• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث توسل عثمان بن حنیف (بجواب اسد الطحاوی حنفی)حصہ دوئم

Difa-Hadees1

مبتدی
شمولیت
فروری 16، 2022
پیغامات
6
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
5
منھج امام نسائی لا باس بہ
kutub manhaj imam nisai.png


imam nisai qool la bass behi manhaj.png




تو امام نسائی کے نذدیک بھی یہ راوی صدوق ہی ہے



امام ابن بشکول:

انہوں نے شیوخ عبداللہ بن وھب پر تصنیف لکھی ہے اور اس من شبیب کے بارے میں کیا فرما رہے ہیں۔
ibn bashkol ki jarh(shiyokh abdullah bin wahab.png





ابن خلفون:

انہوں نے بخاری اور مسلم کے شیوخ پر کتاب لکھی ہے چنانچہ اس میں شبیب بن سعید کے بارے میں کیا فرماتے ہیں
shabeeb bin Ahmed(bshayookh bukhari  muslim) ibn khalfoon.png


امام ابن عدی

ان کا موقف تو سب کے سامنے موجود ہے

امام ذہبی:

امام ذہبی نے اس کو ثقہ بھی کہا ہے اور صدوق بھی فرمایا ہے مگر دونوں کے ساتھ یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں۔
imam zahabi azuafa.png

الضعفاء المغنی

imam zahabi mezan(shabeeb bin saeed).png



امام ذہبی کے حوالے سے ایک بات کی اور وضاحت ضروری ہے کہ موصوف نے یہ فرمایا ہے کہ امام ذہبی نے مستدرک الحاکم میں شبیب بن سعید سے اس کے بیٹے کی سند سے ایک روایت کو صحیح کہا ہے وہ روایت کیا ہے پہلے ملاحظہ فرمائیں
Riwayat mustadrik hakim(1930).png



یہ وہی حدیث ہے جس میں شبیب نے اضافہ کیا ہے جس کو طبرانی نے نقل نہیں کیا ہےمگر یہاں یہ اس روایت میں وہ اضافہ بیان نہیں کر رہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شبیب اس واقع کو بیان کرنے میں خود تردد کا شکار تھا اور کبھی اس واقع کو غلطی اور وہم کی وجہ سے بیان کردیتا تھا اور کبھی دیگر ثقات کی متابعت میں اس واقع کو بیان نہیں کرتا چنانچہ یہ حدیث تو متعدد اسناد سے ثابت ہے یہ صرف شبیب سے ہی نقل نہیں ہوئی ہے تو اس کو صحیح کہنے میں امام ذہبی حق بجانب ہیں۔

ابن رجب الحنبلی:

امام ابن رجب الحنبلی نے شرح علل ترمذی میں اس کو ان لوگوں میں رکھا جو اگر کتاب سے روایت کریں تو صحیح ہیں مگر جب اپنے حافظہ سے بیان کرتے ہیں تو وہم اور غلطی کا شکار ہوتے ہیں

sharah ill termizi(qol ibn rajab).png


sharah ill termizi1(qol ibn rajab).png


حافظ ابن حجر:

ان کے قول کے بارے میں بھی ہم وضاحت کر چکے ہیں کہ ان کے نذدیک بھی شبیب بن سعید صدوق راوی ہی ہے۔

ان کے علاوہ امام حاکم ان کو مستدرک میں ثقہ کہا ہے اور مستدرک امام حاکم کی آخری دور کی تصنیف تھی جس میں انہوں نے بہت سے رواۃ کو ثقہ وماموں فرمایا ہے مگر امام ذہبی نے اس کی تصحیح کی ہے اس لئے ان کا قول امام ذہبی کے قول کی تصحیح کا محتاج ہے اور امام ذہبی نے ان کو صدوق نقل کیا ہے

آخر میں امام ابن حبان اور امام ذھلی وغیرہ نے اس کو ثقہ کہا ہے جبکہ جمہور اس کے صدوق ہونے کے قائل ہے اور ہم نے یہی نقل کیا تھا کہ عند الجمہور محدثین شبیب بن سعید صدوق راوی ہے۔

ذیادۃ الثقات:
٘محدثین کے تمام اقوال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ شبیب بن سعید ایک صدوق درجے کا راوی ہے اور اس روایت میں اس نے ثقہ ترین رواۃ کی روایت میں اضافہ کیا ہے جو کہ اس کے وہم اور غلطی کا نتیجہ ہے چنانچہ اگر ہم اس حوالے سے اصول پر نظر ڈالیں تو یہی بات سامنے آتی ہے کہ ایک صدوق راوی اگر ایک روایت میں جمہور ثقات کی مخالفت یا اضافہ کو نقل کرے تو وہ قابل التفاء نہیں مانا جائے گا اور اس کو ہرگز قبول نہ کیا جائے گا۔
Usoolziadat siqat nukat(inb hajar page 690.png

اب آخر میں اس روایت کو بھی دیکھ لیتے ہیں جس میں شبیب نے اضافہ کیا ہے

113- حَدَّثَنَا عَبْدُ الله بن جعفر، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْمَديني، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ , عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ: أَنَّ رَجُلاً كَانَ يَخْتَلِفُ إِلَى عثمان بن عفان في حاجة , فَكَانَ عُثْمَانُ لاَ يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ , وَلاَ يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ , فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حَنِيفٍ , فَشَكَا ذَلِكَ إِلَيْهِ , فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حَنِيفٍ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ , ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ قُلِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّي مُحَمَّدٍ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّي تقضي حَاجَتِي , تَذْكُرُ حَاجَتَكَ , ثم رح حَتَّى أَرُوحَ , فَانْطَلَقَ الرَّجُلُ , فَصَنَعَ ذلك , ثُمَّ أَتَى بَابَ عُثْمَانَ بن عفان، فجاء البواب، فأخذ بيده فأدخله على عثمان , فَأَجْلَسَهُ مَعَهُ عَلَى الطِّنْفِسَةِ , فقَالَ له: حَاجَتُكَ؟ [7/أ] فَذَكَرَ له حَاجَتَهُ , فَقَضَاهَا، ثم قَالَ ما فهمت حَاجَتَكَ حَتَّى كَانَ السَّاعَة، وقال انظر مَا كَان لَكَ مِنْ حَاجَةٍ ثُمَّ إِنَّ الرَّجُلَ خَرَجَ مِنْ عِنْدِهِ فَلَقِي عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ، فقال له: جزاك الله خيرًا، ما كان ينظر في حاجتي، ولا يلتفت إلي حتى كلمته، فقال عثمان بن حنيف: ما كلمته ولكني سَمِعْتُ رَسُول الله صَلَّىَ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَاءَه ضَرِيرٌ فَشَكَى إِلَيْهِ ذَهَابَ بَصَرِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّىَ اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَتَصْبِر؟ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّهُ لَيْسَ لِي قَائِدٌ وَقَدْ شَقَّ عَلَيَّ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ائْتِ الْمِيضَأَةَ فَتَوَضَّأْ، ثُمَّ صَلِّ رَكْعَتَيْنِ، ثم قل اللَّهُمَّ أَسْأَلُكَ، وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّي مُحَمَّدٍ، نَبِيَّ الرَّحْمَةِ، يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي أَتَوَجَّهُ بِكَ إِلَى رَبِّي، فَيجْلِي لي بَصَرِي، اللَّهُمَّ شَفِّعْهُ فِيَّ وَشَفِّعْنِي فِي نَفْسِي، فقَالَ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: فَوَاللَّهِ مَا تَفَرَّقْنَا وَطَالَ بِنَا الْحَدِيثُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْنَا الرَّجُلُ كَأَنَّهُ لَمْ يَكُنْ بِهِ ضرر قَطُّ.

508 - حَدَّثَنَا طَاهِرُ بْنُ عِيسَى بْنِ قَيْرَسَ المُقْرِي الْمِصْرِيُّ التَّمِيمِيُّ، حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَكِّيِّ، عَنْ رَوْحِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْخَطْمِيِّ الْمَدَنِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، عَنْ عَمِّهِ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ "
( المعجم

آخر میں ایک وضاحت ضروری ہے موصوف نے ابن عدی کے حوالے سے نقل کیا کہ انہوں نے شبیب بن سعید کی چند روایات کو منکر قرار دیا اور موصوف نے اس کی متابعت ثابت کرکے یہ باور کروانا چاہا ہے کہ ابن عدی چونکہ شبیب بن سعید سے منکرات ثابت نہیں کر سکے اس لئے ان کا یہ موقف ہی غلط ثابت ہوتا ہے جبکہ ہم نےدیگر محدثین سے بھی یہ ثابت کیا ہے کہ شبیب بن سعید سے منکرات و غرائب کا صدور ہوا ہے تو ابن عدی کی دو روایات کی متابعت پیش کرنے سے اصول جرح ختم نہیں ہوجاتا ہے جبکہ ابن عدی کے پاس مکتبہ شاملہ کا سرچ سسٹم بھی موجود نہیں تھا کہ وہ سرچ کرکے ان روایات کی متابعت دھونڈ لیتے۔

چنانچہ اس تمام تحریر کا حاصل کلام یہی ہے کہ واقعہ ضعیف اور منکر ہے جس کو بیان کرنے میں شبیب بن سعید منفرد ہے اور اس حدیث کے ساتھ اس نے جس واقعے کا اضافہ کیا ہے وہ عند الجمہور رواۃ جو کے شبیب سے اوثق اور مرتبہ ضبط میں اس سے بہت اعلی ہیں اس میں اس شبیب نے اس واقع کا اضافہ کیا ہے جو کہ اصول ذیادۃ الثقات کی روشنی میں ضعیف اورناقابل حجت ہے اگر کسی کو ہمارے اس موقف سے اختلاف ہے تو وہ اسے دلائل سے پیش کر سکتا ہے اور اسے اگر اسے اپنے دلائل اور موقف پر اطمینان ہے تو بے شک وہ اس روایت کو صحیح مانتا رہے ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے ہمارا موقف ہم نے دلائل کے ساتھ پیش کردیا ہے پڑھنے والے خود ان دلائل کو دیکھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں.واللہ اعلم
 
Top