• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حلالہ قرآن کی نظر میں !

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

حلالہ قرآن کی نظر میں!

اللہ تعالٰی کا فرمانِ عالی شان ہے کہ:-
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا ﴿٣﴾
اور اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں اُن میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ اُن کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو یا اُن عورتوں کو زوجیت میں لاؤ جو تمہارے قبضہ میں آئی ہیں، بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین صواب ہے۔
قرآن ، سورت النساء ، آیت نمبر 03
وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ
اِن کے ماسوا جتنی عورتیں ہیں انہیں اپنے اموال کے ذریعہ سے حاصل کرنا تمہارے لیے حلال کر دیا گیا ہے، بشر طیکہ حصار نکاح میں اُن کو محفوظ کرو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو پھر جو ازدواجی زندگی کا لطف تم ان سے اٹھاؤ اس کے بدلے اُن کے مہر بطور فرض ادا کرو۔
قرآن ، سورت النساء ، آیت نمبر 24
وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ
اور پاک دامن مومن عورتیں اور پاک دامن اہل کتاب عورتیں بھی (حلال ہیں) جب کہ ان کا مہر دیدو اور ان کے عفت قائم رکھنی مقصود ہو کھلی بدکاری کرنی اور نہ چھپی دوستی کرنی۔
قرآن ، سورت المائدہ ، آیت نمبر 05
اوپر ذکر کی گئی آیات سےمندرجہ ذیل نکاح کے مقاصد واضح ہوتےہیں:-
· عورت کے ساتھ انصاف کرنا
· مال خرچ کر نا (مہر ادا کرنا)
· عفت قائم رکھنا
· کھلی بدکاری نہ کرنا
· چھپی دوستی نہ کرنا
یہ صورت تو اس وقت ہو گی جب ایک مرد اور عورت اوپر بیان کردہ مقاصد کو مدِنظر رکھتے ہوئےنکاح کریں۔ حلالہ کی صورت میں چونکہ ان میں سے کسی بھی مقصد کا لحاظ نہیں کیا جاتا لہذا اس سے نہ تو نکاح صحیح ہوسکتا ہے اور نہ ہی عورت پہلے مرد کے لیے حلال ہو سکتی ہے۔ پہلے مرد کے لیے عورت صرف اسی صورت میں حلال ہو سکتی ہے جب دوسرا مرد اوپر بیان کردہ مقاصد کو مدِ نظر رکھ کر نکاح کرے پھر اگر دونوں کے درمیان ناموافقت کی صورتِ حال پیدا ہو جائے اور مرد اپنی بیوی کو اپنی مرضی سے طلاق دینے کا فیصلہ کر لے تو پھرشرعاً کوئی قباحت نہیں۔ چونکہ مرد اور عورت برضا و رغبت ایک دوسرے سے نکاح کرتے ہیں اسی لیے وہ دونوں جدا بھی ناموافقت ہی کی بنا پر ہوتے ہیں اور مرد بھی طلاق ناموافقت ہی کی بنا پر دیتا ہے ۔ لہذا حلالہ سے عورت پہلے مرد کے لیے حلال نہیں ہو سکتی کیونکہ اس میں
مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ کا مقصد موجود نہیں۔

مزید فرمایا :-
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ ۚ
اے ایمان والو! اپنے عہدوں کو پورا کرو۔
قرآن ، سورت المائدہ ، آیت نمبر 01
وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا ﴿٢١﴾
اور وہ تم سے پختہ عہد لے چکی ہیں۔
قرآن ، سورت النساء ، آیت نمبر21
پہلی آیت میں بھی اللہ تعالٰی نے اپنے عہدوں کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے اور منجملہ ان میں ایک عہد نکاح کا بھی ہے جو اسی وقت قائم رہ سکتا ہے جب مرد اور عورت تا حیات قرآن و سنت کی شرائط کے مطابق زندگی گزارنے کا عہد کریں جبکہ حلالہ میں یہ عہد بھی نہیں پایا جاتا بلکہ اس میں کھلی بدکاری اور چھپی دوستی پائی جاتی ہے جیسا کہ اوپر آیات میں بھی اشارہ کیا گیا ہے۔
دوسری آیت میں پختہ عہد سے مراد نکاح ہے کیونکہ وہ حقیقت میں ایک مضبوط پیمان وفا ہے جس کے استحکام پر بھروسہ کر کے ہی ایک عورت اپنے آپ کو ایک مرد کے حوالہ کرتی ہے۔

ایک اور جگہ ارشادِ باری تعالٰی ہے:-
فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَن يَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۗ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴿٢٣٠﴾
پھر اگر شوہر (دو طلاقوں کے بعد تیسری) طلاق عورت کو دے دے تو اس کے بعد جب تک عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے اس (پہلے شوہر) پر حلال نہ ہوگی ہاں اگر دوسرا شوہر بھی طلاق دے دے اور عورت اور پہلا خاوند پھر ایک دوسرے کی طرف رجوع کرلیں تو ان پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ دونوں یقین کریں کہ خدا کی حدوں کو قائم رکھ سکیں گے اور یہ خدا کی حدیں ہیں ان کو وہ ان لوگوں کے لئے بیان فرماتا ہے جو دانش رکھتے ہیں۔
قرآن ، سورت البقرۃ ، آیت نمبر 230
یہی وہ آیت ہے جس سے استدلال کر کے احناف حلالہ کا جواز ثابت کرتے ہیں ہماری نظر میں اگر کوئی طالبِ حق شخص اس آیت پر غور کرے اور ساتھ ساتھ ان آیات کو بھی اپنے ذہن میں رکھے جن میں نکاح کے مقاصدو شرائط بیان کیے گئے ہیں تو اس پر حلالہ کا بطلان خود بخودپوری طرح واضح ہو جائے گا۔
چناچہ اگر بغور دیکھا جائے تو اس آیت میں دو دفعہ
فَإِن طَلَّقَهَا کے الفاظ آئے ہیں جو اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ جس طرح پہلا شوہر ناموافقت کی بنا پر اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہے بالکل اسی طرح دوسرا شوہر بھی اسی عورت کو با قاعدہ نکاح کے بعدناموافقت ہی کی بنا پر طلاق دینے کا پابند ہو گا۔
دوسرا یہ کہ
تَنكِحَ کے لفظ میں بھی وہی مقاصد نگاہ میں رکھنے ہونگےجس کا تذکرہ ہم نے اوپر کیا ہے خصوصاً مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۔ مزید یہ کہ اللہ تعالٰی کی حدیں جس طرح پہلے نکاح میں قائم رکھنا نہایت ضروری ہیں بالکل اسی طرح دوسرے نکاح میں بھی حدوداللہ سے غفلت نہیں برتی جائے گی۔ اوریہ حدیں اسی صورت میں قائم رکھیں جا سکتی ہیں جب مرد اور عورت نکاح کے مقاصد کو احسن طریقے سے ادا کریں۔
ہماری نظر میں احناف کی بنیادی غلطی نکاح کے مقاصدو شرائط کو نگاہ میں نہ رکھنا ہے کیونکہ وہ
فَإِن طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىٰ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۗ کوتو لے لیتے ہیں مگر خصوصاً مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ سے صرفِ نظر کر لیتے ہیں جو کہ شرعی نکاح کی اصل روح ہے۔
ایک اور جگہ فرمایا:-
الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۚ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللَّهُ ۚ
مرد عورتوں پر حاکم ومسلط ہیں اس لیے کہ خدا نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے خدا کی حفاظت میں (مال و آبروکی) خبر داری کرتی ہے ۔
قرآن ، سورت النساء ، آیت نمبر34
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے شوہروں کو قَوَّامُونَ اور عورتوں کوفَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حَافِظَاتٌ کا معزز خطاب دیا ہے۔ چناچہ ان خطابات سے ملقب لوگوں کے لیے حلالہ کا نظریہ پیش کرنا قرآن کو کھیل اور ہنسی بنانا ہےجس کا تصور کوئی ادنٰی ایمان والا بھی نہیں کر سکتا۔
قرآن مجید میں نکاح کے متعلق مندرجہ ذیل الفاظ خاص طور پر قابلِ توجہ ہیں:-
يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ ۖ وہ دونوں حدود الٰہی پر قائم رہیں گے۔
مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ حصار نکاح میں اُن کو محفوظ کرو، نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو۔
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو۔
وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ ۚ اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کریں۔
اب سوچنے کی بات ہے کہ کیا ان میں سے کوئی بھی مقصدنکاحِ حلالہ میں پایا جاتا ہے ؟ یقیناً نہیں،تو پھر نکاح ِ حلالہ کیونکر صحیح ہو سکتا ہے ؟ دراصل یہ نکاح طلاق دینے کی نیت ہی سے کیا جاتا ہے جو کہ بدکاری ہی تصور کی جا سکتی ہے۔
کچھ حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ:-

”البتہ اگر کوئی ایک رات کی ہمبستری کر کے طلاق دے دے تو خاتون زوج اول کے لیے حلال ہو جاتی ہے“
ہماری نظر میں پھر اس کی تین ہی وجوہات ہو سکتی ہیں:-
طلاق دینے والا ذہنی مریض ہو۔
طلاق حلالہ کی نیت سے دی گئی ہو۔
ناموافقت کی بنا پر طلاق ہو۔ (یہ معقول وجہ ہے)
کیونکہ طلاق دینے والا کسی وجہ ہی سے طلاق دیتا ہے ایسے ہی بلاوجہ طلاق نہیں دیتا۔
قرآن ایک مکمل ضابطہء حیات ہے اور اللہ تعالیٰ نے شرعی نکاح کے مقاصد و مسائل کے بارے بڑی تفصیل سے بتایا ہے مگر ہم حیران ہیں کہ وہ لوگ جو حلالہ کو شرعی حکم کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے قرآن میں نکاحِ حلالہ کے مقاصد و مسائل کیوں بیان نہیں ؟
اللہ تعالٰی نے مرد کو طلاق دینے سے پہلے سوچنے کے اچھے خاصے مواقع فراہم کیے ہیں اور مرد یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ تیسری طلاق دینے کے بعد بیوی اس سے جدا ہو جائے گی اگر اسکے باوجود مرد ان موقوں سےکوئی فائدہ نہ اٹھائے اور جھٹ اپنی بیوی کو طلاق دے ڈالے تو اسے یہ بات جان لینی چاہیے کہ اب شریعت میں اس کے لیے اس سازش کی جوحلالہ کے نام سے جانی جاتی ہے کوئی گنجائش نہیں۔
لہذا حقیقت یہی ہے کہ جس آیت کوحلالہ کے جواز میں پیش کیا جاتا ہے وہ حلالہ کے حق میں نہیں بلکہ اس کے خلاف ہے۔اگر پھر بھی کوئی اس آیت سے حلالہ کا جواز ثابت کرنا چاہتا ہے تو ماننا پڑیگا کہ عورت کی حیثیت ایک کھلونے سے زیادہ نہیں ہے جو اپنے پہلے شوہر کے لیے حلال ہونے کی خاطر چند لمحات کے لیےکسی دوسرے شخص کی بانہوں میں جھولنا بھی گوارہ کر سکتی ہے۔ ایسی حرکت کا ارتکاب کسی غیر عفیفہ اور غیر صالحہ عورت کی طرف تو منسوب کیا جاسکتا ہے مگر ایک نیک پارسا عورت سے ایسی قبیح اور نفرت انگیز حرکت کی توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی۔
ان تصریحات کے بعد ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ حلالہ کے بارے میں احناف نے سخت ٹھوکرکھائی ہے وہ اس معاملے میں اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کی بجائے بے جا تاویلات کا سہارا لیتے ہیں جس کی قرآن و سنت میں کوئی گنجائش نہیں مزید یہ کہ مفتیان ِحلالہ کہتے ہیں کہ حلالہ ایک شرعی حکم ہے لیکن حلالہ سنٹرزکا کوئی جوازنہیں ، ہماری سمجھ سے یہ بالاترہے کہ جب احناف کی نظر میں حلالہ جائز ہے تو حلالہ سنٹرز کا قیام کس قیاس کی بناء پرنا جائز ہے ؟ یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ شراب پینا تو جائز ہے مگرمئے خانہ کا کو ئی جواز نہیں، جب شراب کا جوازنکال ہی لیا گیا ہے تو بھلامئے خانے کے قیام میں کیا قباحت ہے ؟
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
حلالہ کی شرعی حیثیت ( اہل تقلید کو تحقیق کی دعوت)
اسلام کے طریقہ طلاق میں مسلم مرد کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ تین طلاقیں تین مرتبہ اس طریقے سے دے کہ حالتِ طہر جس میں اس نے مجامعت نہیں کی، میں ایک طلاق دے اور بیوی کو اسی حالت میں چھوڑ دے اور یہاں تک کہ عدت پوری ہو جائے۔ اگر خاوند دورانِ عدت اسے رکھنا چاہے تو رکھ سکتا ہے لیکن اگر وہ رجوع نہ کرے اور عدت ختم ہو جائے تو پھر وہ نئے نکاح کے ساتھ اس کو واپس لا سکتا ہے اور اگر شوہر ضرورت نہ سمجھے تو عورت کسی اور مرد کے ساتھ نکاح کرنے کی مجاز ہے اور اگر پہلی طلاق کے بعد شوہر نے اسے دوبارہ اپنی زوجیت میں لے لیا اور پھر دونوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے اور صلح صفائی کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی تو وہ بعد عدت کے اندر شوہر کو رجوع کا حق ہے اور عدت گزر جانے کے بعد اگر رکھنا چاہے تو تجدید نکاح ہو گا۔ لیکن اگر تیسری طلاق بھی دے دی تو پھر یہ عورت قطعی طور پر اس خاوند کے لئے حرام ہو جائے گی۔ اب رجوع کا حق ختم ہے۔ عورت عدت گزار کر کسی اور مرد سے نکاح کر سکتی ہے اور یہ نکاح صحیح شرعی طریقے کے مطابق مستقل بسنے کی نیت سے ہو گا نہ کہ شوہر اوّل کے لئے حلال ہونے کی غرض سے۔۔۔اب اگر اس کا یہ خاوند بھی فوت ہو گیا یا اس نے گھریلو ناچاقی کی بنا پر اسے طلاق دے دی تو یہ عورت اگر دوبارہ شوہر اوّل کی طرف لوٹنا چاہے تو عدت کے بعد اس کے ساتھ نکاح کر سکتی ہے اور ایسا واقعہ ہزاروں میں سے شاید کوئی ایک آدھ ہوا ہو۔
اللہ تعالیٰ نے اس طریقہ کا ذکر سورة البقرة میں فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
''طلاق (جس کے بعد خاوند رجوع کر سکتا ہے) دوبار ہے۔ پھر دو طلاقوں کے بعد یا تو دستور کے موافق اپنی بیوی کو رہنے دے یا اچھی طرح سے رخصت کر دے۔''
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھااور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایات کے بموجب ابتداء ہجرت میں جاہلی دستور کے مطابق مرد عورتوں کو کئی کئی بار طلاق دیتے اور عدت کے اندر رجوع کرتے رہتے تھے۔ مقصد بیوی کو تنگ کرنا ہوتا تھااس صورتحال کو روکنے کے لئے یہ آیت نازل ہوئی کہ رجعی طلاق (جس میں رجوع کی گنجائش ہو) زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ ہے۔ اس کے بعد (امساک بمعروف)یعنی یا تو عدت کے اندر رجوع کرنا ہے اور یا (تسریح یا حسان)یعنی حسن سلوک کے ساتھ تیسری طلاق دینا ہے۔ یہ تفسیر مرفوعاً مروی ہے اور ابنِ جریر نے اسی کو ترجیح دی ہے اور بعض نے تو (او تسریح یا حسان)سے مراد لی ہے کہ دو طلاق کے بعد رجوع نہ کرے حتیٰ کہ عدت گزارنے کے بعد وہ عورت کو بخود اس سے الگ ہو جائے۔
(ابنِ جریر ، ابنِ کثیر)
''یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب پہلی طلاق کے بعد تین حیض کی مدت ختم ہو جائے گی تو اب عورت آزاد ہو گی۔ وہ جہاں چاہے نکاح کر سکتی ہے۔ مرد کو رجوع کا حق اب ختم ہو گیا۔ ہاں البتہ دونوں عدت کے ختم ہونے کے بعد نئے سرے سے پھر ملنا چاہیں تو نیانکاح کر کے مل سکتے ہیں لیکن اب دونوں فریقوں کی رضامندی ضروری ہے۔ صرف خاوند کی رضا مندی سے نیا نکاح نہ ہو سکے گا۔''
قرآن مجید میں سورة البقرة کے اندر موجود ہے۔ ملاحظہ کیجئے ارشاد باری تعالیٰ ہے
اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو، پھر ان کی عدت پوری ہو جائے تو ان کو (اگلے) خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے مت روکو۔ اگر دستور کے موافق آپس میں رضا مندی ہو جائے۔(البقرۃ ۲۹۹)
اس آیت کریمہ سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ طلاق رجعی جو دو مرتبہ ہے، اس پیریڈ میں اگر عورت کی عدت مکمل ہو چکی ہو اور وہ مرد و عورت دوبارہ آپس میں رضا مندی کے ساتھ بسنا چاہیں تو انہیں نکاح کرنے سے منع نہیں کرنا چاہیے۔ اب اس آیت کریمہ کا شان نزول بھی ملاحظہ فرما لیں تا کہ آپ کی مزید تشفی ہو جائے
''سیدنا حسن بصری سے مروی ہے کہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے اپنی بہن کا نکاح ایک آدمی کے ساتھ کیا ۔ اس نے اسے ایک طلاق دے دی (عدت گزر گئی) تو معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن اس سے علیحدہ ہو گئی۔ پھر وہ پیغام نکاح لے کر آیا تو معقل نے انکار کیا اور کہا میں نے اپنی معزز بہن کا نکاح تجھے دیا تھا۔ تو نے اسے طلاق دے دی اب تو پھر پیغام نکاح لے کر آ گیا ہے۔ اللہ کی قسم اب میں تجھے نکاح کر کے نہیں دوں گا اور معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن لوٹنا چاہتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی یہ آیت اتار دی: ''جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور وہ اپنی عدت پوری کر لیں تو ان کو اپنے (پہلے ) خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے مت روکو۔'' اس کے بعد معقل رضی اللہ عنہ نے کہا، ہا ں تجھے نکاح کر دیتا ہوں۔''
 

عبدالقیوم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 25، 2013
پیغامات
825
ری ایکشن اسکور
433
پوائنٹ
142
کسی چیز کو شرعا جائز بنا لینا۔ حلال بنا لینا۔ اسلام میں پہلے عرب میں یہ دستور تھا کہ اگر کوئی شخص بیوی کو طلاق دے دیتا اور پھر اس سے شادی کرنا چاہتا تو جب تک وہ کسی دوسرے شخص س عقد کرکے طلاق نہ پاتی ، پہلے شوہر سے نکاح نہیں کر سکتی تھی۔ اسلام نے اس طریقہ کوباقی رکھا تاکہ لوگ آسانی سے بیویوں کو طلاق نہ دے سکیں۔ مگر تین طلاق دینے کی صورت میں ، ایک اور دو طلاق دینے کی صورت میں یہ حکم نہیں ہے۔ جو لوگ اپنی بیویوں کو تین مغلطہ طلاقیں دے دیتے ہیں وہ اگر اس عورت سے پھر نکاح کرنا چاہیں تو پہلے وہ عورت کسی سے نکاح کرے پھر اس سےطلاق لے کر پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔ اور اس کے لیے حلال ہے۔ احادیث میں حلالہ کرنے والوں کی سخت مذمت آئی ہے۔ کہ جو شخص حلالہ کرتا ہے اور جس کے لیے حلالہ کیا جاتا ہے ، ان دونوں پر خدا کی لعنت۔ حضرت عمر ایسے لوگوں کو زانیوں کے برابر سمجھتے تھے۔ کیونکہ ایسے شخص کا مقصد وہ نہیں ہوتا جو شارع نے نکاح سے مراد لیا ہے۔ بعض ائمہ نے اسے حلال قرار دیا ہے اور بعض نے حرام ، مگر جن لوگوں نے اسے حلال قرار دیا ہے وہ بھی اسے اچھا نہیں کہتے ۔
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
میری ”نظر“میں ”طبقہء اہلِ حدیث “کا مسلک ”طلاق“ دینے سےمتعلق ”بہترین“ ہے کوئی ”شک “نہیں کہ اس ”طریقہء طلاق“ میں بہت سی ”حکمتیں و مصالح“مخفی ہیں۔
 
Top