• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اولاد کے مابین عطیہ وہبہ میں بیٹے اور بیٹیوں کے ساتھ مساوات

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
اولاد کے مابین عطیہ وہبہ میں بیٹے اور بیٹیوں کے ساتھ مساوات

(کفایت اللہ سنابلی)​
✿ ✿ ✿
اگر ایک شخص اپنی حیات میں اپنی اولاد کو بطور تحفہ مال دینا چاہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ بغیر بیٹے اور بیٹی میں فرق کئے سب کو ایک جیسی چیز عطا کرکے۔
اس سلسلے میں حدیث بہت واضح اور صریح ہے چنانچہ:
❀ امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا:
”حدثنا حامد بن عمر، حدثنا أبو عوانة، عن حصين، عن عامر، قال: سمعت النعمان بن بشير رضي الله عنهما، وهو على المنبر يقول: أعطاني أبي عطية، فقالت عمرة بنت رواحة: لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأتى رسول الله ﷺ، فقال: إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية، فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله، قال: «أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟»، قال: لا، قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»، قال: فرجع فرد عطيته“
”عامرشعبی بیان کرتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ منبر پر بیان کر رہے تھے کہ میرے باپ نے مجھے ایک عطیہ دیا، تو عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا (نعمان کی والدہ) نے کہا کہ جب تک آپ رسول اللہ ﷺکو اس پر گواہ نہ بنائیں میں راضی نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ (حاضر خدمت ہو کر) انہوں نے عرض کیا کہ عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو میں نے ایک عطیہ دیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے میں آپ کو اس پر گواہ بنا لوں، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو۔ چنانچہ وہ واپس ہوئے اور ہدیہ واپس لے لیا“ [صحيح البخاري 3/ 158رقم 2587]

اس حدیث میں لفظ ”ولد“ کا استعمال ہے جس کا اطلاق لڑکا اور لڑکی دونوں پر ہوتا ہے۔
نیز اس حدیث میں اللہ کے نبی ﷺ نے ساری اولاد کے لئے ”مثل“ (ایک جیسے مال) کا لفظ استعمال کیا ہے چنانچہ کہا:
”أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟“
”اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟“ [صحيح البخاري 3/ 158رقم 2587]

اور سنن نسائی وغیرہ کے الفاظ ہیں:
”أفكلهم وهبت لهم مثل الذي وهبت لابنك هذا؟“
”کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اسی جیسا ہبہ کیا ہے جیسا ہبہ اپنے اس بیٹے کو کیا ہے ؟“ [سنن النسائي 6/ 260 ، 3681 وإسناده صحيح]
یہ الفاظ اس بارے میں بالکل صریح ہیں کہ عطیہ وتحفہ میں ساری اولاد لڑکے اورلڑکیوں کو ایک جیسا مال دینا لازم ہے ۔یعنی عطیہ وتحفہ میں لڑکے اور لڑکیوں میں فرق نہیں کیا جائے گا۔

نیز سنن ابی داؤد میں اسی روایت میں ہے :
أليس يسرك أن يكونوا لك في البر واللطف سواء“
”کیا تمہیں پسند نہیں کہ تمہارے ساتھ حسن سلوک اور لطف وکرم میں بھی تمہاری ساری اولاد برابر ہو“ [سنن أبي داود 3/ 292 رقم 3542 وإسناده صحيح]
یہ الفاظ بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ جس طرح والد کے ساتھ حسن سلوک اور لطف وکرم میں اس کے لڑکے اور لڑکیوں سب کو یکساں ہونا چاہئے اسی طرح والد کو بھی اپنے لڑکے اور لڑکیوں کو یکساں مقدار میں ہی عطیہ وتحفہ دینا چاہئے۔

● امام ابن المنذر رحمہ اللہ (المتوفى 319 ) بیٹے اوربیٹی میں مساوات کے سلسلے میں اختلاف نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:
”وأصح شيء عندي: التسوية بينهم ، لقول النبي - صلى الله عليه وسلم - «سوّ »“
”میرے نزدیک سب سے صحیح بات یہ ہے کہ بیٹے اور بیٹی میں برابری کی جائے کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے اولاد میں برابری کرو“ [الإشراف على مذاهب العلماء لابن المنذر 7/ 79]
نوٹ: - «سوّ » (برابری کرو) کا لفظ طحاوی کی روایت میں ہے جو آگے آرہی ہے۔

● امام ابن بطال رحمہ اللہ(المتوفى 449 ) اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
”والحجة على من قال: نجعل حظ الذكر مثل حظ الأنثيين كالفرائض، قوله عَلَيْهِ السَّلام: (أكل ولدك نحلت مثل هذا) ، ولم يقل له: هل فضلت الذكر على الأنثى؟ ولو كان ذلك مستحبًا لسأله عنه كما سأله عن التشريك فى العطية، فثبت أن المعتبر عطية الكل على التسوية. فإن قيل: لم يكن لبشير بنت، فلذلك لم يسأله. قيل: قد كان للنعمان أخت لها خبر نقله أصحاب الحديث“
”جو لوگ کہتے ہیں کہ عطیہ میں فرائض کی طرح لڑکے کو لڑکی کی بنسبت ڈبل ملے گا ان کے خلاف نبی ﷺ کا یہ قول دلیل ہے کہ : «کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اسی جیسا مال دیا ہے ؟» کیونکہ آپ ﷺ نے یہاں یہ نہیں کہا کہ : «کیا تم نے ساری اولاد میں لڑکوں کو لڑکیوں کی بنسبت ڈبل دیا ہے ؟ » اگر یہی بہتر ہوتا کہ لڑکوں کو لڑکیوں کی بنسبت ڈبل دیا جائے تو نبی ﷺ اس بارے میں بھی سوال کرتے جس طرح سب کی شراکت کے بارے میں سوال کیا ۔ لہٰذا اس سے ثابت ہوا کہ لڑکا اور لڑکی سب کو یکساں مقدار میں مال دیا جائے گا ۔ اگر کہا جائے کہ نعمان کے والد بشیر رضی اللہ عنہ کی کوئی بیٹی نہ تھی اس لئے ایسا سوال نہ کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ نعمان کی بہن (یعنی بشیر رضی اللہ عنہ کی بیٹی )تھی جیساکہ محدثین نے یہ بات نقل کررکھی ہے“ [شرح صحيح البخارى لابن بطال 7/ 101 ]

نوٹ:- اگر یہ مان بھی لیں کہ نعمان رضی اللہ عنہ کی کوئی بیٹی نہ تھی تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ اول تو آپ ﷺ نے کوئی تفصیل نہیں پوچھی ہے ، دوسرے یہ کہ آپ ﷺ نے جو الفاظ استعمال کئے ہیں اس روشنی میں یہ تفصیل پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔

● امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456) فرماتے ہیں:
”ولا يحل لأحد أن يهب، ولا أن يتصدق على أحد من ولده إلا حتى يعطي أو يتصدق على كل واحد منهم بمثل ذلك.ولا يحل أن يفضل ذكرا على أنثى، ولا أنثى على ذكر، فإن فعل فهو مفسوخ مردود“
”کسی کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی بچے کو کچھ ہبہ کرے یا نوازے یہاں تک کہ وہ سارے بچوں کو بھی وہی چیز عطاکرے ، اور جائز نہیں کہ لڑکے کو لڑکی پر فوقیت دی جائے، یا لڑکی کو لڑکی پر فوقیت دی جائے اگرکسی نے ایسا کیا تو اس کا عمل نا معتبر ومردود ہے“ [المحلى لابن حزم، ت بيروت: 8/ 95]

● امام أبو محمد البغوي رحمه الله (المتوفى516)فرماتے ہیں:
”وفي هذا الحديث فوائد، منها: استحباب التسوية بين الأولاد في النحل وفي غيرها من أنواع البر حتى في القبل، ذكورا كانوا أو إناثا، حتى لا يعرض في قلب المفضول ما يمنعه من بره“
”اس حدیث سے کئی باتیں معلوم ہوئیں انہیں میں سے ایک یہ کہ اولاد کے مابین ہبہ اور دیگر حسن سلوک حتی کہ بوسہ میں بھی برابری کی جائے گی چاہے اولاد مذکر ہو یا مؤنث ، تاکہ اولاد میں سے کسی کو کم ملنے کی وجہ سے اس کی طرف سے حسن سلوک میں رکاوٹ نہ ہو“ [شرح السنة للبغوي 8/ 297]

● حافظ ابن حجر رحمہ اللہ(المتوفى852) اسی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
”وقال غيرهم لا فرق بين الذكر والأنثى وظاهر الأمر بالتسوية یشھد لھم“
”دیگر اہل علم کی رائے یہ ہے کہ ہبہ میں لڑکے اورلڑکی کا کوئی فرق نہیں کیا جائے گا اور اس حدیث میں لڑکے اور لڑکی میں مساوات اور برابری کاواضح حکم ان کی تائید کرتا ہے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 5/ 214]

● علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الهبة لا يوجد فيها شيء من المفاضلة بين الذكر والأنثى، بل يجب التسوية“
”ہبہ میں لڑکے اور لڑکی میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ دونوں کے درمیان مساوات اور برابری واجب ہے“ [سلسلة الهدى والنور (مفرغ ) 6/ 188]

● شیخ عبد الكريم الخضير فرماتے ہیں:
”ومقتضى هذا اللفظ - والأولاد يشمل الذكور والإناث - أنهم سواء في الهبة والعطية والهدية كلهم سواء، أعطيت الولد ألف تعطي البنت ألف، هذا مقتضى العدل، وفي لفظ: ”سووا بين أولادكم“ وهذا مقتضى التسوية، وهذا ما يفيده هذا الخبر، وبه قال الأكثر، أنه لا يفضل بين الذكر والأنثى في العطية، وفي الهدية، وفي الهبة“
”جب اولاد میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں شامل ہیں تو اس لفظ کا تقاضا یہ ہے کہ ھبہ ، عطیہ اور تحفہ میں سب برابر ہیں ، اگر آپ لڑکے کو ایک ہزار دیں گے تو لڑکی کو بھی ایک ہزار دینا ہوگا ، یہی عدل کا تقاضا ہے ، اور حدیث کے ایک طریق میں ”سووا بين أولادكم“ (اپنی اولاد میں برابری کرو) کے الفاظ ہیں ، ان الفاظ کا تقاضا یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکی کو برابر برابر دیا جائے ، یہی بات اکثر اہل علم نے کہی ہے کہ ہبہ ، عطیہ اور ہدیہ میں لڑکے اورلڑی کے مابین کوئی فرق نہیں کیا جائے گا“ [شرح عمدة الأحكام 36/ 29، ترقيم الشاملة]

● شیخ محمد بن علي بن آدم الإثيوبي فرماتے ہیں:
”وقال غيرهم: لا فرق بين الذكر والأنثى. وهذا هو الأرجح؛ لأن ظاهر الأمر بالتسوية يدلّ عليه“
”اور دیگر اہل علم نے کہا ہے کہ لڑکے اور لڑکی میں برابری کی جائے گی اور یہی راجح ہے کیونکہ برابر کا حکم دینا اسی پر دلالت کرتا ہے“ [ذخيرة العقبى في شرح المجتبى 30/ 195]

❀ ایک اور حدیث ملاحظہ کریں ۔
أبو جعفر طحاوي رحمه الله (المتوفى321)نے کہا:
”حدثنا إبراهيم بن أبي داود، قال: حدثنا آدم بن أبي إياس، قال: حدثنا ورقاء، عن المغيرة، عن الشعبي، قال: سمعت النعمان، على منبرنا هذا يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: سووا بين أولادكم في العطية، كما تحبون أن يسووا بينكم في البر“
”نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عطیہ میں اپنی اولاد میں مساوات و برابری کرو جیسے تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری اولاد تمہارے ساتھ حسن سلوک میں برابری کرے“ [شرح مشكل الآثار، ت الأرنؤوط: 13/ 72 وإسناده صحيح علي شرط البخاري]

اس حدیث میں غور کیجئے کہ یہاں ایک تو مساوات اور برابری کی بالکل صراحت ہے نیز آگے یہ تشبیہ بھی ہے کہ جیسے حسن سلوک میں اولاد سے برابری چاہتے ہیں ، ظاہر ہے کہ حسن سلوک میں اولاد کی برابری کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ لڑکے کی طرف سے جو حسن سلوک ہو اس کا آدھا حسن سلوک لڑکی کی طرف سے ہو۔
امام طحاوی اس روایت کی روشنی میں فرماتے ہیں:
”في قول النبي ﷺ: سووا بينهم في العطية كما تحبون أن يسووا لكم في البر دليل على أنه أراد التسوية بين الإناث والذكور لأنه لا يراد من البنت شيء من البر إلا الذي يراد من الابن مثله. فلما كان النبي ﷺ أراد من الأب لولده ما يريد من ولده له وكان ما يريد من الأنثى من البر مثل ما يريد من الذكر كان ما أراد منه لهم من العطية للأنثى مثل ما أراد للذكر“
”اللہ کے نبی ﷺ کا فرمان « اولاد کے مابین عطیہ میں برابری کرو جیسے تم یہ پسند کرتے ہو کہ وہ تمہارے ساتھ حسن سلوک میں برابر رہیں» اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ نے لڑکے اور لڑکی کے درمیان مساوات وبرابری مراد لی ہے ، کیونکہ بیٹے سے جس حسن سلوک کی امید کی جاتی ہے وہی امید بیٹی سے بھی کی جاتی ہے، تو جب اللہ کے نبی ﷺ نے باپ کی طرف سے اولاد کے لئے وہی چاہت بتائی ہے جو چاہت اولاد کی طرف سے باپ کو ہوتی ہے اور باپ اپنی بیٹی سے اسی حسن سلوک کا متمنی ہوتا ہے جو حسن سلوک وہ بیٹے سے چاہتا ہے ، تو اس سے ظاہر ہے کہ اللہ کے نبی ﷺنے باپ کی طرف سے عطیہ میں بیٹی کے لئے بھی وہی مراد لیا ہے جو بیٹے کے لئے مراد ہے“ [شرح معاني الآثار، ت النجار: 4/ 89]

والد کی طرف سے لڑکے اورلڑکی میں عدم تفریق کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ کپڑے اور کھانے وغیرہ کے سلسلے میں بھی والد اس بات کا مجاز نہیں ہے کہ لڑکے کے لئے لڑکی سے زیادہ اہتمام کرکے حتی کہ بوسہ اور پیار ومحبت میں بھی تفریق کی اجازت نہیں ہے چنانچہ حدیث ہے:
أبو جعفر طحاوي رحمه الله (المتوفى321)نے کہا:
”حدثنا أحمد بن داود، قال: ثنا يعقوب بن حميد بن كاسب، قال: ثنا عبد الله بن معاذ، عن معمر، عن الزهري، عن أنس، قال: كان مع رسول الله ﷺرجل فجاء ابن له فقبله وأجلسه على فخذه ثم جاءت بنت له فأجلسها إلى جنبه قال: «فهلا عدلت بينهما»“
”انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اللہ کے نبی ﷺ کے ساتھ موجود تھے اسی دوران ایک شخص کا بیٹا آیا جسے اس شخص نے بوسہ دیا اور اپنی ران پر بٹھا لیا ،اس کے بعد اسی شخص کی بیٹی بھی آگئی جسے اس نے اپنے پاس بٹھا دیا، اس پر اللہ کے نبی ﷺنے کہا : تم نے ان دونوں کے مابین انصاف کیوں نہیں کیا !“ [شرح معاني الآثار، ت النجار: 4/ 89 رقم 5847 وإسناده حسن]

امام طحاوی رحمہ اللہ اس روایت کے بعد فرماتے ہیں:
”أفلا يرى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أراد منه التعديل بين الابنة والابن وأن لا يفضل أحدهما على الآخر فذلك دليل على ما ذكرنا في العطية أيضا“
”کیا اس سے ظاہر نہیں ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے میں اس شخص کو بیٹے اور بیٹی کے مابین عدل کا حکم دیا اور یہ کہ دونوں میں سے کسی کو بھی دوسرے پر فوقیت نہ دے ، تو اس میں عطیہ کے بارے میں بھی ہماری بات کی دلیل ہے“ [شرح معاني الآثار، ت النجار: 4/ 89]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی حدیث مذکور کی تحسین کے بعد امام طحاوی رحمہ اللہ کے اس قول کو برضاء ورغبت نقل کررکھا ہے دیکھئے :[سلسلة الأحاديث الصحيحة 7/ 264]
.
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
*✿میراث اور ہبہ میں فرق کی حکمت:*

واضح رہے کہ جب ایک شخص کی موت کے بعد اس کا ترکہ اصول میراث سے تقسیم ہوتا ہے تو اولاد میں ایک لڑکے کو ایک لڑکی کی بنسبت ڈبل ملتا ہے ، جیساکہ قرآن کی صراحت ہے ، لیکن ایک شخص جب اپنی زندگی میں اپنی اولاد کو عطیہ وہبہ دے گا تو اسے لڑکے اورلڑکی سب کو برابر دینا ہوگا جیساکہ صحیح اور صریح احادیث پیش کی جاچکی ہیں۔
اس فرق کے پیچھے جو حکمت ہے اس کی طرف اشارہ ابوداؤد اور طحاوی کی اس روایت میں ملتا ہے جسے اوپر پیش کیا جاچکا ہے چنانچہ روایت مذکورہ میں اولاد کے مابین عطیہ وہبہ میں مساوات کا حکم دینے کے بعد آگے فرمایا گیا کہ:
”أليس يسرك أن يكونوا لك في البر واللطف سواء“
”کیا تمہیں پسند نہیں کہ تمہارے ساتھ حسن سلوک اور لطف وکرم میں بھی تمہاری ساری اولاد برابر ہو“ [سنن أبي داود 3/ 292 رقم 3542 وإسناده صحيح]
اور طحاوی کی روایت میں ہے :
”كما تحبون أن يسووا بينكم في البر“
”جیسے تم یہ پسند کرتے ہو کہ تمہاری اولاد تمہارے ساتھ حسن سلوک میں برابری کرے“ [شرح مشكل الآثار، ت الأرنؤوط: 13/ 72 وإسناده صحيح علي شرط البخاري]
اس سے اشارہ ملتا ہے کہ ایک شخص اپنی زندگی میں اگر اپنی ساری اولاد لڑکے اور لڑکیوں کو عطیہ دینے میں برابری نہیں کرےگا تو اس کی زندگی میں اولاد کی طرف سے اس کی خدمت اور اس کی دیکھ بھال کا جذبہ متاثر ہوگا اور جسے کم ملے گا اس کے اندر والد کی خدمت اور دیکھ بھال کا داعیہ کمزور ہوگا۔
لیکن والد کی وفات کے بعد اولاد کی طرف سے والد کی خدمت اور دیکھ بھال کی ضرورت ختم ہوجاتی ہے ایسی صورت میں معاملہ یک طرفہ ہوجاتاہے اور مصلحت صرف اولاد کے مفاد تک سمٹ جاتی ہے ، لہٰذا ایسی صورت میں حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ اولاد میں لڑکوں کی زائد ضروریات کے پیش نظر انہیں زیادہ مال دیا جائے ۔
علاوہ بریں والد جب اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے مابین مال بانٹتا ہے تو گرچہ شریعت کے مطابق ہی کرتا ہے لیکن یہ عمل وہ براہ راست خود انجام دیتا ہے ، لہٰذا لڑکے اور لڑکی میں فرق کی وجہ سے عدم مساوات کی نسبت والد کی طرف ہی ہوگی ، اور والد کے تئیں بچوں کے ذہن میں ایک منفی اثر جائے گا ۔ اس کے برخلاف والد کی وفات کے بعد جو اس کا ترکہ بٹتا ہے اس میں میت کا اپنا کوئی بھی عمل دخل نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ خالص اللہ کے حکم سے بٹتا ہے ، اس لئے لڑکے اور لڑکی کے مابین تفریق میں والد کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔
.
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
*✿ایک شبہ کا ازالہ:*

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن نے میراث میں لڑکے اور لڑکی کے مابین فرق کیا ہے ، اور اللہ سے بہتر انصاف کوئی نہیں کرسکتا اس لئے اگر ایک شخص زندگی میں بھی اپنا مال اولاد میں تقسیم کرے گا تو اصول میراث ہی کی طرح لڑکے کو لڑکی بنسبت دوگنا دے گا۔
عرض ہے کہ:
یہ قیاس دو وجوہات کی بناپر غلط ہے :
*●اولا:*
یہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ وراثت اور ہبہ دونوں کا معاملہ کئی لحاظ سے بالکل الگ تھلگ ہے ، مثلا وراثت کا تعلق موت کے بعد سے ہے جس کی تقسیم میں میت والد کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ہے جبکہ ہبہ والد کی زندگی میں ہوتا ہے جسے خود والد انجام دیتا ہے ۔
اسی طرح وراثت میں مال کو صرف اولاد ہی کے حوالے نہیں کریں گے بلکہ دیگر زندہ وارثین کو بھی دینا لازم ہے ، جبکہ ہبہ میں صرف اولاد کی تخصیص کی جاسکتی ہے۔
اسی طرح وراثت میں اگر کوئی بیٹا والد کی حیات میں فوت ہوگیا تو والد کی وفات کے بعد اسے بحیثیت وراثت کچھ نہیں مل سکتا ، جبکہ ہبہ میں والد اپنی زندہ اولاد کے ساتھ ساتھ اپنی فوت شدہ اولاد کے بچوں کو بھی اسی قدر مال دے سکتا ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”لاشكّ أن قياس الهبة و العطية على الميراث قياس غير جائز لأن الميراث حكم خاص لا يقاس عليه في الهبة و العطية هذا أولا . . . و ثانيا لا يوجد عندنا ما يقتضي تفضيل الذكر على الأنثى بالنسبة لحديث النعمان بن بشير بل عموم قوله عليه الصلاة و السلام في بعض روايات الحديث و طرقه (اعدلوا بين أولادكم ألا تحبون أن يعدلوا معكم في برّكم) أو كما قال عليه الصلاة و السلام فهذا يؤكد التسوية في العطية دون المفاضلة لأنه لا مفاضلة شرعية بين الذكر و الأنثى بالنسبة للأبوين فكما أنه يجب على الذكر مثل ما يجب على الأنثى و يجب على الأنثى مثل ما يجب على الذكر من البر الأكمل بالنسبة للوالدين فكذلك العطية يجب أن تكون كاملة“
”اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہبہ اور عطیہ کو میراث پر قیاس کرنا ناجائز ہے ، کیونکہ میراث ایک خصوصی حکم ہے اس پر ہبہ اور عطیہ کا قیاس ہی درست نہیں ہے ، . . . دوسری بات یہ کہ حدیث نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے خلاف ہمارے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس کا مفاد یہ ہو کہ لڑکے کو لڑکی سے زیادہ دیا جائے گا ، اور حدیث نعمان بن بشیر کے بعض طرق میں جو یہ الفاظ ہیں اپنی اولاد کے مابین عدل کرو کیا تم نہیں چاہتے کہ تمہاری اولاد بھی تمارے ساتھ حسن سلوک میں عدل کرے ، ان الفاظ میں تاکیدی حکم ہے کہ عطیہ میں برابری پرعمل کیا جائے گا اور کوئی تفریق نہیں کی جائے گی ، کیونکہ شریعت میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں لڑکے اور لڑکی کے مابین تفریق کی کوئی دلیل نہیں ہے ، لہٰذا جس طرح لڑکے پر واجب ہے کہ وہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے ٹھیک اسی طرح لڑکی پر بھی واجب ہے کہ وہ والدین کے ساتھ مکمل حسن سلوک کرے ، لہٰذا والدین کی طرف سے عطیہ کا بھی یہی معاملہ ہوگا کہ لڑکے اور لڑکی دونوں کے لئے یکساں مقدار میں ہوگا“ [سلسلة الهدى والنور (مفرغ ) 22/ 67]

اس قیاس کے بطلان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ خود میراث کے مسئلہ اس طرح کے قیاس کی گنجائش نہیں ہے ۔
مثلا میراث میں سگے بھائی بہن اور باپ شریک بھائی بہن کے مابین تقسیم کا یہ طریقہ بتایا گیا ہے کہ بھائی کو بہن کی بنسبت ڈبل ملے گا ، اللہ کا ارشاد ہے:
﴿وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾
”اگر سگے اور باپ شریک بھائی بہن ایک سے زائد ہوں تو بھائی کو بہن کی بنسبت ڈبل ملے گا“ [النساء: 176]
لیکن ماں شریک بھائی بہنوں کے بارے میں اللہ تعالی نے یہ تفریق کئے بغیر فرمایا:
﴿فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ﴾
”اگر ماں شریک بھائی یا بہن ایک سے زائد ہوں تو سب ثلث میں شریک ہوں گے“ [النساء: 12]
چونکہ ان بہن بھائیوں میں اللہ تعالی نے کوئی تفریق نہیں کی ہے ، اس لئے اہل علم کا اتفاق ہے کہ اس قسم میں بھائی کو بہن کی بنسبت ڈبل نہیں دیا جائے گا بلکہ سب کو برابر دیا جائے گا ، حالانکہ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جب سگے بھائی بہن اور باپ شریک بھائی بہن میں تفریق کی جاتی ہے تو ماں شرک بھائی بہن میں بدرجہ اولی یہی تفریق ہونی چاہئے بالخصوص جبکہ اللہ نے یہاں اس تفریق سے روکا بھی نہیں ہے ، لیکن اس کے باوجود بھی اس کا کوئی قائل نہیں ہے محض اس وجہ سے کہ اللہ نے یہاں یہ تفریق ذکر نہیں کی ہے ۔
تو جب خود میراث کے مسئلہ میں اس طرح کے قیاس کی گنجائش نہیں ہے تو ہبہ وعطیہ کے کسی مسئلہ کو میراث پر کیسے قیاس کیا جاسکتا ہے ۔

*●ثانیا:*
اصول میں یہ مسلم ہے کہ نص کے ہوتے ہوئے اس کے خلاف قیاس جائز نہیں ہے، اور یہ قیاس صریح نص کے خلاف ہے اس لئے فاسدہے ، گذشتہ سطور میں صریح نصوص گذرچکے ہیں جن میں اولاد کو ہبہ دیتے وقت مساوات اور برابری کا حکم ہے، اس لئے اس صریح حکم کو نظر انداز کرتے ہوئے اصول میراث پر قیاس کرکے دوسرا حکم نکالنا قطعا درست نہیں۔
.
*✿تنبیہ:*
حدیث نعمان رضی اللہ عنہ ، جس میں مکمل صراحت موجود ہے کہ عطیہ وہبہ میں والد لڑکے اور لڑکی کا فرق نہیں کرسکتا ، بعض لوگوں نے اس کا یہ جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ اس حدیث میں اولاد کے مابین صرف عدل کرنے کا حکم ہے ، لیکن عدل کا طریقہ یہاں مذکور نہیں ہے ، اور میراث میں اللہ کی طرف سے اولاد کے مابین عدل اس طرح کیا گیا ہے کہ لڑکے کو لڑکی کی بنسبت ڈبل دیا گیا ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کے مابین عدل سے یہی مراد ہے ۔
شیخ ابن عثمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”فإن قوله: «اعدلوا بين أولادكم»، ولم يقل سوّوا، بل قال: «اعدلوا»، ولا نرى أعدل من الله ـ عزّ وجل ـ وقد قال الله تعالى: ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْنِ﴾ [النساء: 11]، فالعدل أن يعطى الذكر مثل حظ الأنثيين“
”حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”اعدلوا بين أولادكم“ (اپنی اولاد میں عدل کرو) کہا ہے اور ”سوّوا“ (اپنی اولاد میں برابری کرو) نہیں کہا ہے اور ہم اللہ سے بہترعدل کرنے والا نہیں جانتے جس نے کہا ہے کہ : ﴿اللہ تمہاری اولاد کا حصہ بتلاتا ہے کہ لڑکے کو لڑکی کی بنسبت ڈبل ملے گا﴾ [النساء: 11] لہٰذا عدل یہ ہے کہ لڑکے کو لڑکی کی بنسبت ڈبل دیا جائے“ [الشرح الممتع على زاد المستقنع 11/ 83]
عرض ہے کہ:
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اپنے قول کی بنیاد اس بات پر رکھی ہے کہ حدیث میں ”اعدلوا“ (عدل کرو) کا لفظ ہے ”سوّوا“ ( برابری کرو) کا لفظ نہیں ہے ۔گویا کہ اگر حدیث ہی سے ”سوّوا“ ( برابری کرو) کا لفظ ثابت ہوجائے تو خود شیخ محترم کے اصول سے مساوات کی بات ثابت ہوجائے گی ، اور الحمدللہ صحیح حدیث میں ”سوّوا“ ( برابری کرو) کا لفظ موجود ہے جیساکہ حدیث اوپر پیش کی جاچکی ہے، اس لئے جب ہدیہ میں عدل کی وضاحت خود حدیث سے ہوگئی ہے تو ہدیہ والے عدل کو میراث والے عدل پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، نیز اس قیاس میں اور بھی خرابیان ہیں جن کی وضاحت گذرچکی ہے۔
واضح رہے کہ عدل نہ تو مساوات کو مستلزم ہے اور نہ ہی عدم مساوات کو بلکہ صورت حال اور موقع ومحل کے لحاظ سے کبھی عدل مساوات کے ذریعہ ہوگا اورکبھی عدل عدم مساوات کا متقاضی ہوگا ۔
والد کی حیات میں اولاد کی طرف سے باپ کے ساتھ حسن سلوک اور لطف وکرم کا رویہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس میں یکسانیت رہے اور بچوں کی ضرورت سے زیادہ باپ کے تئیں بچوں کے جذبات کو اہمیت دی جائے اور اس میں توازن برقرار رکھاجائے ،کیونکہ مال کا اصل مالک باپ ہی ہے اس لئے اس سے متعلق باپ کے مفاد کو بچوں کے مفاد پرترجیح حاصل ہونی چاہئے، لہٰذا باپ کی حیات میں عدل یہی ہے اس کے سارے بچوں میں مساوات ہو تاکہ باپ کے ساتھ حسن سلوک میں بھی سارے بچے مساوی ہوں ۔
اس کے برخلاف باپ کی وفات کے بعد باپ کا مفاد اس کے مال سے ختم ہوجاتا ہے ، ایسی صورت میں بچوں کا مفاد اس بات کا متقاضی ہے کہ لڑکے کو لڑکی کی بنسبت زیادہ مال دیا جائے ، لہٰذا اس حالت میں یہی عدل وانصاف ہے ۔ اس کی مزید وضاحت ماقبل میں ہوچکی ہے۔

شیخ ابن عثمین رحمہ اللہ نے مزید کہا کہ:
”في بعض ألفاظ الحديث قال: «ألك بنون؟» قال: نعم، قال: «هل أعطيتهم مثله؟» قال: لا، قال: «اتقوا الله واعدلوا بين أولادكم» ، فقوله: «ألك بنون» يفيد أن القضية بين النعمان بن بشير ـ رضي الله عنه ـ وإخوانه وهم ذكور، وأنه ليس هناك أخوات فإذا كانوا ذكوراً فإنه يجب التسوية“
”حدیث کے بعض الفاظ میں ہے کہ آپﷺ نے پوچھا: ”ألك بنون؟“ (کیا تمہارے اور بیٹے ہیں؟) صحابی نے کہا : ہاں ! تو آپ ﷺ نے کہا: کیا تم نے انہیں بھی اسی کے مثل دیا ہے ؟ صحابی نے جواب دیا : نہیں ! تو آپ ﷺنے کہا: ”اپنی اولاد میں عدل کرو“ ، تو اس حدیث میں ”ألك بنون؟“ (کیا تمہارے اور بیٹے ہیں؟) کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ معاملہ صرف نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائیوں کا تھا اور ان کی بہنیں نہیں تھیں تو جب صرف مذکر اولاد ہوگی تو ان کے مابین برابری ہی کی جائے گی“ [الشرح الممتع على زاد المستقنع 11/ 83]
عرض ہے کہ جب کسی کی اولاد کے لے مطلق ”بنین“ بولا جائے تو اس میں لڑکے اور لڑکیاں سب شامل ہوتی ہیں ، اور ”بنین“ کا لفظ تغلیبا استعمال کیا جاتا ہے ، اور ”بنات“ کو بھی اس میں شامل مانا جاتا ہے ، قرآن وحدیث میں اس کی کئی مثالیں ہیں مثلا اللہ کا ارشاد ہے:
{وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ }
”یعنی اس دن آدمی اپنی بیوی اور بچوں سے بھاگے گا“ [عبس: 36]
یہاں ”بنيه“ سے مراد صرف بیٹے نہیں بلکہ بیٹے اور بیٹاں سب اولاد مراد ہے امام قرطبی فرماتے ہیں:
”«﴿وبنيه﴾ أي أولاده » یہاں ”بنيه“ سے مراد اولاد ہیں“ [تفسير القرطبي 19/ 225]
اور زیربحث حدیث ہی کے دیگر کئی طرق بلکہ اکثر میں ”بنین“ کی جگہ ”ولد“ کا لفظ موجود ہے جو زبردست دلیل ہے کہ جس طریق میں ”بنین“ کا لفظ ہے وہ تغلیبا ہے جس سے لڑکے اور لڑکیاں دونوں مراد ہیں۔
شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ اسی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
”وهذا اختلاف في العبارات، وهو مثل: ألك ولد؟ والولد يشمل الذكر والأنثى، والبنين خاصة بالأبناء؛ ويقابلها البنات، وعلى هذه الرواية يكون ذكر البنين على سبيل التغليب لا أن الحكم خاص بالبنين دون البنات“
”یہ رواۃ کی طرف سے تعبیر کا اختلاف ہے اور کسی راوی کا ”ألك بنون ؟“ کہنا ”ألك ولد؟“ کہنے کی طرح ہے اور ”ولد“ کا لفظ لڑکے اور لڑکی دونوں کے لئے آتا ہے اور ”بنین“ کا لفظ لڑکوں کے لئے خاص ہے اس کے مقابل میں ”بنات“ کا لفظ آتا ہے اور اس حدیث میں ”بنین“ کا لفظ تغلیبا آیا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہاں حکم صرف لڑکوں ہی کے ساتھ خاص ہے اور لڑکیاں اس میں شامل نہیں“ [شرح سنن أبي داود للعباد 402/ 24، ترقيم الشاملة]
اور یہاں ”بنین“ کو تغلیبا مان کر اس میں لڑکیوں کو شامل کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر ہم یہاں صرف لڑکوں کو مراد لیں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ والد عطیہ وھبہ کو صرف لڑکوں ہی کے ساتھ خاص کرسکتا ہے اور لڑکیوں کو محروم کرسکتا ہے ، کیونکہ حدیث میں یہ سوال نبی ﷺ کی طرف سے ہوا تھا ، اس لئے حقیقت میں نعمان رضی اللہ عنہ کی کوئی بہن ہو یا نہ ہو بہرصورت جب نبی ﷺ نے اپنی طرف سے صرف لڑکوں کے بارے میں ہی پوچھا اور لڑکیوں کے بارے کوئی استفسار نہیں کیا ، تو یہ اس بات کی دلیل بنے گی ہبہ میں لڑکیوں کو سرے سے محروم کردینا بھی جائز ہے، جبکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔
واضح ہے کہ نعمان رضی اللہ عنہ کی بہن بھی موجود تھی جیساکہ محدثین واہل تاریخ نے ذکر کیا ہے جیساکہ ابن بطال رحمہ اللہ کا قول گذرچکا ہے نیز دیکھیں: [الإصابة في تمييز الصحابة 8/ 29،أسد الغابة ط العلمية 7/ 24]
لہذا شیخ ابن عثمین رحمہ اللہ کی تاویل کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہے۔

*✿ مذاہب اربعہ اور اولاد میں ہبہ کا طریقہ:*
مذاہب اربعہ میں صرف ”مذہب حنبلی“ کا یہ مشہور قول ہے کہ والد اپنی حیات میں ہبہ کرے گا تو میراث کے اصول پر چلتے ہوئے لڑکے کو لڑکی کی بنست ڈبل دے گا ، فقہ حنبلی کے علاوہ بقیہ تینوں مذاہب ”حنفیہ“ ، ”شافعیہ“ اور ”مالکیہ“ كے یہاں مشہور قول یہی ہے کہ ہبہ میں میراث کا اصول لاگو نہیں ہوگا کیونکہ ہبہ کے بارے میں نعمان رضی اللہ عنہ کی خصوصی حدیث موجود ہے ۔
ابن قدامة المقدسي الحنبلی(المتوفى: 620) مذہب حنبلی کا قول بتانے کے بعد لکھتے ہیں:
”وقال أبو حنيفة، ومالك، والشافعي، وابن المبارك: تعطى الأنثى مثل ما يعطى الذكر“
”امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور ابن المبارک رحمہم اللہ کا قول ہے کہ ہبہ میں لڑکی کو بھی لڑکے جیسا ہی دیا جائے گا“ [المغني لابن قدامة 6/ 53 ]
چونکہ مذاہب ثلاثہ اور جمہور کے قول کی بنیاد صحیح حدیث پرہے اس لئے وہی راجح اور درست ہے ، اور حنابلہ کا قول مبنی برقیاس ہونے کے سبب مرجوح اور غیر مسموع ہے ۔واللہ اعلم

بلکہ امام احمد رحمہ اللہ ہی سے ایک قول یہ بھی منقول ہے کہ ہبہ اورعطیہ میں لڑکے اور لڑکی کے مابین کوئی فرق نہیں کیا جائے گا ، چنانچہ فقہ حنبلی کی کتاب ”الإنصاف“ میں ہے:
”وعنه: المشروع أن يكون الذكر كالأنثى كما في النفقة. اختاره ابن عقيل في الفنون“
”امام احمد رحمہ اللہ ہی کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ہبہ میں لڑکا اور لڑکی ایک جیسے ہوں گے جیسے نفقہ میں ان دونوں کے ساتھ یکساں معاملہ کیا جاتا ہے ، امام ابن عقیل الحنبلی ( المتوفی513) نے اپنی کتاب ”فنون“ میں اسی قول کو اختیار کیا ہے“ [الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف للمرداوي 7/ 136]

شیخ أحمد بن عبد الله العمري اس مسئلہ میں طرفین کے دلائل اور ان کا مناقشہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
”مما تقدم يظهر أن قول الجمهور أقوى فتكون التسوية بين الأولاد ذكوراً وإناثاً متعينة بأن لا يُفضّل أحدٌ على أحد لما يلي: لقوة ما استدلوا به. أنه ليس مع المخالفين إلا القياس على الإرث وهو قياس بعيد في مقابل النص“
”گذشتہ بحث سے ظاہرہے کہ اس سلسلے میں جمہور کا قول قوی ہے کہ اولاد میں بیٹے اور بیٹی میں برابری کرنا ہی درست ہے اورکسی کو کسی پر فوقیت نہیں دی جائے گی ، کیونکہ ان کے دلائل مضبوط ہیں اور مخالفین کے پاس اصول میراث پر قیاس کے علاوہ کوئی دلیل نہیں ہے اور یہ قیاس نص کے مقابلے میں ہے اور بہت دور کا قیاس ہے“ [الورقات فيما يختلف فيه الرجال والنساء ص: 218]
(کفایت اللہ سنابلی)
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
*✿ایک شبہ کا ازالہ:*

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن نے میراث میں لڑکے اور لڑکی کے مابین فرق کیا ہے ، اور اللہ سے بہتر انصاف کوئی نہیں کرسکتا اس لئے اگر ایک شخص زندگی میں بھی اپنا مال اولاد میں تقسیم کرے گا تو اصول میراث ہی کی طرح لڑکے کو لڑکی بنسبت دوگنا دے گا۔
عرض ہے کہ:
یہ قیاس دو وجوہات کی بناپر غلط ہے :
*●اولا:*
یہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ وراثت اور ہبہ دونوں کا معاملہ کئی لحاظ سے بالکل الگ تھلگ ہے ، مثلا وراثت کا تعلق موت کے بعد سے ہے جس کی تقسیم میں میت والد کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ہے جبکہ ہبہ والد کی زندگی میں ہوتا ہے جسے خود والد انجام دیتا ہے ۔
اسی طرح وراثت میں مال کو صرف اولاد ہی کے حوالے نہیں کریں گے بلکہ دیگر زندہ وارثین کو بھی دینا لازم ہے ، جبکہ ہبہ میں صرف اولاد کی تخصیص کی جاسکتی ہے۔
اسی طرح وراثت میں اگر کوئی بیٹا والد کی حیات میں فوت ہوگیا تو والد کی وفات کے بعد اسے بحیثیت وراثت کچھ نہیں مل سکتا ، جبکہ ہبہ میں والد اپنی زندہ اولاد کے ساتھ ساتھ اپنی فوت شدہ اولاد کے بچوں کو بھی اسی قدر مال دے سکتا ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”لاشكّ أن قياس الهبة و العطية على الميراث قياس غير جائز لأن الميراث حكم خاص لا يقاس عليه في الهبة و العطية هذا أولا . . . و ثانيا لا يوجد عندنا ما يقتضي تفضيل الذكر على الأنثى بالنسبة لحديث النعمان بن بشير بل عموم قوله عليه الصلاة و السلام في بعض روايات الحديث و طرقه (اعدلوا بين أولادكم ألا تحبون أن يعدلوا معكم في برّكم) أو كما قال عليه الصلاة و السلام فهذا يؤكد التسوية في العطية دون المفاضلة لأنه لا مفاضلة شرعية بين الذكر و الأنثى بالنسبة للأبوين فكما أنه يجب على الذكر مثل ما يجب على الأنثى و يجب على الأنثى مثل ما يجب على الذكر من البر الأكمل بالنسبة للوالدين فكذلك العطية يجب أن تكون كاملة“
”اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہبہ اور عطیہ کو میراث پر قیاس کرنا ناجائز ہے ، کیونکہ میراث ایک خصوصی حکم ہے اس پر ہبہ اور عطیہ کا قیاس ہی درست نہیں ہے ، . . . دوسری بات یہ کہ حدیث نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کے خلاف ہمارے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس کا مفاد یہ ہو کہ لڑکے کو لڑکی سے زیادہ دیا جائے گا ، اور حدیث نعمان بن بشیر کے بعض طرق میں جو یہ الفاظ ہیں اپنی اولاد کے مابین عدل کرو کیا تم نہیں چاہتے کہ تمہاری اولاد بھی تمارے ساتھ حسن سلوک میں عدل کرے ، ان الفاظ میں تاکیدی حکم ہے کہ عطیہ میں برابری پرعمل کیا جائے گا اور کوئی تفریق نہیں کی جائے گی ، کیونکہ شریعت میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں لڑکے اور لڑکی کے مابین تفریق کی کوئی دلیل نہیں ہے ، لہٰذا جس طرح لڑکے پر واجب ہے کہ وہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے ٹھیک اسی طرح لڑکی پر بھی واجب ہے کہ وہ والدین کے ساتھ مکمل حسن سلوک کرے ، لہٰذا والدین کی طرف سے عطیہ کا بھی یہی معاملہ ہوگا کہ لڑکے اور لڑکی دونوں کے لئے یکساں مقدار میں ہوگا“ [سلسلة الهدى والنور (مفرغ ) 22/ 67]

اس قیاس کے بطلان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ خود میراث کے مسئلہ اس طرح کے قیاس کی گنجائش نہیں ہے ۔
مثلا میراث میں سگے بھائی بہن اور باپ شریک بھائی بہن کے مابین تقسیم کا یہ طریقہ بتایا گیا ہے کہ بھائی کو بہن کی بنسبت ڈبل ملے گا ، اللہ کا ارشاد ہے:
﴿وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾
”اگر سگے اور باپ شریک بھائی بہن ایک سے زائد ہوں تو بھائی کو بہن کی بنسبت ڈبل ملے گا“ [النساء: 176]
لیکن ماں شریک بھائی بہنوں کے بارے میں اللہ تعالی نے یہ تفریق کئے بغیر فرمایا:
﴿فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ﴾
”اگر ماں شریک بھائی یا بہن ایک سے زائد ہوں تو سب ثلث میں شریک ہوں گے“ [النساء: 12]
چونکہ ان بہن بھائیوں میں اللہ تعالی نے کوئی تفریق نہیں کی ہے ، اس لئے اہل علم کا اتفاق ہے کہ اس قسم میں بھائی کو بہن کی بنسبت ڈبل نہیں دیا جائے گا بلکہ سب کو برابر دیا جائے گا ، حالانکہ قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ جب سگے بھائی بہن اور باپ شریک بھائی بہن میں تفریق کی جاتی ہے تو ماں شرک بھائی بہن میں بدرجہ اولی یہی تفریق ہونی چاہئے بالخصوص جبکہ اللہ نے یہاں اس تفریق سے روکا بھی نہیں ہے ، لیکن اس کے باوجود بھی اس کا کوئی قائل نہیں ہے محض اس وجہ سے کہ اللہ نے یہاں یہ تفریق ذکر نہیں کی ہے ۔
تو جب خود میراث کے مسئلہ میں اس طرح کے قیاس کی گنجائش نہیں ہے تو ہبہ وعطیہ کے کسی مسئلہ کو میراث پر کیسے قیاس کیا جاسکتا ہے ۔

*●ثانیا:*
اصول میں یہ مسلم ہے کہ نص کے ہوتے ہوئے اس کے خلاف قیاس جائز نہیں ہے، اور یہ قیاس صریح نص کے خلاف ہے اس لئے فاسدہے ، گذشتہ سطور میں صریح نصوص گذرچکے ہیں جن میں اولاد کو ہبہ دیتے وقت مساوات اور برابری کا حکم ہے، اس لئے اس صریح حکم کو نظر انداز کرتے ہوئے اصول میراث پر قیاس کرکے دوسرا حکم نکالنا قطعا درست نہیں۔
.
*✿تنبیہ:*
حدیث نعمان رضی اللہ عنہ ، جس میں مکمل صراحت موجود ہے کہ عطیہ وہبہ میں والد لڑکے اور لڑکی کا فرق نہیں کرسکتا ، بعض لوگوں نے اس کا یہ جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ اس حدیث میں اولاد کے مابین صرف عدل کرنے کا حکم ہے ، لیکن عدل کا طریقہ یہاں مذکور نہیں ہے ، اور میراث میں اللہ کی طرف سے اولاد کے مابین عدل اس طرح کیا گیا ہے کہ لڑکے کو لڑکی کی بنسبت ڈبل دیا گیا ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کے مابین عدل سے یہی مراد ہے ۔
شیخ ابن عثمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”فإن قوله: «اعدلوا بين أولادكم»، ولم يقل سوّوا، بل قال: «اعدلوا»، ولا نرى أعدل من الله ـ عزّ وجل ـ وقد قال الله تعالى: ﴿يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْنِ﴾ [النساء: 11]، فالعدل أن يعطى الذكر مثل حظ الأنثيين“
”حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”اعدلوا بين أولادكم“ (اپنی اولاد میں عدل کرو) کہا ہے اور ”سوّوا“ (اپنی اولاد میں برابری کرو) نہیں کہا ہے اور ہم اللہ سے بہترعدل کرنے والا نہیں جانتے جس نے کہا ہے کہ : ﴿اللہ تمہاری اولاد کا حصہ بتلاتا ہے کہ لڑکے کو لڑکی کی بنسبت ڈبل ملے گا﴾ [النساء: 11] لہٰذا عدل یہ ہے کہ لڑکے کو لڑکی کی بنسبت ڈبل دیا جائے“ [الشرح الممتع على زاد المستقنع 11/ 83]
عرض ہے کہ:
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اپنے قول کی بنیاد اس بات پر رکھی ہے کہ حدیث میں ”اعدلوا“ (عدل کرو) کا لفظ ہے ”سوّوا“ ( برابری کرو) کا لفظ نہیں ہے ۔گویا کہ اگر حدیث ہی سے ”سوّوا“ ( برابری کرو) کا لفظ ثابت ہوجائے تو خود شیخ محترم کے اصول سے مساوات کی بات ثابت ہوجائے گی ، اور الحمدللہ صحیح حدیث میں ”سوّوا“ ( برابری کرو) کا لفظ موجود ہے جیساکہ حدیث اوپر پیش کی جاچکی ہے، اس لئے جب ہدیہ میں عدل کی وضاحت خود حدیث سے ہوگئی ہے تو ہدیہ والے عدل کو میراث والے عدل پر قیاس نہیں کیا جاسکتا، نیز اس قیاس میں اور بھی خرابیان ہیں جن کی وضاحت گذرچکی ہے۔
واضح رہے کہ عدل نہ تو مساوات کو مستلزم ہے اور نہ ہی عدم مساوات کو بلکہ صورت حال اور موقع ومحل کے لحاظ سے کبھی عدل مساوات کے ذریعہ ہوگا اورکبھی عدل عدم مساوات کا متقاضی ہوگا ۔
والد کی حیات میں اولاد کی طرف سے باپ کے ساتھ حسن سلوک اور لطف وکرم کا رویہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اس میں یکسانیت رہے اور بچوں کی ضرورت سے زیادہ باپ کے تئیں بچوں کے جذبات کو اہمیت دی جائے اور اس میں توازن برقرار رکھاجائے ،کیونکہ مال کا اصل مالک باپ ہی ہے اس لئے اس سے متعلق باپ کے مفاد کو بچوں کے مفاد پرترجیح حاصل ہونی چاہئے، لہٰذا باپ کی حیات میں عدل یہی ہے اس کے سارے بچوں میں مساوات ہو تاکہ باپ کے ساتھ حسن سلوک میں بھی سارے بچے مساوی ہوں ۔
اس کے برخلاف باپ کی وفات کے بعد باپ کا مفاد اس کے مال سے ختم ہوجاتا ہے ، ایسی صورت میں بچوں کا مفاد اس بات کا متقاضی ہے کہ لڑکے کو لڑکی کی بنسبت زیادہ مال دیا جائے ، لہٰذا اس حالت میں یہی عدل وانصاف ہے ۔ اس کی مزید وضاحت ماقبل میں ہوچکی ہے۔

شیخ ابن عثمین رحمہ اللہ نے مزید کہا کہ:
”في بعض ألفاظ الحديث قال: «ألك بنون؟» قال: نعم، قال: «هل أعطيتهم مثله؟» قال: لا، قال: «اتقوا الله واعدلوا بين أولادكم» ، فقوله: «ألك بنون» يفيد أن القضية بين النعمان بن بشير ـ رضي الله عنه ـ وإخوانه وهم ذكور، وأنه ليس هناك أخوات فإذا كانوا ذكوراً فإنه يجب التسوية“
”حدیث کے بعض الفاظ میں ہے کہ آپﷺ نے پوچھا: ”ألك بنون؟“ (کیا تمہارے اور بیٹے ہیں؟) صحابی نے کہا : ہاں ! تو آپ ﷺ نے کہا: کیا تم نے انہیں بھی اسی کے مثل دیا ہے ؟ صحابی نے جواب دیا : نہیں ! تو آپ ﷺنے کہا: ”اپنی اولاد میں عدل کرو“ ، تو اس حدیث میں ”ألك بنون؟“ (کیا تمہارے اور بیٹے ہیں؟) کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ معاملہ صرف نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ اور ان کے بھائیوں کا تھا اور ان کی بہنیں نہیں تھیں تو جب صرف مذکر اولاد ہوگی تو ان کے مابین برابری ہی کی جائے گی“ [الشرح الممتع على زاد المستقنع 11/ 83]
عرض ہے کہ جب کسی کی اولاد کے لے مطلق ”بنین“ بولا جائے تو اس میں لڑکے اور لڑکیاں سب شامل ہوتی ہیں ، اور ”بنین“ کا لفظ تغلیبا استعمال کیا جاتا ہے ، اور ”بنات“ کو بھی اس میں شامل مانا جاتا ہے ، قرآن وحدیث میں اس کی کئی مثالیں ہیں مثلا اللہ کا ارشاد ہے:
{وَصَاحِبَتِهِ وَبَنِيهِ }
”یعنی اس دن آدمی اپنی بیوی اور بچوں سے بھاگے گا“ [عبس: 36]
یہاں ”بنيه“ سے مراد صرف بیٹے نہیں بلکہ بیٹے اور بیٹاں سب اولاد مراد ہے امام قرطبی فرماتے ہیں:
”«﴿وبنيه﴾ أي أولاده » یہاں ”بنيه“ سے مراد اولاد ہیں“ [تفسير القرطبي 19/ 225]
اور زیربحث حدیث ہی کے دیگر کئی طرق بلکہ اکثر میں ”بنین“ کی جگہ ”ولد“ کا لفظ موجود ہے جو زبردست دلیل ہے کہ جس طریق میں ”بنین“ کا لفظ ہے وہ تغلیبا ہے جس سے لڑکے اور لڑکیاں دونوں مراد ہیں۔
شیخ عبد المحسن العباد حفظہ اللہ اسی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
”وهذا اختلاف في العبارات، وهو مثل: ألك ولد؟ والولد يشمل الذكر والأنثى، والبنين خاصة بالأبناء؛ ويقابلها البنات، وعلى هذه الرواية يكون ذكر البنين على سبيل التغليب لا أن الحكم خاص بالبنين دون البنات“
”یہ رواۃ کی طرف سے تعبیر کا اختلاف ہے اور کسی راوی کا ”ألك بنون ؟“ کہنا ”ألك ولد؟“ کہنے کی طرح ہے اور ”ولد“ کا لفظ لڑکے اور لڑکی دونوں کے لئے آتا ہے اور ”بنین“ کا لفظ لڑکوں کے لئے خاص ہے اس کے مقابل میں ”بنات“ کا لفظ آتا ہے اور اس حدیث میں ”بنین“ کا لفظ تغلیبا آیا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہاں حکم صرف لڑکوں ہی کے ساتھ خاص ہے اور لڑکیاں اس میں شامل نہیں“ [شرح سنن أبي داود للعباد 402/ 24، ترقيم الشاملة]
اور یہاں ”بنین“ کو تغلیبا مان کر اس میں لڑکیوں کو شامل کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اگر ہم یہاں صرف لڑکوں کو مراد لیں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ والد عطیہ وھبہ کو صرف لڑکوں ہی کے ساتھ خاص کرسکتا ہے اور لڑکیوں کو محروم کرسکتا ہے ، کیونکہ حدیث میں یہ سوال نبی ﷺ کی طرف سے ہوا تھا ، اس لئے حقیقت میں نعمان رضی اللہ عنہ کی کوئی بہن ہو یا نہ ہو بہرصورت جب نبی ﷺ نے اپنی طرف سے صرف لڑکوں کے بارے میں ہی پوچھا اور لڑکیوں کے بارے کوئی استفسار نہیں کیا ، تو یہ اس بات کی دلیل بنے گی ہبہ میں لڑکیوں کو سرے سے محروم کردینا بھی جائز ہے، جبکہ اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔
واضح ہے کہ نعمان رضی اللہ عنہ کی بہن بھی موجود تھی جیساکہ محدثین واہل تاریخ نے ذکر کیا ہے جیساکہ ابن بطال رحمہ اللہ کا قول گذرچکا ہے نیز دیکھیں: [الإصابة في تمييز الصحابة 8/ 29،أسد الغابة ط العلمية 7/ 24]
لہذا شیخ ابن عثمین رحمہ اللہ کی تاویل کسی بھی اعتبار سے درست نہیں ہے۔

*✿ مذاہب اربعہ اور اولاد میں ہبہ کا طریقہ:*
مذاہب اربعہ میں صرف ”مذہب حنبلی“ کا یہ مشہور قول ہے کہ والد اپنی حیات میں ہبہ کرے گا تو میراث کے اصول پر چلتے ہوئے لڑکے کو لڑکی کی بنست ڈبل دے گا ، فقہ حنبلی کے علاوہ بقیہ تینوں مذاہب ”حنفیہ“ ، ”شافعیہ“ اور ”مالکیہ“ كے یہاں مشہور قول یہی ہے کہ ہبہ میں میراث کا اصول لاگو نہیں ہوگا کیونکہ ہبہ کے بارے میں نعمان رضی اللہ عنہ کی خصوصی حدیث موجود ہے ۔
ابن قدامة المقدسي الحنبلی(المتوفى: 620) مذہب حنبلی کا قول بتانے کے بعد لکھتے ہیں:
”وقال أبو حنيفة، ومالك، والشافعي، وابن المبارك: تعطى الأنثى مثل ما يعطى الذكر“
”امام ابوحنیفہ ، امام مالک ، امام شافعی اور ابن المبارک رحمہم اللہ کا قول ہے کہ ہبہ میں لڑکی کو بھی لڑکے جیسا ہی دیا جائے گا“ [المغني لابن قدامة 6/ 53 ]
چونکہ مذاہب ثلاثہ اور جمہور کے قول کی بنیاد صحیح حدیث پرہے اس لئے وہی راجح اور درست ہے ، اور حنابلہ کا قول مبنی برقیاس ہونے کے سبب مرجوح اور غیر مسموع ہے ۔واللہ اعلم

بلکہ امام احمد رحمہ اللہ ہی سے ایک قول یہ بھی منقول ہے کہ ہبہ اورعطیہ میں لڑکے اور لڑکی کے مابین کوئی فرق نہیں کیا جائے گا ، چنانچہ فقہ حنبلی کی کتاب ”الإنصاف“ میں ہے:
”وعنه: المشروع أن يكون الذكر كالأنثى كما في النفقة. اختاره ابن عقيل في الفنون“
”امام احمد رحمہ اللہ ہی کا ایک قول یہ بھی ہے کہ ہبہ میں لڑکا اور لڑکی ایک جیسے ہوں گے جیسے نفقہ میں ان دونوں کے ساتھ یکساں معاملہ کیا جاتا ہے ، امام ابن عقیل الحنبلی ( المتوفی513) نے اپنی کتاب ”فنون“ میں اسی قول کو اختیار کیا ہے“ [الإنصاف في معرفة الراجح من الخلاف للمرداوي 7/ 136]

شیخ أحمد بن عبد الله العمري اس مسئلہ میں طرفین کے دلائل اور ان کا مناقشہ کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
”مما تقدم يظهر أن قول الجمهور أقوى فتكون التسوية بين الأولاد ذكوراً وإناثاً متعينة بأن لا يُفضّل أحدٌ على أحد لما يلي: لقوة ما استدلوا به. أنه ليس مع المخالفين إلا القياس على الإرث وهو قياس بعيد في مقابل النص“
”گذشتہ بحث سے ظاہرہے کہ اس سلسلے میں جمہور کا قول قوی ہے کہ اولاد میں بیٹے اور بیٹی میں برابری کرنا ہی درست ہے اورکسی کو کسی پر فوقیت نہیں دی جائے گی ، کیونکہ ان کے دلائل مضبوط ہیں اور مخالفین کے پاس اصول میراث پر قیاس کے علاوہ کوئی دلیل نہیں ہے اور یہ قیاس نص کے مقابلے میں ہے اور بہت دور کا قیاس ہے“ [الورقات فيما يختلف فيه الرجال والنساء ص: 218]
(کفایت اللہ سنابلی)
محترم@کفایت اللہ صاحب
السلام علیکم

برائے مہربانی یہ بتائیے گا کہ آج کل شادی میں لڑکی کی شادی پر جو خرچ ہوتا ہے وہ لڑکے کی شادی سے زیادہ ہوتا ہے ۔ تو کیا لڑکے کی شادی پر بھی اتنا ہی خرچ کریں گے تو عدل ہوگا یا اس کی اور کوئی تفصیل ہے ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
محترم@کفایت اللہ صاحب
السلام علیکم
برائے مہربانی یہ بتائیے گا کہ آج کل شادی میں لڑکی کی شادی پر جو خرچ ہوتا ہے وہ لڑکے کی شادی سے زیادہ ہوتا ہے ۔ تو کیا لڑکے کی شادی پر بھی اتنا ہی خرچ کریں گے تو عدل ہوگا یا اس کی اور کوئی تفصیل ہے ۔
باپ شادی کے لئے اولاد پر جو خرچ کرتا ہے وہ تحفہ وہبہ نہیں ہے بلکہ ضروری خرچ یعنی نفقہ ہے ۔
نفقہ میں جس کو جتنی ضرورت ہو اس کے مطابق باپ خرچ کرسکتا ہے ۔مثلا علاج ومعالجہ ،تعلیم اور شادی بیاہ وغیرہ کا معاملہ

لیکن باپ اپنی اولاد کو ہدیہ اور تحفہ دے گا تو اسے ساری اولاد کو برابربرابر دینا ہوگا۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
باپ شادی کے لئے اولاد پر جو خرچ کرتا ہے وہ تحفہ وہبہ نہیں ہے بلکہ ضروری خرچ یعنی نفقہ ہے ۔
نفقہ میں جس کو جتنی ضرورت ہو اس کے مطابق باپ خرچ کرسکتا ہے ۔مثلا علاج ومعالجہ ،تعلیم اور شادی بیاہ وغیرہ کا معاملہ

لیکن باپ اپنی اولاد کو ہدیہ اور تحفہ دے گا تو اسے ساری اولاد کو برابربرابر دینا ہوگا۔
محترم کفایت صاحب
جزاک اللہ، میں نے خاص طور پر لڑکی کی شادی کا اس لئے پوچھا تھا کہ عام طور پر والدین لڑکیوں کی شادی میں اتنا زیر بار ہوجاتے ہیں کہ باقی اولاد کے لئے اکثر کچھ نہیں بچتا۔ اور ہمارے معاشرے میں عام طور پر یہ روایت ہے کہ لڑکی کی شادی کا انتظام تو والدین کرتے ہیں جس میں بھائی بھی حصہ ڈالتے ہیں لیکن لڑکے کی شادی میں اکثر لڑکے کو ہی سارا بار اٹھانا پڑتا ہے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top