• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اللہ سے مُحبت کرنے ، اور اللہ کی مُحبت حاصل کرنے کے اسباب ::

شمولیت
نومبر 24، 2012
پیغامات
265
ری ایکشن اسکور
502
پوائنٹ
73
:::::::
اللہ سے مُحبت کرنے ، اور اللہ کی مُحبت حاصل کرنے کے اسباب ::
:::::

بِسمِ اللہ الرّحمٰن ِ الرَّحیم

و لہُ الحمدُ فی اُولیٰ و فی الآخرۃ ، و افضلَ الصَّلاۃُ و السَّلامُ عَلیٰ رَسولِ اللہ، الذَّی لا نَبیَّ و لا مَعصومَ بَعدہُ

اللہ کی محبت اللہ کی سچی اطاعت کا اصل محرک ہے ، اور اسی کے ذریعے اللہ کی عِبادت ٹھیک راستے پر چلائی جا سکتی ہے ، پس جب کہیں یہ محبت غائب ہوتی ہے عبادت اپنی درست راہ سے ہٹ جاتی ہے ، کیونکہ سچی درست اور اِن شاء اللہ مقبول عبادت اللہ کی محبت اور اس کے لیے خشوع اور خضوع کے کمال پر مبنی ہوتی ہے ، اگر ان میں سے کوئی بھی صفت مفقود ہوجائے یا کمزور ہوجائے تو عبادت مطلوبہ معیار سے اُتر گئی اور اپنے ھدف سے دُور ہوجاتی ہے ، عبادت کا معیار اللہ کے ہاں قبولیت ہے اور اس کا ھدف اللہ کی رضامندی کا حصول ہے ،
پس اللہ کی محبت کے بغیر اللہ کی عبادت گویا کہ ایک ایسا جسم ہے جو لا شعوری حرکات کرتا رہتا ہے ، ایسی حرکات جن کا کچھ فائدہ نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات نقصان ہوتا ہے ،
اس لیے ہر اِیمان والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اِیمان کی تکمیل کے لیے اور اپنی عبادات کا حقیقی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ، اپنی دُنیا اور آخرت کی خیر اور فلاح حاصل کرنے کے لیے اپنے دِل و جاں میں اپنے اللہ کی محبت جگائے اور بڑھائے رکھے اور اللہ سے اپنے لیے محبت حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کرتا رہے ،
یاد رکھیے کہ محبت محض زُبانی دعوےسے ثابت نہیں ہوتی ، بلکہ اس دعوے کی سچائی کے ثبوت کے طور پر واضح نشانیوں اور گواہیوں والے مستقل اعمال کا ہونا ضروری ہے جن کی موجودگی یہ ثابت کرتی ہو کہ واقعتاً محبت کا دعویٰ کرنے والا زُبانی جمع خرچ کرنے والوں میں سے نہیں ،
اللہ سے محبت کرنے والوں کی ایک بڑی ہی واضح نشانی خود اللہ نے ہی بتا دی ، بلکہ اس محبت کے ثبوت کے طور پر اس کا موجود ہونا شرط قرار دیا ،
اور اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو یہ اعلان کرنے کا حکم فرمایا کہ
((((( قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ ::: (اے رسول) فرمایے کہ اگر تُم لوگ اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری تابع فرمانی کرو ، (اس کے بدلے میں ) اللہ تُم لوگوں سے محبت کرے گا اور تُمارے گناہ معاف کرے گا اور اللہ بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے)))))سُورت آل عمران(3) /آیت 31،
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اسکے ساتھ محبت کی موجودگی کی نشانی بتائی ہے ، بلکہ اس سے اپنے لیے محبت حاصل کرنے کا طریقہ بھی بتایا ہے ، اور وہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی ، اب جو کوئی خود کو یا کسی اور کو بہت ہی پکا سچا ایمان والا اور کچھ کا کچھ سمجھتا ہو لیکن کسی طور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی کی حدود سے باہر رہتاہو اس کے بارے میں اللہ سے محبت رکھنے والا ہونے کا ، یا اللہ کا محبوب یا ولی ہونے کا خیال رکھنا درست نہیں ،
پس زُبانی دعوے کی کوئی حیثیت نہیں ،اپنے دِل و جاں میں اللہ کی محبت پیدا کرنے اور اسے برقرار رکھنے اور اس میں مستقل بڑھاوا دینے کا ایک سب سے أہم اور بنیادی ترین طریقہ تو اللہ نے ہمیں اس مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں بتا دیا ، اس کے علاوہ اِمام ابن قیم الجوزیہ رحمہُ اللہ نے اس کے درج ذیل دس طریقے بیان کیے ہیں :::
::::::: (1) :::::: قران پاک کو ٹھیک سمجھ کے ساتھ پڑھنا ، یعنی اللہ کے فرامین کو اللہ کی مراد کے مطابق سمجھا جائے ، اور اس کا واحد طریقہ یہی ہے کہ کہ قران کریم کو اللہ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کی جماعت کے فہم کے مطابق سمجھا جائے نہ کہ اپنی عقل و فلسفے یا لغت کی قلا بازیوں کے مطابق،
::::::: (2) :::::: فرائض کی مکمل اور درست طور پر ادائیگی کے بعد سُنت مبارکہ کے عین مطابق نوافل کے ذریعے اللہ کا قُرب حاصل کرنے کے لیے محنت کرتے رہنا ، کیونکہ نوافل اِیمان والے کو محب کے درجے سے اونچا کر کے محبوب کے درجے میں پہنچانے والے اسباب میں سے ایک ہے ،
::::::: (3) :::::: دِل و دِماغ کی حاضری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ذِکر کو ہمیشگی کے ساتھ کرتے رہنا ، زُبانی ، قلبی اور جسمانی طور پر اللہ کے ذِکر میں مشغول رہنا ، پس یاد رہے کہ محب کو اس کی محبت کے مطابق ہی محبوب کی طرف سے محبت ملے گی ،
::::::: (4
) :::::: جب کسی اِیمان والے پر کسی خواہش کا ، کسی شوق کا غلبہ ہونے لگے تو اللہ کی پسند پر اپنی پسند کو قربان کرنا،خواہ اس کے لیے کتنی ہی مُشقت برداشت کرنا پڑے ،
::::::: (5) :::::: [QUOT
E]اللہ کے ناموں اور صفات کا دِل کی حاضری کے ساتھ مطالعہ کرنا ، اور قلبی ، روحانی اور ذہنی طور پر ان ناموں اور صفات کی معرفت حاصل کرنا اور ان کا مشاھدہ
کرتے رہنا، دِل کو اس معرفت کے باغ کی بہاروں سے معطر رکھنا ، کیونکہ جس نے اللہ کے ناموں اور صفات کو درست طور پر جان لیا تو یقیناً ا س نے اپنے دِل و جان میں اللہ کی محبت بسا لی ،[/QUOTE]
::::::: (6) :
::::: اللہ تبارک و تعالیٰ کی ظاہری اور باطنی نعمتوں اور احسانات کا قلبی و حسی مشاھدہ کرتے رہنا اور ان پر اللہ کی شکر گذاری کرتے رہنا ، کیونکہ ایسا کرنا بھی اللہ کی محبت کو جگانے کا مجرب ذریعہ ہے ،
::::::: (7) :::::: سب سے زیادہ مزے اور فائدے والا کام یہ ہے کہ اللہ کے حضور اپنے دِل و نفس کو بالکل ہی ، ہر لحاظ سے مکمل طور پر ذلیل کر کے رکھنا ، یہ ایسا کام ہے جس کی کیفیت اس کا عامل جان ہی سکتا ہے اِسے اِلفاظ اور عبارات میں تعبیر کرنا تقریباً نا ممکن ہے،
::::::: (8) :::::: اللہ کے (آسمانء زمین پر) نازل ہونے کے وقت میں اس کے ساتھ تنہائی اختیار کرنا اور اس تنہائی میں اس کے ساتھ مناجات کرنا ، اس کے کلام کی تلاوت کرنا ، اور دِل کی اتھاہ گہرائیوں سے اس کے لیے ادب لیے ہوئے اپنے نفس کو اس کے سامنے ذلیل کرتے ہوئے اس کے دربار میں کھڑے ہونا ، اور پھر اس حاضری کو توبہ اور استغفار کے ساتھ ختم کرنا ،
::::::: (9) :::::: (اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم سے ) سچی اور خالص محبت کرنے والوں کی مجلس میں رہنا ، اور ان کی باتوں پھلوں میں بہترین اور پاکیزہ ترین پھلوں کو چنتے رہنا اور اس وقت تک ان کی بات میں بولنا نہیں جب تک کہ آپ کا بولنا آپ کے لیے مزید خیر کا اور دوسروں کے فائدے کا یقینی سبب نہ ہو ،
::::::: (10) :::::: ہر ایسے فعل اور عمل سے دُور رہنا جو بندے کے دِل اور اللہ کے درمیان حائل ہو جاتا ہے ۔
(امام ابن القیم الجوزیہ رحمہُ اللہ کی مدارج السالکین بین المنازل اِیّاک نعبدُ و اِیّاک نستعین ، سے ماخوذ )
یہ بھی یاد رکھیے کہ یہاں ہم نے دو طرح کی محبت کی بات کی ہے، بندے کی اپنے اللہ کے لیے محبت،جو کہ محبت کا پہلا ابتدائی درجہ ہے ، اور اللہ کی اپنے بندے کے لیے محبت جو کہ محبت کا اعلیٰ ترین درجہ ہے ،
پس پہلے درجے کی محبت کا حصول اعلی درجے کی محبت کے حصول کے لیے لازمی ہے ، اور اس کا حصول جانفشانی کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مکمل اطاعت کے ذریعے ہی ممکن ہے ، یہ جو اسباب بیان کیے گئے یہ سب اسی کے ضمن میں آتے ہیں ، ان کو اپنے طور پر کچھ اور مفاہیم میں سمجھ کر کچھ اور اطوار میں اپنا کر اللہ کی محبت حاصل ہونے والی نہیں ، نہ ہی پہلے درجے کی اور نہ ہی اعلیٰ ترین درجے کی ۔
اگر آپ یا میں یا کوئی اور اللہ سے محبت کرنے کا دعویٰ یا خیال رکھتا ہے تو اس میں خوش ہونے یا فخر کرنے والی کوئی بات نہیں کیونکہ اصل خوشی اور فخر والی بات یہ کہ اللہ ہم سے محبت کرے ۔ و السلام علیکم۔ [/QUO
لنک
 
Top