• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

تفسیر سورۂ اخلاص

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
تفسیر سورۂ اخلاص
مصنف: شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

اس کے ترجمہ کی سعادت محترم جناب مولانا غلام ربانی نے حاصل کی ہے۔ اس سورۂ اخلاص کی تفسیر میں خالص توحید کو مدلل انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اور اس میں عیسائیت، مادہ پرستی، ہندوازم، قدریت، جہمیت اور رافضیت جیسے باطل نظریات پر کڑی تنقید بھی ہے۔ چند آیات کی تفسیر میں قرآن و سنت کے بے شمار نئے نئے نکات و معارف کا انکشاف ہے۔ یہ کتاب اہل علم کے لیے ایک بے نظیر علمی خزانہ ہے۔ مکتبہ نذریہ، لاہور نے اسے 1979ء میں حسن طباعت سے آراستہ کیا تھا۔

سورۂ اخلاص قرآن کریم کی مختصر اور اہم ترین سورتوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ ایک تہائی قرآنی موضوعات کا احاطہ کرتی ہے اور توحید کا محکم انداز میں اثبات کرتی ہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے زیر نظر کتاب میں اسی سورۃ کی تفسیر رقم فرمائی ہے اور حق تو یہ ہے کہ اس کا حق ادا کر دیا ہے۔
توحید کے حوالے سے کتاب میں اسلام کی تقریباً تمام تعلیمات پر بحث سمٹ آئی ہے۔ اتحاد و اتفاق پر خصوصی زور دیا گیا ہے اور عقائد باطلہ کا رد مضبوط دلائل سے کیا گیا ہے۔ چنانچہ کتاب کے مطالعہ سے جہاں ایک طرف قرآن کی عظمت و عمق کا اندازہ ہوتا ہے وہاں امام موصوف کی معلومات کی وسعت و گہرائی، لغت و بیان پر مکمل عبور اور نظر و بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ اس طرح یہ کتاب علماء کے ساتھ ساتھ عام قارئین کے لئے بھی یکساں مفید ہے۔ ترجمہ خوبصورت اور رواں ہے۔ طباعت بھی معیاری ہے۔ (قومی ڈائجسٹ ستمبر 1979ء)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الْحَمْد للهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلا مُضِلَّ لَهُ، وَمْنْ يَضْلُلُ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدُهُ لا شَرِيكَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدَاً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ۔ صلي الله عليه وسلم تسليما۔

سورۂ اخلاص
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّـهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿٤﴾

کہہ دیجئے کہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے۔ نہ اس نے جنا اور نہ وہ جنا گیا اور اس کا کوئی ہمسر نہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
الصمد کی تفسیر

اسمِ صمد کے متعلق سلف سے متعدد تفاسیر منقول ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ یہ تفاسیر باہم مختلف ہیں لیکن درحقیقت وہ سب درست ہیں، ان میں سے دو قول سب سے زیادہ مشہور ہیں، ایک یہ کہ صمد وہ ذات ہے جس میں کھوکھلا پن نہ ہو، دوسرا یہ کہ صمد اس سردار کو کہتے ہیں جس کی طرف لوگ اپنی حاجتیں لے جائیں۔
پہلے قول سے اکثر صحابہ و تابعین اور اہل لغت کی ایک جماعت نے اتفاق کیا۔ دوسرے قول کی تصدیق سلف و خلف کی ایک جماعت، جمہور اہل لغت اور ان آثار و روایات سے ہوتی ہے جو مستند کتب تفاسیر و صحاح ستہ وغیرہ میں سلف سے مروی ہیں۔ الصمد کی یہ تفسیر کہ یہ وہ چیز ہے جس میں کھوکھلا پن نہ ہو، موقوفاً اور مرفوعاً (موقوف وہ روایت ہوتی ہے جس کی سند صحابی تک پہنچ کر رک جائے ، مرفوع وہ روایت ہے جس کا سلسلہ اسناد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچے۔ مترجم) سیدنا ابن مسعود، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم اجمعین سے اور حسن بصری، مجاہد، سعید بن جبیر، عکرمہ، ضحاک، سدی اور قتادہ سے منقول ہے۔ سعید بن مسیب کا قول ہے کہ صمد اس چیز کو کہا جاتا ہے جس میں’’حشو‘‘ نہ ہو۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول بھی یہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ انہوں نے ’’حشو‘‘ کی بجائے جمع کا صیغہ ’’احشاء‘‘ استعمال کیا ہے۔ شعبی کا قول ہے کہ صمد اس چیز کو کہا جاتا ہے، جو نہ کھائے، نہ پیئے۔ محمد بن کعب قرظی اور عکرمہ سے مروی ہے کہ انہوں نے صمد کے معنی مصمت (ٹھوس چیز) بتائے ہیں۔ ابن قیتبہ کا قول ہے کہ گویا ’’تا‘‘، ’’د‘‘ سے بدل گئی ہے اور ’’صمت‘‘ دراصل ’’صمد‘‘ ہی ہے۔ میرے نزدیک ابدال نہیں، بلکہ اشتقاقِ اکبر ہے۔ اور ان شاء اللہ العزیز اس قول کی وجہ بلحاظ اشتقاق و لغت آگے چل کر بیان کی جائے گی اور اس کی تائید و ثبوت میں وہ حدیث پیش کی جائے گی جو اس آیت کے سبب نزول کے متعلق امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں روایت کی ہے اور اس کے علاوہ ابو سعد صنعانی کی بھی حدیث پیش کریں گے۔
محدث ابو جعفر رازی نے ہم سے ایک حدیث بیان کی ہے، جو انہوں نے ربیع بن انس سے اور انہوں نے ابو عالیہ سے اور انہوں نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ ﷺ سے کہا۔ ’’ہمیں اپنے رب کا نسب نامہ بتاؤ‘‘۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ’’قل ھو الله احد اللہ الصمد‘‘ کی سورت مبارکہ نازل فرمائی، آپ ﷺ نے فرمایا، ’’الصمد وہ ہوتا ہے جو نہ خود کوئی بیٹا بیٹی جنے اور نہ کسی اور نے اُسے جنا ہو۔ کیونکہ جو چیز کسی سے پیدا ہوتی ہے اس کو موت لازم ہے اور یہ ضروری ہے کہ جو چیز مرے اس کا کوئی وارث ہو، حالانکہ اللہ تعالیٰ نہ تو مرتا ہے اور نہ اس کا کوئی وارث ہو سکتا ہے اور یہ تفسیر کہ ’’صمد‘‘ وہ ہوتا ہے جس کی طرف لوگ اپنی حاجتیں لے کر جائیں تو یہ بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے موقوفاً و مرفوعاً مروی ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
یہ تفسیر والبی نے بروایت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ہے۔ آپ نے فرمایا؛ ’’صمد‘‘ اس سردار کو کہتے ہیں جس کی سرداری کامل ہو۔ ابو وائل شقیق بن سلمہ سے مشہور روایت ہے کہ آپ نے فرمایا، ’’صمد وہ سردار ہوتا ہے جس کی سیادت انتہا کو پہنچی ہوئی ہو۔ ابو اسحق کوفی بروایت عکرمہ ناقل ہیں کہ صمد وہ ہے جس سے برتر کوئی نہ ہو۔ علی اور کعب الاحبار سے مروی ہے کہ صمد وہ ہوتا ہے کہ مخلوق میں سے کوئی شخص اس کی برابری نہ کر سکے۔ سدی سے بھی مروی ہے کہ صمد کا اطلاق اس پر ہوتا ہے کہ جس کی طرف لوگ آرزوئیں لے کر جائیں اور مصیبتوں کے وقت اس سے فریاد کریں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صمد وہ ہوتا ہے جو ہر ایک سے بے نیاز ہو اور ہر شخص اس کا محتاج ہو۔ سعید بن جبیر سے منقول ہے کہ صمد وہ ہے جو اپنے سارے افعال و صفات میں کامل ہو۔ ربیع سے مروی ہے کہ صمد اس شخص کو کہا جاتا ہے جس پر آفات وارد نہ ہو سکیں۔ مقاتل بن حیان سے مروی ہے کہ صمد وہ ہے جس میں کوئی عیب نہ ہو۔ ابن کیسان سے روایت ہے کہ صمد اس ذات کا نام ہے جس کی صفات دوسروں سے نرالی ہوں، ابوبکر انباری فرماتے ہیں، اہل لغت میں اس بات کے متعلق کوئی اختلاف نہیں کہ صمد اس سردار کو کہتے ہیں جس سے برتر کوئی نہ ہو اور جس کی طرف لوگ امورِ حاجات لے کر جائیں۔ زجاج کا قول ہے کہ صمد وہ ہے جس پر سیادت ختم ہوتی ہو۔ ہر چیز کا صمود اس کی طرف ہو یعنی ہر شے اس کا قصد کرے اور کسی چیز کا صمود اس کی طرف ہونے کے یہ معنی ہیں کہ ہر ایک چیز میں اس کی صفت کا پتہ چلتا ہے۔ اس لفظ کے متعلق دو مشہور شعر بھی کہے گئے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے: ؎
الا بکر الناعی بخیر بنی اسد
بعمرو بن مسعود بالسید الصمد
کیا خبر مرگ دینے والے نے علی الصبح قبیلہ بنی اسد کے بہترین رکن عمرو بن مسعود کی خبر نہیں دی جو سید صمد ہے۔
دوسرا شعر یہ ہے: ؎
علوتہ بحسامی ثم قلت لہ
خذھا حذیف فانت السید الصمد
میں نے اپنی تلوار اٹھا کر اس کے سامنے پیش کی اور اس سے کہا کہ حذیف اسے لے لیجئے، کیونکہ آپ تو سید صمد ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
بعض اہل لغت نے کہا ہے کہ صمد وہ سردار ہوتا ہے۔ جو مقصود حاجات ہو۔ عرب لوگ کہا کرتے ہیں: صمدت فلانا اصمدہ (بالکسر) واصمدہ (بالضم) صمدا ( بہ سکون میم) اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ میں نے اس کی طرف جانے کا قصد کیا اور جس طرح قبض مقبوض اور نقض منقوض کے معنوں میں استعمال ہو سکتا ہے۔ اسی طرح صمد مصمود کا ہم معنی ہو سکتا ہے۔ جب لوگ کسی گھر کی طرف بوقت حاجات جانے کا ارادہ کیا کریں تو وہ گھر بیتِ مصمود اور بیتِ مصمد کہلاتا ہے۔ طرفہ کا قول ہے:
وان یلتق الحی الجمیع تلاقنی
الی ذردۃ البیت الرفیع الصمد
اور اگر سارا قبیلہ جمع ہو تو بلند اور مصمد مکان کی چوٹی پر مجھ سے ملاقات کرے گا۔
( قدیم عرب میں یہ دستور تھا کہ اپنی طبعی فیاضی کے اقتضا سے لوگ بلند پہاڑوں کی چوٹیوں پر آگ جلایا کرتے تھے تاکہ بھوکے لوگ آگ کی روشنی دیکھ کر ادھر کا رخ کریں اور انہیں کھانا کھلایا جائے۔ اسی لحاظ سے شاعر نے یہ شعر بطور افتخار کہا ہے۔ (مترجم)
جوہری کا قول ہے کہ صمد، یصمد، صمدا، قصد یقصد قصدا کے معنی پر آتا ہے اور سردار کو کہتے ہیں جس کی طرف بوقتِ حاجات قصد کیا جائے اور بیت مصمد (بالتشدید) بیتِ مقصود کے معنی میں آتا ہے۔ اور اس کے معنی اس گھر کے ہیں جس کی طرف لوگ قصد کریں۔ خطابی کے نزدیک صحیح ترین قول یہ ہے کہ صمد وہ سردار ہوتا ہے جس کی طرف بوقت حاجات قصد کیا جائے کیونکہ اشتقاق اس کی شہادت دیتا ہے۔ صمد کا اصل قصد ہے جب یہ معنی ادا کرنے مقصود ہوں کہ میں فلاں شخص کی طرف جانے کا ارادہ کرتا ہوں تو اقصد قصد فلان کی بجائے اصمد صمد فلان بھی کہا جاتا ہے۔ اس لئے صمد وہ سردار ہے جس کی طرف اُمور و معاملات میں صمود (رجوع و ارادہ) کیا جائے اور بوقت حاجات اس کا قصد کیا جائے۔ قتادہ کا قول ہے کہ صمد کا اطلاق اس ذات پر ہوتا ہے جو اپنی مخلوقات کے بعد بھی باقی رہے۔ مجاہد و معمر کا قول ہے کہ صمد دائم (ہمیشہ) رہنے والے کو کہتے ہیں۔ خطابی اور ابو الفرج بن الجوزی نے اس بارے میں چار قول نقل کئے ہیں، دو تو یہی ہیں جو ابھی بیان ہوئے اور دو پہلے آ چکے ہیں اور ان شاء الله ہم بیان کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات بقا و دوام اس کی صمدیت کے لوازم ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مرۃ الہمدانی سے مروی ہے کہ صمد اس ذات کو کہا جاتا ہے جسے کہنگی اور فنا لاحق نہ ہو۔ انہی سے یہ بھی روایت ہے کہ صمد اس ذات کا نام ہے جس کے احکام و افعال کسی دوسرے شخص کی مرضی اور ارادے کے تابع نہ ہوں، جس کے حکم پر کوئی نظر ثانی نہ کر سکے اور جس کی قضا (یعنی فیصلہ) اٹل ہو۔ ابن عطاء کا قول ہے کہ صمد وہ ذات ہے جو بننے اور بگڑنے سے بالا ہو۔ نیز انہی کا قول مروی ہے کہ صمد اس ذات کو کہا جاتا ہے جس پر ان اُمور کا کوئی اثر نمایاں نہ ہو جو اس کی طرف سے ظہور پذیر ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُّغُوْبٍ (ق)
اور ہمیں کوئی تکان محسوس نہیں ہوئی۔
حسین بن الفضل کا قول ہے کہ صمد اس ذاتِ ازلی کو کہا جاتا ہے، جس کی کوئی ابتداء نہ ہو۔ محمد بن علی الحکیم الترمذی فرماتے ہیں کہ صمد کا اطلاق اس ذات پر ہوتا ہے جو اوّل ہے لیکن عدد سے پاک ہے، اس کی بقاء کی کوئی انتہا نہیں، اور وہ ستون اور سہارے کے بغیر قائم ہے، انہی کا قول ہے کہ صمد وہ ذات ہے جس کے ادراک اور احاطہ سے آنکھیں قاصر ہوں جس پر افکار و خیالات حاوی نہ ہوں، جس کی وسعت اقطار و اطراف کی قیود سے آزاد ہو۔ اور جس کے پاس ہر ایک چیز کا اندازہ و حساب موجود ہو۔ ایک قول یہ ہے کہ صمد اُس ذات کو کہتے ہیں جو مصوروں کی صورت گری سے بالاتر ہو۔ نیز کہا گیا ہے کہ صمد اس ذات کا نام ہے جو تجزیہ و ترکیب سے پاک ہو۔ اس قول کے ساتھ بہت سے اہل کلام نے اتفاق کیا ہے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ صمد اس ہستی کا نام ہے جس کی کیفیت معلوم کرنے سے عقلیں مایوس ہو جائیں۔ علی ہٰذا القیاس یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اس ذات کا نام ہے جس کے اوصاف و محامد کی حقیقت معلوم نہ ہو سکے، نہ زبان اس کے بیان پر قادر ہو اور نہ عقل اس کی طرف اشارہ کر سکے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اسم ذات پر صادق آتا ہے جس کے متعلق اس کی مخلوق کو نام اور صفت کے سوا اور کوئی علم نہ ہو۔ جنید بغدادی رحمہ اللہ سے ایک قول مروی ہے کہ اسم صمد اس ہستی کے متعلق بولا جاتا ہے جس کے دشمنوں کو اس کی پہچان کی کوئی راہ معلوم نہ ہو۔
میں کہتا ہوں کہ بلحاظ اشتقاق یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ صمد وہ ہستی ہے جس میں کھوکھلا پن نہ ہو۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ صمد سردار کو کہا جاتا ہے۔ البتہ پہلی صورت میں اشتقاق کی دلالت واضح تر ہے کیونکہ پہلی صورت دوسری کی اصل ہے۔ لفظِ صمد لغت میں بھی اسی چیز پر بولا جاتا ہے جس میں کھوکھلا پن نہ ہو۔
یحییٰ بن ابی کثیر کا قول ہے کہ فرشتے صمد ہیں اور آدمی جوف، حدیث میں ہے کہ ابلیس نے آدم علیہ السلام کے متعلق کہا کہ وہ اجوف (کھوکھلا) ہے صمد نہیں ہے۔
جوہری کا قول ہے کہ لغت میں مصمد کے معنی مصمت کے ہیں اور مصمت اس چیز کو کہتے ہیں جس میں کھوکھلا پن نہ ہو۔ انہی کا قول ہے کہ ’’صماد‘‘ شیشی کے ’’عفاص‘‘ کو کہتے ہیں اور صمد مضبوط اور بلند مکان کے لئے بولا جاتا ہے۔ ابو النجم کا قول ہے:
یغادر الصمد کظہر الاجزل
بلند زمین کو پشت ناقہ (یعنی اونٹ کی پیٹھ) کی مانند بنا دیتا ہے۔
اس مادہ کے اصل معنی جمع و قوت کے ہیں۔ چنانچہ یصمد المال یجمع المال (مال جمع کرتا ہے) کے معنی میں آتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سید کی تفسیر

سید کا اصل سیود ہے۔ ’’ی‘‘ اور ’’واؤ‘‘ کا اجتماع ہوا اور ان میں سے پہلے حرف پر سکون ہے، اس لئے واؤ، یا میں بدل کر مدغم ہو گئی۔ علی ھٰذا القیاس میت کا اصل میوت ہے۔ سواد (سیاہی) اور سودو (سرداری) کا مادہ بھی جمع پر دلالت کرتا ہے۔ سیاہ رنگ جامع بصارت ہے اور اللہ تعالیٰ کے قول وسید او حصورا سے بھی اسی معنی کی توضیح ہوتی ہے۔ سلف صالحین میں سے اکثر بزرگوں نے سیدا حلیما فرمایا ہے۔ حسن، سعید بن جبیر، عکرمہ، عطا، ابو الشعثا بن انس اور مقاتل سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
ابوردق بروایت ضحاک فرماتے ہیں کہ صمد خوش اخلاق کو کہتے ہیں۔ سالم نے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے کہ اس کے معنی پرہیزگار (متقی) کے ہیں اور جب تک کوئی شخص اپنے اندر اخلاق حسنہ اور ثبات جمع نہ کرے وہ لوگوں پر سیادت حاصل نہیں کر سکتا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صمد خوش اخلاق کو کہتے ہیں۔ سالم نے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے کہ اس کے معنی پرہیزگار (تقی) کے ہیں اور جب تک کوئی شخص اپنے اندر اخلاق حسنہ اور ثبات جمع نہ کرے وہ لوگوں پر سیادت حاصل نہیں کر سکتا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی شخص کو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ ذی سیادت نہیں پایا۔ ان سے کہا گیا کہ آیا سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما بھی سیادت میں فائق تر نہیں تھے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ان سے بہتر ضرور ہیں لیکن بلحاظ سیادت رسول اللہ ﷺ کے بعد میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے ان کی مراد حلم تھی۔ چنانچہ کہا گیا ہے:
اذا شئت یوماً ان تسود قبیلۃ
فبا لحلم سد لا بالتسرع والشتم
جب تو کسی قبیلہ پر سیادت حاصل کرنا چاہے تو جلد بازی اور بدگوئی سے نہیں بلکہ نرمی سے سردار بن۔
چنانچہ سلف صالحین کی ایک جماعت نے سید کی تفسیر یہ کی ہے کہ، ’’سید وہ ہے جو دین میں اپنی قوم کا سردار ہو‘‘۔
ابن زید کا قول ہے کہ سید شریف کو کہتے ہیں۔ زجاج کا قول ہے کہ سید اس کو کہتے ہیں جو نیکی کے اعتبار سے اپنی قوم میں سب سے بالاتر ہو۔ ابن ابناری کا قول ہے کہ سید اس شخص کو کہا جاتا ہے جو نیکی کے کام میں پیشوا اور رئیس کا درجہ رکھتا ہو۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور مجاہد سے مروی ہے کہ سید اس فرد کو کہتے ہیں جو اپنے پروردگار کے ہاں عزیز ہو۔ سعید ابن مسیب سے مروی ہے کہ سید فقیہ، عالم کو کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سید و صمد میں معنوی مماثلت

شیشے یا بوتل کا منہ بند کرنے کے لئے جو چمڑا لگایا جاتا ہے وہ ’’صماد‘‘ کہلاتا ہے اور اس کا دوسرا نام ’’عفاص‘‘ ہے جس چیز کو موجودہ عرف میں کارک کہا جاتا ہے اور جو بوتل کے منہ میں داخل کی جاتی ہے اسے ’’صمام‘‘ کہتے ہیں۔ "عفصت القاروره" کے معنی یہ ہیں کہ قارورہ کے منہ پر چمڑا باندھا گیا۔
میں کہتا ہوں کہ صحیح حدیث میں نبی ﷺ سے لقطہ (راستے میں گری پڑی چیز) کے متعلق مروی ہے کہ اس کے عفاص (تھیلی) اور وکاء (بندھن) کو پہنچواؤ اور عفاص سے وہ چیز مراد ہے جس میں درہم وغیرہ ہوں۔ مثلاً کپڑے کا ٹکڑا جس میں روپے باندھے جاتے ہیں اور روکاء اس دھاگے کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ سے اس کپڑے کا منہ باندھا جاتا ہے اور یہ عفاص قارورہ کی جنس سے ہوتا ہے۔ عفص، سید، صمد کے معنی باہم ملتے جلتے ہیں اور ان سب میں جمع اور قوت کے معنی پائے جاتے ہیں۔ "طعام عفص" یا "طعام فیہ عفوصۃ" اس کھانے کو کہتے ہیں جو قابض ہو اور اسی سے عفص ہے جس سے روشنائی بنائی جاتی ہے۔
جوہری کا قول ہے کہ لفظ عفص مولد ہے (مولد: اس لفظ کو کہتے ہیں جو کسی دوسری زبان سے معرب نہ ہو بلکہ عربی الاصل ہو لیکن کسی مناسبت کے باعث جدید مضمون میں مستعمل ہونے لگا ہو) اور بدؤں کی زبان میں یہ مستعمل نہیں ہے۔ لیکن اس میں کوئی حرج نہیں، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے ہاں کوئی ایسی چیز موجود ہی نہ تھی جس کا نام وہ عفص رکھتے۔ تاہم اصول کلام عرب میں اس کا استعمال جاری ہے اور اسی طرح جو چیز بوتل کے منہ میں داخل ہو جاتی ہے اسے ’’صمام‘‘ (کارک) کہتے ہیں کیونکہ اس مادے میں جمع اور قوت کے معنی ہیں۔ جوہری کا قول ہے کہ بوتل کی ’’صمام‘‘ (کارک) اس چیز کو کہتے ہیں جس سے اس کا منہ بند ہو جائے۔
’’حجر اصم‘‘ اس پتھر کو کہتے ہیں جو سخت اور ٹھوس ہو۔ ’’رجل اصم‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جو کان بند ہونے کے باعث کوئی بات سن نہ سکے۔ ’’رجل صمت‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جو شجاع ہو۔ اور ’’صمت‘‘ سانپ کو بھی کہتے ہیں۔ ’’صمیم شے‘‘ اس شے کے خالص حصے کو کہتے ہیں جہاں کوئی ایسی اور چیز داخل نہ ہو سکے جو اس پر فائق و غالب ہو کر اسے ضعیف کر دے۔ چنانچہ ’’صمیم الحر‘‘ شدتِ گرمی کو اور ’’صمیم البرد‘‘ شدت سردی کو کہتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ’’فلان من صمیم قومہ‘‘ (فلاں شخص اپنی قوم میں شجاع و ممتاز ہے) صمصام اس شمشیر براں کا نام ہے جس کا منہ نہ مڑے۔ ’’الصمم فی السیر‘‘ تیز رو کو کہتے ہیں۔ ’’رجل صمم‘‘ فربہ و قوی ہیکل آدمی کو کہتے ہیں۔ بلحاظ اشتقاق اکبر صوم کا تعلق بھی اس لفظ سے ہے کیونکہ صوم (روزہ) امساک (بند رہنا) کو کہتے ہیں۔
سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ طعام کلام یا چلنے سے باز رہنا صوم یعنی روزہ کہلاتا ہے، کیونکہ امساک میں اجتماع ہوتا ہے اور صائم (روزہ دار) کے پیٹ میں بھی کوئی چیز داخل نہیں ہوتی اور جب گھوڑا گھاس چارے کے بغیر رہے تو کہا جاتا ہے ’’صَامَ الْفَرْس‘‘ ۔ نابغہ کا قول ہے:
خیل صیام و خیل غیر صائمۃ
تحت العجاج و اخری تعلک اللجما
کچھ گھوڑے تو گھاس چارہ چھوڑے بیٹھے ہیں، کچھ کھا رہے ہیں اور کچھ لگامیں چبا رہے ہیں۔ الخ۔
اسی طرح سد، سداد، سددد اور سواد ہیں اور اسی طرح لفظ صمد میں جمع کے معنی ہیں اور جمع میں قوت ہوتی ہے کیونکہ جس چیز کے اجزاء باہم مجتمع ہوں اور ان میں کوئی خلل نہ ہو تو وہ اس چیز سے قوی تر ہوتی ہے، جس میں خلو ہو۔ مضبوط اور مرتفع مکان کو اسی لئے صمد کہتے ہیں کہ اس میں مضبوطی، تماسک اور اجتماعِ اجزاء ہوتا ہے۔ ’’رجل صمد‘‘ وہ سردار ہوتا ہے جس کی طرف لوگ جانے کا ارادہ کریں۔ ایسے آدمی کو مصمود، مقصود لہ اور مقصود الیہ بھی کہتے ہیں اور لوگ اپنی حاجتیں اس آدمی کے پاس لے کر جاتے ہیں جو انہیں پورا کرے اور لوگوں کی حاجتیں وہی شخص پوری کر سکتا ہے جو خود مجتمع، قوی اور ثابت قدم ہو۔ اور ایسا شخص سردار اور کریم کہلاتا ہے۔ اس کی ضد کو ہلوع و جزوع کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ شخص جو لوگوں کی حاجات کی کثرت کے باعث پریشان ہو جاتا ہے، اس کی گرانباری کے نیچے دب جاتا ہے اور اس کے قویٰ اسے جواب دے جاتے ہیں، ایسا آدمی سردار صمد نہیں ہوتا کہ لوگ اس کی طرف حاجتیں لے کر جائیں۔ سردار اس شخص کو کہتے ہیں جو صمد ہو۔ کیونکہ اس میں ایسے اوصاف ہوتے ہیں کہ لوگ اپنی ضروریات کے وقت اس کی طرف جاتے ہیں۔ ان کی زبان میں سید کے معنی دور یا نزدیک کی طرح اضافی نہیں ہیں بلکہ وہ ایک ایسی حقیقت ہے جو سید (سردار) کے ساتھ قائم ہے اور جس کی وجہ سے لوگ اس کی طرف آتے ہیں۔
سید، سدود اور سواد سے مشتق ہے۔ اور اشتقاقِ اکبر میں یہ لفظ سداد کی جنس سےہے۔ کیونکہ اہل عرب حرفِ علت کی جگہ حرف مضاعف اور حرفِ مضاعف کی جگہ حرفِ علت استعمال کر لیتے ہیں۔ چنانچہ تقضی البازی و تقضض لبازی کے ایک ہی معنی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اول الذکر کا استعمال مقبول تر ہے کیونکہ مؤخر الذکر میں ثقل واقع ہوتا ہے اور ’’ساد‘‘ اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری چیز کو ایسا درست کرے کہ اس میں خلو باقی نہ رہے۔
سداد، قاردہ اور سداد ثغر اسی سے مشتق ہے اور سداد بھی اسی سے ہے جس کے معنی درست کے ہیں اور قول سدید (درست بات) بھی اسی سے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: واتقوا الله و قولوا قولا سدیداً (اللہ سے ڈرو اور درست بات کہو۔)
روایات مظہر ہیں کہ بعض لوگوں نے اس کے معنی قصد حق (سچا ارادہ)، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے قصدِ صَواب (درست ارادہ)، قتادہ و مقاتل، عدل اور سدی نے مستقیم کئے ہیں۔ اور یہ سب اقوال صحیح ہیں۔ "قول سدید" مطابق و موافق قول کو کہتے ہیں۔ اور اگر وہ خبر ہو تو وہ صحیح اور مخبر کے قول کے مطابق ہو گی۔ اس میں کمی بیشی نہ ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ سداد کی تفسیر قصد سے اور قصد کی عدل سے ہوتی ہے۔
جوہری کا قول ہے کہ تسدید کے معنی سداد کی توفیق کے ہیں اور سداد قول اور عمل میں درستی و میانہ روی کا نام ہے۔ مسدد آدمی وہ ہوتا ہے جو درستی اور اعتدال سے کام کرے۔ مسدد کے معنی مقوم کے ہیں ’’سدد رمحہ‘‘ کے معنی ہیں اس نے اپنا نیزہ سیدھا کیا۔ ’’امر سدید‘‘ اور امر اسد" کے معنی بھی معتدل کام کے ہیں۔ ’’استد الشئ‘‘ کے معنی ہیں کہ وہ چیز سیدھی ہو گئی۔ شاعر کہتا ہے:
اعلمہ الرمایۃ کل یوم
فلما استدسا ساعدہ رمانی
میں ہر روز اسے تیر اندازی سکھاتا ہوں، اور جب اس کا ہاتھ صاف ہو جاتا ہے تو مجھے ہی آماجگاہ بنا لیتا ہے۔
بقول سعدی:
کس نیا موخت علم تیر ازمن
کہ مرا عاقبت نشانہ نہ کرو
اس شعر میں "استد ساعدہ" کے معنی ہیں۔ اس کا بازو سیدھا ہو گیا۔ یعنی اسے تیر اندازی کی مہارت ہو گئی۔
اصمعی کہتا ہے کہ بعضوں نے ’’اشتدساعدہ‘‘ کہا ہے لیکن اس کے کچھ معنی نہیں ہیں۔ سداد کو قصد سے جو تعبیر کیا جاتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ لفظِ قصد میں جمع اور قوت کے معنی ہیں اور قصد عدل کو کہتے ہیں اور سداد و صواب کے بھی یہی معنی ہیں اور عدل اس چیز کو کہتے ہیں جس میں کمی بیشی نہ ہو اور اسی کو جامع و مطابق کہتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’علی الله قصد السبیل‘‘ قصد السبیل سے مراد سبیلِ قصد یعنی عدل کا راستہ ہے اور آیت کریمہ کے معنی یہ ہوئے کہ "عادل راہ اسی تک منتہی ہے۔" اسی طرح ’’اِنَّ عَلَیْنَا لَلْھُدٰی‘‘ سے مراد ’’الھدی الینا‘‘ یعنی تمام ہدایتیں ہم تک منتہی ہوتی ہیں۔
ان دونوں آیتوں کی تفسیر میں جس قدر اقوال وارد ہوئے ہیں ان سب میں سے یہ قول زیادہ صحیح ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قَالَ ھٰذَا صِرَاطِ عَلَی مُسْتَقِیْم (آل عمران:14)
اس سے بھی اسی قول کی تائید ہوتی ہے۔ بلحاظ اشتقاق اوسط لفظ صدق بھی اسی لفظ سے مشتق ہے کیونکہ اس میں وہی حروف ہیں جو قصد میں ہیں۔ کسی بات میں سچا ہونے سے مراد بھی یہی ہے کہ وہ بات خبر دینے والے کے قول کے مطابق ہوئی ہے اور سدید کے بھی یہی معنی ہیں جن کا ذکر آ چکا ہے۔ صدق سخت نیزے کو کہتے ہیں اور اس کے معنی مستوی بھی کئے گئے ہیں اور مستوی وہ ہوتا ہے جو معتدل اور سخت ہو اور اس میں خلل اور کجی نہ ہو۔ نیز صندوق کی جمع صنادیق ہے، اس سے مشتق ہے کیونکہ جو کچھ اس میں رکھا جاتا ہے، وہ اسے جمع رکھتا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اشتقاق کی تین قسمیں

باب اشتقاق میں یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب ایک لفظ کو دوسرے لفظ سے مشتق کیا جائے تو اس کے دو معنی ہوتے ہیں:
اول یہ کہ ان دونوں لفظوں میں لفظًا و معنًا مناسبت ہوتی ہے۔ اہل لغت ان دو کلموں میں سے جسے چاہیں مقدم مانیں۔ اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں۔ بہرحال ان میں سے ہر ایک کلمہ دوسرے کلمے سے مشتق ہوتا ہے کیونکہ وہ لفظًا اور معنًا اس کے مناسب ہے۔ جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ یہ پانی اس پانی سے ہے، اور یہ کلام اس کلام سے ہے۔ چنانچہ فعل کو مصدر سے اور مصدر کو فعل سے مشتق کہنا دونوں قول صحیح ہیں یہ وہ اشتقاق ہے جس پر صرف کی دلیل قائم ہو سکے۔
اشتقاق کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ ان دونوں میں سے ایک دوسرے کا اصل ہو ، اگر اس کے یہ معنی ہوں کہ ان میں سے ایک دوسرے کی نسبت پہلے استعمال کیا گیا ہے تو اکثر مقامات میں اس پر دلیل نہیں قائم کی جاسکتی، اگر اس کے یہ معنی ہوں کہ ان دونوں میں سے ایک عقل میں دوسرے سے مقدم ہے، کیونکہ ایک مفرد اور دوسرا مرکب ہے تو فعل مصدر سے مشتق ہے‘‘۔
اشتقاق اصغر دو کلموں میں حروف اور ان کی ترکیب کی موافقت کو کہتے ہیں اشتقاق اوسط اس وقت ہوتا ہے جب حروف میں تو اتفاق ہو لیکن ان کی ترتیب میں اتفاق نہ ہو۔
اشتقاق اکبر اس وقت صادق آتا ہے جب بعض حروف میں تو بعینہٖ رفاقت ہو اور باقی حروف میں مطابقت جنسی ہو۔ مثلاً حزر، عزر اور ازر، تینوں میں قوت وشدت کے معنی پائے جاتے ہیں۔
’’ر‘‘ اور’ ’ز‘‘ میں تو اشتراک عینی ہے اور (ح) (ع) اور (ز) اس لحاظ سے مشترک ہیں کہ ان کی جنس ایک ہے۔ یعنی یہ کہ وہ تینوں حروف حلقی ہیں۔ جب یہ کہا جائے کہ صمد کے معنی مصمت کے ہیں اور وہ اس لحاظ سے مصمت سے مشتق ہے تو یہ بات صحیح ہے، کیونکہ (د) (ت) کی بہن ہے اور صمت خاموش کو کہتے ہیں، اور خاموشی بات چیت سے منہ بند رکھنے کو کہتے ہیں۔
ابو عبیدہ کا قول ہے کہ مصمت اس چیز کو کہتے ہیں جس کا جوف (کھوکھلا پن) نہ ہو۔ وقد اصمۃ انا (میں نے اسے صائم پایا) باب مصمت (بند دروازہ جس کے کھلنے کی راہ معلوم نہ ہوسکے) خیل مصمت (ایسے رنگ کے گھوڑے ہوں کہ ان کے رنگ میں کسی دوسرے رنگ کا اختلاط نہ ہو) یہ سب مثالیں اصلی معنی پر دلالت کرتی ہیں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ حریر مصمت (یعنی خالص ریشم) حرام ہے مصمد اور مصمت اشتقاق اکبر میں متفق ہیں۔ ’’د‘‘، ’’ت‘‘ سے بدل کر نہیں بنی۔ بلکہ ’’د‘‘ اس سے قوی تر ہے اور مصمت کی نسبت زیادہ کامل ہے، اور جتنا کوئی حرف قوی ہو گا اس کے معنی بھی قوی تر ہوں گے۔
زبان عرب نہایت محکم اور متناسب واقع ہوئی ہے۔ چنانچہ دیکھئے صمت اور صمد میں بھی ایک لطیف فرق ہے۔ صمت باوجود امکان کے کلام سے باز رہنے کو کہتے ہیں۔ انسان اجوف ہے، اس کے منہ سے کلام صادر ہوتا ہے لیکن وہ کبھی کبھی خاموش بھی ہو جاتا ہے۔ یہ خاموشی صمت کہلاتی ہے، بخلاف ازیں صمد کا اطلاق اس چیز پر ہوتا ہے جس میں تفرق مطلقاً نہ ہو۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اس سے آگے کمپوزنگ کی غلطیاں ابھی درست کرنا باقی ہیں۔ اصلاح کے بعد یہ جملہ ہٹا دیا جائے گا۔۔ ان شاء اللہ
صبر کے معنیٰ

اور لفظ صبر کے معنی کو بھی ان معانی سے مناسبت ہے کیونکہ صبر میں بھی جمع و امساک پایا جاتا ہے۔ چنانچہ نفس کو گھبراہٹ سے روکنے پر صبر کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے ’’ صَبَرَ‘‘ (وہ تھم گیا) ’’صبرۃ انا‘‘ (میں نے اسے روکا)۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے ’’واصبر نفسک‘‘ (اور اپنے نفس کو تھام) خوراک کے تودے کو بھی ’’صبرۃ من الطعام‘‘ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ مجتمع اور ایک جگہ پر اکٹھا ہوا ہوتا ہے۔ صبارۃ پتھر کو کہتے ہیں۔ کسی چیز کا صبر اس چیز کی شدت و قوت ہو تا ہے۔ اور جزع فزع اس کی ضد ہے۔ اس میں ٹکڑے ٹکڑے اور جدا جدا ہونے کے معنی پائے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے ’’جزع لہ جزعۃ من المال‘‘ (یعنی اس کے لئے مال کا ایک حصہ علیحدہ کیا)۔ جزوعہ بکری کے ایک ٹکڑے کو کہتے ہیں۔
اجتزعت من الشجر عودا (میں نے درخت سے لکڑی کاٹی) اور جزعت الوادی (میں نے وادی کی مسافت عرضی قطع کی) انہی معنوں میں مستعمل ہیں۔ جزع وادی کے پھیر کو بھی کہتے ہیں۔ یمن کی اس کوڈی کو بھی کہتے ہیں، جس میں سفیدی اور سیاہی ہوتی ہے۔
جزع البر تجزیعا اس وقت کہا جاتا ہے جب سبز (کھجور) کا نصف یا دو تہائی حصہ پختہ ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ فرمایا ہے :
’’إِنَّ الْإِنسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا ﴿١٩﴾ إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعًا ﴿٢٠﴾ وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا ﴿٢١﴾‘‘۔ (المعارج)
انسان خلقت ہی سے پرلے درجے کا حریص واقع ہوا ہے۔ تکلیف پہنچے، تو سر پیٹنے لگتا ہے اور اگر خیر و نعمت حاصل ہو جائے تو کسی کو فائدہ پہنچانے کا نام نہیں لیتا۔
جوہری کا قول ہے کہ ’’ہلع ‘‘ گھبراہٹ کی بدترین صورت کے لئے بولا جاتا ہے۔ بعض کا قول ہے کہ ’’ہلع‘‘ شدید ترین حرص اور بدترین گھبراہٹ کو کہتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
شرہا فی المرء شح ھالع وجبن خالع۔
مرد کی بدترین خصلت سخت لالچ، تنزل اور بزدلی ہے۔
’’ناقۃ ھلواء‘‘ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو پھرتیلی اور تیز رفتار ہو۔ ’’ذئب ھلع بلع‘‘ وہ بھیڑیا ہوتا ہے جو تیزی سے شکار کو ہڑپ کر جائے۔ ’’ہلع‘‘ کے معنی حرص اور ’’بلع‘‘ کے معنی نگلنے کے ہیں، اسی لئے سلف نے جو کچھ اس کی تفسیر میں کہا ہو وہ ان معنوں پر مشتمل ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ ’’ہلوع‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جو مصیبت کے وقت جزع فزع کرے اور اچھے دنوں میں بخل اختیار کرے نیز انہی کا قول ہے کہ ’’بلوع‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جو اس چیز کا لالچ کرے جو اس کے لئے حلال نہ ہو۔
سعید بن جبیر ’’بلوع‘‘ کے معنی لالچی کرتے ہیں۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ ’’بلوع ضجور‘‘ فریاد کرنے والے کو کہتے ہیں۔ جعفر نے اس کے معنی ’’حریص‘‘، حسن وضحاک نے ’’بخیل‘‘ اور مجاہد نے ’’لالچی‘‘ کے کئے ہیں۔ ضحاک سے یہ قول بھی مروی ہے کہ بلوع وہ شخص ہوتا ہے جو سیر ہونے میں نہ آئے۔ مقاتل نے اس کے معنی تنگ دل اور عطاء نے جلد باز کے بھی کئے ہیں۔ اور یہ سب معانی ثبات، قوت، اجتماع، امساک اور صبر کے منافی ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِي بَنَوْا رِيبَةً فِي قُلُوبِهِمْ إِلَّا أَن تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ ۗ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿١١٠﴾ (التوبۃ)
انہوں نے کہا جو عمارت قائم کر رکھی ہے اس کے باعث ان کے دلوں میں شک رہے گا۔ یہاں تک کہ ان کے دل نہ ٹوٹ جائیں۔
 
Top