- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,747
- پوائنٹ
- 1,207
جاوید احمد غامدی کے من پسند اُصولِ تفسیر
کیا سورة النصرمکی ہے؟ ...ایک جائزہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چلتا پھرتا قرآن تھے تو صحابہ کرامؓ اس کے شاہد اور امین۔بلا شبہ قرآنِ کریم کے جواہرات جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معصوم زندگی کی لڑی میں پروئے جاتے تو یہ ہار صحابہ کی نظروں کو خیرہ کرتا۔چنانچہ بعد کے مفسرین قرآن پر آپؐ کے اصحابؓ کو یہی امتیاز حاصل ہے کہ قرآنِ مبین اُن کی زبان میں اُترتا تھا اور وہ اپنے سامنے وحی ٔ نبوت کا مشاہدہ بھی کرتے تھے۔
ارشادِ گرامی: (ما أنا علیہ وأصحابي) کی تعمیل کا ایک تقاضا یہ بھی ہے۔اسی بنا پر قدیم مفسرین خواہ وہ فلسفی ہوں یامعتزلی (عقل پرست)، سب اس پر متفق نظر آتے ہیں کہ اگر قرآن کی کسی آیت یا سورت کا موقع محل صحابہ کرام متعین کر دیں تو اسے تسلیم کر لیاجائے۔سورة النصرکے موقع محل کے حوالے سے جب حضرت عمرؓ کے سامنے علما کے ایک مجمع میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے اسے نبیؐ کے قربت ِوصال کا اشارہ بتایا تو سب نے اس پر صاد کیا،لیکن دورِ حاضر کے ندرت پسند فلسفۂ فطرت (اعتزالی نیچریت) کے اُصولوں سے اس امر کے لیے کوشاں رہتے ہیں کہ قرآنی سُوَریا آیات کو قرآنِ کریم کے اوّلین مخاطبین کو نظر انداز کر کے اپنے من پسند سانچوں میں جہاں چاہیں، فٹ کریں۔درج ذیل مضمون اسی غلط' اُصولِ تفسیر' کی نشاندہی کے لیے لکھا گیا ہے جو ہدیۂ قارئین ہے۔ (محدث)