• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اتمام حجت اور عمار خان ناصر

شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں عمار خان ناصر صاحب کہتے ہیں:
"
اتمام حجت کے بعد مواخذے کا اختیار اسی گروہ کو حاصل ہوتا ہے جسے اللہ کی طرف سے اس کا صریح اذن حاصل ہو۔ صحابہ نے اسی اختیار کی بنا پر اپنے دور میں اقوام عالم کے خلاف اقدامات کیے اور ان کا شروع کردہ یہ عمل تاریخ میں ایک خاص مرحلے پر پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ اس کے بعد اس بنیاد پر کسی غیر مسلم قوم کے خلاف جنگ چھیڑنا، میرے نزدیک اذن الٰہی کے بغیر انسانی جان ومال کی حرمت سے تعرض کرنے کے ہم معنی ہوگا"
غامدی صاحب بھی اسی فکر کے حامل ہیں، مطلب آج کے دور میں اقدامی جہاد نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کس نے حق کا انکار جانتے بوجھتے کیا، اور کس تک پیغام صحیح طریقے سے نہیں پہنچا، مطلب دلوں کے حال، نیت اللہ ہی جانتا ہے۔۔۔

علماٰء سے گزارش ہے کہ اس بارے میں قرآن و حدیث سے ثابت صحیح منہج واضح کریں۔
جزاک اللہ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
و قاتلوهم حتى لاتكون فتنه و يكون الدين لله
عمار ناصر صاحب کا فلسفہ مذکورہ صریح آیت کے خلاف ہے ۔
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اپنی ایک فیس بک پوسٹ میں عمار خان ناصر صاحب کہتے ہیں:
"
اتمام حجت کے بعد مواخذے کا اختیار اسی گروہ کو حاصل ہوتا ہے جسے اللہ کی طرف سے اس کا صریح اذن حاصل ہو۔ صحابہ نے اسی اختیار کی بنا پر اپنے دور میں اقوام عالم کے خلاف اقدامات کیے اور ان کا شروع کردہ یہ عمل تاریخ میں ایک خاص مرحلے پر پایہ تکمیل کو پہنچ گیا۔ اس کے بعد اس بنیاد پر کسی غیر مسلم قوم کے خلاف جنگ چھیڑنا، میرے نزدیک اذن الٰہی کے بغیر انسانی جان ومال کی حرمت سے تعرض کرنے کے ہم معنی ہوگا"
غامدی صاحب بھی اسی فکر کے حامل ہیں، مطلب آج کے دور میں اقدامی جہاد نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کس نے حق کا انکار جانتے بوجھتے کیا، اور کس تک پیغام صحیح طریقے سے نہیں پہنچا، مطلب دلوں کے حال، نیت اللہ ہی جانتا ہے۔۔۔

علماٰء سے گزارش ہے کہ اس بارے میں قرآن و حدیث سے ثابت صحیح منہج واضح کریں۔
جزاک اللہ۔
دلوں کا حال اور نیت تو الله کے نبی صل الله علیہ و آ له وسلم اور آپ کے صحابہ کرام بھی نہیں جانتے تھے - پھر یہ کہنا کہ ان کو غیر مسلموں کے خلاف جہاد کا صریح ازن تھا اور آجکل کے مسلمانوں کو یہ ازن حاصل نہیں؟؟ - ایک جاہلانہ موقف ہے -
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
شیخ @خضر حیات محترم، انکا نکتہ یہ ہے کہ اللہ کا عزاب یا قتال اتمام حجت کے بعد ہوتا ہے، اور اللہ اس وقت تک عزاب نہیں بھیجتا جب تک کوئی رسول مبعوث نہ فرما دے، اور رسول کو اللہ بزریعہ وحی اطلاع دیتا ہے کہ اس قوم نے "جانتے بوجھتے" اپکا انکار کیا، اس لیئے ان پر عذاب نازل ہوگا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یہ عذاب کفار کے خلاف قتال کر کے نازل کیا گیا اور صحابہ نے بھی انہی لوگوں سے قتال کیا جن سے نبی کریم صلی اللہ علیہ اسلم نے اپنی حیات میں حکم دیا تھا۔ اگرچہ اکثر جنگیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد ہوئیں، مگر ان جنگوں کا حکم بھی اللہ کے نبی نے اپنی زندگی میں دے دیا تھا۔ اس لیئے نبی ہی جانتا ہے کہ اتمام حجت ہوا کہ نہیں، اگر نہیں ہوا تو قتال نہیں شروع ہو سکتا، اور اتمام حجت کی خبر نبی کو اللہ ہی دیتا ہے، اس لیئے آج نہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں، وحی بند ہے، اس لیئے اتمام حجت ممکن نہیں ہے۔ اصل مسئلہ ہے کہ اتمام حجت کا صحیح مفہوم کیا ہے، اور کیا یہ بات با دلائل درست ہے کہ نبی کے علاوہ کوئی اتمام حجت نہیں کر سکتا۔

اس بات کو غامدی صاحب یوں بیان کرتے ہیں:
"
قرآن کی شرح وتفسیر میں جو چیزیں اس رعایت سے اس کے ہر طالب علم کے پیش نظر رہنی چاہییں، وہ یہ ہیں:

اولاً، اس کی ہر سورہ میں تدبر کر کے اس کا زمانہ نزول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے انھی مراحل کے لحاظ سے اس طرح متعین کرنا چاہیے کہ اس کے بارے میں یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جا سکے کہ مثال کے طور پر، یہ زمانہ انذار میں نازل ہوئی ہے یا زمانہ ہجرت وبراء ت اور جزا وسزا میں، اور اس کی ہر آیت کامدعا اسی پس منظر میں سمجھنا چاہیے۔

ثانیاً، اس کی ہر سورہ کے بارے میں یہ طے کرنا چاہیے کہ اس کے مخاطب اصلاً زمانہ رسالت کے مشرکین ہیں، اہل کتاب ہیں، منافقین ہیں یا پیغمبر اور اس کے ساتھیاہل ایمان یا ان مخاطبین کی کوئی خاص جماعت۔ اسی طرح طے کرنا چاہیے کہ تبعاً ان میں سے کس کی طرف اور کہاں کوئی التفات ہوا ہے۔ چنانچہ اس کی ہر ضمیر کا مرجع، ہر لام تعریف کا معہود اور ہر تعبیر کا مصداق پھر اسی روشنی میں واضح کرنا چاہیے۔

ثالثاً، اس میں غلبہ حق، استخلاف فی الارض اور جہاد وقتال کی آیات سے متعلق یہ بات بالخصوص پوری تحقیق کے ساتھ متعین کرنی چاہیے کہ ان میں کیا چیز شریعت کا حکم اور خدا کا ابدی فیصلہ ہے اورکیا چیز اسی انذار رسالت کے مخاطبین کے ساتھ خاص کوئی قانون ہے جو اب لوگوں کے لیے باقی نہیں رہا۔'' (میزان، ص ٤٨، ٤٩)

غامدی کے نزدیک یہ اقدامات (قتال و جہاد) چونکہ دراصل ایک سنت الٰہی کا نفاذ تھے، اس لیے ان سے شریعت کا کوئی عمومی حکم اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ لکھتے ہیں:

''اس کا حکم قرآن میں دو صورتوں کے لیے آیا ہے:
ایک، ظلم وعدوان کے خلاف،
دوسرے، اتمام حجت کے بعد منکرین حق کے خلاف۔

اور لکھتے ہیں:
یہ محض قتال نہ تھا، بلکہ اللہ تعالیٰ کا عذاب تھا جو اتمام حجت کے بعد سنت الٰہی کے عین مطابق اور ایک فیصلہ خداوندی کی حیثیت سے پہلے عرب کے مشرکین اور یہود ونصاریٰ پر اور اس کے بعد عرب سے باہر کی اقوام پر نازل کیا گیا۔ لہٰذا یہ بالکل قطعی ہے کہ منکرین حق کے خلاف جنگ اور اس کے نتیجے میں مفتوحین پر جزیہ عائد کر کے انھیں محکوم اور زیر دست بنا کر رکھنے کا حق ان اقوام کے بعد اب ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔ قیامت تک کوئی شخص اب نہ دنیا کی کسی قوم پر اس مقصد سے حملہ کر سکتا ہے اور نہ کسی مفتوح کو محکوم بنا کر اس پر جزیہ عائد کرنے کی جسارت کر سکتا ہے۔ (میزان، ص ٦٠١)


ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
"قرآن کا ارشاد ہے کہ رسولوں کی طرف سے اتمام حجت کے بغیر یہ عذاب کسی قوم پر کبھی نہیں آیا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ ’وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً‘* (ہم کبھی سزا نہیں دیتے، جب تک ایک رسول نہ بھیج دیں)۔ اِس پر یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ یہ اتمام حجت کس طرح ہوتا ہے؟ قرآن کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں:
اولاً، خدا کا رسول دنیا میں موجود ہو اور وہ کسی قوم کو اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دے۔
ثانیاً، قوم کو اتنی مہلت دی جائے کہ اُس کے لوگ اگر چاہیں تو رسول کو آ کر دیکھیں اور اُس کی زبان سے براہ راست خدا کاپیغام سنیں، اِس لیے کہ روے و آواز پیمبر معجزہ ست۔
ثالثاً، رسول اور اُس کے ساتھیوں کے ساتھ خدا کی معیت کا ظہور اُن کی آنکھوں کے سامنے اور اِس شان کے ساتھ ہو جائے کہ اُس کے بارے میں کوئی دوسری راے قائم کرنا ممکن نہ ہو۔"

اس سب بحث کا حاصل یہ ہے کہ اتمام حجت کا قائم ہونا نبی کے ساتھ خاص ہے، نبی موجود نہیں تو اتمام حجت ہونا نا ممکن، اس لیئے مشرکین کے خلاف اقدامی جہاد منسوخ۔
یہ وہ بحث ہے جو آجکل، جب کے عالمی میڈیا اور لوکل این جی اوز اسلام کے خلاف اور خصوصاَ فلسفہ جہاد کے خلاف ایک محاز کھڑا کر رہی ہیں، ٹی پر غامدی صاحب، اور سوشل میڈیا اور رسائل میں ان کے حامی بہت زور و شور سے پہیلا رہے ہیں۔ محدث کے کسی شمارے میں بھی اس موضوع کو زیر بحث لانا چاہیئے۔ جزاک اللہ۔
@ابوالحسن علوی ، @کفایت اللہ ، @انس ، @اسحاق سلفی ، @محمد آصف مغل ، @محمد ارسلان ، @محمد زاہد بن فیض ، و دیگر برادران اسلامی۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
مو جودہ ملکی صورتحال میں اس موضوع پر لکھنا تھوڑا مشکل ہے ۔ویسے بھی فورم پر جہاد و قتال کے موضوعات پرپابندی ہے۔
بس دو باتیں سمجھ لیں ،عمار خان ،اورغامدی دونوں ہی موجودہ دور میں جہاد کے عملاً انکاری ہیں ۔
میڈیا کا رجحان بھی فی الحال جہاد مخالف ہی ہے۔۔اس لئے وہ غامدی جیسے حضرات کواستعمال کر رہا ہے ۔
اور سب سے بڑھ کر جہاد کرنے والوں نے خود بھی موجودہ فضا کے بڑے بھاری اسباب مہیا کئیے ہیں
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
بھائی میرے خیال میں فورم پر جہاد و قتال کے نہیں، "مسلمانوں کی تکفیر" کے متعلق موضوعات پر پابندی ہے، جو کہ بالکل صحیح ہے۔ ۔۔۔۔۔۔ سے اس فورم کو پاک رکھنا چاھیئے۔ جزاک اللہ۔
 
Last edited by a moderator:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
کچھ فلسفے ایسے ہوتے ہیں ، جن پر غور و فکر یا رد کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ، کیونکہ ان فلسفوں کا نتیجہ دین کے کسی متفق علیہ مسئلہ کا انکار ہوتا ہے ، یہی مسئلہ جہاد و قتال سے متعلقہ فلسفے کا ہے ، اب کوئی شخص ادھر ادھر صغرے کبرے جوڑ کر یہ کہنے لگ جائے کہ نماز باجماعت کا حکم صرف ابتدائے اسلام کے لیے تھا تو کیا اس پر غور و فکر کرنا شروع کردیا جائے ۔ ؟!
لیکن آج کل مصیبت یہ ہے کہ لوگ ایسے سہولت پسند مفتیوں پر ٹوٹ کر گرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے دلائل کا علمی رد کسی کے پاس نہیں ہے ، اس لیے ان کا منہ بند کرنے کے لیے علماء اس طرح کی ہفوات پر وقت ضائع کرنا گوارہ کرلیتے ہیں ۔
محدث میگزین میں جاوید احمد غامدی اور اور ان کے شاگرد عمار ناصر کے تقریبا تمام نظریات کا تعاقب موجود ہوتا ہے ، یا کم از کم ایسے مضامین و کتب کی طرف رہنمائی ہے جن میں ان حضرات کے ملحدانہ افکار پر تنقید سدید موجود ہے ۔
جاوید احمد غامدی کے لیے پروفیسر محمد رفیق چودھری صاحب ہر وقت کمر بند رہتے ہیں ۔
جب کہ عمار ناصر بھی اگرچہ چھوٹا غامدی ہی ہے لیکن اس کے قابل تنقید نظریات پر بھی حافظ حسن مدنی اور حافظ زبیر تیمی صاحب اور دیگر اہل علم کے مضامین مل جائیں گے ۔
محدث رسالہ میں تقریبا 400 سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب کا تعارف دیا گیا ہے ، جس کے عنوان سے واضح ہے کہ موصوف کے نظریات کا خوب تیا پانچہ کیا گیاہے ۔
''عمّار خان ناصر کا نیا اسلام اور اُس کی سرکوبی''

اسی طرح فکر غامدی کے علمی محاکمے پر محدث لائبریری میں مستقل کتب بھی موجود ہیں ۔
 
شمولیت
فروری 29، 2012
پیغامات
231
ری ایکشن اسکور
596
پوائنٹ
86
دلوں کا حال اور نیت تو الله کے نبی صل الله علیہ و آ له وسلم اور آپ کے صحابہ کرام بھی نہیں جانتے تھے - پھر یہ کہنا کہ ان کو غیر مسلموں کے خلاف جہاد کا صریح ازن تھا اور آجکل کے مسلمانوں کو یہ ازن حاصل نہیں؟؟ - ایک جاہلانہ موقف ہے -
جواد بھائی در اصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں وحی کا سلسلہ جاری تھا، اس لیئے ان کا دلوں کے حال کو جاننا انکا اپنا نہیں بلکہ وحی پر مبنی تھا، جیسا قرآن کی ایک آیت وضاحت کرتی ہے کہ یہودی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے پہچانتے ہیں جیسے اپنے بیٹوں کو۔۔۔ اس فلسفے سے غامدی صاحب اینڈ پارٹی دلیل پکڑتی ہے۔

محترم @خضر حیات بھائی، اس کتاب کا ناشر کون ہے :''عمّار خان ناصر کا نیا اسلام اور اُس کی سرکوبی'' کہاں سے مل سکتی ہے رہنمائی فرما دیں،

ایک آخری بات یہ کہ آپ نے جو فرمایا کہ "

"کچھ فلسفے ایسے ہوتے ہیں ، جن پر غور و فکر یا رد کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ، کیونکہ ان فلسفوں کا نتیجہ دین کے کسی متفق علیہ مسئلہ کا انکار ہوتا ہے۔۔۔س لیے ان کا منہ بند کرنے کے لیے علماء اس طرح کی ہفوات پر وقت ضائع کرنا گوارہ کرلیتے ہیں "

مجھے اس بات سے سو فیصد اتفاق ہے، کیونکہ اکثر ان فضول اعتراضات کا رد کرنے سے ان شبہات اور ان نا معلوم اشخاص کا نام عوام میں پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ مگر غامدی صاحب پرویز کی طرح میڈیا پر سر عام اپنی فکر کی تشہیر کر کہ عوام میں بد عقیدگی پھیلا رہے ہیں، اس لیئے ان کے اعتراضات اگرچہ بوسیدہ اور کمزور ہوں، ان کا رد اس لیئے لازمی ہے کیونکہ ان کو بہت شہرت مل چکی ہے۔ بین الاقوامی مغربی حکومتوں کا ایجنڈا بھی انکی فکر کو سپورٹ کرتا ہے۔ آپ اس بارے بہتر جانتے ہوں گے۔
شکریہ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
Top