• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حدیث:"میں تم پر شرک کا خوف نہیں کرتا" کی وضاحت

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
عن عقبة أن النبي صلی الله عليه وسلم خرج يوما فصلی علی أهل أحد صلاته علی الميت ثم انصرف إلی المنبر فقال إني فرط لکم وأنا شهيد عليکم وإني لأنظر إلی حوضي الآن وإني أعطيت مفاتيح خزائن الأرض أو مفاتيح الأرض وإني والله ما أخاف عليکم أن تشرکوا بعدي ولکني أخاف عليکم أن تنافسوا فيها(صحیح بخاری)
حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن احد کی طرف گئے اور شہداء احد پر مثل نماز جنازہ نماز پڑھی پھر منبر پر آکر فرمایا بے شک میں تمہارا پیش رو اور تم پر گواہ ہوں۔میں حوض کو دیکھ رہا ہوں مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئیں یا یہ فرمایا کہ زمین کی کنجیاں دی گئیں اور اللہ کی قسم ! مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔

اس حدیث کو لیکر امت میں شرک کرنے والی جماعت لوگوں کو یہ بتلاتی ہے کہ دیکھو نبی ﷺ نے فرمایا: "مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے۔"

دراصل اہل شرک کو شرک پہ اڑے رہنے کی دلیل چاہئے اس وجہ سے احادیث کا معنی مطلب بگاڑ کر پیش کرتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان: ’’ اللہ کی قسم ! مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے ‘‘ ۔

حدیث کے اس ٹکڑے کا صحیح مفہوم کیا ہے اس کے لئے دوسری احادیث اور اہل علم کے اقوال دیکھتے ہیں۔

چنانچہ قرآن کی بہت سی آیات اور بہت ساری احادیث اس بات پہ دلالت کرتی ہیں کہ امت محمدیہ بھی شرک کرے گی ۔

مثال کے طور پہ ایک آیت اور ایک حدیث دیکھتے ہیں:

(1)قرآن : وَما يُؤمِنُ أَكثَرُ‌هُم بِاللَّهِ إِلّا وَهُم مُشرِ‌كونَ ۔ (سورة يوسف:106)
ترجمہ: اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود بھی شرک ہی کرتے ہیں۔

اس آیت کی روشنی میں بریلوی کی اکثریت اللہ پہ ایمان لانے کے باوجود شرک میں واقع ہے ۔

(2)حدیث :«لولا تقومُ الساعةُ حتى تَلحقَ قبائلُ من أُمتي بالمشركينَ ، وحتى تعبدَ قبائلُ من أمتي الأوثانِ »(صحیح ابوداؤد:4252)
ترجمہ : قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک میری اُمّت کے قبائل مشرکین سے نہ مل جائیں اور یہاں تک کہ میری اُمت کے قبائل بتوں کی عبادت نہ کریں۔

اب یہ بات صاف ہوگئی کہ اس امت میں بھی شرک کا وجود رہے گا۔ اب اوپر والی حدیث کا ٹکڑا "وإني والله ما أخاف عليکم أن تشرکوا بعدي" دیکھتے ہیں ۔
چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رقم طراز ہیں:
قوله «ما أخاف علیکم أن تشرکوا» أی على مجموعکم لأن ذلك قد وقع البعض أعاذنا الله تعالىٰ(فتح الباری:2؍271)
ترجمہ : "ما أخاف علیکم أن تشرکوا" کے قول سے مراد مسلمانوں کا مجموعہ، اس لئے کہ بعض لوگوں سے شرک واقع ہوچکا ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی پناہ میں رکھے ۔
گویا حدیث کا مطلب ہواکہ سارے مسلمان یعنی مسلمانوں کا مجموعہ شرک میں واقع نہیں ہوگا مگرمسلمان کے بعض افراد شرک میں واقع ہوں گے ۔
یہی معنی علامہ عینی حنفی اورملاعلی قاری حنفی نے بھی بتلایا ہے۔ اور بریلوی عالم غلام رسول سعیدی نے بھی ایسا ہی معنی بیان کیا ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
''آپﷺ نے فرمایا: ''مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ تم میرے بعد مشرک ہوجاؤ گے، اس کا معنیٰ یہ ہے کہ مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ تم مجموعی طور پر مشرک ہوجاؤ گے،اگرچہ بعض مسلمان مشرک ہوگئے،العیاذ بالله۔(نعمۃ الباری:3؍514)
آخر میں ہم وہی دعا کرتے ہیں جو نبی ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو چھوٹے بڑے تمام قسم کے شرک سے محفوظ رہنے کے لئے سکھائی ہے ۔
اللهم إني أعوذ بك أن أشرك بك و أنا أعلم ، و استغفرك لما لا أعلم۔
٭ اس حدیث کو علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے ۔(صحیح الادب المفرد:551)
 
شمولیت
مارچ 08، 2018
پیغامات
36
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
12
کہ بعض لوگوں سے شرک واقع ہوچکا ہے ۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی پناہ میں رکھے ۔
تب پوری جماعت حنفیت، شافعی وغیرھا پر شرک کا فتوی کیونکہ لگاتے ہو؟ جب کچھ لوگ ہی مشرک ہوں تو پوری جماعت بریلوی اور شافعیت کو نشانا کیوں بناتے ہو؟ بغیر دلیل کے شرک کے فتوے، بغیر دلیل کی توجیھات
انکشاف حقیقت
يُؤمِنُ أَكثَرُ‌هُم بِاللَّهِ إِلّا وَهُم مُشرِ‌كونَ ۔ (سورة يوسف:106)
ينْطَلِقُوْنَ إِلَی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ فَيَجْعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ. (من قول ابن عمر رضی الله عنه)
’وہ کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق مسلمانوں پر کریں گے۔ (یعنی جو آیت کفار کے حق میں نازل ہوئی ہو اسے وہ لوگ مسلمانوں پر چپکائیں گے اس طرح وہ دوسرے مسلمانوں کو گمراہ، کافر اور مشرک قرار دیں گے تاکہ ان کا ناجائز قتل کر سکیں)
(بخاری،کتاب استتابة المرتدين.. الخ، رقم : 2539)

ان مما اخاف علیکم رجل قرا القرآن حتی اذا رویت بھجة علیه وکان رداؤہ الاسلام اعتراہ الی ما شاء الله انسلخ منه و نندہ وراء ظھرہ وسعی علی جارہ بالسیف المرصی او نرامی فقال بل راقی، ھذا اسناد جید (تفسیر ابن کثیر، 6/265)
وہ امور جن کے بارے میں تم پر خوف زدہ ہوں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایک شخص قرآن پڑھے گا حتی کہ جب اس کی رونق اس پر نمایاں ہوگی اور اس پر اسلام کی چادر لپیٹی ہوگی تو اللہ تعالی اسے جدھر چاہے گا لے جائے گا اور وہ اس کو پس پشت پھینک دے گا اور اپنے پڑوسی پر سوار کے ساتھ حملہ کرے گا اور اپنے پڑوسی کو مشرک کہے گا، عرض کی ان میں سے مشرک کون ہوگا جو دوسرے کو مشرک کہنے والا ہے یا جسے مشرک کہا گیا؟ آپ نے فرمایا دوسروں کو مشرک کہنے والا خود مشرک ہونے کا حقدار ہے

اس حدیث سے مطلب واضح ہوگیا ہے نبی صلی الله تعالی عليه وآله وسلم پر کس چیز کا خوف تھا، امت میں شرک کا؟ یا مشرک مشرک نعرہ لگانے والوں کا؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
پوری جماعت حنفیت، وغیرھا پر شرک کا فتوی کیونکہ لگاتے ہو؟ جب کچھ لوگ ہی مشرک ہوں تو پوری جماعت بریلوی اور شافعیت کو نشانا کیوں بناتے ہو؟
نہیں بھائی !
ہم پوری جماعت بریلویہ کو مشرک نہیں کہتے ،بلکہ :
وَما يُؤمِنُ أَكثَرُ‌هُم بِاللَّهِ إِلّا وَهُم مُشرِ‌كونَ ۔ (سورة يوسف:106)
ترجمہ: اور ان میں سے اکثر لوگ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود بھی شرک ہی کرتے ہیں۔"
یعنی اکثر تو مشرک ہیں اور باقی گمراہ ہیں جو زندوں مردوں کو کبھی معبود کے مشابہ مانتے ہیں ،کبھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توھین کرتے ہوئے امتیوں کو " نبوت و رسالت " میں شریک ٹھہراتے ہیں ۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

شیخ محترم اس روایت کی تحقیق درکار ہے

کیا قرآنی آیت آیات کا اطلاق مسلمانوں پر کیا جا سکتا ہے

دَخَلَ حُذَيْفَةُ عَلَى مَرِيضٍ ، فَرَأَى فِي عَضُدِهِ سَيْرًا ، فَقَطَعَهُ أَوِ انْتَزَعَهُ ، ثُمَّ قَالَ : وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلا وَهُمْ مُشْرِكُونَ سورة يوسف آية

حضرت حذیفہ بن یمانؓ ایک مریض کی عیادت کے لئے گئے ،جسے بخار تھا اور اس نے اپنے بازو ہر دھاگہ باندھا ہوا تھا ۔ حضرت حذیفہؓ نے دیکھا تو اس کا تعویذ یا دھاگہ کاٹ دیا یا اتار کر پھینک دیا اورقرآن کی یہ ایک آیات مبارکہ پڑھی وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللّهِ إِلاَّ وَهُم مُّشْرِكُونَ ترجمہ : ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس کے ساتھ اوروں کو بھی شریک ٹہراتے ہیں
اب اس روایت میں حضرت حذیفہؓ ایک مسلمان کی عیادت کے لئے گئے تھے نہ کہ کسی مشرک کے لئے اور وہاں انھوں نے قرآن کی وہ آیت پڑھی جو کہ شرک اکبر کے متعلق تھی ۔ تفسیرابن حاتم 2208/1
 
Top