• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

امام کعبہ کا دورہ پاکستان … ایک مفصل تحریر

شمولیت
دسمبر 09، 2013
پیغامات
68
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
37
ڈاکٹر حافظ عبدالکریم (ایم این اے) ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیۃ

امام کعبہ شیخ خالد الغامدی پاکستان سے محبتیں سمیٹ کے واپس حرمین شریفین پہنچ گئے ہیں۔امام کعبہ کواہل پاکستان سے جو محبت اور پیار ملا اور جس طرح انکا فقید المثال اور پرتباک استقبال کیا گیا اسکی نظیر نہیں ملتی۔لاہورکے فرزندان توحید کی حالت تو اس شعر کے مصداق تھی کہ

دل محو انتظار ہے آنکھیں ہیں فرش راہ ، آو کبھی تو چاہنے والوں کے شہر میں

خالد بن علی بن عبدان الابلجی الغامدی حفظہ اللہ تعالی حرم مکی میں امام ہیں۔آپ کا تعلق سعودی عرب کے مغرب میں سرات نامی پہاڑی سلسلے کے غامد علاقے میں واقع قبیلۃ بنی خیثم کے الحبشی قصبے سے ہے۔

شیخ خالد الغامدی سن 1388 ہجری کو مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم مکہ مکرمہ میں حاصل کی، سال 1406 ہجری میں ام القری یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور دعوت واصول دین کالج کے شعبہ کتاب وسنت سے امتیازی درجے سے گریجویشن کیا اور 1416ہجری میں ام القری یونیورسٹی کے قرآن کریم کالج کے شعبہ قرآت سے ماسٹرکیا، سن 1421 ہجری میں شیخ خالد الغامدی نے ام القری یونیورسٹی کے مذکورہ کالج سے قرآتِ قرآن کریم اور قرآنی علوم پرڈاکٹریٹ کی، ڈاکٹریٹ کے لیے آپ نے تفسیرثعلبی پر تحقیقی مقالہ تحریر کیا۔شیخ خالد الغامدی کی غیرمعمولی صلاحیتوں اور گریجویشن کے امتحانات میں امتیازی درجات سے کامیابی پر ام القری یونیورسٹی کے ذمہ داران نے آپ کو دوران تعلیم ہی ام القری یونیورسٹی کے دعوت اور اصول دین کالج کے شعبہ قرآت میں لیکچرار کی حیثیت سے مقرر کردیا تھا۔تاہم آپ کا رسمی طور پرتقرر سن 1422 ہجری میں عمل آیا، اسی سال شیخ خالد شعبہ قرآت میں ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ کے عہدے پرفائز ہوئے اور اس شعبے میں دو برس تک خدمات سرانجام دیں۔

1423 ہجری میں وزیراسلامی امور اوردعوت وارشاد کے حکم پر شیخ خالد کو منی کی مسجد خیف میں رسمی طور پر امام مقرر کیا گیا، جبکہ سن 1426 سے آپ دعوت اور اصول دین کالج میں انڈرسیکریٹری کے منصب پر فائز ہیں۔

25 ذی قعدہ 1428 ہجری کا دن شیخ خالد الغامدی کی زندگی کا وہ موڑ ہے، جہاں سے انھیں دنیا بھر کے مسلمانوں کی امامت اور انھیں خطاب کرنے اور حرم مکی میں اپنی مسحور کن اور رقت آمیز آوازمیں تلاوت کلام پاک سے مستفید کرنے کا موقع ملا، اسی تاریخ کو خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود نے شیخ خالد بن علی الغامدی اور شیخ فیصل جمیل حسن غزاوی کے حرم مکی میں امام نامزد کیے جانے کا فرمان جاری کیا۔ اور شیخ خالد الغامدی نے 1429 ہجری کے آغاز سے حرم مکی میں باضابطہ امامت کے فرائض انجام دینا شروع کردیئے۔

شیخ خالد الغامدی حرم مکی میں امام وخطیب اور ام القری یونیورسٹی کے زیر انصرام کالج کے انڈرسیکریٹری کے عہدے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف تحقیقی، تدریسی اصلاحی، ادارتی کمیٹیوں کے رکن بھی ہیں۔ اسی طرح شیخ موصوف ام القری یونیورسٹی میں ماسٹراور ڈاکٹریٹ کے مقالات کے لیے گائڈ کے فرائض بھی انجام دیتے ہیں۔

حرمین شریفین کی سرزمین اسلام کا مرکز ہے، نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے مولد ومسکن اور مہبطِ وحی ہونے کے ناطے تمام مسلمان اس سرزمین سے خاص عقیدت رکھتے ہیں۔ حرمینِ شریفین میں اہم ترین حیثیت مسجد ِحرام کو حاصل ہے جس میں کعبہ مشرفہ کے نام سے اللہ تعالیٰ کا مبارک گھر ایستادہ ہے۔ ہرمسلمان اپنے دل میں اس گھر کی زیارت کی تڑپ محسوس کرتا ہے، اور اسی غرض سے ہر سال لاکھوں مسلمان مکہ مکرمہ کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔شیخ موصوف کی شخصیت میں عاجزی وانکساری، خشوع وخضوع، علم دوستی، اسلام سے والہانہ لگائو اور اْمت ِمسلمہ کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ کئی برس پر محیط آپ کی دعائوں میں آپ نے ہمیشہ اْمت ِمسلمہ کے زخمی جسد اورتکلیف میں مبتلا حصے کے دکھ درد میں جس طرح شرکت کی اور ان آلام ومصائب کے خاتمہ کے لئے ربّ ِکعبہ کے حضور گڑگڑا کر دعائیں مانگی ہیں، اْس نے آپ کو اْمت کے غم خوار وغم گسار اور دلی ہمدرد کا تعارف عطا کر دیا ہے۔ آپ کے لہجے میں رِقت اور للہیت کے ساتھ روح وقلب کی وہ پاکیزگی خوب جھلکتی ہے جو ایک بندئہ مومن بالخصوص حرمین کی امامت کی سعادت سے بہرہ مند ہونے والے مسلم قائد میں پائی جانا ضروری ہے۔علومِ اسلامیہ میں رسوخ کے ساتھ ساتھ زبان وبیان میں انتہادرجہ کی فصاحت و بلاغت سے بھی آپ کو حظ ِوافر نصیب ہوا ہے ۔ بزرگ علما سے علمی استفادہ، اکابر ِاسلام کی صحبت اور خداخوفی نے ان کی شخصیت میں ایک خاص حلاوت اور مٹھاس پیدا کردی ہے۔ آپ مغربی تہذیب و تمدن کے شدید ناقد اور قرآن وسنت کی بنیاد پر مسلمانوں کے اتحاد کے پرزور داعی ہیں۔ منہج سلیم سے آپ کی محبت اور کتاب وسنت سے آپ کا گہرا تعلق ہے۔مذکورہ بالا اَوصاف کا مشاہدہ ہر وہ شخص کرسکتا ہے جسے چند لمحے بھی آپ کے ساتھ گزارنے یا آپ کی تلاوت وخطبات اور دعائوں کو توجہ سے سننے کا موقع ملا ہو۔

حرمین کی تمام قابل ذکر شخصیات پاکستانی عوام کے اسلام سے والہانہ تعلق کی قدر دان ہیں، اسی وجہ سے حرمین شریفین کی خدمت کے لئے پاکستان سے سب سے زیادہ خدام منتخب کئے جاتے ہیں جو اس کام کو پیشہ وارانہ اَہداف سے قطع نظر خالص حرمین کی خدمت کے مقدس جذبے سے سرانجام دیتے ہیں۔ یوں بھی دنیا بھر میں پاکستانی عوام کو اسلام پر جان چھڑکنے والی اور متحرک وباصلاحیت قوم کے طور پر جانا جاتا ہے، اہل پاکستان کی اس والہانہ عقیدت کے باعث شیخ خالد الغامدی بھی اہالیانِ پاکستان سے گہری محبت رکھتے ہیں۔

گذشتہ ہفتے پاک سرزمین کو مسلم دنیا کے اس عظیم روحانی قائد اور امام کے ورودِ مسعود اور استقبال کی سعادت حاصل ہوئی۔ لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشل ائیر پورٹ پر اما م صاحب کا طیارہ اتراتو انکے استقبال کے لیے پروفیسر ساجد میر،حافظ طاہر اشرفی اور راقم الحروف بھی شامل تھا۔ اہلِ لاہور نے نہ صرف ان کا شایانِ شان استقبال کیا بلکہ ان کے ایک ایک لمحے سے بھرپور فائدہ اْٹھایا۔ لاہورمیں اپنے قیام کے آخری روز وہ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے مہمان تھے۔ مرکزی دفتر 106 راوی روڈ پہنچنے پر قائد اہل حدیث سینیٹر پروفیسر ساجد میرکی قیادت میں احباب نے امام صاحب کا پرتپاک استقبال کیا۔ وہاںانہوںنے نماز ظہر کی امامت کروائی، علماء کرام سے علمی نشست ہوئی، جماعتی عہدیداران سے تعارفی نشست ہوئی، مختلف شعبہ جات کے علاوہ پیغام ٹی وی چینل کا تفصیلی دورہ کیا۔پھر انہوں نے مقامی ہوٹل میں مرکزی جمعیت اہل حدیث کے زیراہتمام دفاع حرمین شریفین کانفرنس سے خطاب کیا جہاں ان کے استقبال کے لیے ہر مکتبہ فکر کی نمائندہ جید قیادت موجود تھی۔ جن میں جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ، جامعہ اشرفیہ کے مہتمم مولانا فضل الرحیم، علماء کونسل کے حافظ طاہر اشرفی،شیعہ رہنما علامہ حسین اکبر، پیر اعجاز ہاشمی، وفاقی وزراء خواجہ سعد رفیق، عابد شیر علی، جماعۃ الدعوۃ کے قاری یعقوب شیخ، مولانا امیر حمزہ اورقاری حنیف جالندھری شامل تھے۔

علماء سے علمی نشست اور دفاع حرمین کانفرنس سے اپنے خطاب میںامام کعبہ کا کہنا تھا کہ یمن میں جس طرح فتنہ فساد کو ابھارا گیا اس ظلم کو روکنے کے لئے جدوجہد کرنا ہمارا قانونی فریضہ بھی ہے اور دینی بھی ،یمن میں حوثی باغیوں کے مکہ مدینہ پر قبضے کے عزائم تھے۔یمن کی حکومت کی درخواست پرعرب ممالک نے فتنہ کو ختم کرنے کے لئے کارروائی کی۔امام کعبہ الشیخ خالد الغامد ی نے کہا کہ اہل پاکستان تم بہادر ہو۔ آپ جیسے دین سے چاہنے والوں کی ہرکوئی عزت کرتا ہے ،سعودی اور اتحادی افواج حرمین شریفین کے تحفظ اور فتنہ کو کچلنے کے لیے برسر پیکار ہیں اور یمن کی قانونی حکومت بحال کرکے دم لیں گے۔سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ خصوصی رشتہ ہے۔ حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے پاکستانی حکومت اور سیاسی جماعتوں کے مثبت کردار پر شکر گزار ہیں۔ یمن کے باغیوں نے حرمین شریفین پر قبضے کے عزائم ظاہر کیے ، سعودی عرب نے یمن کی قانونی حکومت کی مدد کی اور باغیوں کے ظالمانہ ہاتھوں کو روکا۔ امام کعبہ نے کہا کہ امت مسلمہ کا اتحاد وقت کی ناگزیر ضرورت ہے۔میر ی گزارش ہے امت مسلمہ وحدت و اتفاق سے دشمن کی ہرسازش ناکام بنادے۔

مکمل مضمون
http://www.ahlehadith.org/mazameen/imam-e-kaba-ka-daora-pakistan.html
 
Top