• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ایصال ثواب اور اجتماعی قرآن خوانی

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ایصال ثواب اور اجتماعی قرآن خوانی

محمد رضی الاسلام ندوی

برِّ صغیر ہند و پاک میں ایک رسم یہ جاری ہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد ایصالِ ثواب کے لئے اجتماعی قرآن خوانی کی جاتی ہے ، رشتے دار ، دوست احباب اور دیگر متعلّقین جمع ہوتے ہیں ، ان کی تعداد کم ہوتی ہے ، یا زیادہ تعداد کا دکھاوا کرنا ہوتا ہے تو کسی مدرسے کے مولوی صاحب کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں ، وہ مدرسے کے معصوم صورت بے چارے طلبہ کو ہانک کر لاتے ہیں ، قرآن کے سیپاروں کا ڈبّہ منگوایا جاتا ہے ، ترتیب سے سیپارے پڑھے جاتے ہیں ، گھنٹے دو گھنٹے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ دس بارہ قرآن ختم ہوگئے ہیں ، تب مولوی صاحب پڑھے گئے قرآن کا ثواب میّت کو پہنچاتے ہیں ، پھر طے شدہ نذرانہ لے کر رخصت ہوجاتے ہیں _سوال یہ ہے کہ کیا اس طریقے سے پڑھے گئے قرآن کا ثواب میّت کو پہنچتا ہے ؟ کسی شخص نے زندگی بھر قرآن کو ہاتھ نہیں لگایا ، اس کا ایک لفظ بھی نہیں پڑھا ، کیا اس کے مرنے کے بعد ، اس سے تعلق کی بنا پر ، یا کرایے پر ، اس کی طرف سے کچھ لوگ قرآن پڑھ لیں تو کیا اس کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں شامل کردیا جائے گا؟

جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی عقیدہ یا عمل ، جو قرآن اور صحیح حدیث کے صریح بیانات سے ٹکراتا ہو وہ قابلِ قبول نہیں ہوسکتا :
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :لاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ اُخْرَی "کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا_”
یہ آیت قرآن مجید میں 5 مقامات پر آئی ہے (الانعام: 164، الإسراء : 15، فاطر:18، الزمر:7،النجم:38) اس سے دین کی ایک بنیادی تعلیم کا علم ہوتا ہے، وہ یہ کہ کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کے نامہ اعمال پر مہر لگا دی جاتی ہے ، پھر اس میں نہ کچھ اضافہ کیا جا سکتا ہے نہ کچھ کمی _
مروّجہ ایصالِ ثواب اور اجتماعی قرآن خوانی کے قائلین اپنی تائید میں ایک حدیث پیش کرتے ہیں ، جو یہ ہے :
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا :
” إذَا ماتَ الإنسانُ انقَطَع عَنه عَمَلُه إلاّ مِن ثلاثةٍ ؛ إلاّ مِن صَدَقَةٍ جاريَةٍ، أو علمٍ يُنْتَفَعُ بِه، أو وَلَدٍ صالِحٍ يَدْعُو له ".
(مسلم :1631)
” جب کسی شخص کا انتقال ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال پر اجر ملنے کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے ، سوائے 3 کاموں کے( کہ ان پر اسے برابر اجر ملتا رہتا ہے) : ایک ایسا صدقہ جس کا فیض برابر جاری رہے ، دوسرے ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں ، تیسرے نیک اولاد، جو اس کے لیے دعا کرتی رہے _”
اس حدیث میں قرآن مجید کی بنیادی تعلیم کو دہرانے کے بعد تین معاملات میں استثناء بیان کیا گیا ہے، اس لیے حدیث سے جس حد تک کوئی بات ثابت ہو اسی پر اکتفا کرنا چاہیے ، اس پر قیاس کرکے غیر ثابت شدہ باتوں کو ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے _ غور کیا جائے تو درحقیقت حدیث میں کوئی استثناء نہیں ہے _ تینوں اعمال سابق میں کیے گئے انسان کے ذاتی اعمال ہیں ، جن کا اس کے مرنے کے بعد جاری رہنا اسے ان کے اجر کا مستحق بنا دیتا ہے _
دین کی اس اہم اور بنیادی تعلیم کی جانب جب توجہ دلائی جاتی ہے تو بعض حضرات کہتے ہیں : "آدمی تنہا قرآن پڑھتا ہی ہے _ اجتماعی طور پر قرآن پڑھنے سے برکت حاصل ہوتی ہے تو ایسا کرنے میں کیا حرج ہے؟” عرض ہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اجتماعی قرآن خوانی محض حصولِ برکت کے لیے نہیں ہوتی ، بلکہ اس میں قرآن کا ثواب میت کو پہنچانے کا تصوّر شامل ہوتا ہے _ بعض حضرات کہتے ہیں کہ "پھر کسی شخص کے انتقال پر تعزیتی پروگرام یا سمینار کیوں کیے جاتے ہیں ؟” عرض ہے کہ تعزیتی پروگرام یا سمینار ایک سماجی یا علمی کام ہے ، اسے عبادت سمجھ کر نہیں انجام دیا جاتا ہے ۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ "پھر اجتماعی نماز جنازہ کیوں پڑھی جاتی ہے اور لوگ اکٹھا ہوکر میّت کو چارپائی پر لٹا کر قبرستان کیوں لے جاتے ہیں ؟” عرض ہے کہ کہ یہ اعمال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے قولاً اور عملاً ثابت ہیں ، اس لیے ان کی انجام دہی باعثِ ثواب ہے _ بعض حضرات ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں : "ہم اجتماعی طور پر قرآن ہی تو پڑھتے ہیں ، کسی ڈانس پارٹی میں تو شرکت نہیں کرتے ”
عرض ہے کہ نماز پڑھنا ایک باعثِ اجر و ثواب عمل ہے ، لیکن فجر اور مغرب کی فرض نمازیں چار رکعت نہیں پڑھی جاسکتیں ، اس لیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسا ثابت نہیں ہے ،اس لیے کوئی بھی عمل ، جسے عبادت اور تقرّب سمجھ کر انجام دیا جائے ، اس کا قرآن و سنت سے ثابت ہونا ضروری ہے ، ورنہ وہ عمل شریعت میں تبدیلی اور تحریف ہوگا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ایصال ثواب کے مشروع اور غیر مشروع طریقے


الحمد للّٰہ کفیٰ وسلام علیٰ عباد ہ الذین اصطفیٰ اما بعد!
اس عنوان کے تحت مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ایصال ثواب کے مشروع طریقوں پر روشنی ڈالی جائے اور اس کے بعد ایصال ثواب کے غیر مشروع طریقوں پر گفتگو کی جائے ۔
ایصال ثوا ب کے مشروع طریقے:
ایصال ثواب کے مشروع طریقوں سے مراد وہ اعمال و اقوال ہیں جن سے میت کو فائدہ پہونچتا ہے، خواہ اجر و ثواب کی صورت میں ہو ،یا بخشش و مغفرت کی صورت میں، یا عذاب و گناہ سے نجات کی صو رت میں ،کتاب و سنت کے نصوص پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایصال ثواب کے درج ذیل طریقے مشروع ہیں ۔

(١) قرض کی ادائیگی :ا گر وفات پانے والا شخص کسی کا مقروض ہو تو ایسی صورت میں سب سے پہلے اس کے بہی خواہوں کو اس کے قرض کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہئے، چنانچہ اگر اس کا ترکہ اتنا ہے کہ اس سے اس کے قرض کی ادائیگی ہو سکتی ہے تو اس کے کفن دفن کے انتظام کے بعد سب سے پہلے اس سے اس کے قرض کی ادائیگی کرنی چاہئے، اور اگر اس کا ترکہ اس قدر نہیں ہے تو اگر کوئی دوسرا شخص اپنے پاس سے اس کا قرض ادا کردے تو بھی اس سے میت کو فائدہ پہنچے گا ، اور قرض کی وجہ سے جو وہ جنت سے محبوس تھا اس سے اسے نجات مل جائے گی ، حضرت سعد بن اطول رضی اللہ عنہ سے رو ا یت ہے کہ ان کے بھائی کا انتقال ہوا اور انہوں نے تین سو درہم اور چھوٹے چھوٹے بچے اپنے پیچھے چھوڑے ،میں نے چاہا کہ ان دراہم کو ان کے بچوں پر خرچ کروں مگر نبی مکرم ﷺنے مجھ سے فرمایا: تمہارا بھائی اپنے قرض کی وجہ سے محبوس ہے اس واسطے اس کا قرض ادا کردو ،چنانچہ میں نے جاکر ان کا قرض ادا کردیا، پھر آکر رسول اللہ ﷺ سے کہا :یا رسول اللہ !میں نے ان کا قرض ادا کردیا ہے اور صرف دو دینار باقی ہیں جن کا ایک عورت دعویٰ کر رہی ہے اور اس کے پاس کوئی ثبوت اور گواہ نہیں ہے ،آپ نے فرمایا : انہیں بھی ادا کردو کیونکہ وہ سچ کہہ رہی ہے ۔(رواہ ابن ماجہ: 2/ 813، واحمد :5/ 7،والبیہقی وصححہ البوصیری والالبانی)

٭٭ اور سیدناجابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص کا انتقال ہوا ہم نے اسے غسل دیا، خوشبو لگایا اور کفن پہنایا، پھر اسے لے جاکر مقام جبریل کے پاس اس جگہ رکھا جہاں جنازے رکھے جاتے تھے، پھر ہم نے رسول اللہ ﷺ کو اس کی اطلاع دی ،آپ تشریف لائے اور ہمارے ساتھ چند قدم چلے پھر فرمایا :شاید تمہارے ساتھی کے ذمہ کچھ قرض ہے ؟لوگوں نے کہا :ہاں، دو دینار ہے، یہ سن کر آپ پیچھے ہٹ گئے ،اور فرمایا تم لوگ اپنے ساتھی کی نماز پڑھ لو ،پھر ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نےکہا :اے اللہ کے رسول !میں ان دونوں دینار کے ادا کرنے کی ذمہ داری لیتا ہوں ،آپ نے فرمایا: وہ دونوں تمہارے ذمہ اور تمہارے مال میں ہیں اور میت ان سے بری ہے؟انہوں نے کہا: ہاں ،پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کے جنازے کی نماز پڑھی اور جب تیسرے دن انہوں نے قرض ادا کردیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا :اب اسے سکون ملا۔(رواہ الحاکم: 2/ 66، والبیہقی : 6/ 72،والطیالسی واحمد: 4/ 50،باسناد حسن)

(٢) نمازجنازہ ادا کرنا: میت کو ایصال ثواب کا دوسرا مشروع طریقہ یہ ہے کہ اس کے جنازہ کی نماز میں شرکت کی جائے اور اس میں اس کے لئے مغفرت کی دعا اور شفارش کی جائے ،کیونکہ نماز جنازہ اور نمازیوں کی اس کے لئے دعا اور سفارش کو اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے اور اس کی وجہ سے اس کے لئے جنت کو واجب کردیتا ہے ،رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ جب میت پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت جن کی تعداد سو تک پہنچ جائے نماز پڑھتی ہے اور سب اس کے لئے سفارش کرتے ہیں تو ان کی سفارش قبول کی جاتی ہے ۔(رواہ مسلم: 3/ 52، والنسائی:4/ 75، والترمذی: 3/ 348)

(٣) دعا کرنا: میت کے لئے دعا کرنے کی تین شکلیں ہیں ایک دفن سے فارغ ہونے کے بعد قبر کے پاس کھڑے ہوکر اس کی ثبات قدمی اور مغفرت کے لئے دعا کرنا اور دوسرے کسی بھی وقت اس کے لئے دعا کرنا تیسرے خاص طور سے اولاد کا اس کے لئے دعا کرنا اور یہ تینوں طریقے مشروع ہیں ؛

چنانچہ سیدناعثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو اس کے پا س کھڑے ہوتے اور فرماتے:
اسْتَغْفِرُوا لأَخِيكُمْ وَسَلُوا لَهُ التَّثْبِيتَ فَإِنَّهُ الآنَ يُسْأَلُ“۔
(رواہ ابو داود: 3/ 209، والحاکم: 1/ 526، وقال :صحیح الاسناد ووافقہ الذہبی والالبانی)
یعنی تم لوگ اپنے بھائی کے لئے مغفرت کی دعا کرو اور اس کے لئے ثبات قدمی مانگو کیونکہ اس وقت اس سے سوال کیا جارہا ہے۔ اس سے قبر کے پاس دعا کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔
اوراللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ﴾ (الحشر: ١٠) اور جو لوگ ان کے بعد آئے وہ دعا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہماری اور ہمارے ان بھائیوں کی مغفرت فرما جو ایمان میں ہم سے سبقت لے گئے ،اور نبی کریم ﷺنے فرمایا : مسلمان کی اس کے بھائی کے لئے اس کے پیٹھ پیچھے کی دعا قبول کی جاتی ہے اور اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے جو جب جب یہ اپنے بھائی کے لئے خیر کی دعا کرتا ہے تو کہتا ہے آمین اور تیرے لئے بھی اسی کے مثل ہو ۔(رواہ مسلم:8/ 86، وابوداود:1/ 563، واحمد: 5/ 195)
ان دلائل سے اپنے مسلمان بھائی کے لئے وفات کے بعد مطلق دعا کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔رہا اولاد کا والدین کے لئے دعا کرناتو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

”إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلا مِنْ ثَلاثَةٍ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ“(رواہ مسلم : 5/ 73،واصحا ب السنن )
جب انسان انتقال کرجاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے ،مگر تین چیزوں کااجرو ثواب اسے مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے(١) صدقہ جاریہ(٢) ایسا علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے (٣) نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرے۔

(٤) اس کی جانب سے نذر کے روزے رکھنا: سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ میری والدہ انتقال کرگئیں اور ان کے ذمہ نذر کا روزہ تھا ،آپﷺ نے فرمایا:تم ان کی جانب سے وہ روزے رکھ دو ۔اور بعض علماء نے مطلق فرض روزوں کو میت کے ولی کے لئے رکھنا جائز کہا ہے، کیونکہ حضرت عائشہ ﷞ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :”مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ“ (صحيح البخاری:3/ 46،صحيح مسلم:3/ 155) جو اس حال میں مرگیا کہ اس کے ذمہ روزے ہو ں تو اس کاولی اس کی جانب سے روزے رکھے گا۔

(٥) اولاد کا اعمال صالحہ کرنا: کیونکہ اولاد جب اچھے اعمال کرتی ہے تو اس کے والدین کو بھی اسی کے مثل ثواب ملتا ہے اس کے بغیرکہ اس کے ثواب میں کچھ کمی ہو، کیونکہ اس کی تعلیم وتربیت میں جو انہوں نے حصہ لیا اور محنت کی ہے اس کی وجہ سے بھی وہ اجر و ثواب کے مستحق ہیں، رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:”مَنْ دَعَا إِلَى هُدًى كَانَ لَهُ مِنَ الأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ لاَ يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا وَمَنْ دَعَا إِلَى ضَلاَلَةٍ كَانَ عَلَيْهِ مِنَ الإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ لاَ يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ آثَامِهِمْ شَيْئًا“ (رواہ مسلم:8/ 62) جس نے ہدایت کی جانب دعوت دی اسے بھی اس کی اتباع کرنے والوں کے مثل اجر ملے گا، اور اس کی وجہ سے ان کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔

(٦) اولاد کا اس کی جانب سے صدقہ کرنا: اولاد کا اپنے والدین کی وفات کے بعد ان کی جانب سے صدقہ وخیرات کرنا بھی ان کے ایصال ثواب کا مشروع وجائز طریقہ ہے، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہاکہ: میری ماں کا اچانک انتقال ہوگیا اور وہ کوئی وصیت نہیں کرسکیں،میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بولنے کا موقع ملتا تو وہ صدقہ کرتیں تو اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کروں تو کیا انہیں ثواب ملے گا ؟آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں۔(صحيح مسلم:3/ 81)
(٧) اس کی قبر کی زیارت کرنا اور مغفرت کے لئے دعا کرنا : کیونکہ رسول اللہﷺ خود مدینہ کے قبرستان بقیع الغرقد جایا کرتے تھے اور وہاں مدفون مسلمانوں کے لئے دعا فرمایاکرتے تھے ،سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ بقیع جاتے اور ان کے لئے دعا کرتے، پھر میں نے آپ سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا :مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان کے لئے دعا کروں۔اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کے آخری حصے میں بقیع جاتے اور یہ کہتے:” السَّلاَمُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ وَاَنَا وَإِيَاكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ غَدًا مُؤَجَّلُونَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لاَحِقُونَ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لأَهْلِ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ “(رواہ مسلم : 3/ 63،والنسائی : 4/ 93،وابن السنی: 3/ 137)
مگر قبروں پر جاکر سجدہ کرنا ،ان سے مدد طلب کرنا ،کسی حاجت کو پورا کرنے یا مصیبت کو رفع کرنے کے لئے ان سے دعا کرنا یا قبروں کا طواف کرنا حرام ہے ، اسی طرح اس کے لئے کوئی تاریخ مثلا پندرہ شعبان متعین کرنا ثابت نہیں ۔

(٨) حج کرنا: میت کی جانب سے حج کرنا بھی اس کے لئے مفید اور اجر و ثواب کاباعث ہے ،سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت رسول اللہ کے پاس آئی اور کہاکہ میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی مگر حج کرنے سے قبل ہی وہ انتقال کرگئیں تو کیا میں ان کی جانب سے حج کروں؟ آپ نے فرمایا: ان کی جانب سے حج کرو ،بتاؤ اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو تم اس کو ادا کرتیں ؟حج کرو، اللہ کا قرض ادا کرنے کا زیا دہ حق رکھتا ہے ۔(رواہ البخاری:3/ 22)

ایصال ثواب کے غیر مشروع طریقے:
آج مسلمانوں نے فوت شدہ لوگوں کے ایصال ثواب کے لئے شرعی طریقوں کو چھوڑ کر بہت سے غیر شرعی طریقے اختیار کررکھے ہیں جو کسی طرح سے بھی ثابت اور درست نہیں ان میں سے چند یہ ہیں ۔
(١) قرآن خوانی کرنا: میت کے ایصال ثواب کے لئے قرآن خوانی کی دو صورتیں ہیں ایک اس کی قبر کے پاس اور دوسرے گھر پر یا مسجد میں اور دونوں کا کتاب و سنت سے کوئی ثبوت نہیں ہے، بلکہ احادیث سے ان کی عدم مشروعیت کا پتہ چلتا ہے ،کیونکہ حضرت عائشہ ﷞ نے جب رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ جب وہ قبر کی زیارت کریں تو کیا کہیں ؟تو آپ نے انہیں سلام اور دعا کی تعلیم دی اور فرمایاکہ:”السَّلَامُ عَلَى أَهْلِ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ وَيَرْحَمُ اللهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِينَ وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ“(صحيح مسلم:3/ 64،مسند أحمد:6/ 221)کہو ، اور انہیں سورة فاتحہ یا سورة اخلاص یا سورة یٰس یا قرآن کی کسی اور سورت یا آیات کے پڑھنے کے لئے نہیں کہا، اور اگر قبر کے پاس فاتحہ پڑھنا یا قرآن خوانی کرنا ایصال ثواب کا باعث یا جائز ہوتا تو آپ انہیں ضرور بتاتے کیونکہ حاجت کے وقت بیان کو مؤخر کرنا جائز نہیں ہے علاوہ از یں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”لاَ تَجْعَلُوا بُيُوتَكُمْ مَقَابِرَ ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَفِرُّ مِنَ الْبَيْتِ الَّذِي يُقْرَأُ فِيهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ“(اخرجہ الترمذی :5/ 157،و مسلم:2/ 188،واحمد:2/ 284)یعنی تم اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ کیونکہ شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورة بقرہ پڑھی جاتی ہے۔
٭٭٭ اس سے معلو م ہوا کہ مقبرہ قرآن پڑھنے کی جگہ نہیں ہے اسی واسطے اس گھر کو جس میں قرآن نہ پڑھا جائے آپ نے مقبرہ سے تشبیہ دی رہا کسی گھر یامسجد میں قرآن پڑھ کر یا پڑھوا کر اس کا ثواب میت کو بخشنا تو اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ،اس واسطے یہ بھی بدعت ہے ۔ شیخ علی متقی رسالہ ”رد البدعات “ میں لکھتے ہیں: ”الاِجْتِمَاعُ لِقِرَاءةِ الْقُرْآنِِِ علیٰ الميتِ بالتَخْصِيْصِ فی المَقْبَرَةِ والمَسجدِ والبيتِ بدعة مَذْمُوْمَة“یعنی خاص میت کے لئے قران خوانی کے واسطے مقبرہ یا مسجد یا گھر میں اکٹھا ہونا بدعت مذمومہ ہے ،اور اجرت دے کر قرآن پڑھوانا کسی کے نزدیک درست نہیں۔

(٢) قبر پر پھول اور چادر وغیرہ چڑھانا : کیونکہ اس کا بھی صحیح سند سے کوئی ثبوت نہیں ہے ،
اور جناب عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا : ”كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ، وَإِنْ رَآهَا النَّاسُ حَسَنَةً“ (الإبانۃ الكبرى لابن بطۃ:1/ 339)یعنی ہربدعت ضلالت ہے اگرچہ لوگ اس کو اچھا سمجھیں ۔اور جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے کھجور کی ایک شاخ کے دوٹکڑے کرکے ان دونوں قبر پر رکھ دیا جن میں مدفون لوگوں کو عذاب دیا جارہا تھا اور فرمایا : امید ہے کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں گے ان دونوں کے عذاب میں کچھ تخفیف ہوگی ،تو یہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص تھا ،کیونکہ صحابہ کرام نے اس پر عمل نہیں کیا حالانکہ اگر عام ہوتا تو وہ ضرور اس پر عمل کرتے ۔

(٣) قبرپرجانور ذبح کرنا: میت کے ایصال ثواب کے لئے اس کی قبر پر جانور ذبح کرنا ممنوع اور باعث گناہ ہے کیونکہ اگر اسے صاحب قبر کے لئے ذبح کیا گیا جیسا کہ بعض جاہل کرتے ہیں تو یہ صریح شرک ہے اور اس کا کھانا فسق اور حرام ہے ،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ (الانعام:145) اور رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا :”لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ“(صحيح مسلم:6/ 84)یعنی غیر اللہ کے لئے ذبح کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہو، اور اگر اسے لوجہ اللہ ذبح کیا تو بھی حرام ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”لَا عَقْرَ فِي الْإِسْلَامِ“(سنن أبی داود:3/ 209)اسلام میں قبروں کے پاس جانور ذبح کرنا جائز نہیں۔

(٤) قبرپر چراغاں کرنا : اس کا بھی کتاب و سنت سے کوئی ثبوت نہیں اس واسطے یہ بھی بدعت ہے اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” وَإِنَّ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ“(مسند أحمد:4/ 126) اور بیشک ہر بدعت ضلالت ہے ، نیز اس میں بلا وجہ مال کو ضائع کرنا ہے جو شرعاممنوع ہے ۔علاوہ ازیں اس میں مجوس کی مشابہت بھی ہے جو آگ کی پوجا کرتے ہیں ،
ابن حجر الہیتمی (ایک بدعتی مولوی )اپنی کتاب الزواجر میں لکھتے ہیں کہ ہمارے اصحاب نے قبروں پر چراغ جلانے کی حرمت کی تصریح کی ہے ،کیونکہ اس سے کوئی استفادہ نہیں کرتا اور اس کی علت اسراف، مال کی تضییع اور تشبہ بالمجوس بتائی ہے ۔
(٥) تیجہ، دسواں، چالیسواں یا برسی وغیرہ کرنا: اگر بلا کسی دن کی تعیین کے ایصال ثواب اور صدقہ کی نیت سے میت کی اولادغریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلائے تو اس کا ثواب ان شاء اللہ میت کو پہنچے گا کیونکہ اولاد کا اپنے والدین کی جانب سے صدقہ کرنا ثابت ہے،جیسا کہ ایصال ثواب کے شرعی طریقوں میں گذر چکا ہے،لیکن تیسرے دن یا دسویں یا چالیسوں دن یا برسی اور ششماہی کو خاص کرکے مسکینوں کو کھانا کھلانا یا قرآن خوانی کرنا بدعت ہے ، کیو نکہ اس کے لئے کسی خاص دن کے مقرر کرنے کا کوئی ثبوت کتاب و سنت سے نہیں ملتا، اس واسطے ایسی مجلسوں میں شرکت کرنا بھی ممنوع ہے ۔
(٦) بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ ہر جمعہ کی شب مؤمنوں کی روحیں اپنے مکان پر اور اہل و عیال میں آتی ہیں اور خیرات وصدقات کی طالب ہوتی ہیں،چنانچہ جمعرات کو خاص طور سے لوگ ان کی طرف سے کھا نا کھلاتے ہیں اور صدقہ و خیرات کرتے ہیں ، حالانکہ اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور ایسا عقیدہ رکھنابالکل غلط ہے،کیونکہ انتقال کے بعد روحیں،عالم برزخ میں اپنے اپنے مستقر پر رہتی ہیں اور دنیا میں دوبارہ واپس نہیں آتیں۔

٭٭معزز قارئین!یہ ہیں ایصال ثواب کے چندشرعی اور غیر شرعی طریقے ،آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں غیر شرعی طریقوں سے بچنے اور شرعی طریقوں کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام بدعات وخرافات سے بچا کرشاہراہ کتاب وسنت پر چلائے۔
آمین وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
 
Last edited:

غرباء

رکن
شمولیت
جولائی 11، 2019
پیغامات
86
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
46
حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ایک قبر پر گزرے تو عذاب ہورہا تھا ۔کچھ وقفہ کے بعد پھر گزرے تو ملاحظہ فرمایا کہ نور ہی نور ہے اور وہاں رحمت ِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ کی بارش ہورہی ہے ۔ آپ علیہ السلام بہت حیران ہوئے اور بارگاہِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی کہ مجھے اس کا بھید بتایا جائے ۔ارشاد ہوا : ’’اے عیسیٰ ! یہ سخت گنہگار اور بدکار تھا ، اس وجہ سے عذاب میں گرفتار تھا لیکن اس نے بیوی حاملہ چھوڑی تھی ۔اس کے لڑکا پیدا ہوا اور آج اس کو مکتب بھیجا گیا ، استاذ نے اسے بسم اللہ پڑھائی ، مجھے حیاء آئی کہ میں زمین کے اندر اس شخص کو عذاب دوں جس کا بچہ زمین پر میرا نام لے رہا ہے ۔‘‘(التفسیرالکبیر، الباب الحادی عشر، ج۱، ص۱۵۵ملخصاً)


کیا یہ واقعہ صحیح ہے اکثر لوگ اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیتے ہیں, اور پاکستان میں قرآن خوانی کرنے کے لئے اس کو کو دلیل بناتے ہیں ہیں تو کیا یہ بات ٹھیک ہے۔؟؟؟؟

جزاک اللہ خیرا
 

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام ایک قبر پر گزرے تو عذاب ہورہا تھا ۔کچھ وقفہ کے بعد پھر گزرے تو ملاحظہ فرمایا کہ نور ہی نور ہے اور وہاں رحمت ِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ کی بارش ہورہی ہے ۔ آپ علیہ السلام بہت حیران ہوئے اور بارگاہِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی کہ مجھے اس کا بھید بتایا جائے ۔ارشاد ہوا : ’’اے عیسیٰ ! یہ سخت گنہگار اور بدکار تھا ، اس وجہ سے عذاب میں گرفتار تھا لیکن اس نے بیوی حاملہ چھوڑی تھی ۔اس کے لڑکا پیدا ہوا اور آج اس کو مکتب بھیجا گیا ، استاذ نے اسے بسم اللہ پڑھائی ، مجھے حیاء آئی کہ میں زمین کے اندر اس شخص کو عذاب دوں جس کا بچہ زمین پر میرا نام لے رہا ہے ۔‘‘(التفسیرالکبیر، الباب الحادی عشر، ج۱، ص۱۵۵ملخصاً)


کیا یہ واقعہ صحیح ہے اکثر لوگ اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیتے ہیں, اور پاکستان میں قرآن خوانی کرنے کے لئے اس کو کو دلیل بناتے ہیں ہیں تو کیا یہ بات ٹھیک ہے۔؟؟؟؟

جزاک اللہ خیرا
[/QUOTE
 

usmansahfi

مبتدی
شمولیت
جنوری 05، 2023
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
9
یہ اُردو میں کوئی بتا دے؟
ٹھيک ہے شکريہ.

اس قصے کی کوئی اصل نہیں ہے اور نہ ہی علماء میں سے کسی نے اسے سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔

اسے رازی نے اپنی تفسیر المقاوت الغیب (1/155)، ابن عادل حنبلی (1/159)، ابن عادل حنبلی (85/<>) اور محمد مفضل بن عزوز نے "العقوق الدریہ فی بکۃ التنائم" (ص <>) میں نقل کیا ہے۔

حضرت عیسیٰ بن مریم رضی اللہ عنہا ایک قبر کے پاس سے گزرے اور دیکھا کہ عذاب کے فرشتوں کو اذیت یں دی جا رہی ہیں اور جب وہ ضرورت سے رخصت ہوئے تو قبر کے پاس سے گزرے اور انہوں نے رحمت کے فرشتوں کو روشنی کے برتنوں کے ساتھ دیکھا اور اس پر حیرت کا اظہار کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی کی: اے عیسیٰ، یہ بندہ نافرمان تھا، اور جب سے وہ مر گیا ہے وہ میرے عذاب میں قید ہے اور اس نے ایک حاملہ عورت کو جنم دیا ہے۔ اور میں نے اسے اس وقت تک زندہ کیا جب تک کہ وہ بڑا نہ ہو گیا تو میں نے اسے کتاب کے حوالے کر دیا اور استاد نے اسے اللہ کے نام سے تعلیم دی جو نہایت مہربان اور رحم کرنے والا ہے اور میں اپنے بندے پر شرمندہ تھا کہ وہ اسے زمین کے پیٹ میں آگ سے اذیت دے اور اس کے بیٹے کو زمین پر میرا نام یاد آیا۔

یہ معاملہ بغیر سند کے ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ بنی اسرائیل میں سے ایک ہے جسے بعض مفسرین سند کے بغیر نقل کرتے ہیں۔

اس قصے کا مطلب ایک بلند حدیث ہے، لیکن یہ ایک جھوٹا موضوع ہے۔

ثالبی نے اپنی تفسیر کشف و البیان (1/91) میں اس حدیث کو نقل کیا ہے اور کہا ہے: ابو عبداللہ محمد بن علی نے ہمیں بتایا، احمد بن سعید نے ہمیں بتایا، جعفر بن محمد بن صالح نے ہمیں بتایا، محمد بن القاسم فارسی نے ہمیں بتایا، ابو محمد عبداللہ بن احمد الشیبانی نے ہمیں بتایا، احمد بن کامل بن خلف نے ہمیں بتایا، احمد بن کامل بن خلف نے ہمیں بتایا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: نئی زمین پر چلنے والوں میں سب سے بہتر اور بہترین استاد ہیں، لہٰذا جب بھی دین پیدا ہو جائے تو اس کی تجدید کرو، اسے دو اور ان کی خدمات حاصل نہ کرو، تو اگر استاد لڑکے سے کہے کہہ دو کہ اللہ کے نام پر سب سے زیادہ مہربان اور رحم کرنے والا لڑکا اپنے والدین کے لیے بے گناہ ہے۔

یہ حدیث کا موضوع ہے۔

ابن الجوزی اختلاف کے معاملات کی تحقیقات (2/219) میں کہتے ہیں: اس حدیث کو پڑھنا جائز نہیں ہے، کیونکہ یہ احمد بن عبد اللہ حراوی کا کام تھا، جو جویری تھا، اور وہ جھوٹا تھا جس نے اس حدیث کو پیش کیا۔ تمام اوپر. اسے سیوطی نے "لولع المسنہ فی الحدیث المودعہ" (1/180) میں اور شوکانی نے المفید مجمع فی الحدیث المسمہ (ص 276) میں روایت کیا ہے۔

آخر میں، جس کہانی کا ذکر کیا گیا ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے، اور یہ کہانیوں اور بنی اسرائیلیوں کی طرح ہے.

اور اللہ بہتر جانتا ہے۔
 
Top