• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی ازواج کی تعداد

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ان باکس میں محترم بھائی @عامر عدنان نے سوال کیا ہے کہ :
ــــــــــــــــــــ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ کیا یہ روایت صحیح ہے ؟ سند کے ساتھ یہ روایت تاریخ دمشق میں ہے
عنوان لکھ دیں اور جواب دے دیں ۔ جزاک اللہ خیرا

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے بیویوں کی تعداد کے بارے میں سوال کیا گیا تو فرمایا کہ:
ایک بیوی والا شخص مریض ہے، بیوی بیمار ہو تو یہ بھی بیمار ہوجاتا ہے، اُسے حیض آئے تو اِسے بھی آجاتا ہے، وہ روزہ رکھے تو اس کا بھی روزہ ہوجاتا ہے۔دو بیویوں والا دو انگاروں کے درمیان ہے، جو بھی اسے پا لے جلا دیتی ہے۔
تین بیویوں والا ہر روز ایک نئی بستی کا مہمان ہوتا ہے (یعنی ہر روز مہمان کی طرح اس کی خاطر مدارت ہوتی ہے)
اور چار بیویوں والا تو ہر روز ہی دولہا ہوتا ہے (باری میں تاخیر اور سوکنوں کی کثرت کی وجہ سے ہر بیوی اپنی باری میں دولہے کی طرح اس کا استقبال کرتی اور دلہن کی طرح تیار ہوتی ھے۰
(امام ذہبی نے "سیر اعلام النبلاء" جلد:3, ص:31 )
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
یہ روایت امام ان عساکر(المتوفی 571ھ) نے تاریخ میں روایت کی ہے :
أخبرنا أبو نصر غالب بن أحمد بن المسلم أنا أبو الحسن علي بن أحمد بن زهير المالكي أنا أبو الحسن علي بن محمد بن شجاع الربعي أنا محمد بن علي أبو بكر الغازي أنا أبو عبد الله محمد بن عبد الله الحافظ أخبرني أحمد بن سهل الفقيه نا إبراهيم بن معقل نا حرملة بن يحيى نا ابن وهب قال سمعت مالكا يقول كان المغيرة بن شعبة نكاحا للنساء ويقول صاحب المرأة الواحدة إن مرضت مرض معها وإن حاضت حاض معها وصاحب المرأتين بين نارين يشتعلان قال وكان ينكح أربعا جميعا ويطلقهن جميعا "
تاريخ ابن عساكر ،ج 60 ص55
https://archive.org/stream/FP24037/60#page/n53/mode/2up

من طريقه رواه الذهبي في تاريخ الإسلام (41 - 60)

ترجمہ : حضرت امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ سیدنامغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کثرت سے شادیاں کرتے تھے ، اور فرماتے تھے کہ :
ایک بیوی والا شخص کا حال یہ ہے کہ اگر اس کی بیوی بیمار ہو تو یہ بھی بیمار ہوجاتا ہے، اُسے حیض آئے تو اِسے بھی آجاتا ہے، ۔دو بیویوں والا دو شعلہ والی آگوں کے درمیان ہے، اور سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ چار عورتوں سے شادی کرتے ،اور طلاق بھی چاروں کو ہی دے دیتے ۔
(امام ذہبی نے "سیر اعلام النبلاء" جلد:3, ص:31 )
نیز دیکھئے البدایہ والنہایہ لابن کثیرؒ
لیکن سنداً یہ روایت معضل ہے ،یعنی اسناد سے ایک سے زائد راوی موجود ہی نہیں ،جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ امام مالکؒ اور صحابی کے درمیان کم از کم دو واسطے تو لازمی ہیں ،یعنی ان سے آگے دو راوی مزید ہونے چاہئیں ،جو یہاں مذکور نہیں ،اس لئے یہ اسناد بالکل ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے ،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
Last edited:

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
ان باکس میں محترم بھائی @عامر عدنان نے سوال کیا ہے کہ :
ــــــــــــــــــــ

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
یہ روایت امام ان عساکر(المتوفی 571ھ) نے تاریخ میں روایت کی ہے :
أخبرنا أبو نصر غالب بن أحمد بن المسلم أنا أبو الحسن علي بن أحمد بن زهير المالكي أنا أبو الحسن علي بن محمد بن شجاع الربعي أنا محمد بن علي أبو بكر الغازي أنا أبو عبد الله محمد بن عبد الله الحافظ أخبرني أحمد بن سهل الفقيه نا إبراهيم بن معقل نا حرملة بن يحيى نا ابن وهب قال سمعت مالكا يقول كان المغيرة بن شعبة نكاحا للنساء ويقول صاحب المرأة الواحدة إن مرضت مرض معها وإن حاضت حاض معها وصاحب المرأتين بين نارين يشتعلان قال وكان ينكح أربعا جميعا ويطلقهن جميعا "
تاريخ ابن عساكر ،ج 60 ص55
https://archive.org/stream/FP24037/60#page/n53/mode/2up

من طريقه رواه الذهبي في تاريخ الإسلام (41 - 60)

ترجمہ : حضرت امام مالک ؒ فرماتے ہیں کہ سیدنامغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کثرت سے شادیاں کرتے تھے ، اور فرماتے تھے کہ :
ایک بیوی والا شخص کا حال یہ ہے کہ اگر اس کی بیوی بیمار ہو تو یہ بھی بیمار ہوجاتا ہے، اُسے حیض آئے تو اِسے بھی آجاتا ہے، ۔دو بیویوں والا دو شعلہ والی آگوں کے درمیان ہے، اور سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ چار عورتوں سے شادی کرتے ،اور طلاق بھی چاروں کو ہی دے دیتے ۔
(امام ذہبی نے "سیر اعلام النبلاء" جلد:3, ص:31 )
نیز دیکھئے البدایہ والنہایہ لابن کثیرؒ
لیکن سنداً یہ روایت معضل ہے ،یعنی اسناد سے ایک سے زائد راوی موجود ہی نہیں ،جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ امام مالکؒ اور صحابی کے درمیان کم از کم دو واسطے تو لازمی ہیں ،یعنی ان سے آگے دو راوی مزید ہونے چاہئیں ،جو یہاں مذکور نہیں ،اس لئے یہ اسناد بالکل ضعیف اور ناقابل اعتبار ہے ،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
جزاک اللہ خیرا یا شیخ محترم
 
Top