محمد عثمان رشید
رکن
- شمولیت
- ستمبر 06، 2017
- پیغامات
- 96
- ری ایکشن اسکور
- 7
- پوائنٹ
- 65
حافظ ذهبی نے تذکرۃ میں جو ذکر کیا هے که ابن اسحاق سے حلال اور حرام احتجاج نهیں کیا جائے. اسکی روایات درجه صحت سے گری هوئی هیں.
تو خود علامه ذهبی نے کثیر تعداد میں ابن اسحاق کی توثیق کی هے بلکه اسکی روایات کو حسن صحیح بهی کها هے.
.
علامه ذهبی کاشف ج ۳ ص ۱۹ پر کهتے هیں:
"کان صدوقا من بحور العلم وله غرائب فی سعه ما روی تستنکر واختلف فی الاحتجاج به وحدیثه حسن وقد صححه جماعه."
.
پهر علامه ذهبی العبر ج ۱ ص ۲۱۶ میں کهتے هیں:
"وکان بحرا من بحور العلم ذکیا حافظا طلابا لعلم اخباریا نسابه علامه قال شعبه هو امیر المومنین فی الحدیث وقال ابن معین هو ثقه ولیس بحجه وقال احمد هو حسن الحدیث."
.
ابن معین کے اقوال محمد بن اسحاق کے متعلق تو وه میں نے ایک الگ جگه جمع کردئیں هیں
پهر حافظ ذهبی المغنی میں کهتے هیں:
"احد الاعلام صدوق قوی الحدیث."
(المغنی ج ۲ ص ۵۵۲.)
پهر دوسری کتاب میں کهتے هیں:
"ثقه ان شاءالله صدوق احتج به خلق من الائمه لاسیما فی المغازی قال شعبه صدوق وقال احمد حسن الحدیث."
(دیوان الضعفاء ص ۲۶۵.)
نیز حافظ ذهبی ایک اور جگه لکھتے هیں:
"قال الذهبی فاعلی مراتبه (ای الحسن) بهز بن حکیم عن ابیه عن جده وعمرو بن شعیبه عن ابیه عن جده وابن اسحاق عن التمیمی وامثال ذلک مما قیل ابه صحیح."
(الموقظه فی علم مصطلح الحدیث ص ۳۲, ۳۳.)
مزید لکهتے هیں که مذکوره بالاه اسناد کو بهت سے حفاظ نے صحیح بتایا هے اور اسے مراتب صحیح کے ادنی درجه میں شمار کرتے هیں.
نیز السیر اعلام النبلاء میں لکهتے هیں:
"فاما فی الاحکام فینحط حدیثه فیھا عن رتبه الصحه الی رتبه الحسن الا فیما شذ فیه فانه یعد منکرا هذا الذی عندی فی حاله."
کے احکام میں اسکی حدیث صحت کے درجه سے کم حسن درجه کی هے. الایه که اس میں شذوذ هو وه منکر شمار هو گی میرے نزدیک اسکا حال یه هے.
.
حافظ ذهبی نے اپنا خود کا فیصله جو ابن اسحاق کے متعلق تها بیان کردیا.
باقی رها جو تذکره میں ذهبی کا کلام هے تو اس بات کو اس پر محمول کیا جائے گا که جهاں ابن اسحاق کی روایات شذوذ ومنکر هو وهاں احتجاج نهیں هو گا اور اسکی روایت صحت تک نهیں جاتی.
.
مزید تسلی کے لئے عرض هے که "من تکلم فیه وهو موثق"
میں علامه ذهبی ابن اسحاق کو صدوق بتائیں هیں.
اور میزان ج ۳ ص ۲۶۹, ۲۶۸, میں احد الائمه الاعلام اور صالح الحدیث قرار دیتے هیں.
.
نیز علامه ذهبی نے ابن اسحاق کی ایک روایت کی سند کو "اسناده صالح" بتایا
( احادیث المختارۃ للذهبی ح ۹۹, ص ۱۵۰.)
مزید عرض هے که علامه ذهبی نے کتاب العرش حدیث ۱۹ پر اسحاق کی روایت کی سند کو حسن بتایا.
پهر اسهی کتاب کی حدیث ۱۱۳ پر ابن اسحاق کی روایت کو ابوداود اور نسائی کی شرط پر قرار دیا.
دیکھے که جو روایت عقائد میں هیں انکی متعلق بهی علامه ذهبی تصحیح کرتے نظر آتے هیں. فتدبر.!
کهاں هیں وه لوگ جو کهتے هیں که علامه ذهبی ابن اسحاق کو حجت نهیں سمجھتے.!
یه هی وجه هے نه که عبدالحئ لکھنوی کهتے هیں که جنهوں نے توثیق کو راجح کها هے ان میں حافظ ذهبی بهی شامل هیں.
(السعایه ج ۱ ص ۳۷۲.)
.
رها جواب جرح کا تو هم اسکا جواب پیش کر چکے هیں که اس سے مراد یه هے که جهاں شاذومنکر روایات هو وهاں احتجاج نهیں هو گا اسکی روایت صحت کے درجه کو نهیں جائے گی چاهے حلال هو یا حرام هو.
اسطرح تطبیق دی جاسکتی هے.
اسکے باوجود بهی کوئی صاحب ضدی هو تو اسکے لئے عرض هے که احناف کا اصول هے جب ایک هی جهت سے, یعنی ایک هی محدث سے جرح تعدیل میں اختلاف هو تو ایسی صورت میں ترجیح تعدیل کو هو گی.
دیکھے
(انهاء السکن از احمد تهانوی ص ۱۰۵, قواعد علوم الحدیث ص ۲۶۵, ابوغده حنفی.)
تو خود علامه ذهبی نے کثیر تعداد میں ابن اسحاق کی توثیق کی هے بلکه اسکی روایات کو حسن صحیح بهی کها هے.
.
علامه ذهبی کاشف ج ۳ ص ۱۹ پر کهتے هیں:
"کان صدوقا من بحور العلم وله غرائب فی سعه ما روی تستنکر واختلف فی الاحتجاج به وحدیثه حسن وقد صححه جماعه."
.
پهر علامه ذهبی العبر ج ۱ ص ۲۱۶ میں کهتے هیں:
"وکان بحرا من بحور العلم ذکیا حافظا طلابا لعلم اخباریا نسابه علامه قال شعبه هو امیر المومنین فی الحدیث وقال ابن معین هو ثقه ولیس بحجه وقال احمد هو حسن الحدیث."
.
ابن معین کے اقوال محمد بن اسحاق کے متعلق تو وه میں نے ایک الگ جگه جمع کردئیں هیں
پهر حافظ ذهبی المغنی میں کهتے هیں:
"احد الاعلام صدوق قوی الحدیث."
(المغنی ج ۲ ص ۵۵۲.)
پهر دوسری کتاب میں کهتے هیں:
"ثقه ان شاءالله صدوق احتج به خلق من الائمه لاسیما فی المغازی قال شعبه صدوق وقال احمد حسن الحدیث."
(دیوان الضعفاء ص ۲۶۵.)
نیز حافظ ذهبی ایک اور جگه لکھتے هیں:
"قال الذهبی فاعلی مراتبه (ای الحسن) بهز بن حکیم عن ابیه عن جده وعمرو بن شعیبه عن ابیه عن جده وابن اسحاق عن التمیمی وامثال ذلک مما قیل ابه صحیح."
(الموقظه فی علم مصطلح الحدیث ص ۳۲, ۳۳.)
مزید لکهتے هیں که مذکوره بالاه اسناد کو بهت سے حفاظ نے صحیح بتایا هے اور اسے مراتب صحیح کے ادنی درجه میں شمار کرتے هیں.
نیز السیر اعلام النبلاء میں لکهتے هیں:
"فاما فی الاحکام فینحط حدیثه فیھا عن رتبه الصحه الی رتبه الحسن الا فیما شذ فیه فانه یعد منکرا هذا الذی عندی فی حاله."
کے احکام میں اسکی حدیث صحت کے درجه سے کم حسن درجه کی هے. الایه که اس میں شذوذ هو وه منکر شمار هو گی میرے نزدیک اسکا حال یه هے.
.
حافظ ذهبی نے اپنا خود کا فیصله جو ابن اسحاق کے متعلق تها بیان کردیا.
باقی رها جو تذکره میں ذهبی کا کلام هے تو اس بات کو اس پر محمول کیا جائے گا که جهاں ابن اسحاق کی روایات شذوذ ومنکر هو وهاں احتجاج نهیں هو گا اور اسکی روایت صحت تک نهیں جاتی.
.
مزید تسلی کے لئے عرض هے که "من تکلم فیه وهو موثق"
میں علامه ذهبی ابن اسحاق کو صدوق بتائیں هیں.
اور میزان ج ۳ ص ۲۶۹, ۲۶۸, میں احد الائمه الاعلام اور صالح الحدیث قرار دیتے هیں.
.
نیز علامه ذهبی نے ابن اسحاق کی ایک روایت کی سند کو "اسناده صالح" بتایا
( احادیث المختارۃ للذهبی ح ۹۹, ص ۱۵۰.)
مزید عرض هے که علامه ذهبی نے کتاب العرش حدیث ۱۹ پر اسحاق کی روایت کی سند کو حسن بتایا.
پهر اسهی کتاب کی حدیث ۱۱۳ پر ابن اسحاق کی روایت کو ابوداود اور نسائی کی شرط پر قرار دیا.
دیکھے که جو روایت عقائد میں هیں انکی متعلق بهی علامه ذهبی تصحیح کرتے نظر آتے هیں. فتدبر.!
کهاں هیں وه لوگ جو کهتے هیں که علامه ذهبی ابن اسحاق کو حجت نهیں سمجھتے.!
یه هی وجه هے نه که عبدالحئ لکھنوی کهتے هیں که جنهوں نے توثیق کو راجح کها هے ان میں حافظ ذهبی بهی شامل هیں.
(السعایه ج ۱ ص ۳۷۲.)
.
رها جواب جرح کا تو هم اسکا جواب پیش کر چکے هیں که اس سے مراد یه هے که جهاں شاذومنکر روایات هو وهاں احتجاج نهیں هو گا اسکی روایت صحت کے درجه کو نهیں جائے گی چاهے حلال هو یا حرام هو.
اسطرح تطبیق دی جاسکتی هے.
اسکے باوجود بهی کوئی صاحب ضدی هو تو اسکے لئے عرض هے که احناف کا اصول هے جب ایک هی جهت سے, یعنی ایک هی محدث سے جرح تعدیل میں اختلاف هو تو ایسی صورت میں ترجیح تعدیل کو هو گی.
دیکھے
(انهاء السکن از احمد تهانوی ص ۱۰۵, قواعد علوم الحدیث ص ۲۶۵, ابوغده حنفی.)