• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خلافت کی بیعت کے احکام

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
خلافت کی بیعت کے احکام:

بیعت کی تعریف:


ابن اثیر فرماتے ہیں: «بیعت باہمی عہد و پیمان سے عبارت ہے۔ گویا کہ بیعت کرنے والوں میں سے ہر ایک دوسرے سے اپنے ہاں موجود ہر چیز کا سودا کرتا ہے اور بطور عوض ہر ایک دوسرے کو خالص اپنا اختیار اور فرمانبرداری سونپ دیتا ہے»،

راغب فرماتے ہیں: «اور اس نے سلطان کی بیعت کی، یعنی جب اس عہد میں اس کی اطاعت میں خود کو کھپا ڈالنے کا حلف شامل ہو گیا ہو۔ اسی غرض سے تو اس نے خود کو بیعت کے لیے پیش کیا۔ اور اسی بنا پر اسے بیعت اور مبایعہ کہا جاتا ہے» [النهاية]،

اور ابن خلدون فرماتے ہیں: «جان لو: بیعت اطاعت پر مشتمل ایک معاہدہ ہے، گویا بیعت کنندہ اپنے امیر کو اپنے اور مسلمانوں کے معاملات کی دیکھ بھال کا اختیار سپرد کر دیتا ہے، بایں طور کہ وہ اپنے امیر سے ان امور سے متعلق کسی بھی چیز میں نہیں الجھے گا» [المقدمہ]

جس طرح رعایا پر پسند اور ناپسند میں، تنگی اور آسانی میں حتی الوسع امیر کی سمع و طاعت بہرصورت واجب ہے، سوائے معصیت والے کام کے۔ اسی طرح امیر پر بھی اس بیعت سے لازم آتا ہے کہ وہ شریعت الہی کے تحت رعیت کی دیکھ بھال کرے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

«اِنَّ اللّـٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ اِلٰٓى اَهْلِهَاۙ وَاِذَا حَكَمْتُـمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ» [سورۃ النساء: 58]،
ترجمہ: بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں (ذمہ داریاں) ان کے اہل افراد کو ادا کرو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔

یہ حکمرانوں اور والیانِ امر کیلیے حکم ہے کہ وہ شریعت کے تقاضوں کے مطابق ولایات اور اموال سے متعلق ذمہ داریاں ان کی اہلیت رکھنے والے افراد کے حوالے کریں، اور یہ کہ وہ رعایا پر عدل کے ساتھ حکومت کریں۔ پھر اس سے اگلی آیت میں رعایا سے خطاب کرتے ہوئے ارشادِ باری تعالی ہے:
«يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَطِيْعُوا اللّـٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِى الْاَمْرِ مِنْكُمْ» [سورۃ النساء: 59]،
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی، اس کے رسول کی اور اپنے والیانِ امر کی اطاعت کرو۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے (السياسة الشرعية في إصلاح الراعي والرعية) کے نام سے ایک رسالہ مرتب کیا ہے، جس میں ان دو آیات کے تشریح کرتے ہوئے امیر اور مامور کے حقوق و فرائض بیان فرمایا ہے۔

خلافت (امامت) سے بیعت کی خاصیات:

1: امت میں امام المسلمین کی بیعت کا انعقاد اہل حل و عقد کرتے ہیں یا گزشتہ خلیفہ آئندہ خلیفہ کو نامزد کرتا ہے، الا یہ کہ کوئی تلوار کے ذریعے امامت کے منصب پر غالب آ جائے۔

2: امامت کی بیعت ہر مسلمان پر واجب ہے کیونکہ نبی ﷺ کی حدیث ہے: «من مات وليس في عنقه بيعة مات ميتة جاهلية» [مسلم] ترجمہ: جو اس حال میں مرا کہ خلیفہ کی بیعت اس کی گردن میں نہ تھی تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔

3: جو امام تلوار کے ذریعے غالب آ جائے اس کی بھی اطاعت واجب ہے۔ امام احمد ابن حنبل فرماتے ہیں: «جو تلوار کے ذریعے غالب آیا اور خلیفہ بن گیا اور امام المسلمین کہلایا جانے لگا تو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے کسی بندے کے لیے بھی حلال نہیں کہ وہ اس حال میں رات گزارے کہ وہ اسے خلیفہ تسلیم نہ کرے چاہے وہ خلیفہ نیک ہو یا فاسق۔ کیونکہ وہ بہر حال امیر المؤمنین ہے» [الأحكام السلطانية، مسند أبو يعلی]

4: امام کی بیعت دائمی ہوتی ہے جب تک اسے موت نہیں آ جاتی، یا دین اور بدن کے نقص میں سے کوئی ایسا سبب لاحق نہیں ہو جاتا کہ جس کی وجہ سے اس کی معزولی واجب ٹھہرے۔ [الأحكام السلطانية، الماوردي]

5: مسلمانوں کے لیے بیک وقت دو اماموں کی امامت درست نہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: «إذا بويع لخليفتين فاقتلوا الآخر منهما» [مسلم]، ترجمہ: جب دو خلفاء کی بیعت کی جائے تو ان میں سے بعد والے کو قتل کر دو۔

عہد شکنی کرنے والے اور بیعت توڑنے والے کا حکم:


عہد شکنی خواہ جیسے بھی ہو، اس متعلق اللہ تعالی کی طرف سے وارد وعید کی وجہ سے یہ کبائر میں سے ایک کبیرہ گناہ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: «وَالَّـذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّـٰهِ مِنْ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّـٰهُ بِهٓ ٖ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِى الْاَرْضِ ۙ اُولٰٓئِكَ لَـهُـمُ اللَّعْنَةُ وَلَـهُـمْ سُوٓءُ الـدَّارِ» [سورۃ الرعد: 25]، ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کا عہد مضبوط کرنے کے بعد توڑتے ہیں اور اس چیز کو توڑتے ہیں جسے اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں، تو انہی کے لیے لعنت ہے اور انہی کے لیے برا گھر ہے۔

اور نبی ﷺ کا فرمان ہے: «أربعٌ من كن فيه كان منافقا، ومن كانت فيه خصلة منهن كانت فيه خصلة من النفاق حتی يدعها: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا خاصم فجر، وإذا عاهد غدر» [متفق عليه]، ترجمہ: جس میں یہ چار خصلتیں ہوں گی وہ تو منافق ہے اور جس میں ان چاروں میں سے ایک خصلت ہو تو اس میں نفاق کی ایک ہی خصلت ہے، یہاں تک کہ وہ اس کو چھوڑ دے، ایک تو یہ کہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے، دوسری یہ کہ جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، تیسری یہ کہ جب جھگڑا کرے تو گالم گلوچ پر آ جائے، چوتھی یہ کہ جب عہد کرے تو عہد شکنی کرے۔

ابن رجب الحنبلی رحمہ الله اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں: مسلمان ہو یا کوئی غیر، معاہدے میں عہد شکنی حرام ہے، اگرچہ معاہد کافر ہی ہو، جہاں تک مسلمانوں کے آپس کے معاہدوں کی بات ہے انہیں پورا کرنا تو اس سے زیادہ اہم ہے اور ان کو توڑنا زیادہ بڑا گناہ ہے۔ اور ان معاہدوں میں سب سے بڑا معاہدہ امام اور اس کے ماتحتوں کے بیچ کا ہے۔ [جامع العلوم والحكم]

جہاں تک امام المسلمین کی بیعت توڑنے کے بارے میں وارد خاص وعیدوں کا تعلق ہے اس میں نبی ﷺ کا ایک فرمان یہ ہے: «من كره من أميره شيئا فليصبر، فإن من خرج من السلطان شبرا مات ميتة جاهلية» [متفق عليه]، ترجمہ: جسے اپنے امیر کا کوئی امر ناپسند ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اس پر صبر کرے، پس جو بالشت بھر بھی سلطان کی اطاعت سے نکلا اور ایسی حالت میں مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔

“جاہلیت کی موت” سے مراد کیا ہے؟ اس بارے میں بعض نے کہا کہ اس سے مراد حالتِ گناہ پر موت ہے اور بعض نے کہا کہ اس سے مراد حالتِ کفر پر موت ہے، یہ اس لیے کہ کیونکہ لفظ جاہلیت ایک جامع لفظ ہے جو متعدد معنوں کا احتمال رکھتا ہے، لہذا بسا اوقات اس سے معصیت مراد ہوسکتی ہے جیسا کہ نبی ﷺ کے اس فرمان میں ہے جو آپ نے ابو ذر رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا: «إنك امرؤ فيك جاهلية»، ترجمہ: تجھ میں اب بھی کچھ جاہلیت باقی ہے۔

اور بسا اوقات اس سے مراد کفر ہوتا ہے جیسا کہ حذیفہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: «إنا كَّناِ في جاهِلَّيٍة وَشر فجاءنا الله بهذا الخير فنحن فيه» [متفق عليه]، ترجمہ: ہم جاہلیت (شرک) اور شر میں گم گشتہ تھے پھر اللہ عزوجل ہم پر اس خیر کو لایا جس میں آج ہم جی رہے ہیں۔

خلیفہ کے خلاف خروج کا حکم:


عادل مسلمان امام کے خلاف خروج بالاتفاق حرام ہے، جس نے خروج کیا اسے پہلے دعوت دی جائے گی، پھر اس سے قتال کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ مسلمان سلطان کی اطاعت کی طرف لوٹ آئے، اور جہاں تک کافر امام کے خلاف خروج کا تعلق ہے تو اس کی طاقت رکھنے والے تمام لوگوں پر اس کے واجب ہونے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔

جہاں تک مسلمان اماموں میں سے فاسق اور ظالم افراد کا تعلق ہے، تو ان کے متعلق سلف میں اختلاف ہے۔ بعض “امر بالمعروف و نھی عن المنکر” والی احادیث کے عموم کی وجہ سے ان کے خلاف خروج کے واجب ہونے کے قائل ہیں۔ اور بعض نے ممانعت والی احادیث جیسے: “من كره من أميره شيئا فليصبر” کی بناء پر اس سے منع کیا ہے۔

بہرحال جمہور اہل سنت والجماعت کے ہاں یہی مؤقف حتمی ٹھہرا کہ ظالم مسلمان اماموں کے خلاف صبر کرنے اور ان کے خلاف خروج نہ کرنے کا ٹھہرا،

چنانچہ أبو جعفر الطحاوی فرماتے ہیں: «ہم اپنے ظالم أئمہ اور والیانِ امر کے خلاف خروج کو جائز نہیں سمجھتے، اگرچہ وہ ظلم کرتے ہوں، نہ ان کے خلاف بدعا کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی اطاعت سے دستبردار ہوتے ہیں، اور اللہ عزوجل کی اطاعت کرتے ہوئے اس امام کی اطاعت کو فریضہ گردانتے ہیں جب تک وہ کسی معصیت کا حکم نہ دے۔ اور ہم اس کے لیے اللہ سے اصلاح اور عافیت کی دعا طلب کرتے ہیں» [العقيدة الطحاوية]

وصل اللهم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم
 
Top