کو احسن جزا دی جائے گی۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
ایک مطیع اور فرمانبردار کا مستحق اجر ہونا یہ ہے کہ اسے انعام و اکرام سے نوازا جائے۔ یہاں وہ استحقاق مقصود نہیں ہے جو ایک انسان دوسرے انسان پر کسی خاص معاملے میں کرتا ہے بلکہ اس سے اہل سنت کے نزدیک وہ استحقاق مراد ہے جس کا ذکر ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ نے کیا ہے کہ: ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے از خود رحمت اور حق کو اپنے اوپر لازم کر لیا ہے۔ اس میں بندے کے اعمال و کردار کو کوئی دخل نہیں ہے۔ کتاب و سنت سے اسی مفہوم کی تائید و حمایت ہوتی ہے۔ یہ رحمت اللہ تعالیٰ نے از خود خاص کی ہے، مخلوق (کے اعمال) نے نہیں۔ معتزلہ اس مسئلے میں اہل سنت سے اختلاف کرتے ہیں، ان کا عقیدہ یہ ہے کہ: ’’انسان کی اطاعت و فرمانبرداری کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے ذمہ یہ لازم ہے کہ وہ انسان کی مدد و نصرت کرے کیونکہ انسان اطاعت ہی کی بنا پر جزا کا مستحق ٹھہرتا ہے‘‘۔ معتزلہ کا یہ مسلک غلط ہے۔
فیہ مسائل
٭ جن و انس کی پیدائش میں حکمت ِ الٰہی کا بیان۔ ٭عبادت ہی در اصل توحید ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین میں باعث نزاع مسئلہ یہی تھا۔ ٭جو شخص توحید کا اقرار نہیں کرتا گویا اس نے اللہ کی عبادت ہی نہیں کی۔ آیت وَلَآ أَنْتُمْ عَابِدُوْنَ مَآ أَعْبُدُ کا مطلب بھی یہی ہے۔ ٭انبیائے کرام علیہم السلام کی بعثت میں جو حکمتیں پنہاں ہیں ان کا ذکر۔ ٭ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت تمام امتوں کے لئے عام ہے۔ ٭(سیدنا نوع علیہ السلام سے لے کر امام الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک) تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا دین ایک ہی تھا۔ ٭سب سے بڑا مسئلہ اس میں یہ ہے کہ جب تک طاغوت کا انکار نہ کیاجائے تب تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کا تصور ممکن نہیں۔ آیت کا مفہوم بھی یہی ہے کہ ’’جس نے طاغوت کا انکار کیا اور اللہ تعالیٰ کومانا اس نے عروۃ الوثقٰی کو مضبوطی سے پکڑلیا‘‘۔ ٭طاغوت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس کی اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کی جائے۔ ٭سلف صالحین کے نزدیک سورہ الانعام کی مذکورہ تین آیات بڑی محکم اور پُرعظمت ہیں۔ ان میںدس مسائل کا تذکرہ ہے۔ ان دس مسائل میں پہلا مسئلہ نھی عَنِ الشِّرک ہے۔ ٭سُورۂ الاسراء کی محکم آیات میں اٹھارہ مسائل بیان کیے گئے ہیں، جن میں سب سے پہلامسئلہ یہ بیان ہواکہ: ’’تواللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بنا ورنہ ملامت زدہ اور بے یارومددگار بیٹھارہ جائے گا‘‘۔اور سب سے آخری مسئلہ یہ ہے کہ: ’’دیکھ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہ بنا بیٹھنا ورنہ تو جہنم میں ڈال دیا جائے گا، ملامت زدہ اورہربھلائی سے محروم ہوکر‘‘۔ حقیقت میں یہی مسائل سب سے اہم ہیں جن کی خصوصی طورپراللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کووصیت فرمائی۔ ٭سورۂ نساء کی آیت جس کا نام ہی اٰیَۃُ الْحَقُوْقِ الْعَشَرَۃِ رکھاگیاہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے یہی مسئلہ بیان فرمایا کہ: دیکھو! صرف اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔ ٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات کے وقت جو وصیت فرمائی تھی، اسے اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے۔ ٭ اللہ کو پہچاننا اور ان پر کاربند ہونا۔ ٭جب لوگ حقوق اللہ کی ادائیگی پوری طرح کر لیں گے تو پھر انہیں ان حقوق کا علم ہو گا جو ان کے اللہ تعالیٰ پر عائد ہوتے ہیں۔ ٭کسی خاص مصلحت کی بنا پر اگر کوئی مسئلہ کسی وقت نہ بتایا جائے تو یہ جائز ہے۔ ٭کسی مسلمان کو کوئی اچھی اور خوش کن خبر ملے تو اس کا اپنے ساتھیوںکو بتانا مستحب ہے۔ ٭ بلاعمل، صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت پر بھروسہ کرنے سے انسان کو ڈرنا اور بچنا چاہیے۔ ٭ جس چیز کا علم نہ ہو اس کے متعلق ’’اللّٰہُ و رسولُہٗ اعلمُ ‘‘ کہنا۔ ٭بعض لوگوںکو علم سکھا دینا اور بعض کو نہ سکھانا جائز ہے۔ ٭ اس بات سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع کا پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خچر پر سوا رہیں اور دوسرے شخص کو بھی پیچھے بٹھائے ہوئے ہیں۔ ٭سواری پر دوسرے شخص کو پیچھے بٹھانے کا جواز۔ ٭ سیدنا معاذ بن جبلرضی اللہ عنہ کے شرف و فضیلت کی وسعتیں۔ ٭مسئلہ توحید کی عظمتِ شان۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب: توحید کی فضیلت کا بیان
باب:فضل التوحید ومایکفر من الذنوب

اس باب میں توحید کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ توحید تمام گناہوں کو حرفِ غلط کی طرح مٹادیتی ہے ۔
اَلَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْآ اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَ ھُمْ مُّھْتَدُوْنَ (۸۲)
حقیقت میں تو امن انہی کے لیے ہے اور راہِ راست پر وُہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مذکورۃ الصدر آیت کریمہ نازل ہوئی تو ہم سب نے عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ہم میں سے کون شخص ایسا ہے جس نے کبھی ظلم نہ کیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا مطلب جو تم نے سمجھا ہے وہ صحیح نہیں۔ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔ (صحیح بخاری)۔
سورئہ فاطر آیت:۳۲ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ترجمہ: ’’پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب کا وارث ٹھہرایا جن کو اپنے بندوں میں برگزیدہ کیا تو اُن میں کچھ لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں، کچھ میانہ روی اختیار کرتے ہیں اور کچھ اللہ کے حکم سے نیکیوں میں آگے نکل جاتے ہیں اور یہی بڑا فضل ہے‘‘۔
اس آیت میں مسلمانوں کے تین گروہ بیان کئے گئے ہیں:۔ ظالم لنفسہ: یہ وہ گروہ ہے جنہوں نے اعمال صالحہ کے ساتھ ساتھ چند اعمالِ سیئہ کا بھی ارتکاب کیا۔ یہ گروہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کو بالکل معاف فرما دے اور اگر چاہے تو گناہ کی مناسبت سے ان کو سزا دے کر جنت میں داخل کر دے۔ مقتصد: یہ وہ گروہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی حدود کو ملحوظ رکھتے ہوئے جن اعمال کا حکم ہوا تھا، ان کو بجا لائے اور جن برے اور حرام کاموں سے روکا گیا تھا، ان سے دامن کشاں رہے۔ یہ ابرار اور صالحین کی پاکیزہ جماعت تھی۔ سابق بالخیرات: یہ وہ گروہ ہے جن کو ایمان کامل نصیب ہوا چنانچہ انہوں اپنی پوری زندگی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزار دی۔ پس یہی وہ سعید گروہ ہے جن کو دنیا اور آخرت میں امن تام اور ہدایت کامل نصیب ہو گی کیونکہ ایمان کامل کا یہ خاصہ ہے کہ جس خوش نصیب کو یہ دولت مل گئی وہ جرائم کے ارتکاب سے محفوظ رہتا ہے، پس ایسا خوش نصیب شخص اپنے مالک حقیقی کے سامنے اس حال میں حاضر ہو گا کہ اس کا کوئی گناہ نہ ہو گا جس کی سزا دی جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ترجمہ: آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں خواہ مخواہ سزا دے اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو اللہ بڑا قدردان اور سب کے حال سے واقف ہے۔
عن عبادۃ بن الصّامت رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ شَھِدَ أَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ۔وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ۔وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔وَ أَنَّ عیْسٰی عَبْدُ اللّٰہِ وَ رَسُوْلُہٗ۔ وَ کَلِمَتُہٗ۔ اَلْقَاھَا اِلٰی مَرْیَمَ۔وَ رُوْحٌ مِّنْہُ۔ وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَ النّارُ حَقٌّ۔أَدْخَلَہٗ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ عَلٰی مَا کَانَ مِنَ الْعَمَلِ (اخرجاہ)
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص شہادت دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ اور شہادت دے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔اور شہادت دے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اور یہ بھی شہادت دے کہ عیسٰی علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا کلمہ ہیں جو کہ بھیجا اللہ تعالیٰ نے سیدہ مریم علیہا السلام کی طرف۔ اور وہ (عیسٰی علیہ السلام) اسی کی طرف سے روح ہے۔ اور اس کی بھی شہادت دے کہ جنت اور دوزخ حق ہیں۔ ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ بہرحال جنت میں داخل کردے گا اگرچہ اس کے اعمال کیسے ہی ہوں۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم)۔
لَا اِلٰہ اِلَّا اﷲ کی تشریح: یعنی جو شخص اس کلمہ لَا اِلٰہ اِلَّا اﷲ کے معنی کو سمجھتے ہوئے اور جانتے ہوئے زبان سے اقرار کرے اور اس کے ظاہری اور باطنی تقاضوں کو عملی جامہ پہنائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ترجمہ: ’’جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں‘‘۔(محمد:۱۹)۔ ’’ہاں! جو علم و یقین کے ساتھ حق کی گواہی دیں‘‘۔
لیکن کلمہ طیبہ کا ایسا اقرار جس سے نہ تو اس کے مفہوم و معانی کا علم ہو نہ یقین ہو، نہ اس کے تقاضوں کے مطابق علم ہو نہ شرک سے بیزاری ہو نہ قول و عمل میں اخلاص ہو، نہ دل اور زبان میں ہم آہنگی ہو اور نہ دل اور اعضاء کے کردار میں یگانگت ہو تو ایسی شہادت بالاجماع غیر نافع اور غیر مفید ہے۔
کلمہ طیبہ لَا اِلٰہ اِلَّا اﷲ نفی اور اثبات دونوں کو متضمن ہے۔ جملہ لَا اِلٰہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز سے اُلوہیت کی نفی کرتا ہے اور اِلَّا اﷲ اللہ تعالیٰ کے لئے اُلوہیت کو ثابت کرتا ہے۔ کلمہ طیبہ کی حقیقت سے بے خبری اور جہالت کی وجہ سے اکثر لوگ گمراہ ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے صفت ِ اُلوہیت کو ان افراد میں ثابت کرنے کی کوشش کی جن سے اس صفت ِ اُلوہیت کی نفی کی گئی ہے۔ قرآن کریم میں جہاں انبیاء و مرسلین کا ذکر فرمایا وہاں کلمہء توحید کی بھی وضاحت کی ہے۔ اصحاب القبور کی جہالت کس درجہ بڑھ گئی ہے اور وہ کس قدر شرک عظیم میں مبتلا ہیں کہ جو کلمہ لَا اِلٰہ اِلَّا اﷲ کے بالکل منافی ہے۔ مشرکین عرب اور ان کی طرح کے دوسرے مشرک بھی لَا اِلٰہ اِلَّا اﷲ کا لفظاً و معنی ً انکار کرتے تھے لیکن موجودہ مشرک لفظاً تو اس کا اقرار کرتے ہیں مگر معنی ً اس کے منکر ہیں۔ اگر آپ ان کی حالت پر غور کریں تو دیکھیں گے کہ وہ غیر اللہ کی مختلف قسم کی عبادتیں کر رہے ہیں مثلاً محبت، تعظیم، خوف، اُمید، توکل اور دعائیں وغیرہ عبادات میں وہ غیر اللہ کی طرف مائل ہیں۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ان کا شرک کئی اعتبار سے مشرکین عرب کے شرک سے کئی گناہ زیادہ ہے۔
مشرکین عرب کی تو یہ حالت تھی کہ جب کسی قسم کی تکلیف اور مصیبت میں گرفتار ہو جاتے تو وہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے تھے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ وہی بہت جلد ان کی تکلیفیں دور کرنے والا ہے۔ وہ آسان اُمور میں ارتکابِ شرک کرتے تھے، شدائد و سختی میں صرف اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک لہ کو پکارتے تھے،جیسے قرآن کریم میں ان کی حالت بیان کی گئی ہے کہ: ترجمہ: جب یہ لوگ کشتی پر سوار ہوتے ہیں تو اپنے دین کو اللہ کے لئے خالص کر کے اس سے دعا مانگتے ہیں۔ پھر جب وہ انہیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو یکایک یہ شرک کرنے لگتے ہیں۔ (العنکبوت:۶۵)۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ موجودہ دور کے مشرک اللہ تعالیٰ اور اس کی توحید کو سمجھنے میں مشرکین عرب اور ان سے قبل کے لوگوں سے بھی زیادہ ناواقف اور جاہل ہیں۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ک
ہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث اُن عظیم احادیث میں سے ایک ہے جن کو جوامع الکلم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ حدیث عقائد کے تما م مسائل کو محیط ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اختصار کے ساتھ وہ تمام پہلو بیان فرما دیئے ہیں جن سے ایک انسان کفر کے مذاہب سے کٹ کر اسلام کے حصار میں آجاتا ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اِلٰہ کا مطلب ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
’’الٰہ اس معبود کو کہتے ہیں جس کی عبادت و اطاعت کی جائے، کیونکہ اِلٰہ وہ ہے جس کی عبادت کی طرف دل از خود مائل ہو جائے، حقیقت میں یہی ذات عبادت کے قابل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایسی صفات کاملہ موجود ہیں جن کی وجہ سے وہ محبوب خلائق ہو جاتا ہے اور مخضوع وہ ہے جس کے سامنے انتہائی خضوع کے ساتھ جھکا جائے۔ وہ ایسا محبوب اور معبود اِلٰہ ہے جس کی طرف قلوب پوری محبت سے کھنچ جاتے ہیں۔ اسی کے سامنے دل جھکتے ہیں، اسی کے سامنے عجز و انکساری کا مظاہرہ کرتے ہیں، اُسی سے ڈرتے ہیں اور اُسی سے اُمیدین وابستہ کرتے ہیں، مصائب و آلام اور مشکلات کے وقت اُسی کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں، مشکل اوقات میں اُسی سے فریاد کرتے ہیں، اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے اُسی سے فریاد کرتے ہیں، اُسی کے ذکر سے دل اطمینان حاصل کرتے ہیں، اُسی کی محبت میں سکون پاتے ہیں۔ ان تمام صفات کی مالک صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے یہی وجہ ہے کہ تمام کلاموں میں سچا کلام لَا اِلٰہ اِلَّا اﷲ ہے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے والے حزب اللہ ہیں۔ اس کے منکر اور اس سے سرکشی کرنے والے اللہ تعالیٰ کے دشمن اور اُس کے غضب و قہر کا شکار ہیں۔ جب یہ کلمہ صحیح ہو گیا تو اس کے ساتھ ہی تمام مسائل از خود حل ہو جائیں گے اور جس شخص کا یہ کلمہ ہی صحیح نہ ہوا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کے علم اور عمل میں فساد پیدا ہو جائے گا۔
محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وضاحت: وَ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ:
العبد کے معنی ہیں ایسا غلام جو عابد ہو۔ معنی یہ ہوں گے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے غلام ہیں جن کا خاصہ اور وصف عبودیت ہے
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ: ترجمہ: ’’کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں‘‘؟ بارگاہِ الٰہی میں ایک انسان کا سب سے بلند مقام اور مرتبہ یہ ہے کہ وہ رسالت اور عبودیت خاصہ سے متصف ہو۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ دونوں صفتیں بدرجہء اَتم پائی جاتی ہیں۔ رہی ربوبیت اور اُلوہیت تو یہ صرف اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ ہیں اور یہ اسی کا حق ہے۔ جس میں کسی بھی صورت میں کوئی نبی و رسول شریک ہے اور نہ کوئی مقرب فرشتہ۔
عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ: رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دو صفتیں ایک ہی جگہ بیان کی گئی ہیں جو افراط و تفریط کو ختم کرتی ہیں۔ اکثر لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اُمت محمدیہ میں داخل ہیں لیکن وہ قول و عمل میں انتہائی افراط کا ثبوت دیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو ترک کر کے تفریط سے کام لیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام و فرامین پر عمل کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی ایسی ایسی غلط تاویلیں کرتے ہیں جن کو حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔
اَنَّ مُحَمَّدً رَّسُوْلُ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر: ایمان لائے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتائیں اس کی تصدیق کی جائے، جس کام کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیں اس کی تعمیل کی جائے، جس کام سے روک دیں اُسے چھوڑ دیا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امر و نہی کو ایسی اہمیت دی جائے کہ اس کے مقابلے میں کسی بات کو ترجیح نہ دی جائے۔ افسوس کہ ایسے قاضی اور مفتی جو کہ صاحب علم بھی ہیں وہ بھی اس کے خلاف عمل کر رہے ہیں۔
ان عیسیٰ عبداﷲ و رسولہ کا مفہوم: اس حدیث میں کفارعیسائیوں کی تردید بھی موجود ہے۔ اس سلسلے میں عیسائیوں کے تین گروہ ہیں: ایک گروہ کا کہنا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام ہی اللہ ہیں ۔ دوسرے گروہ کا عقیدہ یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں۔تیسرے گروہ کا قول یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام تین میں سے تیسرے ہیں یعنی اللہ، عیسیٰ اور اُمّ عیسیٰ۔ رب ذوالجلال نے ان تینوں عقیدوں کی تردید فرمائی۔ حق کو حق اور باطل کو باطل قرار دیا۔ارشاد فرمایا: ترجمہ: ’’اور نہ کہو کہ ’’تین‘‘ ہیں۔ باز آجاؤ۔ یہ تمہارے ہی لئے بہتر ہے۔ معبود تو بس ایک اللہ ہی ہے، وہ بالاتر ہے اس سے کہ کوئی اُس کا بیٹا ہو‘‘ (النساء:۱۷۱)۔ اور فرمایا: ’’یقینا کفر کیا ان لوگوں نے جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے‘‘۔ (المائدہ:۱۷)۔
ایک مقام پر اللہ تعالیٰ نے جناب عیسیٰ علیہ السلام کی وہ بات بھی نقل کی جو انہوں نے اپنے بچپنے میں گہوارے میں کی تھی: ترجمہ: ’’میں اللہ کا بندہ ہوں، اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا…‘‘
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے دشمن بعض یہودیوں کا (اللہ ان پر لعنت کرے) اُن پر یہ بھی ایک بہتان تھا کہ وہ صحیح النسب نہیں۔ نعوذ باﷲ من ذٰلک۔
ایک بندہ مومن کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ یہودیوں کے اس بہتان کی تردید کرے۔ عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے اور یہودیوں کے ان تمام لغو اور باطل عقائد سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو بری الذمہ قرار دے۔ نیز اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر ایمان اور یقین رکھے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول تھے۔
’’وکلمتہٗ‘‘ پر نوٹ: سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نام کلمہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے لفظ کُن کہہ کر پیدا فرمایا جیسا کہ سلف مفسرین کرام کا بیان ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سیدہ مریم علیہا السلام کی طرف جس کلمہ کو القا فرمایا وہ کلمہ ’’کُن‘‘ تھا۔ چنانچہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کلمہ ’’کُن‘‘ سے پیدا ہوئے، وہ خود کلمہ ’’کُن‘‘ نہ تھے۔ لہٰذا لفظ ’’کُن‘‘ اللہ تعالیٰ کا قول ہے اور اللہ کا کلمہ مخلوق نہیں ہو سکتا۔
رُوح کے بارے میں صحیح موقف: سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رُوح کے بارے میں فرماتے ہیں کہ: ’’سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اُن ارواح میں سے ایک ہیں جن کو اللہ کریم نے پیدا فرمایا اور جن سے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ کہہ کر اپنی ربوبیت کا اقرار کروایا تھا۔ اسی روح کو اللہ تعالیٰ نے سیدہ مریم علیہا السلام کی طرف بذریعہ روح الامین جبریل علیہ السلام بھیجا۔ پس جبریل علیہ السلام نے پھونک ماری اور اللہ تعالیٰ نے لفظ ’’کُن‘‘سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو پیدا کیا۔
قولہ: وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ: یعنی اس بات کی گواہی دے اور اقرار کرے کہ جس جنت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں خبر دی ہے اور جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے متقی بندوں کے لئے بنایا ہے وہ برحق اور موجود ہے۔ اس میں شک نہیں۔ اور اس بات کا بھی اقرار کرے کہ وہ دوزخ جس کو اللہ تعالیٰ نے کافروں کے لئے تیار کیا ہے اور جس کی خبر قرآن کریم میں دی گئی ہے وہ بھی برحق اور موجود ہے جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں۔ جنت کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ترجمہ: ’’دوڑو اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ اپنے رب کی مغفرت اور اُس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان و زمین جیسی ہے جو تیار کی گئی ہے اُن لوگوں کے لئے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہوں، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ کریم بڑے فضل والا ہے‘‘۔ اور دوزخ کے بارے میں فرمایا: ’’ڈرو اُس آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر، جو تیار کی گئی ہے منکرین حق کے لئے‘‘۔
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی زیر بحث حدیث اُن لوگوں کے لئے مخصوص ہے جو ایمان اور توحید کی بیک وقت شہادت دیتے ہیں۔ یہ شہادت اُن کے اعمال سیّئہ کو مغلوب کر دے گی جس کی بنا پر وہ مغفرت، رحمت اور دخول جنت کے حقدار ہو جائیں گے۔
ولھمافی حدیث عتبان:فَاِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی النَّارِمَنْ قَالَ: لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یَبْتَغِیْ بِذٰلِکَ وَجْہَ اللّٰہِ
بخاری و مسلم میں سیدنا عِتبانرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے لَآ اِلٰہ اِلَّا اللّٰہ کا اقرار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کے عذاب کو حرام کردیتاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کلمہ طیبہ دو ہی چیزوں پر دلالت کرتا ہے: ۱۔ اخلاص۔ ۲۔ شرک کی نفی۔ شرک کی نفی اور اخلاص، یہ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ جو شخص مخلص نہیں وہ مشرک ہے اور جو سچا نہیں وہ منافق ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مذکورہ حدیث اس شخص کے بارے میں ہے جو صمیم قلب، یقین اور بغیر کسی شک اور تردد کے کلمہ کا اقرار کرے اور اسی پر اُس کا خاتمہ ہو کیونکہ توحید کی حقیقت اور اصل یہ ہے کہ کلمہ کے بعد انسان کی رُوح بتمامہٖ اللہ کریم کی طرف متوجہ ہو جائے اور کھنچ جائے۔ پس جس شخص نے صمیم قلب سے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کی شہادت دے دی وہ جنت میں داخل ہو گا کیونکہ اخلاص کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان کا دل ربّ ِ کریم کی بارگاہ میں جھک جائے اور تمام گناہوں سے سچی توبہ کرلے۔ جب انسان اس حالت میں فوت ہو گا تو ان شاء اللہ یہ رُتبہء بلند اُس کو ضرور ملے گا۔
لیکن یہ بات ہرگز نہ بھولنی چاہیئے کہ کلمہ شہادت کا صرف اقرار کافی نہیں ہے بلکہ اس کلمہ کو انتہائی مشکل اور ثقیل قیود سے مقید کر دیا گیا ہے جن کی پابندی کرنا اور اُن پر عمل کرنا نہایت ضروری ہے۔
اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو اخلاص کے مفہوم سے بالکل نابلد ہیں۔ اور ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو رسم و رواج کے مطابق یا تقلیداً اور عادۃً کلمہ توحید کا اقرار کر لیتے ہیں لیکن ان کے دلوں میں توحید کی شیرینی اور بشاشت اثر انداز نہیں ہو پاتی۔اسی قسم کے افراد کو موت کے وقت اور قبر میں تکالیف اور مصائب کا سامنا کرنا پڑے گا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جب قبر میں سوال ہو گا کہ اسلام کے بارے میں تیرا کیا عقیدہ ہے؟ تو وہ جواب میں کہے گا کہ :
’’میرا عقیدہ تو سنی سنائی باتوں پر تھا، جو کچھ لوگوں نے کہا میں نے وہی کچھ دُہرایا‘‘۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال تقلیداً اور محض اپنے آباؤ اجداد کی اقتداء کے نتیجے میں ظاہر ہوتے ہیں۔ ان ہی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہ لوگ یہ کہتے ہیں: ترجمہ: ’’ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم اُسی کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں‘‘۔ (سورئہ یوسف)۔
پس جو شخص لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کا اقرار تو کرتا ہے لیکن اس کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتا بلکہ گناہوں پر گناہ کئے چلا جاتا ہے اگر وہ لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کے اقرار میں سچا ہے، تاہم اس کے گناہوں کی گٹھڑی اتنی بھاری ہے کہ جس نے اس کے صدق اور یقین کو عملی طور پر شرک اصغر سے ملا دیا ہے اور اعمال صالحہ پر گناہ غالب آ گئے ہیں اور گناہوںپر اصرار ہی کی حالت میں فوت ہوا تو ایسے شخص کا یہ اقرار اس کے گناہوں کو نہیں مٹا سکتا بلکہ اُس کے اعمالِ صالحہ پر اُس کے اعمالِ بد غالب آگئے۔
زیر نظر حدیث اس بات کی شاہد ہے کہ ایمان کے لئے صرف زبان سے شہادت کافی نہیں ہے جب تک کہ اس پر اعتقاد نہ ہو اور نہ ہی بلا اعتقاد شہادت کام آئے گی۔ دوسری بات یہ واضح ہوئی کہ کامل توحید والے شخص پر جہنم حرام ہے۔ اور یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ یہ عمل اُسی وقت تک کارآمد ہو گا جب تک کہ وہ خالص لوجہ اﷲ اور سنت کے مطابق ادا کیا گیا ہو۔
عن ابن سعید الخدری رضی اللہ عنہ عَنْ رَّسُوْلِ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ قَالَ مُوْسٰی یَا رَبِّ عَلِّمْنِیْ شَیْئًا اَذْکُرُکَ وَ اَدْعُوْکَ بِہٖ قَالَ قُلْ یَا مُوْسی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ قَالَ یَارَبِّ کُلُّ عِبَادِکَ یَقُوْلُوْنَ ھٰذَا قَالَ یَا مُوْسٰی لَوْ اَنَّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعَ وَ عَامِرَھُنَّ غَیْرِیْ وَ الْاَرْضِیْنَ السَّبْعَ فِیْ کَفَّۃٍ وَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ فِیْ کَفَّۃٍ مَالَتْ بِھِنَّ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ رواہ ابن حبان و الحاکم و صححہ و الترمذی و حسنہ
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ جناب موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے میرے رب! مجھے ایسی چیز بتا جس سے تیری یاد کروں اور تجھ سے دُعا کیا کروں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے موسیٰ! لا اِلٰہ اِلَّا اللہ پڑھا کر۔ جناب موسی علیہ السلام نے عرض کی کہ اے میرے رب: اسے تو تیرے سب بندے پڑھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ! سوائے میرے اگر ساتوں آسمان اور ان کے باشندے اور ساتوں زمینیں، ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دیئے جائیں اور دوسرے پلڑے میں صرف لا اِلٰہ اِلَّا اﷲ رکھ کر وزن کیا جائے تو لا اِلٰہ اِلَّا اﷲ والا پلڑا بھاری ہو گا۔ اس حدیث کو ابن حبان اور حاکم نے روایت کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔
قولہ قُلْ یَا مُوْسی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ اس جملے سے واضح ہوا کہ لا اِلٰہ اِلَّا اﷲ کا پورا ورد کرنا چاہیئے۔ صرف لفظ ’’اللہ‘‘ یا صرف لفظ ’’ھو‘‘ پر اکتفا کرنا غلط ہے جیسا کہ غُلات و جُہال صوفیا کرتے ہیں۔ اُن کا یہ عمل بدعت اور گمراہی پر مبنی ہے۔ چونکہ پورے عالم کو کلمہ طیبہ لا اِلٰہ اِلَّا اﷲ کی اشد ضرورت تھی اس کے علاوہ کسی بھی وظیفہ کی اتنی حاجت اور ضرورت نہ تھی اس بنا پر اس ذکر کو کثرت سے بیان کیا گیا۔ اس کو یاد کرنا بھی آسان بنا دیا گیا اور اس کا معنی بھی جامع ہے۔ لیکن افسوس کہ جاہل عوام اور صوفیوں نے اس عظیم اور بابرکت ذکر کو چھوڑ کر ایسے نئے نئے وظیفے اور وِرد ایجاد کر لئے ہیں جن کا کتاب و سنت میں کہیں ذکر نہیں ملتا۔
زیر بحث حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ لا اِلٰہ اِلَّا اﷲ افضل الذکر ہے۔ جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ترجمہ: تمام دعاؤں سے افضل ترین عرفہ کی دعا ہے اور تمام ادعیہ سے بہتر وہ دعا ہے جو میں نے اور مجھ سے پہلے تمام انبیائے کرام علیہم السلام نے کی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، وہی بادشاہ ہے سب قسم کی حمدیں اُسی کو لائق ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (مسند احمد، ترمذی)۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ایک اور مرفوع روایت منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ترجمہ:
قیامت کے دن پوری کائنات کے سامنے ایک شخص کو بلایا جائے گا اور اس کے سامنے اُس کے ۹۹ دفتر برائیوں کے رکھ دیئے جائیں گے۔ ہر دفتر اتنا لمبا چوڑا ہو گا کہ جہاں تک نظر کام کرتی ہے وہ پھیلا ہوا دکھائی دے گا۔ اس شخص سے سوال ہو گا کہ ان برائیوں میں سے کسی ایک کی تردید کر سکتا ہے؟ آیا میرے محافظوں نے کوئی ظلم تو نہیں کیا؟ گناہ گار جواب دے گا مجھے انکار کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ اس سے پھر سوال ہو گا کہ کوئی عذر ہو تو پیش کرو؟ یا کوئی عمل صالح ہو تو پیش کرو۔ بندہ ڈرتے ڈرتے جواب دے گا کہ مجھے کوئی عذر نہیں اور نہ میرے پاس کوئی عمل صالح ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ملے گا کہ تمہاری ایک نیکی ہمارے پاس محفوظ ہے تم پر آج ظلم نہیں کیا جائے گا، اس کا ایک کاغذ کا پرزہ نکالا جائیگا جس پر لکھا ہو گا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سچے رسول اور اس کے بندے ہیں۔ گنہگار بندہ عرض کرے گا کہ یااللہ اتنے بڑے بڑے دفتروں کے مقابلے میں ایک کاغذ کے پرزے کی کیا حیثیت ہے؟ جواب ملے گا کہ آج تجھ پر ذرہ بھر ظلم نہ ہو گا۔ چنانچہ بڑے بڑے دفتر ترازو کے ایک پلڑے میں اور کاغذ کا ایک پرزہ دوسرے پلڑے میں رکھ کر جب وزن کیا جائے گا تو لا اِلٰہ اِلَّا اﷲ کے کاغذ والا پلڑہ بھاری ہو جائیگا۔ (ترمذی)۔
عن انس رضی اللہ عنہ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ قَالَ اﷲُ تَعَالٰی یَابْنَ اٰدَمَ لَوْ اَتَیْتَنِیْ بِقُرَابِ الْاَرْضِ خَطَایَا ثُمَّ لَقِیْتَنِیْ لَا تُشْرِکُ بِیْ شَیْئًا لَاَتَیْتُکَ بِقُرَابِھَا مَغْفِرَۃً
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: کہ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے ابن آدم ! اگر تو میرے پاس گناہوں سے پوری زمین بھر کر لے آئے پھر اس میں شرک نہ ہو تو میں اسی مقدار میں بخشش کی بارش کروں گا۔ (ترمذی)۔
اللہ رب العزت نے مغفرت کے لئے بڑی زبردست اور بھاری شرط لگائی ہے کہ شرک قلیل ہو یا کثیر، شرک اکبر ہو یا شرک اصغر، بہرحال شرک سے صحیح سلامت رہنا مغفرت کے لئے شرط اوّل ہے اور اس سے وہی انسان محفوظ رہ سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قلب سلیم سے نوازا ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ترجمہ:
’’جب کہ نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد بجز اس کے کہ کوئی شخص قلب سلیم لئے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو‘‘۔ (الشعراء:۸۸تا۸۹)۔
زیر بحث حدیث کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جس شخص کے گناہوں کا عالم یہ ہو کہ ان سے زمین کا چپہ چپہ بھرا ہوا ہو، لیکن وہ اپنے نامہء اعمال میں توحید کی دولت رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اُس کے سب گناہ معاف فرما دے گا۔ اگر انسان توحید میں کامل ہے، اس میں صرف اللہ تعالٰی کی رضا کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے اور توحید کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے، دل، زبان اور جوارح سے اس کی شروط کا پابند ہے یا موت کے وقت صرف دل اور زبان سے اس کو ماننے کا اقرار کرتا ہے تو اس کے تمام گزشتہ گناہ معاف کر دے گا اور اس کی لازماً مغفرت فرمائے گا۔ اس کو دوزخ کی آگ سے محفوظ رکھے گا۔
پس جس شخص نے کلمہء توحید کو دل سے تسلیم کر لیا تو اس کے قلب سے غیر اللہ کی محبت، تعظیم، اس کی بڑائی، اور اس کا ڈر، خوف اور توکل یکسر نکل جائے گا اور یہ کلمہ اُس کے تمام خطایا و معاصی کو جلا کر رکھ دے گا اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں‘‘۔
فیہ مسائل
٭ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی وسعت۔ ٭ رب کریم کے ہاں توحید کے اجر و ثواب کی کثرت۔ ٭ اجر و ثواب کے علاوہ توحید گناہوں کا کفارہ بھی ہے۔ ٭ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو پانچ باتیں ہیں اُن پر غور۔ ٭ اگر سیدنا عبادہ بن صامت اور سیدنا عتبان رضی اللہ عنہما کی احادیث کو جمع کرو گے تو لَا اِلٰہ اِلاَّ کے معنی سمجھ میں آجائیں گے اور جو لوگ دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں ان کی غلطی واضح ہو جائے گی۔ ٭ سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو شرط ہے اس پر خوب غور کرنا چاہیئے۔ ٭ انبیائے کرام علیہم السلام بھی لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲکی فضیلت جاننے کے محتاج تھے۔ ٭ اس بات پر بطورِ خاص غور کرنا ضروری ہے کہ لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲ تمام چیزوں سے بھاری ہے مگر بہت سے بدقسمت لَا اِلٰہ اِلاَّ اﷲ کہنے والوں کی ترازو ہلکی ہوں گی۔ ٭ اس بات کی صاف تصریح موجود ہے کہ آسمانوں کی طرح زمین کے بھی سات طبقے ہیں۔ ٭زمینوں اور آسمانوں میں آبادیاں ہیں۔ ٭ اللہ کریم کی صفات کا ثبوت بخلاف اشعریہ کے (وہ صفات الٰہیہ کا انکار کرتے ہیں)۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام دونوں کو اللہ کا بندہ اور رسول کہنے میں غور و فکر کرو۔ ٭ اس بات کی معرفت کہ (صاحب توحید کا لازمی جنت میں جانا) اگرچہ وہ کیسے ہی عمل کرتا ہو۔ ٭ اللہ تعالیٰ کے لفظ ’’وجہ‘‘ یعنی ’’چہرہ‘‘ کا استعمال ہونے کو سمجھنا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
توحید خالص پر عمل پیرا ہو کر انسان بلا حساب و کتاب جنت میں داخل ہو سکتا ہے
بابُ :مَنْ حَقَّقَ التَّوحیْدَ دَخَلَ الْجَنَّۃ بِغَیْرِ حِسَابٍ


اس باب میں یہ بتایا گیا ہے کہ جو شخص توحید خالص پر عمل پیرا ہوا ، وہ بلا حساب جنت میں داخل ہو گیا۔
مَنْ حَقَّقَ التَّوحیْدَ دَخَلَ الْجَنَّۃ بِغَیْرِ حِسَابٍ
تحقق کے معنی یہ ہیں کہ انسان توحید کو اپنے عمل میں سمو لے اور اس کو شرک، بدعت اور معاصی کے شائبوں سے پاک کرے۔ توحید کو اپنے اعمال و کردار میں سمو لینا اُمت محمدیہ کے لئے بہت ضروری ہے۔ یہ ان اہل ایمان کی خاص علامت ہے جن کو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے چن لیتاہے۔ مخلصین کی تعداد ابتدائے اسلام میں بکثرت تھی لیکن آخر میں بہت کم رہ جائے گی اور وہ بھی مساکین پر مشتمل ہو گی، البتہ ان کی قدرو منزلت اللہ کریم کے ہاں بہت بلند ہوگی۔
بِغَیْرِ حِسَابٍ کا مطلب یہ ہے کہ اسے عذاب نہ ہوگا۔
قال اللہ تعالیٰ: اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حنیْفًا وَ لَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ
جناب ابراہیم علیہ السلام اپنی ذات میں ایک پوری اُمت تھے، اللہ کے مطیع فرمان اور یک سُو وہ کبھی مشرک نہ تھے۔ (النحل:۱۱) ۔
اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی وہ صفات بیان فرمائی ہیں جو توحید کی اصل غرض وغایت ہیں۔
۱۔ پہلی صفت یہ بیان فرمائی کہکَانَ اُمَۃً: یعنی جناب ابراہیم علیہ السلام بہترین نمونہ تھے، معلمِ خیر اور امام تھے۔ ان کی زندگی مخلوقِ الٰہی کیلئے مشعل راہ تھی۔ یہ بلند مقام جناب ابراہیم علیہ السلام کو اس وقت حاصل ہوا جب انہوں نے صبر اور یقین کامل کی تمام منزلوں کو طے کرلیا حقیقت میں یہی وہ دو وصف ہیں جن کی وجہ سے ایک انسان دین میں امامت کے بلندو بالا مقام پر فائز ہوجانے کے قابل ہو جاتا ہے۔
۲۔ قَانِتًا: شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ زندگی کو اطاعت الٰہی میں تسلسل و دوام کے ساتھ گزار دینے کا نام قنوت ہے۔
۳۔ کَانَ حنیْفًاَ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:جو شخص اللہ کی طرف پوری طرح متوجہ ہو اور ما سوٰی اللہ سے منہ موڑلے، اسے اَلْحَنِیْفُ کہتے ہیں۔
۴۔ وَلَمْ یکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْن: جناب ابراہیم علیہ السلام اخلاص اور توکل جیسے عظیم عمل میں یکتا و فردا تھے اور سچائی کی اعلیٰ منزل پر فائز تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ شرک کی الآئشوں سے پاک اور اس کی حدود سے دور تھے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (ترجمہ) جب انہوں نے اپنی قوم سے صاف کہہ دیا ’’
ہم تم سے اور تمہارے ان معبودوں سے جنہیں تم اللہ کو چھوڑ کر پوجتے ہو قطعی بیزار ہیں۔ ہم نے تم سے کفر کیا اور ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کیلئے عداوت ہوگئی اور بیر پڑ گیا جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہ لائو‘‘(الممتحنہ:۴)۔
اللہ تعالیٰ نے جناب ابراہیم علیہ السلام کا وہ مشہور قول بھی نقل کیا جو انہوں نے اپنے باپ آذر سے کہا تھا:
(ترجمہ) ’’میں آپ لوگوں کو بھی چھوڑتا ہوں اور اُن ہستیوں کو بھی جنہیں آپ لوگ اللہ کے علاوہ پکارا کرتے ہیں۔ میں تو اپنے رب ہی کو پکاروں گا۔ اُمید ہے کہ میں اپنے رب کو پکارکے نامراد نہ رہوں گا۔ پس جب وہ ان لوگوں سے اور ان کے معبودان باطلہ سے جدا ہو گیا تو ہم نے اس کو اسحاق (علیہ السلام ) اور یعقوب (علیہ السلام ) جیسی اولاد دی اور ہر ایک کو نبی بنایا‘‘۔ (سورئہ مریم)۔
جناب ابراہیم علیہ السلام نے شرک اور مشرکین سے بیزاری کا اظہار، ان سے عداوت اور ان کے کافرانہ عقائد سے انکار کر کے اور ان سے دشمنی کر کے تحقیق توحید کی وہ تصویر کھینچی ہے جس کی مثال پیش کرنا ممکن نہیں۔
زیر بحث آیت اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اہل توحید کو اپنی قلت ِ تعداد پر گھبرانا نہ چاہیے۔
قولہ: قَانِتًا لِّلّٰہ یعنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام نہ تو بادشاہوں کے سامنے جھکتے تھے اور نہ فضول خرچ تاجروں کے حضور گردن کو خم کرتے تھے۔
قولہ: حَنِیْفًا یعنی ابراہیم علیہ السلام فریب خوردہ عُلماء کی طرح اِدھر اُدھر جھک جانے کے قائل نہ تھے۔
وقال:وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِرَبِّھِمْ لَایُشْرِکُوْنَ(المومنون:۵۹) اور وہ لوگ جو اللہ کیساتھ شرک نہیں کرتے۔
یہ ان مومنین کی صفت ہے جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان کی وہ خوبی بیان فرمائی ہے جو سب سے اعلیٰ و ارفع ہے ۔ یعنی یہ کہ ان کا دامن شرک سے آلودہ نہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ انسان کو بسا اوقات ایسے ایسے واقعات اور اعمال سے واسطہ پڑتا ہے جو اس کے اسلام اور ایمان کو داغدار کر دیتے ہیں۔ جیسے شرکِ جلی اور شرکِ خفی۔ اسی بناء پر اللہ تعالیٰ نے ایک پکے اور سچے مومن کی یہ تعریف بیان کی کہ لاَ یُشْرِکُوْنَ جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ کسی صورت میں بھی شرک کا ارتکاب نہیں کرتے۔ یہی معنیٰ ہے توحید کو اپنے اعمال میں سمونے کا۔ اس سے اعمال سنورتے اور نفع بخش ثابت ہوتے ہیں۔ اعمال میں یہ جلا اس وقت پیدا ہوگی جب انسان شرکِ اصغر سے دامن بچائے رکھے۔ رہا شرکِ اکبر تو اس سے انسان سرے سے مسلمان ہی نہیں رہتا۔
عن حصین بن عبدالرّحمن قال کُنْتُ عِنْدَ سَعِیْدِ بِن جُبیر فَقَالَ اَیُّکُمْ رَاَی الْکَوْکَبَ الَّذِیْٓ اِنْقَضَّ الْبَارِحَۃ فَقُلْتُ اَنَا ثُمَّ قُلْتُ اَمَا اِنِّیْ لَمْ اَکُنْ فِیْ صَلٰوۃٍ وَلٰکِنِیْ لُدِغْتُ قَالَ فَمَا صَنَعْتَ قُلْتُ اِرْتَقَیْتُ قَالَ فَمَا حَمَلَکَ عَلٰ ذٰلِکَ قُلْتُ حَدِیْثُٗ حَدَّثَنَاہُ الشَّعْبِیُّ قَالَ مَا حَدَّ ثَکُمْ قُلْتُ حَدَّثَنَا عَنْ بُرَیْدَ ۃَ بِنْ الْحُصَیّبِ اَنَّہٗ قَالَ لَا رُقْیَۃَ اِلَّا مِنْ عَیْنٍ اَوْ حُمَۃٍ قَالَ وَ قَدْ اَحْسَنَ مَنِ انْتَھٰی اِلٰی مَا سَمِعَ وَلٰکِنْ حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّا سٍ عَنِ النَّبِیِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ قَالَ عُرِضَتْ عَلَیَّ الْاُ مَمُ فَرَاَیْتُ النَّبَیَّ وَ مَعَہُ الْرَّھْطُ وَالنَّبِیَّ وَ مَعَہُ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ والنَّبِیَّ وَ لَیْسَ مَعَہُ اَحَدٌ اِذْ رُفِعَ لِیْ سَوَادٌ عَظِیْمٌ فَظَنَنْتُ اَنَھُمْ اُمَّتِیْ فَقِیْلَ لِیْ ھٰذَا مُوْسٰی وَ قَوْمُہٗ فَنَظَرْتُ فَاِذَا سَوَادٌ عَظِیْمٌ فَقِیْلَ لِیْ ھٰذِہٖ اُمَّتُکَ وَ مَعَھُمْ سَبْعُوْنَ اَلْفاً یَّدْ خُلُوْنَ الْجَنَّۃَ بِغَیْرِ حِسَابٍ وَلَا عَذابٍ ثُمَّ نَھَضَ فَدَخَلَ مَنْزِلَہٗ فَخَاضَ النَّاسُ فِیْ اُو لٰئِکَ فَقَالَ بَعْضُھُمْ فَلَعَلَّھُمُ الَّذِیْنَ صَحِبُوْا رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَقَالَ َ بَعْضُھُمْ فَلَعَلَّھُمُ الَّذِیْنَ وُلِدُوْا فِی الاِسْلَامِ فَلَمْ یُشْرِکُوْا بِاﷲِ شَیْئاً وَذَکَرُوْا اَشْیَآئَ فَخَرَجَ عَلَیْھِمْ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاَخْبَرُوْہُ فَقَالَ ھُمُ الّذِیْنَ لَا یَسْتَرِقُوْنَ وَ لَا یَکْتَوُوْنَ وَ لَا یَتَطَیَّرُوْنَ وَ عَلیٰ رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ فَقَامَ عُکَّاشۃُ ابْنُ مِحْصَنٍ فَقَالَ اُدْعُ اﷲَ اَنْ یَجْعَلَنِیْ مِنْھُمْ قَالَ اَنْتَ مِنْھُمْ ثُمَّ قَامَ رَجُلٌ اٰخَرُ فَقَالَ اُدْعُ اﷲَ اَنْ یَجْعَلَنِیْ مِنْھُمْ فَقَالَ سَبَقَکَ بِھَا عُکَّاشَۃُ
حصین بن عبدالرحمن سے روایت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ سعید بن جبیر کے پاس تھا کہ سعید کہنے لگے: آج رات ستارے کو ٹوٹتے ہوئے تم میں سے کس نے دیکھاہے؟ حصین نے کہا کہ ہاں میں نے دیکھا ہے۔ پھر کہنے لگے کہ میں نماز میں مشغول نہ تھا بلکہ مجھے کسی چیز نے کاٹ کھایا تھا جس کی مجھے سخت تکلیف تھی۔ انہوں نے کہا پھر تم نے کیا کِیا؟ انہوں نے کہا کہ میں نے جھاڑ پھونک سے کام لیا۔ انہوں نے کہا یہ کیوں کیا؟ میں نے کہا شعبی سے مروی ایک حدیث کی بناء پر۔ انہوں نے پوچھا وہ کیا حدیث ہے جو انہوں نے بیان کی ہے؟ میں نے کہاہم سے بریدہ بن الحصیب رحمہ اللہ نے حدیث بیان کی کہ نظر بد اور کسی زہریلی چیز کے کاٹ کھانے کے سوا اور کہیں جھاڑ پھونک یا دم مفید نہیں۔ انہوں نے کہا جس شخص نے جو سنا اسی پر اکتفا کیا اور اسی پر عمل پیرا رہا تو اس نے بہت اچھا کیا۔ لیکن سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا کہ: مجھے بہت سی اُمتیں دکھائی گئیں۔ میں نے دیکھا کہ کسی نبی کے ساتھ تو بہت بڑی جماعت ہے اور کسی نبی کے ساتھ صرف ایک یا دو ہی آدمی ہیں اور ایسے نبی کو بھی دیکھا جس کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا۔ اچانک میرے سامنے ایک انبوہ ِ کثیر آیا، میں نے خیال کیا کہ کہ میری امت ہو گی لیکن مجھ سے کہا گیا کہ یہ سیدنا مُوسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم ہے۔ اس کے بعد میں نے ایک بہت ہی بڑے انبوہ کو دیکھا ، مجھے بتایا گیا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہے اور آپ کی امت میں ستر ہزار افراد وہ ہیں جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ یہ واقعات سُناکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لے گئے۔ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپس میں ان ستر ہزار افراد کے بارے میں قیاس آرایئاں کرنے لگے۔ بعض کا کہنا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہے۔ بعض صحابہ ِ کرام نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہوں گے جو اسلام میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا، اس کے علاوہ صحابہ ِ کرامرضی اللہ عنہم نے اور توجیہات بھی کیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی مختلف آراء کا اظہار کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ یہ وہ افراد ہوں گے جو دَم نہیں کرواتے۔ اور نہ وہ اپنے جسموں کو داغنے کے قائل ہیں۔ اور نہ وہ فال لیتے ہیں اور وہ اپنے اللہ پر توکل کرتے ہیں۔ عکاشہ بن محصن نے کھڑے ہو کر عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان میں سے کردے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو ان میں سے ہی ہے۔ اس کے بعد ایک دوسرے صحابی نے عرض کیا کہ میرے لئے بھی دعا فرمائیے کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے کردے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے عکاشہ رضی اللہ عنہ بازی لے گیا۔
حدیث مبارک کے ان الفاظ سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو کثرت تعداد کو صحت مذہب کی دلیل قرار دیتے ہیں۔ نجات پانے والے اگرچہ قلیل تعدادا میں ہی ہوتے ہیں۔ حقیقت میں یہی سوادِ اعظم ہیں۔ کیونکہ ان کی قدرو منزلت اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بلند ہے۔ لہٰذا لوگوں کی کثرتِ تعداد پر دھوکہ نہ کھانا چاہئے کیونکہ سابقہ لوگ اسی کثرت کے گھمنڈ میں آکر ہلاک ہوگئے، حتیٰ کہ بعض اہل علم بھی جاہلوں اور گمراہ افراد کے عقائد میں گرفتار ہوگئے اور کتاب و سنت کو پس پشت ڈال دیا۔
امت محمدیہ کی اس درجہ عظمت و توقیر اور ستر ہزار افراد کے بلاحساب جنت میں داخل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے توحید کو فکرو عمل میں سمونے کی کوشش کی۔
۱۔ مسند احمد اور بہیقی میں یہ الفاظ زائد ہیں کہ: (ترجمہ) میں نے اپنے رب سے تعداد میں اضافے کی التجا کی تو اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار کے ساتھ مزید ستر ہزار کا اضافہ کردیا۔
۲۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ
راقی اور مسترقی میں فرق واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’مسترقی تو وہ سائل ہوتا ہے جو بصدق قلب غیر اللہ کی طرف مائل اور ملتفت ہو بخلاف راقی یا دم کرنے والے کے کہ یہ بصدق قلب احسان کا اظہار کرتا ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ ستر ہزار افراد کی یہ صفت توکل علی اللہ کی وجہ سے ہے کہ وہ کسی دم کرنے والے کے دم کی خواہش کا اظہار بھی نہیں کرتے‘‘۔
۳۔ وہ ستر ہزار افراد جو بلا حساب و کتاب جنت میں داخل ہوں گے ان کی نمایاں صفت یہ ہے کہ وہ شرک کی کسی بھی قسم میں مبتلا نہ ہوں گے اور اپنی حقیر سے حقیر ضرورت کو بھی انہوں نے غیر اللہ کے سامنے نہ رکھا، حتیٰ کہ دم کرانے اور سینگنی لگوانے تک کی پروانہ کی۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا کہ ان کا اللہ پر توکل اور بھروسہ تھا۔ اپنی مشکلات صرف اللہ کے سامنے پیش کرتے تھے اور اللہ کی قضا و قدر کے علاوہ کسی کی طرف بھی ان کی توجہ نہ تھی۔ وہ صرف اللہ کی طرف رجوع کرتے تھے، اس کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ جو مشکلات پیش آتی ہیں وہ اللہ کی تقدیر اور اس کی مرضی کے مطابق آتی ہیں لہٰذا وہ مصائب و مشکلات میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کو پکارتے تھے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں جناب یعقوب علیہ السلام کا رجوع الی اللہ منقول ہے کہ: قَالَ اِنَّمَا اَشْکُوْا بَثّیِْ وَ حُزْنِیْ اِلَی اﷲ انہوں نے کہا کہ ’’میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اصل اور جامع بنیاد کی طرف اشارہ کیا ہے جس پر تمام افعال اور خصائل کی تعمیر ہوتی ہے اور وہ ہے توکل علی اللہ، یعنی سچے دل سے اللہ کی طرف رجوع ہونا، اس کی ذات پر کامل اعتماد و یقین رکھنا۔ توحید کا یہی وہ اعلیٰ مقام ہے جہاں سے محبت، خوف و رجاء اور اللہ تعالیٰ کو رب اور اِلٰہ و معبود تسلیم کرنے کے سوتے پھوٹتے ہیں اور جہاں قضائے الٰہی کے فیصلوں پر اظہار خوشی کا ثمرہ ملتا ہے۔
یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اس حدیث سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ لوگ بالکل ظاہری اسباب کا سہارا اختیار نہیں کرتے تھے کیونکہ ظاہری اسباب کو استعمال میں لانا تو ایک فطری امر ہے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ظاہری اسباب کو بروئے کار لانا عین توکل ہے۔
اس مقام پر علامہ ابن قیم فرماتے ہیں کہ: ’’مندرجہ بالا احادیث سے ثابت ہوا کہ اسباب کو بروئے کار لانا اور علاج کے لئے کوشاں ہونا ضروری ہے اور یہ کوشش توکل کے خلاف نہیں ہے۔ جیسا کہ بھوک اور پیاس کو ختم کرنے کے لئے کھانا پینا اور گرمی سردی سے بچائو کے لئے موسم کے مطابق کپڑے پہننا توکل کے خلاف نہیں بلکہ اسباب کو استعمال میں لانا عین توکل ہے جو لوگ اسباب کو ترک کرکے بیٹھ جاتے ہیں بسا اوقات ان کے توکل میں خلل اور نقص پیدا ہو جاتا ہے اور ترکِ اسباب توکل کے سراسر منافی ہے۔ در حقیقت توکل انسان کے اعتماد علی اللہ کے لئے لازمی ہے۔ جس سے دین و دنیا کے فوائد حاصل کرنے میں انسان کو مدد ملتی ہے اور وہ دین ودنیا میں فساد سے محفوظ رہتا ہے اور اس اعتماد کے لئے اسباب کو بروئے کار لانا انتہائی ضروری ہے جو شخص اسباب کو چھوڑ جاتا ہے گویا اس نے حکمت و دانائی اور شریعت کو چھوڑ دینے کے جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔ پس انسان کو چاہئے کہ وہ ترکِ اسباب کو توکل نہ سمجھ بیٹھے اور نہ توکل کو ترک، اسباب کا بہانہ بنائے۔

فیہ مسائل
٭ توحید کے بارے میں لوگوں کے درجات کی معرفت۔ ٭توحید کی تحقیق یا اس کو زندگی میں سمونے کے کیا معنی ہیں؟ ٭اللہ تعالیٰ کا جناب ابراہیم علیہ السلام کی اس بات پر تعریف کرنا کہ اُن کا دامن شِرک سے آلودہ نہ تھا۔ ٭اونچے درجے کے لئے اولیاء کرام کی اللہ تعالیٰ نے تعریف کی کہ ان کا دامن شرک سے پاک ہے۔ ٭دم کرانے اور داغ دلوانے کو چھوڑ دینا، یہی توحید کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ ٭ان اوصاف کا حامل ہونا ہی توکل ہے۔ ٭صحابہ کرامرضی اللہ عنہم کے علم و معرفت کی گہرائی اس بناء پرتھی کہ وہ اسے عمل کا نتیجہ سمجھتے تھے۔ ٭اس سے اعمالِ صالحہ کے لئے ان کی حرص و محبت کا پتا چلتا ہے۔ ٭اُمت محمدیّہ کی اس فضیلت کا علم ہوتا ہے کہ وہ رفعت درجات اور کثرت تعداد کے لحاظ سے تمام اُمتوں سے افضل ہے۔ ٭سیدنا موسٰی علیہ السلام کی اُمت کی فضیلت اور شرف۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معجزے کا بھی علم ہو تا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تمام انبیائے کرام کی اُمتوں کو پیش کیا گیا۔ ٭یہ کہ میدان حشر میں تمام اُمتیں اپنے اپنے انبیاء کے ساتھ ہوں گی۔ ٭انبیاء کی دعوت کو عام طور پر کم ہی لوگوں نے قبول کیا۔ ٭جس نبی کو کسی شخص نے بھی تسلیم نہیں کیا وہ اکیلا ہی دربارِ الٰہی میں پیش ہوگا۔ ٭علم صحیح کاثمرہ یہ ہے کہ انسان کثرت تعداد پر غرور نہ کرے اور قلت تعداد سے پست ہمت نہ ہو۔ ٭بچھو اور سانپ وغیرہ موذی چیزوں کے زہر اور نظرِ بد سے دم کرانے کی رخصت۔ ٭جناب سعید بن جبیر رحمہ اللہ کے اس قول سے کہ ’’قَدْ اَحْسَنَ من انتھیٰ الی ما سمع‘‘ سلف امت کے تبحر علمی کی نشان دہی ہوتی ہے۔ ٭سلف صالحین کا بلا استحقاق کسی کی مدح و ستائش سے دور رہنا ۔ ٭رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ انت منھم (کہ تو ان میں سے ہی ہے) آپ کی علامات نبوت میں سے تھا۔ ٭ سیدنا عکاشہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا علم۔ ٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذو معنی کلام سے بھی کام لیا کرتے تھے۔ ٭رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن خلق۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب: شرک سے ڈرنا ضروری ہے
باب :الخوف من الشرک
اس باب میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ شرک سے ڈرنا ضرور ی ہے
اِنَّ اﷲَ لاَ یَغْفِرُ اَنْ یُشْرَکَ بِہٖ وَیَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآ ئُ ۔ (النساء)
اللہ بس شرک ہی کو معاف نہیں کرتا، اس کے ماسوا دوسرے جس قدر گناہ ہیں، وہ جس کے چاہتا ہے، معاف کر دیتا ہے۔
شرک کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بغض و عناد اور کینہ رکھا جائے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری سے کبرو بغاوت کا اظہار کیا جائے اس کے سامنے اپنے آپ کو گرانے اور مطیع ہونے سے کنارہ کشی اختیار کی جائے۔
شرک اس لئے بھی بدترین فعل ہے کہ اس سے خالق اور مخلوق کے درمیان تشبیہ پائی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی تمام خصوصیاتِ الوہیت میں یکتا ہے۔
کسی کو تکلیف اور مصیبت میں مبتلا کرے تو اللہ ، کسی کو نفع اور فائدہ پہنچائے تو اللہ ، کسی کو کچھ دے تو اللہ، کسی سے کوئی چیز چھین لے تو اللہ۔
یہ سب باتیں اللہ کے اختیار میں ہیں اب اگر کوئی شخص دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے، دوسروں سے ڈرتا ہے اور دوسروں پر بھروسہ رکھتا ہے تو وہ گویا مخلوق کو خالق کے ساتھ ملادینے کی کوشش کرتا ہے اور تشبیہ کا مرتکب ہوتا ہے۔
یعنی ایسے شخص کو معبود قرار دے لیتا ہے جو
٭ نہ تو اپنی جان کو نفع پہنچا سکتاہے، ٭ نہ اپنی جان کو نقصان پہنچانے پر قدرت رکھتا ہے، ٭ نہ اسے موت پر اختیار ہے، ٭ اور نہ زندگی پر دسترس ۔ ٭ نہ اسے اس پر قدرت ہے کہ خود بخود مرنے کے بعد جی اٹھے۔ ایسی کمزور اور بے بس مخلوق کو اس اللہ تعالیٰ کے ساتھ تشبیہ دینا جو ٭ تمام طرح کی ستائش کا سزاوار ہے، ٭ جس نے تمام مخلوق کو پیدا کیا ہے۔ ٭ جس کی زمین و آسمان میں بادشاہت ہے۔ ٭ اور جس کے ہاں ہر شے کو با لآخر لوٹنا ہے۔ ٭ اسی کے قبضہ ِ قدرت میں ہر طرح کی بھلائی اور خیر ہے۔ ٭ اور وہی تمام مشکلات پر قابو رکھتا ہے۔ ٭ وہ جو چاہتا ہے ہوتاہے اور جو نہیں چاہتا نہیں ہوسکتا۔ ٭ وہ جسے دینا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ ٭ اور جس سے کسی نعمت کو روک لے اسے کوئی دے نہیں سکتا۔ ٭ جب وہ لوگوں پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دے تو اسے بند کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ ٭اور جس کے لئے بند کردے تو اس کے لئے کھولنے والا کوئی نہیں ۔ ٭ وہ عزیز بھی ہے اور حکیم بھی۔ ٭پس جو فی نفسہٖ عاجز، مسکین و فقیر ہو، اس کو اس ذات سے تشبیہ دینا جو بذات ِ خود قادر اور غنی ہو، یہ انتہا درجے کی بری تشبیہ ہے۔
الٰہ کے خصائص میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ تمام وجوہ سے کامل ترین ذات ہو جس میں کوئی نقص نہ ہو۔ یہی وہ اعلیٰ صفت ہے جس کی بناء پر وہ تمام عبادات کا تنہا مستحق ٹھہرتا ہے۔ تعظیم و توقیر، خشیت و دعا، رجاو انابت، توکل و توبہ، استعانت اور انتہائی محبت و شفقت، کمال تضرع و تذلل کے ساتھ، عقل، فطرت اور شرع کا یہ تقاضہ ہے کہ یہ تمام چیزیں بجز اللہ تعالیٰ کی ذات کے اور کسی کو زیب نہیں دیتیں۔
جس کم عقل نے یہ صفات کسی مخلوق میں سمجھیں اس نے غیر اللہ کو ایسی ذات سے تشبیہ دی جس کے کوئی مشابہ اور ہم پلہ نہیں اور جس کا کوئی شریک ہے نہ نظیر ہے۔
ان ہی اُمور کی بناء پر اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ وہ شرک جیسے بدترین عمل کو ہرگز نہ بخشے گا۔ باوجود اس کے کہ وہ اپنے اوپر رحمت کو لازم قرار دے چکا ہے۔
وَاجْنُبْنِی وَبَنِیَّ اَنْ نَّعْبُدَ ا لْاَصْنَامْ ’’اور مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے بچا‘‘۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام بارگاہ الٰہی میں دعا گو ہیں کہ اے اللہ! مجھے اور میری اولاد کو اصنام کی عبادت سے بچائے رکھنا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا کو شرف ِ قبولیت بخشا اور ان کی اولاد کو اصنام کی عبادت سے صرف دُور ہی نہیں رکھا بلکہ اس کے ساتھ نبوت سے بھی سرفراز فرمایا۔
اس آیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے اصنام کے بارے میں یہ بات بیان فرمائی ہے کہ:
(ترجمہ) ’’ان اصنام نے بہت سی مخلوق کو گمراہی میں مبتلا کردیاہے‘‘۔
لہٰذا ان سے بچتے رہنا چاہئے مبادا ان کی وجہ سے اس دَور میں بھی گمراہی نہ پھیل جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہر زمانے میں اصنام ہی کی وجہ سے لوگ راہ راست سے بھٹکتے رہے۔
حقیقت یہ ہے کہ شرک کی آفت سے وہی شخص بے خوف ہوسکتا ہے جو اس کی سنگینی سے بے خبر ہو اور وہی شخص شرک اور اس کی آفتوں سے محفوظ رہ سکتا ہے جس کو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا علم ہو اور توحید کے اسرار و رموز اس کے سامنے ہوں اور اسے معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ نے شرک کو ظلم عظیم کے نام سے پکاراہے۔
صَنَمٌ: پتھر وغیرہ سے بنائی ہوئی تصویر کو صنم کہتے ہیں۔ وَثَنٌ: جو صرف تصویر ہو اسے وثن کہتے ہیں۔ ’’صنم‘‘ کو ’’وثن‘‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ۔ وثن عام ہے ۔ ہر صنم کو وثن کہا جاسکتا ہے قبر بھی وثن میں داخل ہے
و فی الحدیث اِنَّ اَخْوَفَ مَا اَخَافُ عَلَیْکُمُ الشِّرکُ الْاَصْغَرُ
ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے بارے میں مجھے سب سے زیادہ خطرہ شرک ِ اصغرکا ہے۔
صحابہ کرامرضی اللہ عنہم کے بلند مقام اور ان کے کمال علم اور قوت ایمانی کے باوجود جب ان کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شرکِ اصغر کا خطرہ تھا تو ان نفوسِ قدسیہ کے بعد آنے والے مسلمانوں کاکیا حال ہوگا جن کی علمی حیثیت بھی کمزور ہے اور قوت ایمانی بدرجہا ناقص ہے اور خصوصاً دَورِ حاضر میں جبکہ علماء تک کا یہ حال ہے کہ توحید کو بس اتنا ہی سمجھتے ہیں جتنا کہ مشرکینِ عرب نے سمجھا تھا۔ یہ لوگ اس حقیقت سے ناآشنا ہیں کہ کلمہء اخلاص یعنی (لاَ اِلٰہ اِلَّا اللہ ) نے ہر طرح کے شرک کی جڑ کاٹ دی ہے۔
و عن ابن مسعود اَنَّ رَسُوْ لَ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَنْ مَاتَ وَ ھُوَ یَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اﷲِ نِدًّا دَ خَلَ النَّارَ
سیدنا ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’جو شخص غیر اللہ کو پکارتے پکارتے مر گیا وہ جہنم میں داخل ہوگا‘‘۔ (رواہ البخاری)۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عبادت میں کسی کو اللہ تعالیٰ کے اوصاف میں شریک بنانا جیسے کسی کو پکارنا، سوال کرنا اور غیر اللہ کی دہائی دینا اور اس سے مدد طلب کرنا، وغیرہ، ایسا شخص جہنم میں داخل ہو گا جو اس طرح کے شرک کا مرتکب ہوگا۔

غیر اللہ کو ’’نِد‘‘ قرار دینے کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں:
۱۔ غیر اللہ کو تمام عبادات میں یا کسی خاص عبادت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، اس کو شرک کہتے ہیں۔
۲۔ دوسری قسم شرکِ اصغر ہے جیسے کوئی شخص دوسرے سے کہے کہ ’’وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ اور تم چاہو گے یا اگر اللہ تعالیٰ اور آپ نہ ہوتے تو، یا، ریااور دکھلاوا وغیرہ۔ کیونکہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا تھا کہ: ’’جو اللہ تعالیٰ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’تم نے مجھے اللہ کا شریک بنادیاہے۔ بلکہ وہی ہوگا جو صرف اللہ تعالیٰ اکیلا چاہے گا‘‘۔

عن جابر اَنَّ رَسُوْلَ اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَنْ لَقِیَ اﷲَ لَا یُشْرِکُ بِہٖ شَیْئاً دَخَلَ الْجَنَّۃَ
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو اس حالت میں موت آئی کہ اُس نے شرک نہیں کیا، تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔(صحیح مسلم )۔
وَ مَنْ لَقِیَہُ یُشْرِکُ بِہٖ شَیْئاً دَخَلَ النَّارََ
اور جو شرک کرتے کرتے مر گیا وہ جہنمی ہے۔ (رواہ البخاری)۔
علامہ نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں رقمطراز ہیں کہ:
’’مشرک خواہ یہودی ہو یا نصرانی، اہل کتاب میں سے یا وثنی۔ کسی قسم کا بھی مشرک ہو وہ جہنم کا ایندھن بنے گا۔ اہل حق کے نزدیک کسی کا کفر عنادی ہو یا غیر عنادی اس میں کوئی فرق نہیں ہے‘‘۔
ملت اسلامیہ کی جو شخص مخالفت کرے یا مخالفت کے بعد اس پر کفر کا اطلاق ہوتا ہو، ان میں بھی کوئی فرق نہیں ہے البتہ جو شخص شرک کے بغیر جہنم میں جائے گا، اسے بہرحال نجات مل جائے گی۔ جو شخص کبیرہ گناہوں سے بچتے ہوئے فوت ہوا وہ بلا عذاب کے جنت میں داخل ہوگا اور جو کبیرہ گناہوں کا اِرتکاب کرتا رہا اور اسی حال میں مَرا تو وہ اللہ کی مشیت کے تابع ہے اگر اسے معاف کردیا گیا تو پہلے ہی جنت میں داخل ہوگا ورنہ سزا بھگت کر جنت میں پہنچ جائے گا۔
فیہ مسائل
۱۔ شرک سے ڈرنا۔ ۲۔ ریا کاری شرک میں سے ہے۔ ۳۔ریاکاری شرکِ اصغر ہے۔ ۴۔ نیک لوگوں پر بہ نسبت اور چیزوں کے ریاکاری کا زیادہ خوف کیا جاتا ہے۔ ۵۔ جنت اور دوزخ کا قریب ہونا۔ ۶۔جنت اور دوزخ کے قریب ہونے کو ایک ہی حدیث میں جمع کرنا۔ ۷۔جو بلا شرک کئے اللہ تعالیٰ سے ملے گا وہ جنت میں جائے گا اور جو شرک کرتے کرتے اللہ سے ملے گا وہ جہنم میں جائے گا اگرچہ وہ بڑا عابدو زاہد کیوں نہ ہو۔ ۸۔سب سے اہم مسئلہ یہ بیان ہوا کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اپنے اور اپنی اولاد کے لئے دعا کرنا کہ ان کو اللہ اصنام کی عبادت سے محفوظ رکھے۔ ۹۔ سیدنا خلیل اللہ کا اکثر لوگوں کی حالت سے عبرت حاصل کرنا، جیسا کہ کہا: اے اللہ ! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ ۱۰۔ اس میں کلمہ لَاا لٰہَ الَّا اللہ کی تفسیر و توضیح ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے۔ ۱۱۔ جو شخص شرک سے بچ رہا، اس کی اللہ تعالیٰ کے نزدیک فضیلت۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
لا الہ الا اللہ کی شہادت و گواہی کی وضاحت

لا الہ الا اللہ کی شہادت و گواہی کی وضاحت
باب :الدعا ا لی شھادۃ اَنْ لَّا اِ لٰہٰ اِ لَّا اﷲُ
اس باب میں لَا اِ لٰہ اِ لَّا اللہ کی شہادت و گواہی کے بارے میں وضاحت مذکور ہے
حسن بصری رحمہ اللہ نے جب یہ آیت پڑھی کہ وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَنْ دَعَا اِلیَ اﷲِ وَ عَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔ تو بے ساختہ پکار اٹھے کہ دیکھو: یہ ہیں اللہ کے حبیب، یہ ہیں اللہ کے ولی، یہ ہیں اللہ کے منتخب بندے اور یہ ہیں جو اہل ارض میں سب سے زیادہ اللہ کو پیارے ہیں، یہ ہیں جن کی دُعا کو اللہ تعالیٰ نے شرفِ قبولیت بخشا، یہ ہیں جو اپنی قبول شدہ دعا کی طرف مخلوقِ الٰہی کو بلاتے ہیں، یہ ہیں جنہوں نے قبولیت دُعا کے بعد بھی عمل صالح کا سلسلہ جاری رکھا، اور یہ ہیں جنہوں نے اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ کہا، اور یہ ہیں زمین میں اللہ کے خلیفے اور نائب۔
قُلْ ھٰذِہٖ سَبِیْلِْیٓ اَدْعُوْا اِلَی اﷲِ عَلیٰ بَصِیْرَۃٍ اَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِیْ وَ سُبْحٰنَ اﷲِ وَ مَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔(یوسف:۱۰۸)
تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی۔ اور اللہ پاک ہے اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔
علامہ ابن القیم رحمہ اللہ آیت اُدْعُ اِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے مدعّوین کے لحاظ سے اس آیت میں دعوت کے تین درجے بیان فرمائے ہیں: ’’طالب حق، جو حق بات پسند کرتا اور ترجیح دیتا ہو بشرطیکہ حق بات اس کے ذہن و قلب میں اُتر جائے۔ ایسے شخص کے ساتھ حکمت اور دانائی سے بات کرنی چاہئے، بحث اور جدال سے نہیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ سامع باطل میں الجھا ہوا ہے، لیکن اگر کوشش اور محنت کے بعد حق بات اس کی سمجھ میں آجائے تو اسے ترجیح دے گا اور قبول کر لے گا۔ ایسے شخص کو ترغیب و ترہیب کے انداز سے نصیحت کرنی چاہئے۔ تیسری شکل یہ ہے کہ سامع مقابلے اور عناد پر اتر آیا ہے۔ ایسے شخص کو بطریق احسن دلیل سے سمجھانا چاہئے، اگر مان جائے تو فبہا، ورنہ ممکن ہو تو مجادلہ سے بھی کام لیا جاسکتا ہے‘‘۔
عن ابن عباس اَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم لَمَّا بَعَثَ مُعَاذًا اِلَی الْیَمَنِ قَالَ لَہُ اِنَّکَ تَاْتِیْ قَوْمًا مِنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ فَلَیَکُنْ اَوَّلَ مَا تَدْعُوْھُمْ اِلَیْہِ شھَادَۃُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وفی روایۃ اِلٰی اَنْ یُوَحِّدُوا اﷲَفَاِنْ ھُمْ اَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَاَعْلِمْھُمْ اَنَّ اﷲَ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَّ لَیْلَۃٍ فَاِنْ ھُمْ اَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَاَعْلِمْھُمْ اَنَّ اﷲَ افْتَرَضَ عَلَیْھِمْ صَدَقَۃً تُوْخَذُ مِنْ اَغْنِیَآئِھِمْ فَتُرَدُّ عَلیٰ فُقَرَآئِھِمْ فَاِنْ ھُمْ اَطَاعُوْا لِذٰلِکَ فَاِیَّاکَ وَ کَرَائِمَ اَمْوَالِھِمْ وَ اتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ فَاِنَّہُ لَیْسَ بَیْنَھَا وَ بَیْنَ اﷲِ حِجَابٌ
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا کہ ’’تمہارا سامنا اہل کتاب سے بھی ہوگا تمہیں چاہیئے کہ سب سے پہلے ان کو کلمہ لَا اِلٰہ اِ لَّا اللہ کی دعوت دو‘‘۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: ’’یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرلیں‘‘۔ اگر وہ توحید کا اقرار کر لیں تو پھر ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر اس کا بھی اقرار کرلیں تو پھر ان کو بتانا کہ اللہ نے ان کے مال میں زکوٰۃ فرض کی ہے جو مالدار لوگوں سے وصول کرکے فقراء اور مساکین میں مساوی تقسیم کردی جائے۔ اگروہ زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں تو ان کے عمدہ مال وصول کرنے سے احتراز کرنا اور مظلوم کی آہ سے ڈرتے رہنا کیونکہ مظلوم کی آہ و پکار اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے درمیان کوئی پردہ حا ئل نہیں ہوتا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گویا اس منصب کی تیاری کے مترادف تھا۔ غرض یہ تھی کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ پہلے سے قلب و ذہن کو اس ذمہ داری کے لئے پوری طرح آمادہ اور تیا ر کرلیں۔
لَا اِلٰہ اِ لَّا اللہ کے اقرار و شہادت کیلئے سات شرائط کا پایا جانا لازمی ہے کلمہ شہادت کا اقرار کرنے والوں میں جب تک یہ شرائط نہ ہوں گی اس وقت تک اس کے فوائد و برکات کا حصول ممکن نہیں ہے:
۱۔ کلمہ شہادت کا اقرار کرنے والا ایسے علم سے بہرہ مند ہو جو جہالت کی ضد ہے۔
۲۔ ایسے یقین سے آراستہ ہو جو شک سے پاک ہو۔
۳۔ ایسی پذیرائی سے مالا مال ہو جس میں تردید کا کوئی شائبہ نہ ہو۔
۴۔ ایسی اطاعت اس کو نصیب ہو جس میں شرک کا امکا ن نہ ہو۔
۵۔ ایسے اخلاص پر فائز ہو جس میں شرک کا کوئی پہلو نہ پایا جائے۔
۶۔ صدقِ مقال کا وہ مقام حاصل ہو کہ جس میں کِذب نہ ہو۔
۷۔ توحید سے ایسی محبت رکھے جس میں شرک کی مخالفت پائی جائے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’شریعت اسلامی کے مطالعہ سے بالبداہت یہ ثابت ہے، نیز ائمہ اسلام کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ اسلام کی رُوح یا سب سے پہلے انسان جس چیز کا مکلف اور مامور ہے وہ لَا اِلٰہ اِلَّا اﷲ وَ اَنَّ مُحَمَدًا رَّسُوْلُ اﷲ کا اقرار ہے۔ یہی کلمہ وہ حدِ فاصل ہے جس کے اقرار کے بعد ایک کافر، مسلمان کہلاتا ہے اور دشمن دوست بن جاتا ہے۔ یہی وہ کلمہ ہے جس کے اقرار سے پہلے انسان کی جان اور اس کا مال مسلمانوں کے لئے جائز اور مباح تھے، اور اس کے اقرار کے بعد اس کی جان اور مال مسلمانوں پر حرام قرار پائے۔ کوئی شخص اگر کلمہ شہادت کا صدقِ دل سے اقرار کرے گا تو ایمان اس کے قلب میں داخل ہو جائے گا اور اسے مومن کہا جائے گا اور اگر کسی شخص نے صرف زبان سے اقرار کیا اور دل میں اس پر یقین نہ کیا تو ایسے شخص کو بظاہر مسلمان ہی کہا جائے گا لیکن حقیقت میں وہ مومن نہ ہو گا۔ البتہ جو شخص قدرت اور طاقت کے ہوتے ہوئے اس کلمہ شہادت کا زبان سے اقرار نہ کرے، ایسا شخص بالاتفاق کافر ہے۔ اس پر سلف صالحین، ائمہ کرام اور جمہور محدثین کا اتفاق ہے‘‘۔
مذکورہ حدیث سے پتا چلا کہ کلمہ شہادت کے اقرار اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت و نبوت مان لینے کے بعد سب سے بڑا کام جو ایک مسلمان کو کرنا چاہئے، وہ نماز کا ادا کرنا ہے۔ گویا شہادتین کے اقرار کے بعد نماز سب سے بڑا فریضہ ہے۔ اس ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کے بعد زکوٰۃ کا درجہ ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ زکوٰۃ، امراء سے لے کر فقراء میں تقسیم کر دینی چاہئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقراء کا خصوصی طور پر ذکر اس لئے فرمایا ہے کہ آٹھ مصارفِ زکوٰۃ میں ان کا حق مقدم اور موکد ہے بنسبت دوسرے مصارف کے۔ ایک بات یہ بھی ثابت ہوئی کہ امام وقت ہی زکوٰۃ کی وصولی اور اس کے خرچ کرنے کا ذمہ دار ہے، یا تو وہ خود وصول کرے یا اپنے کسی نائب کے ذریعے سے وصول کرے، جو شخص زکوٰۃ دینے سے انکار کرے اس سے زبردستی اور سختی سے وصول کی جاسکتی ہے۔ مختلف اشیاء کو جمع کرکے ان کی زکوٰۃ اگر ایک ہی چیز سے نکال دی جائے تو ادا ہوجائیگی ۔ غنی اور غیر مولفۃ القلوب کافر کو زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے مجنون اور بچے کے مال سے زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زکوٰۃ میں عامل کے لئے عمدہ اور نفیس جانور وصول کرنا حرام ہے اور زکوٰۃ دینے والے کو گھٹیا اور ردّی جانور دینا حرام ہے بلکہ درمیانے درجے کا مال ادا کرنا چاہئے۔ ہاں زکوٰۃ دینے والا اگر خوشی سے عمدہ جانور پیش کرے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
مظلوم کی دعا کو روک دینے کے لئے ترک ظلم اور ادائے عدل کو سپر بنائو۔ کیونکہ عدل و انصاف اور ترک ظلم، یہ دو اعمال ایسے ہیں جن کے ذریعہ سے انسان دنیا اور آخرت کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عادل خواہ ایک ہی ہو اس کی بات قابل عمل اور حجت ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ امام وقت اپنے نائب کو زکوٰۃ کی وصولی کے لئے بھیج سکتا ہے۔ امام کو چاہئے کہ وہ اپنے عمال اور نائبین کو تقویٰ اور پرہیزگاری کی وصیت کرے اور ان کو ضروری تعلیمات سے بہرہ ور کرے، ظلم سے بچے رہنے کی تاکید کرے، ظلم کے برے انجام سے ڈرائے۔ اپنے نائب کو یہ سمجھانا بھی ضروری ہے کہ تمام احکام بیک وقت نافذ نہ کئے جائیں بلکہ بتدریج اور آہستہ آہستہ نافذ کئے جائیں اور یہ کہ اہم معاملات اور بنیادی مسائل کو اولیت دے۔
نماز اور زکوٰۃ کے تارک پر تو اللہ تعالیٰ نے قتال کرنا ضروری ٹھہرایا ہے کیونکہ ان دونوں عبادتوں کا تعلق ظاہر سے ہے
لہٰذا ان کو وضاحت سے بیان کیا گیا بخلاف روزے کے، روزے کا تعلق صرف باطن سے ہے، جیسے وضو اور غسل جنابت وغیرہ۔ یہ ایسے اعمال ہیں جن پر صرف اعتماد کیا جاسکتا ہے، کسی دوسرے کو ظاہری طور پر ان کا علم محال ہے ممکن ہے کہ انسان روزہ کی نیت نہ کرے اور خفیہ طور پر کھاتا پیتا پھرے، جیسا کہ یہ ممکن ہے کہ انسان اپنی جنابت اور حدث دوسرے سے چھپا لے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان ظاہری اعمال کو بیان فرماتے جن کے تارک سے جنگ کی جاسکتی ہے اور اگر ان کا اقرار کرلے تو مسلمانوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز اور زکوٰۃ پر اسلام کو موقوف رکھا اگرچہ روزہ بھی فرض تھا، جیسا کہ سورہ توبہ کی دو آیات ہیں۔
اگرچہ یہ آیت فرضیت ِ روزہ کے بعد نازل ہوئی لیکن اس میں روزے کا ذکر نہیں کیا گیا کہ اس کا تعلق باطن سے ہے
، اور حج کا اس لئے ذکر نہیں کیا کہ اس کا وجوب خاص ہے، عام نہیں۔ کیونکہ عمر بھر میں صرف ایک ہی دفعہ فرض ہے‘‘۔
ولھما عن سھل ابن سعد اَنَّ رَسُوْ لَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ یَوْمَ خَیْبَرَ لَاُعْطِیَنَّ الرَّایَۃَ غَدًا رَجُلًا یُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلہُ وَ یُحِبُہُ اﷲُ وَ رَ سُوْلُہُ یَفْتَحِ اﷲُ عَلٰی یَدَیْہِ فَبَاتَ النَّاسُ یَدُوْکُوْنَ لَیْلَتَھُمْ اَیُّھُمْ یُعْطَاھَا فَلَمَّا اَصْبَحُوْا غَدَوْا عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم کُلُّھُمْ یَرْجُوْ اَنْ یُّعْطَاھَا فَقَالَ اَیْنَ عَلِیُّ ابْنُ اَبِیْ طَالِبٍ فَقِیْلَ ھُوَ یَشْتَکِیْ عَیْنَیْہِ فَاَرْسَلُوْا اِلَیْہِ فَاُتِیَ بِہٖ فَبَصَقَ فِیْ عَیْنَیْہ وَ دَعَا لَہُ فَبَرِاَ کَاَنْ لَّمْ یَکُنْ بِہٖ وَجَعٌ فَاَعْطَاہُ الرَّایَۃَ فَقَالَ اُنْفُذْ عَلٰی رِسْلِکَ حَتّٰی تَنْزِلَ بِسَاحَتِھِمْ ثُمَّ ادْعُھُمْ اِلَی الْاِ سْلَامِ وَاَخْبِرْھُمْ بِمَا یَجِبُ عَلَیْھِمْ مِّنْ حَقِّ اﷲِ تَعَالٰی فِیْہِ فَوَاﷲِ لَاَنْ یَّھْدِیَ اﷲُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا خَیْرٌ لَّکَ مِنْ حُمْرِ النِّعَمِ یَدُوکُوْنَ اَیْ یَخُوْ ضُوْنَ
صحیحین میں سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوئہ خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کل ایسے شخص کو پرچم دوں گا جو اللہ تعا لیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے اور اللہ تعا لیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت کرتے ہیں۔ اس کے ہا تھ پر اللہ تعالیٰ خیبرکو فتح فرما دے گا، چنانچہ رات بھر صحا بہرضی اللہ عنہم سوچتے رہے کہ پرچم کس کو دیا جائے گا؟ صبح کے وقت تمام صحابہ کرام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے اور ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ پرچم اسے دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ علیرضی اللہ عنہ بن ابی طالب کہاں ہیں؟ صحابہ کرام نے عرض کی کہ ان کی آنکھ درد کر رہی ہے۔ صحابہرضی اللہ عنہم نے علی رضی اللہ عنہ کو بلایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب علی رضی اللہ عنہ کی آنکھ میں لعاب دہن ڈالا اور دعا فرمائی۔ چناچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اسی وقت اس طرح تندرست ہو گئے جیسے کہ ان کو کوئی دردہی نہ تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جناب علی رضی اللہ عنہ کو پرچم دیا اور فرمایا کہ مجاہدین کو لے کر فورًا نکل جائو اور خیبر میں جا کر دم لو۔ اور پھر ان کو اسلام کی دعوت دینا۔ اور اللہ تعالیٰ کے جو حقوق ان پر عائد ہوتے ہیں وہ بتانا۔ پس اے علی رضی اللہ عنہ ! اللہ کی قسم، اگر ایک آدمی بھی تیرے ہاتھ پر مسلمان ہو گیا تو یہ تیرے لیے سرخ اونٹوں سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
امام احمد اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پرچم کی مندرجہ ذیل شکل نقل کی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا سیاہ رنگ کا تھا البتہ چھوٹے چھوٹے جھنڈے سفید رنگ کے تھے۔ اس پرچم پر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ لکھا ہوا تھا۔
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو ہر متقی مومن سے محبت رکھتے ہیں اسی طرح ہر متقی مومن اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے۔ ہاں ، حدیث ان ناصبیوں کے خلاف حجت اور دلیل ہے جو العیاذ باللہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت نہیں رکھتے اور انہیں کافر و فاسق قرار دیتے ہیں، مثلاً خوارج۔ لیکن ان روافض کی یہ بات بھی اسی قبیل سے ہے جو یہ کہتے ہیں کہ جو نصوص، فضائل صحابہ پر دلالت کناں ہیں، وہ ان کے ارتداد سے قبل کے ہیں (نعوذ باللہ)۔
سوال یہ ہے کہ اس سلسلے میں ان میں اور خوارج میں کیا فرق باقی رہ جاتا ہے جو اسی نوعیت کی باتیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب معتقدات باطل ہیں۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی قطعی طور سے مدد نہیں کرتا جن کے بارے میں وہ جانتا ہے کہ یہ کافر ہو کر مریں گے۔
اس حدیث میں اللہ کی صفت ِ محبت بھی ثابت ہوتی ہے، جس کے جہمیہ اور ان کے متبعین مخالف ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اِرشاد میں صراحت کے ساتھ حصول کامیابی کی خوشخبری سنائی گئی ہے (یہ کوئی علم غیب نہیں ہے بلکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اِرشاد میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ظاہری و باطنی ایمان کی بشارت ہے اور اس بات کی وضاحت ہے کہ جناب علی رضی اللہ عنہ ، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتے تھے اور ہر مومن کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھنی ضروری ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص معین کے متعلق کسی بات کی شہادت دیتے یا اس کیلئے دعا فرماتے تو صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ ان کو بھی یہ شرف حاصل ہو۔ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے افراد کو اس قسم کی دعا اور شہادت سے نوازا ہے لیکن اس خصوصیت کا مقام و مرتبہ کچھ اور ہی نوعیت کا تھا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت دی تھی۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر صحابہ کرام کو بھی جنت کی بشارت دی ہے لیکن جو بات خصوصیت میں پائی جاتی ہے وہ عموم میں نہیں ہوتی۔ اسی طرح ایک آدمی کو شراب پینے کی سزا دی گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہے‘‘۔
اسلام کی تشریح کے سلسلے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
’’اسلام یہ ہے کہ انسان احکام الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کردے، اس کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے خشوع و خضوع، اختیار کرے، اس کے سامنے عبودیت کاملہ کا اظہار کرے۔
حدیث سے یہ مسئلہ بھی ثابت ہوا کہ جنگ سے پہلے دعوتِ توحید دینا ضروری ہے۔ ہاں دشمن کو اگر پہلے سے دعوت پہنچائی جا چکی ہے تو پھر ان سے قتال جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو مصطلق پر اچانک حملہ کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتا چلا تھا کہ بنو مصطلق مسلمانوں پر حملہ کی تیاری میں مصروف ہیں۔ اور اگر دشمن کو پہلے دعوت اسلام نہیں دی گئی تو جنگ شروع کرنے سے پہلے ان کو دعوت دینا واجب ہے۔ اگر اسلام قبول کر لیں تو پھر ان پر جو ضروری اور واجب حقوق ہیں وہ بتانا جیسے نماز ، زکوٰۃ وغیرہ۔
فیہ مسائل
٭جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا اقرار کرلے اس کے لئے ضروری ہے کہ دعوت الی اللہ کا فریضہ ادا کرے۔ ٭ اخلاصِ نیت کی ترغیب کیونکہ اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ دعوت الی اللہ کو لے کر اٹھتے بھی ہیں تو اس میں وہ مخلص نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگوں کو اپنی ذات کی طرف بلاتے ہیں۔ ٭ بصیرت و ادراک سے بہرہ مند ہونا۔ ٭ حسن توحید کا تقاضہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر عیب سے پاک مانا جائے۔ ٭ شرک کے بدترین ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے عیب ثابت کرنے کے مترادف ہے۔ ٭چھٹا مسئلہ بہت ہی اہم ہے ، وہ یہ کہ انسان مشرکین سے میل جول نہ رکھے اگرچہ وہ خود شرک کا مرتکب نہ بھی ہوتا ہو۔ ٭ توحید کو قبول کرنا تمام واجباتِ دین پر مقدم ہے۔ ٭ ہر مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ وہ نماز، روزہ کی طرف دعوت دینے سے پہلے توحید کا نقش اور اس کی تعلیم خود اپنے سینے میں مرتسم کرلے۔ ٭ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی: ’’ اَنْ یُوحِّدُوا اﷲ ‘‘ اور کلمہ شہادت ’’ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ‘‘ کا مطلب ایک ہی ہے ۔ ٭۔ اہل کتاب میں وہ لوگ بھی ہیں جو توحید کی معرفت ہی نہیں رکھتے یا معرفت تو رکھتے مگر اس پر عمل نہیں کرتے۔ ٭ تعلیم کو آہستہ آہستہ بتدریج رائج کیا جائے۔ ٭سب سے پہلے زیادہ اہم اور اس کے بعد دیگر مسائل بتائے جائیں۔ ٭مصارف زکوٰ ۃ کی تفصیل۔ ٭ استاد کو چاہئے کہ طالب علم کے شبہات کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ ٭محصلِ زکوٰۃ کو چاہئے کہ وہ عمدہ مال پر ہاتھ نہ ڈالے۔ ٭ مظلوم کی پکار اور اس کی آہ سے ڈرتے رہنا چاہئے۔ ٭ کیونکہ مظلوم کی پکار اور عرش الٰہی کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ ٭ توحید خالص کی درحقیقت وہ علامتیں ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی میں نمایاں ہیں، ان کو مشقتیں برداشت کرنا پڑیں، یہ بھوک اور پیاس سے دوچار ہوئے اور انہوں نے بیماریوں کو صبرو استقامت سے جھیلا۔ ٭ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ ’’میں کل ایسے شخص کو پرچم دوں گا ‘‘۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلام نبوت میں سے ایک علامت ہے۔ ٭ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی آنکھ میں اپنا لعاب دہن ڈالنا بھی ایک علامت نبوت ہے۔ ٭ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت۔ ٭صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت، کہ وہ ساری رات ایک سوچ میں رہے کہ کس کو پرچم ملتا ہے اور وہ فتح و کامرانی سے واپس آتا ہے۔ ٭ تقدیر پر ایمان کہ جو شخص کسی چیز کے حصو ل کی کوشش نہیں کرتا، اس کو دے دینا۔ اور جو کوشش کرتا ہے اس سے روک لینا۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ’’اطمینان سے جائو‘‘ یہ آدابِ جنگ میں سے ایک ہے۔ ٭ جنگ شروع کرنے سے پہلے دشمن کے سامنے دعوت ِ اسلام پیش کرنا۔ ٭ شریعت اسلام کا یہ حکم ہے کہ جس قوم کو جنگ کے لئے للکارا جائے اسے سب سے پہلے اسلام پیش کرنا۔ ٭ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان ’’ ان کو ضروری اُمو ر بتائے جائیں ‘‘ سے پتہ چلا کہ دعوت ِ اسلام حکمت و دانائی سے پیش کرنی چاہئے۔ ٭ اسلام میں جو حقوق اللہ ہیں، ان کا معلوم کرنا۔ ٭۔ اس شخص کے اجر و ثواب کی کثرت کا اندازہ، جس کے ہاتھ پر ایک شخص بھی مسلمان ہو جائے۔ ٭ فتویٰ پر قسم اٹھانا ۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
توحید کی تفسیر اور کلمہ لا الہ الا اللہ کی شہادت کے بارے میں تفصیلات

توحید کی تفسیر اور کلمہ لا الہ الا اللہ کی شہادت کے بارے میں تفصیلات
باب :تفسیر التوحید و شھادۃ اَنْ لَّا اِلٰہ اِلَّا اﷲُ

اس باب میں مسئلہ توحید کی تفسیر اور کلمہ لَّا اِلٰہ اِلَّا اﷲُ کی شہادت کے بارے میں تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِھِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذابَہٗ اِنَّ عَذابَ رَبِّکَ کَانَ مَحذُوْرًا
جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو اپنے رب کے حضور رسائی حاصل کرنے کا وسیلہ تلاش کررہے ہیں کہ کون اس سے قریب تر ہوجائے اور وہ اس کی رحمت کے اُمید وار اور اس کے عذاب سے خائف ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تیرے رب کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق۔
یہ آیت کریمہ انبیاء و مرسلین اور ان کے متبع مومنوں کا راستہ اور طریق عمل متعین کرتی ہے کہ وہ اللہ ہی کا وسیلہ تلاش کرتے ہیں۔چنانچہ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ کی اطاعت سے اور ایسے اعمال سے جو اس کے نزدیک پسندیدہ ہیں، اس کا قرب حاصل کرو‘‘۔
ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جن صالحین اور اولیاء کو تم پکارتے ہو اور ان سے استغاثہ و استعانت کرتے ہو وہ تو خود اللہ کو وسیلہ بناتے ہیں۔ اب تم ہی بتائو کہ صحیح بات سے اقرب (زیادہ قریب) کون ہے‘‘۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں تین مقامات کا ذکر کیا گیا ہے:

(۱)۔ الحُبّ: اعمالِ صالحہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب اور اُس کی طرف توسل حاصل کیا جائے۔ اس کا نام محبت ہے۔
(۲۔۳)۔ الرَّجاء والخوف: اُمید اور خوف ہی حقیقت ِ توحید اور اصلِ اسلام ہیں۔

وَاِذْ قَالَ اِبرَاھِیْمُ لِاَبِیْہِ وَقوَمِہٖٓ اِنَّنِیْ بَرَآئٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا الَّذیْ فَطَرَنِیْ فَاِنَّہٗ سَیَھْدِیْنِ وَجَعَلَھَا کَلِمَۃً بَاقِیَۃً فِیْ عَقِبِہٖ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُونَ (الزخرف:۲۶ تا ۲۸)۔
یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’’تم جن کی بندگی کرتے ہو میرا اُن سے کوئی تعلق نہیں، میرا تعلق صرف اس سے ہے جس نے مجھے پیدا کیا، وہی میری رہنمائی کرے گا‘‘۔ اور ابراہیم علیہ السلام یہی کلام اپنے پیچھے اپنی قوم میں چھوڑ گئے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔
اِتَخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَاباً مِّنْ دُوْنِ اللّہِ
انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔ (التوبۃ:۳۱)۔

صحیح حدیث میں مروی ہے کہ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عدی بن حاتم الطائی کے سامنے جب یہ آیت تلاوت فرمائی تو سیدنا عدی رضی اللہ عنہ نے کہا:
(ترجمہ) ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم ان کی عبادت تو نہیں کیا کرتے تھے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بتائو اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو اگر وہ حلال کہہ دیتے تو تم اس کو حلال سمجھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ اشیاء کو اگر حرام کہہ دیتے تو تم اس کو حرام سمجھتے تھے یانہیں؟ سیدنا عدیرضی اللہ عنہ بولے: ہاں ہم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی تو ان کی ’’عبادت‘‘ ہے۔(ترمذی، مسند احمد)۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یََّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَھُمْ کَحُبِّ ا للّہِ وَالَّذیْنَ اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا ِﷲِ
کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہم سر اور مدِّ مقابل بناتے ہیں اور ان سے اس طرح محبت کرتے ہیں جس طرح اللہ کے ساتھ محبت ہونی چاہئے۔ حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔ (البقرہ:۱۶۵)۔
ایک مومن کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ اور اپنے اعمال کو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے خاص کرلیتا ہے اور اللہ کے سوا جس کی عبادت ہو رہی ہو اس کو ماننے سے انکار کردیتا ہے۔
پس جس شخص کے دل میں قبولِ حق کی معرفت ہوگی وہ ان آیات بینات سے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ کا مفہوم اور معنی اچھی طرح سمجھ لے گا اور توحید کے بارے میں اس کی بصیرت چمک اٹھے گی، جس کی دعوت تمام انبیائے کرام علیہ السلام نے دی ہے۔
زیرِ بحث آیت کریمہ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت میں کسی کو شریک ٹھہراتا ہے اور اس کو اللہ کے سوا ’’نِد‘‘ قرار دیتا ہے تو گویا اس نے اس کو بصورت محبت اللہ کی عبادت میں شریک بنایا۔ یاد رہے یہ بھی اللہ کے مثیل اور شریک بنانے کی ایک شکل ہے جس کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں فرمائے گا۔
پس جو شخص اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتا ہے اور اسی کے لئے کسی سے محبت رکھتا ہے تو یہ شخص اپنی محبت میں مخلص ہے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتا ہے لیکن اس کے ساتھ دوسروں سے بھی محبت کرتا ہے تو وہ مُشرک ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جو شخص قضائے حاجات کے سلسلے میں غیراللہ کی طرف راغب ہوا تو اس کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ وہ اس کی محبت کا گرویدہ ہو گیا اور اس باب میں اصل شے اس کی محبت ہی ہے‘‘۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’توحید ِ محبوب یہ ہے کہ انسان اپنے کئی محبوب نہ بنائے یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ عبادت میں کسی اور کو ساتھی نہ قرار دے اور توحیدِ حُب یہ ہے کہ انسان کے قلب میں محبت کی کوئی مقدار بھی باقی نہ رہے بلکہ سب کی سب اس اللہ کے لئے ہی وقف کردے۔ درحقیقت محبت اسی کا نام ہے‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی سے محبت رکھنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ جب انسان کسی سے محبت رکھے گا تو اگر یہ محبت اللہ کی رضا کے لئے ہوگی تو حقیقت میں اس کا تعلق اللہ تعالیٰ ہی سے ہو گا، اور اگر کسی خاص دنیوی مقصد کے لئے ہو گی تو یہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں نقص پیدا کرے گی اور غیراللہ کی محبت میں اضافہ کا باعث ہو گی۔
اللہ تعالیٰ سے محبت کی صداقت کا پتہ اس سے چلتا ہے کہ محبوب کے نزدیک جو اشیاء ناپسندیدہ ہیں یہ بھی ان کو ناپسندیدہ اور مکروہ سمجھے، اور یہ مکروہ شے کفر ہے۔ اس کو اس لئے مکروہ سمجھنا چاہئے کہ اس سے دوزخ میں داخل ہونے کا خطرہ ہے۔ محبت کا یہ معیار بہت ہی عظیم اور بلند ہے کیونکہ انسان کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی جان اور اپنی زندگی سے زیادہ کسی چیز سے محبت نہیں رکھتا۔
انسا ن جب اپنی اور اپنی زندگی سے زیادہ اللہ سے محبت رکھے گا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر اس کے سامنے آگ پیش کی جائے اور کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ سے کفر کرو ورنہ تمہیں آگ میں پھینک دیا جائے گا، تو وہ لا محالہ آگ میں گر جانے کو پسند کرے گا لیکن کفر کا مرتکب نہ ہوگا۔ یہ ایسی عظیم الشان محبت ہے جو عشاق کے ہاں بھی مفقود ہے، وہ بھی اپنے محبوب سے اس درجہ محبت نہیں رکھتے بلکہ اس قسم کی محبت کی مثال اور نظیر کا ملنا ممکن ہی نہیں ہے۔
یہ ایسی باکمال محبت ہے کہ انسان کے اپنے نفس، اپنے مال اور اپنی اولاد پر بھی اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے احکام کو مقدم گردانا جاتا ہے۔ اس بے مثل اور بے نظیر محبت سے ظاہری اور باطنی طور پر اللہ کے لئے خشوع و خضوع اور تذلل، عظمت و جلال اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری انسان کے دل میں سرایت کرجاتی ہے۔ مخلوق کی محبت میں اس درجہ کی بلندی کا پایا جانا ممکن نہیں ہے۔ اگرچہ اس کا مرتبہ کتنا ہی اونچا کیوں نہ ہو۔
پس جو شخص اس محبت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک بنائے تو وہ اس سے ایسے شرک کا ارتکاب کرے گا جس کی مغفرت نہیں ہو سکتی۔
جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں وہ اللہ سے اس قدر محبت رکھتے ہیں کہ مشرکین اپنے شرکاء اور ’’انداد‘‘ سے اتنی محبت بالکل نہیں رکھتے کیونکہ مومنین کی اللہ سے محبت کا مثل اور نظیر مخلوقات کی محبت میں ملنا محال ہے۔ جیسا کہ مومنین کا محبوب بے مثل ہے، اسی طرح مومنین کی محبت بھی بے مثل اور بے نظیر ہے۔
جو شخص اللہ تعالیٰ کی محبت کے متعلق وہ مثالیں بیان کرے جو مخلوق کی محبت میں مخلوق کے لئے بیان کی جاتی ہیں مثلاً ہجر، وصل، محبت کا ٹوٹنا وغیرہ۔ ایسے الفاظ زبان سے نکالے تو، یاد رہے کہ ان امثالِ محبت کا اللہ تعالیٰ کی محبت سے کوئی تعلق نہیں ہے، وہ (اللہ) بہت ہی ارفع و اعلیٰ ہے۔ محبت الٰہی میں اس قسم کی امثال و تشبیہات بیان کرنے والا شخص خطا کار ہے، یہ اس کی بہت بڑی خطا اور بہت بڑی غلطی ہے، اتنی بڑی کہ یہ اللہ تعالیٰ سے بُعد اور اس کے غضب کا باعث بنتی ہے‘‘۔
و فی الصحیح عن النّبیْ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ قَالَ مَنْ قَالَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَ کَفَرَ بِمَا یُعْبَدُ مِنْ دُوْنِ اﷲِ حَرُمَ مَالُہٗ وَ دَمُہٗ وَ حِسَابُہٗ عَلَی اﷲِ عَزَّ وَ جَل
صحیح مسلم میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
جو شخص ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ‘‘کا اقرار کرے اور اللہ تعالیٰ کے سوا جس چیز کی عبادت کی جاتی ہے اس سے کفر اور انکار کرے تواس کی جان اور مال محفوظ ہو گیا، البتہ اس کا حساب و کتاب اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے گا۔
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان اور مال کی حفاظت کو دو باتوں کے ساتھ معلق اور مشروط فرمایا ہے:
۱۔ پہلی بات یہ ہے کہ انسان ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ‘‘کی علم اور یقین کامل سے شہادت دے ۔
۲۔ دوسری بات یہ کہ انسان ہر اس شخص اور ذات سے بیزاری اختیار کرے جس کی اللہ تعالیٰ کے علاوہ عبادت ہورہی ہو۔ اس چیز کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف الفاظ تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے ساتھ قول اور عمل دونوں کا ہونا ضروری قرار دیا ہے۔


شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایاکہ:
’’جب تک (لوگ) شریعت ِ اسلامیہ کے ظاہری احکام پر عمل نہ کریں اس وقت تک ان سے جنگ جاری رکھی جائے گی۔ اگر چہ وہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲ‘‘ کا اقرار کرتے ہوں اور بعض احکام شریعت پر عامل ہوں جیسا کہ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ان لوگوں سے جنگ کا اعلان فرمایا تھا جنہوں نے صرف زکوٰۃ دینے سے انکار کیا تھا۔ تمام فقہائے اُمت کا اس پر اتفاق ہے‘‘۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں کہ
’’جو جماعت یا گروہ چند نمازیں ادا کرے اور چند چھوڑ دے یا روزے نہ رکھے یا حج نہ کرے یا جس شخص کا خون حرام ہے اس کی پرواہ نہ کرے یا لوگوں کا مال لوٹتا پھرے یا شراب کا عادی ہو، یا جوا کھیلتا ہو یا محرم عورت سے نکاح کرے یا جہاد ترک کردے یا اس کے علاوہ واجبات ِ دین میں سے امرِ واجب کو بلا عذر شرعی ترک کردے، جس کے ترک پر کفر لازم آتا ہو، ایسے گروہ سے جنگ کرنا ضروری ہے اگرچہ وہ گروہ مندرجہ بالا احکام کا زبانی طور پر اقرار بھی کرتاہے‘‘۔

فیہ مسائل
اس باب میں جو سب سے اہم مسئلہ بیان ہوا وہ توحید اور کلمہ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ‘‘کی تفسیر ہے جسے واضح اور صاف الفاظ میں چند باتوں سے بیان کیا گیا ہے۔
٭ لیکن اگر انسان معبود انِ باطل کی تردید نہیں کرتا تو آیاتِ محکم اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رُو سے ایسے شخص کے جان و مال کی حفاظت مسلمانوں اور اہل اسلام کے ذمہ ہرگز نہ ہوگی۔ ٭سورئہ بنی اسرائیل کی آیت میں ان مشرکین کی تردید کی گئی ہے جو مصائب اور مشکلات میں صالحین کو پکارتے ہیں، اور یہی شرک ِ اکبر ہے۔ تیسری بات جو اس باب میں خاص طور پر بیان کی گئی ہے سورہ توبہ کی اس آیت کی تفسیر ہے جس میں اہل کتاب کے کردار کا نقشہ کھینچا گیا ہے، اہل کتاب کا یہ عمل بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے علماء اپنے پیروں کو اپنا رب بنا لیا تھا۔ جس کا ان کو اللہ کی طرف سے کوئی حکم نہ تھا۔ بلکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں ۔ سورئہ توبہ کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ اہل کتاب کے اپنے علماء و عباد کو رب بنانے کے معنی عمل معصیت میں ان علماء و زہاد کی اطاعت کرنا ہے۔ ٭چوتھی بات جو اس باب میں ذکر ہوئی وہ سیدنا براہیم علیہ السلام کی وہ ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍبرات ہے جس کا انہوں نے کفار کے سامنے اظہار فرمایا تھاکہ ’’میں تمہارے باطل معبودوں سے علیحدگی اختیار کرتا ہوں اور اس ذات کی اتباع کا دم بھرتا ہوں جس نے مجھے پیدا فرمایا ہے‘‘۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے ان باطل معبودوں سے اپنے رب تعا لیٰ کو بہت ہی احسن انداز سے مستثنیٰ فرمایا۔ ٭اس باب میں اہم ترین وہ مسئلہ ہے جو سورہ بقرہ کی آیت میں بیان ہوا ہے جس میں صراحت کی گئی ہے کہ ’’اہل کفر جہنم سے ہرگز نہ نکل پائیں گے‘‘ اس آیت کریمہ میں بتایا گیا ہے کہ کافر اور مشرک اپنے ’’انداد‘‘ سے اسی طرح محبت رکھتے ہیں جس طرح کہ اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنی چاہئے تھی اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کافر اور مشرک بھی اللہ تعالیٰ سے محبت کے دعوے دار تھے، لیکن اس کے باوجود ان کو حلقہ اسلام میں شمار نہیں کیا گیا کیونکہ اس محبت کو صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص رہنا چاہئے، غور فرمائیے کہ اس شخص کا کیا مقام ہے جو اپنے انداد سے اللہ سے زیادہ محبت رکھتا ہو؟ یا اس شخص کی حالت کیا ہوگی جس کی اللہ تعالیٰ سے تو محبت نہیں ہے مگر وہ اپنے باطل معبودوں سے محبت رکھتا ہے؟ ٭رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان کہ ’’جو شخص ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ‘‘کا اقرار کرے اور معبودانِ باطل کا انکار کرے تو اسلام اس کی جان اور مال کا محافظ ہے اور اس کا حساب اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے گا‘‘۔
رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ‘‘کے معنی و مفہوم کو ٹھیک ٹھیک واضح کرتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف زبانی اقرار کے ساتھ معنی کا سمجھ لینا اور اس کے ساتھ ساتھ صرف اس کی عبادت بایں طور کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا جائے ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲ‘‘اس وقت تک فائدہ مند ثابت نہ ہو گا جب تک کہ باطل معبودوں کے انکار کے بارے میں ذرابھی شک کیا یا توقف سے کام لیا تو اس کے جان ومال کی حفاظت کاا سلام ذمہ دار نہ ہوگا۔
یہ مسئلہ کتنا عظیم اور اہم ہے؟ کتنا واضح اور غیر مبہم ہے؟ اور مخالفین کے خلاف کس درجہ برہانِ قاطع ہے؟
 
Top