• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تربیت اولاد

شمولیت
نومبر 05، 2020
پیغامات
7
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
5
تربیت اولاد

تربیت اولاد پہ آپکو بہت سارا مواد پڑھنے کو ملے گا لیکن میں نے تھوڑا مختلف انداز اختیار کرنے کی کوشش کی ہے امید کرتی ہوں یہ آرٹیکل ہمیں ایک نئی سوچ ضرور دے گا ان شاءاللہ۔۔۔۔۔ دعاؤں کی طالب :ام محمد

بچے تو ماں باپ کے باغ کے پھول ہوتے ہیں۔ ان کی خوشبو میں ہی گھر مہکتے ہیں۔ بچوں کے وجود کے بنا گھر ویران دکھائی دیتے ہیں۔ بچوں کی کلکاریاں پریشانی گھٹاتی اور خوشی بڑھاتی ہیں۔ گویا بچے اللہ کی نعمتوں میں سے عظیم نعمت ہیں۔دعا ہے کہ جن والدین کو ان خوبصورت پھولوں سے نوازا ہے ان کی مہک ہمیشہ برقرار رہےاور باعث تسکین بنی رہے آمین ۔ اور جو اس نعمت سے محروم ہیں اللہ انھیں صالح اولاد عطا فرمائے آمین

معزر قارئین! اگر آج کے موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں علم تو کافی مقدار میں ملے گا لیکن عملی جھلک شاذ و نادر ہی آنکھوں کو میسر آتی ہے۔خواہ وہ زندگی کا کوئی بھی پہلو کیوں نہ ہو ؟ اب یہاں بات ہو رہی ہے اولاد کی تربیت کی تو اس میں بھی ہمیں پڑھے لکھے والدین تو واسطہ پڑتا ہے لیکن ان کی تربیت بادی النظر ہی ہوتی ہے۔ہم نے کبھی سوال اٹھایا کہ آج کل ہمارا معاشرہ بے راہ روی کا شکار کس لئے ہے؟ کیوں ہر دوسرا نوجوان ڈپریشن کا شکار ہے؟ کیوں ہمارے بچے ذہنی انتشار کا شکار ہیں؟ معزرین! ہم نے تربیت کو کچھ اور ہی رنگ چڑھا دیا ہے۔ فرد کر معاشرے کی اساس کہا گیا ہے فرد فرد سے مل کر معاشرے کی تشکیل کرتا ہے۔ اور ایک فرد کو اچھا انسان بنانے کے لئے تربیت بنیادی کردار کی حامل ہے۔ آخر ہمیں کونسے عوامل اپنانے چاہیں جو ہماری اولاد کی تربیت میں معاون ہوں، جو ہمارے لئے فائدہ مند ہوں اور آخرت میں بھی جوابدہی آسان ہو جائے۔ اولاد کی تربیت ایک خاصا کٹھن مرحلہ شمار کیا جاتا ہے کیونکہ اللہ نے بہت بڑی ذمہ داری اولاد کی صورت میں دی ہے۔

حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پہ پیدا ہوتا ہے۔لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (صحیح بخاری#1359)

بچے کی تربیت کا آغاز تو ماقبل پیدائش شروع ہو جاتا ہے۔ جب حمل کی عمر چار ماہ کے قریب ہوتی ہے تو فرشتہ اس میں روح پھونک دیتا۔ ' حدیث کے مطابق وہ اسکی عمر ، اسکا بخت گویا وہ خوش بخت ہے یا بد بخت ' لکھ کر لے جاتا ہے ۔ اگر یوں کہہ لیا جائے کہ خوش بختی اور بد بختی کسی حد تک والدہ کے اعمال پہ منحصر ہوتی ہے۔ جس طرح بچہ جسمانی بڑھوتری کے لئے ماں کے رحم و کرم پہ ہوتا ہے اسی طرح ذہنی سوچ اور فطرت بننے میں بھی ماں کا کردار شامل ہوتا ہے۔جس انداز میں ماں سوچے گی اسی انداز میں بچے کی سوچ نشونما پائے گی۔ اگر ماں جھوٹ کی عادی ہے تو اس کی اولاد بھی یہ خاصیت پائے جانے کے امکان موجود ہوں گے الا یہ کہ اللہ اپنا رحم کرے اور بچے کو ٹھیک راہ دکھائی دے۔اسی لئے پرانے وقتوں کی نانیاں،دادیاں عورت کو خوش رہنے ، اچھا سوچنے اور قرآن کو زیادہ سے زیادہ پڑھنے کی تلقین کرتی تھیں۔ یہ انسان کی فطرت بننے کا مرحلہ ہوتا ہے۔ اس کی کسی چیز کے بارہ کیا رائے ہے اسی عرصہ میں طے پاتا ہے۔ بات بس یہاں پہ ہی نہیں اختتام پا جاتی بلکہ یہاں اس تربیت کا آغاز ہوتا ہے جس کا ذمہ دار اللہ نے والدین کوبنایا ہے ۔ والدین کے ہاتھوں اچھا یا برا ماحول دے دیا جاتا ہے۔

حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اولاد کی تربیت اس طرح نقل کی ہے: والد کے ذمہ اولاد کا حق ہے کہ اسکا اچھانام رکھے اوراسے دودھ پلانے والی کے ساتھ احسان کرے اور اسے اچھا ادب سکھائے۔

مذکورہ بالا حدیث میں لفظ والد کا استعمال ہوا ہے گویا کہ والد کے ذمہ بھی اولاد کی تربیت اتنا حق رکھتی ہے جتنا کہ ماں کی۔ بلاشبہ ماں کی گود کو بچے کی پہلی درسگاہ کہا گیا ہے لیکن معززین ! اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ باپ بری ہیں ۔ باپ صرف پیسے لا کے دینے کی حد تک نہیں بندھے ہوئے انھیں ادب سکھانے کی بھی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم اپنے سلف صالحین کی زندگیوں کا جائزہ لیں تو وہ اپنی اولاد کی تربیت کے لئے خاصے سنجیدہ تھے۔ اگر ان کی اولاد کوئی نافرمانی کر بیٹھتی تو وہ لعن طعن اور احسان جتلانے کے بجائے کثرت سے استغفار کرتے اور نوافل کا اہتمام کرتے۔

اولاد کے ساتھ بے حد شفیق اور نرم رویہ رکھنا چاہئے۔ ان سے پیار کریں انھیں دکھائیں کہ ان سے زیادہ عزیز اور کوئی نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو پیکر شفقت و رحمت تھے۔

’’سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بوسہ دیا۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اقرع بن حابس تمیمی بھی بیٹھے تھے وہ بولے: (یا رسول اللہ!) میرے دس بیٹے ہیں میںنے تو کبھی اُن میں سے کسی کو نہیں چوما۔ اِس پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کی طرف دیکھ کر فرمایا: جو رحم نہیں کرتا اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

نفسیات بھی اس بات کی قائل ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد اگراسے بوسہ دیا جاتا ہے تو اس میں خود اعتمادی آتی ہے وہ خود کو بااعتماد محسوس کرتا ہے کہ مجھے کھلے دل سے اس دنیا میں خوش آمدید کہا گیا ہے۔ یہ عمل بعد میں پیدا ہونے والے مسائل کو روکتا ہے۔

اولاد کی تربیت میں ماں کا خاصا کردار شامل ہوتا ہے۔ جیسے مائیں سکھائیں گی ویسے ہی بچے سکھیں گے۔ آج کے دور میں ہم نے پڑھی لکھی مائیں تو دیکھی ہیں جو کہ اپنی اولاد کو اردو، انگریزی سکھا دینے کو ہی تربیت کل سمجھتی ہیں۔ ان کی تربیت ہی یہی ہوتی ہے کہ ان کا بچہ فر فر انگریزی بولتا ہے۔ اچھا پہنتا ہے دوسرے بچوں میں پر اعتماد نظر آتا ہے۔اس بات پہ ایک دوسرے پہ فخر کیا جاتا ہے۔ یہ تربیت کا ایک پہلو تو ہوسکتا ہے لیکن اسکو ہی تربیت کانام دے دینا قطعاً درست نہ ہوگا۔ تربیت زبانیں سکھانے، پہننے، اوڑھنے کا نام نہیں بلکہ وہ آداب و اطوار ہیں جن کے تحت انسان صحت مند اور قابل قبول زندگی گزارتا ہے اور ایسا صرف اسلامی قوانین کے ذریعے ہی ممکن نظر آتا ہے۔ کیونکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ۔۔۔ اللہ نے انسان کی زندگی کا مقصد واضح طور پہ بیان کر دیا ہے کہ اللہ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ تربیت حقوق اللہ اور حقوق العباد کو خوش اسلوبی سے ادا کرنے کا نام ہے۔ ۔۔۔ کرنے کے عمل کا نام تربیت ہے۔

اگر ہم اپنے نو عمر بچوں کے سامنے تقاریر کی بوچھاڑ بھی کر دیں تو ان کی سمجھ سے بالا تر ہو گا۔ بچوں پہ الفاظ کا اثر کہاں ہوتا ہے بچے تو وہ کرتے ہیں جو وہ بڑوں کو کرتا ہوا دیکھتے ہیں۔ایک ماہر نفسیات(جے بی واٹسن)کے مطابق بچوں کو کچھ بھی بنایا جاسکتا ہے ان کا کہنا تھا کہ انھیں ایک درجن صحت مند بچے دے دیں وہ انھیں اپنی مرضی سے کسی بھی چیز کا ماہر بنا سکتے ہیں۔ بچے وہی کرتے ہیں جو وہ دیکھتے ہیں بچوں میں نقل کرنے کا مادہ سب سے زیادہ ہوتا ہےجس کے لئے نفسیات میں ایک اصطلاح(ماڈلنگ)استعمال کی جاتی ہے۔ میں یہ نہیں کہتی کہ الفاظ بے اثر ہوتے ہیں۔ الفاظ کی بھی تاثیر ہوتی ہے جیسے جیسے بچے بڑھتے ہیں ان کے لئے الفاظ کی تاثیر بڑھتی چلی جاتی ہے لیکن عمل وہ وہی کریں گے جو والدین کو کرتے پائیں گے۔ بسا اوقات ہم اپنے بچوں سے بڑوں والی توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ جو کام ہم سرانجام دینا نہیں چاہتے وہ بچوں سے امید کر بیٹھتے ہیں۔ اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں ہم اکثر اپنے بچوں سے کہتے ہیں کہ بیٹے جھوٹ نہیں بولنا اللہ پاک گناہ دیتے ہیں۔ جو پیارے بچے ہوتے ہیں نا وہ ہمیشہ سچ بولتے ہیں ۔۔۔ جب ہم نے انھیں عملی طور پہ بات سمجھانی ہوتی ہےتو ہم چوک جاتے ہیں۔ جب ہمیں سچ بولنا پڑے تو ہم کوئی بات گھڑ لیتے ہیں جیسے دروازے پہ کوئی آئے بابا آپ سے ملنے انکل آئے ہیں اور انکل سے ملنے کو دل نہ چاہتا ہوتو ہمارا جھٹ سے جواب ہوتا ہے ہے کہ کہہ دو ںابا گھر نہیں ہیں۔ بچوں پہ ہمارے لمبے چوڑے واعظ کی بجائے ہمارے عمل کا دیرپا تاثر قائم رہتا ہے۔

ایک مصنفہ نے لکھا تھا اولاد کی تربیت کرنے کے لئے لڑکی کو بیس سال پہلے اپنی تربیت کر لینی چاہئیے۔ کیونکہ لفظوں سے زیادہ عمل تاثیر رکھتا ہے۔ ماں اگر صوم و صلوہ کی پابند ہے تو اولاد بھی ماں کے دیکھا دیکھی پڑھے گی خواہ انھیں نماز کی دعائیں یاد ہوں نہ ہوں ۔ یہاں اس مرحلے پہ انسان کی قولی تربیت کام آتی ہے دعائیں سکھانے میں یا کوئی بھی ایسی تعلیم دینے میں۔ اگر ماں ٹی۔وی۔ میوزک سنتی ہے تو اولاد بھی اس فتنے سے باز نہیں رہے گی۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی اولاد کو اچھا اور نیک انسان بنانے کے لئے خود کو ٹھیک کرنا ہوگا خود اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنی ہوگی تاکہ ہماری اولاد ہمارے لئے صدقہ جاریہ بن جائے ناکہ وبال جان ۔۔۔

اللہ ہمیں اپنی زندگی اسلامی قوانین کے مطابق گزارنے کی توفیق دے آمین۔

وماعلینا الاالبلاغ۔۔۔

ازقلم : ام محمد
 
Top