• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خالق کائنات کے وجود کے دلائل

میرب فاطمہ

مشہور رکن
شمولیت
جون 06، 2012
پیغامات
195
ری ایکشن اسکور
218
پوائنٹ
107
الله کا وجود اور ثبوت پر چار چیزیں دلیل اور ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہیں اور ان چار دلیلوں کی روشنی میں ہی دنیا اور بزم کون و مکان کے خالق حقیقی کا ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے
١: انسانی فطرت و وجدان
٢: انسانی عقل
٣: مختلف الہامی شریعتیں
٤ : انسانی حس
انسانی فطرت کے وجود خدا کی دلیل ہونے کا مطلب : ہر مخلوق اپنے خالق پر ایمان لانے کے لیے کسی سابقہ تعلیم و فکر کی محتاج نہیں ہوتی ہے بلکہ فطری و طبعی طور پر اپنے خالق پر ایمان رکھتی ہے . اس فطری جذبے سے صرف وہی انسانی طبیعت انحراف کرتی ہے جس کے دل پر کوئی گہرا غبار آ جائے .
انسانی عقل کا وجود خدا کی دلیل ہونے کی تشریح : مخلوق کوئی بھی ہو پہلی ہو یا آخری مخلوق ہونے کی حیثیت سے اس کے لیے کسی نہ کسی ایسے خالق کا ہونا لازمى اور ضروری ہے جس نے اسے عدم سے وجود بخشا ہو کیونکہ
(١)کوئی بھی شئےخود کو خودبخود ایجاد کر لے یہ ناممکن ہے .
(٢) کوئی شے خودبخود کسی بھی طرح پیدا ہو جائے یہ بھی ناممکن ہے .
کوئی شے خود کو خودبخود پیدا نہیں کر سکتی ہے خود کو اس لیے پیدا نہیں کر سکتی کیونکہ وہ اپنے وجود سے پہلے معدوم اور بے نام و نشان تھی پس وہ خالق کیسے ہو سکتی ہے -
اور کوئی شئے اتفاقاً خود کو پیدا یا ایجاد نہیں کر سکتی کیونکہ ہر" حادثے کے لیے ایک حادث "یعنی حادثے کو وجود میں لانے والا ہونا چاہے اور چونکہ اس کائنات کا اتنا شاندار اور متوازی و مثالی انتظام اور ایک دوسرے سے میل جول اس بات کو ناممکن قرار دیتا ہے کہ اس کائنات کا وجود کسی اتفاقی دھماکے کا تتیجہ ہو اور اس کے بعد کائنات منظم انداز میں چل پڑی ہو.
ایک لمحہ کی خاطر غور کیجیے جس چیز کا وجود ہی اتفاقی ہو اور اصل وجود میں اس کا کوئی نظام موجود نا ہو تو وہ چیز اپنی بقاء و ارتقاء تبدیلی و ثابت قدمی وترقی کے لئے کس طرح اس قدر ترتیب و تنظیم یافتہ ہو سکتی ہے
تو جب یہ ثابت ہو گیا کہ :
١ ) مخلوقات دو عالم نے خود کو خود سے ایجاد وپیدا نہیں کیا
٢ ) نہ ہی یہ مخلوقات کسی اتفاقی دھماکے کے بعد پیدا ہو ئی
تو وہیں خود بخود یہ بھی ثابت ہو گیا کہ .
اس کائنات کا کوئی بنانے والا خالق وجود ہے اور وہ الله رب العلمین ہے
نوٹ :الله نے اس عقلی دلیل کو بطور مثالی انسانوں کو سمجھانے کے لیے قطعی برہان کے طور پر پیش کیا ہے جیسا کے فرمایا :-" ام خلقوا من غیر شئی ام ھم الخالقون ( الطور 35)
ترجمہ :--- کیا وہ بغیر کسی چیز کے پیدا کیے گے یا وہ خود ہی خالق ہیں.
آیت کا مطلب : یعنی وہ لوگ نا تو بغیر خالق کے پیدا ہوئے نا ہی خود کو خود سے پیدا کیا ہے تو ثابت ہو گیا کے ان کا خالق الله ہے

عقلی مثال ..
اگر کوئی شخص آپ کو کسی شاندار محل کے متعلق بتایے جسے چاروں طرف سے باغات نے گھیر رکھا ہو اور اس کے درمیان سے نہریں بہہ رہی ہو اور وہ محل چارپائیوں اور گدوں سے بھرا پڑا ہو اور طرح طرح کی زینت کے سامان سے جگ مگ کر رہا ہو اور کہے کے یہ محل اور جو کچھ اس میں ہے وہ خودبخود بغیر کسی بنانے والے موجد کے بن ہو گیا یا خود کو خود سے پیدا کر لیا تو آپ کا ردعمل اس بات کو سن کر یہی ہو گا کہ آپ فورا اس کا انکار اور کہنے والے کو جھوٹا قرار دیں گے اس کی دماغی حالت کو شک بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس کی بات کو بکواس و مجنوں کی جڑ قرار دیں گے .
تو انصاف کریں کہ کیا یہ وسیع کائنات اپنی زمین و آسمان -افلاک و احوال شاندار سسٹم کے ساتھ خود کو خود سے کس طرح پیدا کر سکتی ہے کیا یہ بات عقل میں آتی ہے اورکیا غور و فکر ساتھ دیتے ہیں ؟
کیا یہ کائنات کسی بھی زاویے سے بغیر کسی بنانے والے کے اتفاقی حادثے کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے .

الله کے وجود کی تیسری دلیل تمام آسمانى شريعتوں كا اس عقيده كو ثابت كرنا :
ساری الہامی کتابیں الله کے وجود کی دلیلیں ہیں اور عدل و انصاف پر مبنی احکامات بتا تے ہیں کہ یہ کسی حکیم ذات کی طرف سے ہے اور جو الہامی کتابوں کے اندر کائنات کے معاملات کے متعلق خبریں دی گئی ہیں یہ دلیلیں ہیں اس بات کی کہ یہ ایک اسے رب کی طرف سے ہے جو ہر اس چیز کو ہو بہو ویسے ہی ایجاد کرنے پر قادر ہے جیسا اس نے اپنی کتاب کے اندر خبر دے رکھی ہے ..
الله کے وجود پر چوتھی دلیل انسانى احساسات وجذبات ہيں :
یہ دو شکل میں موجود ہے .
١) ہم سنتے اور دیکھتے ہیں کہ دعا کرنے والوں کی دعا اور پریشان حال لوگوں کی مرادیں پوری ہو جاتی ہے یہ چیز بتاتی ہے کہ کہی نہ کہی كسى ايسى قادر مطلق ہستی کا وجود ہے جو دعاؤں فریادوں کو سنتی ہے اور اپنے طے شدہ منصوبہ کے مطابق قبول يا رد کرتی ہے اور ہر زمانے میں یہ بات طے شدہ رہی ہے اور آج بھی ٹھیک وہی ماحول ہے کہ :
ہر اس بندے کی دعا قبول ہوتی ہے صدق دل سے الله کی طرف متوجہ ہو اور دعا کی قبولیت کی شرائط پوری کرے .
٢) انبیاء کی وہ نشانیاں جنہیں معجزات سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کا لوگ مشاہدہ کرتے ہیں یا جسے سنتے ہیں . یہ سب الله کے وجود کے مطلق قطعی دلیل کا درجہ رکھتے ہیں جس نے ان رسولوں کو رسول بنا کر بھیجا ہے ..
کیونکہ معجزات ان امور سے ہوتے ہیں جو انسانی قدرت سے باہر ہوتی ہے اور معجزات کا ظہور الله کے حکم سے اپنے رسولوں کی تائید و نصرت کے لیے ہوتا ہے
خلاصہ کلام:- الله کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے انسانی فطرت ، انسانی عقل شرعی کتابیں اورحسی دلیلیں سب کے سب مخلوقات کے لیے موجود ہیں بس شرط ماننے کی ہے ضرورت تکبر و فریب نفس سے بلند ہوکر ایمان لانے کی ہے ۔۔


اللہ تعالی کا وجود اور اس دنیا کے بنانے والے (صانع عالم ) کا ثبوت ان چیزوں میں سے ہے جو ظاہری طور پر بالکل واضح ہیں جنہیں عربی زبان میں "اجلی البدیھیات "کہا جاتا ہے ۔۔ جب کہ تمام موجودات کا سرچشمہ اور تمام مخلوقات کی تخلیق کا منبع خود اس خالق کی ذات ہے تو اس پر بحث و مباحثہ کی نوبت بالکل نہیں آنی چاہئے تھی کیونکہ بقول غالب ۔۔
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے ۔
لیکن کوتاہ نظری اور حد درجہ افسوسناک بات یہ ہے کہ خالق کائنات اللہ تعالى کی اپنی ذات كے متعلق سکون قلب کے لئے كوئى قابل ذكر علم(سورس) نا ہونے کے باوجود علم نا ہونے (عدم علم) سے ناہونے کے علم (علم بالعدم )کا دعوی اور چیلنج کیا جاتا ہے یعنی جس چیز کا ہمیں اپنی محدود عقل سے علم نا ہوسکا وہ موجود ہی نہیں یا اپنا وجود ہی نہیں رکھتی اس کا دعوی کیا جاتا ہے جب کہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس غور و فکر میں خود کو محدود کردیا جاتا یہ کہ کر کہ تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں اتا بس جان گیا کہ تیری پہچان یہی ہے ۔۔

1۔اللہ تعالی کے وجود پر یا اس کائنات کے ایک خالق کے ہونے پردنیا کے انتہائی کمتر لامذہب طبقہ کے سوا تمام ہی دنیا کے اسمانی اور غیر آآسمانی مذاہب کا بالکلیہ اتفاق بذات خود خالق کے وجود کی ہستی پر ایک دلیل قاطع ہے۔۔
2 ۔ دنیا میں جتنے بھی مادہ ہیں مثلا مرغی یا انڈا اس کی مثال لے لیں ایک بحث کی جاسکتی ہے کہ مرغی پہلے آئی یا انڈا انڈے کے لئے مرغی اور مرغی کے لئے انڈا کا تسلیم کرنا ضروری ہوگا اور تقسیم کا انجام اور سوال کا نتیجہ یہاں آکر ختم ہوگا کہ اس انڈے کو یا اس مرغی کو کس نے بنایا جس کے بعد انڈے آئے یا جس کے بعد مرغی آئی ۔۔؟؟؟
کیونکہ دنیا میں فطری اصول عقل سلیم یہی مانتی ہے کہ ہر بنی ہوئی چیز کے لئے ایک بنانے والا ہونا چاہئے۔ گھڑی کے لئے گھڑی ساز کا ہونا اور کتاب کے لئے کتاب ساز کا ہونا اس کی مثالیں ہیں معلوم ہواکہ کسی بھی مادہ کی تخلیق خالق کے وجود کا پتہ دیتی ہے ۔
وفی کل شئی لہ آیۃ تدل علی انہ واحد
3 ۔ جب کچھ نا تھا تو اس نیستی اور کچھ نا ہونے سے کچھ چیزوں کا وجود میں آنا اور ظاہر ہونا اور ایک ہستی بن جانا دیکھ کر بھی عدم سے وجود میں لانے والے ایک خالق کا پتہ دیتا ہے ۔
کسی عرب دیہاتی نے کیا پتہ کی بات کہی تھی ۔
"یا سبحان اللہ ان البعر لیدل علی البعیر وان اثر القدم لتدل علی المسیر فسماء ذات ابراج وارض ذات فجاج وبحار ذات امواج الا یدل علی وجود اللطیف الخبیر >>>
یعنی مینگنی سے اونٹ کا پتہ چلتا ہے اور قدم کے نشان سے پتہ چلتا ہے کہ ابھی اس راہ سے گزرا ہے کوئی کہے دیتی ہے شوخئ نقش پا کی تو کیا یہ برجوں والا اسمان راستوں والی زمین اور موجیں مارتا سمندر اللہ تعالی جیسے باریک بین اور خبردار کے وجود پر دلیل نہیں بن سکتے ۔۔؟؟
جو آللہ کو نہیں مانتے افسوس ان کی پرواز فکر اس بدو کی دماغی حدود سے بھی کم تر ہے ۔
4 ۔ اس دنیا میں طرح طرح کے رنگ دار نباتات و جمادات و چرند پرند ہیں ان سب کا قسم قسم کا ہونا یہ سرنگا رنگ بھری دنیا اور اس کا تنوع اور زندگی کا تضاددر اصل باری تعالی کے وجود پر دلیل ہے اسی طرح مظاہر عالم کی انسان کے ہاتھوں تسخیر اور اس کی محکم تدبیر خالق کے وجود کی دلیل ہے ۔۔
5 ۔اسی طرح موجودات عالم کا نظم و ترتیب کے ساتھ اس طرح سرگرم عمل اور رواں دواں رہنا بھی ہستی خالق کے وجود کی روشن دلیل ہے قران کریم میں اسی کا نقشہ کھینچتے ہوئے غور و فکر و تدبر کو كيا خوب حركت دی گئی ہے
"لا الشمس ینبغی ان تدرک القمر ولا اللیل سابق بالنھار وکل فی فلک یسبحون "
یسین نا تو سورج چاند سے آگے جاسکتا ہے نا ہی رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے ہر ایک اپنے اپنے فلک و مدار میں چل رہے ہیں ۔۔
خالق کائنات کی ہستی کا انکار اس خود ساختہ انسانى وضع كرده فلسفہ كےلئے بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ہمیں دکھائی کیوں نہیں دیتا ۔۔ ؟؟؟ یہ اس لئے کہ دنیا میں بہت ساری چیزیں ایسی ہیں جسے ہم نے دیکھا نہیں لیکن اسے محسوس کرتے ہیں اور اپنی قوت احساس کے بل بوتے پر مانتے ہیں اور یہ قوت احساس (فیلنگ پاور) ہی ہے جس سے انسان مختلف چیزوں کو مختلف حواس سے جانتا ہے اور یہ قوت حواس پانچ طرح کے ہیں ۔۔
1- کسی چیز کو چکھ کر (ذائقہ )
2- کسی چیز کو سن کر (سامعہ)
3- کسی چیز کو دیکھ کر (باصرہ)
4- کسی چیز کو سونگھ کر (شامہ)
5-عقل و دماغ سے جو انسان کی کھوپڑی میں موجود ہے ۔۔
اگر ان پانچوں حواس خمسہ کے ساتھ برعکس معاملہ کیا جائے مثلا کان سے دیکھنے کی بات کی جائے اور ناک سے چکھنے کی تو یہ سراسر بیوقوفی ہوگی آدمی جاہل کہلائے گا ۔ کیونکہ مٹھاس کا اپنا وجود ہے وہ نظر نہیں آتی لیکن ہم اسے ذائقہ سے پتہ کرتے ہیں اور یہ کام ووظیفہ ہماری زبان کا ہے ۔۔ آنکھ کا کام دیکھنا ہے اس سے آپ سونگھنے کام نہیں کرسکتے اسی طرح اندھا آدمی یہ نہیں کہ سکتا کہ دنیا حسین نہیں کیونکہ اس کے پاس آنکھ نہیں اور اس سے وہ دنیا کو نہیں دیکھ سکتا ۔ دراصل انسان کا وجود ہی اسکے رب کو پہچاننے کے لئے بذات خود دلائل کی یونیورسٹی ہے قرآن مجید میں کہا گیا ہے کہ :
"وَفِي الْأَرْضِ آيَاتٌ لِّلْمُوقِنِينَ ( 20 ) وَفِي أَنفُسِكُمْ أَفَلَا تُبْصِرُونَ (21)‘"
یقین کرنے والوں کے لئے زمین میں کئی نشانیاں ہیں خود تمھارے نفسوں میں کئی نشانیاں ہیں کیا تم اپنی نگاہ نہیں دوڑاتے ۔۔؟؟
گالی گلوچ کا اپنا وجود ہے جسے ہم نے دیکھا نہیں لیکن سننے کی قوت سے سمجھ جاتے ہیں کہ گالی کا وجود ہے تو معلوم ہواکہ عقل اور حافظہ اور روح اللہ فرشتہ تقدیر اور کائنات کی گردش وغیرہ ایسے اسرار ہیں جنہیں انسان اپنے دماغ سے نہیں سمجھ سکتا بلکہ اس معاملے میں وہ خالق کائنات کے بھیجے ہوئے پیغامبران و رسولوں کی رہنمائی اور آسمانی بادشاہ کی وحی کا محتاج ہے
اور یہ بھی معلوم ہواکہ جس چیز کو آنکھوں سے نا دیکھا جاسکے اور اوپر بیان کی گئی پانچ محسوس کرنے والی قوتوں سے محسوس ناکیا جاسکے تو ان وجوہات کی بنا پرضروری نہیں کہ ان کا انکار بھی کردیا جائے اس بات کو سبب بنا کر کہ یہ ہماری عقل میں کیوں نہیں آیا ۔۔؟؟؟ اسے میں دیکھ کیوں نا سکا ۔۔؟؟ یا اس کا مجھے یا میرے وجود میں احساس و ادراک کیوں نہیں ہوتا ۔۔؟؟ کیونکہ ہر وہ چیز جو نگاہ و حواس کی گرفت میں نا سما سکے تو اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اس کا وجود بھی نا ہو ۔۔
علم تاریخ کے بانی مبانی علامہ ابن خلدون نے "مقدمہ ابن خلدون" میں ایک بات بڑی پیاری لکهی ہے کہ "امور اخرت ومعاملات حشر ونشر وتقدیرات الھیہ اور کنہئہ نبوت کو میزان عقل میں نہیں تولا جاسکتا کیونکہ یہ عظیم الشان امور ہیں اور میزان عقل اتنی قوی نہیں کہ ان میں یہ سب امور وزن ہوسکیں -"
ایک صاحب علم نے کیا بہترین لکھا ہے کہ " خدا کی ذات (کی معرفت) میں عقل کوئی میزان نہیں ہے کیونکہ جس طرح مادی اشیاء کے وزن کے لئےمیزان و پیمائش کے اندر اختلاف ہوتا ہے اسی طرح خود عقل میں بھی اختلاف و تفاوت ہوتا ہے - سو جس قدر دور اندیش اور دور رس نگاہیں انبیاء و عارفین کی ہوتی ہیں وہ کسی عام و جاہل کی نہیں ہوسکتی ایک منصوبہ بند اور تجربہ کار آدمی کی وسعت عقل اور تخیلات کی اڑان ۔ جتنی بڑی اور دور بین ہوگی اور اس کی علم کی پہنچ جہاں تک ہوگی وہاں ایک دودھ پیتا بچہ یا طفل مکتب کی پرواز کا دائرہ تو قطعا بھی نہیں آسکتا ۔۔
اسی طرح آپ دیکھیں کہ ایک انسان کی زندگی میں اس کی سوچ و فکر میں ہی کتنے اتارو چڑھاؤ اور موڑ آتے ہیں کسی چیز کو وہ ابتدائی عمر میں صحیح سمجھتا ہے اور اس کے اثبات کے لئے لڑتا ہے جوانی میں اسے نظر انداز کرنا شروع کردیتا ہے اور بڑھاپے میں بالکل اس کا انکار ہی کردیتا ہے جب انسان کی عقل کی رفتار ایک جیسی نہیں کہ وہ مسلسل اپنی ہی مفروضات و مسلمات کی نفی و اثبات کی کشمکش میں الجھی ہوئی رہتی ہے تو اسے اللہ کی معرفت کے لئے بطور حجت و رہنما کلید مطلق کس طرح بنادیا جائے ۔۔
معلوم ہواکہ کائنات کے پیدا کرنے والے کو اس کی ذات و صفات و مرضی اور کائنات کے بنانے کا مقصد اور اس کی غرض و غایت انسانی تقدیر کا اختلاف یہ تصادم و کشمکش اور حق و باطل کے معرکے اور موسموں کی امد و رفت اور موت و حیات کا تسلسل اور روح کی آمد و رفت یہ سب چیزیں ایسی ہیں کہ ان کو صحیح طرح سمجھنے کے لئے انسانی محدود عقل کو اس خلاق کائنات مالک ارض و سماوات کے بھیجے ہوئےرسولوں اور پیغمبروں کی لائی ہوئی رہنمائی اور وحی کی سخت ضرورت ہے ۔
امام ابن القیم رحمه الله نے اپنی کتاب" اقسام القران" کے اندر بڑی پیاری عبارت لکھی ہے لکھتے ہیں کہ :
""ان المعاد انما يعلمه عامة الناس بأخبار الانبياء وان كان من الناس من قد يعلمه على انه لا يعلم بالنظر بخلاف العلم بالصانع فان الناس متفقون على انه لا يعلم بالعقل وأن كان ذالك مما نبهت الرسل عليه واما صفاته فقد تعلم بالعقل وقد تعلم بأخبار الانبياء (اقسام القرآن 1/ 3)
کہ آخرت کو لوگ انبیاء کے خبر دینے کے بعد ہی جان پاتے ہیں اور اگرچہ ایسے لوگ پائے جاسکتے ہیں جنھیں اس بات کو علم ہوکہ آخرت کو نظر سے نہیں جانا جاسکتا لیکن کائنات کے بنانے والے کا علم مسئلہ ایسا ہے کہ لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ خالق کائنات کو عقل سے نہیں جانا جاسکتا -اگرچہ یہ ان چیزوں سے ہے جس پر انبیائے کرام نے آگاہی کردی ہے رہی بات خالق کی صفات و خوبیوں کو جاننے کی تو ان صفات وخوبیوں کو کبھی عقل سے بھی جانا جاسکتا ہے اور کبھی انبیاء کے خبر دینے سے جانا جاسکتا ہے ۔
غرض یہ کہ ہر انسان کے اندر ایک چبھن اور ایسی لگن ہے جو اسے اپنے پیداکرنےوالے کی تلاش پر مجبور کرتی رہی ہے اور اسے پانے کے لئے مذاہب میں راستے الگ الگ ضرور ہوئے ہیں لیکن اسکا انکار نہیں کیا جاسکا ۔۔
بقول علامہ الطاف حسين حالى :
مسلم نے حرم میں راگ گایا
تیرا ہندو نے صنم میں جلوہ چاہا تیرا
دہری نے کیا دہر سے تعبیر تجھے
انکار کسی سے بن ناآیا تیرا

اور ماہر طنز ومزاح شاعر اکبر الہ آبادی نے کیا خوب کہا ہے کہ
کانٹا ہے ہر اک دل میں اٹکا تیرا
آویزہ ہے ہر گوش میں لٹکا تیرا
مانا نہیں جس نے تجھ کو جانا ضرور
بھٹکے ہوئے دل میں ہے کھٹکا تیرا

تحریر؛ اے آرسالم فریادی
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 15، 2018
پیغامات
1
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
بہت اچھی تحریر ہے۔ مجھے خالق کے ڈھونڈنے میں مدد کی آپ نے۔ آپ کا مشکور ہوں۔ شکریہ
 
Top