• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • ولی کا درست قرآنی مفہوم (حصہ اول)
    پیشتر اس کے کہ ہم ولی پر اپنے مؤقف کی تائید میں آیات کا درست مفہوم پیش کریں مناسب ہو گا کہ ہم قرآن کریم کی روشنی میں ولی کے درست معنی متعین کردیں۔"ولی" کا مطلب ، "سر پرست"، "محافظ"، "ولی عہد"، "عہدے دار"یا حرف عام میں"اعلی افسران" ہے، اور اسکی جمع "اولیاء" ہے ۔لہذا قرآن کریم میں جہاں جہاں یہ لفظ استعمال ہو ا ہے اس کا یہی مطلب قرین قیاس ہے۔ کیونکہ دوستی یا رفاقت کے عربی میں دیگر الفاظ بھی ہیں اور ان کا قرآن کریم میں ان کا استعمال بھی ہو ا ہے ، مثلاً رفیق، مزمل، زمل وغیرہ۔لہذا ولی سے مراد "فیصلہ کن اتھارٹی" یا"اعلی افسران "ہی ہیں۔اب میں چند آیات پیش کرتا ہوں، جن میں ولی کا درست قرآنی مفہوم اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
    لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ 3:28

    ترجمہ: مومنین اہل ایمان کو نظر انداز کر کے کافروں کو سرپرست/ٹرسٹی نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کا خدا سے کچھ تعلق نہیں۔
    الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ أَيَبْتَغُونَ عِندَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا 4:139
    ترجمہ: جومنافقین مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو (ریاست کےلیے ) اپنا سرپرست بناتے(چاہتے ) ہیں۔ کیا یہ ان کے ہاں اپنے وقعت و قدر بڑھانا چاہتے ہیں ، جان لو کہ عزت تو سب کی سب اللہ ہی کے پاس ہے
    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا 4:144
    ترجمہ: اے اہل ایمان ، مومنین کو نظر انداز کر کے کافروں کا انتخاب (ریاست کے) اہم عہدوں کےلیے نہ کر لینا۔ کیا تم اپنے اوپر (خدا کے علاوہ) کسی اور کا غلبہ و طاقت تسلیم کر لو گے؟ (بقیہ حصہ دوم)
    ولی کا درست قرآنی مفہوم (حصہ دوم)
    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ ۘ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ 5:51
    ترجمہ: اے اہل ایمان یہود و نصارىٰ میں سے کسی کو بھی (اپنی مملکت کے )اہم عہدوں کے لیے منتخب نہ کرنا۔کیونکہ ممکن ہے کہ یہ پہلے سے ہی کسی اور کے لیے کام کررہیں ہوں(مثلاًدشمن کے لیے جاسوسی کرنا،یاد رکھو ان واضح احکامات کے باوجود بھی اگر تم نہیں سمجھے ) اور تم میں سے کسی نے انکا انتخاب کسی عہدے کے لیے کر لیا تو تمہارا شمار بھی انہیں میں سے ہوگا، اور ایسی قوم کو تو اللہ بھی ہدایت نہیں دے سکتا جو کسی چیز کو اسکے مقام سے ہٹا دے ۔(یعنی احکامات سے روگردانی کرنا ظلم ہو گا)

    إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ 5:55

    ترجمہ: اے اہل ایمان یاد رکھو کہ تمہارے لیے اقتدار اعلی صرف اللہ اور اسکا رسول (اسلامی مملکت) ہے ، اور اسلامی مملکت
    کے نامزد کردہ وہی مومنین تمہارے رہنمااور افسران ہو سکتے ہیں جو خود قوانین کی پیروی کرنے والے اور معاشرے کو نشو و ارتقاء دینے والے ہوں اور مشکلات سے نہ گھبراتے ہوں۔(اسلام کا سیاسی نظام پیش کرنے والی واضح ترین آیت)

    يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَكُمْ هُزُوًا وَلَعِبًا مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَالْكُفَّارَ أَوْلِيَاءَ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ 5:57

    ترجمہ: اے اہل ایمان اہل کتاب اور کفار میں سے کسی کو بھی اپنی مملکت کے عہدوں کے لیے منتخب نہیں کرنا کیونکہ یہ اللہ کے عطاکردہ ضابطہ حیات کو ہنسی مذاق سمجھتے ہیں۔ اگر تم مومنین میں سے ہو گے تو تمہیں اللہ کے ہی قوانین کے حضور سر بسجود رہنا چاہیے۔

    تَرَىٰ كَثِيرًا مِّنْهُمْ يَتَوَلَّوْنَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ أَنفُسُهُمْ أَن سَخِطَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَفِي
    الْعَذَابِ هُمْ خَالِدُونَ 5:80

    وَلَوْ كَانُوا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالنَّبِيِّ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَاءَ وَلَٰكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَاسِقُونَ 5:81

    لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا ۖ وَلَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُم مَّوَدَّةً لِّلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيسِينَ وَرُهْبَانًا وَأَنَّهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ 5:82
    ترجمہ: آپ (تاریخ میں )دیکھتے ہیں کہ ان کی اکثریت اللہ کے حکم سے سرکشی کر تےہوئے کفار کو اہم عہدوں پر نامزد کر تی رہی ہے، ان کا یہی فعل ان کی بربادی کا سبب بن جاتا ہے ، کیونکہ ان کا مستقبل ان ہی کافروں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے جن کو یہ اپنے ہاتھوں سے اپنے لیے منتخب کر کے بھیجتے رہے۔اس طرح اللہ کے احکامات بے کار ہو کر رہ گئے اوریہی چیز ان کے لیے ابدی عذاب کا سبب بن کر رہ گئی۔5:80

    تاہم وہ اس ذلت آمیز عذاب سے بچ سکتے تھے اگر یہ اللہ ،اسکے (منتخب کردہ) نبی اوراس نبی پر نازل ہونے والی وحی کے تابع رہتے اور اپنے لیے کفار کو سربراہ منتخب نہ کرتے، لیکن یہ ایسا کر بھی تو نہیں سکتے تھے کیونکہ ان کی اکثریت قانون شکن رہی ہے۔5:81

    اسی لیے اے رسول ہم آپ کو آگا ہ کر رہے ہیں کہ اگر کسی قوم کو آپ اسلام اور مومنین کی دشمنی میں سرفہرست دیکھیں گے تو وہ یہی یہودی ہوں گےیاوہ لوگ جو مشرکین (عرب)ہیں۔تاہم اگر آپ کو یہ دیکھنا ہو کہ آپ سے الفت و محبت میں ذیادہ قریب کون ہیں تو وہ عیسائی ہیں، کیونکہ ان میں منکسر المزاج عالم اور راہب ہیں ،جو تکبر نہیں کرتے۔5:82

    مضمون کے طوالت پکڑ جانے کی وجہ سے میں مزید آیات کی وضاحت نہیں کرسکتا ، احباب سے گزارش ہے کہ بقیہ آیات میں بھی ولی کا ترجمہ "سرپرست، ٹرسٹی، اعلی عہدہ دار" کرکے دیکھیں تو آپ کو آیت نکھر کر سامنے آتی محسوس ہوگی۔آخر میں ایک جامع آیت پیش کرنا چاہوں گا جس میں ولی کا ترجمہ "دوست "کسی صورت بھی ممکن نہیں
    إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ آوَوا وَّنَصَرُوا أُولَٰئِكَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يُهَاجِرُوا مَا لَكُم مِّن وَلَايَتِهِم مِّن شَيْءٍ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا ۚ وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ إِلَّا عَلَىٰ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ ۗ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ 8:72

    ترجمہ: یاد رکھو کہ تمہاری مملکت کے لیے اولیاء(ٹرسٹی/افسران) صرف وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو ایمان لائے ,ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جان و مال کا نظرانہ پیش کیا اور وہ لوگ جنہوں نے ان کی مد د کی اور انہیں چھت فراہم کی ۔مومنین میں سے وہ جو بعد میں ایمان لائے لیکن انہوں نے وہ مصیبتیں نہیں جھیلیں جو ہجرت کرنےوالوں اور ان کی مدد کرنے والوں نے برداشت کی، انہیں بھی تم ایسے اہم مناصب کے لیے نہ منتخب کرو، تا وقتیکہ کہ وہ بھی اللہ کی راہ میں اپنا جان و مال نہ قربان کردیں۔تاہم اگر وہ تم سے مدد کی درخواست کریں تو ان کی مدد کرنا تم پر فرض ہے، ماسوائے اسکے کہ تم کسی معاہدہ کے پابند ہو اور انکی مدد نہیں کر سکتے۔جان رکھو اللہ تمہارے ہر عمل پر نظر رکھے ہوئے ہے۔
    تین بڑے معاشی نظامہائے زندگی کا جائزہ )حصہ دوم
    امتیازی وصف
    اسلام : تعیشات اور آسائشات زندگی کی حوصلہ شکنی اور صبر و تحمل ، برداشت اورایثار و قربانی کی زندگی بسر کرنے کی حوصلہ افزائی
    بچتوں کی حوصلہ شکنی اور اللہ کی راہ میں ذیادہ سے ذیادہ خرچ کرنے کی ترغیب
    مہنگائی کا نام و نشان نہیں ( بنکوں کی طرح)
    بہت سی خدمات کا معاوضہ انفرادی سطح سے ختم اور حکومتی سرپرستی میں معاوضے/وظیفہ کی فراہمی مثلاً، درسی و تدریسی خدمات، احتساب و حسابات کی خدمات، عدلیہ کی خدمات، طبیب /ڈاکٹر کی خدمات/ موسیقی کی خدمات/تفیریح کی خدمات/ٹی وی و تھیٹر کے فنکاروں کی خدمات/کھلاڑیوں کی خدمات وغیرہ وغیرہ

    سرمایہ داری: ارتکاز دولت(سرمایہ داروں) کی حوصلہ شکنی اور بڑے کاروباروں ، کنسورشیم، مشترکہ سرمایہ کی انجمنوں اور سپر مارکیٹس پر پابندی
    مندرجہ ذیل بلامزد و معاوضہ سہولیات
    • روزگار کی فراہمی
    • تعلیم (یکساں نظام تعلیم کے ساتھ)
    • مکان کی تعمیر کے لیے زمین کی فراہمی
    • جائز ضروریات کے لیے عوام کے لیے قرض حسنہ (قابل معافی )کی سہولت
    • علاج معالجہ
    • بلا استثناء عدل سب کے
    • غریب اور بے سہارا بچیوں کی شادی کے اخراجات
    لوگوں میں خواہشات کو پروان چڑھانا (مارکیٹنگ کے ذریعے)
    لوگوں کو سود کی لالچ میں بچتوں کی ترغیب دینا، اس طرح معاشرے میں حسد ، کینہ ، بخیلی اور لالچ جیسی لا علاج نفسیاتی اور روجانی بیماریاں عام ہو جاتی ہیں
    لوگوں کو کریڈٹ کارڈزکے ذریعے خرید و فروخت کے لیے ابھارنا اور اس طرح سرمایہ داروں کا پیٹ سود سے بھرنا
    بنکوں کے سود کی شرح کی نسبت سےمہنگائی کی شرح میں اضافہ
    بے بس لاچار ، یتیموں ، بے روزگاروں ، بیماروں ، بے سہاروں کو بھیک میں سے چند ٹکڑے دیکر انہیں بے بسی، لاچاری اور اذیت کی زندگی فراہم کرنا اور اس کے لیے سیمنار ز منعقد کراناا ور لوگوں سے داد تحسین اور مزید چندے کے راہ ہموار کرنا
    انفرادیت کو پروان چڑھا نا اور اجتماعیت کی حوصلہ شکنی کرنا،اس طرح معاشرے کو تنکے کی طرح بکھیر کر رکھ دینا
    بڑے بڑے ملٹی نیشنل گروپس ، کنسوریشیم اور سپر مارکیٹس کا قیام تاکہ دولت محض چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جائے
    نت نئے پیشوں اور کاروباروں کی ایجاد، جیسے
    • وکالت ( دونوں میں سے ایک وکیل ہر حال میں باطل کا ساتھ با امر مجبوری دے گا)
    • سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں کا بطور کاروبار آغاز
    • ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کا مریضوں کو جنس سمجھنا
    • غرض ہر شعبہ فنون لطیفہ کی دھجیاں بکھیر دینا او رہر ایک کو دولت کا پجاری بنا دینا۔

    اشتراکیت : مندرجہ ذیل بلامزد و معاوضہ سہولیات
    • مہنگائی کا نام و نشان نہیں
    • روزگار کی فراہمی
    • تعلیم (یکساں نظام تعلیم کے ساتھ)
    • مکان کی تعمیر کے لیے زمین کی فراہمی
    • جائز ضروریات کے لیے عوام کے لیے قرض کی سہولت
    • علاج معالجہ
    • بلا استثناء عدل سب کے
    • غریب اور بے سہارا بچیوں کی شادی کے اخراجات
    تین بڑے نظامہائے معیشیت کا تقابلی جائزہ (حصہ اوّل)
    اس پوسٹ میں مختلف تقابلی نکات میں سے سب سے پہلے ، اسلام ، پھر سرمایہ داری اور آخر میں اشتراکیت کا تقابلی جائزہ لیا گیاہے۔

    اسلام (Islamism)
    سرمایہ داری (Capitalism)
    اشتراکیت (Communism)

    سیاسی اساس

    اسلام میں حاکمیت اعلی صرف اور صرف اللہ کی تسلیم کی جائے گی اور کسی انسان کے قوانین کی پیروی نہیں کی جائے گی، حتی کہ ریاست کےسربراہ کی ذاتی خواہشات کی بھی، وہ بھی احکامات خداوندی کو نافذ کرے گا اور سب سے پہلے خود ان احکامات کا پابند ہوگا۔اور اسکا کردار محض ایک امین کا سا ہو گا
    سرمایہ درارنہ نظام معیشت کی بنیاد اس نظریہ فریب (Deception Theory)پر مشتمل ہے کہ حکومت وقت کو ہمیشہ اپنا ذاتی مفاد عوام کے مفاد پر مقدم رکھنا چاہیے اور اس مقصد کے لیے حصول میں برائی کو حق اور سچائی کا پہناوہ پہنا کر اس طرح پیش کرو کہ سچائی دھندلا جائے اور پیش کردہ نظریہ ہی درست معلوم ہو

    اشتراکیت دراصل انسانی عقل و فکر کے ارتقائی مراحل پر مشتمل ضابطہ قوانین ہے، جس کی اساس انسانی فلاح و بہبود کے لیے تمام تر وسائل پر ریاست کے جبری قبضے پر استوار ہوتی ہے۔

    تعریف

    اسلامی نظام معشیت میں مملکت اور افراد کے تما م تر وسائل کی امین حکومت ہوتی ہے ، کیونکہ تمام ذرائع پیداوار اللہ کی دین ہیں اور آخرالامر ہمیں اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔(انا لله و انا اليه راجعون)

    سرمایہ دارانہ معیشت ایک ایسا نظام معیشت جس میں تمام تر وسائل نجی ملکیت میں ہوتے ہیں، اور ان کی منتقلی کے لیے کھلے بازار کا عمل اختیار کیا جاتا ہے ، جسکے تحت اشیاء و خدمات کی قیمت کا تعین اشیاء و خدمات کی طلب و رسد پر منحصر ہوتا ہے

    اشتراکیت ایک ایسا نظام معیشت ہے جس میں تمام تر وسائل ریاست کی تحویل میں ہوتے ہیں، اور ہر فرد کے معاوضہ کا تعین اسکی خدمات کے عوض کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے

    بنیادی وسائل

    اسلام: زمین + انسانی محنت
    سرمایہ داری: زمین + انسانی محنت + سرمایہ + تنظیم
    زمین + انسانی محنت

    نعرہ

    اسلام: لقدکرمنا بنی آدم (باہمی تعاون ہی ترقی کی بنیاد ہے)
    سرمایہ داری: جو جیتا وہی سکندر (Survival of the Fittest)
    اشتراکیت : روٹی ، کپڑا اور مکان ( سب کے لیے)

    ذرائع آمدنی

    اسلامی نظام معیشت کے مندرجہ ذیل ذرائع محاصل ہیں
    1. انفرادی ترغیب کے احکامات جسکے تحت مومنین اپنی رضامندی سے محصول اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان میں دو ذیلی احکامات ہیں۔
    o قل العفو
    o انفاق/صدقات/خیرا ت فی سبیل اللہ
    2. اجتماعی طور پر نافذالعمل احکامات
    3. زکوۃ - سالانہ بنیادوں پر مسلمانوں سے لازمی محصول جو انہیں بچتوں پر ادا کرنا ہے)، عشر(زرعی محاصل پر)
    4. الانفال – جنگی غنیمتوں کا قانون : جس کے تحت تمام انفال بیت المال میں جائیں گی۔
    5. تمام تر برآمدات کی آمدنی - (تمام بڑی صنعتیں حکومت کی)
    6. تمام ترمعدنی اور غیر زرعی اراضی کے وسا‏ئل کی آمدنی

    سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے ذرائع محاصل مندرجہ ذیل ہیں
    1. ٹیکسز - بالواسطہ اور براہ راست ٹیکسز
    2. درآمدات و برآمدات پر کسٹم ڈیوٹی
    3. جنگی ٹیکس (War Tax)
    4. لگان، رائیلٹیز،ٹول ٹیکسز وغیرہ وغیرہ
    5. سود پر حاصل کیے گئے قرضے
    6. جاری کردہ قرضوں پر سود کی وصولی

    اشتراکیت میں تمام تر وسائل مملکت کی تحویل میں ہونے کی وجہ سے تمام تر آمدن بلا شرکت غیرے اور بلا تخصیص حکومت کی آمدنی ہوتی ہے۔

    اخراجات

    اسلامی نظام حکومت میں اخراجات کی مدیں مندرجہ ذیل ہوں گی
    • بنیادی سہولیات زندگی کی فراہمی کے لیے اقدامات کرنا، جیسے سڑکیں، بجلی ، پانی، بند، پل، نہریں تعمیر و مرمت کرنا
    • تعلیم، صحت ، عدل و انصاف کی بلا مزد و معاوضہ فراہمی
    • روزگار کے مواقع مہیا کرنا
    • بے روزگاروں ، یتیموں ،محتاجوں، مسکینوں، بیواؤں ، اور مسافروں کو بنیادی ضروریات زندگی بلا مزد و معاوضہ فراہم کرنا
    • مختلف سطح پر مختلف قسم کی خدمات کے معاوضے
    • دفاعی اخراجات اور ملازمین کی تنخوائیں

    سرمایہ داری: بنیادی سہولیات زندگی کی فراہمی کے لیے اقدامات کرنا، جیسے سڑکیں، بجلی ، پانی، بند، پل، نہریں تعمیر و مرمت کرنا
    قرضوں اور قرضو ں پر سود کی ادائیگی
    علاج معالجےکی سہولیات
    تعلیم پر اخراجات
    بے روزگاری الاؤنس
    دفاعی اخراجات
    ملازمین کی تنخوائیں

    اشتراکی نظام حکومت میں اخراجات کی مدیں مندرجہ ذیل ہوں گی
    • بنیادی سہولیات زندگی کی فراہمی کے لیے اقدامات کرنا، جیسے سڑکیں، بجلی ، پانی، بند، پل، نہریں تعمیر و مرمت کرنا
    • تعلیم، صحت ، عدل و انصاف کی بلا مزد و معاوضہ فراہمی
    • روزگار کے مواقع مہیا کرنا
    • مختلف سطح پر مختلف قسم کی خدمات کے معاوضے
    • بے روزگاروں ، یتیموں ،محتاجوں، مسکینوں، بیواؤں ، اور مسافروں کو بنیادی ضروریات زندگی بلا مزد و معاوضہ فراہم کرنا
    • دفاعی اخراجات اور ملازمین کی تنخوائیں (بقیہ حصہ دوم)
    زید حامد کا پیغام چیف جسٹس افتخار چوہدری کے نام

    محترم افتخار چوہدری صاحب،
    ایک مسلمان، مدینہ ثانی یعنی پاک سرزمین کے شہری کی حیثیت سے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم آپ کو سمجھائیں۔ اللہ کا خوف کیجیے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو دھوکہ نہ دیں۔ آپ نے اس بات کا حلف اٹھايا ہے کہ آپ کسی خوف اور طرفداری کے بغیر عدل کریں گے۔
    پچھلے دس سالوں میں پاکستان مخالف غیر ملکی طاقتوں کی آشیر باد پر دہشت گردوں نے ایک لاکھ سے زاہد پاکستانیوں کا قتل کیا یا انہیں زخمی کیا اور اس طرح وہ پاکستان کے(خاکم بدہن) یوگوسلایہ کی طرز پر حصے بخرے کرنے کی جنگ ہم پر مسلط کیے ہوئے ہیں۔ اسی قتل و غارت گری کے ہزاروں دہشت گرد پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی نے پکڑے ، لیکن آپکی ماتحت عدالتوں میں سے کسی نے بھی کسی ایک بھی دہشت گرد کو پھانسی کی سزا نہیں سنائی۔ اسی طرح بحثیت مجموعی پورے کا پورا عدالتی نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے ۔ پولیس ان مجرموں پر مقدمہ دائر نہیں کرتی ۔ حکومت اور اسکے اتحادی خائن ہیں اور دہشت گرد گروہوں کی نہ صرف پشت پناہی کر رہے ہیں بلکہ انہیں رسد بھی بہم پہنچا رہے ہیں۔ عدالتیں اور منصف (ججز)ان دہشت گردوں سے اور سیفما کے ماتحت بدیانت میڈیا سے، جو پاکستان کے خلاف ایک بہت بڑی انفو جنگ مسلط کیے ہوئے ہے، یا تو ڈرے ہوئے ہیں یا پھر کسی مصلحت کا شکار ہیں اور حق پر مبنی فیصلہ نہیں کر پا رہے۔
    آپ اکثر آئین اور قانون کی بالادستی کی بات کرتے ہیں، لیکن آپکے بیانات محض بیان ہی بن کر رہ گئےہیں کیونکہ ریاست ، حکومت ،عدلیہ اور میڈیا انتہائی بے دردی سے آئین اور اپنے حلف کی دھجیاں بکھیرنے میں مصروف کار ہیں۔قوم اس وقت بہت صہوبتیں سہہ رہی ہے، گلگت سے فاٹا، فاٹا سے کوئٹہ، کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے نواب شاہ تک ہر جگہ دہشت گرد دندناتے پھر رہے ہیں لیکن عدلیہ خاموش تصویر بنی ہوئی ہے اور دہشت گردوں کو سزا نہیں دے رہی۔
    ہم سب مسلمان قسم اٹھا کر کہتے ہیں کہ روز حشرہم سب آپکے خلاف گواہی دیں گے کہ آپ نے اپنی ذمہ داری ٹھیک طریقے سے نہیں نبھائی اور اس طرح آپ نے مسلمان قوم کے اس اعتماد کی خلاف ورزی کی جو ہم نے آپ پر کیا تھا۔اللہ کی قسم ہم آپ کے لیے بدّعا کریں گے اگر اب بھی آپ اپنی روش سے باز نہیں آئے اور دہشت گردوں کو لٹکا کر اپنی ذمہ داری سے عہدہ براء نہیں ہوئے۔ہمیں عدل چاہیے۔ اگر آپ نے عدل نہیں کیا تو ہم اللہ سے کہیں گے کہ وہ اپنا عدل کرے۔
    اس مشکل کی گھڑی میں جبکہ قانون ، آئین اور انصاف کا جنازہ نکل چکا ہے ، ہم دیکھ رہے ہیں کہ بجائے اسکے کہ آپ دہشت گردوں کو سزا دیں، عدالت فوج ، آئی ایس آئی اور ایف سی کے خلاف آئین سے انحراف کرنے کے مقدمات نمٹانے پر کچھ ذیادہ ہی مستعد دکھائی دیتی ہے اور اس طرح وہ بجائے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے،الٹا دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ابھی تک عدالت نے تحریک طالبان پاکستان، بلوچ لبریشن آرمی اور دیگر مسلح دہشت گرد گروہوں کے خلاف ایک بھی مقدمے کی سماعت نہیں کی نہ ہی انہیں عدالت میں بلایا ہے جبکہ فوج ، آئی ایس آئی اور ایف سی کے خلاف درجنوں مقدمات رجسٹر بھی کر لیے گئے اور اور انکی سماعت بھی ہو رہی ہے۔ (واہ رے عدالت تیرا انصاف – جناب زید حامد سے معذرت کے ساتھ)
    آپ خود ہی بتائیے کہ ان جنگی حالات میں فوج کیا کرے ، جبکہ سول حکومت اور انتظامیہ مکمل طور پر ناکام ہو چکي ہیں؟ فوج ہی وہ ادارہ ہے جو پاکستان کے وقار کا دفاع کر رہا ہے، اس میں آپ کا بھی وقار ہے اور ہمارا بھی۔ ان حالات میں اگر فوج بھی ناکام ہوگئی یا اسے کام کرنے سے روک دیا گیا یا اسکی تضحیک کی گئی توکھیل ختم ہو جائے گا اور ہم بھی عراق ، یوگوسلاویہ یا صومالیہ بن کر رہ جائيں گے۔ خدا کا واسطہ ہے دہشت گردوں کا پیچھا کیجیے، اور فوج اور آئی ایس آئی کا پیچھا چھوڑ دیں۔ آپ ایک اچھے منصف تو ہو سکتے ہیں لیکن ایک اچھے دفاعی تجزیہ کار نہیں ہو سکتے ۔ یاد رکھیے کہ جنگی حالات میں، فوجی اور ہنگامی قوانین کا اطلاق کیا جاتا ہے اور سول قانون معطل ہو جاتا ہے۔ اس وقت معصوم مسلمانوں اور شہریوں کے جان و مال کا تحفظ ذیادہ اہم ہے۔ لہذا آپ سے التماس ہے کہ اس وقت فوج کو دہشت گردوں کے خلاف جو بہتر لگتا ہے کرنے دیں۔ اور ہمارے لیے ذیادہ خوشی کی بات ہوگی اگر آپ بھی اس ضمن میں مستعد ہوں اور کچھ دہشت گردوں کو آپ بھی سزا دیں۔
    پاکستان اس وقت تباہی کے دھانے پہ کھڑا ہے، جب قانون کی دھجیاں اڑا کر رکھ دی گئیں ہیں، انتظامیہ،معاشی اور عدالتی مشینری ناکام ہو چکی ہے۔خدا راہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ دشمن پاک فوج اور آئی ایس آئی نہیں، بلکہ حکومت، دہشت گرد اور پاکستان مخالف میڈیا ہی ہمارا اصل دشمن ہے۔ اسے آپکی سادگی کہا جائے ، معصومیت کہا جائے یا جوش ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ پاکستان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
    آپکے لیے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بہت ہی عزّت کی بات ہو گی اگر آپ اللہ اور اسکے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی کرتے ہیں اور قرآن اور سنّہ کے تحت کسی سے ڈرے بنا اور کسی کی طرف داری کیے بنا عدل کا اطلاق کرتےہیں۔ وہ بھی اس مصیبت کی گھڑی میں جب امت کی نظریں آپ پر گڑیں ہیں کہ آپ کوئی مثبت قدم اٹھائیں۔ یاد رکھیں کہ اللہ نے آپ کو بہت ہی معمولی سا وقت دیا ہے آج کے دن آپ بااختیارہیں لیکن اتنا بھی ممکن بنا لیجیے گا کہ کل کو قیامت کے دن کہیں آپکی بے عزتی نہ ہو جائے ، اور آخرت کے لیے گھاٹے کا سودا کرنا بہت بڑا نقصان ہو گا۔اللہ آپ کورسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دشمنوں سے مقابلہ کرنے کی ہمت عطا کرے اور اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو جیسے جاہیے آپ کا فیصلہ کرے۔ گواہ رہیے کہ ہم نے آپ تک اپنا پیغام پہنچا دیا ہے۔
    والسّلام
    زید حامد
  • لوڈ کرتے ہوئے…
  • لوڈ کرتے ہوئے…
  • لوڈ کرتے ہوئے…
Top