• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام خطیب بغدادی اور نشہ ؟؟

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
20182 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته۔۔۔۔۔۔
بھائی یہ بطور الزام پیش کیا گیا تھا۔ جسطرح ابن طاھر المقدسی نے علامہ خطیب کے بارے حافظے کی جرح کی۔ (جسمیں ابن طاھر منفرد بھی ھیں)۔
تو اسی طرح بلکل یہی جرح بلکہ اسے تھوڑی اوپر کی کرح ابن طاجر المقدسی پر بھی ہوئی وہ ھے۔
۔
٧٧١٠ - محمد بن طاهر المقدسي الحافظ.
ليس بالقوى، فإنه له أوهام كثيرة في تواليفه.
وقال ابن ناصر: كان لحنة، وكان يصحف.
وقال ابن عساكر: جمع أطراف الكتب الستة، فرأيته بخطه، وقد أخطأ فيه في مواضع خطأ فاحشا.
قلت: وله انحراف عن السنة إلى تصوف غير مرضى، وهو في نفسه صدوق لم يتهم
[میزان الاعتدال۔۔۔۔۔۔]

اب جس شخص پر خود ہی ایسی جروحات ھوں۔ تو ایسے شخص کی بات کیونکر قبول ھو۔ جبکہ وہ اپنی بات میں منفرد بھی ھو۔
رہے علامہ خطیب بغدادی، تو اہل سنت کہلوانے دعویدار۔ تمام گروہ، علامہ خطیب کی تقاھت پر جمع ھیں۔ سوائے کوثری پارٹی کے، اور پاک انڈیا کے حنفیہ میں سے کچھ سرپھروں کے،۔
تو انہی سرپھروں کو بطور الزام ابن طاھر مقدسی پر جرح دکھائی تھی۔ اور جرح یہ قسم انہی سرپھروں کے نزدیک جرح مفسر بھی ہے۔ اور ایسے راوی کی رعایت سے احتجاج بھی درست نہیں (انہی سرپھروں کے اصول کے مطابق)۔
۔۔۔۔۔۔۔
آپ بھی محمد بن طاھر المقدسی کی تعدیل پیش کر رھے ھیں۔ تو عرض ھے کہ وہ تو وہیں لکھا ھوا ھے کہ وہ فی نفسہ صدوق ہی ہیں۔ اور ہم بھی تسلیم کرتے ہیں ۔ ہم نے انکار کیا ہی کب؟
یہ سب تو بطور الزام پیش ھے۔ اور چونکہ آپ کو اصل بحث کا علم نہیں۔ (جو کسی دوسرے فورم پر جاری ھے) اسی لیئے آپ اس طرح کی بات کر گئے۔۔
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ابن طاہر مقدسی پر جرح جتنی ہے اتنی ہی تعدیل بھی ہے اور حافظہ تو ان کا مشہور ہے۔ جرح و تعدیل کے اقوال بھی ان سے لیے جاتے ہیں۔ لیکن جہاں تک بات ہے ان کی خطیب کے بارے میں کی گئی بات کی تو علم جرح و تعدیل کی ہر بات کو گہرائی سے دیکھنا چاہیے۔
1۔ انہوں نے کہا ہے کہ خطیب پر نبیذ پینے کی تہمت تھی۔ نبیذ شراب نہیں ہوتی نہ ہی اس کا پینا مطلقاً ممنوع ہے۔ نبی کریم ﷺ سے مسلم کی روایات میں نبیذ کا استعمال ثابت ہے۔ البتہ آپ ﷺ نے تین دن سے زیادہ وقت کے بعد پینے، ایک سے زیادہ چیزوں کی بنائی ہوئی نبیذپینے اور نشہ آور نبیذ پینے سے منع فرمایا ہے۔ اس لیے فقہاء میں اس بات میں اختلاف ہے کہ نبیذ طاقت کے لیے یا دوا کے طور پر استعمال کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ جس چیز میں فقہی اختلاف ہو وہ مذمت یا جرح نہیں ہوتی۔ خود ابن طاہر مقدسی پر بھی تو اباحت کا الزام ہے جس کا علامہ ذہبیؒ نے اسی حوالے سے دفاع کیا ہے۔
2۔ انہوں نے کہا کہ" میں خطیب سے ملا تو ان کا چہرہ متغیر تھا۔ لوگوں نے کہا کہ آپ نے خطیب کو نشے کی حالت میں دیکھا ہے؟ میں نے کہا کہ میں ان سے ملا ہوں تو ان کی حالت عجیب تھی، لیکن مجھے یہ نہیں پتا چلا کہ وہ نشے میں ہیں۔" یہ سرے سے جرح ہی نہیں ہے۔ خود ابن طاہر بتا رہے ہیں کہ مجھے یہ نہیں پتا چلا کہ وہ نشے میں ہیں۔ پھر اگر خطیب نشے میں تھے تب بھی یہ کیفیت کم خوابی کی وجہ سے بھی ہوتی ہے، بیماری کی وجہ سے بھی، ادویہ کے استعمال کی وجہ سے بھی اور نبیذ پینے میں غلطی کر جانے کی وجہ سے بھی۔ یہ حالت کبھی کبھار کی ہے، خطیب ہر وقت نشے میں غرق نہیں رہتے تھے۔ اور اس حالت میں انسان کو گناہ نہیں ہوتا تو یہ جرح کیسے ہو سکتی ہے۔
یہی معاملہ خود ابن طاہر کے ساتھ ہوا ہے کہ ان پر ایسی باتوں سے جرح کی گئی ہے جو جرح نہیں بنتیں یا ان کے مقابلے میں مضبوط تعدیل موجود ہے۔ اس لیے جرح و تعدیل کے اقوال کی گہرائی میں جانا چاہیے۔
ایک شخص جو بڑا عالم ہے، متقی شخص ہے، فن حدیث کا امام ہے، فقہ شافعی کا مضبوط ستون ہے، اصول افتاء کی بنیادیں رکھنے والوں میں سے ہے، متقدمین اور متاخرین کے درمیان فاصلہ سمجھا جاتا ہے (خطیب بغدادی صرف علم حدیث میں ہی معروف نہیں ہیں بلکہ بہت اعلی پائے کے شخص ہیں) اس پر ایسی باتوں سے جرح کرنے کی کوئی تک ہی نہیں ہے۔ ایسی باتیں ہر کسی میں ڈھونڈی جا سکتی ہیں حتی کہ "خلافیت و ملوکیت" کے نام پر صحابہ کرام کو بھی مطعون کیا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے سب انسان ہیں۔ پھر دین اسلام کو لپیٹ کر قرن اول تک محدود کر دینا چاہیے۔

آپ چاہیں تو میری بات وہاں نقل کر سکتی ہیں۔
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
ابن طاہر مقدسی پر جرح جتنی ہے اتنی ہی تعدیل بھی ہے اور حافظہ تو ان کا مشہور ہے۔ جرح و تعدیل کے اقوال بھی ان سے لیے جاتے ہیں۔
.
السلام علیکم بھائی ۔۔۔ !!
اور تو یخطی، له اوھام جیسی جروحات ، علامہ سرفراز صفدر ، اور کوثری کے ہاں جرح مفسر ھیں۔ ایسے راوی کی روایت مقبول نہیں (الا یہ کہ جہاں اپنا مطلب ھو کوثری و علامہ صفدر کا) تو جب ایسے راوی کی روایت ہی مقبول نہیں، عند الحنفیہ تو جرح کیونکر مقبول ھوگی جو خطا فاحش کا مرتکب رہا ھو۔ اور جو له اوھام کی زد میں ھو۔۔۔۔

بحرحال
اسی طرح علامہ خطیب پر بھی فقط ابن طاھر المقدسی کی جرح ھے جو حافظے سے متعلق ھے۔ جس میں ابن طاہر منفرد ھیں۔ کیونکہ دیگر ہم عصر اور بعد والے بھی علامہ خطیب کے حافظے کے معترف ھیں۔ یہاں تک کے خود احناف بھی معترف ھیں۔ (کوثری سے پہلے کے بھی اور بعد کے بھی)۔
۔
ہم اتنا ہی کہیں گے کہ۔
اسی طرح علامہ خطیب کی جس قدر تعدیل موجود ھے اتنی جرح ھے ہی نہیں۔ اور پھر جارح جو ھے۔ وہ اصولِ حنفیہ کی رو سے متروک ھے۔
انہوں نے کہا ہے کہ خطیب پر نبیذ پینے کی تہمت تھی۔
ایسا علامہ ابن طاھر نے نہیں کہا۔ بلکہ عبد العزیز بن محمد النخشبی نے کہا ھے ، اور جن کے توسط سے کہا گیا ھے۔ وہ مجھول الحال ھیں۔ کہ وہ لوگ کون تھے۔
 
شمولیت
جون 06، 2017
پیغامات
240
ری ایکشن اسکور
27
پوائنٹ
40
خطیب ہر وقت نشے میں غرق نہیں رہتے تھے۔ اور اس حالت میں انسان کو گناہ نہیں ہوتا تو یہ جرح کیسے ہو سکتی ہے
اس سے میں متفق نہیں۔
اور نبیذ کے بارے میں کچھ نہیں جانتی ،
باقی آپ کی بات سے اتفاق ھے مجھے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم بھائی ۔۔۔ !!
اور تو یخطی، له اوھام جیسی جروحات ، علامہ سرفراز صفدر ، اور کوثری کے ہاں جرح مفسر ھیں۔ ایسے راوی کی روایت مقبول نہیں (الا یہ کہ جہاں اپنا مطلب ھو کوثری و علامہ صفدر کا) تو جب ایسے راوی کی روایت ہی مقبول نہیں، عند الحنفیہ تو جرح کیونکر مقبول ھوگی جو خطا فاحش کا مرتکب رہا ھو۔ اور جو له اوھام کی زد میں ھو۔۔۔۔
وعلیکم السلام بہنا!
ان پر ہونے والی جرح اور تعدیل دونوں لکھ دیتا ہوں:
ذم:
ليس بالقوي فإنه له أوهام كثيرة في تواليفه. (لسان)
وقال ابن ناصر: كان لحنة وكان يصحف. (لسان)
وقال ابن عساكر: جمع أطراف الكتب الستة فرأيته بخطه وقد أخطأ فيه في مواضع خطأ فاحشا. (لسان)
قلت: وله انحراف عن السنة إلى تصوف غير مرضي (لسان)
قال ياقوت في معجم الأدباء في ترجمة علي بن فضال المجاشعي: كان ابن طاهر وقاعا في من ينتسب إلى مذهب الشافعي لأنه كان حنبليا (لسان)
قال الدقاق في رسالته: كان ابن طاهر صوفيا ملامتيا له أدنى معرفة بالحديث في باب الشيخين (لسان)
وقال ابن ناصر: محمد بن طاهر لا يحتج به صنف كتابا في جواز النظر إلى المرد وكان يذهب مذهب الإباحة وكان لحنة مصحفا. (لسان)
وقال السمعاني: سألت إسماعيل بن محمد الحافظ عنه فأساء الثناء عليه. (لسان)
وقال السلفي: كان فاضلا يعرف ولكنه كان لحنة (لسان)
وقال ابن ناصر: محمد بن طاهر لا يحتج به (لسان)
وقال ابن ناصر: محمد بْن طاهر ممّن لَا يُحْتَجّ بِهِ، صنَّف كتابًا في جواز النظر إلى المرد، وأورد فيه حكاية يحيى بْن مَعِين أنّه قَالَ: رَأَيْت جارية بمصر مليحة صلّي الله عَليْهَا. فقيل لَهُ: تُصلّي عليها؟! فقال: صلّى الله عليها وعلى كلّ مليح. ثمّ قَالَ ابن ناصر: كان يذهب مذهب الإباحة، قلت: يعني في النَّظَر إلى المِلاح (تاریخ الاسلام)
وقال ابن السّمعانيّ: سألت عَنْهُ إسماعيل الحافظ، فتوقّف، ثمّ أساء الثّناء عَليْهِ، (تاریخ الاسلام)
وقال ابن ناصر: محمد بْن طاهر كَانَ لُحَنة وكان يصحّف (تاریخ الاسلام)
وقال السّلَفيّ: كَانَ فاضلًا يعرف، ولكنه كان لُحَنة، (تاریخ الاسلام)
وقال ابن عساكر: كَانَ ابن طاهر لَهُ مصنَّفات كثيرة، إلّا أنّه كثير الوهْم (تاریخ الاسلام)
حافظ، له أوهام، قال ابن ناصر: كان لحنة مصحفاً، وقال ابن عساكر: جمع أطراف الكتب الستة، وأثبته بخطه، أخطأ فيه في مواضع خطأ فاحشاً. (دیوان الضعفاء)

مدح:
وهو في نفسه صدوق لم يتهم وله حفظ ورحلة واسعة. (لسان)
قال ابن عساكر: سمعت إسماعيل بن محمد التيمي يقول: أحفظ من رأيت ابن طاهر. (لسان)
وقال يحيى بن منده: كان أحد الحفاظ جميل الطريقة صدوقا عالما بالصحيح والسقيم كثير التصانيف. (لسان)
فإن ابن طاهر ما كان حنبليا بل هذه صفة ابن ناصر لأنه كان شافعيا ثم تحنبل وتعصب. فلعل ياقوت انتقل ذهنه من ابن ناصر لابن طاهر , وفي الكلام ما يؤخذ منه كون ياقوت شافعيا. (لسان)
وقال ابن عساكر: له شعر حسن مع أنه كان لا يعرف النحو. (لسان)
وقال شيرويه: كان ثقة صدوقا حافظا عالما بالصحيح والسقيم حسن المعرفة بالرجال والمتون كثير التصانيف جيد الخط لازما للطريقة بعيدا من الفضول والتعصب خفيف الروح قوي العمل في السر كثير الحج والعمرة. (لسان)
قال أبو القاسم ابن عساكر: سمعتُ إسماعيل بْن محمد بْن الْفَضْلُ الحافظ يَقُولُ: أحفظ مِن رَأَيْت محمد بْن طاهر. (تاریخ الاسلام)
وقال يحيى بْن مَنْدَهْ في تاريخه: كَانَ أحد الحُفّاظ، حسن الاعتقاد، جميل الطّريقة، صدوقًا، عالمًا بالصّحيح والسّقيم، كثير التّصانيف، لازمًا للأثَر. (تاریخ الاسلام)
وقال شِيرَوَيْه في " تاريخ هَمَذَان ": محمد بْن طاهر سكن هَمَذَان، وبنى بها دارًا، وكان ثقة، صدوقًا، حافظًا، عالمًا بالصّحيح والسّقيم، حسن المعرفة بالرجال والمُتُون، كثير التّصانيف، جيّد الخطّ، لازمًا للأثر، بعيدًا مِن الفُضول والتّعصُّب، خفيف الرّوح، قويّ السَّير في السَّفَر، كثير الحجّ والعُمْرة، كتب عَنْ عامّة مشايخ الوقت. (تاریخ الاسلام)
قال الذهبي : ذو الرحلة الواسعة، والتصانيف والتعاليق، عاش ستين سنة، وسمع ببيت المقدس أولاً من ابن وَرْقاء، وببغداد من أبي محمد الصريفيني، وبنيسابور من الفضل بن المحب، وبهراة من بيبي، وبأصبهان وشيراز والري ودمشق ومصر من هذه الطبقة، وكان من أسرع الناس كتابةً، وأذكاهم، وأعرفهم بالحديث، والله يرحمه ويسامحه.(الثقات لابن قطلوبغا)
الإِمَامُ، الحَافِظُ، الجَوَّال، الرّحَالُ، ذُو التَّصَانِيْفِ، أَبُو الفَضْلِ بنُ أَبِي الحُسَيْنِ بن القَيْسَرَانِيِّ المَقْدِسِيُّ، الأَثرِيُّ، الظَّاهِرِي، الصُّوْفِيّ. (سیر الاعلام)
وَقَالَ أَبُو زَكَرِيَّا يَحْيَى بن مَنْدَه: كَانَ ابْنُ طَاهِر أَحَدَ الحُفَّاظِ، حسنَ الاعتقَاد، جَمِيْلَ الطّرِيقَة، صَدُوْقاً، عَالِماً بِالصَّحِيح وَالسَّقيم، كَثِيْرَ التَّصَانِيْف، لاَزماً لِلأَثر. (سیر الاعلام)
وَبِهِ، قَالَ السَّمْعَانِيّ: وَسَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ السَّاوِي يَقُوْلُ: كُنْتُ بِالمَدِيْنَةِ مَعَ ابْنِ طَاهِرٍ، فَقَالَ: لاَ أَعْرِفُ أَحَداً أَعْلَم بِنَسَبِ هَذَا السَّيِّد - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِنِّي، وَآثَارِهِ وَأَحْوَالِهِ. (سیر الاعلام)
وكان من المشهورين بالحفظ والمعرفة بعلوم الحديث (التاج المکلل)

ان میں کچھ جملوں میں تکرار ہو گئی ہے اس لیے میں تمام کے موضوعات کو الگ الگ کر دیتا ہوں:
جرح:
وہم
لحنۃ (اٹکنا)
تصحیف (آگے پیچھے کر دینا)
خطا
ناپسندیدہ تصوف
شوافع سے لڑائی و حسد
اسائۃ الثناء (ان کی برائی بیان کی گئی ہے)
لا یحتج بہ
کثیر الوہم

مدح:
صدوق لم یتھم (یعنی جھوٹ کی تہمت نہیں لگتی)
حفظ
رحلۃ واسعۃ (طویل سفر)
جمیل الطریقۃ (اچھے طرز عمل والے)
عالم بالصحیح و السقیم (صحیح اور غلط روایات کے جاننے والے)
شعر حسن (عمدہ اشعار)
ثقہ
حسن المعرفۃ بالرجال و المتون
لازم للاثر (حدیث کو لازم پکڑنے والے)
بعید من الفضول و التعصب (فالتو کاموں اور تعصب سے دور)
الاعرف بالحدیث (حدیث کو زیادہ جاننے والے)
الامام
الاعرف بنسب رسول اللہ ﷺ و آثارہ و احوالہ

ان میں سے ہر جرح یا ہر تعدیل لائق اعتبار نہیں ہے۔ میں ان پر الگ الگ کلام کرتا ہوں ان شاء اللہ۔ لیکن آپ یہ دیکھ لیں کہ جروحات کس مرتبے کی ہیں اور تعدیل کس مرتبے کی۔

حرحال
اسی طرح علامہ خطیب پر بھی فقط ابن طاھر المقدسی کی جرح ھے جو حافظے سے متعلق ھے۔ جس میں ابن طاہر منفرد ھیں۔ کیونکہ دیگر ہم عصر اور بعد والے بھی علامہ خطیب کے حافظے کے معترف ھیں۔ یہاں تک کے خود احناف بھی معترف ھیں۔ (کوثری سے پہلے کے بھی اور بعد کے بھی)۔
۔
ہم اتنا ہی کہیں گے کہ۔
اسی طرح علامہ خطیب کی جس قدر تعدیل موجود ھے اتنی جرح ھے ہی نہیں۔ اور پھر جارح جو ھے۔ وہ اصولِ حنفیہ کی رو سے متروک ھے۔
مجھے نہیں معلوم کہ آپ اصول حنفیہ کس کو کہتی ہیں اور کہاں سے لیتی ہیں؟ اور جب یہ کہتی ہیں تو کیا آپ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اصول حنفیہ کی رو سے تو متروک ہے لیکن اصول اہل حدیث کی رو سے درست ہے؟ اگر یہ مطلب ہوتا ہے تو آپ پر تو اپنے اصولوں کی پیروی کرنا لازم ہے نہ کہ حنفیہ کے۔
بہرحال خطیبؒ کے بارے میں جرح واقعی قابل اعتبار نہیں ہے۔

ایسا علامہ ابن طاھر نے نہیں کہا۔ بلکہ عبد العزیز بن محمد النخشبی نے کہا ھے ، اور جن کے توسط سے کہا گیا ھے۔ وہ مجھول الحال ھیں۔ کہ وہ لوگ کون تھے۔
یہ مطلب وہی شخص نکال سکتا ہے جو عرب کے کلام اور محاوروں سے ناواقف ہو۔ عرب اس وقت بھی فاعل کو مجہول کرتے ہیں جب کی جانے والی بات بہت معروف ہو۔
قرآن کریم میں ہے: وقالت الیہود عزیر ابن اللہ ۔۔۔الخ
کیا یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ مجہول ہے کہ یہود کے کون لوگ یہ بات کہتے تھے؟ اور اس مجہول ہونے کی وجہ سے یہاں ان (یہود) کے خلاف دلیل نہیں بنتی؟
اسی طرح "قالوا کونوا ہودا او نصاری تہتدوا" اور دوسرے بے شمار جملے ہیں۔ قرآن کریم کو کائنات کی سب سے فصیح و بلیغ کتاب کہا جاتا ہے تو اس میں ایسے جملے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان جملوں کا کوئی فائدہ ہوتا ہے۔
اس لیے اس طرح کے مجہول جملوں کے سیاق و سباق اور ماحول دونوں پر غور کرنا پڑتا ہے۔

اس سے میں متفق نہیں۔
میں کیا کہہ سکتا ہوں۔
 
Top