• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

حلال جانور

muslimgul

مبتدی
شمولیت
مارچ 11، 2015
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
5
اسلام علیکم ورحمة الله وبركاته بهائی صاحب حلال جانوروں کا کیا پہچان ہے جو خشکی میں رہنے والے ہیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
حلال جانوروں کا کیا پہچان ہے جو خشکی میں رہنے والے ہیں
سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء میں اصل حلت ہے‘ (یعنی حلال ہیں)
ہاں البتہ وہ حرام ہیں‘ جن کی حرمت دلائل سے ثابت ہو چکی ہو‘ اگر کسی چیز کی حلت و حرمت میں شک ہو تو وہ حلال ہوگی الایہ کہ دلائل سے ثابت ہو جائے کہ وہ حرام ہے ك
کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
هُوَ الَّذى خَلَقَ لَكُم ما فِى الأَر‌ضِ جَميعًا. سورةالبقرة
’’وہی (اللہ) تو ہے جس نے سب چیزیں جو زمین میں ہیں‘ تمہارے لیے پیدا کیں‘‘۔
آیت کریمہ کے یہ الفاظ حیوانات‘ نباتات اور پہننے کی ہر اس چیز کو شامل ہیں جو زمین میں موجود ہو‘
نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَسَخَّرَ‌ لَكُم ما فِى السَّمـٰو‌ٰتِ وَما فِى الأَر‌ضِ جَميعًا مِنهُ (سورة الجا ثيہ )
’’اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب کو اپنے (حکم) سے تمہارے کام میں لگا دیا‘‘۔

اور نبیﷺ نے فرمایا ہے:
وما سكت عنہ فهو عفو ( البيهقي في السنن الكبري)
’’اللہ نے جس چیز سے سکوت فرمایا ہے‘ وہ قابل معافی ہے‘‘۔

نیز فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَرَضَ فَرَائِضَ فَلَا تُضَيِّعُوهَا , وَحَرَّمَ حُرُمَاتٍ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا , وَحَّدَ حُدُودًا فَلَا
تَعْتَدُوهَا , وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ غَيْرِ نِسْيَانٍ فَلَا تَبْحَثُوا عَنْهَا ( سنن الدار قطني)

’’بے شک اللہ تعالیٰ نے کچھ فرائض مقرر فرمائے ہیں‘ انہیں ضائع نہ کرو‘ کچھ حدود کا تعین کیا ہے ان سے تجاوز نہ کروا ور کچھ چیزوں سے روک دیا ہے ان کی (حرمت کی) پامالی نہ کرو اور کچھ چیزوں سے اس نے تم پر رخصت کے پیش نظر نہ کہ بھول جانے کی وجہ سے سکوت فرمایا ہے تو ان کے بارے میں کرید نہ کرو‘‘۔

ان دلائل کی روشنی میں اصول یہ ہے کہ تمام حیوانات حلال ہیں‘ سوائے ان کے جن کی حرمت دلیل سے ثابت ہوگئی ہو‘ مثلاً پالتو گدھے حرام ہیں کیونکہ حضرت انس بن مالکؓ سے مروی حدیث میں ہے:

أَمَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا طَلْحَةَ، فَنَادَى: «إِنَّ اللهَ وَرَسُولَهُ يَنْهَيَانِكُمْ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ، فَإِنَّهَا رِجْس( صحيح مسلم)
’’رسول اللہﷺ نے خیبر کے دن ابو طلحہؓ کو حکم دیا تھا کہ یہ اعلان کر دو‘ بلاشبہ اللہ
تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ تم کو گھریلو گدھوں کے گوشت کے کھانے سے منع فرماتے ہیں کیونکہ یہ ناپاک ہیں‘‘۔

ومن ذلك كل ما له ناب من السباع يفترس به كالذئب والأسد والفيل ونحوه،
اسی طرح ہر وہ درندہ حرام ہے جو کچلی سے شکار کرتا ہو‘ مثلاً بھیڑیا‘ شیر اور ہاتھی وغیرہ
ومن ذلك أيضاً كل ما له مخلب من الطير يصيد به كالعقاب والبازي والصقر والشاهدين والحدأة وما أشبه ذلك.
لأن النبي، - صلى الله عليه وسلم -، نهي عن كل ناب من السباع وكل ذي مخلب من الطير
نیز ہر وہ پرندہ حرام ہے جو اپنے پنجے سے شکار کرتا ہو‘ مثلاً عقاب‘ باز‘ شکرا‘ شاہین اور چیل وغیرہ

ومن ذلك أيضا ما أمر الشرع بقتله أو نهى عن قتله، أما ما أمر الشرع بقتله فلا يؤكل لأن ما أمر الشرع بقتله مؤذ بطبيعته فإذا تغذي به الإنسان فقد يكسب من طبيعة لحمه ما فيه من
الأذى فيكون ميالاً إلى أذية الناس، وأما ما نهى الشارع عن قتله فلأجل احترامه حيث نهى الشارع عن قتله، فمما أمر بقتله الغراب والحدأة وما نهى عن قتله النملة والنحلة والهدهد والصرد ومن ذلك أيضا ما تولد من مأكول وغيره كالبغل لأنه اجتمع فيه مبيح وحاظر فغلب فيه جانب الخطر إذ لا يمكن ترك المحظور هنا إلا بتجنب المأمور فيجب العدول عنه.
ومن ذلك أيضا ما يأكل الجيف كالنسر والرخم وما أشبه ذلك


نیز وہ جانور بھی حرام ہیں جن کے قتل کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے‘ انہیں تو اس لیے نہیں کھایا جاتا کہ وہ طبعی طور پر موذی ہیں لہٰذا ان کے کھانے سے انسانی طبیعت پر بھی ایذا کا پہلو غالب آئے گا اور کھانے والا شخص
انسانوں کو ایذا پہنچانے کے در پے ہوگا۔ اسی طرح جن کے قتل سے شریعت نے منع کیا ہے تو وہ ان کے احترام کی وجہ سے ہے لہٰذا انہیں کھانا بھی جائز نہیں‘ شریعت نے جن جانوروں کے قتل کرنے کا حکم دیا ہے ان میں کوا اور چیل ہے اور جن کے قتل سے منع کیا ہے‘ ان میں چیونٹی‘ شہد کی مکھی‘ ہد ہد اور لٹورا وغیرہ شامل ہیں
نیز وہ جانور جو حرام جانور اور حلال جانور کے ملاپ سے پیدا ہو‘ مثلاً خچر تو اس میں حلت و حرمت کے اگرچہ وہ دونوں پہلو ہوتے ہیں مگر یہاں حرمت کے پہلو کو غلبہ دیا گیا ہے‘
نیز وہ جانور جو مردار خور ہیں‘ ان کو بھی حرام قرار دے دیا گیا ہے مثلاً چیل اور گدھ وغیرہ۔

یہ ہیں وہ سات قسم کے جانور جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے ان میں سے بعض کے بارے میں اگرچہ اہل علم میں اختلاف ہے مگر اختلاف کے وقت اشیاء کو ان کے اصول کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے۔
بحری جانور خواہ وہ چھوٹے ہوں یا بڑے وہ سب کے سب حلال ہیں کیونکہ وہ حسب ذیل ارشاد باری تعالیٰ کے عموم میں داخل ہیں:

أُحِلَّ لَكُم صَيدُ البَحرِ‌ وَطَعامُهُ مَتـٰعًا لَكُم وَلِلسَّيّارَ‌ةِ۔۔ سورة المائدة
’’تمارے لیے دریا کی چیزوں کا شکار اور ان کا کھانا حلال کر دیا گیا ہے (یعنی)
تمہارے اور مسافروں کے فائدے کیلئے‘‘۔

سمندر اور دریا کی جو چیزیں پکڑی جائیں ان کا شکار کرنا اور جو مردہ پائی جائیں ان کا کھانا حلال ہے؟ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ اور دیگر صحابہ کرام سے اس کی تفسیر اسی طرح مروی ہے نیز نبیﷺ نے بھی دریا اور سمندر کے بارے میں یہ فرمایا ہے:

هوا الطهور ماؤه الحل ميتتہ (سنن أبي داؤد)
’’اس کا پانی پاک اور اس کا مردار حلال ہے‘‘۔

اس آیت و حدیث کے عموم کے پیش نظر دریا اور سمندر کی کوئی چیز بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ ہاں البتہ بعض علماء نے مینڈک‘ مگرمچھ اور سانپ کو ضرور مستثنیٰ قرار دیا ہے لیکن راجح بات یہ ہے کہ ہر وہ جانور جو دریا و سمندر (پانی) کے بغیر زندہ نہ رہ
سکتا ہو وہ حلال ہے۔

ما خوذ:فتاویٰ اسلامیہ جلد3صفحہ422
----------------------------------
 
Top