• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

جاہلیت، فسق، ضلالت اور ارتداد؛مفہوم اوراحکام و اقسام

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
بسم اللہ الرحمان الرحیم


جاہلیت، فسق، ضلالت اور ارتداد؛مفہوم اوراحکام و اقسام

ذیل میں ان تمام میں سے ہر ایک کی تعریف و اقسام اور احکام کاالگ الگ تذکرہ کیا جائے گا:
۱۔ جاہلیت: اسلام سے قبل عرب جس حالت میں تھے اسے جاہلیت کہا جاتا ہے۔ جیسے کہ ان کا اللہ عزوجل کے بارے میں جہل ہونا، انبیاء و رسل اور شریعت سے ناواقف ہونا۔ اسی طرح حسب و نسب پر فخر کرنا، غرور وتکبر، حسد و بغض اور ان جیسے دیگر امور بھی جاہلیت میں سے ہیں۔(ابن الاثیر، النھایۃ:323/1)
جاہلیت، جہالت سے ہے، اس سے مقصود عدمِ علم یا علم کی عدمِ اتباع ہے۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حق کو نہ جاننے والا جہلِ مفرد کا مرتکب ہوتا ہے، لیکن اگر جوآدمی حق کے برعکس باطل عقیدے کا حامل ہو وہ جہل مرکب کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے پتہ چلا کہ رسولِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل لوگ جاہلیت بمعنی جہالت پر گامزن تھے۔ وہ جو بھی اقوال و اعمال سرانجام دیتے تھے وہ کسی جاہل کے ایجاد کردہ تھے اور انھیں انجام دینے والے بھی جاہل تھے۔ اسی طرح ہر وہ چیز بھی جاہلیت تھی جو انبیائے کرام صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور یہودیت و نصرانیت کے خلاف تھی۔ یہ جاہلیت ِ عامہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ایسا نہیں ہے۔ اب کسی ایک شہر میں تو جاہلیت ہو سکتی ہے۔جیسے کہ دار الکفر میں ہوتی ہے۔ اسی طرح کسی شخص میں بھی جاہلیت ہو سکتی ہے۔ جیسے کہ قبولِ اسلام سے قبل عام آدمی ہوتا ہے، وہ اسلام سے پہلے جاہلیت ہی کا مرتکب ہوتا ہے۔رہا زمانی اعتبار سے مطلق طور پر جاہلیت ہونا تو بعث نبوی کے بعد ایسا نہیں ہو سکتا،کیونکہ ہر دور میں امت محمدیہ میں سے ایسا گروہ ضرور رہا ہے جو حق کا پیروکار ہو اور یہ سلسلہ قیامت تک رہے گا۔ یہ ہو سکتا ہے کہ اسلامی ممالک میں چند افراد ایسے ہوں جن میں جاہلیت کے امور پائے جاتے ہوں۔ جیسے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((اَرْبَعٌ فِیْ اُمَّتِیْ مِنْ أَمْرِ الْجَاھِلِیَّۃِ)) (صحیح مسلم: 934)
”میری امت میں جاہلیت والے چارامورہو سکتے ہیں۔“
اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابو ذرt سے فرمایا تھا:
((إِنَّکَ امْرُؤٌ فِیْکَ جَاھِلِیَّۃٌ)) (صحیح البخاری: 6050 و صحیح مسلم:1661)
”تم میں توجاہلیت کے اثرات ہیں۔“
اسی طرح اور بھی احادیث ہیں۔ انتھی۔ ابن تیمیہ، اقتضاء الصراط المستقیم:225/1۔227، تحقیق دکتور ناصر العقل۔

مذکورہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ جاہلیت بمعنی جہالت سے مراد عدم علم ہے اور اس کی دو اقسام ہیں:
۱۔ جاہلیت عامہ: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کا زمانہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد یہ جاہلیت ختم ہو گئی۔
۲۔ جاہلیت خاصہ: یہ کسی خاص شہر، بستی اور بعض اشخاص میں ہوتی ہے اور یہ صورت ہمیشہ رہتی ہے۔
اس سے ان لوگوں کی غلطی بھی واضح ہوئی جو اب بھی عمومی طور پر جاہلیت کے وجود کے قائل ہیں اور وہ ”عصرِ حاضر کی جاہلیت“ جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ درست یوں کہنا ہے: عصر حاضر کے بعض لوگوں کی جاہلیت یا اس صدی کی اکثریت کی جاہلیت۔ عام طور پر جاہلیت کا حکم لگانا نہ تو درست ہے اور نہ ہی جائز کیونکہ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی جاہلیت عامہ ختم ہو گئی۔
۲۔ فسق۔ لغت میں فسق کا معنی نکلنا ہے، جب کہ شرعی طور پر فسق سے مقصود اللہ عزوجل کی اطاعت سے روگردانی کرنا ہے۔ اس میں کامل خروج بھی ہو سکتا ہے۔ اسی لیے گناہ کبیرہ کے مرتکب مومن کو فاسق کہا جا سکتا ہے۔
فسق دو طرح کا ہوتا ہے: ایک وہ فسق ہے جس کی وجہ سے آدمی ملت اسلامیہ سے خارج ہو جاتا ہے۔ اس سے مراد کفر ہے۔ کافر کو فاسق کہا جا سکتا ہے۔ اللہ عزوجل نے ابلیس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
(فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّہٖ) (الکھف: 50/18)
”ابلیس نے اپنے رب کے حکم سے روگردانی اختیار کی۔“
ابلیس کا یہ فسق و خروج کفر تھا۔ اللہ عزوجل نے ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
(وَ اَمََّا الَّذِیْنَ فَسَقُوا فَمَاْوَاھُمُ النَّارُ)(السجدۃ:20/32)
”فسق کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے۔“
یہاں فسق سے مراد کفار ہیں۔ اس کی دلیل یہ فرمانِ الٰہی ہے:
(کُلَّمَا أَرَادُوا أَنْ یَخْرُجُوا مِنْہَا أُعِیدُوا فِیہَا وَقِیلَ لَہُمْ ذُوقُوا عَذَابَ النَّارِ الَّذِی کُنْتُمْ بِہِ تُکَذِّبُونَ) (السجدۃ:20/32)
”جب کبھی وہ اُس سے نکلنا چاہیں گے اسی میں دھکیل دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھواُسی عذاب کامزا جس کو تم جھٹلایاکرتے تھے “
نافرمان مسلمان کو بھی فاسق کہا جاتا ہے، لیکن مسلمان اپنے اس فسق کی وجہ سے اسلام سے خارج نہیں ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَالَّذِینَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَاء َ فَاجْلِدُوہُمْ ثَمَانِینَ جَلْدَۃً وَلَا تَقْبَلُوا لَہُمْ شَہَادَۃً أَبَدًا وَأُولَءِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ) (النور:4/24)
(اور جو لو گ پا ک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھرچار گواہ لے کر نہ آئیں، ان کو اَ سی کوڑے مارو اور اُن کی شہادت کبھی قبول نہ کرو،وہ خود ہی فاسق ہیں)
اسی طرح اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
(فَمَنْ فَرَضَ فِیہِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ)(البقرۃ:2/ 197)
(جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے،اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اُس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بد عملی،کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو)
اہل علم کا اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں کہنا ہے کہ یہاں فسوق سے مراد نافرمانیاں ہے۔ (ابن تیمیہ، کتاب الایمان،ص: 278)

۳۔ ضلالت: ضلالت وگمراہی کا مطلب راہِ مستقیم سے ہٹ جانا ہے۔ یہ ہدایت کے برعکس ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(مَنِ اہْتَدَی فَإِنَّمَا یَہْتَدِی لِنَفْسِہِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا) (الاسراء: 15/17)
”جو کوئی راہِ راست اختیار کرے اس کی راست روی اُس کے اپنے ہی لیے مفید ہے اور جو کوئی گمراہ ہو اُس کی گمراہی کا وبال اُسی پر ہے۔“

لفظ ضلالت متعدد ایک معانی کے لیے بولا جاتا ہے۔ جیسے:
۱۔ کبھی کفر کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَمَنْ یَکْفُرْ بِاللَّہِ وَمَلَاءِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِیدًا) (النساء:136/4)
”جس نے بھی اللہ کا، اس کے فرشتوں کا، اس کی کتابوں کا، اس کے رسولوں کا اور روزِ آخرت کا کفر کیا وہ ضلالت وگمراہی میں بھٹک کر بہت دور نکل گیا۔“
۲۔ کبھی لفظِضلالت شرک مفہوم میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
({وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا} )(النساء: 116/4)
”جس نے بھی اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا۔“
۳۔ لفظ ضلالت کبھی دین کی مخالفت کے لیے بھی مستعمل ہوتا ہے، اگرچہ وہ مخالفت کفر سے کم درجے کی ہو۔ جیسے کہا جاتا ہے ”فِرق ضَالہ“ گمراہ فرقے اور گروہ۔ یہاں گمراہی سے مقصود مخالفت کرنا ہے۔
۴۔ لفظ ضلالت کبھی خطا کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔ جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول ہے:
(قَالَ فَعَلْتُہَا إِذًا وَأَنَا مِنَ الضَّالِّینَ)(الشعراء: 20/26)
”موسیٰuنے جواب دیا، اُس وقت وہ کام مجھ سے نادانستگی سے ہوا تھا۔“
۵۔ لفظ ضلالت کبھی بمعنی بھول بھی استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاہُمَا فَتُذَکِّرَ إِحْدَاہُمَا الْأُخْرَی) (البقرۃ: ۲/ ۲۸۲)
”اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری اسے یاد دلائے۔“
۶۔ لفظ ضلالت کبھی ضائع اور غیب ہونے کا مفہوم بھی ادا کرتا ہے۔ جیسے کہ گم شدہ اونٹ کے لیے لفظ ”ضالۃ الابل“ مستعمل ہوتا ہے۔ (الراغب الاصفہانی، المفردات فی القرآن،ص:297، 298)

۴۔ ارتداد: لغوی طور پر ارتداد کا مطلب ہے:پلٹنا، واپس آنا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَلَا تَرْتَدُّوا عَلَی أَدْبَارِکُمَْ) (المائدۃ:21/5)
”اپنی ایڑیوں کے بل واپس نہ پلٹ جانا۔“
فقہاء کی اصطلاح میں ارتداد سے مقصود ہے اسلام کے بعد دوبارہ کفر اختیار کرنا۔ اسی بارے میں فرمان الٰہی ہے:
(وَمَنْ یَرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِینِہِ فَیَمُتْ وَہُوَ کَافِرٌ فَأُولَءِکَ حَبِطَتْ أَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَأُولَءِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیہَا خَالِدُونَ) (البقرۃ: 217/2)
”تم میں سے جو کوئی بھی اس دین سے پھرے گا اور کفر کی حالت میں جان دے گا اس کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں ضائع ہو جائیں گے۔ ایسے سب لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ جہنم ہی میں رہیں گے۔“

ارتداد کی اقسام: نواقض اسلام امورمیں سے کسی کے بھی ارتکاب سے آدمی مرتد ہو جاتا ہے۔ نواقض اسلام کثیر ہیں۔ لیکن بنیادی طور پر ان کی تین قسمیں ہیں:
۱۔ قولی ارتداد: جیسے اللہ عزوجل کو، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو، فرشتوں کو، یا انبیاء و رسل میں سے کسی کو سب و شتم کرنا،یا علم غیب یا نبوت کا دعویٰ کرنا، یا ایسے دعویداروں کی تصدیق و تائید کرنا، یا غیر اللہ سے دعا و مناجات کرنا، یا غیر اللہ سے ایسے امور میں نصرت و مددطلب کرنا جن کی ان میں قدر و طاقت ہی نہیں، یا غیر اللہ کی پناہ اور حفاظت میں آنا۔
۲۔ عملی ارتداد: جیسے بت، شجر و حجر یا قبروں کو سجدہ کرنا،یا ان کے نام کا جانور ذبح کرنا۔ اسی طرح بطور اہانت قرآن کو کوڑے کرکٹ اور گندگی کی جگہ پر پھینکنا۔ جادو کرنا، جادو سیکھنا یا سکھلانا۔ انسانوں کے وضع کردہ قوانین کو جائز تصور کرتے ہوئے ان کے مطابق فیصلے کرنا۔
۳۔ اعتقادی ارتداد: اللہ تعالی کے ساتھ شریک کا عقیدہ رکھنا، زنا، شراب اور سود کو حلال تصور کرنا، روٹی کو حرام جاننا، یا نماز کو فرض تصور نہ کرنا۔اسی طرح دیگر کسی ایسے امر کے بارے میں اعتقاد رکھنا جس کی حلت، حرمت یا وجوب پرامت کا قطعی اجماع ہو چکا ہے اور اس کی حقیقت کسی سے بھی مخفی نہیں۔
۴۔ مذکور بالا امور میں سے کسی کے بارے میں شک اور تردد کرنا۔ جیسے کہ کوئی حرمت شرک، تحریم زنا، یا تحریم شراب یاروٹی کی حلت کے بارے میں شک کرنے لگے۔ اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا دیگر کسی پیغمبر کی نبوت و رسالت کے بارے میں شک وشبہ کرنا، یا انبیاء و رسل کے صدق و امانت داری میں شک کرنا،یا دین اسلام کے متعلق شک میں مبتلا ہونا،یا اسلام کو عصر حاضر کے لیے غیر مناسب تصور کرنا۔
ارتداد کے ثابت ہونے پر مرتد آدمی کے بارے میں درج ذیل احکامات مرتب ہوں گے:
۱۔ مرتد سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے گا، اگر تو آدمی تین دن کے اندر توبہ کرکے اپنے ارتداد سے رجوع کرلے تو اس کی توبہ قبول کرتے ہوئے اسے مسلمان شمار کیا جائے گااور اسے کچھ نہ کہا جائے گا۔
۲۔ اگر مرتد آدمی اپنے ارتداد سے توبہ کرنے سے انکار کرے تو اسے اس فرمانِ نبوی کے مطابق قتل کرنا واجب ہے:
((مَنْ بَدَّلَ دِیْنَہٗ فَاقْتُلُوْہُ)) (صحیح البخاری: 3017، سنن ابی داؤد:4351)
”جو مسلمان بھی اپنا دین تبدیل کرے اسے قتل کردیا جائے۔“
۳۔طلبِ توبہ کی مہلت کے دوران مرتد کو اس کے ذاتی مال میں تصرف سے منع بھیکیا جائے گا۔ اگر دوبار اسلام کا اقرار کرلے تو وہ مال اسی کا ہے، وگرنہ اسے قتل کیے جانے کے بعد، یا حالت ارتداد اس کی موت واقع ہونے کے بعد اس کا مال بطورِ مال فئے بیت المال کی ملکیت قرار پائے گا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مرتد کے وقتِ ارتداد ہی اس کا مال مسلمانوں کے مصالح میں خرچ کردیا گا۔
۴۔ مرتد کا اور اس کے اقارب کا باہمی وراثت کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ نہ وہ اپنے رشتہ داروں میں سے کسی کا وارث بنے گا اور نہ ہی اس کے رشتہ دار اس کے وارث قرار پا سکتے ہیں۔
۵۔ حالتِ ارتداد میں مرنے یا قتل کیے جانے کی صوت میں اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جائے گا۔ اسے کفار کے قبرستان میں دفنایا جائے گا، یا مسلمانوں کے قبرستان کے علاوہ کسی جگہ بھی اسے یوں ہی دبا دیا جائے گا۔ (ماخوذمن کتاب التوحید لمحمد بن صالح الفوزان)

حافظ محمد فیاض الیاس الاثری
رکن دارالمعارف،لاہور(شعبہ سیرت)
 
Top