گڈمسلم
سینئر رکن
- شمولیت
- مارچ 10، 2011
- پیغامات
- 1,407
- ری ایکشن اسکور
- 4,912
- پوائنٹ
- 292
جاوید الغامدی کی اسلام دشمنی
[روزنامہ نوائے وقت کے اداریے میں 5جون 2006 کو شائع ہوا ۔ ]
اخباری اطلاع کے مطابق اسلام آباد میں ایک تعلیمی کانفرنس کے دوران جہاں وزیر اعظم شوکت عزیز بھی تقریب میں موجود تھے۔ جاوید الغامدی جو کہ حال ہی میں اسلامی نظریاتی کونسل آف پاکستان کے رکن مقرر ہوا ہے نے تقریر کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرآن حکیم اور اسلامیات کی تعلیمات بچوں کو دوسری جماعت کے بجائے پانچویں جماعت کے بعد شروع کی جانی چاہئیں۔ وزیر اعظم شوکت عزیز نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ قرآن حکیم اور اسلامیات کی تعلیم دوسری جماعت کے بعد بچوں کو شروع کرائی جانی چاہئے۔ پوری قوم وفاقی حکومت کی اس تجویز پر مسلسل احتجاج کر رہی ہے کہ بچوں کو اسلامیات تیسری جماعت کے بعد پڑھائی جائے اور مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ابتداء سے ہی قرآن حکیم اور اسلامی تعلیمات شروع کرا دینی چاہئیں
جن کو پڑھ کر عام آدمی حیران ہے کہ جب عہد حاضر کے علماء ہی اس حد تک آگے چلے جائیں تو آدمی امریکہ اور اس کے دریوزہ گر حکمرانوں پر کیا الزام دھرے۔ مسلمان بچوں کی اسلامی تعلیم تو گہوارے میں ہی شروع ہوجاتی ہے جب ان کی مائیں انھیں بولنے کے لئے کلمہ طیبہ اور بسم اللہ سکھاتی ہیں، ویسے بھی انسانی ذہن کی تشکیل تین سال سے آٹھ سال کی عمر میں مکمل ہوتی ہے اور بعد ازاں اس کی نشو و نما جاری رہتی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی رکنیت ایک منافع بخش نوکری ہے، مگر ایسی بھی نہیں کہ اس کے لئے علامہ جاوید الغامدی قرآن حکیم اور اسلامیات کی تعلیم کو فرقہ واریت مذہبی انتہا پسندی اور ملائیت سے تعبیر کرنے لگیں۔ علامہ جاوید الغامدی اپنی لسانی اور علمی صلاحیتوں کو محض سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے ہر روز ٹی وی مباحثوں میں نئی نئی اختراعات کرنے اور حاکموں کا قرب حاصل کرنے کے لئے اس دین اور علم کی جڑیں نہیں کاٹنی چاہئیں جس کی وجہ سے انھیں یہ عزت حاصل ہے۔ علامہ صاحب کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ علماء حق کبھی حکومتوں کی حمایت میں اس قدر سرگرم اور پرجوش نہیں ہوا کرتے۔مگر اسکے جواب میں علامہ جاوید الغامدی نے روشن خیالی اور جدید خیالات کی حامل وفاقی حکومت سے بھی کئی قدم آگے چل کر ایسے خیالات پیش کئے ہیں
خواتین کے جھرمٹ میں بیٹھ کر ٹی وی چینلز کی چکاچوند روشنیوں میں اسلام کی یہ بخیہ گری کم از کم علامہ جاوید غامدی کو زیب نہیں دیتی جو علامہ امین احسن اصلاحی کے فیض یافتہ اور سلسلہئ فراہی کی علمی روایت کے امین سمجھے جاتے ہیں۔ نام نہاد روشن خیال کا یہ دور زیادہ طویل نہیں، علامہ صاحب اپنے آپ کو غلام محمد، ایوب خان اور بھٹو دور کے ان اصحاب علم کی صف میں شامل نہ کریں، جن کے نام تک آج کسی کو یاد نہیں اور ان کے افکار و خیالات تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو چکے ہیں۔