• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

اہل ایمان کی تعلیم وتربیت، ڈاکٹر فرحت ہاشمی حفظہا اللہ

آزاد

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
363
ری ایکشن اسکور
919
پوائنٹ
125
[FONT="Al_Mushaf"]بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ ()​

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿١٥٣﴾وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُ‌ونَ ﴿١٥٤﴾ وَلَنَبْلُوَنَّكُم بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَ‌اتِ ۗ وَبَشِّرِ‌ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿١٥٥﴾ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّـهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَ‌اجِعُونَ ﴿١٥٦﴾ أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّ‌بِّهِمْ وَرَ‌حْمَةٌ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ﴿١٥٧﴾

مؤمنوں سے خطاب:
[يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا] اب یہاں [يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا] کہہ کر خطاب کیا جارہا ہے۔ اس سے پہلے [يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ] کہا گیا اور پھر[يٰبَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ] کہا گیا۔کیوں؟ اس لیے اب ایمان والوں کی وہ تعلیم اور تربیت مقصود ہے کہ جس کے بعد وہ دنیا کے سامنے حق کی گواہی رکھیں گے۔جو دنیا کو اب اللہ کی طرف بلائیں گے۔کوئی بھی شخص جو لوگوں کو اللہ کی طرف بلانے والا ہو، خود اللہ کی ذات اس کے رگ وپے میں اس طرح سمائی ہوئی ہو کہ وہ بولے تو اسی کی تائید کے ساتھ۔ وہ سوچے تو یعنی اللہ تعالیٰ کا احساس، اللہ تعالیٰ کی یاد اس کی زبان پرہو۔اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے اندر ہو۔اس کےلیے شکر کےجذبات ہوں۔ یعنی اس کو ہر ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کی رضا سامنے رکھنا آتی ہو۔اور اس کےلیے سب سے پہلے جو چیز سکھائی گئی ، وہ صبر ہے۔ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، صبر کے ساتھ مدد مانگو اور نماز کے ساتھ۔

دو خوبیاں:
گویا اخلاقی خوبیوں میں سب سے پہلی خوبی صبر اور عبادات میں سب سے پہلی عبادت نماز۔ کوئی بھی شخص جس کے اندر صبر کا مادہ نہ ہو، وہ کبھی نیکی کا کام نہیں کرسکتا۔آپ جب بھی نیکی کا راستہ اختیار کرتے ہیں، لازماً مشکلات آتی ہیں۔کبھی اپنے نفس کے اندر سے آتی ہیں۔ کبھی باہر سے آتی ہیں۔اسی طرح عبادات میں سب سے مشکل نماز ہے۔بہت سے لوگ روزہ رکھ لیتے ہیں، نماز نہیں پڑھتے۔ زکاۃ، صدقہ، خیرات بہت کرتے ہیں، نماز ان کو بھاری لگتی ہے۔اس لیے اہل ایمان کو پہلا حکم جو دیا جارہا ہے ، وہ کیا ہے؟ [اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ ]اللہ کی مدد چاہتے ہو؟ اللہ کی تائید چاہتے ہو؟ تو کیا کرو؟ صبر اندر پیدا کرو اور نماز سے اپنے بندہ خدا ہونے کا ثبوت دو۔اور پھر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگو۔ دیکھو! مدد آئے گی۔لیکن اگر بے صبرے ہوگئے تم اور اللہ کے آگے جھکنا نہ جانا تم نے تو پھر تمہارا اللہ تعالیٰ سے کیا تعلق؟[إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿١٥٣﴾]یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔
[وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُ‌ونَ ﴿١٥٤﴾] اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مردہ نہ کہو۔ ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں۔مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر ، فاقہ کشی، جان ومال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کرکےتمہاری آزمائش کریں گے۔

آزمائشیں تو آئیں‌ گی:
یعنی جب تم دین کے راستےپر چلو گے، اللہ کا بندہ بن کر زندگی گزارنا چاہو گے تو ہر آن کوئی نہ کوئی آزمائش اس زندگی میں آتی رہے گی۔ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جو کوئی مصیبت پڑے تو کہیں: ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔یعنی وہ ان مصائب کی وجہ سے زندگی میں الجھ کر نہ رہ جائیں۔اپنے اصل مقصد اور کام سے نہ ہٹ جائیں۔
اب آپ دیکھیں کہ منصب امامت تو مل رہا ہےلیکن جو شخص جتنے بڑے مرتبے پر فائز ہوتا ہے اس کی مشکلات بھی اتنی ہی بڑی ہوتی ہیں۔جو امت اتنا بڑا کام کرنے والی ہے ، اس کے راستے میں کئی مشکلات آئیں گی۔اس میں مال کی کمی بھی ہوگی، خوف وخطر بھی ہوگا، بعض اوقات بھوک بھی برداشت کرنی ہوگی، بعض اوقات لوگوں کی باتیں بھی سننا ہوں گی۔ یہ سب چیزیں جب پیش آئیں تو اس وقت کیا سوچو؟ [اِنَّا لِلّٰهِ]ہم بھی تو اللہ کے ہیں[وَإِنَّا إِلَيْهِ رَ‌اجِعُونَ ﴿١٥٦﴾]اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ہم سب کو بھی یقیناً۔ اس لیے پروا نہیں۔ یہ سب تکلیفیں وقتی ہیں۔ آزمائش ہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ کی مدد آئے گی۔وہ اپنی جوار رحمت میں لے لے گا۔
[أُولَـٰئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّ‌بِّهِمْ وَرَ‌حْمَةٌ ۖ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ ﴿١٥٧﴾ ]ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایات ہوں گی۔اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں۔

آڈیو لنک
[/FONT]
 
Top