• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

*جانیں روزے کی حالت میں سونے کا حکم، روزے کے لغوی و شرعی معنی، روزے کے اقسام، روزے کا حکم نیز روزے ک

شمولیت
مارچ 17، 2015
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
36
*جوابات : محمد بن صالح العثيمين*
*ترجمانی : فضیل احمد ظفر*

*سوال(٣):* دن میں زیادہ دیر تک سونے کا کیا حکم ہے اور جو شخص دن میں سوتا ہے اس کے روزے کا کیا حکم ہے نیز اس شخص کا کیا حکم ہے جو صرف فرض نماز ادا کرنے کے لیے بیدار ہوتا ہے پھر سو جاتا ہے؟
*جواب:* یہ سوال دو حالتوں پر مشتمل ہے :
*پہلی حالت* یہ ہے کہ ایک آدمی دن میں سوتا ہے اور بیدار نہیں ہوتا ہے (فرض نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنے کے لیے) تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا شخص اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے نماز کو اس کے وقت پر ادا نہ کرنے کی وجہ سے، نیز ایسا شخص اللہ عزوجل کا نافرمان بھی ہے اور اگر وہ جماعت کا اہل ہے (یعنی اس پر جماعت واجب ہے جیسے مرد نہ کہ عورت) تو درحقیقت اس نے اسی کے ساتھ ساتھ ترک جماعت کے گناہ کا بھی ارتکاب کیا ہے جو کہ اس پر حرام ہے اور اس کے روزے میں کمی پیدا کرنے کا سبب ہے ایسے شخص کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو محل تو تعمیر کر رہا ہے لیکن شہر کو منہدم کر رہا ہے اس لیے اس پر واجب ہے کہ وہ اللہ عزوجل سے توبہ کرے اور نماز کو اس کے وقت پر ادا کرے جیسا کہ اللہ نے حکم دیا ہے
*دوسری حالت* یہ ہے کہ ایک آدمی فرض نماز کو اس کے وقت پر جماعت کے ساتھ ادا کرتا ہے تو ایسا شخص گناہ گار نہیں ہے لیکن وہ اپنے آپ کو بہت ساری بھلائیوں سے محروم کر رہا ہے روزے دار کے لیے بہتر تو یہ ہے کہ وہ نماز، ذکر و اذکار، دعا اور تلاوت قرآن میں مشغول ہو تاکہ اس کے روزے کے ساتھ دوسری عبادتیں بھی اکٹھا ہو جائیں، انسان جب اپنے آپ کو عادی بناتا اور اپنے نفس کو روزے کی حالت میں عبادت کے کاموں پر مشق کراتا ہے تو وہ عبادتیں اس پر آسان ہو جاتی ہیں اسی طرح جب وہ اپنے نفس کو سستی، کمزوری اور راحت کا عادی بناتا ہے تو وہ صرف انہیں چیزوں سے مانوس ہوتا ہے روزے کی حالت میں اس پر عبادت اور کام دشوار ہو جاتے ہیں اسی لیے میری نصیحت یہ ہے کہ وہ اپنے روزے کے اوقات کو سونے میں نہ صرف کرے بلکہ عبادت میں صرف کرے، الحمد للہ ہمارے اس زمانے میں اللہ رب العالمین نے روزے دار کو وہ چیزیں فراہم کی ہیں جن کی وجہ سے روزے کی مشقت آدمی سے زائل ہو جاتی ہے جیسے ایئر کنڈیشنر اور اس کے علاوہ دیگر وہ چیزیں جو روزے کو انسان پر آسان بنا دیتی ہیں۔

*سوال(٤)؛* روزے کے لغوی و شرعی معنی کیا ہیں؟
*جواب:* روزے کے لغوی معنی رک جانے کے ہیں جیسے اللہ رب العزت کا فرمان ہے: "فَقُولِي إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَٰنِ صَوْمًا فَلَنْ أُكَلِّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيًّا" (المريم: ٢٦) "تو (اے مریم !) کہہ دینا کہ میں نے رحمان کے نام کا روزہ مان رکھا ہے اس لیے میں آج کسی شخص سے بات نہ کروں گی"
اور اسی معنی میں شاعر کا قول ہے: خيل صيام وخيل غير صائمة
تحت العجاج وأخري تعلك اللجما
"کتنے گھوڑے رکے ہوئے ہیں اور کتنے گھوڑے گرد و غبار میں بھی نہیں رکتے ہیں اور کچھ دوسرے گھوڑوں کو لگام نے روک رکھا ہے"
اور شریعت میں روزہ کہتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرنا مفطرات (یعنی کھانے پینے جماع وغیرہ) سے رک کر، طلوع فجر ثانی سے لے کر غروب آفتاب تک۔

*سوال(٥):* روزے کے اقسام کتنے ہیں۔؟
*جواب:* روزے کی دو قسمیں ہیں:
١ _ پہلی قسم: وہ روزے جو فرض ہیں جیسے رمضان کا روزہ، فرض کبھی کبھی کسی سبب کی وجہ سے ہوتا ہے جیسے کفارے کا روزہ، نذر و نیاز کا روزہ اور کبھی بغیر کسی سبب کے ہوتا ہے جیسے رمضان کا روزہ اس لیے کہ وہ شریعت میں اصلا واجب ہے یعنی مکلف کی جانب سے کسی سبب کے صادر ہونے کے بغیر۔
٢_ دوسری قسم: وہ روزے جو فرض نہیں ہیں، یہ کبھی معین ہوتے ہیں جیسے سوموار اور جمعرات کا روزہ، اور کبھی مطلق ہوتے ہیں جیسے سال کے ایام میں سے کسی بھی دن کا روزہ مگر خصوصا جمعہ کے دن روزہ رکھنے کے سلسلے میں نہی وارد ہے اس لیے جمعہ کے دن روزہ نہیں رکھا جائے گا ہاں جمعہ سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد روزہ رکھ سکتے ہیں اسی طرح عید الفطر اور عید الاضحٰی کے دن بھی روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے اور اسی طرح ایام تشریق میں بھی مگر وہ قارن اور متمتع جو ہدی کا جانور نہ پا سکے تو وہ ایام تشریق میں روزہ رکھ سکتا ہے

*سوال (٦):* ماہ رمضان کے روزوں کا کیا حکم ہے ۔؟
*جواب:* ماہ رمضان کے روزے فرض ہیں کتاب اللہ، سنت رسول اور اجماع مسلمین سے، اللہ تبارک و تعالٰی نے فرمایا : "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ○ أَيَّامًا مَعْدُودَاتٍ ۚ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ۚ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ ۚ وَأَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَكُمْ ۖ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ○ شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَىٰ وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ۖ " (البقرة : ١٨٣_١٨٥) "اے ایمان والو! تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم تقوی اختیار کر لو، گنتی کے چند ہی دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے اور اس کی طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا دیں، پھر جو شخص نیکی میں سبقت کرے تو وہ اسی کے لیے بہتر ہے لیکن تمہارے حق میں بہتر کام روزے رکھنا ہی ہے اگر تم باعلم ہو، ماہ رمضان وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور جس میں ہدایت کی اور حق و باطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے تو چاہیے کہ وہ روزہ رکھے"
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے : "بُنِي الإسلامُ على خمسٍ : شَهادةِ أن لاإلهَ إلا اللهُ وأنَّ محمدًا رسولُ اللهِ ، وإقامِ الصلاةِ ، وإيتاءِ الزكاةِ ، والحجِّ ، وصومِ رمضانَ" (البخاري : ٨ ومسلم : ١٦) "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکات دینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا"
نیز نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "إذا رأَيتُموه فصوموا" (البخاري : ١٩٠٠ ومسلم : ١٠٨٠) "جب تم چاند کو دیکھ لو تو روزہ رکھو"
اور مسلمانوں کا بھی اس بات پر اجماع ہے کہ رمضان کا روزہ فرض ہے اور یہ اسلام کے ارکان میں سے ایک رکن ہے جس نے اس کی فرضیت کا انکار کیا اس نے کفر کیا سوائے ایسے سخص کے جو دور دراز کے علاقے میں رہتا ہو اور وہاں اسلام کے احکام معروف و مشہور نہ ہوں تو ایسے شخص کو اسلام کے احکام سے متعارف کرایا جائے گا پھر اگر حجت کے قائم ہونے کے بعد بھی وہ انکار کرے تو وہ کافر ہے
اور جو شخص روزے کی فرضیت کا اقرار تو کرے لیکن کمتر سمجھ کر روزہ نہ رکھے تو ایسا شخص بڑے گناہ کا مرتکب ہے، بعض اہل علم کی رائے تو یہ ہے کہ ایسا شخص بھی کافر و مرتد ہے لیکن راجح و صحیح بات یہ ہے کہ ایسا شخص کافر و مرتد نہیں ہے بلکہ فاسق و فاجر ہے اور بہت بڑے گناہ کا مرتکب ہے۔

*سوال (٧):* دین میں روزے کا کیا مقام و مرتبہ ہے اور عبادت میں اس کی کیا فضیلت ہے۔؟
*جواب:* دین اسلام میں روزے کا مقام یہ ہے کہ وہ اسلام کے ان ارکان میں سے ایک ہے کہ جن ارکان کے ذریعے اسلام قائم و دائم اور پورا ہوتا ہے۔
رہی بات اسلام میں روزے کی فضیلت کی تو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے : "من صام رمضانَ إيمانًا واحتسابًا ، غُفِرَ له ما تقدَّمَ من ذنبِه" (البخاري : ٣٨ ومسلم : ٧٦٠) "جس نے ماہ رمضان کا روزہ رکھا ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے تو اس کے پچھلے (صغیرہ) گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں"۔
 
Top